اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام مہدی (ع) کے بارے میں علی (ع) کی چالیس حدیثیں

امام مہدی (ع) کے بارے میں علی (ع) کی چالیس حدیثیں

مقدمہ

* قال رسول اللّه‌ صلى الله علیه و آله: مَنْ حَفِظ مِنْ اُمَّتى اَرْبَعینَ حَدیثا مِمّا یحْتاجُونَ اِلَیهِ مِنْ أَمْرِ دینِهِمْ بَعَثَهُ اللّهُ یوْمَ الْقیامَةِ فَقیها عالِما. (1)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میری امت میں جو بھی چالیس حدیثیں حفظ کرے گا ـ جن کی عوام کو ضرورت ہے ـ خداوند متعال روز قیامت اس کو فقیہ اور دانشور بناکر محشور فرمائے گا.
حفظ حدیث کے بارے میں مختلف احتمالات ہیں (2) ان احتمالات سے قطع نظر علمائے سابقین کے درمیان رائج روش یہ تھی کہ وہ عوام کی ضرورت کے مطابق مختلف دینی موضوعات کے حوالے سے چالیس حدیثوں کی تدوین کرکے دینی تعلیمات اور معارف کے نشر و اشاعت کا اہتمام کیا کرتے تھے.
اسلامی علماء اور دانشور ـ اسلامی ثقافت کی سرحدوں کے محافظین کی حیثیت سے ـ دینی احکام اور تعلیمات کی حفاظت اور تقویت اور ترویج کی غرض سے اس امر کا اہتمام کیا کرتے تھے. البتہ چالیس حدیثیں حفظ کرنے کے بارے میں کثیر روایات کی سفارش اس بات کا محرک تھی کہ اکثر علماء اپنے علمی، ثقافتی، اور فکری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چالیس حدیثوں کے مجموعوں کی تدوین سے بھی غافل نہیں ہوتے تھے. اور اس طرح وہ نہ صرف اسلامی ثقافت کے حوالے سے اپنے فرائض کی انجام دہی سے عہدہ برآ ہوتے تھے بلکہ ان روایات میں ثواب اور اخروی جزا و انعام اور فضیلت کا جو وعدہ دیا گیا ہے اسے بھی حاصل کرنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے.
افسوس کا مقام ہے کہ تعلیم اور تبلیغ کی نئی روشوں کے رائج ہونے کے بعد چالیس حدیثوں کی تدوین کا سلسلہ بھی فراموشی کا شکار ہؤا یا کم از کم اس کی رونق ماند پڑ گئی؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مشینی زندگی کی وجہ سے انسانوں کے پاس وقت کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری موضوعات میں چالیس حدیثوں کے مجموعوں کی تدوین پہلے سے بھی زیادہ مفید اور سودمند ہے.
ہمارا دور غیبت امام (ع) کا دور ہے اور اس دور میں امامت کے مسئلے کی طرف توجہ اور امام زمانہ (ع) سے متعلق تعلیمات سے روشناسی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے. اور دوسری طرف سے اس موضوع کی صحیح شناخت کا راستہ پیغمبر اسلام (ص) اور ائمۂ معصومین (ع) کی احادیث و روایات کی طرف رجوع کا راستہ ہے. چنانچہ ہم نے حضرت امیرالمؤمنین (ع) کے فرامین و ارشادات کا جائزہ لیا اور ان روایات کو اس مجموعے میں ـ جن کا تعلق حضرت صاحب الزمان (ع) کی شخصیت کے مختلف پہلؤوں، آپ کی زندگی کے واقعات و حوادث، آپ کے دوستوں اور اصحاب کی خصوصیات اور آپ کے دوران حکومت سے ہے ـ ترتیب سے اکٹھا کرلیا ہے. اور چالیس حدیثوں کے مجموعے کی صورت میں شائقین کے استفادے کے لئے ان کی خدمت میں پیش کررہے ہیں؛ امید ہے کہ ہماری یہ ناچیز خدمت اپنی حد تک فرہنگ انتظار کی ترویج میں ممد و معاون ہو.


سید صادق سید نژاد
15 شعبان 1421

زمین حجت سے خالی نہیں رہتی

مکتب اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق انسان امام معصوم (ع) کے بغیر نہیں رہتا اور زمین کبھی بھی خدا کی حجت حق سے خالی نہیں رہتی. کیونکہ امام معصوم کے بغیر انسان کے لئے صحیح ہدایت اور کمال میسر نہیں ہوسکتا. علاوہ ازیں نظام کائنات کا وجود اور دوام خداوند متعال کی حجتوں کی برکت سے ہے. اس حقیقت پر رسول اللہ (ص) اور ائمۂ طاہرین (ع) کی روایات میں متعدد بار تصریح و تاکید ہوئی ہے؛ البتہ امام کی موجودگی کی کیفیت حالات پر منحصر ہے؛ کبھی تو حالات کسی حد تک سازگار ہوتے ہیں اور امام معاشرے میں اعلانیہ طور پر حاضر ہوتے ہیں اور لوگ بھی انہیں پہچانتے ہیں اور امام لوگوں کی دسترس میں ہوتے ہیں اور لوگوں کی بیچ رہتے ہیں مگر بعض حالات میں امام (ع) کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے یا ان مصلحتوں کی بنا پر ـ جو صرف خدا کے علم میں ہوتے ہیں ـ مشیت الہی کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوکر رہتے ہیں. اس حوالے سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں. اس موضوع سے بیشتر آگہی کے لئے امام علی (ع) کی دو حدیثیں نقل کی جارہی ہیں:


* عن على علیه السلام قال: اللّهم انه لابدَّ لارضك من حجّة لك على خلقك، یهدیهم الى دینك و یعلّمهم علمك لئلا تبطل حجّتك و لا یضلّ أتباع اولیائك بعد اذ هدیتهم به اما ظاهر لیس بالمطاع او مكتتم مترقّب، ان غاب عن النّاس شخصُهُ فى حال هدایتهم فانّ علمه و آدابه فى قلوب المؤمنین مثبتة، فهم بها عاملون. (3)
امیرالمؤمنین علی (ع) بارگاہ الہی میں دست بدعا ہوکر فرماتے ہیں: بارخدایا! تیری زمین کے لئے ہر وقت ضرورت ہے کہ روئے زمین پر تیرے بندوں کے اوپر تیری حجت ہو جو لوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت و راہنمائی فراہم کردے اور لوگوں کو تیرے علم کی تعلیم دیا کرے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہو اور تیرے اولیاء کے پیروکار ـ تیری طرف سے ہدایت پانے کے بعد ـ گمراہی اور ضلالت سے بچے رہیں. تیری حجت یا تو ظاہر و آشکار ہے جبکہ لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے یا پھر آنکھوں سے اوجھل ہے اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں. گوکہ لوگوں کی ہدایت ہی کی حالت میں اس کا جسم اور ظاہری وجود لوگوں سے اوجھل اور غائب ہے مگر اس کا علم اور اس کے آداب مؤمنین کے قلوب میں برقرار اور استوار ہوتے ہیں اور وہ اس علم اور ان آداب پر عمل پیرا ہوتے ہیں.


