عید فطر کو یوم غم منانے پر اصرار والوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب امام معصوم فرما دیں کہ "ہمارے شیعوں کی چار عیدیں ہیں: فطر، ضحی، غدیر اور جمعہ"؛ تو ہفتے میں ایک عید کا کیا کریں گے؟
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عجب ہے ان قلمکاروں اور اہل منبر سے جو ہر دینی مسئلے کے لئے ایک بہانہ نکال کر اسے متنازعہ بناتے ہیں؛ گویا ان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ مؤمنین کے اعمال کو مشکوک بنا دیں اور یوں وہ در حقیقت دین کی چھٹی کرانے کے درپے ہیں۔
ان حضرات کو نہ تو قیامت کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے شرماتے ہیں اور نہ ہی اللہ اور معصومین کے اقوال کو اہمیت دیتے ہیں اور ایک جذباتی مسئلہ اٹھا کر دین پر ضربیں لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔
حال ہی میں کچھ دوستوں کے ذریعے سے کچھ عبارتیں موصول ہوئیں کہ جناب عید فطر اس لئے عید نہیں ہے کہ اس میں امام علی علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ہے اور ابھی تو چالیسویں بھی نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔
عید فطر کو یوم غم منانے پر اصرار والوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب امام معصوم فرما دیں کہ "ہمارے شیعوں کی چار عیدیں ہیں: فطر، ضحی، غدیر اور جمعہ"؛ تو ہفتے میں ایک عید کا کیا کریں گے؟ یہ لوگ شیعوں کے لئے عید کے قائل ہی نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟ بھئی ہم تو شہیدوں کے پیکر بھی اٹھاتے ہیں تو عید کے دن عید مناتے ہیں؛ پوچھتے ہو کیوں؟ تو عرض کریں گے کہ "اس لئے کہ ہمارے پیارے رسول اور ہمارے امام معصوم نے فرمایا ہے اور ہم تو ان کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں، آپ کو ہماری عیدیں کیوں اچھی نہيں لگتیں؟؟؟
ان حضرات سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے 13 معصومین شہید ہوئے ہیں، اور ان کے ایام شہادت پورے سال کے مختلف مہینوں میں آتے ہیں تو اگر تیسری، ساتویں، چالیسوں منانے کا حکم ہوتا ان ہی کی طرف سے تو پھر تو شاید شادی بیاہ کا سلسلہ ہی معطل ہوکر رہ جاتا۔
ان حضرات کو سالانہ ہزاروں مسلمانوں ـ بطور خاص شیعیان اہل بیت ـ کے قتل عام کا کوئی غم نہیں ہے اور نہ ہی دفاع مذہب و دفاع دین اور دفاع امت کے سلسلے ہمیں ان کی طرف سے ایک بات بھی سننے کو نہیں ملتی۔
عید کے دن کا حقیقی غم
ہم شیعیان اہل بیت عید مناتے ہیں تو اس میں غیر شرعی اور غیر انسانی اور نامعقول خوشیاں نہیں مناتے، ہم تو اس دن بھی اہل بیت کا ذکر کرتے ہیں اور ذکر اہل بیت میں ذکر حسین(ع) ضرور شامل ہوتا ہے؛ ہم غمگین رہتے ہیں اس دن بھی لیکن ہمارا یہ غم بھی معرفت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم تو عید کے دن ذکر اللہ کرتے ہیں اور شکر خدا ادا کرتے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ظلم کی حکمرانیوں پر غم مناتے ہیں اور ان کے پیروکاروں کی مظلومیت اور دفاع امت میں ان کی تنہائی کو روتے بھی ہیں۔ دیکھئے یہ بھی غم کی ایک روش ہے:
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"عن عبد الله بن ذبيان عن ابي جعفر عليه السلام قال قال: يا عبد الله ما مِن یَومِ عَیدٍ لِلمُسلِمینَ اَضحَىً وَلا فِطرٍ اِلّا و هُوَ یُجَدِّدُ اللهُ لآلِ مُحَمَّدٍ فِیهِ حُزناً قالَ قُلتُ وَلِمَ ذلِك قالَ اِنَّهُم یَرَونَ حَقَّهُم فى اَیدى غَیرِهِم؛
