بسمہ تعالی
مقدمہ
"توسل " ایک ایسا اہم موضوع ہے جس کی اہمیت قرآن اور احادیث کی روشنی میں بہت زیادہ ہے اور تمام امت اسلامی میں کم وبیش جزئی اختلافات کے ساتھ سوائے " سلفی اور وھابیوں " کے متفق علیہ مسئلہ ہے اور حقیت میں "توسل " خدشہ دار انہی وہابیوں نے ہی بنایا ہے جیسا کہ تاریخ گواہ ہے ساتھویں ہجری تک کوئی بھی اعتراض توسل پر نہیں ہوتا تھا لیکن جب وھابیت کے افکار کے بانی ابن تیمیہ( جو سنہ 661 ہجری کو دنیا میں آیا اور 727 ہجری کو ان کے افکار باطلہ کی وجہ سے شام میں کسی زندان میں اس دنیا سے چلا گیا ) سب سے پہلا شخص ہےجس نے توحید کے نام پر معاذا للہ توحید کا بیڑا غرق کیا اس کی سب سے بڑی وجہ توحید اور اسکی اقسام کوصحیح طریقے سے نہیں سمجھنا اور ادرا ک نہیں کرنا ہے
وہ بہت سارے شعائر دینی سے" شرک یا بدعت "کہہ کرمنکرہوگئا اور بعد میں اسکے شاگرد نامدار محمد ابن عبدالوھاب نے ان تمام افکار باطلہ کو عملی جامہ پہنا کر پیکر دین اور اسلام کو ایک خطرناک کینسر سے دوچار کردیا اسی لئے افسوس کے ساتھ آج ہم دیکھتے ہیں انہی افکار سے جہاں اہلسنت کے افراد متائثر ہوئے وہاں مکتب امامیہ میں بھی ایسے افراد نظر آنے لگے ہیں جو توحید کے معنی ومفہوم کو صحیح درک نہ کرنے کے سبب " توسل" سے اگرصراحتا انکار نہ کرے تو کم ازکم شبہات رکھتے ہیں لہذا آج ہم توسل کے بارے کچھ مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرینگے
توسل کی تعریف
سب سے پہلے ہم '' توسل'' کو لغت، آیات اور روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں: سب میں '' توسّل'' وسیلہ کے انتخاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وسیلہ اس چیز کو کہاجاتا ہے جو انسان کوکسی دوسرے سے قریب کرے
توسل لغت میں
لغت کی مشہور کتاب '' لسان العرب'' میں توسّل کو یوں بیان کیا گیا ہے ''وصَّل الی الله وسیلةً اذا عَمل عملاً تقرب الیه والوسیلة ما یتقرّب به الی الغیر; خدا کی طرف توسّل کرنا اور وسیلہ منتخب کرنا یہ ہے کہ انسان ایسا عمل انجام دے جس سے اسے خدا کا قرب نصیب ہو ، اور وسیلہ اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعے انسان دوسری چیز سے نزدیک ہوتا ہے ''
مصباح اللغة میں بھی یوں ہی بیان کیا گیا ہے : '' الوسیلة ما یتقرّب به الی الشیء و الجمع الوسائل'' وسیلہ اس شے کوکہتے ہیں جس کے ذریعے، انسان دوسری شے یا شخص کے نزدیک ہوتا ہے اور وسیلہ کی جمع ''وسائل '' ہے
مقاییس اللغة میں یوں بیان کیا گیا ہے : '' الوسیلة الرغبة و الطلب'' وسیلة رغبت اور طلب کے معنی میں ہے'' ان لغت کی کتب کے مطابق، وسیلہ، تقرب حاصل کرنے کے معنی میں بھی ہے اور اس چیز کے معنی بھی ہے جس کے ذریعے انسان دوسری شے کا قرب حاصل کرتا ہے _ اور یہ ایک وسیع مفہوم ہے
توسل اصطلاح میں
توسل کی اصطلاحی مختصر تعریف یہ ہوسکتی ہے " بارگاہ الہی میں اولیائے الہی (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرفہرست )سے توسّل کے ذریعہ مادّی اور معنوی مشکلات حل کرانا"
توسل کی اقسام
1:-توسل اسماء وصفات الہی کے ذریعے 2:-توسل قرآن کریم کے ذریعے 3:-توسل عمل صالح کے ذریعے 4:-توسل دعائے مومن کے ذریعے 5:- توسل انبیاءاور اولیائے الہی کے ذریعے
ان کے علاوہ بھی اقسام ہیں لیکن ہمارا مورد بحث قسم توسل انبیاء اوراولیائے الہی کے ذریعے سے ہے
چار اہم نکتے
