بسمہ تعالی
انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
فدا حسین حلیمی بلتستانی
پیشکش: امام حسین فاؤنڈیشن
حقیقت ایمان ان حقائق میں سے ہے جن کی شناخت معلومات کی جدّت اور ارتقاء کے سایہ میں وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر یہ چکمتا ہو ا روشن سورج تمام چیزوں میں سب سے واضح ہے اسکے باوجود صدیوں تک اس کی حقیقت مجہول رہی ہے لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسکی حقیقت کھلتی جارہی ہے اسی طرح ایمان بھی انسانی طبیعت کا جز اور ایک فطری ضرورت ہو نے کے باوجود مختلف دلائل کی بنا پر مجهول رہا ہے جیسا کہ مشہور دانشمد ویل ڈیورانت لکھتا ہے : ایمان فطری چیز ہے ؛ یہ ڈائریکٹ احساسات اور طبیعی ضروریات کا مرہوں منت ہے لہذا اسکی ضرورت حفظ نفس ؛بھوک؛ امان ؛ اطاعت وانقیاد سے زیادہ شدید ہے ۔(۱)
لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایمان کا رازیکے بعد دیگر ے بشر پر روشن ہوتے جارہے ہیں ۔ ہم یہاں انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کے کچھ اثرات تحریر کرین گے
ایمان کی تعریف:
لغت میں ایمان سے مراد : تصدیق کرنا ؛ مان لینا ؛ یاخدا کی طرف سے نازل ہونے والی وحی پر عقیدہ رکھنے کے ہیں (۲)
لیکن دینی اصطلاح میں : ايمان سے مراد خداوند متعال کی توحید ؛ انبیاء کی نبوت ؛معاد اورشریعت کے احکام کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال انجام دینا ہے (3)
انسان کی انفردی زندگی میں ایمان کا اثر: اــ
جس طرح ایمان انسان کی انفردی زندگی میں انتہائی عمیق مثبت اثر ڈالتا ہے وسے ہی بے ایمانی یا ایمان کی کمزوری کی وجه سے انسان کوزندگی کے مختلف مراحل میں ہزاروں قسم کے نفسیاتی اور مشکلا ت اور قیامت کے دن ناقابل تحمل عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ہم یہاں ایمان ک. چند مثبت اثرات ذکر کر رهے ہین ۔
: ا۔ قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم خم ہونا
ایمان کا سب سے بڑا فائدہ بندہ کا اپنے خالق حقیقی پر اعتماد کرنا اور اس کی قضا وقدر کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے جب بندے میں یہ حالت آجائے تو پھر اسکی زندگی قانوں مند اورہدف مند ہوجاتی ہے اور اسکی تمام تر سعی اور کوشش اس ہدف تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہے اور مشکلات ؛ سختیاں اور خواہشات اسکے آنکھوں کے سامنے چھوٹی ہو جاتی ہے اور اسکے لیے زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔
2:انسان ک علمی پهلو پر ایمان کا اثر:
٢۔ علم اور ایمان جس طرح امیر المومنین فرماتے ہیں : اکتسبوا العلم یکسبکم الحیاة( غرر الحکم)علم حاصل کرو علم تمہارے لیے بابرکت زندگی لے آئے گی۔علم اور تحصیل علم سے عشق انسان کی فطرت میں رکھا کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد جھان کی شناخت حاصل کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اسلام ایک نظریاتی مکتب ہونے کی بنیاد پر اسکے تمام تر معارف کی بنیاد علم ومعرفت پر رکھا گیا ہے اور علم ودانش کے بغیر نہ ہی توحید پرودگار کی معرفت ممکن ہے اور نہ ہی خدا تک پہونچنے کا راستہ انتخاب کرسکتا ہے بلکہ ہر قدم اور ہر حرکت میں علم و آگاہی کی طرف محتاج ہے اور صرف نور علم کی روشنی میں ہی درست قدم اٹھا سکتا ہے چنانچہ امیر المومنین اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں : یا کمیل ۔۔۔۔۔ اے کمیل کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی سواے اس کے کہ تم اس میں شناخت اور آگاہی کی طرف محتاج ہے۔ (۴)