عبداللہ بن ذبیان امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: مسلمانوں کے لئے کوئی بھی عید، کوئی ضحی اور کوئی فطر ایسی نہیں ہے جو آل محمد(ص) کے لئے حزن کی تجدید کا باعث نہ ہو؛ میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: کیونکہ خاندان محمد(ص) اپنے حق کو دوسروں کے ہاتھ میں دیکھتا ہیں"۔ (شیخ طوسی، تهذیب الاحكام، ج3، ص 289)
(یعنی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نااہل لوگ ہی نہیں بلکہ دشمنان دین امت مسلمہ کے مقدرات پر مسلط ہیں اور منتظرین امام زمانہ اچھے دنوں کے منتظر ہیں اور ان ظالموں سے نجات کے طلبگار ہیں اور جب تک امام برحق کا ظہور نہیں ہوتا تب تک وہ چین و سکون نہيں پاتے لیکن دیکھ رہے ہیں کہ ان غموم و ہموم کے باوجود امام محمد باقر علیہ السلام عید کا انکار نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں کہ عید کے دنوں میں بھی ہم غمگین رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہماری مجالس اور محافل عید میں بھی صاف اور بآسانی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن منکرین عید فطر کو ایسا کوئی مسئلہ بھی لاحق نہیں ہے اور ان کے ہاں کا جواز ہرگز خدا، رسول خدا اور ائمہ کی طرف کا نہیں ہے؛ انہیں دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا کوئی غم نہیں ہے بلکہ وہ تو ستمگروں کے تسلط کو مزید مضبوطی عطا کررہے ہیں۔
آٹھ ربیع الاول کی مثال
ہم بطور مثال آٹھ ربیع الاول کو امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کا سوگ مناتے ہیں اور پھر اسی دن رات کے وقت امام زمانہ علیہ السلام کی امامت کے آغاز کے سلسلے میں عید مناتے ہیں اور جشن مناتے ہیں اور عجب یہ ہے کہ عیدالفطر کے دشمن ـ جو معلوم نہيں روزہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں ـ سب سے زیادہ اس رات کو فعال ہوجاتے ہیں اور اس عید کو مختلف قسم کے نام دیتے ہیں اور زیادہ رویاں کرتے ہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ یوں کہہ دیں کہ "ہم چونکہ روزہ نہیں رکھتے اسی لئے یہ ہماری عید نہیں ہے"؛ کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عید روزہ داروں کی ہے اور پھر معصومین سے ہی منقولہ دعا نماز عید میں پڑھی جاتی ہے اس میں "مسلمانوں کے لئے" اس دن کو عید قرار دیا گیا ہے:
"۔۔۔ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الْيَوْمِ الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِينَ عِيداً وَلِمُحَمَّدٍ صلّیالله علیه وآله ذُخراً وَشَرَفاً وَکَرامَتاً وَمَزیداً اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُدْخِلَنى فى كُلِّ خَيْرٍ اَدْخَلْتَ فيهِ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنى مِنْ كُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ؛ یا الله میں تجھ سے التجا کرتا ہوں اس دن کے صدقے جس کو تو نے مسلمین کے لئے عید قرار دیا اور محمد و آل محمد کے لئے ذخیرہ، شرف، مقام و مرتبت کی بڑھائی، کا سبب؛ کہ درود بھیج دے محمد و آل محمد پر اور مجھے ہر اس خیر و نیکی میں داخل کردے جس میں تو نے محمد و آل محمد کو داخل کیا ہے اور ہر اس برائی سے مجھے خارج کردے جس سے تو محمد و آل محمد کو خارج کرچکا ہے، درود و سلام ہو محمد اور آل محمد پر"۔
یہ مسلمانوں کی عید ہے جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے تا کہ وہ اکٹھے ہوجائیں، اللہ کی بارگاہ میں ظاہر ہوجائیں، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اس کی بارگاہ میں تعظیم کریں۔ یہ روز عید ہے، روز اجتماع ہے، روز فطر ہے، روز زکوۃ ہے، روز رغبت ہے، روز مناجات ہے۔ اور اللہ تعالی اور اس کے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام نے پسند کیا ہے کہ مسلمان اس دن عظیم اجتماعات منقعد کرکے اس کی حمد و ثناء کریں۔
