ولایت کے دفاع میں فاطمہ زہراء کا کردار
توقیر عباس
مقدمه:
امامت وولایت اسلام کے مہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اور اس موضوع پر بہت زیادہ مناظرات ہو چکے ہیں،حتی متکلین کہتے ہیں کہ جتنی اس مسئلہ میں تلوار چلی ہیں کسی اور مسئلہ میں نہیں چلی ما سل فی اسلام سیف کما سل فی الولایه ۔(1)اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اکثر فرق اسلامی اسی مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے دجود میں آئے ہیں.
ا سلامی دستورات کے مطابق بالخصوص عند الشیعه امامت و ولایت سےدفاع سب پر واجب ہے. کیونکہ امام رکن اسلام و عمود اسلام و بنیاد اسلام ہے،امام ، زمام دین ہے ،جیسا کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ، ان الامامة زمام الدین و نطام المسلمیں الامام اس الاسلام النامی و فرعه السامی (2) ایک اور روایت میں ہے کہ بنی الاسلام علی خمس الصلاه و الزکٰوه والحج و الصوم و الولایه ولم تناد بشئ ما نودی بالولایه .اسلام کامهم ترین و روشن ترین رکن یہی ولایت و جانشینی پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم ہے۔یہ مسئله اتنی اهمیت رکھتا ہے که پہلی مرتبہ جب پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم نے اپنے خاندان والوں کو اکٹھا کیا تھا اور و انذر عشیرتک الاقربین کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انکو دعوت دی تھی تو وہاں پر اپنے خلیفہ اور جانشینی کے بارے میں گفتگو فرماتے ہیں اور آخری حج کے موقع پر بھی مقام غدیر خم میں اپنی جانشینی کے بارے گفتگو کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنا جانشین معرفی کراتے ہیں.
رحلت پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے ابتدائی ایام میں سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ پیش آتا ہے ،وہاں پر لوگ خلافت اور جانشینی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے اختلاف کرتے ہیں،اسی معاملہ میں انصار ومہاجرین کے درمیان تنازع ہو جاتا ہے،اسی دوران عمر ابوبکر کی عمر کے زیادہ پونے کی وجہ سے بیعت کرتا ہے اور لوگ بھی اسکے بعد عمر کی اتباع کرتے ہوئے ابو بکر کی بیعت کرتے ہیں اور وہ تمام فرامیں جو پیغمبر نے اپنی خلافت و جانشینی کے بارے ارشاد فرمائے تھے ان سب کو پاوں کے نیچے پایمال کر دیتے ہیںاور خود خلیفہ کا انتخاب کر دیتے ہیں۔فقط اسی پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ زمین جو پیامبر اسلام نے اپنی بیٹی فاطمہ کو ہبہ فرمائی تھی اس کو بھی غصب کر لیتے ہیں اور سیدہ کے کارندوں کو اس سے نکال کر ان کی جگہ اپنے کارندے بھیج دیتے ہیں.
ایسے حالات میں فاطمه زهرا علیها السلام جو کہ رسول اسلام کی بیٹی اور انکی تربیت و پرورش یافتہ تھیں،میدان میں حاضر ہوتی ہیں اور جس طریقہ سے بھی امامت اور اپنے امام وقت کا دفاع کر سکتی تھیں کیا اور ایک لمحہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا. ایسا دفاع کیا کہ خود حضرت امیر المومنین ،فاطمہ زہراء کی شہادت کے دن یہ فرماتے ہیں ، خدا کی قسم پیغمبر نے مجھے فرمایا تھا کہ یا علی آئے دو پھولوں (حسنین شریفین)کے باپ دو رکن آپ سے بہت جلد جدا ہوجائیں گے فلما قبض رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله قال على هذا احد ركنى الذى قال لى رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله فلما ماتت فاطمة عليهاالسلام قال على: هذا الركن الثانى الذى قال رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله. (3)فرمایا کہ میرا ایک رکن خود رسول گرامی کی ذات تھی اور دوسرا رکن یہ جناب زہرائ ہین جو آج مجھ سے جدا ہو گئیں ، یہاں سے معلوم ہوتا ہے فاطمہ زہراء کتنا عظیم سہارا تھیں اور امیرالمومنین کیلئے کتنی عظمت کی مالک تھیں ، اسی طر ح جس وقت سیدہ کو دفن کر چکے تو قبر رسول کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ یا رسول الله قل يا رسول اللَّه! عن صفيتك صبرى وعفا عن سیده النساء العالمیں تجلدى... اما حزنى فسرمد و اما ليلى فمسهّد (4)تیری بیٹی کے چلے جانے سے میرا صبر کم ہو گیا اب میں تنہا ہو گیا ہو میری طاقت چلی گئی،میرا غم و غصہہ اب ابدی ہو گیا ہے اور میری راتین اب بیداری میں کٹ جائیں گی جب فاطمہ ہوتی تو اس سے باتیں کرتا اور اپنے غموں کا باٹتا تھا اور اسکو تسلی دیتا تھا اب تو وہ بھی آپ کے پاس آ گئی ہیں اب کس تو تسلی دوں گا ۔
اس مقالہ میں بتوفیق الہی اس امر کی تحقیق کریں گے کہ فاطمہ زہراء نے کن طریقوں سے ولایت کا دفاع کیا ہے اور کیسے دفاع کیا ہے۔ ان طریقوں کی مختصر توضیح دیں گے۔
یہ روشیں اور طریقے کسی ایک زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ فاطمہ زہراء س اسوہ کامل ہیں جیسا کہ بعض روایات میں یہ فرمایا گیا ہے تو اس لحاظ سے سب لوگ و خصوصا جن لوگوں کے دین اور آئین میں ولایت ہے وہ پیروی کر سکتے ہیں و ہر عصر میں ان روشوں کو بروے کار لاتے ہوئے ولایت کا دفاع کر سکتے ہیں اور جس طرح فاطمہ زہراء س نے ولایت و امامت کے دفاع میں کسی فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا ،اسی طرح پیروان صدیقہ طاہرا بھی یہ کر سکتے ہیں اور ولایت کے دفاع کیلئے ہمیشہ میدان میں حاضر رہیں۔
اس تحقیق کے مطالعہ کے بعد پڑھنے والے پر یہ بات روشن ہو جائے گی کہ فاطمہ زہراء س کا ولایت کہ دفاع میں کیا کردار ہے اور آپ کی عظمت اور مظلومیت واضح ہو جائے گی ، اگر کوئی غیر شیعہ بھی اس مسئلہ کا مفصل مطالعہ کرے تو وہ پیامبر اسلام کے خاندان کی حقانیت کا اعتراف و غاصبین و ظالمیں سے تبری کئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔کیونکہ جب اس مسئلہ کی اہمیت روشن ہو جائے گی ، کہ یہ کتنا اہم مسئلہ ہے کہ جس کیلئے ہر حال میں ضروری ہے کہ میدان میں رہیں کسی حال میں اس میدان کو خالی نہ رکھیں حتی کہ اپنی جان بھی اسی راہ یعنی ولایت کے دفاع میں تسلیم کر دیں جس طرح جناب فاطمہ نے اپنے آپ کو اس دور میں خطرناک ترین میدان میں پہنچایا اور اپنے وظیفہ کو نہایت ہی احسن انداز میں انجام دیا اور اپنی جان اس راہ قربان کر دی اوریہی راستہ تمام پیروان ولایت و شیعان کیلئے مشعل راہ ہے۔
کلیات و مفاهیم.