بلکہ کوئی عمل نتیجہ بخش ظاہر نہیں ہوتا جب تک علم کے ہمراہ نہ ہے چونکہ عمل کا دارو مدار نیت اور انگیزہ ہے اور صحیح نیت شناخت اور علم کے ساتھ ممکن ہے لہذا صادق آل محمد اس بارے میں فرماتے ہیں : جان لو ہراچھا کا م خواہ چوٹا ہو یابڑا جسیے تم انجام دیتے ہو علم اور آگاہی کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے چونکہ عمل معرفت کے ہمراہ ہو تو مورد قبول واقع ہوتا ہے ۔(۵)
اسی نظریے کی بنیاد پر اسلام نے تحصیل علم کو ہر فرد کا فریضہ قرار دیا ہے اور پڑے لکھے شخص کی شرعی زمہ دار ی بنتی ہے کہ وہ جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو جہالت سے نکالنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش انجام دیے۔چنانچہ امیر مومنین اس بارے میں فرماتے ہیں : ما اخذ اللہ علی آہل الجھل ان یتعلموا حتی اخذ علی اہل العلم ان یعلمّوا (۶)
پرودگار عالم نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہدلینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کا عہد لیا ہے ۔چنانچہ اسلا م کی اہم تری خصوصیت بھی یہی ہے کہ اسلام نے عملاً پردہ جہالت اور غفلت کو عقل انسانی کے سامنے سے ہٹا دیا اور بشر کو علم ومعرفت کی راستے پر گامزن کیا لہذا جب تک مسلمانوںمیں جذبہ ایمانی زندہ تھا اور اسی جذبے کے ساتھ دن رات علوم ومعارف کے حصول میں تھے اس وقت تک تہذیب وتمدن کی بلندی پر فائز تھے ہاں اگر آج امت مسلمہ دنیا کے ہر کونے میں ذلت وخواری اور جہالت وپستی کے شکار ہے تو بھی اسکی مین وجہ اسلام اور ایمان سے دوری کی وجہ سے ہے ۔چنانچہ ابوعلی مودوی کا مشہور جملہ : جس دن سے مسلمان اپنے دین سے روگردان ہوئے اسی دن سے زوال کا شکار ہونا پڑا اور ہر طرف سے ذلتیں اٹھانا پڑیں ؛؛ حق بجانب ہے ۔اور آج بھی اگر ہم دوبارہ پلٹ کر اپنے اصل سے منسلک ہو جائیں اور خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں اور جذبہ ایمانی ایک بار اپنے اندر پھونگ دے تو یقینا کھوئی ہوئی عزت کو اور لوٹی ہوئی دولت کو دوبارہ پلٹا سکتے ہیں ۔
٣۔انسان کے کردار پر ایمان کا اثر:
ایمان انسان کے وجود کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا کر دیتا ہے جو کسی اور چیز کے ذریعہ قابل تصور نہیں کیونکہ ایمان کا انجام ِکار یہ ہوتا ہے کہ وہ دل پر اثر کرتا ہے اور دل کے اندر ایمان جتنا قوی اور مضبوط ہوگا اتنا ہی عمل پاک اور پائیدار ہو گا لہذا ایمان ہمیشہ انسان کو اچھے اخلاق اور اچھے ترتاو کی طرف لے جاتا ہے اور خواہ نا خواہ برے اخلاق ؛ برےخیالات اور برے کاموں سے اسے دور رکھتا ہے اور روگ لیتا ہے اس لیے اسلام نے اخلاق حسنہ کو کمال ایمان کے لیے شرط قراردیاہے چنانچہ امرا المومنین فرماتے ہیں :اکمل المومنین ایماناً احسنهم اخلاقاً (۷)
