اسلام میں توحیدکی عظمت
فدا حسین حلیمی(بلتستانی)
پیشکش : امام حسین علیہ السلام فاؤنڈیشن
قرآن کریم کی متعدد آیات سے اس نکتہ کی طرف راہنمائی ملتی ہے کہ پرودرگار عالم نے اس کائنات کی ہر چیز کو انسان کے لیے مسخرکیا ہے چنانچہ سورہ جاثیہ کی آیت /١٣ * وَ سَخَّرَ لَكمُ مَّا فىِ السَّمَاوَاتِ وَ مَا فىِ الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون(1) ۔ اوراللہ نے تمہارے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ملائکہ کو انسانوں کے مختلف امور کی تدبیر کے لےے مسخر کیا گیا ہے چنانچہ اس بارے میں ارشاد باری تعالی ہے :٭ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا (2) ۔
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں۔ یعنی رزق ؛وحی وغیرہ ۔۔کے نازل کرنے کے لیے موکل کیا ہے اور یہ اس لیے ہے تاکہ انسان جس ہدف اور کمال کے حصول کے لیے خلق ہواہے اس کی طرف حرکت کرے اورکما ل نھائی تک رسائی حاصل کرسکے اورجب ہم ہدف خلقت کے بارے میں خود قرآن مجید سے سوال کرتے ہیں توجواب ملتا ہے : وَ مَا خَلَقْتُ الجِْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (3) ۔
اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔لیکن یہ عبادت انسان کی خلقت کا آخر مقصد اور ہدف نہیں بلکہ یہ صرف انسان کو کمال کے آخری درجے تک پہنچانے کے لیے وسیلہ ہے اور وہ کمال پرودگارعلم کی معرفت اور یقین ہے جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے : وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتىَ يَأْتِيَكَ الْيَقِين(4) ۔
اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو یقین آ جائے ۔ اور اس یقین کی آخری چوٹی وہی ہے جس تک انبیاء اور ائمہ پہنچے چنانچہ قرآن کریم جناب ابراہیم خلل اللہ کے مقام یقین کو اس طرح بببان کرتا ہے : وَ كَذَالِكَ نُرِى إِبْرَاهيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ لِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِين (5) ۔
اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔
پس معلوم ہو ا قرآن کریم کی نگاہ میں کائنات کی ہر شئی کو اس انسان کے لئے مسخرکیا ہے تاکہ وہ کمال کی آخر ی منازل طے کر سکے ۔اور انسان کا کمال خدا کی معرفت اور اس معرفت کے ساتھ یقین کے حصول میں ہے چنانچہ امیرالمومنین علی علیہ سلام نہج البلاغہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں : اول الدين معرفته وكمال معرفته التصديق به وكمال التصديق به توحيده وكمال توحيده الاخلاص له وكمال الاخلاص له نفى الصفات عنه (6) ۔
دین کا آغاز معرفت پروردگار سے ہوتاہے اسکا مطلب یہ ہے اگر کسی نے خدا کو نہیں پہچانا تو ابھی سرحد دین میں قدم نہیں رکھا جہان سے دین کا آغاز ہوا ہے اور کمال معرفت یہ نہیں کہ اس خداکا تصور ذہن میں ہو بلکہ تصدیق ہے چونکہ خداکا تصور ہر انسان اور ہر قوم کے ذہن میں پایا جاتا ہے یہاں خود قرآن مجید نے ارشاد فرمایا : وَ لَئنِ سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنىَ يُؤْفَكُون (7) ۔
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو کس نے مسخر کیا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ ؛ تو یہ کدھر بہکے چلے جارہے ہیں ۔یہ اسلیے اس سوال کا جواب اس کائنات کے بنانے والے کے اقرارکے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا لہذا خدا کا تصور ہر ایک کے پاس موجود ہے لیکن یہ تصور اسےُ صاحبِ معرفت نہیں بناتا بلکہ اسکی تصدیق بھی ضروری ہے یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ کے زبان پر جار کرنے سے حقیت میں وہ دین کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا اگر چہ اسلام کے ظاہری احکام اس پر جاری ہی کیوں نہ ہو ں بلکہخدا کے تصور کے ساتھ اسکی تصدق بھی ضروری ہے یعنی اس تصور کو اپنے دل وجان میں جگہ دے اور اسے اپنے رگ و خون میں رواں کرے ؛ اور کمال تصدیق یہ ہے کہ اسے ایک کہا جاے یعنی خدا کی وحدانت کا اقرار ا جائے لیکن امیر المو منین علی ؑ فرماتے ہیں : کہ کسی انسان کا پروردگارکی توحید کا اقرار ا سے کمال کے آخری مقام پر نہیں پہنچا تا بلکہ تو حید کے اقرارکے ساتھ اس میں اخلاص بھی ضروری ہے یعنی کمال توحید ہے کہ اس میں اخلاص اور یقین پایا جاتا ہو ؛ جیسا کہ متعدد روایا ت میں آیا ہے :من قال لا اله الا الله مخلصا ً دخل الجنة واخلاصه ٲن تحجزه لا اله الا الله عما حرم الله عزوجل(8) ۔
کوئی کلمہ لا الہ الا اللہ کو اخلاص کے ساتھ زبان پر جاری کرے جنت میں داخل ہو گا اور اخلاص سے مراد یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت اسے پروردگارکی معصیت سے بچا لے یعنی یقین کے اس مرحلے پر پہنچا ہو کہ اسے ہر صورت میں خداکی معصیت سے دور رکھے اور اسے کسی گناہ کامرتکب نہ ہونے دے ۔
