اگرچہ یہ دن ایک اجتماعی حیثیت کا حامل ہے اور اسلامی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو امام علی علیہ السلام نے فرمایا : ''وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو یوم عید '' ہر وہ دن جب انسان خد کی معصیت نہ کرے عید ہے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عید فطر مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں ایک ہے یہ وہ دن ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان ماہ مبارک رمضان میں تیس دن تک خدا کے سفرہ رحمت پر حاضری کا شکرانہ ادا کرتے ہیں اور اجتماعی جشن و سرور کی محفلیں سجا کر خدا کے حضور تشکر و امتنان کا ظہار کرتے ہیں کہ مالک نے انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ اپنے دسترخوان رحمت پر انہیں تیس دنوں تک مہمان بنایا چاند رات اور عید کے دن تمام مسلمان عبادتوں میں مشغول رہ کر مالک کی کرم نوازیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کتنا اچھا سماں ہوتا ہے کہ جب ماہ شوال کا چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو لوگ عید کی خوشیوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے صبح سویرے لوگ ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں اوخود کو نماز عید کے لئے تیار کرتے ہیں اس دن غریبوں اور ناداروں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے لئے فطرہ نکالاجاتا ہے۔
عید کے دن مستحسن عمل
یوں تو عید کے اپنے اعمال ہیں اور خاص دعائیں ہیں جو مفاتیح میں موجود ہیں لیکن ایک بہترین عمل خاک شفا سے افطار کرنا اور زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا ہے نماز عید سے قبل تربت امام حسین(ع) منھ میں رکھنااور آپکی زیارت پڑھنا مستحب ہے اور اس سلسلہ میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ عید فطر کے دن امام حسین کی ضرور زیارت کی جائے اور کچھ کھانے سے قبل امام حسین(ع) کی تربت کوچکھا جائے شاید یہ امر اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ آج اگر یہ روزہ اور اسلامی تعلیمات عید فطر جیسی عظیم یاد گاریں باقی ہیں تو یہ سرکار سید الشہدا کا صدقہ ہے
عید کے معنی :
کلمہ عید اصل میں عاد ( عود ) سے لیا گیا ہے اور اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں ''بازگشت '' غم و اندوہ و مرض سے نجات'' وہ دن جو اپنے ساتھ ہر سال نئی خوشیاں لے کر آتا ہے
ازہری کے بقول عربوں کے نزدیک عید اس زمانہ کو کہا جاتا ہے جس میں شادی یا غم و اندوہ پلٹ آتے ہیں ابن عربی نے عید کو خوشیوں سے مخصوص جانا ہے
ترجمہ : عیسی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے
اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے بیان کیا ہے کہ '' عید لغت میں بازگشت کے معنی میں ہے اسکا مادہ عود ہے لہذا وہ دن جس میں قوم کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں اور خوشیوں کی طرف اسکی بازگشت ہوتی ہے ایسے دن کو عید کہا جاتا ہے اسلامی عیدوں میں عید فطر کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں اطاعت پروردگار کے ذریعہ. انسان کی روح اپنی پاک فطرت کی طرف پلٹ جاتی ہے ۔ الہی دسترخوان کا نزول بھی چونکہ کامیابی و فلاح کی طرف ایک بازگشت ہے اس لئے جناب عیسی نے اسے عید کا نام دیا ہے ۔
عید فطر کے تقاضے :