توسل کے معنی واضح ہونے کے بعد اب ہم توسل کی اصل بحث کی طرف جاتے ہیں تو یہاں پر ہم چار اہم نکتے کی طرف اشارہ کرینگے جو واضح ہونا بہت ضروری ہےاور اگر یہ ثابت ہوجائیں تو کے منکر ین کے لئے توسل کو ہضم کرنا آسان ہوگا
1:- مادہ پرست( مٹیریلزم) آئیدیاتوجی کے مطابق انسان اسی بدن ظاہری میں منحصر ہے جب موت آجائے تو انسان فنا ہوجاتا ہے ان کے ہاں آخرت یا معاد نامی کوئی چیز نہیں ہے اسی لئے ان کا گمراہ کن اورجوانوں کے لئے جذاب شعار یہ ہے(Life is everything enjoy it)
اس کے مقابلے میں " الہی آئیڈیالوجی " ہے (جو خداپرستوں کی آئیڈیالوجی ہے اسی کو بشر کے لئے سمجھانے کی خاطرخدا کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان کے اوصیاء آئے ) اس کے مطابق انسان اس بدن مادی اور ظاہری میں منحصر نہیں ہے بلکہ انسان دو عنصر کا مجموعہ ہے ایک بدن ظاہری اور مادی اور دوسرا روح معنوی اسکے مطابق انسان کو موت آنے سے نہ صرف انسان فنا ہوجاتا ہے بلکہ اس کےبعد تو اسکی ابدی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے اور یہ موت ایک پل کی مانند ہے جو انسان کو موقت زندگی سے ابد ی زندگی تک پہنچاتا ہےپس انسان مرنے کے بعد فنا نہیں بلکہ اس کا وجود ہمیشہ کے لئے موجود ہے اسی بنا پر معاد ، حشرونشر، حساب وکتاب ،جنت ودوزخ ، وغیرہ کا عقیدہ صحیح ہوتا ہے
2:-مرنے کے بعد انسان واقعا موجود ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے اسی لئے آخرت کو "دیار باقی" بھی کہلاتا ہے اور موت ابدیت کا دروازہ ہے نہ فنا کا دروازہ
3:-ہم جو اس دنیا میں ہیں ارواح سے جو( عالم برزخ میں ہیں)رابطہ برقرارکرسکتے ہیں اور یہ قرآنی آیات اور روایت کی روشنی میں ثابت مسئلہ ہے اس کا انکار صرف وھابی اور سلفی کرتا ہے
4:- شرک اور بدعت کی تعریف مختصر طورپر " خداوند متعال کے مقابل میں الوھیت ،خدائی کا مقام دے کر اس کی پرستش اور عبادت کے لئے شریک ٹھہرانا ہے اور "بدعت" ایسے اعمال کو کہا جاتا ہے جس کی کوئی بنیاد قرآن کریم یا احادیث وسیرت معصومین علیھم السلام میں نہ ہوں
اگر مذکورہ بالا چار نکتے واضح اور روشن طوپر سجمھ میں آجائیں تو توسل کا مسئلہ سورج کی طرح عیاں ہوجاتا ہے
توسل قرآن مجید میں
1:-( يَا أَيُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَیهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهدُواْ فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) سوره مائده آیت 35 " اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو " اس آیت میں وسیلہ کے ضمن میں علماء اور مفسرین مختلف اقوال بیان کرتے ہیں لیکن ان سب اقسام کو جمع کیا جاسکتا ہے لیکن ان میں اولیائے الہی کو وسیلہ بنانا سب سے زیادہ واضح اور روشن ہے جو روایات سے ثابت ہے
2:- ( وَلَوْ اٴَنَّهمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهمْ جَاوٴُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا) سوره نساء ایت 64" اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے"
