وہ اہم ترین موقف ہے جو کہ اکثر صحابہ نے سقیفہ میں اس لئے اختیار کیا تھا تاکہ خلافت علی(ع) کے سلسلہ میں نبی(ص) کی اس صریح نص کی مخالفت کریں۔ جس کے ذریعہ آپ نے حجۃ الوداع کے بعد روزِ غدیر علی(ع) کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور یہ تمام صحابہ اس روزموجود تھے۔
باوجود یکہ خلافت کے سلسلہ میں انصار و مہاجرین میں اختلاف تھا لیکن آخر میں سنتِ نبی(ص) کو چھوڑ دینے اور ابوبکر کو خلافت کے لئے پیش کر دینے پر سب متفق ہوگئے تھے۔ اور یہ طے کر لیا تھا کہ خلیفہ ابوبکر ہی رہیں گے ۔ اگر چہ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور ابوبکر کی خلافت سے اختلاف کرے اسے قتل کردیا جائے خواہ وہ نبی(ص) کا قریب ترین ہی کیوں نہ ہو۔ ( اس کی دلیل فاطمہ زہرا(س) کے گھر کو جلادینے کی دھمکی ہے)۔
اس حادثہ میں بھی صحابہ کی اکثریت نے سنتِ نبی(ص) سے انکار کرنے اور اسے اپنے اجتہاد سے بدلنے میں ابوبکر و عمر کی مدد کی۔ ظاہر ہے یہ سب اجتہاد کے حامی تھے۔
اسی طرح مسلمانوں کی اس اقلیت نے ایک شکل اختیار کی جو کہ سنتِ نبی(ص) سے متمسک تھی اور ابوبکر کی بیعت سے انکار کرچکی تھی۔ یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ۔
جی ہاں مذکورہ تین حوادث کے بعد اسلامی معاشرہ میں دو فریق یا دو مخصوص پارٹیاں وجود میں آگئیں، ایک ان میں سے سنتِ نبی(ص) کا سالک اور اس کے نفاذ کا قائل تھا۔ دوسرا سنتِ نبی(ص) کو اپنے اجتہاد سے بدل دیتا تھا ۔ یہ اکثریت والے اس گروہ کا کام تھا جو حکومت تک رسائی چاہتا تھا یا اس میں شرکت کے خواہاں تھے۔ اب ایک پارٹی یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ سنی قرار پائے ۔ اور دوسری پارٹی یعنی ابوبکر و عمر اور دوسرے صحابہ اجتہادی قرار پائے۔
دوسری پارٹی نے ابوبکر کی قیادت میں پہلی پارٹی کی عظمت و شوکت ختم کرنے میں مہم شروع کی اور اپنے مخالف کو زیر کرنے لے لئے متعدد تدبیریں سوچیں۔
اقتصادی حملہ
برسر اقتدار پارٹی اپنے مخالف گروہ کے رزق و اموال پر حملہ آور ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوبکر نے جنابِ فاطمہ زہرا(س) سے فدک چھین لیا۔ ( کتب تواریخ میں فدک کا قصہ اور جناب فاطمہ (س) کا ابوبکر سے ناراض ہونا اور اسی حالت میں دارِ فانی سے کوچ کرنا مشہور ہے۔) اور اسے تمام مسلمانوں کی ملکیت قرار دے دیا۔ اور کہا یہ فدک ٖصرف فاطمہ(س) سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ ان کے والد نے فرمایا ہے۔ ابوبکر نے فاطمہ(س) کو ان والد کی میراث سے محروم کردیا اور کہا ، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا خمس بھی بند کردیا جبکہ رسول(ص) نے خمس اپنے اور اپنے اہل بیت(ع) سے مخصوص کیا تھا کیوں کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔
اس طرح علی(ع) کو اقتصادی لحاظ سے کمزور بنادیا وہ فدک غصب کرلیا کہ جس سے خاصا نفع ہوتا تھا۔ ان کے ابن عم کی میراث سے محروم کردیا۔ خمس بھی بند کردیا۔ چنانچہ علی(ع) ان کی بیوی اور بچے پیٹ بھرنے کو محتاج ہوگئے اور یہ ٹھیک وہی بات ہے جو ابوبکر نے جناب زہرا(س) سے کہی تھی: ہاں خمس میں آپ کا حق ہے لیکن میں اس سلسلہ میں وہی عمل کروںگا، جو رسول(ص) کیا کرتے تھے۔ ہاں آپ(ع) کے روٹی کپڑے کا انظام کیا جائے گا۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ حضرت علی(ع) کا اتباع کرنے والے اور ان کے پیروکار وں میں اکثر غلام تھے جن کے پاس دولت وثروت نام کے کوئی چیز نہ تھی اور حکمران پارٹی کو بھی ان سے خوف نہیں تھا۔ اور لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ مالدار کی طرف جھکتے ہیں فقیر کو حقیر شمار کرتے ہیں۔
معاشرہ کی نظر وں میں گرانا
حکمران پارٹی نے اپنے حریف علی ابن ابی طالب (ع) کی پارٹی کو کمزور بنانے کے لئے معاشرہ میں ان کی عظمت کو مخدوش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
ابوبکر و عمر نے پہلا اقدام یہ کیا کہ لوگوں کو رسول (ص) کے قرابت داروں کے احترام و تعظیم سے منع کردیا۔
چنانچہ عترت طاہرہ کے سردار و رئیس نبی(ص) کے ابنِ عم علی(ع) کو جو فضیلت خدا نے عطا کی تھی صحابہ بھی اس سے حسد کرتے تھے۔ چہ جائیکہ منافقین ! وہ تو موقع کی تلاش میں تھے ہی۔
نبی(ص) کی امت میں تنہا فاطمہ(س) آپ(ص) کی یادگار تھیں جن کو خود نبی (ص) نے ام ابیہا اور عالمین کی عورتوں کی سردار کہا تھا۔ لہذا سارے مسلمان فاطمہ(س) کا احترام کرتے تھے اس لحاظ سےبھی مسلمان انھیں معزز سمجھتے تھے کہ رسول(ص) ان کی تعظیم کرتے تھے اور ان احادیث کے لحاظ سے بھی جو رسول(ص) نے فاطمہ(س) کی فضیلت و شرافت اور طہارت کے بارے میں فرمائی تھیں۔
لیکن ابوبکر و عمر نے لوگوں کے دلوں سے یہ احترام نکال کر پھینک دیا۔ اب عمر ابن خطاب بے دھڑک خانہ فاطمہ(س) پر آگ اور لکڑیاں لے کر پہونچ گئے اور قسم کھا کر کہا اگر ابوبکر کی بیعت نہیں کروگے تومیں گھر کو رہنے والوں سمیت پھونک دوں گا۔ علی(ع) و عباس اور زبیر جنابِ فاطمہ(س) کے گھر میں تھے کہ ابوبکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا کہ ان کو فاطمہ(س) کے گھر سے نکال لاؤ، اگر وہ آنے سے انکار کریں توان سے جھنگ کرو، عمر حکم سنتے ہی آگ لے کر پہونچ گئے، تاکہ گھر کو اس کے رہنے والوں سمیت جلادیں، فاطمہ زہرا(س) پسِ در آئیں اور کہا خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ لگانے آئے ہو؟
عمر نے جواب دیا۔ ہاں یا تم بھی وہی کرو جو امت نے کیا ہے (یعنی ابوبکر کی بیعت کرو)(العقد الفرید، ابن المبدربہ ، ج۴)
