انبیاء (علیھم السلام) کے خصوصیات
پیغمبر کی شخصیت میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ھیں۔ ھم ان میں سے دو کے ذکر پر اکتفا کرتے ھیں:
۱۔عصمت:
عصمتِ انبیاء علیھم السلام کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے دلائل موجود ھیں۔ ھم ان میں سے دو کے ذکر پر اکتفاء کرتے ھیں:
۱۔ھر موجود کو جس کمال اور مرتبے تک پھنچنے کے لئے خلق کیا گیا ھے، اس کے لئے ایک قانون و طریقہ مقرر ھے اور سابقہ مباحث سے یہ بات واضح هو چکی ھے کہ انسان کے اپنے مقصد تخلیق کے کمال کو پانے کے لئے جن قوانین و طور طریقوں کو مقرر کیا گیا ھے وہ ھدایتِ الٰھی اور دینِ حق ھے۔
اور اس کمال کا حصول انھی طور طریقوں پر مشتمل دین کی تبلیغ اور اسے عملی جامہ پھنانے سے وابستہ ھے، جب کہ پیغمبر، انھی طور طریقوںکے مطابق انسانی تعلیم و تربیت کا عھدیدار ھے۔ ان طور طریقوں کی تبلیغ و اجراء میں نقص واقع هونے کا لازمہ، نقضِ غرض ھے۔ نیز وہ امر جو مبلغ و حی اور تربیت الٰھی کے مربی کے انحراف کا باعث هو سکتا ھے وہ خطا یا هوا و هوس ھے۔ اور ان میں سے جو چیز بھی انحراف کا باعث هو، مقصدِ تخلیق حاصل نہ هوگا۔
ھدایت الٰھی کے کمال کو پانے کے لئے با کمال ھادی کی ضرورت اور سنت و دین الٰھی کی عصمت، کہ <لاَیَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لاَ مِنْ خَلْفِہ>[12] کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ دین وسنت الٰھی کا معلم و اجراء کنندہ معصوم هو۔
۲۔عقلی و نقلی نقطہٴ نظر سے دین، انسان کو پاک و پاکیزہ زندگی عطا کرنے کے لئے آیا ھے<مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثیٰ وَ هو مُوْٴمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیَاةً طَیِّبَةً وَّ لَنَجْزِیَنَّہُمْ اٴَجْرَہُمْ بِاٴَحْسَنِ مَاکَانُوا یَعْمَلُوْنَ>[13]
پاک و پاکیزہ زندگی کے لئے ایمان و عمل صالح کو آب حیات قرار دیا گیا ھے، کہ جن سے مجموعہٴ دین تشکیل پاتا ھے اور اس آب حیات کا راستہ پیغمبر کا وجود اطھر ھے۔ اگر راستہ آلودہ هو تو آبِ حیات بھی آلودہ هوجائے گا اور آلودہ پانی کے ذریعے پاک و پاکیزہ زندگی ثمر بار نھیں هوسکتی۔
۳۔چونکہ بعثت کی غرض پیغمبرکے امر و نھی کی اطاعت ھی سے حاصل هو سکتی ھے، جب کہ خطا کار و گنھگار کی اطاعت جائز نھیں ھے، لہٰذا پیغمبر کا خطا و گناہ سے محفوظ نہ هونا نقض غرض اور نتیجہٴ بعثت کے بطلان کا سبب ھے۔
۴۔اگر پیغمبر خطا و لغزش سے محفوظ و معصوم نہ هو توامت کو، تبلیغ ِوحی میں اس کی سچائی و صحت گفتار کایقین حاصل نھیں هوسکتا اور اگر گناہ سے محفوظ و معصوم نہ هوا تو گناہ کی آلودگی کے باعث لوگوں کی نظروں سے گر جائے گا اور جس طرح عالمِ بے عمل و واعظ غیر متّعظ کی گفتار کاانسانی نفوس پر کوئی اثر نھیں هوتا، اسی طرح غرض بعثت بھی حاصل نہ هوگی۔
۵۔خطا وگناہ کا سبب عقل وارادے کی کمزوری ھے۔ وحی سے متصل عقلِ کامل جسے حق الیقین حاصل ھے اور تمام اشیاء کی حقیقت کو کما حقہ دیکھ رھا ھے ،جس کا ارادہ خدا کے ارادے کے سوا کسی اور کے ارادے کو قبول نھیںکرتا۔ اس پیغمبر کے وجود میں گناہ وخطا کی ذرہ برابر گنجائش باقی نھیں رہتی۔
۲۔معجزہ :
