آپ (ع) کو تمام زبانوں کا علم امام (ع) تمام زبانیں جانتے تھے، ابو اسماعیل سندی سے روایت ہے : میں نے ہندوستان میں یہ سنا کہ عرب میں ایک اللہ کی حجت ہے، تو اُس کی تلاش میں نکلا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ وہ امام رضا (ع) ہیں میں اُ ن کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب آپ کی بارگاہ میں پہنچا تو میں نے آپ (ع) کو سندھی زبان میں سلام کیا امام (ع) نے سندھی زبان میں ہی سلام کا جواب دیا ،میں نے آپ (ع) کی خدمت مبارک میں عرض کیا: میں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک اللہ کی حجت ہے اور اسی حجت کی تلاش میں آپ (ع) کے پاس آیا ہوں تو امام (ع) نے فرمایا :""میں ہی اللہ کی حجت ہوں ""،اس کے بعد فرمایا :""جو کچھ تم سوال کرنا چاہتے ہو سوال کرو " "میں نے آپ (ع) سے متعدد مسائل دریافت کئے تو آپ (ع) نے میری زبان میں ہی اُن کا جواب بیان فرمایا ۔ (٢٣)
ابو صلت ہروی سے روایت ہے :امام رضا (ع) لوگوں سے اُن ہی کی زبان میں کلام کیا کرتے تھے ۔ میں نے امام (ع) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا :""اے ابو صلت میں مخلوق پر اللہ کی حجت ہوں اور اللہ کسی قوم پر ایسی حجت نہیں بھیجتا جو اُن کی زبان سے آشنا نہ ہو ،کیا تم نے امیر المومنین کا یہ کلام نہیں سُنا: ہم کو فصل خطاب عطا کیا گیا ہے ؟کیا وہ زبانوں کی واقفیت کے علاوہ کچھ اور ہے ؟""۔ (٢٤)
یاسر خادم سے روایت ہے :امام رضا علیہ السلام کے بیت الشرف میں صقالبہ اور روم کے افراد تھے، امام ابو الحسن (ع) اُن سے بہت قریب تھے، میں نے آپ(ع) کو اُن سے صقلبی اور رومی زبان میں گفتگو کرتے سنا ہے اور وہ اُس کو لکھ کر آپ (ع) کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے ۔ (٢٥)
اسی چیز کو شیخ محمد بن الحسن حرّ نے اس شعر میں قلمبند کیا ہے:
وَعِلْمُه بِجُمْلَةِ اللُّغَاتِ
مِنْ أَوْضَحِ الاِعْجَازِ وَالآیَاتِ (٢٦)
""تمام زبانوں سے آپ (ع)کی آشنائی آپ (ع) کا واضح معجزہ اور نشانی ہے ""۔
واقعات و حادثات
امام رضا (ع) متعدد واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی اُن کی خبر دیدیا کرتے تھے، اس سے شیعوں کے اس عقیدے کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اسی علم سے نوازا ہے جس سے اپنے رسول اور انبیاء (ع) کو نوازا ہے، اُن ہی میں سے امام (ع) نے یہ خبر دی تھی :مامون انپے بھائی امین بن زبیدہ کو قتل کرے گا ،جس کو اس شعر میں نظم کیا گیا ہے :
فَاِنَّ الضِّغْنَ بَعْدَ الضِّغْنِ یَفْشُو
عَلَیْکَ وَیُخْرِجُ الدَّ ائَ الدَّ فِیْنَا (٢٧)
""بیشک کینہ کے بعد کینہ مسلسل کینہ کرنے سے تمھارے اوپر راز فاش ہو جا ئے گا اور دبے ہوئے کینے ابھر آئیں گے ""۔
ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون نے آپ (ع) کے بھا ئی امین کو قتل کردیا۔
امام (ع) نے ایک خبر یہ دی تھی کہ جب محمد بن امام صادق (ع) نے مامون کے خلاف خروج کیا تو امام رضا (ع)نے ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فرمایا :اے چچا اپنے پدر بزرگوار اور اپنے بھائی (امام کاظم علیہ السلام) کی تکذیب نہ کرو ،چونکہ یہ امر تمام ہونے والا نہیں ہے ،تو اُس نے یہ بات قبول نہیں کی اور علی الاعلان مامون کے خلاف انقلاب برپا کر دیا کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون کا لشکر جلو دی کی قیادت میں اس سے روبرو ہوا اُس نے امان مانگی تو جلو دی نے اس کو امان دیدی ،اور اس نے منبر پر جا کر خود کو اِس امر سے الگ کرتے ہوئے کہا :یہ امر مامون کے لئے ہے ۔ (٢٨)