* اللّهم بلى لا تخلو الارض من قائم لِلّه بحجّةٍ: امّا ظاهراً مشهوراً و امّا خائفاً مَغموراً لئلا تبطُلَ حجج اللّه و بیناته و كم ذا و أین؟ اولئك واللّهِ الاقلّون عدداً و الاعظمون عنداللّه قدراً یحفظُ اللّه بهم حُججه و بیناته... اولئك خلفاء اللّه فى ارضهِ و الدعاةِ الى دینهِ. (4)
... بارخدایا! بےشک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امام سے خالی نہیں رہتی؛ وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں؛ تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنى دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں. اور یہ کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خدا کی قسم ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک بہت عظیم ہے؛ خدا ان کے ذریعے اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے. وہ روئے زمین پر خدا کے جانشین اور نمائندے ہیں اور لوگوں کو دین اور خدا کے احکام و قوانین کی طرف بلاتے ہیں...

حضرت مہدى علیہ السلام كا نسب

علی (ع) کے کلام میں امام زمانہ (ع) کی تعارف کے سلسلے میں کثیر روایات پائی جاتی ہیں. اور ایک لحاظ سے ان روایات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے. آپ (ع) ایک قسم کی روایات میں امام زمانہ (ع) کو اپنے فرزند کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں؛ دوسری قسم کی روایات میں آپ کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اولاد میں اور تیسری قسم کی روایات میں آپ کو امام حسین (ع) کی اولاد میں شمار کرتے ہیں.


* عن ابى جعفر محمد بن على علیه السلام قال: خطب امیرالمؤمنین على بن ابیطالب علیه السلام بالكوفة بعد منصرفه من النهروان... فحمد اللّه و اثنى علیه و صلىّ على رسول اللّه ‌صلى الله علیه و آله و ذكر ما انعم اللّه على نبیه و علیه ثم قال: ...و مِنْ وُلدى مهدىُّ هذِهِ الاُمّة (5)
امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں: امیرالمؤمنین على بن ابی طالب (علیہما السلام) جنگ نہروان کے بعد کوفہ لوٹے تو آپ نے (ع) نے لوگوں کے لئے خطبہ پڑھا... اس خطبے میں آپ (ع) نے سب سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثناء ادا کی اور رسول اللہ (ص) پر دورد و سلام بھیجا اور ان نعمتوں کو یاد کیا جو خداوند متعال نے رسول اللہ (ص) اور خود آپ (ع) پر عنایت کی تھیں اور پھر فرمایا: ...
«اور میری اولاد میں سے ہیں اس امت کے مہدی».


* عن زرّبن حبیش سمع علیاً [علیه السلام ] یقول: المهدىّ رجلٌ منّا مِنْ وُلد فاطمة. (6)
زرّبن حبیش نے امیر المؤمنین (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: مہدى ہم اہل بیت سے اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اولاد میں سے ہیں.


* ...عن على بن موسى الرضاعلیه السلام عن ابیه... عن ابیه امیرالمؤمنین على بن ابیطالب علیه السلام انه قال: التّاسِعُ مِنْ وُلْدِك یا حُسَینُ هُوَ القائِمُ بالحق... (7)
... حضرت امام رضا(ع) اپنے والد بزرگوار امام موسى بن جعفر (ع) سے اور وہ بھی اپنے والد سے... اور امام سجاد (ع) اپنے والد ماجد حضرت امام حسین (ع) سے اور امام حسین (ع) امیرالمؤمنین على بن ابیطالب‌(علیہما السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے (امام حسین (ع) سے مخاطب ہوکر) فرمایا: میرے فرزند حسین! تمہاری اولاد میں «نواں» قائم بر حقّ (مہدى (ع) ) ہے...


* عن ابن العیاش قال: حدثّنى الشیخ الثقة ابوالحسین بن عبدالصمد بن علىّ... عن نوح بن دراج عن یحیى عن الاعمش ... انهم كانوا عند على‌بن ابیطالب علیه السلام ... و اذا اقبل الحسین علیه السلام یقول: بأبى انت یا ابا ابن خیرة الاماء. فقیل یا امیرالمؤمنین ما بالك؟ تقول ... هذا للحسین علیه السلام ؟ و من ابن خیرة الاماء؟ فقال: ذاك الفقید الطرید الشرید م-ح-م-د بن الحسن‌ بن على‌ بن محمّد بن على‌بن موسى ‌بن جعفربن محمّدبن على ‌بن الحسین هذا و وضع یده على رأس الحسین علیه السلام. (8)
ابن عیاش اپنی کتاب «مقتضب» میں لکھتے ہیں: شیخ ابوالحسین بن عبدالصمد بن على نے نوح بن دراج اور کئی دیگر افراد سے نقل کیا کہ یہ افراد امام امیرالمؤمنین علی (ع) کی خدمت میں شرفیاب تھے کہ امام حسین (ع) وارد ہوئے. حضرت امیر (ع) نے امام حسین (ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارا باپ تم پر فدا ہو اے بہترین کنیزوں(8-1) کے بیٹے کے باپ!
آپ (ع) سے کہا گیا: یا امیرالمؤمنین سبب کیا ہے کہ آپ امام حسین (ع) کے لئے یہ تعبیرات بروئے کار لارہے ہیں؟ بہترین کنیزوں کا بیٹا کون ہے؟
حضرت على (ع) نے جواب میں فرمایا: وہ ایک گمشدہ ہے جو اپنے اقارب اور رشتہ داروں اور اپنے وطن سے دور ہے. اس کا نام «م ـ ح ـ م ـ د» ہے اور حسن بن على بن محمد بن على بن موسى بن جعفر بن محمد بن على بن الحسین کا فرزند ہے؛ اس کے بعد آپ نے اپنا دست مبارک امام حسین (ع) کے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا: حسین یہی ہیں.

مہدى علیہ السلام كا خاندان

امیرالمؤمنین (ع) حضرت مہدى (ع) کے خاندان کا تعارف کراتے ہوئے مختلف تعبیرات سے استفادہ کرتے ہیں اور ہر تعارف حقائق کے کسی ایک پہلو پر دلالت کرتا ہے. یہ تعبیرات جب دیگر ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے منقولہ دیگر تعبیرات و توصیفات کے ساتھ ملادیا جائے تو انسان ان کا مطالعہ کرکے امام مہدی (ع) کی ذات با برکات سے پوری طرح سے واقف ہوسکتا ہے. مثال کے طور پر آپ (ع) ایک مقام پر فرماتے ہیں:مہدی قریش میں سے ہیں.
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:مہدی بنوہاشم میں سے ہیں.
تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:مہدی عترت نبی (ص) لی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے ہیں...
ان میں سے ہر تعبیر امام زمانہ (ع) کی شخصیت کے کسی ایک پہلو پر دلالت کرتی ہے. جبکہ الفاظ اور عبارات کا یہ اختلاف کسی تضاد و تنافی کا باعث نہیں بنتا اور یہ سب تعبیرات ایک ہی نورانی حقیقت کے اوصاف کو روشن کرتی ہیں.


* عن الحسین بن على علیه السلام قال: جاء رجل الى امیرالمؤمنین علیه السلام فقال له: یا امیرالمؤمنین نبئّنا بمهدیكم هذا؟ فقال: اذا درج الدارجون و قلّ المؤمنون و ذهب المجلبون فهناك. فقال: یا امیرالمؤمنین علیك السلام ممّن الرجل؟ فقال علیه السلام: من بنى‌هاشم من ذروة طود العرب... (9)
امام حسین بن على (ع) سے منقول ہے کہ: ایک شخص امیرالمؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ہمیں مہدی آل محمد (ع) کے بارے میں بتائیں. امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: جب جانے والے چلے جائیں اور اہل ایمان کی تعداد کم ہوجائے اور بلوائی اور جنگ پسند عناصر نیست و نابود ہوجائیں ایسے ہی حالات میں وہ ظہور کریں گے.
پوچھنے والے شخص نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! درود و سلام ہو آپ پر! ہمیں یہ بھی بتائیں کہ حضرت مہدى (ع) کس خاندان سے ہیں؟
حضرت امیر (ع) نے فرمایا: وہ بنو ہاشم میں سے ہیں جو عرب كا بہترین خاندان اور شرف و جوانمردی كی چوٹی سمجھا جاتا ہے.