پس معلوم ہواکہ انسان جب تک توحید پر ایمان نہ لائے اور تصدق نہ کرے اس وقت تک وہ دائرہ دین میں داخل نہیں ہوتا اورکمال توحید یہ ہے کہ وہ شخص توحید میں اخلاص کے مقام پر فائز ہو؛ یقین کے مقام پر فائز ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جب اسلامی تعلیمات اور بنیادی اصولوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے توحید کا ذکر آتا ہے یہ اس لئے کہ اسلام میں سارے عقائد کی بنیاد توحید پروردگار ہے بلکہ حد یہ ہے اسلام میں عالم تکویں کا مرکز بھی توحید ہے اور عالم تشریع میں بھی تمام مقدسات اور تعلیمات کا محور بھی توحیدپروردگار ہے ایک طرف پوری کائنات اس مالک کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کے ارادے پر چل رہی ہے کوں سی چیز ہے جو مالک سے بے ناز ہو جائے بلکہ ہر شئی اسی کی طرف محتاج ہے تودوسری طرف دین میں جتنے بھی مقدسات ہیں ان سب کے تقدس کی بنیاد یہ ہے کہ انکی نسبت پروردگارسے ہے اگر ہم نے سرورکائنات ؐ کا کلمہ پڑھا ہے تو یہ کہہ کر پڑھا ہے( اشهد ان محمد الرسول الله)
پیغمبر اکرم ؐ کی عظمت یہ ہے کہ وہ بندہ خدا ہے وہ اللہ کے بھجیے ہوئے ہیں ۔ اگر ہم نے کسی ولی خداکی ولایت کا اقرارکیا ہے تو اس بنیاد پر کہ وہ ولی اللہ ہے اوراسکی نسبت خدا سے ہے اگر ہم نے محمد اور آل محمد ؐ کی مودت کو اپنے اوپر واجب سمجھا ہے تو اسلیے کہ پروردگا ر عالم نے اپنی لا ریب کتا ب میں ہمیں انکی اطاعت اور انسے مودت رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اگر ہم نے کسی کتاب کو آنکھوں سے لگانے کا قابل سمجھا ہے تو اسلیے کہ کتاب کتاب اللہ ہے اگر ہم کسی گھرکو طواف کا لائق سمجھا ہے تو اس لیے کہ بیت بیت اللہ ہے تو اساکامطلب یہ ہے کہ ان تمام مقدسات کا تقدس اسلیے ہے کہ ان سب کی توحید پروردگار کے ساتھ نسبت ہے اسی لیے قابل احترام ہیں تو اسکامطلب یہ ہے کہ جسکی نسبت خدا کے ساتھ ہے جسکا رابطہ خدا کے ساتھ ہو وہ قابل احترام ہے اور جسنے اپنا رابطہ خدا سے کاٹ لیا تو پھر اسکے احترام کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا اگر کسی انساں نے توحید کی حقیقت کو نہیں پہچانا تو اس نے دین ودنیا دونوں کو نہیں پہچانا اور آج اسلامی معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہےک ہ ہر مسلمان براے نام مسلمان بھی ہے توحید پر عقیدہ بھی رکھتا ہے لیکن اگر آپ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کتنے مسلمان ہوں گے جو توحید کے معنی اور حققی مفہوم سے آگاہ ہیں؛ توحید کی حقیقت سے آشنا ہیں بلکہ اکثریت اسیے مسلمانوں کی ہے جو توحید کے مفہوم اور مضمون کو بھی نہیں جانتے اور جو اساس دین کو بھي نہیں سمجھتا ایسے مسلمان دین کے دوسرے معاملات ؛رسالت ؛نبوت ؛امامت ؛قرآن اوردیگر دینی تعلیمات کی اہمیت کو کیا سمجھے گئے ؟
ہاں اگر آپ توحید کی عظمت کو پہچاننا چاہتے ہیں تو نہج البلاغہ میں پہلا دیکھیں ۔صرف نہج البلاغہ میں 50 سے ذیادہ خطبے ایسے ہیں جو صرف اور صرف توحید کے متعلق ہیں اور سرور کائنات ؐکے بعد دنیائے انسانیت میں مولای علیؑ سے بہتر نہ کسی نے خدا کو پہچانا ہے اور نہ ہی کسی نے خداکو پہچنوایا ہے اہل سنت کے بڑے بڑے علما ء جنہیں نہج البلاغہ جسے گران بہا خزانے کے مطالعہ کرنے کی توفق حاصل ہوئی ہے یا عالم مسیحیت اور دیگر غیر مسلم دانشور حضرات نے اس بے مثال کتاب کا مطالعہ کیا ہے سب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔ جیسا کہ آٹھویں صدی کے شعروادب اور علم کلام میں مشہورمعتزلی عالم شرح نہج البلاغہ میں اس بارے مںا لکھتے ہیں :
و اعلم ان التوحید و العدل و المباحث الشریفة اللهیة ما عرفت الا من کلام هذا الرجل وا ن کلام غیره من اکابر الصحابة لم یتضمن شیأاً من ذالک اصلاً ولاکانوا یتصورونه و لو تصوروه لذکروه و هذه الفضیلة عندی اعظم فضائله(9) ۔
اے مسلمانوں جان لو! اگر میں نے توحید پروردگا ر؛ عدل الھی اور دیگر اعتقاد ی مسائل کو سمجھا ہے تو علی ابن اب طالب ؑ کے نورانی کلمات کی رو شنی میں سمجھا ہے اور یہ ایسے نیاب معارف ہیں کہ دوسرے اکابر صحابہ کے کلمات میں جسکا اثر نہیں ملتا چونکہ وہ لوگ ایسے بلند معارف کا تصور ت تک بھی نہیں کرسکتے تھے اگرتصور کی ظرفیت ہوتی تو کچھ نہ کچھ دیکھنے مل جاتا ! اور یہ انکے دوسرے صحابہ پر سب سے بڑی فضیلت ہے کسی اور مقام پر کہتا ہے :تجد المباحث الدقيقة في التوحيد و العدل مبثوثة عنه في فرش كلامه و خطبه و لا تجد في كلام أحد من الصحابة و التابعين كلمة واحدة من ذلك و لا يتصورونه و لو فهموه لم يفهموه و أنى للعرب ذلك. و لهذا انتسب المتكلمون الذين لججوا في بحار المعقولات إليه خاصة دون غيره و سموه أستاذهم و رئيسهم و اجتذبته كل فرقة من الفرق إلى نفسها(10) ۔