بحث میں وارد ہونے سے پہلے ہم چند الفاظ مثل "دفاع " ولایت" و "سقیفہ" کے لغوی اور اصطلاحی معانی ذکر کرتے ہیں اسکے بعد بحث میں وارد ہوں گے ان شاء اللہ۔
دفاع :لفظ "دفاع "عربی زبان میں معمولا دو معانی میں استعمال ہوا ہے اور یہی اسکے غالبی معانی ہیں "دفاع" کا ایک معنی ہے "دینا" اور یہ معنی اس وقت ہوتا ہے جب کلمہ" دفع "حرف جر "الی "کیذریعے متعدی ہو مثلا قرآن مجید میں ہے کہ " فادفعو ا الیهم اموالهم" یعنی ان کو انکا مال دے دو ، اگر خود بخود متعدی ہو یا حرف "عن" کے ذریعے متعدی ہو تو اس صورت میں اسکا معنی "دور کرنا "اور "حمایت کرنا" ہوتا ہے مثلا خدا قرآن میں فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا (5)کہ خدا متعال مومنین سے (مشکلات کو)دور کرتا ہے ، انکی حمایت کرتا ہے. اس تحقیق میں کلمہ "دفاع "دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی ولایت و امامت سے خطرات کو دور کرنا اور ولی برحق و امام وقت و خلیفہ بلا فصل کی حمایت کرنا اور مشکلات کو دور کرنا ۔
ولایت . والایت کے مختلف معانی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے ایک "حکومت" رہبری ، سلطنت ، ہے ۔(6) اور اس تحقیق میں ہماری مراد ولایت سے یہی ہے کہ پیغمبر اسلام نے امیر المومنین کو خلیفہ نصب فرمایا تھا ،نہ صرف یہ کہ علی سے محبت کریں ۔
السَّقِيفةُ: ُ: لغة :كل خشبة عريضة كاللوح، و حجر عريض يستطاع أن يُسْقَفَ به قترة أو غيرها
كل بناء سُقِفَتْ به صُفَّةٌ أَو شِبْهُها مما يكون بارِزاً، السّقيفَةُ: الصُّفَّةُ، و منه سَقِيفةُ بني ساعِدة .(7)
اسکا لغت میں معنی یہ لکھا گیا ہے کہ لکڑی کا ایک بڑا ٹکڑا کہ جسکے ذریعے چھت بنائی جا سکتی ہو اور ہر اس بلڈنگ کو بھی کہتے ہیں جسکی چھت واضح اور آشکار ہو اور سقیفہ نبی ساعدہ بھی اسی وجہ سے مشہور ہے کہ دور سے اسکی چھت نظر آتی تھی۔
اصطلاحا: یہ مدینہ میں ایک جگہ تھی جو قبیلہ بنی ساعدہ سے مربوط تھی قریش اس میں مشورہ کیلئے اکٹھے ہوتے تھے۔
اس تحقیق میں ہم ان شاء اللہ ان تین سوالوں کے جواب دیں گے۔
1. فاطمه زهراء کا ولایت کے دفاع میں کیا کردار ہے ؟
2.غصب فدک و خلافت کا آپس میں کیا ربط ہے؟ و غصب فدک کے علل و اسباب کیا ہیں ؟
3.فاطمه زهراء نے ولایت کے دفاع میں کن طریقوں کو اپنایا ؟
فاطمه زهراء کا ولایت کے دفاع میں کردار
سوال: فاطمه زهراء کا ولایت کے دفاع میں کیا کردار ہے ؟
اس سوال کے جواب میں ہم اجمالا عرض کریں گے کہ فاطمہ ذہرا کہ رسول اسلام کی بیٹی ہیں ، اپنے عظیم خطبون اور گران قدر اقوال میں فصیح اور بلیغ بیانات اور محکم اور متقن استدلالات کے ذریعے ولایت کا دفاع کیا اور دفاع کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور کسی فرصت کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا ، کسی جگہ امیر المومنین کی شخصی خصو صیات کو ذکر فرماتی ہیں (8)اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی اسکے برابر اور اسکے ہم پلہ نہیں ہے ، میرا شوہر امیر المومنین ہی تمہارے رسول کا بھائی ہے تم مردوں میں اور کوئی رسول خدا کا بھائی نہیں ہے، (9) اور تم جو دعوے دار خلافت ہو نہ تو تمہارا ماضی اچھا ہے اور نہ قرآن مجید سے کچھ جانتے ہو اور نہ قضاوت سے کچھ جانتے ہو جب تم کچھ نہیں جانتے تو کیسے اپنے آپ کو مسند خلافت و جانشینی رسول خدا کا اہل سمجھتے ہو؟. (10)
جب فلسفہ احکام کو بیان فرماتی ہیں تو وہاں پر لوگوں کو مخاطب کر کے انکی توجہ کو امامت اور خلافت اہلبیت کی طرف مبذول کرتی ہیں فرماتی ہیں که جعل الله ..... اطائتنا نظاما للمله (11) خدا متعال نے ہماری اطاعت کو ملت و امت کیلئے نظام قرار دیا ہے کسی اور کی اطاعت کو نظام قرار نہیں دیا ، جو ملت بھی زندہ رہنا چاہتی ہے وہ مجبور ہے کہ ایک نظام کو انتا ب کرے جو اس ملت پر حاکم ہو ، نطام کے یہان پر وسیع معنی مراد ہیں، ،حکومت، وذارت خانہ، مدیریت، مقننہ، عدلیہ و مجریہ یہ تینوں قوات اور اسی طرح احکام کا بر وقت سدور و اجراء یہ سب قانون کہلاتے ہیں، ملت جس نظام کا انتکاب کرتی ہے اس لءے کرتی ہے کہ اس کو جاری کیا جائے اور اس کے برابر تسلیم خم ہو جائیں تاکہ زندگی اسودہ طریقے سے گذر سکے، یہ قانون و نظام جیسا ہو گا لوگ ویسی ہی زندگی کریں گے اگر یہ قانون الہی ہو اور صالح ہو تو ہر جگہ صلاح ہی صلاح ہو گی اور اگر فاسد ہو تو ہر جگہ فساد ہی فساد ہو گا۔ (12)
اس کے بعد اامامت و ولایت کو بیان فرماتی ہیں کہ خدا نے ہماری امامت کو تفرقہ و تقسیم سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے، و امامتنا امانا للفرقه (13)
اور اسی طرح اس بی بی دو عالم کے افعال بھی شاہد ہیں کہ بی بی نے کیسا دفاع کیا، مثلا حکام وقت سے ناراضگی و قطع تعلقی، مطالبہ فدک و خطبہ فدکیہ اور اسی طرح بی بی کا رات کی تاریکی کے عالم میں دفن ہونا اور آج تک قبر کا مخفی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی دو عالم نے دفاع ولایت میں کسی فرصت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں حتی اپنی جان بھی اسی راہ مین قربان کر دی۔
اب ہم بحث میں وارد ہوتے ہیں ، سب سے پہلے یہ بیان کریں گے کہ فدک کیا ہے؟ اور کس طرح یہ جناب سیدہ کے ہاتھ میں آیا؟ اور پھر انہوں نے کیوں غصب کیا؟فدک اور خلافت کے درمیان کیا ربط ہے؟
ارتباط بین خلافت و فدک.
سب سے پہلے یہ جانیں کہ فدک ہے کیا؟ اس سوال کا جواب ہم مجمع البحرین سے نقل کرتے ہیں اور بھی کتب میں اسی طرح یا اس کے مضمون سے ملتا جلتا ذکر ہوا ہے۔
معنیٰ لغوی:
(فدك)فَدَك بفتحتين: قرية من قرى اليهود بينها و بين مدينة النبي ص يومان. و بينها و بين خيبر دون مرحلة. و هي ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ*، منصرف و غير منصرف.
لغت کے اعتبار سے فدک یہود کی بستیوں میں سے ایک بستی تحا جو مدینہ سے دو دن کے فاصلء پر تحا اور خیبر کے نزدیک اور یہ وہی بستی ہے جو اللہ تعالی نے رسول اللہ کو عطا کی تھی۔
اصطلاحی معنیٰ:
وَ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ص لِأَنَّهُ فَتَحَهَا هُوَ وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع لَمْ يَكُنْ مَعَهُمَا أَحَدٌ فَزَالَ عَنْهَا حُكْمُ الْفَيْءِ وَ لَزِمَهَا اسْمُ الْأَنْفَالِ. فَلَمَّا نَزَلَ فَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ(14) أَيْ أَعْطِ فَاطِمَةَ ع فَدَكاً، أَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ص إِيَّاهَا. وَ كَانَتْ فِي يَدِ فَاطِمَةَ ع إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ص. فَأُخِذَتْ مِنْ فَاطِمَةَ بِالْقَهْرِ وَ الْغَلَبَةِ. وَ قَدْ حَدَّهَا عَلِيٌّ ع: حَدٌّ مِنْهَا جَبَلُ أُحُدٍ، وَ حَدٌّ مِنْهَا عَرِيشُ مِصْرَ، وَ حَدٌّ مِنْهَا سِيفُ الْبَحْرِ، وَ حَدٌّ مِنْهَا دُومَةُ الْجَنْدَلِ يَعْنِي الْجَوْفَ. (15)
یہ مال رسول اللہ کا تھا کیونکہ اس کو رسول اللہ اور امیر المومنین نے فتح کیا تھا اور کوئی بھی ان کے ساتھ نہ تھا لہذا اس کو فئ نہیں کہہ سکتے بلکہ اس پر انفال کا نام صادق آتا ہے اور جس وقت یہ آیہ مجیدہ نازل ہوئی کہ ذوالقربہ کو انکا حق عطا کر د یعنی فدک فاطمہ زہراء کو عطا کر دیں تو یہ مال یعنی فدک رسول اللہ نے جناب فاطمہ کو عطا کر دیا اور یہ اس طرح فاطمہ تک پہنچا اور جناب فاطمہ کے پاس ہی تھا کہ رسول اللہ کا انتقال ہو گیا، اس وقت اس فدک کو فاطمہ زہراء سے جبر اور زور کے بل بوتے پر غصب کیا گیا۔
امیر المومنین نے فدک کی حدود کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اسکی ایک حد احد کا پہاڑ اور دوسرا سرا عرش مصر اور اور تیسری حد سیف البحر اور چوتھا سرا دومہ الجندل ہے۔
جب خلیفہ اول کی بیعت لی گئی تو اس نے پہلے تو خلافت کو غصب کیا اس کے بعد اس نے پہلا کام یہی کیا کہ جو مال رسول اللہ نے اپنی بیٹی جناب سیدہ زہراء کو ہبہ فرمایا تھا اسکو بھی غصب کر لیا ، فدک کا غصب کرنا کوئی سادہ مسئلہ نہیں تھا کہ جیس بعض اوقاب نیم ملا کہتے ہیں کہ کجھور کے چند درخت تھے ، بلکہ حکومت کا اقتصاد کا مسئلہ تھا پس درحقیقت اس مسئلہ کو علیحدہ نہیں بلکہ اس وقت جو حوادث رونما ہوئے انہیں کے ساتھ بحث کی جائے کیونکہ یہ سب مسائل آپس میں مرتبط ہیں اور ایک سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں۔ !(16)
علل غصب فدک:
فدک کو غصب کرنے کی مختلف اغراض و مقاصد تھے جن کو مختصر انداز میں ذکر کرتے ہیں۔
1. خلیفہ اول خلیفہ دوم کی تائیدات اور اسکی دھمکیوں کی وجہ سے تقریبا بزرگان صحابہ اور مدینہ کے رہنے والوں کو بیعت پر مجبور کر دیا تھا اور ان سے بیعت لے لی تھی صرف ایک خاندان رسول اللہ اور امیرالمومنین علیه السلام تھا جو ان دھمکیوں کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہوا تھا اور بیعت نہیں کی تھی ۔
سقیفہ کی روداد کو اس طرح نقل کیا ہے ، کہ جب لوگوں نے خلیفہ اول کی بیعت کر لی فقط امیر المومنین علیه السلام نے انکار کیا خلیفہ اول نے قنفذ کو امیر المومنین کی طرف بھیجا کہ علی سے کہو کہ خلیفہ رسول اللہ کی بیعت کر اور اس سے انکار نہ کر جب قنفذ نے یہ پیغام پہنچا دیا تو اس وقت امیر المومنین نے فرمایا : بہت جلد خدا اور رسول اللہ پر جھو ٹ و افتراء باندھا ہے ، خدا کی قسم پیامبر خدا نے میرے علاوہ کسی اور کو خلافت کے لئے مقرر نہیں فرمایا، یہ سننا تھا کہ خلیفہ دوم کو غصہ آیا اور اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور چلا گیا۔ (17)
خلیفہ اول و دوم یہ تو جانتے تھے کہ علی کے گھر کو اور پیامبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے خاندان کو ڈرانے اور دھمکانے سے بیعت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا تو اس وقت انہوں نے فدک کو غصب کر لیا اس کی وجہ یہ تھی کہ فدک کی آمدن کوئی معمولی آمدن نہیں تھی اور جانتے تھے کہ اس وجہ سے علی و فاطمہ علیهما السلام خاموش نہیں بیٹھیں گے ،تو جب وہ مطالبہ کریں گے تو ہم کہیں گے کہ اگر بیعت کی تو ہم فدک واپس کر دیں گے اور اس طرح وہ مجبورہو کر بیعت کریں گے .(18)
2. خلیفہ وقت کو یہ تو معلوم تھا کہ فدک کی آمدں تقریبا ستر ہزار دینار یا اس سے بھی زیادہ ہے ، اور یہ اہلبیت اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اقتصادی قوت و طاقت فراہم کرتا ہے اور ممکن ہے یہی اقتصادی طاقت انکی سیاسی قوت و رفتار پر اثر انداز ہو اور اس اقتصاد محکم کے ذریعے علی خلیفہ وقت کے خلاف قیام کرے اور اسکی حکومت کو ختم کر دے ، اسی وجہ سے خلفہ اول و دوم نےخاندان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیاسی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اور اسکو کمزور کرنے کیلئے فدک پر ہاتھ ڈالا۔
عمر گفت قال له عمر از الناس عبید الدنیا لا یریدون غیرها فامنع عن علی و اهل بیته الخمس وا لفیء و فدکا فان شیعته اذا علموا ذلک ترکوا علیا و اقبلو الیک رغبه فی الدنیا و ایثارا و محاماه علیها. (19)خلیفہ دوم نے خلیفہ اول کو مشورہ دیتے ہوئے کہا : لوگ دنیا کے غلام ہیں ، دنیا کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے پس علی اور اسکی آل سے خمس و فئ اور فدک کو ممنوع کر دے جب شیعان علی کو اسکا پتہ چلے گا کہ اسب علی کے ہاتھ میں کچھ نہیں تو علی کو چھوڑ دیں گے اور اور تیری طرف رخ کر لیں گے اور تیرے حامی و ناصر اور جانثار بن جائیں گے۔
فدک کا علی اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے سے حکومت اور ولایت اہلبیت کے لئے بہت سارے امکانات فراہم کرتا جسطرح جناب خدیجہ کی دولت اسلام کی مددگار اور اسکی پیشرفت کا سبب بنی حالانکہ اس وقت آغاز رسالت پیامبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔
پوری دنیا میں یہی رسم و روج ہے کہ جب کوئی بڑا شخص یا ملک کسی شخص یا ملک سے اسکی سیاسی قدرت کو چھیننا چاہتے ہیان اور اسکو اپنی راہ ہے ہٹانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انکا اقتصادی محاصرہ کرتے ہیں تاریخ اسلام میں شعیب ابی طالب میں مسلمانوں کا اقتصادی محاصرہ ذکر ہے جو مشرکین مکہ کی طر سے کیا گیا تھا (20).و سورہ مبارکہ منافقین میں اس آیت مجیدہمین بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ؛ (21)اگر شہر میں واپس چلے جائیں تو جو قدرتمند ہیں و ناداروں کو نکال دیں گے۔
اسکی وجہ یہ ہے جو شخص فقیر و نادار ہوتا ہے اسکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ایسا شخص روٹی کپڑے کی فکر میں رہتا ہے اور ہمیشہ انہیں کو تہیہ کرنے کیلئے کام میں لگا رہتا ہے اور اسکو سیاسی کاموں کیلئے وقت ہی نہیں ملتا کہ کوئی سیاسی سرگرمی انجام دے سکے اور کسی کے مقابلے کیلئے امادہ ہوسکے. (22)
3. ایک سبب یہ بھی ہے کہ اگر فدک کو واپس کر دیتے اس وجہ سے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو ہبہ کیا تھا تو اس طرح مسئلہ خلافت کے لئے راہ ہموار ہو جاتی کہ اس کا بھی ان سے تقاضا و مطالبہ کرے اور اس نکتہ کو اہل سنت کے معروف و مشہور عالم دین جناب ابن ابی الحدید نے اپنی ارشمند کتان شرح نہج البلاغہ میں اس طرح منعکس کیا ہے۔
ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ میں نے اپنے استاد سے سوال کیا کہ آیا فاطمہ زہراء فدک کی مالکیت کے دعوی میں صادق تھیں؟
تو استاد نے جواب میں کہا جی ہاں صادق تھیں۔
پھر میں نے پوچھا کہ جب صادق تھیں تو خلیفہ اول نے کیوں واپس نہیں کیا؟
تو استاد محترم کہنے لگے: لَوْ اعْطاها الْيَوْمَ فَدَكاً بِمُجَرَّدِ دَعْواها لَجائَتْ الَيْهِ غَداً وَ ادَّعَتْ لِزَوْجِهَا الْخِلافَةَ وَ زَحْزَحَتْهُ مِنْ مَكانِهِ، وَ لَمْ يُمْكِنُهُ الْاعْتِذارُ وَ الْمُدافِعَةُ بِشَيٍ لِأَنَّهُ يَكُونُ قَدْ اسْجَلَ عَلى نَفْسِهِ بِانَّها صادِقَةٌ فِيما تَدَّعِيهِ، كائِناً ما كانَ، مِن غَيْرِ حاجَةٍ الى بَيِّنَةٍ؛ اگر خلیفہ اول اس دن فدک کی مالکیت کے دعوی کی بنا پر فاطمہ زہراء کو واپس کر دیتا تو جناب فاطمہ دوسرے دن اسکے پاس آتیں اور اپنے شوہر امیر المومنین کے لئے خلافت کا دعوی کرتیں اور خلیفہ اول کو مسند خلافت سے ہٹا دیتیں اور اس وقت خلیفہ اور کے پاس مسند نہ چھوڑنے کا کوئی بہانہ و عذر نہ رہتا اور نہ ہی مسند پر بیٹھنے کا کوئی استدلال و دفاع کرتا کیونکہ وہ پہلے دن یہ بات قبول کر چکا ہوتاکہ فاطمہ زہراء جو بھی کہے اس میں صادق ہے اور اسکو گواہوں اور بینہ کی جرورت نہیں ہے۔ اس کے بعدابن ابی الحدید کہتا ہے کہ اگرچہ ہمارے استاد نے یہ بات مذاق میں کہی ہے لیکن یہ ایک واقعیت اور حقیقت ہے.(23)
اہل سنت کے ان دو دانشمندوں کا اعتراف اس بات کا زندہ شاہد کے کہ غصب فدک صرف جنبہ مالی کی وجہ سے نہیں بلکہ پس پردہ سیاسی مقاصد و مفادات تھے جس کی خاطر انہوں نے اس عظیم اور ہبہ کئے ہوئے باگ سے فاطمہ زہراء کے مقرر کئے گئے افراد کو نکال دیا اور اپنے تصرف میں لے لیا۔
یہاں تک یہ بات روشن ہو گئی ہو گی کہ فدک کیا تھا اور کس طرح جناب فاطمہ زہراء کے ہاتھ میں آیا اور غاصبین نے کیون غصب کیا اور اسکے علل و اسباب کیا تھے ۔
اب ہم ان بی بی دو عالم کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اقوال کے ذریعے جناب سیدہ نے کس طرح ولایت کا دفاع کیا۔
اقوال فاطمه زهرا علیها السلام میں ولایت کا دفاع .
جناب فاطمہ نے مختلف طریقوں سے جانشین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لو گوں کو تعارف کرایا اور اس پیغام کو پہنچایاکبھی کنایہ کی زبان میں جناب امیر المومنین کا تعارف کراتیں اور کہتیں کہ کوئی بھی انکی مثل نہیں ہے امیرالمومنین کی خصوصِات کو ذکر کرتیں اور آپ کے فضائل کو بیان فرماتیں اور ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل اور دشمن بھی رد نہیں کرتا تھا بلکہ ان فضائل کو قبول کرتا ، ان فضائل اور صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے احساسات کو بیدار کریں کیونکہ قیام کا اصلی محرک یہی احساسات کا بیدار کرنا ہی ہے .(24) جناب فاطمہ کی ساری کوشش یہ تھی کہ لوگوں کو اس خطا اور اشتباہ سے آگاہ کریں جس میں سب پڑ گئے تھے، آپ چاہتی تھیں کہ لوگون کو سمجھائیں کہ اگر جانشین پیغمبر کا انتخاب بھی کرنا ہے تو انتخاب کا بھی معیار صحیح ہونا چاہئے اسی لئے اپنی گفتگو کا آغاز ایسے کیا کہ لوگوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور وہ احساس مسئولیت بھی کریں ۔(25)
ممکن ہے جناب فاطمہ زہراء کے اقوال کو ہم اس طرح تقسیم کریں ۔
خود امامت اور ولایت کے بارے فرامین۔
مولا امیر المومنین کے فضائل و قصائد کے فرامین۔
یار و انصار کی سستی اور انکی سرزنش کے بارے اقوال۔
خلافت کے غصب کئے جانے کے بارے میں اقوال ۔
خود امامت و ولایت کے بارے فرامین.