* ...عن ابن زریر الغافقى، سمع علیاًعلیه السلام یقول هو من عترة النبى‌صلى الله علیه و آله (10)
منقول ہے کہ ابن زریر غافقى نے على بن ابیطالب (ع) کو فرماتے ہوئے سنا:‌ مہدى (ع) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عترت میں سے ہیں.


* قال على بن ابى‌طالب علیه السلام: هو فتىً من قریش... (11)
على بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: وہ (حضرت مہدى (ع) ) قبیلہ قریش سے ہیں.
 

حضرت مہدی علیہ السلام كا نام مبارک

امیر المؤمنین (ع) کے کلام میں حضرت امام زمانہ (ع) کا نام مبارک مختلف روشوں سے سامنے آتا ہے:ایک مقام پر آپ (ع) کے نام پر تصریح حرام قرار دی گئی ہے؛دوسرے مقام پر آپ (ع) کا نام اشارتاً لیا گیا ہے اور آخر کارایک مقام پر صراحت کے ساتھ آپ (ع) کا مخصوص نام سامنے لایا گیا ہے.


* ...عن جابر بن یزید الجعفى قال: سمعت ابا جعفرعلیه السلام یقول: سأل عمر امیرالمؤمنین علیه السلام عن المهدىّ فقال: یا ابن ابى طالب اخبرنى عن المهدىّ ما اسمُهُ؟ قال علیه السلام: امّا اسمُهُ فلا، انّ حبیبى و خلیلى عَهِدَ اِلىَّ ان لا اُحدِّث باسمِهِ حتّى یبعثه اللَّه عزّوجلّ و هو ممّا استودع اللَّه عزّوجلّ رسوله فى علمه. (12)
جابربن یزید جعفى کہتے ہیں: میں نے امام محمد باقر (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ایک روز عمر بن خطاب نے امیرالمؤمنین (ع) سے کہا: اے فرزند ابوطالب! مہدی کا نام کیا ہے؟ مجھے ان کا نام بتائیں.
على (ع) نے فرمایا: میں ان کا نام زبان پر نہیں لاتا کیونکہ میرے حبیب و خلیل (حضرت محمد (ص)) نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کے سامنے بیان نہ کروں حتی کہ خداوند متعال انہیں مبعوث فرمائے اور یہ ان امور میں سے ہے جو خداوند عز و جل نے اپنے نبی (ص) کے پاس امانت و ودیعت کے طور پر رکھے ہیں.


* ...عن على بن ابیطالب علیه السلام قال: المهدىُّ مولِدُهُ بالمدینة من اهل بیت النبىُّ اسمُهُ اسم نبىٍّ... (13)
على بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: مہدى (ع) کی ولادت مدینہ میں ہوگی؛ وہ اہل بیت (ع) میں سے ہیں اور وہ ایک نبی کے ہم نام ہیں.امیرالمؤمنین (ع) سے منسوب ایک شعر میں اسی بارے میں فرمایا گیا ہے:
فثم یقوم القائم الحق منكمو بالحق یاتیكم و بالحق ّ یعمل سمىُّ نبى ّ اللّه نفسى فدائه فلا تخذلوه یا بنىّ و عجّلوا (14)
اس كے بعد تم ہی میں سے قائم بالحق قیام کریں گے وہ حق ساتھ لائیں گے اور حق پر عمل پیرا ہونگے میری جان ان پر فدا ہو كہ وہ نبی اللہ (ص) كے ہمنام ہیں اے میرے فرزندو! انہیں بےیار و یاور نہ چھوڑو اور ان كی نصرت كے لئے عجلت سے كام لو


* عن على علیه السلام قال: اسم المهدىُّ محمد (15)
حضرت على (ع) نے فرمایا: حضرت مہدى (ع) کا نام «محمد» ہے.

مہدی علیہ السلام كا چہرہ مبارک

امیرالمؤمنین (ع) کی روایات کے ایک حصے میں حضرت امام مہدی (ع) کی جسمانی خصوصیات اور بدنی امتیازات کی طرف اشارے ہوئے ہیں. ایک روایت میں یہ خصوصیات کلی طور پر بیان ہوئی ہیں. جہاں آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مہدی (ع) خلقت کے لحاظ سے نبی اکرم (ص) سے شباہت رکھتے ہیں مگر دیگر روایات میں امام زمانہ کے چہرے اور اعضاء جسمانی کی خصوصیات بیان کرتے ہیں.حضرت امیر (ع) حضرت مہدی (ع) کی جسمانی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:


* ...فقال علیه السلام: رجلٌ اجلى الجبین، اقنى الأنف، ضخم البطن، اذیل الفخذین، ابلج الثنایا، بفخذه الیمنى شامة. (16)
امام مہدی کی جبین بلند اور درخشان؛ناک نقشے کی تراش خوبصورت؛پیٹ نسبتاً بڑا اور ران چوڑے ہیں؛دانت سفید اور چمکیلے ہیں اوردائیں ران پر ایک نشان ہے.
 

مہدى علیہ السلام کے اوصاف

حضرت امیر (ع) کی بعض روایات میں امام زمانہ (ع) کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات بیان ہوئی ہیں؛ مثال کے طور اس روایت کی طرف توجہ فرمائیں:


* ...ثم رجع الى صفة المهدى علیه السلام فقال: اوسعكم كهفا و اكثركم علما و اوصلكم رحما، اللهم فاجعل بیعته خروجا من الغمّة و اجمع به شمل الامة... (17)
حضرت امیر (ع) نے اپنا ایک خطبہ کو جاری رکھتے ہوئے حضرت مہدی (ع) کے اوصاف پر روشنی ڈالتے ہوئے اور فرماتے ہیں: آپ کا آستانہ ـ بےپناہ لوگوں کو پناہ دینے کے سلسلے میں ـ تم سب کے آستانوں سے وسیع تر ہے؛ آپ کا عمل و دانش تم سب سے زیادہ ہے؛ اور تم سب سے زیادہ صلۂ ارحام کا لحاظ رکھنے والے (اور اقارب کا حق قربت ادا کرنے والے) ہیں؛ پروردگارا! ان کی بیعت کو غم و اندوہ کے پردوں سے نکلنے کا سبب قرار دے اور امت اسلامی کے اختلاف و تفرقے کو آپ کے ہاتھوں یگانگت و یکجہتی میں بدل دے...


* ...عن اصبغ بن نباته قال: سمعت امیرالمؤمنین علیه السلام یقول: صاحب هذا الامر الشریدُ الطریدُ الفرید الوحید. (18)
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: صاحب الامر (مہدى (ع)) وہ ہیں جو دور افتادہ سرزمینوں میں سکونت اختیار کرتے ہیں اور لوگوں سے دوری اختیار کرکے تنہائی میں زندگی بسر کرتے ہیں.