توحید اور عدل الھی کے دقیق ترین موتی آپکے کلمات اور خطبات میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایسے معارف کا حتی ا یک کلمہ بھی دیگر صحابہ اور تابعیں کے کلام میں نہیں ملتاکیونکہ وہ لوگ اسےی معارف کا تصور تک بھی نہیں کر سکتے تھے اگر وہ لوگ کچھ سمجھ بھی لیتے تو اسے سمجھا بھی نہیں سکتے تھے؛ عرب کے بدو کہاں اور کہاں عقائد کے ایسے بلند معارف ؟ اوریہی وجہ ہے تمام مکاتب فکر نے عقلی اور فکری مسائل میں(امر المومنین ) علی ؑکی شاگردی قبول کی ہے اور ہرفرقے نے اپنے مکتب کو انکے ساتھ منسوت کیا ہے اور انھیں اپنا ریئس قرار دیا ہے ۔ بے شک اگر علیؑ کے کلمات اور ارشادات نہ ہوتے تو شائد کسی کو توحید پروردگار بیان کرنے کی جرئت نہ ہوتی کیونکر علیؑ کے زبان پر معارف کے ایسے چشمے نہ پھوٹے جبکہ خود مولا فرماتے ہیں: علمنى رسول الله الف باب من العلم ينفتح لى من كل باب الف الف باب(11) ۔
میرے رسول ؐ نے مجھے علم کے ہزار باب سمجھادیے جسکے ہر ایک باب سے ایک لاکھ علم کے دروازے میرے لیے کھل گے۔
خدا کے واحد ہونے کا کیا مفہوم ہے ؟
جس طرح امام الموحدین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں : دین کا آغاز معرفت پروردگار سے ہوتا ہے اور کمال معرفت یہ کہ اس کی تصدیق کی جائے اورکمال تصدیق یہ ہے کہ اسے ایک کہا جاے اوراسکی وحدانیت پر ایمان لایا جائے ۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے ایک ہونے سے کیا مرداہے ؟ جب ہم کہتے ہیں: (قل هو الله احد ) کہو اللہ ا یک ہے یا مختلف قرآنی آیات میں خداکے واحد اور احد ہونے پر تاکیدکی گئی ہے ۔ جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیت / 173۔وما من اله الاا له واحد(جبکہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے) (12) ۔
یا سورہ بقرہ کی آیت /163: وَ إِلَاهُكمُ ْ إِلَاهٌ وَاحِدٌ لَّا إِلَاهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِيم (13) ۔
اور تمہارا خدا بس ایک ہے. اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہی رحمان بھی ہے اور وہی رحیم بھی ہے۔سارے مسلمان خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں سب توحیدپر عقیدہ رکھتے ہیں یہود اور نصاری بھی ایک ہی خداکو مانتے ہیں ؛ لیکن جس خداے واحد کو وہ لوگ مانتے ہیں اس میں اور ہمارے خدا ے یکتا میں زمین وآسمان کا فرق ہے جس توحید اور وحدانیت کا تصور یہودیت اور مسیحیت نے پیش کیا ہے اور جس توحید کا نظریہ اسلام نے دیا ہے ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ لہذا توحیدِ پروردگار کو سمجھنے سے پہلے ایک اصل کی طرف توجہ اوراسے سمجھنا ضرور ہے اگر اس اصل کو کسی نے اچھی طرح سمجھ لیا تو اسکے لیے توحید؛ نبوت اور معاد ے متعلق 99 % اعتقاد مسائل حل ہیں اور وہ اصل جو کہ توحیدی معارف کے سمجھنے میں کلید ی حیثیت رکھتی ہے وہ کہ خدا کی تکتائی سے مراد کیاہے ؟ اور جب تک اس یکتائی اور ایک سے مراد نہ سمجھیں اس وقت تک نہ توحید کی معرفت ممکن ہے اورنہ ہی دیگر اسما الحسنی مثلاً خالقیت ؛ رازقیت ؛ معبودیت وغیرہ کی معرفت ممکن ہے ؛ پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ اسی وحدت کے حقیقی معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے کتنے لوگ گمراہ ہو ے اور اب بھی کتنے لوگ گمراہی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
یہ اسلئے کہ جسے ہم ایک کہتے ہیں وہ ایک بھی کتنے قسم کے ہوتے ہیں؟ اس لفظ واحد اور ایک کے چند معنی ہیں اور مختلف چیزوںپر صدق آتا ہے اور ہر جگہ اپنا خاص معنی رکھتا ہے واضح الفاظ میں یوں بیاں کیا جا سکتا ہے کہ اس ایک کے کم سے کم تین قسمیں ہیں۔
1: وحدت ترکیبیہ یا جسمیہ: اس واحد اور ا یک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اسی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے عرف میں ایک کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایک نہیں بلکہ متعدد چیزوں کا مجموعہ ہے جو چند عناصر کے آپس میں ملنے سے وجود میں آیا ہے مثال کے طور پر انسان کا بدن جسے کہا جاتا ہے اسے ایک جسم کہا جاتا ہے لیکن آپ توجہ کریں اور ذرا غور سے دیکھیں تو یہ بدن ایک نہیں ہے بلکہ مختلف عناصر کے اکھٹے ہونے سے بنا ہے ؛ اس میں پانی بھی ہے؛ کوشت بھی ہے؛ خون کے ذرات بھی پائے جاتے ہیں ؛اور دیگر عناصر بھی ہیں لیکن ان سب کو ملا د یا جائے تو اسے چار یا چھے نہیں کہا جاتا ہے بلکہ ایک ہی کہا جاتا ہے چنانچہ اس دنیا کی مخلوقات میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے جو ا یک کہے جانے کے قابل ہو ؛ یہ انسان جو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے جب دنیا میں آیا تو مالک نے اعلان کیا : إِنَّا خَلَقْنَا الْانسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعَا بَصِيرًا *(14) ۔
یقینا ہم نے انسان کو ایک ملے جلے ( مخلوط)نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔ اب جو دو سے ملا کر بنایا گیا ہو وہ ایک کیسے ہو گا ؟ اکائی کہان سے آئے گی جسے بنانے والے نے خود یہ بنایا ہے تو دو سے ملا کر بنایا ہے تو معلو م ہوا ہماری سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی کہا جائے تو واقعا ایک نہیں ہیں اوریہ بات صرف انسانوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جتنی مخلوقات پائی جاتی ہیں خواہ چھوٹے سے چھوٹے ایٹم کی شکل ہو یا بڑے سے بڑے کہکشانوں کی شکل میں؛ کسی بھی مخلوق میں اکائی کا تصور پایا ہی نہیں جاتا اور اس بات پر بہترین دلیل خود قرآن پاک ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : وَ مِن كُلّ ِ شىَ ْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَينْ ِ لَعَلَّكمُ ْ تَذَكَّرُون *(15) ۔