1 مثل امام مثل کعبه ہے .
حضرت فاطمه زهرا علیها السلام نے فرمایا: مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتی وَ لاتَأتی؛ (26) امام کی مثال کعبہ کی ہے، کہ لوگ طواف کرنے کیلئے کعبہ کے پاس آئیں اور آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا ۔
اس حدیث شریف کا جانب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر امیر المومنین حق پر تھے و خلیفہ اول نے انکے حق کو غصب کیاتھا تو امیر المومنین نے اپنے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا اور قیام کیوں نہیں فرمایا؟تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ امام کی مثال کعبہ کی ہے کہ حجاج کرام طوف کیلئے خود کعبہ کے پاس آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا یہاں بھی لوگ آتے امیر المومنین کی بیعت کرنے نہ یہ کہ امام جاتے ، لوگ امیر المومنین کے پاس نہیں آئے اور راہ کو بھی گم کر بیٹھے۔
2. امام پیغمروں کا وارث ہوتا ہے۔
فاطمه زهرا علیها السلام نے فرمایا : نَحنُ وَسیلَتُهُ فی خَلقِه وَ نحن خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدسِهِ وَ نَحنُ حُجَّتُهُ فی غَیبِهِ وَ نحن وَرَثَة اَنبیائِه؛ (27) ہم اہلبیت ہی ہیں جو اللہ اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں خدا متعال کے منتخب شدہ اور پاکیزہ افراد ہیں ، خدا کی حجت ہیں اور اسکے انبیاء کے وارژ ہم اہلبیت ہی ہیں۔
اس اوپر والی حدیث میں جناب سیدہ نے امامت کے چار وظیفوں کو اور ذمہ داریوں کی طرف اژارہ فرمایا ہے ، ایک یہ کہ امام خالق اور اسکی مخلوق کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے، دوسرا یہ کہ امام خدا کا منتخب نمایندہ ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ امام زمین پر اللہ کی طرف سے حجت ہوتا ہے اور آکری یہ کہ اسکے انبیاء کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ زیارات میں ہم یہی پڑھتے ہیں خصوصا زیارت وارث میں کہ السلام علیک یا وارث آدم صفوۃ اللہ۔۔۔۔۔۔۔
جس شخص کو لوگوں نے انتخاب کیا تھا اس میں مذکورہ صفات میں کوئی ایک صفت بھی نہیں تھی، جناب سیدہ یہ بات واضح کر رہی ہیں کہ کہ اگر جانشین خود ہی انتخاب کرنا ہے تو اسکےلئے بھی معیار و ملاک صحیح ہونا چاہئے۔
3. امام امت کیلئےنظم و اتحاد کا سبب ہوتا ہے
حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں فرمایا : فَجَعَلَ اللّهُ...طاعَتَنا نِظاماً لِلملةِ وَ اِمامَتَنا اَماناًلِلفُرقَة؛ (28)خداوند متعال ہماری(اهل بیت) کی پیروی کو امت اسلامی کا نظام قرار دیا ہے ، اور ہماری ولایت و امامت کو عامل وحدت قرار دیا ہے اسی کو سبب بنایا ہے کہ امت اسلام فرقوں میں تقسیم نہ ہو ۔
ایک اور مقام پر اس عامل وحدت یعنی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کر کے فرماتی ہیں : اَمَا وَ اللّهِ لَو تَرَکُوا الحَقَّ عَلَی اَهلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِترَةَ نَبیّهِ لَمَا اختَلَفَ فِی اللّهِ اثنَان؛ (29) خدا کی قسم اگر لوگ حق امامت کو اسکے اہل کو دے دیتے اور عترت رسول خدا کی اطاعت کرتے تو خدا کے بارے (اور اسکے احکام ) کے بارے اس عالم میں دو افراد بھی اختلاف نہ کرتے ۔
یہ حدیث شریف یہ بیان کرتی ہے امامت امام بر حق صرف امت کی اجتماعی و سیاسی وحدت کا سبب ہے بلکہ امت اسلام کی اعتقادی و عقیدتی وحدت کا سبب بھی ہے، ائے کاش امامت کو امام بر حق کے پاس رہنے دیتے تو بشریت بالعموم اور امت اسلام بالخصوص اس سعادت سے محروم نہ ہوتی۔
فاطمہ زہراء کے اقوال جن میں فضائل امیر المومنین بیان فرمائے .
1.علی میرابهترین خلیفه ہے.
حضرت زهرا علیها السلام نے اپنے والد محترم جناب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا : علیٌّ خیر من أخلّفه فیکم؛(30) علی سب سے بہتر ہے جسکو مین تمہارے درمیان جانشین بنا کر جا رہا ہوں.
اس حدیث مین پیغمبر اکرم نے اپنے جانشین کی تصریح فرمائی کہ وہ علی ہیں اور تم میں سب سے بہتر ہیں ، لہذا کہیں اور میرا جانشین تلاش نہ کرنا۔یہ حدیث بھی جناب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں تلاوت کی جس نے جناب سیدہ سے تقاضا کیا کہ آیا پیغمبر اکرم نے غدیر کے علاوہ کسی اور جگہ اور کسی اور حدیث مین اپنی جانشینی کا اعلان کیا ہےیا نہ؟ تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ ہاں بہت سارے مقامات پر اپنی جانشینی کے بارے فرمایا ہے من جملہ یہ حدیث بھی اپنی جانشینی کے متعلق ہے۔
2.علی رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کا بھائی ہے .
خطبہ فدکیہ میں جب آپنے بابا کی معرفی کراتی ہے تو امیر المومنین کی بیی پہچان کراتی ہیں ، کہ اگر میرے بابا کوجانتے ہو تو میرے شوہر امیرالمومنین کو بھی پہچانو فرمایا:اخا ابن عمی دون رجالکم (31)میرا شوہر رسول اللہ اور میرے والد کا بھائی ہے کسی اور کا بھائی نہیں۔
"یہ بات تو واضح ہے کہ اگر کوئی کسی کے چچا کا بیٹا ہو ،دوسرے طرفف والا بھی اسکے چچا کا ہی بیٹا ہو گا، لیکن فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا یہاں پر امیر المومنین کو رسول اللہ کا بھائی معرفی کرا رہی ہیں ، اس نسبت دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان یہ تو جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام نے جب مہاجرین و انصار کے درمیان بھائِ چارا ایجاد کیا تو امیر المومنین اور اپنے درمیان صیغہ اخوت پڑھا اس کے بعد علی امیر المومنین رسول اللہ کا بھائی معروف ہو گئے ، اس خطبہ دینے کا مقصد و ہدف در حقیقت امیر المومنین کی امامت و ولایت کا اثبات کرنا ہے اور یہ اشارات در حقیقت اسی مقصود کیلئے براعت استہلال (32)کی حیثیت رکھتے ہیں ۔(33)
3.شجاعت امام علی.
فاطمہ زہراء نے امیر المومنین کی شجاعت کے بارے خطبہ فدکیہ میں فرمایا: قذف أخاه فی لهواتها فلا ینکفی حتّی یطأصماخها باصمخه و یخمد لهبها بسیفه پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم اپنے بھائی علی کو فتنوں کے درمیان اور ان درندوں کے منہ میں ڈال دیتے اور امیر المومنین مشرکین کے ساتھ اس وقت تک جنگ کرتے جب تک انکے بڑوں کو اپنے پاوں کے نیچے روند نہ ڈالتے ،انکی بھڑکتی آگ کو امیر المومنین اپنی تلوار سے خاموش کرتے۔ (34)
4.عبادت امیر المومنین با زبان صدیقه طاهره.