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت

حضرت مہدی (ع) کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک نہایت اہم واقعہ غیبت کا وقوع ہے. یہ واقعہ دو مرحلوں میں رونما ہؤا ہے. غیبت صغرى جو 260 ہجری میں امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کے بعد واقع ہوئی اور 329 ہجری تک جاری رہی.غیبت کبرى، جو 329 ہجری میں غیبت صغری کے خاتمے پر شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے.امیرالمؤمنین (ع) کے ارشادات میں اس موضوع اور دوران غیبت پیش آنے والے واقعات کی طرف بھی اشارے ہوئے ہیں. ایک روایت کے ضمن میں ـ جسے حضرت عبد العظیم حسنى (ع) نے سلسلہ سند کے ساتھ علی بن ابیطالب (ع) سے نقل کیا ہے ـ یوں وارد ہؤا ہے:


* ...عن امیرالمؤمنین علیه السلام قال: للقائم منّا غیبة امدها طویل كانّى بالشیعة یجولون جولان النّعم فى غیبته یطلبون المرعى فلا یجدونه، ألا فمن ثبت منهم على دینه و لم یقْسُ قلْبُهُ لطول امد غیبة امامه فهو معى فى درجتى یوم القیامة. (19)
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: ہمارے قائم کے لئے ایک غیبت ہے جس کی مدت بہت طویل ہوگی. میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے شیعیان اس زمانے میں بِن مالک ریوڑ کی مانند دشت و صحرا میں منتشر ہوکر چراگاہ و مرتع کی تلاش میں ہیں، مگر ان کی یہ تلاش بےسود ہے. [یعنی امام کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں مگر آپ (ع) تک نہیں پہنچ پاتے].
آگاہ رہو! اس دور میں ان (شیعیان) میں سے جو بھی اپنے دین اور عقیدے پر استوار رہے اور اپنے امام کی طویل غیبت کی وجہ سے سنگدلی اور قساوت قلبی کا شکار نہ ہو، وہ روز قیامت میرے پاس اسی مقام پر ہوگا جہاں میں ہونگا.


* ... عن الاصبغ بن نباته عن اميرالمؤمنين عليه السلام انّه ذكر القائم عليه السلام فقال: أما ليغيبَنَّ حتّى يقولَ الجاهلُ: ما للّه في آلِ محمّدٍ حاجةٌ. (20)
اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ ایک دن امیرالمؤمنین (ع) نے حضرت قائم (ع) کو یاد کیا اور فرمایا: آگاہ رہو کہ ان کی غیبت طویل ہوگی یہاں تک کہ [جو لوگ خدا کی مصلحتوں سے] آگہی نہیں رکھتے کہہ دیں گے: خدا کو آل محمد (ص) کی حاجت نہیں ہے اور آل محمد (ص) کے لئے خدا کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے. یعنی یہ کہ نادان لوگ امام کی طویل غیبت کی وجہ سے آپ (ع) کے ظہور سے مأیوس اور ناامید ہوجائیں گے.

امام زمانہ علیہ السلام كی غیبت كا سبب

امام عصر(ع) کی غیبت کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی روایات کے مجموعے میں متعدد حکمتیں اور اسباب بیان ہوئے ہیں. امیرالمؤمنین (ع) کی روایات میں کم از کم تین اسباب بیان ہوئے ہیں؛ یعنى:
اہل ہدایت کا اہل گمراہی و ضلالت سے پہچانا جانا امام کی گردن پر سلاطین اور حکمرانوں کی بیعت کا نہ ہونا لوگوں کی کوتاہیاں، ظلم و ستم اور نا شکری حضرت امیر علیہ السلام کے کلام میں فلسفہ غیبت کے یہ تین اسباب بیان ہوئے ہیں.


* اِنّ القائم منّا اذا قام لم یكن لاحد فى عنقه بیعة فلذلك تخفى ولادته و یغیب شخصه. (21)
بتحقیق ہمارے قائم جب قیام کریں گے کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہوگی؛ اسی وجہ سے ان کی ولادت مخفی ہوگی اور خود بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجائیں گے.


* ...فقال على علیه السلام ...اما واللّه لَأقتلنَّ انا و ابناى هذان و لیبعثنّ اللّه رجلا من ولدى فى آخر الزمان یطالب بدمائنا و لیغیبنّ عنهم تمییزا لاهل الضلالة حتى یقول الجاهل ما للّه فى آل محمد من حاجة. (22)
امیرالمؤمنین (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی موجودگی میں فرمایا: لوگو! آگاہ رہو کہ میں اور میرے یہ دو بیٹے قتل کئے جائیں گے. اور آخر الزمان میں خداوند متعال میری اولاد میں سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا تا کہ ستمگروں سے ہمارے خون کا مطالبہ کریں؛ وہ لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تا کہ گمراہی اور ضلالت میں مبتلا لوگ دوسروں سے پہچانے جائیں [اور ان کی تمیز و تشخیص ممکن ہوجائے] اور یہ غیبت اتنی طویل ہوجائےگی کہ نادان لوگ کہہ دیں گے کہ خداوند متعال کا آل محمد (ص) کے لئے کوئی منصوبہ ہے نہیں ہے.


* ...ان اميرالمؤمنين عليه السلام قال عَلى منبر الكوفة...: واعلموا ان الارض لا تخلو من حجة للّه و لكن اللّه سيعمى خلقه منها بظلمهم و جورهم و اسرافهم على انفسهم. (23)
... مفضل‌بن عمر نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: ایک روز امیرالمؤمنین (ع) نے مسجد کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوکر فرمایا: ... لوگو! جان لو کہ زمین کبھی بھی حجت خدا (امام معصوم) سے خالى نہ رہےگی؛ لیکن خداوند متعال بہت جلد لوگوں کو ظلم و ستم اور اپنے اوپر اسراف کی وجہ سے اپنی حجت کے دیدار سے محروم فرمائے گا. [یعنى لوگ اپنے ہے اعمال کی وجہ سے مستقبل میں امام معصوم (ع) کی ملاقات سے محروم ہوجائیں گے].


انتظار فََرَج كی فضیلت

جیسا کہ پیشتر اشارہ ہؤا، امام زمانہ کی غیبت کے دور میں بہت ہی شدید قسم کی مشکلات اور دشواریاں ظاہر ہونگی اور صورت حال یہ ہوگی کہ بہت سے لوگوں کے عقائد ان مصائب و مسائل کی وجہ سے متزلزل ہوجائیں گے. اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں اس قسم کے خطرات کا سدباب کرنے کے لئے بہت سے تنبیہات دی گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن کو روشن کیا گیا ہے. ان ہی ہدایات و تنبیہات کے دو نمونے حضرت امیر علیہ السلام کے کلام میں وارد ہوئے ہیں:‌


* عن محمد بن مسلم عن ابى عبداللَّه عليه السلام قال: ...قال على عليه السلام: ...انتظروا الفرج و لا تيأسوا من روح اللَّه، فانّ احبَّ الاعمال الى اللَّه عزّوجلّ انتظار الفرج... و المنتظر لأمرنا كالمُتَشَحِّطِ بدمه فى سبيل اللَّه. (24)
محمد بن مسلم امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے اپنے آباء طاہرین سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: [امام زمانہ (ع)] کے فَرَج [و فراخی کے ایام] کا انتظار کرو اور خدا کی عنایات و توجہات سے ناامید مت ہوں. بے شک خداوند متعال کی بارگاہ میں بہترین و برترین عمل [امام زمانہ (ع)] کے فَرَج [و فراخی کے ایام] کا انتظار ہے.
حضرت امیر علیہ السلام نے انتظار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا: جو شخص ہمارے امر [امام زمانہ (ع) کے فَرَج] کا انتظار کرے گا، اس مجاہد کی مانند ہوگا جو راہ حق میں اپنے خون میں رنگا ہؤا ہو [یعنی اس کا اجر شہید کے برابر ہوگا].