جب فاطمہ زہرا (س) عالمین کی عورتوں کی سردار، جیسا کہ صحاح اہل سنت میں منقول ہے اور ان کی فرزند حسن(ع) و حسین(ع) سید ا شباب اہلِ الجنۃ، ریحانہ نبی(ص) کو بھی وہ حقیر و پست تصور کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے لوگوں کے سامنے قسم کھا کر کہا اگر یہ لوگ ابوبکر کی بیعت سے انکار کردیں گے تو میں گھر کے ساتھ ان کو بھی پھونک دوںگا۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے قلوب میں ان معزز افراد( فاطمہ، حسن، حسین ) کے احترام کا باقی رہنا یا حضرت علی(ع) کی عظمت کا سمجھنا مشکل تھا۔ پھر یہ کہ لوگ علی(ع) سے پہلے ہی سے بغض رکھتے تھے۔ مزید برآں وہ حزبِ مخالف کے رئیس بھی تھے اور پھر آپ کے پاس مالِ دنیا میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے لوگ آپ کی طرف مائل ہوتے۔
بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نقل کی ہے کہ:
فاطمہ (س) نے ابوبکر سے اپنے والد رسول اللہ (ص) کی اس میراث کا مطالبہ کیا جو خدا نے رسول(ص) کو مدینہ ، فدک اور خیبر کے خمس کی فئ عطا کی تھی، ابوبکر نے میراث دینے سے منع کردیا ، تو فاطمہ(س) ابوبکر سے نارض ہوگئیں اور ان (ابوبکر) سے قطع تعلقی کر لی اور مرتے دم تک کلام نہ کیا، نبی(ص) کے بعد فقط چھ ماہ زندہ رہیں، جب انتقال فرمایا تو آپ(ع) کے شوہر علی(ع) نے رات کی تاریکی میں غٖسل دیا، کفن پہنایا اور دفن کردیا اور ابوبکر کو اس کی اطلاع نہ دی۔
حیاتِ فاطمہ(س) میں تو علی (ع) کی عزت و عظمت تھی۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد لوگوں کے رخ بدل گئے تو علی (ع) نے ابوبکر سے مصالحت کر لی۔ ہاں حیاتِ فاطمہ (س) میں مصالحت نہ کی تھی۔(صحیح بخاری، جلد۵، ص84، باب غزوہ خیبر صحیح مسلم، کتاب الجہاد)حزبِ مخالف علی (ع) کی اقتصادی ناکہ بندی اور مالی حالت بگاڑ کر اور سوشل بائیکاٹ کر کے کامیاب ہوگیا۔ علی (ع) کی حیثیت لوگوں کی نظروں سے ختم ہوگئی۔ اب کوئی قدر ومنزلت نہ تھی۔ خصوصا جنابِ زہرا (س) کی وفات کے بعد تو لوگوں کے رخ بدل گئے تھے۔ چنانچہ آپ (ع) ابوبکر سے مصالحت کرنے پر مجبور ہوگئے جیسا کہ بخاری و مسلم دونوں نے روایت کی ہے۔
بخاری کی عبارت " کہ لوگوں کے رخ بدل گئے تھے" سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول(ص) اور فاطمہ (س) کی وفات کے لوگوں کو علی (ع) سے کتنی دشمنی ہوگئی تھی اور آپ (ع) کتنے سخت ترین حالات سے دوچار تھے۔ شاید بعض صحابہ تو آپ پر سب و شتم بھی کرتے تھے اور مضحکہ اڑاتے تھے۔ کیوں کہ چہرہ پر نفرت کے آثار اسی شخص کو دیکھنے سے نمودار ہوتے ہیں۔ جس سے انسان خوش نہیں ہوتا۔
اس فصل میں ہم بالترتیب علی(ع) کی تاریخ اور مظلومیت کو جیسا پاہتے تھے بیان نہیں کرسکتے ۔ اگر چہ وہ تلخ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس علی (ع) کو لوگوں نے نظر انداز کردیا جو سنّتِ نبی(ص) کا علم بردار اور باب علم رسول اللّہ(ص) تھے اور ان کے مدِ مقابل اجتہادی گروہ کو جو کہ سنت نبی(ص) کا انکار کرتا تھا حکومت مل گئ اور اکثر صحابہ نے اسکی تائید کردی۔