عید فطر احادیث کی روشنی میں:
1۔ عید کی شب بیداری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
"مَن أحیا لَیلةَ العِیدِ ولَیلةَ النِّصفِ مِنشَعبانَ، لَم یمُتْ قَلبُهُ یومَ تَموتُ القُلوبُ؛ جو بھی عید (فطر و ضحی) اور نصف شعبان کی راتوں کو شب بیداری کرے اس کا دل اس دن مُردگی کا شکار نہیں ہوگا جب لوگوں کے دل مر جاتے ہیں۔ (شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ج1، ص102، ح2)
2۔ عبادات مقبولہ کی عید
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"إنَّما هُوَ عِیدٌ لِمَن قَبِلَ اللَّهُ صِیامَهُ وشَكَرَ قِیامَهُ وكُلُّ یومٍ لا یُعصَى اللَّهُ فیهِ فهُوَ عیدٌ؛ آج صرف ان لوگوں کی عید ہے جن کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمایا ہو، اور اس کی شب زندہ داریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے؛ اور ہر وہ دن عید ہے جب اللہ کی نافرمانی انجام نہ پائے"۔ (نہج البلاغہ دشتی، حکمت 428).
3۔ یہ تمہارے لئے عید ہے اور تو اس کے اہل ہو
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"ألا وإنَّ هذا الیومَ یومٌ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُم عِیداً وجَعَلَكُم لَهُ أهلاً، فَاذكُرُوا اللَّهَ یذكُركُم وَادْعُوهُ یستَجِب لَكُم؛ جان لو کہ اللہ نے آج کے دن کو تمہارے لئے عید قرار دیا اور تمہیں اس کا اہل قرار دیا، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے اور کی بارگاہ میں دعا کرو تا کہ وہ استجابت فرمائے"۔ (شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج1، ص517)
4۔ زکوۃ فطرہ کا دن
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
"مَن أدّى زكاةَ الفِطرَةِ تَمَّمَ اللَّهُ لَهُ بها ما نَقَصَ مِن زكاةِ مالِهِ؛ جو بھی زکوۃ فطرہ دیدے، خداوند متعال اس کی برکت سے اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زکوۃ دینے کے بموجب اس کے مال میں واقع ہوئی ہے"۔ (شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص220، ح4)
5۔ عید فطر کی دعا
امام علی بن الحسین السجاد علیہ السلام نے فرمایا:
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُؤْمِنِينَ عِيداً وَ سُرُوراً وَلِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً؛ بار پروردگارا! ہم تیری طرف پلٹ آتے اپنے فطر کے دن، جسے تو نے عید اور شادمانی قرار دیا ہے، اور اپنی ملت (امت مسلمہ) کے لئے اجتماع اور باہمی تعاون کا دن"۔ (صحیفہ سجادیہ، دعاء نمبر 45)
6۔ عید فطر انعامات وصول کرنے کا دن
"عن جابر عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قَالَ النَّبيُّ (صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ) إذا كانَ أَوَلَ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نادَی مُنادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَی جَوَائِزِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوكِ ثُمَّ قَالَ هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِز؛
جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جب شوال کی پہلی تاریخ (عید فطر) آ پہنچتی ہے تو منادی اللہ کی طرف سے ندا دیتا ہے کہ "اے مؤمنو! صبح کو اپنے انعامات لینے نکلے، (جو اللہ کی طرف سے روزہ دار مؤمنین کے لئے فراہم کئے گئے ہیں)" اور پھر فرمایا: "اے جابر! اللہ کے انعامات ان دنیاوی بادشاہوں کے انعامات جیسے (مادی اور فانی) نہیں ہیں"! (بلکہ ہی عمدہ اور ناقابل بیان اور نہایت عظیم ہیں)! اور پھر فرمایا: اور پھر فرمایا: "آج انعامات وصول کرنے کا دن ہے"۔ (شیخ حر عاملی، وسائلالشیعۃ، ج5، ص140)