کوئی بھی دعویٰ قبول کرنے کے لئے دلیل ضروری ھے اور دلیل ومدعا کے درمیان اس طرح کا رابطہ برقرار هونا چاہئے کہ دعوے کی حقانیت کا یقین، دلیل سے انفکاک وجدائی کے قابل نہ هو۔
پیغمبر کا مدعا خداوندِمتعال کی طرف سے سفارتِ الٰھی ھے اور یہ مدعا خدا کی جانب سے ان کی گفتار کی تصدیق کے بغیر ثابت نھیں هوسکتا اور معجزہ پیغمبر کے دعوے کے لئے خداوندِ متعال کی عملی تصدیق ھے، کیونکہ معجزہ در حقیقت وہ شے ھے جو بغیر کسی مادی واسطے کی وساطت کے، اسباب ومسببّات پر محیط ارادے، سبب کی مسبب میں تاثیر اور مسبب میں سبب سے اثر پذیری کی وجہ سے وقوع پذیر هوتاھے۔
جو شخص نبوت کا دعوی کرے اور عقلی اعتبار سے اس کی تصدیق ممکن هو اور اس دعوے کے ساتھ ما فوق الفطرت کام انجام دے تو یہ اس کی حقانیت کے قطعی گواہ ھیں، کیونکہ اگر حق پر نہ هو تو اس کے ذریعے ما فوق الفطرت کاموں کا انجام پانا، جھوٹے کی تصدیق اور مخلوق کی گمراھی کا سبب ھے،جب کہ بارگاہ اقدس ِربوبیت اس امر سے پاک ومنزہ ھے۔
نبوت عامہ کی بحث کو ھم دو حدیثوں کے ذکر کے ساتھ ختم کرتے ھیں :
((إنا لما اثبتنا اٴن لنا خالقا صانعا متعالیا عنا وعن جمیع ما خلق وکان ذلک الصانع حکیماً متعالیاً لم یجز اٴن یشاھدہ خلقہ و لا یلامسوہ فیباشرھم و یباشروہ، و یحاجھم و یحاجوہ، ثبت اٴن لہ سفراء فی خلقہ، یعبرون عنہ إلی خلقہ و عبادہ، و یدلونھم علی مصالحھم و منافعھم و ما بہ بقاوٴھم و فی ترکہ فنائھم، فثبت الآمرون و الناہون عن الحکیم العلیم فی خلقہ و المعبرون عنہ جل و عزّ، و ھم الاٴنبیاء علیھم السلام و صفوتہ من خلقہ، حکماء موٴدبین بالحکمة، مبعوثین بھا، غیر مشارکین للناس، علی مشارکتھم لھم فی الخلق و الترکیب، فی شیء من اٴحوالھم، موٴیدین من عند الحکیم العلیم بالحکمة، ثم ثبت ذلک فی کل دھر و زمان مما اٴتت بہ الرسل و الاٴنبیاء من الدلائل و البراھین، لکیلا تخلو اٴرض اللّٰہ من حجة یکون معہ علم یدل علی صدق مقالتہ و جواز عدالتہ ))[14]
امام جعفر صادق (ع) نے نبوت کے بارے میں جن مباحث کواس حدیث میں پیش کیا ھے، ان میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
بعثت انبیاء کی ضرورت سے متعلق دلیل کو جملہ ((وکان ذلک الصانع حکیما متعالیا) سے ((یدلّونھم))تک ذکر کیا گیا ھے،کیونکہ انسان سے سرزد هونے والی ھر حرکت وسکون اور فعل وترک دنیا وآخرت کے اعتبار سے یا تو اس کے لئے نفع بخش ھے یا نقصان دہ اور یا نہ تو نافع ھے اور نہ ھی مضر۔ بھر حال انسان کے لئے اپنی دنیا وآخرت کے نفع ونقصان اور مصلحت ومفسدہ کو جاننا ضروری ھے اور ان امور کی معرفت انسان کو فقط اور فقط اسی ذات کی جانب سے ودیعت هوسکتی ھے جو انسان کی دنیوی اور اُخروی زندگی پر اثر انداز هونے والی تمام حرکات و سکنات اورفعل و ترک پر محیط هو۔وہ ذات جو دنیا ،آخرت اور انسان کی خالق ھے۔ اور خالق کی حکمت کا تقاضا یھی ھے کہ وہ ھدایت کا انتظام کرے۔ اب چونکہ اس کی دلالت وھدایت اس کے عالی مرتبت هونے کی وجہ سے کسی عادی سبب کی وساطت کے بغیر ممکن نھیں ھے لہٰذا الٰھی نمائندوں کا هونا ضروری ھے کہ ((یدلونھم علی مصالحھم ومنا فعھم ومابہ بقاوٴھم وفی ترکہ فنائھم))