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں لوگ آکر آپ سے توسل کرتے تھے اور حوائج دنیوی واخروی پیش کرتے تھے تاکہ آپ خداکی بارگاہ میں دعا کرکے ان کی حاجت پوری کراتے تھے لیکن سوال یہاں پر یہ ہوتا ہے کیا یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی تھا یا نہیں؟ وہابی کہتے ہیں نہیں۔ لیکن باقی تمام علمائے اسلام نزدیک یہ سلسلہ ثابت ہے اور تاریخ و روایات اسلامی اس کے گواہ ہیں کہ یہ سلسلہ تا قیام قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اولا : پیغمبر صرف بدن مبارک میں محدود نہیں ۔ ثانیا : آپ کی روح قدسی عالم برزخ میں ہے ثالثا : تاریخ اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رحلت کے بعد بھی مسلمانوں نے ارتباط قائم کرکےآپ سے توسل کیا صرف ایک داستان جس کو آیت اللہ سجانی نے سیرت لکھنے والے اور مورخین اورمحدثین سے نقل کیا ہےاس کامختصر طور پر تذکرہ کرینگے "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک اعرابی یہ کہتا ہوا آپ کے قبر شریف پر آیا " أنا جئتک مستغفرا ومستشفغا" یعنی میں آپ کی بارگاہ میں آیا ہوں استغفار اور شفاعت طلب کرنے " اس کے ساتھ مذکورہ آیت کی تلاوت بھی کررہا تھا
3:-( قالوایا أبانا استغفرلنا ذنوبنا انّا کنّا خاطئین . قال سوف أستغفر لکم ربّی انّه هو الغفورالر حیم)سوره یوسف آیت 97-98" ان لوگوں نے کہا بابا جان! اب آپ ہمارے گناہوں کے لیے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے . انھوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اورمہربان ہے"
یہاں یوسف علیہ السلام کے بھائی اپنے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کو توسل اور شفیع قرار دے رہے ہیں اور ان کے ذریعے خدا سے اپنی حاجت روائی کرارہے ہیں
توسل احادیث اور سیرت معصومین علیھم السلام اوراصحاب کی روشنی میں
1:- آیۃ اللہ جعفر سبحانی حفظہ اللہ نے کتب سیرت اوراحادیث سے امام علی علیہ السلام کے وہ جملے نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کو غسل دے رہے تو فرمایا
"یارسول الله اشفع لنا عندالله ، اذکرنا عند ربک" یعنی اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خدا کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں اور اپنے پرودگار کی بارگا ہ میں ہمیں یاد رکھیں
اور ایک جملہ امام علی علیہ السلام کا یوں نقل فرماتے ہیں"بأبی أنت وأُمی أمّا الموتة التی کتب الله علیک ......أُذکرنا عند ربّک واجعلنا من بالک"
"میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو پس وہ موت جس کو خدا نے آپ کے لئے لکھا تھا آپ نے چکھا ۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنے پروردگار ہاں یاد رکھنا اور اپنے ذہن مبارک میں رکھیں"(1)
اب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس واضح جملے کے بعد کسی کوتوسل کے بارے میں اگر شک رہے تو مکابرہ اور معاندہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے
نتیجہ
1:-بس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر ائمہ طاہرین کو اپنی دنیوی حاجات کی روائی اور کے لئے توسل قراردے سکتے ہیں اورلفظ "اشفع " کے ذریعے ان کے توسط سے خداوند متعال سے مرادیں لے سکتے ہیں
2:-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی روح مبارک عالم برزخ میں ہیں اور ہم ان سے ارتباط برقرار کرسکتے ہیں
3:- ہم حضرت پیغمبر گرامی قدرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبر شریف اور ائمہ علیھم السلام کے حرم مبارک میں حاضر ہو کر ان سے اپنی حاجتوں کی روائی کے لئے درخواست کرسکتے ہیں
2:- پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے حضرت آدم(ع) کا آپ(ص) سے توسّل کرنا