جناب سیدہ نے امیر المومنیں کی عبادت کے بارے فرمایا : مکدوداً فی ذات اللّه، و مجتهداً فی أمر اللّه، قریباً من رسول اللّه سیّد أولیاء اللّه.... لاتأخذه فی اللّه لومة لائمٍ (35) ۔ علی خدا مین راہ میں سخت کوشش کرنے والے اور اسکے معاملات میں بھی نہایت جدوجہد کرنے والے ، رسول اللہ کے قریب اور اوصیاء الہی کے سید و سردار و آقا ہیں۔۔۔۔۔۔راہ خدا میں کسی کی ملامت و سرزنش کرنے والے ملامت و سرزنش کی پرواہ نہیں کرتے ، اس حدیث کا ہدف و مقصد لوگوں کو بیدار کرنا ہے کہ جان لو خلیفہ رسول کو رسول اللہ کے ساتھ کچھ مناسبت ہونی چاہئے ، علی پیغمبر کا بھائی ہے علی کو بہادری اور عبادت میں دیکھو ، سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا یہی علی ہی ہیں و خلافت کا اہل وہی ہے جو اس طرح ہو۔
فاطمہ زہراء کے اصحاب و انصار کی سستی کے باارے فرامین۔
فاطمہ زہراء نے مہاجرین اور انصار کی خواتین کو خطاب کر کے فرمایا: فقبحاً لفلول الحدّ و خور القناۃ و خطل الرای(36) کتنے برے ہیں وہ مرد جن میں مردوں والی صفات نہیں جنکی تلوار کی تیز نوک کند اور ٹوٹ گئی ہے اور نیزہ اب بیکار ہو گیا ہے کہ کسی کام کا نہیں۔(37)
و ما الّذی نقموا من أبی الحسن نقموا منه و اللّه نکیر سیفه...؛کیا چیز سبب بنی ہے کہ امیر المومنین کی عیب تراشی کریں اور اس سے انتقام لیں، خدا کی قسم انہوں نے امیر امومنین کی عیب تراشی اور انتقام لیا اس لئے کہ علی کی تلوار اپنے اور غرک بہادر اور بزدل کو نہیں جانتی تھی بلکہ جو بھی دشمن خدا ہوتا اسکو قتل کر دیتی تھی۔ (38)
اپنے معروف خطبہ جو مسجد میں دیا تھا اس کے ایک حصہ میں انصار کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں : یا معاشر الفتیة و أعضاد الملّة، و أنصار الاسلام، ما هذه الغمیزة فی حقّی، و السّنة عن ظلامتی، اما کان رسول اللّه صلّی اللّه علیه و آله أبی یقول المرء یحفظ فی ولده.. و لکم طاقةٌ بما أحاول، و قوّةٌ علی ما أطلب و أزاول. (39)ائے ملت کے بہادر جوانو، ائے ملت کے بازو و اسلام کے مددگار یہ ہمارے حق میں غفلت اور سستی کیوں اپنا رکھی ہے، اور میرے حق طلب کرنے میں کیوں آسانی سے کام لے رہے ہو؟ آیا میرے بابا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ مرد کی عزت و حرمت کا اسکی اولاد کے بارے خیال رکھا جائےااور اسکی حفاظت کی جائے۔ کتنے جلدی برے اعمال کے مرتکب ہو گئے ہو اور تم نے بہت جلد صراط مستقیم و راہ ہدایت و ترک کر دیا ہے اور راہ ضلالت پر قدم رکھ لیا ہے در حالانکہ تم میں قدرت اور طاقت ہے کہ ہم جو مطالبہ کر رہے ہیں ہمارا حق ہم کو لیکر دے سکتے ہو اور ہماری مدد کر سکتے ہو۔
ایک اور خطبہ جس میں عہد توڑنے والوں اور لوگوں کی سستی اور کاہلی کی ملامت کی اس میں فرماتی ہیں : معاشر النّاس المسرعة الی قیل الباطل، المضیة علی الفعل القبیح الخاسر أفلا یتدبّرون القرآن أم علی قلوبٍ أقفالها؛ (40)آئے وہ لوگو جنہوں نے باطل و آواز لبیک کہنے میں بہت جلدی کی ہے،اور بد اور برے اعمال اور ایسے اعمال جن مین گھاٹا ہی گھاٹا ہے اس پر خاموش ہو، گویا کچھ ہوا ہی نہیں !قرآن میں کیوں غور و فکر نہیں کرتے آیا آپکے دلوں پر تالے لگائے جا چکے ہیں، نہیں بلکہ یہ آپکے برے اعمال ہیں جنہوں نے آپکے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور آپکے کانوں اور آنکھوں سے سننے اور دیکھنے کی طاقت کو سلب کر لیا ہے، اسلام کی کتنی بد تاویل کی ہے اور آپ کتنی بری اور بد رائے اور نظر کے مالک ہیں، اور کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے! یقینا اس غلطی اور خطا کا انجام نہایت سخت پاو گے اس دن جب آپکے دل و کان و آنکھ سے پردہ آٹھایا جائے گا اور ان اعمال کی سزا اور وہ عذاب جو خدا نے آپکے لئے آمادہ کیا ہے جسکا آپ کو گمان ہی نہیں ، ظاہر ہو گا اور اس دن جنہوں نے باطل کی پیروی کی ہو گی خسارہ میں ہوں گے
خلافت کا اسکے اہل سےغصب ہونے کے بارے اقوال.
حضرت زهرا علیها السلام اس خطبہ میں جو انہوں نے مہاج اور انصار کی خواتین کے درمیان پڑھا اس میں فرماتی ہیں : ویحهم أنّی زعزعوها عن رواسی الرّسالة و قواعد النّبوّة و الدّلالة و مهبط الرّوح الأمیں .(41)..؛ ویل اور بدبختی ہو ان پر ! کیون خلافت کو رسالت کے مرکز سے و اساس نبوت و رہنما سے اور جبرئیل امین کی نزول کی جگہ سے باہر لے گئے ہیں ؟ رسول الله نے خلافت کے لئے علی کو مقرر فرمایا تھا حضرت زهرا علیها السلام نے فرمایا: علی خیر من اخلفه ،(42) کہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ علی تم میں سب سے بہتر ہیں جسکو میں خلیفہ بنا رہا ہوں ، اور اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام بھی قنفذ کو فرماتے ہیں : کیوں خدا اور اسکے رسول پر جھوٹ باندھا ہے ، رسول اللہ نے میرے علاوہ کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا ہے۔ (43)
حضرت ام سلمی ب جناب زہراء کی عیادت اور احوال پرسی کیلئے تشریف لائیں اور : کیف اصبحتِ وہاں فرمایا: أصبحت بین کمدٍ و کربٍ فقد النّبی و ظلم الوصیّ هتک و اللّه حجابه من أصبحت إمامته مقتضبة علی غیر ما شرع اللّه فی التّنزیل و سنّها النّبیّ فی التّأویل (44)میں نے صبح کی ہے حالانکہ اپنے آپ کو دو سخت ترین غموں میں پایا ۔
1. میرا جگر اپنے باا کی جدائی کی وجہ سے خون بن گیا ہے۔
2. اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللہ کے وصی کے ساتھ کیا گیا نہایت غمگین و غصہ میں ہےخدا کی قسم امیر المومنین علی علیہ السلام کی توہین کی گئی آپ نے صبح کی در حالانکہ خلافت و لوٹ گئ اور کتاب خدا اور سنت رسول کے خلاف رفتار اپنائی ہے اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللہ کے وصی کے ساتھ ہوا ہے ا س پر جل چکا ہے ، خدا کی قسم امیر المومنین کی عزت و حرمت کو پائمال کیا گیا ، امیر المومنین علیہ السلام صبح کو بیدار ہوئے کہ خلافت و امامت کو چھین لیا گیاتھا، اور انہوں نے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم کی سنت کے مخالف راہ کواپنا یا. (45)
جب انہوں نے جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے گحر پر حملہ کیا تو رسول اللہ کی بیٹی لوگوں کو دروازے کے پیچھے سے ان الفاظ کے ساتح مخاطب ہوئیں: لا عهد لی بقومٍ حضروا اسوء محضراً منکم...لم تستأمِرونا و لم تردُّوا لنا حقّا کانّکم لم تعلموا ما قال یوم غدیر خمّ؛ (46)مین سے بد تر قوم کو نہیں جانتی جو آپ جیسا سلوک کرے ۔۔۔۔۔۔ ہم سے حکم نہیں لیا اور ہمارے حق کو واپس نہیں پلٹایا گویا کہ آپ رسول اللہ کے غدیر خم والے فرمان کو جانتے ہی نہیں ہو (کہ وہاں پر رسول اللہ نے ہماری خلافت و امامت کا اعلان فرمایا تھا ).
محمود بن لبید کہتا ہے کہ رسول اللہ کہ رحلت کےبعد جناب زہراء سلام اللہ علیھا ہمیشہ شھداء احد کی مذارات پر اور بالخصوص جناب حمزہ کی مزار پر آےیں اور گریہ فرماتیں ، ایک سن میں بھی جناب حمزہ کی مزار پر گیا تو جناب زہراء کو وہاں پر روتے ہوئے پایا ، جیسے ہی جناب سیدہ نے رونا بند کیا تو جلدی سے ان کے پاس گیا اور عرض کی آئے بہشتی خواتین کی سردار خدا کی قسم آپ کے رونے نے میرے دل کر ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جناب سید ه نے جواب میں فرمایا اے ابو عمر مجھے حق ہے کہ میں گریہ کروں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے باپ کا غم مجھے ملا ہے اور مجھے جناب رسول اللہ کے دیدار کا کتنا شوق ہے !
اس کے بعد یہ اشعار پڑھے :
کسی کے دنیا کے چلے جانے کے بعد جتنا وقت گزرتا جائے گا اس کا نام اور یادکم ہوتا جاتا ہے
لیکن خدا کی قسم میرے بابا کے چلے جانے کے بعد ان کا نام اور اسکی یاد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے
محمود کہتا ہے میں نے عرض کیا اے میری سردار میں چاہتا ہوں کیا آپ سے ایک سوال پوچھوں جس نے میرے دل کو ہمیشہ مشغول کر رکھا ہے .تو جناب زہرا نے فرمایا پوچھو، تو میں نے عرض کیا آیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحلت سے پہلے علی کی امامت کے بارے میں کچھ خاص ارشاد فرمایا تو جناب سیدہ نے فرمایا تعجب ہے کیا آپ نے غدیر خم کے واقعے کو فراموش کر دیا ہے .تو میں نے عرض کیا کہ نہیں میں غدیر خم کو بھولا نہیں ہوں ،لیکن میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ نے اگر کوئی خاص راز امامت علی کے بارے میں بیان فرمای اہے تو وہ آپ سے سنو، تو اس کے جواب میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: میں خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کے علی تم سب سے افضل ہیں جس کو میں تمھارے درمیان اپنا جانشین اور خلیفہ قرار دے رہا ہوں وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہے اور ان کے بعد میرے بیٹے حسن اور حسین اور جناب حسین علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے نوفرزند امام ہیں جو پاک و پاکیزہ ہیں اگر ان کی اطاعت کرو گے تو ان کی رہنمائی میں آپ ہدایت پا لو گے اور اگر مخالفت کرو گے تو قیامت تک اختلاف اور تفرقہ میں پڑے رہوگے اور یہ عذاب تم سے اٹھایا نہیں جائے گا. (47)
طلحہ کی بیٹی عائشہ کے جواب میں جناب زہرا نے فرمایا جب اس نے جناب زہرا کو گریہ کرتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اتنا کیوں روتی ہیں، تو جناب زہرا نے فرمایا: مجھ سے اس غم کے بارے میں پوچھتی ہیں جو جب پورے عالم پر پھیل چکا ہے اس کی گرد و غبار آسمان تک چلی گئی ہے اور اس کی تاریکی نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، قبیلہ تیم جو کے ابوبکر کا قبیلہ تھا پست ترین قبیلوں میں سے تھا اور عدی جو عمر کا قبیلہ ہے ظالم ترین قبیلے سے تھا انہوں نے علی کے اوپر ظلم و ستم کیے اس میدان میں انہوں نے آپس میں مقابلہ کیا کہ علی پر سبقت لے جائیں لیکن جب سبقت نہ لے سکے تو تو علی علیہ الصلاۃ والسلام کے خلاف بغض اور کینے کو دلوں میں چھپائے رکھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اس کینہ کو ظاہر کیا اور علی کے اوپر ظلم کو جائز سمجھا. . (48)
جناب زہرا سلام اللہ علیہا کہ ان اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو خلافت کے غصب ہونے کا کتنا دکھ تھا اور لوگوں کو اس طرح کے واضح کلمات سے ولایت کی طرف متوجہ کرتی تھیں اور ان کے احساسات کو بیدار کرتی تھی.