سیاسی میدان سے علیحیدگی
ہم بیان کرچکے ہیں کہ بائیکاٹ اور اقتصاد کو توڑ دینے اور غصب کرلینے کے بعد علی (ع) کو اسلامی معاشرہ سے بھی علیحیدہ کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے علی(ع) سے منہ پھیر لیا تھا۔لیکن برسرِ اقتدار پارٹی نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ انھیں سیاسی میدان سے بھی الگ کردیا اور انھیں حکومت کے کسی بھی امر سے دور رکھا حکومت کو کوئی منصب و ذمّہ داری اس کے سپرد نہ کی اگر چہ انھوں نے بنی امیہ کے ان طلقا و فساق میں حکومت کے منصب تقسیم کردیتے تھے جو کہ رسول (ص) کی حیات میں اسلام سے برسرپیکار تھے۔چنانچہ علی(ع) پچیس سال ابوبکر ، عمر، عثمان کے زمانہ خلافت تک سیاسی میدان اور حکومت کے منصب و امور سے علیحدہ رکھے گئے۔ جب کہ اسی زمانہ میں بعض صحابہ نے اموال جمع کر کے دریچے بھر لئے تھے اور چاندی ، سونے کا ذخیرہ کرلیا تھا۔اور علی(ع) یہودیوں کے باغوں کی سینچائی کرتے اور محنت شاقہ سے اپنا پسینہ بہا کر روزی کماتے تھے۔باب العلم ، حبرالامامت اور علم بردار سنتِ نبی(ص) ایسے ہی اپنے گھر بیٹھے رہے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ہاں انگشت شمار وہ صحابہ ضرور قدر کرتے تھے جو کہ آپ کے شیعہ تھے لیکن نادار تھے۔ اور جب حضرت علی(ع) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف پلٹانا چاہا تو عمر ابن خطاب کے اجتہاد کے حامی چیخ پڑے ۔ ہائے سنتِ عمر!
ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سنتِ نبی(ص) سے صرف علی(ع) اور شیعہ ہی متمسک تھے اور وہی اس پر عمل پیرا تھے۔ وہ کبھی سنت سے دستبردار نہیں ہوئے جبکہ باقی لوگوں سے ابوبکر،عمر، عثمان اور عائشہ کو اختیار کرلیا تھا اور ان کی بدعت کو بدعت حسنہ کا نام دیتے تھے۔(صحیح بخاری، جلد۲، ص254، باب صلواۃ التراویح القباج، ص98)
یہ صرف دعوا نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے۔ اور ہر ایک محقق اس سے واقف ہے۔
علی(ع) قرآن کی حفاظت کرتے تھے اور اس کے کل احکام کو جانتے تھے اور سب سے پہلے آپ (ع) ہی نے قرآن ایک جگہ جمع کیا تھا جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے ۔ جبکہ ابوبکر، عمر اور عثمان کو قرآن سے کوئی سروکار نہیں تھا اور نہ ہی اس کے احکام سے واقف تھے۔(احادیث کی کتابوں میں مشہور ہے کہ عمر کلالہ کے احکام نہیں جانتے تھے اسی طرح تیمم کے احکام سے بھی ناواقف تھے۔ جنھیں سب جانتے ہیں ملاحظہ فرمائیے بخاری ج۱،ص90) مورخین لکھتےہیں کہ عمر نے ستر (70) مرتبہ " لولا علی لھلک عمر" کہا ہے ابوبکر اور ابوبکر نے کہا کرتے تھے اے ابوالحسن (ع) میں زمانہ میں زندہ نہ رہوں جس میں آپ نہ ہوں۔ لیکن عثمان کے بارے میں جو کچھ کہے حرج نہیں ہے۔