''حاکم'' نے ''مستدرک'' اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا: کہ جس وقت حضرت آدم (ع) سے خطا سرزد ہوئی تو آپ (ع) نے اللہ سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا: '' یا ربّ اسئلک بحقّ محمّد: لمّا غفرت لی'' پروردگارا میں تجھے حضرت محمد(ص) کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے'' اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو نے محمد(ص) کو کہاں سے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے اسے خلق نہیں کیا ہے ؟حضرت آدم (ع) نے عرض کی: پروردگارا اس معرفت کا سبب یہ ہے کہ جب تو نے مجھے اپنی قدرت سے خلق کیا اور مجھ میں روح پھونکی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ جملہ عرش کے پائے پر لکھا ہوا تھا: '' لا اله الّا الله محمّد رسول الله '' اس عبارت سے میں سمجھ گیا کہ یہ جو محمّد کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے وہ تمام مخلوقات میں سے تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا'' انہ لاحب الخلق الَّی'' وہ میرے نزدیک تمام مخلوقات سے زیادہ محبوب ہے ''ادعونی بحقّہ فقدغفرت لک''(2)اس کے حق کا واسطہ دے کر مجھے سے مانگ میں تجھے معاف کردونگا''
3:- یہ روایت صحیح ترمذی، اسی طرح سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اوردیگر کتب میں نقل ہوئی ہے (4) اس سے پتہ چلتا ہے کہ سند کے اعتبار سے حدیث محکم ہے_ بہرحال حدیث یوں ہے''کہ ایک نابینا آدمی آنحضرت(ص) کی خدمت میں پہنچا اورعرض کرنے لگا:اے رسول(ص) خدا اللہ تعالی سے دُعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا دے اور میری آنکھوں کی بینائی مجھے لوٹا دے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: اگر تو کہتا ہے تو میں تیرے لیے دعا کرنے کو تیار ہوں اور اگر صبر کرتا ہے تو یہ صبر تیرے لیئے بہتر ہے( اور شاید تیری مصلحت اسی حالت میں ہو) لیکن اس بوڑھے آدمی نے اپنی حاجت پر اصرار کیا_ تو اس پر پیغمبر اکرم(ص) نے اس بوڑھے آدمی کو حکم دیا کہ مکمل اور اَچھے اندازمیں وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ، نماز کے بعد یہ دعا پڑھو:'' اللّهم انّی اسئلک و ا توجّه الیک بنبیک محمّد (ص)نبّی الرّحمة یا محمّد (ص) انّی اتوجّه بک الی ربّی فی حاجتی لتُقضی ، اللّهم شَفعّه، فيَّ''بار الہا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں تیرے نبی محمد مصطفی(ص) کے واسطے کہ جو نبی رحمت ہیں_ اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف اپنی حاجت طلب کرنے چلا ہوں تا کہ میری حاجت پوری ہوجائے اور اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دے"وہ نابینا آدمی چلاتا کہ وضو کرے، نماز پڑھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی تعلیم دی ہوئی دعاپڑھے_ اس حدیث کا راوی عثمان بن عمیر کہتا ہے کہ ہم بہت سے افراد اسی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کررہے تھے_ کچھ دیر بعد وہی بوڑھا آدمی مجلس میں داخل ہوا اس حال میں کہ اس کی آنکھیں بینا ہوچکی تھیں اور نابینائی کا کوئی اثر اس پر باقی نہیں تھا
4:- پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اُن سے توسل''اہلسنت کے معروف عالم دین '' دارمی'' نے اپنی مشہور کتاب ''سنن دارمی'' میں ایک
باب اس عنوان سے قرار دیاہے کہ '' باب ماحکم اللہ تعالی نبيّہ (ص) بعد موتہ'' ( یہ باب اس کرامت اور احترام کے بارے میں ہے جو اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) کے ساتھ مختص کیا ہے ان کی رحلت کے بعد) اس باب میں وہ یوں رقمطراز ہیں_