* قال زيدبن صوحان العبدى: يا اميرالمؤمنين! أى الاعمال احبّ الى اللّه عزّوجلّ؟ قال عليه السلام: انتظار الفَرَج من اعظم الفَرَج. (25)
زیدبن صوحان عبدى نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! بارگاہ الہی میں سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟
فرمایا: انتظار فََرََج.


آخرالزمان كے لوگوں كا احوال

کہا جاسکتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام میں امام زمانہ سے متعلق معارف و تعلیمات کا سب سے بڑا حصہ آخر الزمان کے حالات اور اس دور میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے مختص ہے. حضرت امیر (ع) اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تدبیریں بھی بیان فرماتے ہیں.
یہ حوادث اور واقعات ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی، تربیتی اور طبیعی مسائل پر مشتمل ہیں؛ چونکہ ان میں سے بہت سے مسائل اور خصوصیات کا ہمارے دور میں ـ کم از کم زندگی کے بعض شعبوں میں ـ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، یہاں ہم ان واقعات و حوادث سے بہتر آگہی حاصل کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر تدبیریں اخذ کرنے کی غرض سے بعض نمونے پیش کرتے ہیں. اس امید کے ساتھ کہ ہماری زیادہ سے زیادہ ہوشیاری و بیداری کا سبب ہوں اور ان امور سے آگہی حاصل کرنے کے بعد ان کے منفی عارضوں سے اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو بچاسکیں.


* یأتى على النّاس زمان لا یقَرَّبُ فیه الّا الماحِلُ و لا یظَرَّفُ فیه الّا الفاجِرُ، وَ لا یضَعَّفُ فیهِ اِلّا الْمُنْصِفُ، یعُدّونَ الصَّدَقَة فیه غُرْما، و صِلةَ الرَّحِمَ مَنّاً، و العبادَةَ اسْتِطالَةً على النّاسِ! فَعِنْدَ ذلِكَ یكونُ السُّلْطانُ بمشوَرَةِ الاِماءِ و امارة الصبیانِ و تدبیر الخِصیان. (26)
لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب چغل خوروں کے سوا کوئی مقرّب نہ ہوگا؛بدکار اور فاجر لوگ ہوشیار اور زیرک سمجھے جائیں گے؛منصف افراد کمزور سمجھے جائیں گے؛خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کو تاوان سمجھا جائے گا؛صلۂ ارحام اور رشتہ داروں اور اقرباء کے ساتھ آنا جانا احسان کے طور پر سرانجام دیا جائے گا؛ اورخدا کی بندگی اور اطاعت کو لوگوں پر فاخر [فخرفروشی] کا وسیلہ قرار دیا جائے گا؛ایسے زمانے میں حکومت عورتوں کے مشورے، بچوں کی امارت اور خواجہ سراؤں کی تدبیر سے ہوگی.


* روى اصبغ بن نباته عن اميرالمؤمنين عليه السلام قال: سمعته يقول: يظهر فى آخرالزمان و اقتراب الساعة و هو شرّ الازمنة نسوة كاشفات عاريات متبرجات، من الدين خارجات، و الى الفتن مائلات، و الى الشهواتِ و اللّذّاتِ مسرعات، للمحرماتِ مستحِلّات، و فى جهنم خالدات. (27)
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: آخر الزمان میں ـ جو کہ بدترین زمانہ ہے ـ جب قیامت قریب ہوجائے گی؛ ایسی عورتیں ظاہر ہونگی جو
بے پردہ ہیں؛ان کی زینتیں آشکار اور ہویدا ہیں؛وہ عام لوگوں کی نظروں کے سامنے چلتی پھرتی ہیں؛وہ دین سے خارج ہوجاتی ہیں (اور احکام دین کی پابندی نہیں کرتیں)؛فتنہ‌انگیز امور میں داخل ہوتی ہیں؛شہوتوں اور لذت‌جوئیوں کی طرف مائل ہوتی ہیں؛خدا کے حرام کو حلال سمجھتی ہیں؛ایسی عورتیں جہنم میں باقی رہیں گی.


* و فقهاؤهم يفتون بما يشتهونَ، و قُضاتُهُم يقولونَ مالا يعْلمونَ و اكثُرهمْ بالزورِ يشهدونَ! من كان عنده دراهم كان موقّراً مرفُوعاً و من يعلمون انه مقلّ فهو عندهُم موضُوع (28)
آخرالزمان کے فقہاء اپنی دلی خواہشات کے مطابق فتوے دیں گے؛ان کے قاضی ایسی چیزوں پر فیصلے سنائیں گے جنہیں وہ جانتے تک نہیں؛ان کی اکثریت جھوٹی شہادتیں دیتے ہیں؛ان کے نزدیک دولتمند و صاحب مال افراد عزیز و محترم ہوتے ہیں جبکہ غریب اور بے مال و منال لوگ ان کے نزدیک حقیر اور خوار ہوتے ہیں.


* عن النزال بن سبرة قال خطبنا علىّ‌بن ابيطالب عليه السلام فحمد اللّه و اثنى عليه، ثم قال: سلونى ايها الناس قبل ان تفقدونى ثلاثاً فقام اليه صعصعة بن صوحان، فقال: يا اميرالمؤمنين! متى يخرج الدجّال؟...فقال عليه السلام احفظ! فان علامة ذلك اذا امات الناس الصلاة، واضاعوا الامانة و استحلّوا الكذب، و اكلوا الربا، و اخذوا الرّشا، و شيدوا البنيان و باعوا الدين بالدنيا و استعملوا السفهاء و شاوروا النساء، و قطعوا الارحام، و اتّبعوا الاهواء و استخفّوا بالدماء و كان الحلم ضعفاً، و الظلم فخراً... (29)
نزال‌بن سمرہ کہتے ہیں: على‌بن ابیطالب (ع) نے ہمارے لئے خطبہ پڑھا اور خدا کی حمد و ثناء ادا کی اور تین مرتبہ فرمایا: مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں؛ چنانچہ صعصعہ بن صوحان اٹھے اور عرض کیا:
یا امیرالمؤمنین! دجال کس زمانے میں خروج کرے گا؟
حضرت امیر (ع) نے فرمایا: یاد رکھو جو کچھ میں کہتا ہوں! دجال اس وقت اٹھے گا جب لوگ نماز ترک کردیں گے؛امانت کو ضائع کردیں گے؛دروغ گوئی کو مباح سمجھیں گے؛رباخواری (اور سودخوری) کریں گے؛رشوت لیں گے؛عمارتوں کو مضبوط بنائیں گے؛دین کو دنیا کے عوض بیچ ڈالیں گے؛سفیہوں اور بے وقوفوں کو کام پر مأمور کریں گے؛عورتوں کے ساتھ مشورے کریں گے؛صلۂ ارحام کو منقطع کردیں گے،ہوا و ہوس کی پیروی کریں گے؛ایک دوسرے کے خون کو ناچیز سمجھیں گے؛حلم اور بردباری کو کمزوری اور ضعف کی علامت سمجھیں گے اورظلم و ستم کو اپنے لئے اعزاز و افتخار تصور کریں گے...