ا ور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ یعنی کسی چیز کو اکیلا بنایا ہی نہیں ہے باہر کی دینا دیکھیں تو وہاں بھی ا یک کا جوڑا دوسرے کو بنایا ہے اندرکی دینا میں دیکھیں تو بھی ہر ایک کی تخلیق میں مختلف عناصر ہیں جسکے مجموعے کا نام مخلوق ہے جو ہمارے سامنے ہے چاہیے پتھر اور درخت کی شکل میں ہویا حیوان اور انسان کی شکل میں ؛انسانوں سے ماورا جنات اور ملائکہ کی شکل میں ہوکوئی بھی مخلوق جب تک مرکب نہ ہو جائے تواس وقت تک وجود میں نہیں آتا بلکہ :لم يكن شياً مذكوراً (16) ۔
رہ جاتا ہے؛ قابل ذکر یہ نہیں ہوتا؛ اگر چہ وہ ترکیب علم فلسفہ کی اصطلاح میں وجود اور ماہیت سے مرکب کیوں نہ ہو؛ مثال کے طور پر ہمیں اگر انسان موجود کہا جاتا ہے تو اسکامطلب یہ ہے کہ ہماری انسانیت اور ماہیت کے ساتھ وجود شامل ہوچکاہے تو ہم دنیا میں آئے ہیں ورنہ ہمار ی انسانیت اور ماہیت کے ساتھ وجود شامل ہونے سے پہلے ہم ٭ لم يكن شياً مذكوراً ٭ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری انسانیت وجودکی طرف محتاج ہے اور وجود انسانیت کی طرف محتاج ہے ؛ اب ہم نہ وجود بلا انسانیت ہیں اور انسانیت بلا وجود ہیں؛ اور جب تک ان دونوں سے مرکب نہ ہو جائیں ہم موجود نہیں ہوتے ہیں ۔ پس یہ دو خصوصیت یعنی مرکب ہونا؛ اور محتاج ہونا؛ تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہیں ۔
2 : وحدت عددیہ: وحدت ترکیبیہ کے مقابلے میں ایک اور وحدت ہے جسے واحد عددیہ کہا جاتا ہے؛ اسکی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف معدود چیزوں پر صدق آتا ہے اور جب کوئی چیز گنتی میں آجائے تو وہ خود بخود محدود ہو جاتی ہے اور اسکے ساتھ کسی اور شئی کو اضافہ کیا جائے تو دو ہو جائیں گی؛ اسی طرح کسی اور کا اضافہ کرنے سے تین بن جاتا ہے اسی طرح آپ اضافہ کر تے جائیں تو عددبڑھتا جاتا ہے اور اس کے آخرکا تصور کیا جاسکتا ہے ۔چونکہ شئی محدود ہے لہذا اسکے ساتھ دوسرے ؛ تیسرے ۔۔۔کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
3: وحدت حقہ :وحدت کی مذکورہ دو صورتوں کے مقابلے میں ایک اوروحدت ہے جسے وحدت حقہ کہا جاتا ہے اسکی خصوصیت یہ ہے کہ کسی مرکب ؛ معدود اور محدود چیزپر صدق نہیں آتا اور نہ اس کے ساتھ کسی دوسرے تیسرے کا تصور ممکن ہے اور نہ ہی اس ایک کے ساتھ کسی اور شئی کو اضاف کیاجاسکتا ہے اور صرف ایک ایسے وجود پر صدق آتا ہے جو لا محدوداور غیر متناہی ہو یعنی اگر اس ایک کی یکتائی آپکے ذہن میں آجائے تو پھر اس کے ساتھ دوکا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔مثال کے طور پر اگرآپ اس کائنات کو لامتناہی فرض کریں کہ اسکی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی انتہا ہے پس اگر ہم اسکے کسی طرف بھی چلنا شروع کردیں تو نقطہ انتہا پر نہیں پہنچ سکیں گے ۔ تو اب اس طرح کا عالَم مان لینے بعد کیا ہم اسکے ساتھ دوسرا عالم فرض کر سکتے ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں؛ کیونکہ اس لا متناہی عالَم کا فرض بذات خود مانع ہے کہ کسی دوسرے عالم کا اسکے ساتھ فرض کیا جائے چونکہ یہ عالم کب ختم ہوا تھا تاکہ دوسرے کی نوبت آجائے۔کیونکہ دوسرے کا فرض صرف اس وقت ممکن ہے جب پہلا ختم ہو جائے ؛ اب اگر پہلا ہی لا متناہی ہے تو پھر دوسرا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں اللہ ایک ہے؛ جب ہم خداکی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں تو خدا کے ا یک کہے جانے سے کیا مراد ہے ؟ کیا خدا کے واحد کہے جانے سے مراد وہی واحد ترکیبی مرادہے؟ کہ جسکا لازمہ یہ ہے کہ (نعوذ باللہ)خدا جسم رکھتا ہے جس طرح مخلوقات جسم رکھتے ہیں اور مختلف عناصرکا مجموعہ ہے اور یہ جسم وجود اور بقاء دونوں میں ان اجزاء اور عناصر کا محتاج ہے جیسا کہ یہودیوں کا نظریہ تھا؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت /93 ثم اتخذتم العِجل مِن بعدِه *(17) ۔
اور سورہ مائدہ کی آیت / 24: فاذهب انت و ربک*(18) ۔
کے ذیل میں تمام مفسریں نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے (19) ۔
اور تاریخ اسلام میں بھی جو لوگ مجسمہ ؛ مشبہ کے نام سے مشہور تھے۔ اسی طرح عصر حاضرمیں ابن تمہ کے ماننے والے وھابی بھی خدا کے متعلق یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔ جبکہ اہلبیت اطہارؑ بیاں فرماتے ہیں: جو خدا کی جسمانیت اور تشبیہ کا قائل ہو وہ مشرک ہے اوراس سے برائت ضر وری ہے ۔ إنه لیس منا من زعم أن الله جسم نحن منه براء فی الدنیا و الا خرة یا ابن دلف إن الجسم محدث و الله محدثه و مجسمه (20) ۔