'' ایک مرتبہ مدینہ میں شدید قحط پڑ گیا بعض لوگ حضرت عائشہ کی خدمت میں گئے اور ان سے چارہ جوئی کے لیے کہا_ حضرت عائشہ نے فرمایا جاؤ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے کمرے کی چھت میں سوارخ کرو، اس انداز میں کہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتیجہ کی انتظار کرو لوگ گئے انہوںنے اسی انداز میں سوراخ کیا کہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اسقدر بارش برسی کہ کچھ ہی عرصہ میں بیابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے _(4)
5:- ابن حجر مكّی نےصواعق محرقہ میں امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی ہمیشہ اہلبیت(ع) رسول(ص) کے ساتھ توسّل کرتے تھے انہوں نے یہ مشہور شعر، ان سے نقل کیا ہے:
آل النّبی ذریعتی----و هم الیه وسیلتی۔۔۔۔ا َرجوا بهم ا عطی غداً۔۔۔بید الیمین صحیفتی رسولخدا(ص) کاخاندان میرا وسیلہ ہیں، خداوند کی بارگاہ میں وہی میرے تقرب کا ذریعہ ہیں _ میں امید کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن انکی برکت سے میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے اس حدیث کو ''رفاعی'' نے اپنی کتاب ''کتاب التوصل الی حقیقة التوسّل'' میں بیان کیا ہے(5)
6:- حضرت علی علیہ السلام کے وسیلہ ہونے پر پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئی " هم شرالخلق والخلیقة یقتلهم خیرالخلق والخلیقة ، وأقربهم عندالله وسیلة".خوارج بد ترین مخلوق ہیں جنہیں مخلوق کا بہترین فرد اور خدا کا نزدیک ترین وسیلہ قتل کرے گا"(6)
7:- حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اہلبیت علیھم السلام کے وسیلہ ہونے کے حوالے سے اپنے خطبہ میں فرماتی ہیں :وأحمد الله الذی بعظمتة ونوره یبتغی من فی السماوات والأرض ، الیه الوسیلة و نحن وسیلته فی خلقه".زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب تقرّب خدا کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں اور مخلوق خدا میں اس کا وسیلہ ہم ہیں"(7)
توسل "اسباب ومسببات یا علل ومعالیل " کی روشنی میں
جس دنیا میں ہم زندگی کرتے ہیں اس کا نظام خداوند عالم نے اپنی حکمت اور علم بے پایان سے" اسباب ومسببات اور عللل ومعالیل" پر استواراور قائم کیا ہے اور کوئی بھی شخص اسباب ومسببات کا انکار کرے تو یا تو اس نے اسباب ومسببات کو نہیں سمجھا ہے اور یا توحید خالقیت میں مشکل سے دوچار ہوا ہے (8)
دنیاوی امور میں اسباب ومسببات
جب ہم اس دنیا کی کسی بھی چیز کو دقت اور غور سے دیکھیں تو ہر چیز کے وجود میں آنے کے لئے کتنی علتیں اور اسباب ہیں جن سے گزر کر وہ چیز وجود میں آتی ہے " مثلا ایک سیب کی مثال لیں" ایک سیب کو حقیقت میں خداوند خلق کرتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ خدانے بغیر کسی واسطے یا سبب یا علت کے ایک مرتبہ خلق کیا ہو یا آسمان سے سیب کی بارش برسائی جائے بلکہ کتنے دن ،مہینے ،سال میں اور ہزاروں قسم کے مختلف اسباب اس سیب کے وجود میں لانے کے پیچھے پنھان اور موثر ہیں اور یہ سب خدا کے حکم سے موثر اور فعال ہوتے ہیں ایک شخص ہوں جو سیب کا پودا لگائے اور اس کو مناسب زمین اور حرارت اور وقت پر پانی درکا ہوتے ہیں پھر کسی خاص موسم میں اس درخت پر پھول لگتے ہیں وغیرہ پھر اس پھول کے بعد ایک کچا سیب وجود میں آتا ہے پھر آخرمیں ایک پکا ہوا لذیذ وشیرین سیب وجود میں آتا ہے