ولایت کے دفاع کے متعلق جناب زہرا کے افعال
۱۔گریہ سے استفادہ
جناب زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے چلے جانے کے بعد بہت گریہ فرماتی تھیں یہاں تک کہ مدینہ کے بڑے بڑے لوگ امیرالمومنین کے پاس آئے اور کہا کے رسول اللہ کی بیٹی سے کہو یا دن کو گریہ کرے یا رات کو روئے.
روایات میں وارد ہوا ہے کہ دنیا میں پانچ از خاص تھے جنہوں نے بہت زیادہ گریہ کیا پہلے حضرت آدم علیہ السلام دوسرے یعقوب علیہ السلام تیسرا یوسف علیہ السلام اور چوتھی جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور پانچویں جنابے امام سجادعلیہ السلام
حضرات زہرا سلام اللہ علیہ کا گریہ اپنے بابا کی جدائی کے لیے فقط نہیں تھا کیوں کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا مقام تسلیم کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں بلکہ بی بی کا گریہ اس لئے تھا کہ یہ اسلامی معاشرہ کیوں انحراف کی راہ پر چل پڑا ہے اس انحراف کے مقابلہ کے لیے بی بی کا اسلحہ یہی آنسو تھے اور یہی رونا ہی ولایت پر ظلم کرنے والوں کو برداشت نہیں ہوتا تھا کیوں کہ جناب زہرا اسی رونے کے ذریعے سے معاشرے کو شعور دیتی تھیں اور مظلومیت کو روشن فرماتی تھیں اس مطلب کا گواہ جناب زہرا کا وہ جملہ ہے جو اپنے ام المومنین ام سلمہ کو فرمایا تھا جب جناب ام سلمہ نے آپ سے حالات کا پوچھا؟
تو فرمایا:أصبحت بین کمدٍ و کربٍ فقد النّبی و ظلم الوصیّ هتک و اللّه حجابه من أصبحت إمامته مقتضبة علی غیر ما شرع اللّه فی التّنزیل و سنّها النّبیّ فی التّأویل میں نے صبح کی ہے حالانکہ اپنے آپ کو دو سخت ترین غموں میں پایا ۔
1.میرا جگر اپنے باا کی جدائی کی وجہ سے خون بن گیا ہے۔
2. اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللہ کے وصی کے ساتھ کیا گیا نہایت غمگین و غصہ میں ہےخدا کی قسم امیر المومنین علی علیہ السلام کی توہین کی گئی آپ نے صبح کی در حالانکہ خلافت لوٹ گئ اور کتاب خدا اور سنت رسول کے خلاف رفتار اپنائی ہے اور میرا دل اس ظلم پر جو رسول اللہ کے وصی کے ساتھ ہوا ہے ا س پر جل چکا ہے ، خدا کی قسم امیر المومنین کی عزت و حرمت کو پائمال کیا گیا ، امیر المومنین علیہ السلام صبح کو بیدار ہوئے کہ خلافت و امامت کو چھین لیا گیاتھا .(49)
2. انصار کے گھر جانا .
بہت ساری روایات میں وارد ہوا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام رسول اللہ کی رحلت کے بعد اور خلافت کے غصب ہونے کے بعد یہ کام کرتے تھے کہ ان عليا حمل فاطمة على حمار و سار بها ليلا إلى بيوت الأنصار يسألهم النصرة و تسألهم فاطمة الانتصار له فكانوا يقولون يا بنت رسول الله قد مضت بيعتنا لهذا الرجل لو كان ابن عمك سبق إلينا أبا بكر ما عدلنا به فقال علي أ كنت أترك رسول الله ميتا في بيته لا أجهزه و أخرج إلى الناس أنازعهم في سلطانه و قالت فاطمة ما صنع أبو حسن إلا ما كان ينبغي له. فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ایک سواری پر سوار کرتے اور ساتھ مہاجرین کے گھروں کی طرف چل پڑتے اور ان کے دروازوں پر دستک دیتے اور ان لوگوں سے مدد طلب کرتے اور جناب فاطمہ زہرا بھی نصرت کا تقاضا فرماتیں، تو وہ لوگ جواب میں کہتے، کہ اب ہم نے ابو بکر بیعت کر لی ہے اگر علی علیہ السلام ان سے پہلے آتے اور بیعت کا تقاضا کرتےتو اس کی بیعت کرتے اب ہم ابوبکر کی بیعت سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ یہاں پر حضرت علی فرماتے: آیا رسول اللہ کے جنازے کو چھوڑ دیتا اور خلافت اور سلطنت کے لئے لوگوں کے پاس جاکر جھگڑا کرتا؟؟ تو یہاں پر جناب زہراء فرماتی تھیں امیر المومنین نے وہ کام کیا ہے جو کرنا چاہئے تھا. .(50)
3.اپنی جان سے امیر المومنین کا دفاع.
جب وہ لوگ امیر المومنین کوایک غلام کی طرح مسجد کی طرف لے کر جا رہے تھے، يجرّونه إلى المسجد، فحالت فاطمة بينهم و بين بعلها و قالت و اللّه لا أدعكم تجرون ابن عمّي ظلما، (51)تو جناب زہراء ان لوگوں کے درمیان اور اپنےشوہر امیرالمومنین کے درمیان حائل ہو گئیں اور فرمایا کہ میں ہرگز اپنے شوہر کو نہیں چھوڑوں گی کہ آپ اس طرح ظلم کے ساتھ اس کو لے جائیں تو یہاں پر قنفذ ملعون نے اپنے مولیٰ کے حکم سے بی بی کو ایک تازیانہ مارا جس سے بی بی کے شکم میں جو بچہ تھا وہ شہید ہو گیا اور بی بی بے ہوش ہوگئیں ،جب ہوش آیا اور متوجہ ہوئیں کہ میرے شوہر کو وہ لوگ لے گئے ہیں تو بی بی نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور بچے کے سقط والا درد اور تازیانے والے درد کو بھول گئی اور خود کو مسجد تک پہنچایا امیر المومنین کے دامن کو تھاما اور اپنی طرف کھینچا انہوں نے جناب زہراء کے ہاتھ کو زور سے جدا کیا تو یہاں پر جناب زہرا نے فرمایا:فَقَالَتْ لَهمْ خَلُّوا عَنِ ابْنِ عَمِّي فَوَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً أَبِي ص بِالْحَقِّ إِنْ لَمْ تُخَلُّوا عَنْه لَأَنْشُرَنَّ شَعْرِي وَ لَأَضَعَنَّ قَمِيصَ رَسُولِ اللَّه ص عَلَى رَأْسِي وَ لَأَصْرُخَنَّ إِلَى اللَّه تَبَارَكَ وَ تَعَالَى. (52)میرے شوہر کو چھوڑ دو اگر نہ چھوڑا تو خدا کی قسم جس نے محمد کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایامیں اپنے بالوں کو پریشان کروں گی اور اپنے سر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی قمیض کو سر پر رکھوں گی اور غاصبین کے لئے بد دعا کرو گی۔
ایسے موارد جو قول و فعل سے مرکب ہیں.
1.مطالبه فدک.
جیسا کہ ہم نے پہلے فدک کی بحث میں یہ بات عرض کی ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو فدک ہیہ فرمایا تھا ۔جیسے ہی خلیفہ اول اقتدار پر آئے تو انہوں نے یہ فدک فاطمہ زہرا سے غصب کرلیا تو جناب فاطمہ زھرا ءنے مسجد میں جاکر اس فدک کا مطالبہ کیا اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جو کہ خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہیں.
سوال یہ ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے فدک کا مطالبہ کیوں کیا؟؟؟
یہاں پر جناب آقای وحید خراسانی کا قول نقل کرتا ہوں وہ فرماتے ہیں کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا وہ بی بی تھیں جو جانتی تھیں کہ اپنے اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہ کی ملاقات کریں گی اور رسول اللہ کے ساتھ ملحق ہو جائیں گی ایسا شخص مال دنیا کے لیے اور روٹی کیلئے پریشان نہیں ہوتا،اور اپنے بچوں کی بھوک اور پیاس کے لیے بھی پریشان نہیں ہوتا۔
زہرا وہ ہستی ہیں کہ جن کے بارے خداوند متعال قرآن میں فرماتا ہے وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَ لاَ شُكُوراً (53)
خود جناب زہراء بھی بھوکی رہتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی روٹی نہیں دیتی ان سے بھی روٹی لے کر یتیم مسکین اور قیدی کو دے دیتی ہیں ایسای خاتون دنیا کے لئے کیسے جاکر مطالبہ کرتی ہے.