اے فرزند دلف!جو شخص خدا کے جسم کا قائل ہو جاے وہ ہم سے نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں بیزاراور بریء ہیں کیونکہ جسم حادث ہے اور اللہ اس جسم کے دینے والا اورشکل دینے والا ہے ۔یعنی جسم کے وجود میں لانے والا اور بنانے والا خود خدا ہے تو پھر کس طرح خدا جسم رکھتا ہے ؟ جبکہ اسنے خود جسم اور جسمانیات کو وجود میں لایا ہے ۔اسی طرح مشبہ کے بارے میں فرماتے ہیں : الناس فی التوحید علی ثلاثة أقسام مثبت و ناف و مشبه فالمثبت مؤمن و النافی مبطل و المشبه مشرک ۔
لوگ توحید کے اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں مثبت ؛ نافی اور مشبّہ ( یعنی ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عقل انسان صفات پروردگار کے معانی سمجھ سکتی ہے اور انھی صفات کے ذریعے سے خدا کوپہچان لیتی ہے؛ دوسرے گروہ یہ کہنا ہے کہ ہماری عقل خدا کی صفات کونہیں سمجھ سکتی ہے اگر چہ قرآن سنت میں خدا کے لیے جو صفتیں ذکر ہوئی ہیں اس پر اجمالی طور پر ایمان رکھتے ہیں انکا نام معطلۃ ہے؛ تیسرے گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مشترکہ صفات (یعنی وہ صفتیں جو خدا اور بعض دیگر مخلوقات دونوں پر صدق آتی ہیں )کے معانی یکسان ہے خواہ وہ ان صفات کے ساتھ خدا کی توصیف کرے یا کسی مخلوق کی لہذا ان صفات میں پروردگار عالم اپنی مخلوقات کے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔ یہاں تک ان میں سے بعض خدا کے جسمانی اعضاء وجوارح رکھنے کے بھی قائل ہوے ہے (21) ۔
لیکن ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گروہ مشبّہ اور مجسمہ اگر چہ خداے واحد کو مانتے ہیں لیکن حقیقت میں موحد نہیں ہیں بلکہ مشرک ہیںاور حقیقی توحید؛ خدا سے تشبیہ؛تجسیم اور تعطیل کو نفی کرنا ہے چنا نچہ روایت میں ہے : التوحید نفی الحدین حد التشبیه و حد التعطیل (22) ۔
توحید یعنی خدا کی ذات سے تشبیہ اور تعطیل دونوں کو نفی کرناہے۔
یا خدا کے ایک کہے جانے سے مراد واحد عددی ہے کہ جسکا لازمہ خدا کی ذات کا محدود ہونا ہے اور جب خدا کی ذات محدود ہو جائے تو گنتی میں آجاتی ہے اور جب گنتی میں آجاے تو پھر اسکے ساتھ دوسرے تیسرے خدا کا فرض کیا جا سکتا ہے اگرچہ دلیل اور برہان کے ذریعے ایک سے ذیادہ خداوںکی نفی ہی کیوں نہ کرے۔ جس طرح نصاری(مسیحیت) خدا کی ذات کے ساتھ اور دو یعنی جناب مریم اور جناب عیسی کا اضافہ کرتے ہیںاور کہتے ہیں : انّ الله ثالث ثلاتة۔ خدا تین میں سے ایک ہے۔
یا خدا کے واحد ہونے سے مراد( واحد حقہ ) ہے یعنی خدا کی ذات وہ واحد اور یکتا لا متناہی وجود ہے جسکی کوئی حدنہیں ہے ؛نہ ابتدا ہے؛ نہ انتہائ؛ ہر طرح کے حد وحدود اور شرط وقیود سے پاک اور منزہ وجود جسکا تصور آپ کوفرد دوئم کے تصور سے مستغنی کر دیتا ہے اوروجود خداہی اسکے واحر ہونے کی دلیل ہے ؛ اور اسکے ساتھ کسی دوسرے خدا کا بلکہ کسی دوسرے وجود کا تصور بھی ممکن نہیں ہے اور جب آپکے ذہن میں خدا کے ایک ہونے کا یہ حقیقی اور واقعی معنی اور تصور آگیا تو خود بخود فطری طور پر یہ طے کریں گے کہ ذات پروردگار کے ساتھ کسی دوسرے خدا کا تصور نا ممکن ہے ۔
قرآن وسنت میں خدا کے ایک ہونے سے مراد کیا ہے ؟
اب ہم قرآن وسنت کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ قرآن کی نگاہ میں اور اہل بیت کی نظرمیں خدا کے ایک ہونے سے کیا مراد ہے؟ قرآنی آیات اور روایات اہل البیتؑ کا غورکے ساتھ مطالعہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچا تاہے کہ ثقلین کی نگاہ میں خدا کے واحد ہونے سے مراد نہ ہی واحد ترکیبیہ ہے اور نہ ہی واحد عددیہ ہے ؛بلکہ ان دونوں قسم کے واحد کو خدا کی ذات سے شدت کے ساتھ نفی کرنے کے ساتھ ساتھ واحد حقہ کو ثابت کیا گیاہے اور بہت ہی آسان اور نہایت واضح الفاظ میں دلیل پیش کی گئی ہے ۔ چنانچہ جنگ صفینںکا واقعہ مشہور ہے کہ میدان جنگ میں ایک دفعہ ایک دہاتی نے آکرسوال کیا ۔
یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَ تَقُولُ إِنَّ اللَّه وَاحِدٌ قَالَ فَحَمَلَ النَّاسُ عَلَیْه وَ قَالُوا یَا أَعْرَابِیُّ أَ مَا تَرَی مَا فِیه أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ تَقَسُّمِ الْقَلْبِ فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع دَعُوه فَإِنَّ الَّذِی یُرِیدُه الْأَعْرَابِیُّ هوَ الَّذِی نُرِیدُه مِنَ الْقَوْمِ ۔
یا امیر المؤمنینؑ کیا آپ فرماتے ہیں کہ خدا ایک ہے ؟ لوگوں نے اسے منع کیا اور کہااے اعرابی کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ امیر المؤمنینؑ قلب لشکر کو تقسیم کرنے میں مشغول ہیں فرمایا اسے سوال کرنے و دبے شک یہ اعرابی جو سمجھنا چاہتا ہے وہی مطلب ہم اپنے مد مقابل دشمنون سے چاہتے ہیں یعنی ہم ان سے جنگ اسلیے کر رہے ہیں تاکہ انکو توحید پر لے آئیں؛ انھیں راہ راست دیکھائیں ؛انھیں گمراہی سے بچا لیں ۔
ثُمَّ قَالَ یَا أَعْرَابِیُّ إِنَّ الْقَوْلَ فِی أَنَّ اللَّه وَاحِدٌ عَلَی أَرْبَعَة أَقْسَامٍ فَوَجْهانِ مِنْها لَا یَجُوزُ عَلَی اللَّه عَزَّ وَ جَلَّ وَ وَجْهانِ یَثْبُتَانِ فِیه :
