نیمۂ شعبان کا دن امیدوں کا دن ہے، یہ امید شیعیان آل محمد (ص) سے مخصوص نہیں ہے حتٰی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے، عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا" وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ دین اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتٰی ہندوستان کے ادیان میں، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے، یہ سب کچھ دراصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے پرامید رہنے کے لئے بیان ہوا ہے۔ تمام ادیان الہی میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ کلی طور پر بیان کیا گيا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، جبکہ اسلامی مکاتب فکر میں شیعہ مکتب فکر ایسا ہے جو مہدویت کے موضوع کو واضح مصداق اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مکمل شخصی اور خاندانی خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے، جو معتبر شیعہ و غیر شیعہ روایات سے ماخوذ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت "مہدی موعود " کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے، ان کے دردوں کو، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے۔ انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کے طور پر ان کی زیارت کرتے ہیں، وہ موجود ہے، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے، جس کے ماں باپ معلوم ہیں، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ لوگ بھی، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو، بہت سی روشن و واضح، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادی کتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ اسلامی آثار میں شیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے انتظار کو "انتظار فرج" سے تعبیر کیا گيا ہے، اس فرج کا کیا مطلب ہے؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو، کہیں کوئی گرہ پڑ گئی ہو، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے، کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا، حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑ جانے کا نہیں ہے، امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں جو کچھ آج ہو رہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے، انسانی (ہاتھوں اور ذہن کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں، بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں، اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے، جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کر دینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کر دی گئی ہے، انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے۔
رھبرانقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں، وہی چیز جو حضرت ولی عصر (ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں، آج دنیا پر حکمراں ہیں، دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھر گئی ہے، ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے متعلق روایتوں، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا" " ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو گی، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہو گا، اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کر دے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا۔ وہ وقت یہی ہے، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے، آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے (اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے، آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب، انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے۔ آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں، حتٰی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم، جس نے ایک محدود ماحول میں، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں۔ آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑ دے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کر دے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کر دے، تاکہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو، یہ ایک آگاہ و باخبر زندہ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے، ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی، انتظار کا یہی مطلب ہے۔ انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا، چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی۔ لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے۔ انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے، کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے، صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں۔ یہ تو انتظار نہ ہوا۔ انتظار کس کا ہے۔؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کر دے، حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کر دے، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنا دے، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے، عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے، انتظار کا مطلب یہ ہے۔ انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے، انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں، اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے، یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے، انتظار فرج کا یہی مطلب ہے، انتظار فرج یعنی کمر کس لینا، تیار ہو جانا، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہو گا وہ عدل و انصاف قائم کرنے، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اور خدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھ لوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور روحانی طور پر اس کے لئے آمادہ ہونا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کو چاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل و انصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہو گا، بنابریں انتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہ حالت پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہ رہیں۔ رھبر انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کر کے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبق کرنے کی کوششیں کی گئي ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیں کیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئے صحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے۔ بنابریں عامیانہ قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ مہدویت کے عقیدے کے سلسلے میں ایک ضروری کام ماہرین اور اہل علم کے ذریعے دقیق عالمانہ تحقیق و مطالعے میں سرعت لانا اور عامیانہ، جاہلانہ، غیر معتبر اور حقائق سے عاری تخیلات پر مبنی باتوں سے گریز کرنا ہے۔