* عن على عليه السلام قال: يأتى على الناسِ زمان همّتُهم بطونهم، و شرفُهُم متاعهم و قبلتهم نساؤهم و دينهم دراهمهم و دنانيرهم، اولئك شرار الخلق، لا خلاق لهم عنداللّه. (30)
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر وہ زمانہ آئے گا جب ان کی ہمت ان کے پیٹ سے تجاوز نہیں کرےگی؛ان کا شرف و اعتبار ان کے اموال اور ساز و سامان پر منحصر ہوگا.ان کا قبلہ ان کی عورتیں اور ان کا دین ان کے درہم و دینار ہونگے؛وہ بدترین لوگ ہیں جن کے لئے خدا کی بارگاہ میں کوئی حصہ اور کوئی بہرہ نہیں ہے.


* عن علي عليه السلام قال: يأتى على الناس زمان لا يُتَّبع فيه العالم و لا يستحيى فيه من الحليم و لا يوقّر فيه الكبير و لا يرحَمُ فيه الصغير يقتل بعضهم بعضاً... (31)
على بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جبلوگ عالم کی پیروی نہیں کریں گے؛صابر و حلیم انسانوں سے حیا نہیں کریں گے [وہ لوگوں کی بدکاریوں کے سامنے جتنا بھی صبر و حلم اپنائے وہ پھر بھی اس سے حیاء نہیں کرتے اور اس کے سامنے بدکاریان جاری رکھتے ہیں]اس زمانے میں بڑوں کی تکریم نہیں ہوتی اوربچوں پر رحم نہیں کیا جاتا؛بعض لوگ بعض دوسروں کا خون بہاتے ہیں اورانہیں [بلاوجہ] قتل کرتے ہیں.


* عن عاصم بن ضمرة عن على عليه السلام انه قال: لتملانّ الارض ظلما و جوراً حتى لا يقُولَ اَحَد اللّه الاّ مستخفياً، ثم ياتى اللّه بقومٍ صالحين يملَؤُونها قِسطاً و عدلاً كما مُلِئَتْ ظلماً و جوراً. (32)
عاصم بن ضمرہ حضرت على (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا: [ آخر الزمان] میں
زمین ظلم و ستم سے بھرجائے گی،کوئی بھی خدا کا نام زبان پر نہیں لائے گا ـ مگر خفیہ طور پر ـاس دور کے بعد ہی خداوند متعال صالح اور نیکوکار لوگ لائے گا جو زمین کو قسط و عدل سے بھر دیں گے جیسے کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی.


* ان بين يدى القائم عليه السلام سنين خدّاعة يكَذَّبُ فيها الصادق و يصدّق فيها الكاذِبُ و يقَرّبُ فيها الماحِلُ و ينطق فيها الرُّويبْضَةُ قلت و ما الرُّويبْضَةُ و ما الماحِلُ؟ قال: او ما تقرؤون القرآن قوله و هو شديدُ المِحال قال: يريدُ المكر، فقلتُ و ما الماحِلُ؟ قال: يريد المكّارَ. (33)
حضرت على (ع) فرماتے ہیں: قیام قائم علی السلام سے قبل مکر و دغابازی کے سال درپیش ہیں. ان سالوں کے دوران سچے لوگ جھوٹے سمجھے جائیں گے اور ان کے عوض جھوٹے لوگ سچے سمجھے جائیں گے؛"ماحل" مقرب ہوجائے گا اور "رویبضہ" بولنے میں دوسروں پر سبقت لے گا.راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین "رویبضہ" اور "ماحل" کون ہیں؟
حضرت امیر (ع) نے فرمایا: کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا جہاں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: ... «و هو شدید المحال» (33-1) اور فرمایا: ماحل وہ شخص ہے جو مکر و حیلہ گری کرتا ہے اور زیادہ مکر کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.
ایک نکتہ: اس روایت میں رویبضہ کی وضاحت نہیں ہوئی ہے مگر ایک دوسرے مقام پر کسی مناسبت سے رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:
رویبضة : الرجلُ التّافِهُ ینطقُ فى امر العامّةِ (33-2)
رویبضہ وہ پست و حقیر اور بے شخصیت آدمی ہے جو پستی اور نااہلی اور سفلگی کے باوجود لوگوں کے امور میں مداخلت کرتا ہے اور لوگوں کی جگہ اظہار خیال کرتا ہے.

ظہور مہدى‌ علیہ السلام كي نشانيان

روایات میں نہ صرف امام زمانہ کی ظہور کے لئے وقت کا تعین نہیں ہؤا ہے بلکہ وقت کے تعین سے روکا بھی گیا ہے؛ تاہم ظہور کے لئے علائم اور نشانیوں کا بیان موجود ہے. اور لوگ ان علامتوں اور نشانیوں کی روشنی میں قرب ظہور کی تشخیص کرسکتے ہیں. یہ نشانیان کئی قسموں میں تقسیم کی جاتی ہیں:


* حتمی اور
* غیر حتمی
سال ظہور کی نشانیان اورظہور سے دور کے برسوں کی نشانیان
معاشرتی نشانیان
اخلاقی نشانیان
طبیعی نشانیان؛ وغیرذالک
[البتہ یہ تمام نشانیان حتمی اور غیر حتمی نشانیوں کے زمرے میں آتی ہیں]ان علامتوں اور نشانیوں کے سلسلے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام میں صرف دو نمونوں پر اکتفا کیا جاتا ہے:


* ...عن ابى رومان، عن على عليه السلام قال: اِذا نادى منادٍ من السماء، ان الحقّ فى آل محمّدٍ فعند ذلك يظهر المهدىُّ على أَفواهِ النّاس، و يشربون ذكره فلا يكون لهم ذكرٌ غيرُهُ. (34)
ابو رومان روایت کرتے ہیں کہ حضرت على بن ابیطالب (ع) نے فرمایا: جب منادی آسمان سے ندا دے گا کہ "بتحقیق حق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ہے" ان ایام میں حضرت مہدی علی السلام کا نام لوگوں کا ورد زبان ہوجائےگا؛پوری دنیا ان کے نام مبارک سے مالامال ہوجائےگیاور صورت حال یہ ہوگی کہ ذکر مہدی (ع) کے سوا کوئی ذکر نہ ہوگا.


* عن الصادق عليه السلام عن آبائه‌عليهم السّلام ان علياعليه السلام قال: اذا وَقَعَت النارُ فى حجازكم و جرى الماء فى نجفكم فَتَوَقَّعوا ظُهورَ قائِمكُمْ.(( اثباة الهداة، ج 3ص )) .578
امام صادق علیہ السلام اپنے آباء طاہرین کے توسط سے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:جب آگ سرزمین حجاز میں شعلہ ور ہوگی اورنجف میں سیلاب آئے گاحضرت قائم (ع) کے ظہور کے منتظر رہو.

اصحاب مہدى علیہ السلام

امام زمانہ (ع) کے اصحاب کے اوصاف، ان کی تعداد، ان کے شہروں، امام (ع) کے ساتھ ان کے ربط و تعلق اور آپ (ع) کی بیعت و اتباع کی کیفیت کے بارے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں. اس سلسلے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:


* عن حكيم بن سعد عن اميرالمؤمنين عليه السلام قال: اصحاب المهدىّ شبابٌ لاكهول فيهم الّا مثل كحل العين و الملح فى الزاد و اقل الزاد الملح. (35)
حکیم بن سعد امیرالمؤمنین (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:مہدى (ع) کے اصحاب سب نوجوان ہیں؛ان کے درمیان بوڑھا شخص نہیں پایا جاتا ـ مگر آنکھ میں سرمے یا طعام میں نمک کی مقدار کے برابر ـجبکہ طعام میں سب سب کم مقدار نمک کی ہوتی ہے.