پھر فرمایا اے اعرابی ؛خدا کے ایک کہے جانے کی چار قسمیں ہیں ان میں سے دو جو خدا کے ساتھ جائز نہیں ہے یعنی خدا کی ذات ان دو قسم کے واحد سے متصف نہیں ہوسکتی لیکن ایک کی اور دو قسم ہیں جو دونوں خدا کی شان میں جائز ہیں۔
یْه فَقَوْلُ الْقَائِلِ وَاحِدٌ یَقْصِدُ بِه بَابَ الْأَعْدَادِ فَهذَا مَا لَا یَجُوزُ لِأَنَّ مَا لَا ثَانِیَ لَه لَا یَدْخُلُ فِی بَابِ الْأَعْدَادِ أَ مَا تَرَی أَنَّه کَفَرَ مَنْ قَالَ إِنَّه ثَالِثُ ثَلَاثَة وَ قَوْلُ الْقَائِلِ هوَ وَاحِدٌ مِنَ النَّاسِ یُرِیدُ بِه النَّوْعَ مِنَ الْجِنْسِ فَهذَا مَا لَا یَجُوزُ لِأَنَّه تَشْبِیه وَ جَلَّ رَبُّنَا وَ تَعَالَی عَنْ ذَلِکَ ۔
وہ دوقسم جو خدا کی شان میں جائز نہیں ہیں اسے مراد کوئی کہے خد ایک ہے لیکن خدا کے ایک ہونے سے اور واحد ہونے سے واحد عددی مراد لے لیں (کہ جسکے مقابلے میں دوسرے خدا کا تصور ممکن ہو) یہ خدا کے بارے میں جائز نہیں ہے کیونکہ جسکا کوئی دوسرا نہ ہو وہ گنتی میں نہیں آتا (چونکہ خدا کی ذات لا متناہی ہے وہ گنتی میں نہیں آسکتی اورجو گنتی میں آجائے وہ محدود ہوتا ہے ) اسیلیے جنھون نے کہا خدا تیں میں سے ایک ہے کافر ہو گئے۔ اسی طرح کوئی کہے وہ لوگوں میں سے ایک ہے اور اس ایک اور واحد سے مراد واحد( جسمی اور ترکیبی مراد لے )نوعی مراد لےجوجنس اور فصل سے مرکب ہو تو یہ تصور بہی خدا کے بارے میں جائز نہیں ہے چونکہ اسکا نتیجہ تشبیہ (اور خدا کومرکب قرار دینا )ہے جبکہ ہمارے پروردگار کا مرتبہ اس سے بہت بلند ہے :
وَ أَمَّا الْوَجْهانِ اللَّذَانِ یَثْبُتَانِ فِیه فَقَوْلُ الْقَائِلِ هوَ وَاحِدٌ لَیْسَ لَه فِی الْأَشْیَاء ِ شِبْه کَذَلِکَ رَبُّنَا وَ قَوْلُ الْقَائِلِ إِنَّه عَزَّ وَ جَلَّ أَحَدِیُّ الْمَعْنَی یَعْنِی بِه أَنَّه لَا یَنْقَسِمُ فِی وُجُودٍ وَ لَا عَقْلٍ وَ لَا وَهمٍ کَذَلِکَ رَبُّنَا عَزَّ وَ جَلَّ (23) ۔
لیکن وہ دو قسمیں جو خدا کے بارے میں بتانا جائز ہیں یہ کہ کوئی شخص کہے خدا ایک ہے لیکن مخلوقات میں اس جیسا دوسرا نہیں ہے یعنی خدا ایک ہے کہنے سے مراد خدا کا لاثانی ہونا ہے ( یعنی وہ یہ کہے کہ خدا کی ذات کا تصور اسکے لاثانی اور فرد ہونے کا مستلزم ہو) اور ہمارا پروردگار ایسا ہی ہے۔اسی طرح کوئی شخص کہے کہ اللہ ایک ہے اور اس سے مراد خدا کی ذات کا بسیط ہونا ہے یعنی خدا کی ذات خارجا ؛عقلاً؛ وہماً قابل تقیسم نہیں ہے یعنی خدا کے ایک ہونے سے مراد اسکی ذات سے ترکیب کو نفی کرنا ہے۔حضرت علی ؑ نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پرفرماتے ہیں:۔۔۔۔ وَ مَنْ حَدَّه فَقَدْ عَدَّه وَ مَنْ عَدَّه فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَیته(24) ۔
جس نے خدا کو محدود کیا اس نے اسے معدود کیا؛ اور جو خدا کو گنتی میں لایا اس نے خدا کی اذلیت کو ٹھیس پہنچا ئی۔ آپؑ فرمانا چاہتے ہیں اگر ہم خدا کی ذات کو محدود فرض کریںتو محدودیت اور عددیت میں لازمہ ہے وہ اس طرح کہ جب محدود ہو جائے تو اسکے ختم ہونے کے بعد دوسرے خدا کا فرض کیا جا سکتا ہے اگر آپ خدا کے ساتھ دوسرے خدا کا فرض کریں تو وہ ازلی نہیں رہے گا ؛لا متناہی نہیں رہے گا جبکہ خدا کی ذات لا متناہی ہے لہذا نہ ہی محدود ہے اور نہ ہی معدودہے بلکہ اس ذات کا لا متناہی ہونے کالازمہ یہ ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ہے اور ہرطرح کے حدّو حدود اور شرط وشروط سے پاک ومنزہ ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں بھی متعدد آیات میں پروردگار عالم کی ذات اقدس سے واحدغیر حقہ کی نفی کی گئی ہے چنانچہ سورہ مائدہ کی / 73 آیت میں ارشاد ہوا ہے۔ لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُواْ إِنَّ اللَّه ثَالِثُ ثَلَثَة وَ مَا مِنْ إِلَاه إِلَّا إِلَاه وَاحِد(25) ۔
یقینا وہ لوگ کافر ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے جبکہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ۔اسی طرح سورہ شوری کی آیت /٧ میں ارشاد ہوتا ہے:۔۔۔۔ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شیَْء ٌ ۔(26) ۔
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ یہ دو آیتیں بہت ہی واضح الفاظ میں وحدت ترکیبیہ اور وحدت عددیہ کی نفی کرتی ہیں۔ اسی طرح سورہ حج کی/ 62 آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : ذَالِکَ بِأَنَّ اللَّه هوَ الْحَقُّ وَ أَنَّ مَا یَدْعُونَ مِن دُونِه هوَ الْبَاطِلُ وَ أَنَّ اللَّه هوَ الْعَلیُِّ الْکَبِیر*(27) ۔
یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیرمیں علماء فرماتے ہیں : کہ اللہ حق محض ہے اگر اسکا وجود؛ وجود معدود ہوتا تو وہ ثانی کو قبول کرلیتا اور اسکے ساتھ دوسرے ؛ تیسرے کا بھی فرض ممکن تھا اور ثانی کو اس وقت قبول کرے گا کہ جب محدود ہو اور جب محدود ہونا ثابت ہو جاے تو اسکا معنی یہ ہے کہ وہ حق محض نہیں ہے بلکہ ایک جھت سے فاقد الشی ہے یعنی ایک کمال نہیں رکھتاتو اسکا معنی یہ ہے کہ وجود خدا وند حق وباطل سے اور وجود وعدم سے مرکب ہو جو ترکیب کے اعتبار سے بد تریں قسم ہے پس خدا کا حق محض ہونا دلیل ہے کہ ذات پروردگار نہ ہی محدود ہے اور نہ ہی معدود ات میں شمار ہوتی ہے ۔