امام رضا (ع) نے برامکہ کی مصیبت کی خبر دی تھی ،جب یحییٰ برمکی ان کے پاس سے گزرا تو وہ رومال سے اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھا ۔امام (ع) نے فرمایا :یہ بیچارے کیا جانیں کہ اس سال میں کیا رونما ہونے والا ہے۔ اس کے بعد امام (ع) نے مزید فرمایا:مجھے اس بات پرتعجب ہے کہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اور ہارون اس طرح ہیں ، یہ فرما کر آپ (ع) نے اپنے بیچ اور انگو ٹھے کے پاس کی انگلی کو ایک دوسرے سے ملا کر اشارہ کیا۔ (٢٩)
ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ جو کچھ امام (ع) نے فرمایا تھا وہ واقع ہوا ،یہاں تک کہ رشید نے برامکہ پر دردناک عذاب اور مصیبتیں ڈھائیں ،رشید نے خراسان میں وفات پائی اور بعد میں امام رضا (ع) کواسی کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔
یہ وہ بعض واقعات ہیں جن کی امام رضا (ع) نے خبر دی تھی اور ہم نے ایسے متعدد واقعات ""حیاةالامام رضا (ع)""میں ذکر کر دئے ہیں ۔
آپ (ع) کی جود و سخا
مو رّخین نے آپ (ع) کی جود و سخا کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ یوں ہیں :
١۔جب آپ (ع) خراسان میں تھے تو آپ(ع) اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے ،عرفہ کا دن تھا اور آپ (ع) کے پاس کچھ نہیں تھا ، فضل بن سہل نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا :یہ گھاٹے کا سودا ہے۔امام (ع) نے جواب میں فرمایا :""اس میں فائدہ ہے ،اس کو تم گھاٹا شمار نہ کرو جس میں فائدہ نہ ہو""۔ (٣٠)
اگر کوئی شخص اجر الٰہی کی امید میں فقیروں کے لئے انفاق کرتا ہے تو یہ گھاٹا نہیں ہے، بلکہ گھاٹا تو وہ ہے کہ بادشاہوں اور وزیروں کے لئے ان کے سیاسی اورذاتی کاموں میں خرچ کیا جائے ۔
٢۔ آپ (ع) کا ایک مشہور و معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ(ع) کی خدمت با برکت میں آ کر عرض کیا :میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے آباء و اجداد کا چاہنے والا ہوں ،میں حج کرکے واپس آ رہا ہوں ،میرے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور جو کچھ ہے بھی اس سے کچھ کام حل ہونے والا نہیں ہے، اگر آپ (ع) چاہیں تو میں اپنے شہر واپس پلٹ جاؤں، جب میرے پاس رقم ہو جائے گی تو میں اُس کو آپ (ع)کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، امام (ع) نے اُس کو بیٹھنے کا حکم دیا اور آپ (ع) لوگوں سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے جب وہ سب آپ (ع) سے رخصت ہو کر چلے گئے اور آپ (ع) کے پاس صرف سلیمان جعفری اور خادم رہ گئے تو امام اُن سے اجازت لیکر اپنے بیت الشرف میں تشریف لے گئے، اس کے بعد اوپر کے دروازے سے باہر آ کر فرمایا : ""خراسانی کہاں ہے ؟""،جب وہ کھڑا ہوا تو امام (ع) نے اُس کو دو سو دینار دئے اور کہا کہ یہ تمھارے راستے کا خرچ اور نفقہ ہے اور اِ ن کو میری طرف سے صدقہ نہ دینا وہ شخص امام(ع) کی عطا کردہ نعمت سے مالا مال اور خوش ہو کر چلا گیا ۔ سلیمان نے امام(ع) کی خدمت میں یوں عرض کیا : میری جان آپ (ع) پر فدا ہو آپ (ع) نے احسان کیا اور صلۂ رحم کیا تو آپ (ع) نے اس سے اپنا رخ انور کیوں چھپایا ۔