* قال اميرالمؤمنين عليه السلام: ...ثم اذا قام تجتمع اليه اصحابه على عدّة اهل بدر و اصحاب طالوت و هم ثلثمأة و ثلاثة عشر رجلا، كلّهم ليوث قد خرجوا من غاباتهم مثل زبر الحديد لو انّهم همّوا بازالة الجبال الرّواسى لازالوها عن مواضعها فهم الذين وحّدوا اللّه به حق توحيده، لهم بالليل اصوات كاصوات الثواكل خوفا من خشية اللّه تعالى، قوّام الليل، صوّام النهار، و كانّما ربّاهم أبٌ واحدةٌ قلوبهم مجتمعة بالمحبة و النصيحة... (36)
امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں: ... پھر جب وہ قیام کریں تو ان کے اصحاب ان کے گرد جمع ہونگے اوران کی تعداد اصحاب بدر اور اصحاب طالوت جتنی اور 313 ہوگی.وہ سب اپنی کمینگاہوں سے نکلے ہوئے شیروں کی مانند ہیں؛لوہے کے ٹکڑوں کی مانند،اگر وہ سخت اور مضبوط پہاڑوں کو کو اکھاڑنے کا ارادہ کریں تو یقیناً انہیں اکھاڑ دیں گے.پس یہی وہ لوگ ہیں جو مہدی (ع) کے ذریعے خدا کی یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں اوریکتا پرستی کا حق ادا کرتے ہیں؛راتوں کو ان کی صدائیں ان عورتوں کی مانند ہیں جن کا جوان فرزند مرگیا ہو اور خدا کے خوف سے رات کو حالت نماز میں رہتے ہیں اوردنوں کو روزہ رکھتے ہیں؛گویا ایک باپ اور ایک مان نے ان کی پرورش کی ہے؛محبت اور نصیحت و خیرخواہی کے سلسلے میں ان کے دل ایک اور متحد ہیں.

مہدی علیہ السلام كی حکومت

شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے عقیدے کے مطابق، امام زمانہ (ع) اسلام کی تعلیمات عالیہ کے مطابق ایک عالمی حکومت کی تشکیل کے ذریعے، پوری دنیا میں موجود کمیوں اور خامیوں کو دور اور عدل و انصاف کو دنیا میں مستقر کردیں گے.
نبی اکرم (ص) اور تمام ائمہ (ع) کے کلام میں حضرت مہدی (ع) کی حکومت کی خصوصیات اور آپ (ع) کے دور حکومت میں انجام پانے والے امور کے بارے میں کثرت کے ساتھ مطالب ملتے ہیں جن کے مجموعے کا مطالعہ کرکے ایک اسلامی حکومت کا مکمل اور نہایت روشن و شفاف خاکہ نظروں کے سامنے آتا ہے. یہاں اسی حوالے سے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے منقولہ روایات کے بعض نمونے پیش خدمت ہیں:


* حدثنا عبداللّه بن مروان، ...عن علىٍ عليه السلام قال: يلى المهدىُّ امرَ النّاسِ ثلاثين سنة او اربعين سنة... (37)
عبداللّہ بن مروان نے روایت کی ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مہدی علیہ السلام 30 یا 40 برسوں تک لوگوں پر حکمرانی کریں گے.


* يعطف الهوى على الهدى اذا عطفوا الهُدى على الهوى و يعْطِفُ الرأىَ على القرآنِ اذا عطفوا القرآنَ على الرّأىِ ... فَيريكُمْ كيف عدلُ السيرةِ، و يحيىِ مَيتَ الكتابِ و السّنةِ... (38)
[امام زمانہ (ع) جب ظہور کریں گے]نفسانی خواہشات کو ہدایت اور رستگاری کی طرف لوٹائیں گے ـ جب لوگ ہدایت الہی اور تقوی و پارسائی کو نفسانی خواہشات کی پیروی میں تبدیل کرچکے ہونگے ـ؛
لوگوں کے آراء و افکار کو قرآن کے تابع کردیں گے ـ جبکہ لوگ قرآن کو اپنے آراء و افکار کا تابع بنا چکے ہونگے ـ‌ ...
وہ تمہیں دکھا دیں گے کہ مملکت داری اور حکمرانی میں عدل کس طرح لاگو ہوتا ہے؟ اسی طرح
قرآن و سنت کے فراموش ہونے والی تعلیمات کو زندہ کریں گے....


* قال اميرالمؤمنين عليه السلام: ...فلا يترك عبداً مسلما الّا اشتراه واعتقه، و لا غارماً الّا قضى دينه، ولا مظلمةً لِاَحَدٍ من النّاس الّا ردّها، و لا يقْتَلُ منهم عبدٌ الّا ادّى ثمنه... و لايقتَلُ قتيلٌ الا قضى عنه دينهُ، و اَلْحَقَ عيالَهُ فى العطاء حتى يملأ الارض قسطا و عدلاً كما مُلِئَتْ ظلماً و جوراً و عدواناً... (39)
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: ...حضرت مہدى (ع) كسی مسلم غلام كو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور مسلم غلاموں كو خرید كر آزاد كریں گے؛روئے زمین پر كوئی بهی مقروض نہ رہے گا اور مقروضین كے قرض ادا كردیں گے؛جس كسی كا مظلمہ اور حق جس كسی كے ذمے بهی ہوگا آپ (ع) اسے صاحب حق كے پاس لوٹا دیں گے؛
مارے جانے والوں كی دیّت ادا كریں گے؛جو شخص بهی مارا جائے گا آپ (ع) اس كے قرض ادا فرمائیں گے اور پسماندہ خاندانوں كے امور كا انتظام عام خاندانوں كی مانند چلائیں گے؛حتی كہ زمین كو قسط و عدل سے بهردیں جیسے كہ یہ ظلم و تجاوز سے بهری ہوئی ہوگی...


* قال على علیه السلام: ...لو قد قام قائمنا لَذَهبَتِ الشحناء من قلوب العباد و اصطلحتْ السباع و البهائم حتى تمشى المرأة بین العراق الى الشام... على رأسها زینتها لا یهیجُها سبعٌ و لا تخافه... (40)
امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں: ... جب ہمارے قائم قیام کریں گے،بغض و کینہ بندگان خدا کے قلوب سے چلتا بنے گا، حتی وحشی حیوانات اور درندے بھی ایک دوسری کے ساتھ سازگار ہوں گے؛
امن و امان کا حال یہ ہوگا کہ ایک اکیلی عورت عراق سے شام کا سفر اختیار کرسکے گی؛ جس کے سر پر اس کا زیورات اور اسباب زینت ہونگے مگر وہ کسی قسم کے خوف و ہراس کا سامنا نہیں کرے گی.