پس ان آیات اور روایات میں بہت ہی واضح الفاظ کے ساتھ خدا کی ذات سے واحد ترکیبی اور عددی کی نفی کی گئی ہے ۔ اسی طرح محدودیت اور معدودیت دونوں کو نفی کرتے ہوے ازلیت ؛ بساطت اور لا محدودیت کوخدا کی ذات اقدس کے لیے ثابت کیا گیاہے ۔ بعبارت دیگر علمی اصطلاح میں وحدت حقہ کو ثابت کیا گیاہے ۔
اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ ثقلین کی نگاہ میں پروردگار عالم کے ایک کہے جانے سے مراد اللہ تعالی کی ذات اقدس کے محض الوجود ؛ صرف الوجود؛ بسیط الحقیقہ ؛ ازلی ؛اور غیر متناہی ہونے پر ایمان لے آنا ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خدا کا وجود لا محدود اورغیر متناہی ہے؛ نہ اسکی کوئی ابتداء ہے؛ اورنہ کوئی انتہاء ؛ تو اسکا لازمہ یہ ہوگا کہ جتنے بھی وجود اس کائنات میںپاے جاتے ہیں کسی بھی وجود کو اس وجود لا متناہی کے عرض میں یعنی اسکے مقابلے میں فرض نہیں کیا جا سکتا بلکہ تمام مخلوقات کو اس وجود لا متناہی کے طول میں تصور کیا جا سکتا ہے اس صرف الوجود کے آثار؛ نشانی اور معلول تصور کیا جا سکتا ہے اور اثر اور معلول وجوداً اور بقاء ً اپنے موثر اور علت کی طرف محتاج ہے چنانچہ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : یَأَیها النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء ُ إِلیَ اللَّه وَ اللَّه هوَ الْغَنیُِّ الْحَمِید(28) ۔
اے انسانو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔اور یہاں سے توحید کی عظمت سامنے آجاتی ہے کہ دات پروردگار اپنے وجود؛ صفات اورافعال میں غنی المطلق ہے ؛جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہر لحظ ؛ اپنے وجود ؛ بقاء ؛ صفات ؛افعال اوراراد ے بلکہ ہر چیز میں اس غنی مطلق کی طرف محتاج ہے چنانچہ نبی اکرم ؐ اسی حقیقت کوبیان کرتے ہوے فرماتے ہیں :۔۔۔۔ وَ الْفَقْرُ فَخْرِی ۔۔۔۔ (29) ۔
ناداری اور ساحت قدسی کی طرف محتاج ہونے پر مجھے فخر ہے آنحضرت ؐیہ بتانا چاہتے ہیں کہ ناداری اور فقرونیازمندی میری ذات میں؛ میرے وجود میں شامل ہے ۔
چناچہ علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں : خداکے ایک اور واحد ہونے سے مراد واحد حقہ ہونے پر اہل بیت اطہار علیھم السلام اور خصوصاً امام الموحدیں ؑسے اتنی زیادہ روایات واضح اور صریح الفاظ میں ہم تک پہنچی ہیں کہ اسکے بعد اس مطلب پر فلسفی دلائل لانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اگر چہ اسلامی مفکرین اور فلاسفر کے درمیان جو سب سے پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوے ہیں وہ جناب صدر المتالھین شیرازی رحمہ اللہ ہیں(30) ۔
خدا کے ازلی اور ابدی ہونے سے کیا مراد ہے ؟
جب قرآنی آیات اور روایات اہل بیت ؑکے نورانی کلمات کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ ذات پرودگار کے واحد حقہ ہونے کا لازمہ اس ذات کا لا متنا ہی اور غیر محدود ہونا ہے تو اسکا مقصد یہ ہے کہ ذات اقدس کے لئے نہ ہی کوئی ابتداء فرض کی جاسکتی ہے اور نہ ہی انتھائ؛ اس طرح کہ ایک خاص نقطے سے شروع ہو جاے اور کسی اور نقطے پر پہنچ کر ختم ہو جائے اور اسی نکتہ کو علمی اصطلاح میں ازلی اور سرمدی کہا جاتا ہے ۔ازلی یعنی جسکی ابتداء فرض نہیں کی جا سکتی ہو ؛ اور سرمدی یا ابدی سے مراد یہ کہ اس کے لیے کوئی انتہاء بھی فرض نہیں کی جاسکتی ہے ؛ چانچہ المؤمنین علی علیہ السلام کا مشہور قول ہے جس میں اس مطلب کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیاں کیا گیا ہے َ۔
جَاء َ حِبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ع فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَتَی کَانَ رَبُّکَ فَقَالَ لَه ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ وَ مَتَی لَمْ یَکُنْ حَتَّی یُقَالَ مَتَی کَانَ کَانَ رَبِّی قَبْلَ الْقَبْلِ بِلَا قَبْلٍ وَ بَعْدَ الْبَعْدِ بِلَا بَعْدٍ وَ لَا غَایَة وَ لَا مُنْتَهی لِغَایَتِه انْقَطَعَتِ الْغَایَاتُ عِنْدَه فَهوَ مُنْتَهی کُلِّ غَایَة فَقَالَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَ فَنَبِیٌّ أَنْتَ فَقَالَ وَیْلَکَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ مِنْ عَبِیدِ مُحَمَّدٍ (31) ۔
