ماہ رمضان کے تصور سے روزہ کا تصور فورا ذہن میں آتا ہے اس لیے اسے "روزوں کا مہینہ" بھی کہا جاتا ہے۔[۱]۔ اور روزہ کے تصور سے صبر اور تحمل کا تصور خطور کرتا ہے اس لیے اسے "صبر کامہینہ" بھی کہا جاتا ہے۔[۲] اللہ کا مہینہ، ضیافت الہی کا مہینہ بھی اس کے دوسرے نام ہیں۔
رمضان کیا ہے؟
رمضان مادہ "رمض" سے ماخوذ ہے جس کے اصلی معنی ہیں سورج کا شدت سے خاک پر چمکنا۔ اس کی وجہ تسمیہ ایک قول کے مطابق یہ نقل ہوئی ہے کہ عرب معمولا مہینوں کے نام اس وقت کے اعتبار سے انتخاب کرتے تھے جس میں وہ واقع ہوتا تھا۔ اس سال ماہ رمضان شدید گرمیوں کے موسم میں واقع ہوا انہوں نے اس کا نام رمضان انتخاب کر لیا۔ ایک قول کے مطابق رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور چونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس لیے اس کے نام پر اس مہینہ کا نام رکھا گیا۔ مجاہد سے نقل ہوا ہے کہ رمضان نہ کہیں بلکہ ماہ رمضان کہیں اس لیے کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ رمضان کیسے کہتے ہیں؟۔ [۳] اسی کے ہم معنی بات تھوڑے فرق کے ساتھ المیزان میں بھی نقل ہوئی ہے۔[۴]
مختار الصحاح میں رمضان کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں مجمع البیان کے قول کو قبول کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نماز ظہر کو رمض کہا جاتا ہے اس لیے کہ شدت آفتاب کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ یہیں پر رمضان کے جمع کو رمضانات اور ارمضا لکھا ہے۔ نیز اسی کتاب میں رمض کے معنی احتراق [جلنا] کے بھی کئے گئے ہیں۔ اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان کو اس لیے رمضان کہا گیا ہے چونکہ اس میں مومنین کے گناہ جل جاتے ہیں اور وہ باطنی طور پر پاک و پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔
میبدی نے اپنی تفسیر میں رمضان کی وجہ تسمیہ کو اس طرح بیان کیا ہے:
رمضان یا " رمضا" سے مشتق ہے یا "رمض '' سے۔ اگر رمضا سے لیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہ گرم پتھر ہے جس پر جو چیز رکھی جائے جل جاتی ہے۔ اور اگر رمض سے ہے اس کا مطلب وہ بارش ہے جو جہاں پر ہو اسے پاک دے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ رمضان کیسے کہتے ہیں؟ فرمایا: ارمض الله فیه دنوب المؤمنین و غفرهالهم. (6) خدا اس میں مومنین کے گناہوں کو دھو دیتا ہے یا جلا دیتا ہے اور انہیں بخش دیتا ہے۔
ماہ رمضان کو نزول قرآن کی وجہ سے دیگر مہینوں پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ خدا وند عالم سورہ بقرہ کی ۱۸۵ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «شهر رمضان الذی انزل فیه القران هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منكم الشهر فلیصه ...» ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے ، ہدایت کے ثبوت پیش کرنے کے لیے اور حق کو باطل سے جدا کرنے لیے نازل ہوا پس جو شخص ماہ رمضان کو درک کرے اسے چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔۔۔
اے لوگو اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں پس اپنے پروردگار سے چاہوں کہ انہیں تمہارے اوپر بند نہ کرے۔ اور اس مہینہ میں جھنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اپنے معبود سے کہو کہ انہیں تمہارے اوپر نہیں کھولے۔
نہ صرف قرآن ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے بلکہ دیگر آسمانی کتابیں بھی اسی مہینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :« نزلت التوراه فی ست مضین من شهر رمضان ...»(7) یعنی چھ رمضان کو توریت نازل ہوئی بارہ رمضان کو انجیل نازل ہوئی اور اٹھارہ رمضان کو زبور نازل ہوئی اور شب قدر کو قرآن نازل ہوا۔ اس کے علاوہ جناب ابراہیم اور جناب نوح کے مصحف بھی اسی مہینہ می نازل ہوئے۔ [۸] پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان تمام آسمانی کتب کے نزول کا مہینہ ہے کہ یہ خود رحمت ہے خدا کی طرف سے اس کے بندوں پر جو اسی مہینہ میں ان کے شامل حال ہوئی ہے۔