اس مثال میں سیب کے وجود میں آنے کے لئے جتنے شرائط اور مراحل ہیں ان سب کو اسباب یا علل (علت کی جمع) کہلاتے ہیں
ان تمام اسباب کو فراھم کرنے والا بھی خدا کی ذات ہے اور اس چیزکو وجود میں لانے کے لئے یہ سارے اسباب خداوند کے فرمان کے تابع ہیں اسی نظام کو نظام اسباب ومسببات اورعلت ومعالیل کہلاتا ہے اور یہ سیسٹم دنیا کے تمام امورمادی پر حاکم ہے اگر کوئی اس نظام کونہ مانے اور کہیں کہ خدا ان سب کو بغیرواسطے اور اسباب وعلل کے براہ راست خلق فرماتا ہے تو یقینا خالقیت خداوندی اس نے سمجھا ہی نہیں " ان الله لایجری الامور الا باسبابها" خداوند اپنے امور کا اجرا صرف اسباب کے ذریعے فرماتا ہے"
ایک اور مثال ایک شخص کو بخار چڑھ جائے تو بیماری بھی خدا کی طرف سے ہوتی ہے لیکن خدا براہ راست اس کو بیمار نہیں کرتا بلکہ بہت سارے اسبباب اور علل درکار ہیں مثلا سردی میں خدانے یہ خاصیت رکھی ہے کہ اگر انسان زیادہ سرد فضاء میں رہے تو بخار چڑھتا ہے یا دیگر اسباب جو ایک ڈاکٹر زیادہ تشخیص دے سکتا ہے اب اسکے بعد خداشفاء دیتا ہے تو خدابراہ راست شفاء دیتا ہے یا اس شفاء کے لئے بھی اسباب مھیاء کیا ہے ؟ یقینا جواب اسباب کے حوالے سے ہی ہوگا
تیسری مثال اگر کوئی اپنے گھر میں میں بیٹھ کر دن رات اس آیت کی تلاوت کرتا ہے(" إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِینُ"(سورہ ذاریات ایت 58 یعنی خداوند رزق دینے والا اور قدرت مند اورثابت ہیں" ) اورخدا سے رزق مانگتا رہے ہے اور باہر رزق فراھم کرنے کے اسباب کی تلاش میں نہ نکلے تو خداوند براہ راست آکر ان کوروٹی تو نہیں کھلائے بلکہ خداوند مسبب الاسباب ہیں اور اس دنیا کا نظام بھی اسی پر قائم ودائم ہے لیکن یہ تمام اسباب تحت تدبیر الہی ہیں
کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ مذکورہ بالا مطالب کا یہ معنی نہیں لیاجائے کہ اسباب اور علتیں مستقل طور پر خدا کے حکم یا اذن کے بغیرخود بخود یہ امور انجام دیتے ہیں اگر اس قسم کا تصور کا جائے تو یہ " مادہ پرستوں(مٹیریلزم ) کا نظریہ ہے
معنوی اورعالم بالا کے امور میں اسباب ومسببات وعلل ومعالیل
امورمعنوی اور عالم بالا بھی اسباب ومسببات سے خالی نہیں ہیں ان کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں
خداوند ارشاد فرماتے ہیں" یضل من یشاء ویهدی من یشاء" خدا جس کوچاہیے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہیے ہدایت دیتا ہے"
لیکن دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے" وانک لتهدی الی صراط مستقیم " یعنی اے رسول بے شک آپ ہی صراط مستقیم کی ہدایت دیتے ہیں" یہاں پر اگر خدا ہدایت دینے والا ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کس کام کے ہیں؟ اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہدایت دینے والے ہیں تو خداوند عالم کس کام کا ہے؟
تویہاں پر جواب ہے ہدایت کی اصل برگشت خداوند عالم کی طرف ہی ہے لیکن یہ ہدایت خداوند عالم اسباب کے ذریعے انجام دیتا ہے یعنی اپنے انبیاء اوصیاء علیھم السلام کے ذریعے " پس علمی اصطلاح میں " خدا وند کو" فاعل سببی" کہلاتا ہے یعنی اسبباب فراہم کرنے والا " اور حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو" فاعل مباشری" یعنی ہدایت کے فرائض کو باذن اللہ انجام دینے والے اس طرح ہدایت کے عمل کو خدا کی طرف بھی نسبت صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت بھی صحیح قرآن میں اس کی مثالیں کم نہیں ہے