ایک یہودی عالم امیر المؤمنین کے خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے یا امیر المؤمنین تمھارا پروردگار کب سے ہے ؟ فرمایا اے شخص تمھاری ماں تمھاری عزا میں بیٹھے کب میرے پروردگار نہیں تھا تاکہ یہ کہا جائے کب وجود میں آیا میرا پروردگار زمان سے پہلے موجود تھا کہ جب زمان کا نام ونشان نہیں تھا اور زمان کے بعد بھی موجود سے جب زمان نہیں ہو گا اس ذات اقدس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ اس ابتداء کی کوئی انتھاء ہے ہر شی کی ابتداء اسے ہیں اور اور انتھاء بھی اس تک ہے (یہی سنا تھا وہ یہودی عالم کہتا ہے ) یا امیر المؤمنین کیانبی ہے آپ ؟ فرمایا ویل ہو تم پر بلکہ میں غلاموں میں سے ایک غلام ہوں محمد کا ۔اسی طرح آپ فرماتے ہیں کب سے سوال اس موجود کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو مکانی اورزمانی ہو جبکہ زمان ومکان خدا کے مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں تو پھر کب سے سوال کا معنی ہی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح نہج البلاغہ میں کسی اور مقام پر آپ فرماتے ہیں۔ وَ مَنْ حَدَّه فَقَدْ عَدَّه وَ مَنْ عَدَّه فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَه (32) ۔
یعنی خدا کی ذات کا لا محدود ہونا دلیل ہے کہ وہ ذات ازلی ہے اسکی کوئی ابتداء فرض نہیں کیا جا سکھتاہے نہ ہی کوئی انتھاء ۔
ایک شبہ اور اسکا جواب
جب ہم نے قرآنی آیات وروایات اہل بیتؑ اور عقلی رو سے خدا کی ذات کے لیے واحد حقہ کو ثابت کیا تو اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف اور صرف خدا کی لا متناہی ذات ابدی اور ازلی ہے اسکے علاوہ کسی اور وجود کو اسکے ساتھ اور اسکے عرض میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوسرے تمام وجودات اسکے طول میں ہیں۔اس ذات سرمدی کے آثار و معلولات کودو عدم کے درمیاں محدود فرض کرنا ہو گا ۔ جبکہ خود پروردگار عالم نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کم سے کم انسان کے بارے میں ابدی ہونے کی خبر دی ہے جیسا کہ سورہ مائدہ کی/ 119 آیت جس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : قَالَ اللَّه هذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهمْ لهمْ جَنَّاتٌ تجَْرِی مِن تحَْتِها الْأَنْهارُ خَالِدِینَ فِیها أَبَدًا ۔۔۔۔)(33)-
اللہ نے کہا کہ یہ قیامت کا دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے۔
اسی طرح تمام ادیان الہی کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ اس انسان کو کم سے کم فنا ہونے کے لیے؛ ختم ہونے کے لیے خلق نہیں کیا گیا بلکہ بقا اورہمیشہ رہنے کے لیے خلق کیا گیا ہے چنانچہ رسول پاک ؐسے بھی اس بارے میں روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں ۔ مَاخُلِقْتُمْ لِلْفَنَاء ِ بَلْ خُلِقْتُمْ لِلْبَقَاء ِ وَ إِنَّمَا تُنْقَلُونَ مِنْ دَارٍ إِلَی دَارٍ(34)-
اے لوگو تمھیں فناء ہونے کیے لیے خلق نہیں کیا گیا بلکہ بقاء کے لیے خلق کیا گیا ہے(اور موت کی حقیقت یہ ہے ) کہ وہ تمھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دے گی ۔توپھر ہم کس کو مانیں گے ؟ اور ان دونوں کے درمیاں کسے جمع کیا جاے گا ۔
جواب : ایک بہت ہی آسان جملہ ہے وہ یہ کہ خدا کی لا متناہی ذات کا لازمہ اسکے وجود کا ازلی اور ابدی ہونا ہے جبکہ جس طرح ہم اپنے وجود کی بقاء کے لیے ہر آن اور ہر لحظہ خدا کی طرف محتاج ہیں اس طرح ہم اپنی ذات کے ابدی ہو نے کے لیے بھی اس لا متنا ہی ذات کی طرف محتاج ہیں ۔ پس خدا کی ابدیت ذاتی ہے اور ہماری ابدیت بالغیر ہے یعنی وہ ابدی ہماری اپنی نہیں بلکہ خدا کی جانب سے ہے ؛ اور یہی فرق صرف ذات کا نہیں بلکہ ہر مشترکہ صفت مثلاً علم میں ؛قدرت میں ؛ ولایت میں ؛شفاعت میں اور دیگر تمام خصوصیات اور صفات میں ہے اور یہی نکتہ ذہن نشینں ہوا تو پھر بہت سارے عقیدتی مسائل اور خصوصاًاہل بیت اطہارؑ کے متعلق بعض مسائل جو حقیقت میں معارف توحیدی سے ناآشنائی اوراور کم وبیش جہالت کی وجہ سے پیش آتے ہیں خود بخود حل ہو جاتے ہیں ۔ جس پر گفتگو آیندہ صفات پروردگار کے متعلق مباحث میں هوگی۔
حوالہ جات:
(1)- جاثىه: 13
(2)- نازعات: 5
(3)- ذارىات: 56
(4)- حجر : 99
(5)- انعام :75
(6)- نهج البلاغه: خ نمبر 1
(7)- عنكبوت :61
(8)- شىخ صدوق : التوحىد ص 27 ۔
(9)- حجر : 99
(10)- ابن ابى الحدىد شرح نهج البلاغة ج6 ص 371
(11)- سىد على مىلانى : نفحات الازهار خلاصه عقبات الانوار: ج 10 ص 11 قم مقدس 1414 هجرى
(12)- مائده: 73
(13)- بقره: 163
(14)- انسان :2
(15)- ذارىات : 49
(16)- انسان :1
(17)- بقره : 93 اور 51 ۔
(18)- مائده :24
(19)- مفاتيح الغيب، ج 11، ص: 334 مفاتيح الغيب، ج 3، ص: 512
(20)- امالى صدوق : ص 278
(21)- مراجعہ کریں ابن تیمرہ کی کتابون کا جو اس باب مریں لکھی گئی ہے
(22)- عولى الالى : ج 1 ص 301 ۔
(23)- علامه مجلسى: بحارالأنوار ج : 3 ص : 207 اور شىخ صدوق : التوحيد ص : 83 اور الخصال ج : 1 ص :
(24)- نهج البلاغه خ 152 ،۔ اصول كافي ج : 1 ص : 140 اور توحيد صددوق ص : 57۔
(25)-مائدہ: 73 .
(26)-شورى : 7
(27)- حج: 62 ۔
(28)- فاطر/15
(29)-مستدرك الوسائل ج : 11 ص : 173
(30)-طباطبائى ۔ الميزان ج 6 ص 105۔
(31)-الكافي ج : 1 ص : 90
(32)-نهج البلاغه خ 152 ،۔ اصول كافي ج : 1 ص : 140 اور توحيد صددوق ص : 57۔
(33)- مائده : 119 ۔
(34)-بحارالأنوار ج : 58 ص : 78 ۔ اور مجموعةورام ج : 2 ص : 24۔