مذکورہ بالا دلیل ،فلاسفہ کی برھان نبوت پر واضح فوقیت رکھتی ھے ۔کیونکہ اس دلیل میں انسان کی تمام مصلحتوں اور منافع کو عالم وجود کے تمام مراحل میں خاص توجہ دی گئی ھے جب کہ فلاسفہ کی برھان نبوت میں فقط انسان کے مدنی الطبع هونے اور اجتماعی معاملات اور سماجی روابط میں عدل کو مد نظر رکھا گیا ھے ۔
مخلوق کے ساتھ مشترک اور ان سے ممتاز هونے کے اعتبار سے انبیاء علیھم السلام کے استثنائی وجود اور جن چیزوں میں اشتراک اور جن کی بنیاد پر امتیاز ھے، ان کی طرف جملہ ((غیر مشارکین للناس،علی مشارکتھم لھم فی الخلق والترکیب، فی شیء من احوالھم))میں اشارہ کیا گیاھے۔
اور جملہ ((صفوة من خلقہ))میں باقی مخلوق سے انبیاء کے برگزیدہ هونے کی طرف توجہ دلائی گئی ھے کہ اس برگزیدہ خلقت کے ذریعے خالق ومخلوق کے درمیان مقام وساطت پر فائز هونے کے ساتھ ساتھ عالی و دانی کے درمیان رابطہ بر قرار کر سکے۔
اور جملہ ((یعبرون عنہ))میں موجود،” خدا سے تعبیر“ کے لفظ کی لطافت، پیغمبر کے مقام ومنزلت کو روشن کرتی ھے کہ وہ زبان کی مانند ،جو مافی الضمیر کی بیان گر ھے، مقاصدِ خداوند ِ متعال کو مخلوق تک پھنچاتاھے اور اس مقام ومنزلت کے لئے تقد س وعصمت پیغمبر کا هونا ضروری ھے۔
جملہ ((یکون معہ علم یدل علی صدق مقالتہ وجواز عدالتہ)) میں اثباتِ نبوت کے لئے ضرورت ِ معجزہ کی دلیل کو بیان فرمایا اور چونکہ منشاء نبوت حکیم علی الاطلاق کی حکمت ھے اور اس کا ثمر بھی حکمت ھے<قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمْةِ>[15]،<اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِِِّکَ بِالْحِکْمَةِ>[16] انبیاء کی حکمتِ نظری اور حکمت عملی میں برتری کی جانب توجہ دلائی گئی ھے کہ اس حکمت نظری کی بنیاد فکر اور یہ حکمت عملی ((یعبرون عنہ)) اور((و من عند الحکیم العلیم)) کے تقاضے کے مطابق نور کا ایسا چراغ ھے جو کسی انسانی تعلیم و تربیت کے بغیر نور السماوات والاٴرض سے مرتبط هونے کی وجہ سے منور اور روشن ھے<یَکاَدُ زَیْتُہَا یُضِیْءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ>[17]
اوراس کے ساتھ کہ یہ جملہ ارشاد فرمایا ((حکماء موٴدبین بالحکمة))، تھوڑے فاصلے کے بعد ھی یہ فرمایا((موٴیدین من عند الحکیم العلیم بالحکمة))۔ پھلے جملے میں حکمت کے ذریعے مودّب اورمہذب اور دوسرے جملے میں حکمت کے ذریعے تائید کا ذکر ھے، اور حکمتِ انبیاء اور مکتبِ وحی کا حدوث و بقاء کے اعتبار سے بارگاہ حکیم و علیم سے رابطہ، فکرِ انسانی پر اس حکمت کی برتری کو اس حد تک روشن کر دیتا ھے جو ما عند اللہ اور ما عند الناس کے درمیان کی حد ھے۔اور جملہ((وکان ذلک الصانع حکیما)) اور انبیاء کی ((حکماء موٴدبین بالحکمة مبعوثین بھا)) سے توصیف اس مطلب کی بیان گر ھے کہ نبوت کی علت فاعلی اور علت غائی، حکمت ھے، اور مبدا ٴ و منتھیٰ کے درمیان حد وسط بھی حکمت ھی ھے<یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی اْلاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِخ هو الَّذِیْ بَعَثَ فِی اْلاٴُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَ إِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ>[18]
کلام ِامام (ع) کے اشارات و لطیف نکات میںدوسرے بیش قیمت مباحث موجود ھیں، لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے هوئے ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں۔