مثلا ایک مرتبہ خداوند انسانوں کی جان لینے کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے " الله یتوفی الانفس حین موتها" یعنی خداوند جانوں کو لیتا ہے موت کے وقت"
دوسری آیت میں " ان الذین توفاهم الملائکه" سورہ نساء آیت 97 یعنی فرشتے ان کی جان لیتے ہیں
تیسری آیت میں " قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون"سوره سجده آیت 11
یعنی آپ کہ دیں تمھاری جانیں ملک الموت لیتا ہے جو تم پر موکل ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آوگے اور دیگر بہت ساری مثالیں قرآن میں موجود ہیں جو قرآن فہمی صحیح معنوں میں رکھتے ہیں واسباب ومسببات اورعلل ومعالیل کامنکر نہیں ہوسکتا
مذکورہ بالا تین آیات میں ایک کام کو تین "فاعلوں "انجام دینے والوں کی طرف نسبت دی کئی ہے ایک خدا وند دوسرے ملائکے اور تیسرا ملک الموت " لیکن یہ سب نسبتیں صحیح اور درست ہیں کیونکہ خداوند "صرف فاعل سببی ہیں باقی ملائکے اور ملک الموت مامور ہیں اور "فاعل مباشری" ہیں یعنی اس میں بھی نظام اسباب ومسببات اور علل معالیل حاکم ہے
ایک اہم نکتہ
کبھی خداوند متعال کسی سبب کے بغیر بھی کسی چیز کو وجود میں لاتا ہے اس امر کو معجزہ یا خارق العاد کہلاتا ہے
جیسے بنی اسرائیل کے لئے اسمان سے بنے ہوئے بھٹیر یا پرندے کا نازل ہونا یہاں اسی خدا کے حکم کے مطابق اسباب کنارے پر چلے گئے جبکہ ایک بٹیر کے وجود میں لانے اور اس کو بننے میں عام اور طبیعی حالت میں بہت سارے علل واسبباب درکار ہوتے ہیں
یا حضرت ابراھیم علیہ السلام کو نمردو کی آگ جو سبب ہے جلانے کے لئے لیکن اس سبب کوخداوند نے آگ سے سلب کیا تو خدا وند "سبب ساز" بھی ہے یعنی سبب فراھم بھی کرتا ہے اور" سبب سوز " یعنی سبب کو ختم بھی کرسکتا ہے لیکن خاص اور استثنائی مقامات پرمذکورہ دنیاوی امور کے بارے میں انسان کو عقل دی ہے اور اس عقل کے ذریعے انسان اسباب الہی سے فائدہ اٹھاکر آج کتنی ترقی کررہا ہے اور مزید کرے گا اسی کی اشارہ ہے " انی لاوصیکم بالدنیا فانکم بھا متوصون" میں تمھاری دنیاوی امور کے بارے میں راہنمائی نہیں کرونگا کیونکہ اموردنیوی میں عقل(جس کو رویات میں وحی باطنی سے تعبیرہوئی) کے ذریعے انسان کی راہنمائی ہوچکی ہے"اب انسان اپنے دنیاوی مسائل کے اسباب سے بھی واقف ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے اگر یہاں پر کوئی وحی(جس کو روایات میں وحی ظاہری سے تعبیر ہوئی ہے) ہے تو مدد کے طور پر ہے یا علمی اصطلاح میں" ارشادی" ہے لیکن عالم بالا اور عالم معنوی کے اسباب ومسببات کے بارے عقل کافی نہیں ہے بلکہ وحی کے ذریعے وہ معین ہوگا پس ہم عقل کے ذریعے سے نہیں جان سکیں گے کہ مغفرت کس چیز میں ہے بلکہ وحی آکر ہمیں اسباب معرفت بیان کرگی امور دنیوی میں انسان تجربہ کے ذریعے بہت سارے اسباب سے آشنا ہوجائگا لیکن امور معنوی انسان تب آ شنا ہوگا جب خدا وند اپنے انبیاء رسل وائمہ علیھم کے ذریعے ہم تک پہنچائے یہاں بھی اسباب ومسببات کا نظام حاکم ہے
بس خدا وند متعال انسان کی مشکلات اور حوائج مادی اور معنوں میں اگر مادی ہوں تو مادی اسباب ومسببات کی تلاش عقل (وحی باطنی)کے ذریعے حاصل کرنا ہے لیکن یہ جاکر خداوند پر منتھی ہوتا ہے تو اس کی رضایت کو حاصل کرنا ہے اور اسباب معنوی کی تلاش عقل یا وحی باطنی سے نہیں حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ وحی ظاہری کے محتاج ہین