اگرچہ یہ دن ایک اجتماعی حیثیت کا حامل ہے اور اسلامی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو امام علی علیہ السلام نے فرمایا : ''وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو یوم عید '' ہر وہ دن جب انسان خد کی معصیت نہ کرے عید ہے خود یہ حدیث بھی اس با ت کی طرف اشارہ ہے کہ عید کی حکمت یہی ہے کہ انسان اس لئے اس دن خوشی مناتا ہے کیونکہ وہ اپنی پاکیزہ فطرت کی طرف پلٹ جاتا ہے
سوید بن غفلہ سے نقل ہوا ہے کہ : میں عید کے دن امیر المومین کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپکے پاس کچھ آٹے اور دودھ کی بنی ہوئی خشک روٹیاں رکھی ہیں میں نے عرض کی روز عید اور یہ کھانا ؟ آپ نے جواب دیا ''انما ھذا عید من غفر لہ '' یہ عید اس شخص کے لیے ہے جس کو بخش دیا گیا ہو
اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ مبارک رمضان کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو بخشوا کر اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کبھی گناہ کی طرف نہیں جاتا ، ماہ مبارک رمضان کی برکتوں کے سایہ میں اپنے نفس پر اتنا کنٹرول کر لیتا ہے کہ اس کا نفس گناہ کی طرف مائل نہیں ہوتا تو حقیقت میں عید بھی اسی کی ہے ،اب اگر کوئی ایسا شخص عید کے دن اپنے گھر پر دسترخوان سجاتا ہے لوگوں کو دعوت دیتا ہے سوئیاں اور پکوان گھر میں پکواتا ہے تو یہ اسے زیب دیتا ہے کیونکہ واقعی عید اسی کی ہے وہ اس قابل ہے کہ جب اس نے اپنے نفس پر کنڑول کر لیا اور ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے خود کو اس قابل بنا لیا کہ وہ اس بالکل اس دن کی طرح ہو جائے جس طرح اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا تو اسے یہ حق ہے کہ سب کو بلائے خوشیاں منائے اور عید منائے ، لیکن اگر کسی شخص نے ماہ مبارک رمضان کے دسترخوان پر بیٹھنے کے باجود اللہ کی نافرمانی کی ہو اور اس کے بعد وہ نئے کپڑے ، پہنے خوشیاں منائے لوگوں کو گھر پر دعوت دے اور عید منائے تو یہ اس کا اپنا عمل ہے حدیث امیر المومنین علیہ السلام کی روشنی میں اسے عید نہیں کہا جا سکتا ہے اس لئے کہ مولا کی نظر میں عید کا مطلب نئے کپڑے پہننا لوگوں سے ملنا اور سوئیاں و شیر خرما بنانا نہیں ہے بلکہ مولا کی نزدیک عید کا مطلب اپنے وجود گناہوں سے پاکیزہ بنانا ہے اب ہو سکتا ہے ایک وہ شخص جس کے پاس عید کے دن کھانے کے لئے کچھ نہ ہو نہ وہ کسی کی دعوت کر سکتا ہو نہ سوئیاں بنا سکتا ہو اور نہ لوگوں کو عیدی دے سکتا ہو لیکن اس کی عید ہو اس کے برخلاف ممکن ہے کوئی ایسا شخص ہو جو عید کے دن لاکھوں خرچ کر رہا ہو، ہزاروں مہمانوں کو بلا رہا ہو لوگوں کا اس کے یہاں عید ملن کے لئے تانتا بندھا ہو لیکن اس کی عید نہ ہو ۔
آج کے دن جہاں ہم عید کی خوشیاں منانے میں مشغول ہیں یہ دعاء بھی کرنا چاہیے کہ پرورگار ملت اسلامیہ کو وہ شعور دے کہ سب ایک پرچم تلے وحد ہ لا شریک کی عبادت و بندگی کرتے ہوئے اپنے دشمن کو پہچان سکیں جس کے بموجب ہمارے درمیان امن و امان و چین و سکون رہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ ہو کر ایک دوسرے کے قوت بازو ربن کر جئیں ۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام مسلمان چین و سکون کے ساتھ عید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہوئے اپنے رب کے دسترخوان رحمت کا شکرانہ ادا کر سکیں ۔
پرور دگار! عید سعید فطر کو ہمارے لئے واقعی عید قرار دے
ایسی عید جو ہمارے وجود کی بارگاہ الہی میں بازگشت کی نوید لے کر آئے
وہ عید کے جس کے بعد ہم دوبارہ گناہوں کی طرف نہ پلٹیں
پروردگار ! ہمیں عید سعید کی برکتوں کے سایہ میں اس قابل بنا کہ ہمارا آنے والا ہر دن عید قرار پائے ۔
(آمین یا رب العالمین )