امام (ع) نے جواب میں فرمایا :""میں نے ایسا اس لئے کیا کہ میں سوال کرنے والے کے چہرہ میں ذلت کے آثاردیکھنا نہیں چاہتا کہ میں اس کی حاجت روائی کر رہا ہوں ،کیا تم نے رسول خدا (ص) کا یہ فرمان نہیں سُنا کہ :چھُپ کر کی جانے والی نیکی ستّر حج کے برابر اورعلی الاعلان برائی انجام دینے والامتروک شمار ہوتا ہو۔ کیا تم نے شاعر کا یہ شعر نہیں سنا :
مَتیٰ آته یَوماً لِاَطْلُبَ حَاجَةً
رَجَعْتُ اِلیٰ أَهلِْ وَوَجْه بِمَائِه (٣١)
""جب میں ایک دن کسی حاجت کے لئے اس کے پاس آؤں تو میں اپنے اہل و عیال کے پاس پلٹا تو میری عزت اُن کی عزت سے وابستہ تھی ""۔
قا رئین کرام کیا آپ نے امام رضا (ع) کی اس طرح انجام دی جانے والی نیکی ملاحظہ فرمائی ؟یہ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہے ۔
٣۔ایک فقیر نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا :مجھے اپنی حیثیت کے مطابق عطا کر دیجئے ۔
""لایسَعُنِیْ ذَلِکَ ۔۔۔""۔ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔
بیشک امام کی حیثیت کی کوئی انتہا نہیں ہے ،امام کے پاس مال و دولت ہے ہی نہیں جو کسی اندازہ کے مطابق عطا کیا جائے ،فقیر نے اپنی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا :یعنی میری مروت کی مقدار کے مطابق۔
امام (ع) نے مسکرا کر اس کی بات قبول کرتے ہوئے فرمایا :""ہاں اب ضرور عطا کیا جا ئے گا ۔۔۔"" ۔
پھر اس کو دو سو دینار دینے کا حکم صادر فرمایا ۔ (٣٢)
یہ آپ (ع)کی سخاوت کے کچھ نمونے تھے ،اور ہم نے اِ ن میں سے کچھ نمونے اپنی کتاب حیاة الامام رضا (ع) میں بیان کر دئے ہیں ۔
عبادت امام
اللہ کی یاد میں منہمک رہتے اور خدا سے نزدیک کرنے والے ہر کام کو انجام دیتے تھے آپ (ع) کی حیات کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گزرا جو نور، تقویٰ اور ورع کا نمونہ تھا، آپ (ع) کے بعض اصحاب کا کہنا ہے : میں نے جب بھی آپ کو دیکھا تو قرآن کی یہ آیت یاد آ گئی : (کَانُوا قَلِیلاً مِنْ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ )۔ (٣٣)
""یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے ""۔
شبراوی نے آپ(ع) کی عبادت کے متعلق کہا ہے :آپ(ع) وضو اور نماز والے تھے ،آپ ساری رات با وضو رہتے ،نماز پڑھتے اور شب بیداری کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ۔
اور ہم نے آپ (ع) کی عبادت اور قنوت و سجود میں دعا کے متعلق اپنی کتاب ""امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کی سوانح حیات میں ""مفصل طور پر تذکرہ کر دیا ہے ۔
--------------
٢٣۔ حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٨
٢٤۔مناقب ،ج ٤ص ٣٣٣
٢٥۔مناقب ،جلد ٤صفحہ ٣٣٣
٢٦۔نزھة الجلیس ،جلد ٢صفحہ ١٠٧
٢٧۔جوہرة الکلام ،صفحہ ١٤٦
٢٨۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٩
٢٩۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٥٩
٣٠۔حیاةالامام محمد تقی علیہ السلام ،صفحہ ٤٠۔
٣١۔حیاةالامام علی بن مو سی الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٥۔
٣٢۔مناقب ،جلد ٤، صفحہ ٣٦١
٣٣۔سورئہ ذاریات، آیت