علماء اہلسنت کی تفسیروں کے مطابق بعثت پیغمبر اکرم [ص] بھی اسی مہینہ میں انجام پائی ہے اس بنا پر ماہ رمضان کو ماہ بعثت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس نظریہ کے ماننے والے علماء کے بقول پیغمبر اکرم [ص] کی بعثت ۱۷، ۱۸ یا ۲۴ رمضان کو واقع ہوئی ہے۔ یہ چونکہ ایک طرف سے بعثت کو نزول قرآن کے ساتھ ہی سمجھتے ہیں اور نزول قرآن ماہ رمضان میں ہوا ہے اس وجہ سے اور کچھ دیگر روایات سے استدلال کر کے اس بات کو مانتے ہیں کہ حضور [ص] کی بعثت ماہ رمضان میں ہی ہوئی ہے۔ [۹]
انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں شیاطین کو زنجیروں میں جھکڑ دیا جاتا ہے۔ [۱۰]
ماہ رمضان میں شب قدر پائی جاتی ہے اس وجہ سے بھی ماہ رمضان دیگر مہینوں سے برتر ہے۔ وہی شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جس میں زمین فرشتوں سے بھر جاتی ہے۔ شب قدر کی شرافت اور عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اولیاء الہی اس کو درک کرنے کے لیے پورا سال ہر شب کو شب قدر سمجھ کر عبادت اور اللہ کی بندگی میں بسر کرتے ہیں تاکہ یقین کے ساتھ اس کو درک سکیں۔ شب قدر پیغمبر اسلام [ص]کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھی اور قیام قیامت تک موجود رہے گی اور چونکہ شب قدر قرآن کریم کی صراحت کے مطابق جو سورہ قدر میں واضح طور پر بیان ہوا ماہ رمضان میں پائی جاتی ہے اس وجہ سے رمضان ابتدا سے آج تک ایک خاص شرافت اور عظمت کا حامل رہا ہے۔
اللہ کی مغفرت ماہ مبارک میں دوسرے تمام مہینوں سے کئی گنا زیادہ اس کے بندوں کے شامل حال ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے پیغمبر اسلام [ص] سے نقل ہوا ہے : " پہلی رمضان کو شیطان کے ہاتھ زنجیروں میں باندھ دئے جاتے ہیں اور ہر رات ستر ہزار لوگوں کی بخشش ہوتی ہے جب شب قدر آتی ہے خدا وند عالم جتنے بندوں کو ماہ رجب، شعبان اور رمضان میں معاف کر چکا ہوتا ہے اس سے کئی زیادہ اس شب میں معاف کرتا ہے۔ اور مومن اور اس کے بھائی کے درمان دشمنی باقی نہیں رہتی۔" [۱۱]
کشف الاسرار اور عدۃ الابرار میں ایک مفصل خطبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوا ہے جو آپ نے ماہ شعبان کے آخر مین بیان فرمایا:اے لوگو! ۔۔۔۔ ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا رحمت ، جس کا وسط مغفرت اور جس کی انتہا آتش دوزخ سے رہائی ہے۔ ۔۔۔۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے یہ پاکیزگی کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ ۔۔۔" [۱۲] رسول اسلام [ص] ماہ شعبان کے آخری جمعہ کے خطبہ میں یہ اعلان کرتے ہیں سب سے زیادہ عظمت ماہ رمضان کی ہے۔ علی علیہ السلام اٹھتے ہیں اور فرماتے ہیں: یا رسول اللہ اس مہینہ کے افضل ترین اعمال کون سے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! اس مہینہ کے بہترین اعمال محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔
" اے لوگو! اللہ کا مہینہ اپنی برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کو لے کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔ یہ مہینہ اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سے برتر ہے۔ اس کے ایام دوسرے ایام سے برتر، اس کی راتیں دوسری راتوں سے برتر، اس کے لمحات دوسرے لمحات سے برتر ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ لوگوں کو اللہ کے ہاں دعوت دی گئی ہے۔ اور آپ لوگ ان میں سے قرار پائے ہیں جو بارگاہ رب العزت میں مشمول اکرام واقع ہوتے ہیں۔اس مہینہ میں آپ کی سانسیں اللہ کی تسبیح، آپ کی نیند عبادت ، اعمال قبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ بنا بر ایں خالص نیتوں اور پاک دلوں سے اللہ سے چاہو کہ آپ کو روزہ رکھنے اور اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ اس لیے کہ بدبخت وہ شخص ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی مغفرت سے محروم رہ جائے۔ اور اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔ فقیروں اور بے سہارا لوگوں پر بخشش کرو، بوڑھوں کا اکرام کرو۔ چھوٹوں پر رحم کرو۔ اور صلہ رحم کو مضبوط کرو۔
اپنی زبانوں کو گناہ سے محفوظ رکھو، اپنی آنکھوں کو حرام دیکھنے سے بچائے رکھو، اور اپنے کانوں کو حرام سننے سے محفوظ رکھو۔ یتیموں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے کام لو تاکہ آپ کے یتیموں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔۔۔۔ اپنے گناہوں سے بارگاہ خداوندی میں توبہ کرو، نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے خدا کی طرف بلند کرو یقینا نماز کا وقت بہترین وقت ہے جس میں خدا اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب اس کو پکارتے ہیں وہ اجابت کرتا ہے ۔۔۔ اے لوگو ! تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے گروی ہیں استغفار کر کے انہیں آزاد کرواو اور تمہاری گردنیں گناہوں کے بوجھ سے لدھی ہوئی ہیں پس طولانی سجدے کر کے انہیں ہلکا کرو۔
جان لو کہ خدا وند عالم نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نماز پڑھنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہیں کرے گا۔ روز قیامت جب لوگ پروردگار عالم کی بارگاہ میں قیام کریں گے ہر گز انہیں جہنم کی آگ نہیں دکھلائے گا۔ ۔۔۔
جو شخص برائی سے اپنے آپ کو بچائے گا قیامت کے دن عذاب الہی سے محفوظ رہے گا۔ خدا وند عالم قیامت کے دن ے۲تچے۱۲ے اس کا احترام کرے گا۔ اور جو شخص دوسروں پر رحم کرے گا خدا وند قیامت کے دن اس پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی پر رحم نہیں کھائے گا خدا قیامت کے دن اس پر رحم نہیں کھائے گا۔ ۔۔۔ اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان کے علاوہ پورا قرآن ختم کیا ہو۔ ۔۔۔
اے لوگو! اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہیں پس اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر بند نہ کرے اور اس مہینہ میں دوزخ کے دروازے بند ہیں خدا سے کہو کہ انہیں تمہارے اوپر نہ کھولے۔ شیاطین اس مہینہ میں زنجیروں میں بند ہیں اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا : اے رسول اللہ اس مہینہ میں بہترین اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا: اے ابو الحسن ! اس مہیںہ میں بہترین اعمال محرمات سے پرہیز ہے۔" [۱۳]۔
حوالہ جات
1- تفسیر القمی . ج ا ص 46. تفسیر صافی ، فیض كاشانی ، ج 1 ص 126
2- ادوار فقه، شهابی ، محمود ، ج 2 ص 41
3- مجمع البیان علامه طبرسی ، مجلد اول ص 495
4- المیزان ، علامه طباطبایی ، ج 2ص 279
5- مختار الصالح ، الرازی ، صص 257-256
6- كشف الاسرار وعده الابرار، میبدی ، ابوالفضل رشید الدین ، ج 1 ص 495
7- وسائل الشیعه ، علامه حرعاملی ، ج 7 ص 225 ، حدیث 16
8- تفسیر نمونه ، آیت الله مكارم شیرازی ، ج 1 ص 645
9- درسنامه علوم قرآنی ، جوان آراسته ، حسین ، صص 92-77
10- كشف الاسرار و عده الابرار ، ج 1، ص 490
11- وسایل الشیعه ، ج 7 ص 228 حدیث 21
12- كشف الاسرار و عده الابرار ، ج 1، ص 490
13- وسائل الشیعه ، ج 7 صص228 226 . حدیث