ایسی خاتون فقط فدک کے لیے مطالبہ نہیں کررہی تھی، بلکہ بی بی کا مقصد یہ تھا کہ اگر آج خاتم النیین کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے اور اس کو حق نہ دیا جائے تو کل امت کے حق کے ساتھ کیا ہو گا اور وہ کون ادا کرے گا ؟؟بی بی کا غم و رنج یہ تھا کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر ایسا شخص بیٹھا ہے جس کو وراثت کے احکام نہیں آتے، تو کل عمربن خطاب بیٹھے گا جس کے بارے میں صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ عمر کو تیمم کےاحکام کا بھی پتہ نہیں تھا، وہ اس مسند پر بیٹھے گا جو ختم المرسلین کی ہے اور اگر یہ بیٹھے تو اسکےبعد ولید بن عبدالملک بھی بیٹھے گا اور پھر ہارون اور مامون بھی بیٹھیں گے اس طرح بعثت انبیاء کا جو مقصد ہے وہ ختم ہو کر رہ جائے گا.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک کا مطالبہ جیسا کہ ابن ابی الحدید اور اس کے استاد نے بھی اعتراف کیاہے ، یہ مطالبہ فقط اور فقط مالی لحاظ سے نہیں تھا بلکہ اس کا اصل ہدف سیاسی تھا اور یہ فقط ایک بہانہ تھا جس کے وسیلے سے بی بی زہرا یہ چاہتی تھی کہ خلافت کے حق کو واپس علی علیہ الصلاۃ و سلم کی طرف لوٹا دیں جو انکا حق ہے۔. (54)
2.حکام وقت سے ناراضگی.
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رحمت اللعالمین کی بیٹی ہیں اور ایسی بی بی ہیں کہ رسول اللہ فرماتے ہیں : يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّه تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَيَغْضَبُ لِغَضَبِكِ وَ يَرْضَى لِرِضَاكِ (55) اگر یہ ناراض ہو تو خدا بھی ناراض ہو جاتا ہے ایسی خاتون دنیا کے مال کے لیے کسی پر ناراض نہیں ہوتیں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ گریہ ناراض ہوتو خدا ناراض ہوتا ہے اور خاتون راضی ہوجائیں تو خدا بھی راضی ہوجاتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس خاتون کی ناراضگی کسی اور وجہ سے تھی مال دنیا کے لیے نہیں تھی، اور وجہ وہی تھی جو جناب زہرا نے ام سلمہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ وصی رسول اللہ کے ساتھ ظلم ہوا ہے جس کی وجہ سے مجحے بہت دکھ ہوا.
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی ناراضگی کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا.
جب وہ دونوں جناب زہرا سلام اللہ علیہ کی عیادت کے لیے آئیے پہلے جب اجازت مانگی تو پہلے اجازت نہیں دیم پھر ان نے حضرت امیرالمومنین کو سفارشی بنایا، پھر جب جناب زہرا کے پاس آئے اور بیٹھے تو جناب زھرا نے ان سے اپنا منہ پھیر لیا اور دیوار کی طرف کر لیا پھر انہوں نے سلام کیا تو جناب زہراء نے ان کے ا سلام کا جواب بھی نہیں دیا پھر ابوبکر نے اس طرح گفتگو کا آغاز کیا، آئے رسول اللہ کی محبوب بیٹی خدا کی قسم رسول اللہ کے اہلبیت مجھے اپنے اہل بیت سے بھی زیادہ محبوب ہیں اور آپ مجھے اپنی بیٹی عائشہ سے بھی زیادہ محبوب ہیں اے کاش جس دن آپ کے بابا اس دنیا سے چلے ہیں اس دن زندہ نہ ہوتا اور مر چکا ہوتا، آپ کو یہ گمان ہے کہ مجھے جب آپ کی فضیلت اور شرف کا پتا ہے تو آپ کو آپ کے حق سے محروم ہرکھوں گا ؟ ور اس ارث کے حصہ سے جو رسول اللہ کی طرف سے اب تک پہنچنا یا اس سے آپ کو روکوں گا؟؟؟
میں نے آپ سے فدک کو اس لیے لیا ہے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ فرما رہے تھے ہم جو کچھ چھوڑ کر جا ئیں وہ صدقہ ہوتا ہے.
یہاں پر جناب زہرا نے فرمایا کہ آپ مجھے یہ بتاؤ گے اگر رسول اللہ کی حدیث آپ کے سامنے پڑھوں تو کیا اس کو پہچان لو گےاور اس پر عمل کرو گے،تو انہوں نے کہا ہاں.تو فرمایا:
فقالت:نشدتكما اللّه ألم تسمعا رسول اللّه يقول: رضا فاطمة من رضاى، و سخط فاطمة من سخطي، فمن أحبّ فاطمة ابنتى فقد أحبّنى، و من أرضى فاطمة فقد أرضانى، و من أسخط فاطمة فقد أسخطني؟ قالا: نعم سمعناه من رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله، قالت: فإنّي اشهد اللّه و ملائكته أنكما أسخطتماني و ما أرضيتماني، و لئن لقيت النّبي لأشكونكما إليه.(56) میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتی ہو کے آیا رسول اللہ سے یہ حدیث نہیں سنی کہ فرمایا: فاطمہ کی رضا میری رضا ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا.
تو یہاں پر ان دونوں نے کہا ہم نے رسول اللہ سے یہ حدیث سنی پھر اس کے بعد جناب زہرا نے فرمایا کہ میں خد ااور اس کے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ آپ دونوں نے مجھے ناراض کیا مجھے راضی نہیں کیا پیغمبر سے ملاقات کروں گی تو آپ کی شکایت کروں گی۔
مخفی دفن ہونا
اسی طرح بی بی کا مخفی دفن ہونا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خاتون کتنی ناراض تھیں شیخ صدوق نے علل الشرائع میں ایک باب
باب العلة التي من أجلها دفنت فاطمة بالليل و لم تدفن بالنهار کے عنوان سے لکھا ہے,
اس باب میں امام صادق علیہ السلام سے روایات نقل ہوئی ہیں کہ جس میں امام صادق فرماتے ہیں کہ: دُفِنَتْ فَاطِمَةُ ع بِاللَّيْلِ وَ لَمْ تُدْفَنْ بِالنَّهارِ قَالَ لِأَنَّها أَوْصَتْ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْها رِجَالٌ [الرَّجُلَانِ]. (57)فاطمہ زہرا کو رات میں دفن کیا گیا دن کو دفن نہیں کیا گیا اس لیے کہ جناب زہرہ نے وصیت کی تھی کہ وہ دو مرد میرے جنازے میں شریک نہ ہوں ، حالانکہ ابن عباس نے امیر المومنین کو مشورہ دیا تھا کہ میں لوگوں کو اطلاع دوں گا لیکن امیر المومنین نے ابن عباس کے مشورہ دینے کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا. لِرَأْيِكَ فَضْلُه، إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّه (صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَ آلِه) لَمْ تَزَلْ مَظْلُومَةً مِنْ حَقِّها مَمْنُوعَةً، وَ عَنْ مِيرَاثِها مَدْفُوعَةً،...... فَإِنَّها وَصَّتْنِي بِسَتْرِ أَمْرِها. (58)
رسول اللہ کی یہ بیٹی ہمیشہ سے مظلوم رہی ہے اور اپنے حق سے بھی اس کو منع کیا گیا اور اس کی میراث کو بھی چھین لیا گیا پھر امیر المومنین نے فرمایا کہ فاطمہ زہرہ نے مجھے ایسی وصیت کی کہ میرے معاملہ یہیں کفن ودفن کو مخفی رکھنا
اس مخفی دفن ہونے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب فاطمہ زہرا جب یہ بھی نہیں چاہتی کہ یہ لوگ میرے جنازے میں شریک ہو کتنی ناراض تھیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیبیاں کا ناراض ہونا دنیا کے مال کی خاطر نہیں تھا جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے بیبی کیلئے یہ مخفی دفن ہونا اتنا اہم تھا کہ جناب زھرا نے علی علیہ السلام کو فرمایا اگرآپ میرے اس معاملے کو یعنی دفن کو مخفی نہیں رکھ سکتے تو میں کسی اور کو وصیت کروں گی کہ وہ مجھے مخفی دفن کرے ۔. (59)
_____________________
1 شیرازی ، ناصر مکارم ،پیام قرآن مقدمہ ج۹
2 تحف العقول ص ۷۹۶ ابن شعبہ حرانی ترجمہ صادق حسن زادہ انتشارات آل علی چ ۱۲ سال ۱۳۸۹
3 الامالی شیخ صدوق ابن بابویہ، ناشر کتابچی تہران ،۱۳۷۶ ششم۔ ص ۱۳۵
4 الکافی ج ۱ ص ۴۵۹ کلینی محمد بن یعقوب دار الکتب الاسلامیہ تہران ۱۴۰۷ چاپ چہارم ،ہشت جلدی، ونہج البلاغہ مصحح صبحی صالح خطبہ ۲۰۲ ص ۳۱۹
5 سورہ مبارکہ،حج 38
6 بستانی،فواد افرام، ترجمہ ، مہیار، رضا،فرہنگ ابجدی فارسی و عربی ج 1 ص 996 ناشر اسلامی تہران، سال چاپ 1376.
6 فراہیدی، خلیل بن آحمد،کتاب العین ج 5 ص 81 انتشارات اسوہ، 1383، چاپ دوم
7 خطبہ فدکیہ قذف اخاہ لہواتہا .........
8 ہمان اخا ابن عمی دون رجالکم.....
9 رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 64، 65مصباح یزدی. انتشارات موسسہ امام خمینی قم 1392. اول
10 خطبہ فدکیہ .
11 تحقیق دربارہ زندگی ام ابیہا ص 246 سید محمد کاظم قزوینی ترجمہ احمد صالحی چ دوم 1386 نشر محمد.
12 خطبہ فدکیہ .
13 القرآن
14 طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین ج 5 ص 283 ، انتشارات مرتضوی، سوم 1375.
15 شیرازی. مکارم بر ترین بانوی جہان ص 51، انتشارات سرورچاپ چہاردہم ، سال 1386ش
16 تاریخ سیاسی صدر اسلام ، کتاب سلیم ابن قییس ہلالی،ترجمہ افتخار زادہ محمود رضا انتشارات رسالت قلم ، تہران، ص 314 ،1377،اول
17 قادری، محمد تقی، من فاطمہ ہستم ص 64انتشارات کوثر کویر، چاپ اول، سال 1392 ش.