اب وسیلہ یا توسل انہی اسباب معنوی میں سے ایک ہے " وسیلہ یعنی واسطہ یعنی سبب اور اسکی تعریف بھی" مایتسبب بہ کے ذریعے بھی ہوئی ہے"یہاں پر پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین اور باقی ائمہ علیھم السلام کے فرامین عالیہ یا قرآن کریم کی روشنی میں جتنے وسیلے خدا کی رضایت کو حاصل کرنے لئے معین کئے گئے ہیں ان سے بھرپور استفادہ کرنا نہ کہ شرک یا بدعت ہے بلکہ عین عبادت ہین کیونکہ ان وسیلوں کوخدا خود نے وحی ظاہری کے ذریعے سے ہم تک پہنچے ہیں اور اسی پرورگار کی خوشنودی بھی توسل میں بدرجہ اتم موجود ہے انہی وسیلوں میں سے مقرب اور موجہ ذوات مقدسہ اور ان سے منسوب تمام چیزیں" بھی ہیں جن کا انکار صرف ابن تیمیہ اور محمد ابن عبدالوھاب وامثال آن کرتے ہیں باقی تمام موحدین" مسلمین" افتخار سے ان وسیلوں مسے متوسل اور متمسک ہے " خداوند ہم سب کو اللہ کے مقرب بندوں سے واسطہ اور توسل کرکے اپنی دنیا وآخرت سنوارنے کی توفیق عنایت کرے آمین
فوائد
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث وسیرت معصومین واصحاب کی روشنی میں مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں
1:- دعائے توسل اور اس جیسی دیگر دعائیں جن میں"لفظ اشفع" یا ادرکنی" اغثنی" وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں عین توسل ہیں اور جو مختلف واضح دلائل کی روشنی میں ثابت ہے
3:- پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام وغیرہ سے مخاطب ہوکر اپنی حاجب روائی کے لئے مدد مانگنا نہ بدعت ہے اور نہ شرک کیونکہ کوئی بھی ان سے مستقل طور پر یعنی خدا کے مقابلے میں ٹھہراکر نہیں مانگتے بلکہ مراد یہاں پر ان کے توسط سے خدا سے مانگنا ہے تو "یاعلی مدد " یا مولا رضا میرا ہاتھ تھام لیں اور مجھے اپنی مشکلات میں خدا کے حضور شفاعت کریں وغیرہ جب کہا جاتا ہے تو خدا نے ہی ان کو باب الحوائج قرار دیا ہے ان کے ذریعے سے خداسے مانگا جاتا ہے نہ تو حقیقت میں یہاں " اے علی علیہ السلام کہ تو خدا کے نزدیک وجہیہ اور بہترین وسیلہ ہے ہماری مشکل میں ہماری مدد فرما " مراد ہے
3:- توسل اور شفاعت جو ایک دوسرے سے نزدیک ہیں تمام امت مسلمہ میں کم وبیش اختلاف کے ساتھ متفق علیہ مسئلے ہیں صرف ابن تیمیہ نے ساتھویں ،آٹھویں ہجری میں ان اپنی کج فہمی کی وجہ سے شرک قراردیا
حوالہ جات
(1):-مرزبانی ازمکتب اہل بیت علیھم السلام –آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی
(2):-شیعہ جواب دیتے ہیں- آیت اللہ مکارم شیرازی نقل از حاکم نے مستدرک ، جلد 2 ص 615
(3):- صحیح ترمذی ، ص 119، حدیث 3578، اور سنن ابن ماجہ، جلد 1، ص 441، حدیث 1385 ، ومسند احمد، جلد 4، ص 138
(4):- سنن دارمی، جلد 1 ص 43( اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد نبوی شریف کے سبزگنبد پر جو بعض کسی کے قبر ہونے کی باتیں کرتے تھے وہ غلط ہے بلکہ یہ اس واقعے کے بعد کھولا گیا ایک دروازہ ہے جو ضرورت کے وقت کھولا جاتا ہے)
(5):- التوصل إلی حقیقة التوسّل ، ص 329
(6):- فرائد السمطین صفحہ 36 ح 1
(7):- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ١: ٢١١ ؛ بلاغات النساء بغدادی : ١٤؛ السقیفہ و فدک : ١٠١
(8):- نوٹ"اس آخری حصے کے مطالب کتاب( مرزبانی ازمکتب اہل بیت علیھم السلام –آیت اللہ شیخ جعفر سبحانی حفظہ اللہ ) سے بھرپور استفادہ ہوا ہے