کامل ترین مومن وہ ہے جسکا اخلاق سب سے زیادہ اچھا ہو ۔
٤۔ انسان کی نفسیات پر ایمان کا اثر:
آج کے اس تر قی یافتہ دور میں خصوصامغرب زمین میں علمی تحقیقات سے یہ واضح ہوا ہے کہ دنیا میں کم وبیش ٩٠ سے ٩٩ فیصد افراد مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں گویا ایک قیم کی وحشت ؛ بے چینی اور بے اعتمادی ان کی رگ رگ میں پھیل چکی ہے ۔اور بغیر مبالغہ کے اس کا بنیادی سبب ایمان کی کمزوری یاایمان جیسی لازوال نعمت سے بے بہرہ ہونا ہے لہذا ان نفیساتی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہتریں ذریعہ لباس ایمان کو زیب تن کرنا ہے اور اسی راہ سے انسان کوپر سکون زندگی نصیب ہوگی چنانچہ امیر المومنین فرماتے ہے؛ اللهم انک آنس الانسین لاولیائک ۔۔۔۔ الامور بیدک (۸)
پروردگارا تو اپنے دوستوں کے لیے انس فراہم کرنے والوں مین سب سے زیادہ انس ومحبت دینے والا اور اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کے لیے سب سے زیادہ حاجت روائی کے لیے حاضر ہے ۔ جب غریت انہیں متوحش اور پریشان کرتی ہے تو تیری یاد سکون کا سامان فراہم کردیتی ہے اور جب مصائب ان پر انڈیل دیے جاتے ہیں تو وہ تیری پناہ لیتے ہیں اس لیے کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ تمام معاملات کی زمام تیرے ہاتھ میں ہے ۔اسی طرح کسی اور مقام پر فرماتے ہیں : آمن تامن (۹)
ایمان لاو تاکہ سکون پاو ۔اور یہی بات آج کل ماہر نفسیات بھی کہتے ہیں : ایمان اضطراب کا موثر ترین علاج ہے ( 10)
٥۔ انسان کی شخصیت پر ایمان کا اثر:
کسی بھی فرد کی شخصیت بننے میں ایمان کا بہت بڑا کردار ہے جتنا ایمان کامل اور مضبوط ہو گا اتنا ہی انسان کی شخصیت جامع اور ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے سامنے نا قابل شکست اور مستحکم ہوگی ؛ اور صبر کی رسی کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دے گئی : چنانچہ روایت میں آیا ہے: المو من کالجبل الراسخ لا یحرّکه العواصف (11)
مو من کی مثال اس پہاڑ کی مانند ہے جسے ہواکی تیز جهونکے نہیں اکھاڑ سکتے۔تو اسی طرح با ایمان شخص دوسرے لوگوں کے ساتھ برتاو میں ضبط نفس ؛ تیز بینی اور ہوشاری سے کام لے گا اور اور اپنے عقیدے میں پہاڑ جیسا ثابت قدم ہو گا ۔زرق وبرق دنیا اسکے ایمان اور عمل میں ذرہ برابر سستی ایجاد نہیں کرسکتے۔
ب۔ انسان کی معاشرتی زندگی پر ایمان کا اثر:
مکتب اسلام کی نگاہ میں معاشرے کی باہمی تو ازن کوبرقرار رکھنے کے لیے ایمان اور معنویت کو بنیادی رول حاصل ہے ؛لہذا ہم یہاں ایما ن کے کچھ اہم اجتماعی اثرات تحریر کرتے ہیں ۔
١۔ اخوت اور بھائی چارگی:
اسلام کے سیاسی اور معاشرتی ثابت اصولوں میں سے ایک اصول معاشرے کی افراد کے درمیاں اخوت اور برادری کا رشتہ قائم کرنا ہے کہ جسکا سنگ بنیاد صدر اسلام میں ہی آیہ اخوت (انّما المومنون اخوة ) کے نازل ہو نے فورا بعد خود نبی اکرم ۖ کے دست مبارک سے رکھا گیا اور عملا انصار ومہاجریں کے درمیاں رشتہ اخوت قائم کیا اور ایک دوسرے کا بھائی بھائی قرار دیا یہاں تک اپنے چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب کو دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے لیے بھائی انتخاب کیا جسکے نتیجے میں مدینہ شھر کے اندر مختلف قومی ؛نسلی ؛ زبانی اور طبقاتی بنیادوں پر مبنی درینہ اور پرانی دشمنی او ناچاکیاں اخوت ؛ الفت اور بھائی چارگی میں تبدیل ہوگیئں اور تمام مسلمانوں نے یدِواحدة ہو کر ہر میدان میں رسول اکرم ۖ کے ساتھ دیا اور جس میدان میں بھی اترے سروخ روہوکے نکل آے اور ایک ایسی عظیم نعمت تھی جسے آج امت مسلمہ محروم ہو چکی ہے نتیجةہم ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں جبکہ ا س اصل مسلم کی اہمیت اور معاشرتی زندگی میں اسکی ضرورت کو بیاں کرتے ہوے امیر المومنیں فرماتے ہیں:فان الله سبخانه قد ۔۔۔۔۔الموالة احزابا ً:(12 )
بے شک پروردگار عالم نے اس امت پر اتحاد وبرادری کے ذریعہ احسان کیا تاکہ اتحاد اور اخوت کے سائے میں زندگی گزاریں ؛ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ کوئی مخلوق اسکی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتی کیونکہ یہ تمام اقدار سے بالاتر اور ہر کرامت سے بلند ہے ۔
٢۔ وحدت اور انسجام اسلامی:
اسلام کے ایک اور بنیادی اصول معاشرے میں مختلف افکار اور اغراض کے مالک لوگوں کے درمیاں اتحاد ایجاد کرنا اور انھیں ایک تسبیح میں پرودینا ہے یہ اصل انسانی معاشرے کے لیے ایک دائمی اور ہمیشہ کے قانوں کی حیثیت رکھتی ہے ۔دینی نصوص اور سیرت اہل بیت اطہار کا بغورمطالعہ ہمیںیہ نتیجہ دیتا ہے کہ اسلامی معاشرتی نظام میں اتحاد ویکجہتی دستور ہے جسکی تحفظ اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بہت ساری قربانیاںدینی پڑتی ہے اور بہت کچھ کھونا پڑتا ہے چنانچہ پرودگار عالم سورہ توبہ کی ١٠٩ آیت میں اتحاد کی برکت اور اہمیت کو بیاں کرتے ہوے ارشاد فرماتا ہے : (و اعتصِموا بِحبلِ الله جمیعا و لا تفرقوا و اذکروا نِعمت الله علیکم اِذکنتم اعدا فالف بین قلوبکِم فصبحتم بِنِعمتِه ِخوانا وکنتم علی شفا حفرة مِن النارِ فانقذکم مِنها ۔۔۔(13) اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
اسی طرح تفرقہ اور نزاع کے اسلامی معاشرے پر منفی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوے ارشاد ہوتا ہے :(و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ریحم و اصبِروا ِن الله مع الصابِرین)آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پس معلوم ہوا اگر آج امت مسلمہ استعماری ایجنٹوں اور انکے غلط پروپگنڈوں کے زد میں آکر تفرقہ بازی؛انتشار اور ایک دوسرے کے خون بہانے کے پیچھے تلے ہیں تو یہ سب اسلام کے بنیادی اصولوں روگردانی اور سیرت اہلبیت اطہار سے نا آشنائی کی وجہ سے ہیں اور حقیت میں یہ سب اختلافات جس طرح امیر امومنین فرماتے ہیں : کہ سب کا خدا ایک ؛نبی ایک ؛کتاب ایک ہے تو کیا خدا نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ لوگ اس حکم کی اطاعت کر رہے ہیں یا اس نے انہیں اختلاف سے منع کیاہے مگر پھر بھی اسکی مخالفت کر رہے ہو۔(۱۴)
پس اسے معلوم ہوتا ہے تفرقہ اور انتشار پھل جانے کا اصل سبب خدا کی معصیت اور بے ایمانی اور دینی اصولوں سے روگردانی ہے ۔