حضرت مہدى‌ علیہ السلام در قرآن

قرآنی آیات میں امام زمانہ علیہ السلام کا نام گرامی صراحت کے ساتھ حاضر نہیں ہؤا ہے مگر چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام قرآن کے حقیقی مفسرین ہیں ان ذوات مقدسہ نے بہت سے آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے انہیں مہدویت اور امام زمانہ کے معارف پر تطبیق و تفسیر فرمایا ہے. جن آیات کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے امام زمانہ سے متعلق قرار دیا ہے وہ یہ دو آیتیں ہیں:


* عن اميرالمؤمنين عليه السلام قال: النُورُ القرآن، و النور اسمٌ من اسماء اللّه تعالى... قال اللّه تعالى فى سورة النور: اللّه نور السماواتِ و الارضِ مَثَلُ نورهِ كمشكاةٍ فيها مصباح المصباح فى زجاجة الزجاجة كانها كوكب درّىٌ... (41)
فالمشكاةُ رسول اللّه ‌صلى الله عليه و آله و المصباحُ الوصىُّ، و الاوصياءُ عليهمُ السلامُ و الزجاجةُ فاطمةُ، و الشجرة المباركة رسول اللّه‌صلى الله عليه و آله و الكوكب الدُّرى القائم المنتظر الذى يملأ الارضَ عدلاً. (42)
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: نور قرآن ہی ہے اور نور خدا کے اسماء میں سے ایک اسم ہے؛ ... خداوند عزّوجلّ سورہ نور میں فرماتے ہیں: خداوند متعال آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس چراغدان کی ہے جس میں چراغ ہو اور وہ چراغ ایک شیشے کے حباب کے درمیان ہو جو ستارے کی مانند چمکتا ہؤا اور زیتون کے مبارک درخت [کے تیل] سے روشن ہے...
اس كے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا:مشكاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں اورمصباح وصی [یعنی تمام اوصیاء] ہیں اورحباب یا شیشہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوركوكب دری یا روشن اور چمكتا ستارہ حضرت قائم منتظر علیہ السلام ہیں جو زمین كو عدل سے بهر دیں گے.


* [قال] امیرالمؤمنین على‌بن ابیطالب علیه السلام: المستضعفون فی الارض، المذكورون فى الكتاب (43) الذین یجعلهم اللّه ائمّة، نحن اهل البیت؛ یبعث اللّه مهدیهم فیعزّهم و یذلّ عدوّهم. (44)
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: روئے زمین پر مستضعفین ـ جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے اور اللہ انہیں ائمہ قرار دیتا ہے ـ ہم ہیں اور خداوند متعال ہمارے مہدی کو آخر الزمان میں مبعوث فرمائے گا پس وہ انہیں [مستضعفین کو] عزت و تکریم سے نوازیں گے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کردیں گے.
 

مآخذ و منابع:

1. خصال ج 2ص 541ح .15 .
2. حفظ حدیث کے بارے میں مختلف آراء ہیں جیسے:
- ذہن نشین کرنا.
- ذہن نشین کرنے یا لکھنے اور دوسروں کے لئے نقل کرنے اور ہر ممکن ذریعے سے احادیث کی محافظت اور نگہبانى، تا کہ وہ نابود نہ ہوں؛ علماء نے حفظ حدیث کے لئے چھ روشوں کا ذکر کیا ہے: 1. استاد سے سننا 2. استاد کو سنانا 3. استاد کو سنانے والے سے سننا 4. استاد کی اجازت سے نقل کرنا و... (اربعین شیخ بہائى، ص 65و 66)
3. کمال‌الدین، ج 1ص 302ح .11
4. نهج‌البلاغه فیض الاسلام، حکمت 139ص .1158
5. معانى‌الاخبار، ج 1ص 138باب 28ح 9ط دار الکتب الاسلامیه؛ بحارالانوار، ج 35ص .45
6. ملاحم ابن طاووس، ص 175ح 203 کنزالعمال، ج 14ص 591ح .39675
7.کمال الدین، ج 1ص 304 اثباةآلهداة، ج 6ص 395
8. بحارالانوار، ج 51ص 110و 111
8-1۔ کنیز سے مراد خدا کی کنیز ہے جیسا که عبد الله سے مراد بنده خدا ہے اسی طرح اَمَةُ الله سے مراد الله کی کنیز ہے. قرآن میں مردوں کے لئے عبد اور عورتوں کے لئے امه کا لفظ استعمال ہؤا ہے. سوره نور آیت 32 میں ارشاد ربانی ملاحظہ ہو: «... وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکمْ وَإِمَائِکمْ ...»
9.بحارالانوار، ج 51ص 115
10.فتن ابن حماد، 264ح 1043ط دار الکتب العلمیة،؛ ملاحم ابن طاووس، ص 320ح 459ط مؤسسه صاحب الامر(ع) .
11. ملاحم ابن طاووس، ص 155ح 193
12. کمال الدین، ج 2باب 56ص 648
13. عقدالدرر، ص 64 عرف السیوطى، الحاوى، ج 2ص 73
14. بحارالانوار، ج 51ص 132
15. برهان المتقى، ص 101ح .8
16.منتخب الاثر، ص 151ح 30
17. غیبة نعمانى، ص 212 – 214، بحار الانوار، ج 51ص 115
18. کمال الدین، ج 1ص 303 اثباة آلهداة، ج 3ص 571
19. کمال الدین، ج 1ص 303ح 14
20. کمال الدین، ج 1ص 302ح )) .9
21. بحار الانوار، ج 51ص 109و 110ح 1
22. غیبت نعمانى، ص 140و 141
23. بحار الانوار، ج 51ص 112و 113ح 8
24. الخصال، ج 2ص 740حدیث اربعمأة، ط انتشارات علمیه اسلامیه.
25. بحار الانوار، ج 52ص 122
26.نهج‌البلاغه فیض الاسلام، حکمت 98ص 1132
27. منتخب‌الاثر، ص 426ح 4ط مکتبة الصدر.
28. بشارةالاسلام، ص 80ط دار الکتب الاسلامى؛ الزام الناصب، ص 185ط مؤسسہ مطبوعاتی حق بین، مختصر اختلاف کی ساتہ بحوالہ "روزگار رہایی".
29. بحارالانوار، ج 52ص 192و 193
30. کنزالعمال، ج 11ص 192ح 31186
31. کنزالعمال، ج 11ص 192 ح 31187
32. بحارالانوار، ج 51ص 117 منتخب الاثر، ص 484
33. غیبت نعمانى، ص 278
33-1. سوره رعد آیه 13.
33-2. کنزالعمال ج14 صص 216 و 217. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بين يدي الساعة سنين خوادع يخون فيها الامين ، ويؤتمن فيها الخائن ، وتنطق الرويبضة في أمر العامة ، قال: قيل: وما الرويبضة يا رسول الله ! قال: سفلة الناس (المصنف صنعاني ج 11 ص 382).
34. منتخب الاثر، ص 163و 443 ملاحم ابن طاؤس، ص 129ح .136
35. بحارالانوار، ج 52ص 333ح 63
36. نوائب الدّهور فى علائم الظهور، ج 2ص 114ط کتابخانه صدوق.
37. کنزالعمال، ج 14ص 591ح 39646 منتخب الاثر، ص 487.
38. نهج‌البلاغه فیض الاسلام، خ 138ص 424و 425
39. بحارالانوار، ج 52ص 224و 225
40. بشارة الاسلام ص 236
41. سوره نور، آیه 35
42. معجم احادیث المهدى (ع) ، ج 5ص 274ح 1699
43. اس آیت کی طرف اشارہ ہی جہان ارشاد ہوتا ہی: «وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ»؛ اور ہم نے ارادہ کیا کہ روئے زمین پر محروم کئے جانے والوں پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کے امام قرار دیں اور انہیں زمین کے وارث قرار دیں. (سوره قصص، آیت 5)
44. منتخب الانوار المضیئة، سید بهاء الدین على النیلى النجفى، ص

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری

 
user comment