18 . ناسخ التاریخ، میرزا محمد تقی سپہر، ج3، ص 122، کتابفروشی اسلامیہ، 1354، چ سوم
19 برترین بانوی جہان ص 52
20 سورہ منافقون آیہ 8
21 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، عبد الحمید بن ہبہ اللہ ، ج 16 ص236، 20 جلدی ناشر مکتبہ آیہ اللہ مرعشی نجفی ، قم سال 1404 اول
22 . شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، عبد الحمید بن ہبہ اللہ ، ج 16 ص284، 20 جلدی ناشر مکتبہ آیہ اللہ مرعشی نجفی ، قم سال 1404 اول
23 رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 152مصباح یزدی. انتشارات موسسہ امام خمینی قم 1392. اول
24 رسا ترین دادخواہی و روشنگری، ص 64
25 .کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار 1401
26 شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، مکتبہ آیت اللہ مرعشی ج 16، ص 211؛ 20 جلدی چاپ ، اول1404 و ہمچنین منہاج البراعہ خوئی، حبیب اللہ 21 جلدی ج 20 ص 97 مکتبہ الاسلامیہ تہران 1400 چہارم
27 بخشی از خطبہ فاطمہ زہرا علیہا السلام(س) در مسجد مدینہ، .رک: الاحتجاج، احمد طبرسی، مشہد، نشر مرتضیٰ اوّل 2 جلدی،1403 ق، ج 1، ص 99؛
28 الامامہ و التبصرہ من الحیرہ، ابن بابویہ ، علی ابن الحسین، ص 1 ناشر مدرسہ الامام المہدی، قم سال 1404 چاپ اول .
29 کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار 1401.
30 فرازی از خطبہ فدکیہ
31 . اسکا معنی یہ ہے کہ شاعر یا کاتب شروع میں کچھ ایسے مطالب کو ذکر کرتا ہے کہ سننے والے کو پتہ چل جاتا کہ اسکا موضوع اور مقصد کیا ہے یعنی کس موجوع پر اشعاد کو تیار کیا ہے یا کونسا موضوع کتاب میں درج ہے۔
32 رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 36
33 فراز از خطبہ مشہور فدکیہ ترجمہ از رسا ترین دادخواہی و روشنگری ص 56
34 ہمان
35 خطبہ بہ زنان انصار و مہاجرین معانی الاخبار، صدوق ابن بابویہ، محمد ابن علی دفتر انتشارات اسلامی، 1403 اول، ص256
36 ترجمہ معانی الاخبار محمدی شاہرودی ، عبد العلی، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران 1377 چاپ دوم ج 2 ص 336
37 بحار الانوار، محمد باقر مجلسی ، ج 43، ترجمہ روحانی علی آبادی، محمد، انتشارات مہام تہران 1379 ص 581
38 ہمان ص 831
39 احتجاج طبرسی ، احمد بن علی ناشر مرتضیٰ، مشہد،، 1403 چاپ اول ج 1 ص 106
40 احتجاج طبرسی ص 108
41 کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ، ص 199، خزاز رازی ، علی ابن محمد، ناشر بیدار 1401.
42 کتاب سلیم ابن قیس ، ناشر الہادی قم، 1405، اول ج 2 ص 864
43 مازندرانی، محمد بن علی، مناقب لآل ابی طالب ، ناشرعلامہ، 1379 چاپ اول، ج 2 ص 205
44 رنج ہای و فریاد ہای فاطمہ ، شیخ عباس قمی، ترجمہ محمد محمدی اشتہاردی ص 240 انتشارات ناصر چہارم 1370
45 الامالی شیخ مفید، محمد بن محمد ، ناشر کنگرہ شیخ مفید، 1413 قم، قول ص 50 المجلس السادس.
46 کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر ص 199 ترجمہ پیشوایان ہدایت، ج3، ص: 231 گروہ مؤلفان،مجمع جہانی اہل بیت( ع)،1427 ہ. ق،اول
47 امالی شیخ طوسی محمد بن الحسن دار الثقافہ ج ا ،ص 204 ، قم 1414 چاپ اول ترجمہ پیشوایان ہدایت، ص 232
48 فاطمہ الگو زن مسلمان ، احمد صادقی اردستانی ص 173 دفتر تبلیغات اسلامی و
49 ابن ابی الحدید ج 6 ص 13، بحار الانوار ج 28 ص 352 .
50 .نوادر الاخبار فیما یتعلق باصول الدین،فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضی،مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی،تہران،1371 ش،اول ص 183
51 الاحتجاج طبرسی ج 1 ص 86
52. سورہ مبارکہ انسان
53 حلقہ وصل رسالت و امامت، خراسانی، وحید، ص 64، ناشر باقر العلوم، قم. چاپ ششم، 1393،
54 لامالی،ابن بابویہ، محمد بن علی،کتابچی،تہران،1376 ش،ششم ص 384
55 منہاج البراعہ خوئی، ج 19 ص 181
56 علل الشرائع،ابن بابویہ، محمد بن علی،تعداد جلد،2،کتاب فروشی داوری،قم، 1385 ش، اول ج 1 ص 185
57 لامالی( للطوسی)،طوسی، محمد بن الحسن، دار الثقافة،قم،1414 ق،اول ص 156
58 حلقہ وصل رسالت و امامت وحید خراسانی ص 70
منابع.
1.القرآن.
2.نہج البلاغہ.
3.خطبہ فدکیہ .
4.ابن بابویہ، محمد بن علی،علل الشرائع، تعداد جلد،2،کتاب فروشی داوری،قم، 1385 ش، اول
5.ابن بابویہ ، علی ابن الحسین، الامامہ و التبصرہ من الحیرہ ،ناشر مدرسہ الامام المہدی، قم،1404ہ، اول .
6.ابن بابویہ، محمد ابن علی، معانی الاخبار،ترجمہ، محمدی شاہرودی ، عبد العلی، دفتر انتشارات اسلامی، 1403 اول
7.ابن بابویہ، محمد بن علی،لامالی، کتابچی،تہران،1376 ش،ششم
8.ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ ،شرح نہج البلاغہ ، 20 جلدی ناشر مکتبہ آیہ اللہ مرعشی نجفی ، قم سال 1404 اول
9.اردستانی ،احمد صادقی، فاطمہ الگو زن مسلمان ، دفتر تبلیغات اسلامی
10. بستانی،فواد افرام، ترجمہ ، مہیار، رضا،فرہنگ ابجدی فارسی و عربی ، ناشر اسلامی تہران، سال چاپ 1376.
11.ترجمہ پیشوایان ہدایت،گروہ مؤلفان مجمع جہانی اہل بیت( ع) 1427 ہ. ق اول
12.خراسانی، وحید،حلقہ وصل رسالت و امامت، ناشر باقر العلوم، قم. چاپ ششم، 1393،
13.خزاز رازی ، علی ابن محمد، کفایہ الاثر فی النص علی الآئمہ اثنا عشر، ناشر بیدار 1401.
14.خوئی، حبیب اللہ، منہاج البراعہ ، 21 جلدی مکتبہ الاسلامیہ تہران 1400 چہارم
15. راغب اصفہانی،حسین بن آحمد،مفردات فی غرایب القرآن ،ناشر ذوالقربی، 1416 ق 1375 ش. ذیل کلمہ دفع و دفاع
16.سپہر، میرزا محمد تقی، ناسخ التاریخ، کتابفروشی اسلامیہ، 1354، چ سوم
17.شیخ طوسی ،محمد بن الحسن، امالی، دار الثقافہ ، قم 1414 چاپ اول
18.شیخ مفید، محمد بن محمد ، الامالی، ناشر کنگرہ شیخ مفید، 1413 قم، المجلس السادس.
19.شیرازی، مکارم،بر ترین بانوی جہان ، انتشارات سرور، چاپ چہارم ،1386
20.طبرسی، احمد ، الاحتجاج، مشہد، نشر مرتضیٰ، اوّل، جلدی،1403 ق .
21.طریحی،مخر الدین ،مجمع البحرین ، انتشارات مرتضوی، سوم 1375.
22. فراہیدی، خلیل بن آحمد،کتاب العین ، انتشارات اسوہ، 1383، چاپ دوم
23.فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضی،نوادر الاخبار فیما یتعلق باصول الدین، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی،تہران،1371 ش،اول
24.قادری ، سید محمد تقی،من فاطمہ ہستم ، انتشارات کوثر کویر، چاپ اول ، سال 1392
25.قزوینی ،سید محمد کاظم، تحقیق دربارہ زندگی ام ابیہا، ترجمہ احمد صالحی، چ دوم 1386 نشر محمد.
26.قمی، شیخ عباس ،رنج ہای و فریاد ہای فاطمہ ، ترجمہ محمد محمدی اشتہاردی ،انتشارات ناصر چہارم 1370
27.کمپانی، فضل اللہ مفاطمہ زہراء فاطمہ زہرا، انتشارات مفید، چ اول ، 1386،
28.مازندرانی، محمد بن علی، مناقب لآل ابی طالب ، ناشرعلامہ، 1379 چاپ اول
29.مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ، ج 43، ترجمہ روحانی علی آبادی، محمد، انتشارات مہام تہران 1379
30.ہلالی، سلیم ابن قییس ،تاریخ سیاسی صدر اسلام ، کتاب سلیم ابن قییس ،ترجمہ افتخار زادہ ،محمود رضا انتشارات رسالت قلم ، تہران،1377،اول
31.ہلالی، سلیم ابن قییس کتاب سلیم ابن قیس ، ناشر الہادی قم، 1405، اول
32.یزدی ،مصباح، رسا ترین دادخواہی و روشنگری ، انتشارات موسسہ امام خییہ قم 1392. اول