٣۔عدالت اجتماعی کا تحقق:
بشر کی یہ درینہ آرزو رہی ہے کہ اس روئے زمین پر عدالت اجتماعی قائم ہو اور عالمی نظام کی بنیاد عدل وانصاف پر رکھی جائے لیکن ابھ تک یہ آرزو پوری نہیںہونے پائی اور انسان اپنے ہاتھوں اپنی اس فطری چاہٹ کا جواب نہ دے سکا بلکہ سائنس اورتکنالوجی کے ترقی کے ساتھ طبقاتی اور استبدادی نظام اپنے عروج پر ہے اور ہر نیے دن نت نیے منگڑت بہانے ہاتھ میں لیے غریبوں اور مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلنے میں مصروف ہے ؛ اوردنیا میں اربوں کی تعداد افراد کم ترین وسائل زندگی فراہم کرنے سے عاجز ہیں اور روزانہ ہزاروں کی تعداد انسان بھوک ؛ پیاس اور فاقہ شکنی کی وجہ سے دم ٹور رہے ہیں اور ہر طرف قتل وغارت ؛ ظلم وبربریت ؛ کرشن اور اخلاقیفسادات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔اور ہیں یقین ہے کہ ان تمام فسادات کی ریشہ کنی صرف اور صرف ایک ایسے نظام کی زیر ساے میں قابل تحقق ہے جسکی بنیاد عدل وانصاف اور ایمان کے مضبوط اصولوں پر ہو اورایک ایسی عظیم ہستی کی ہاتھ ہو جسکا شعار یہ ہے کہ : پروردگارا تو گواہ ہے کہ میں خلافت کو دولتمند بننے یا حکومت کرنے کی غرض سے نہیں چاہتا بلکہ میرا مقصد صرف شعائر دینی کا قیام اور امور مسلمیں کا اصلاح ہے تاکہ مظلوم آرام کی نیند سوسکے اور بھولے ہوئے احکام اور حدود الھی کا اجراء ہو سکے (15)
یا آپ اپنے دلی احساسات کا اظہار یوں فرماتے ہیں : والله لواعطیت الاقالیم السبعه ۔۔۔۔ لا تبقی :خدا گواہ سے اگر مجھے سات اقالیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اس قدر ظلم کروں کہ اسکے منہ سے اس چلکھے کو چھین لوں جو وہ چبارہی ہوتو ہرگزایسا نہیں کروں گا ؛یہ تمھاری دنیا میر ی نظر میں اس پتی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اسے چبا رہی ہو ؛ بھلا علی کو ان نعمتوں سے کیا واسطہ جو فنا ہو جانے والی ہیں اور اس لذت سے کیا تعلق جو باقی رہنے والی نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ کہ ایمان کی برکتیں نہ صرف مومن کی زندگی تک محدود ہیں بلکہ یہ وہ سپر ہے جس سے انسانی معاشرہ ظلم وبربریت ؛قتل وغادب اور افراط وتفریط سے بچ جاتا ہے اور اسے امنیت ؛ سیادت ں قوت ں وحدت ں عزت ؛ برکت اور بیدار ی فراہم کر دیتا ہے تاکہ بشر اس پر امن ماحول میں پر سکون اور آرام زندگی گزارسکے اوراپنی درینہ آرزو کو عملی جامہ پھنا سکے اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ جب پورا معاشرہ صبغہ الھی لے لیں اورنور ایمان سماج کونہ کونے میں روشن ہو جاے امید ہے کہ وہ دن جلد از جلد دیکھنے میں آجائے ۔
حوالہ جات:
(1)- ویل ڈیورائنٹ: لذات الفلسفہ:ص٤٢٦
(2)- المنجد :عربی اردو : ص ٦٤
(3)- معجم المقائیس الغة : ١٣٣، (نہج البلاغة:ح/ ٢٢٧
(4)- الحیاة : ج ٨ : ص ٣٥
(5)- الحیاة؛ ج ٨: ص ٣٨
(6)- نہج البالغہ :ح ؛٤٧٨
(7)- نہج البلاغہ :ح ؛ ٣٨
(8)- نہج البلاغہ : خ ٢٢٧
(9)- غرر الحکم :٨٨
(10)- دین وردان : ص ٣٣٥
(11)- کافی :ج ٢ ص٢٨٢
(12)- نہج البلاغہ :خ ١٩٢و ١٠٣
(13)- سورہ توبہ ، ١٠٩
(14)- نہج البلاغہ خ/١٢٨
(15)- احتجاج طبرسی؛ج ١ /ص