7۔ زکوۃ فطرہ روزے کی تکمیل
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"إِنَّ مِنْ تَمَامِ اَلصَّوْمِ إِعْطَاءُ اَلزَّكَاةِ يَعْنِي اَلْفِطْرَةَ كَمَا أَنَّ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَمَامِ اَلصَّلاَةِ لِأَنَّهُ مَنْ صَامَ وَلَمْ يُؤَدِّ اَلزَّكَاةَ فَلاَ صَوْمَ لَهُ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً وَلاَ صَلاَةَ لَهُ إِذَا تَرَكَ اَلصَّلاَةَ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ؛
روزے کی تکمیل زکوۃ فطرہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ پر صلوات بھیجنا نماز کی تکمیل ہے؛ کیونکہ جو روزہ رکھے اور زکوۃ فطرہ کی ادائیگی کو جان کر ترک کرے تو گویا کہ اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ جیسا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود و سلام ترک کردے، تو اس کی نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے"۔ (حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص221)
8۔ سیاسی، سماجی اور انفرادی عبادات کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّوجلّ فَیُمجّدونَهُ عَلى ما مَنَّ عَلیهم، فَیَكُونُ یَومَ عیدٍ ویَومَ اجتماعٍ وَ یَوْمَ زكاةٍ وَ یَوْمَ رَغْبةٍ و یَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلأَنَّهُ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيهِ الاَكلُ وَالشُّرْبُ لاَنَّ اَوَّلَ شُهُورِ السَّنَةِ عِنْدَ اَهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ يَكُونَ لَهُمْ في ذلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيهِ وَيُقَدِّسُونَهُ؛
فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اجتماع کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے نمایاں ہوتے ہیں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ اور اس لئے کہ یہ دن پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں"۔ (شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، (ط آل البیت) ج7، ص481، ح4)
9۔ تکبیر و تکریم کا دن
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا:
"فَإِنْ قَالَ (قائلٌ) فَلِمَ جُعِلَ التَّكْبِيرُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْهُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الصَّلَاةِ قِيلَ لِأَّنَّ التَّكْبِيرَ إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ لِلَّهِ وَ تَمْجِيدٌ عَلَى مَا هَدَى وَ عَافَى؛
اگر کسی کہنے والے نے کہا کہ عید کے دن تکبیریں دوسرے دنوں کی نسبت کیوں زیادہ قرار دی گئی ہیں تو کہا جائے گا کہ تکبیر، بےشک اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور تعظیم وتکریم ہے اس کی ہدایتوں اور نعمتوں پر"۔ (شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، (ط آل البیت) ج7، ص481، ح4)
10۔ شیعیان اہل بیت(ع) کی چار عیدیں
امام علی النقی الہادی علیہ السلام نے فرمایا:
"إنَّمَا الأعیادُ أربَعَةٌ لِلشّیعَةِ: الفِطرُ والأضحی والغَدیرُ والجُمُعَةُ؛
بے شک شیعیان اہل بیت کی چار عیدیں ہیں: عید فطر، عید الضحی، عید غدیر اور جمعہ"۔
(بحارالأنوار، ج95، ص351)
۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی