قرآنی آیات اور متواتر روایات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ انسان موت کے بعد یکبارگی عالم قیامت کبریٰ میں منتقل نھیں ھوجاتا ھے بلکہ اس کو دنیا وآخرت کے درمیان ایک مرحلے سے گزرنا پڑتا ھے جس کا نام ”برزخ “ ھے۔
لغت میں بزرخ دو اشیاء کے درمیان فاصلے کو کہا جاتا ھے۔ یھی وجہ ھے کہ موت سے قیامت تک کے درمیانی فاصلہ کو برزخ کہا جاتا ھے۔
طریحی، مجمع البحرین (ج/۷۲ص/۴۳۰) میں لکھتے ھیں: موت سے قیامت کے درمیانی فاصلے کو برزخ کھتے ھیں۔ لھٰذا مرنے کے بعد ھر شخص وارد برزخ ھوتا ھے۔ علی بن ابراھیم قمی اپنی تفسیر (ج/۲،ص/۹۴) میںفرماتے ھیں: دو اشیاء کے درمیانی فاصلے کو برزخ کہا جاتا ھے اور جس سے مقصود ، دنیا وآخرت کا ثواب وعذاب ھے ۔ علامہ مجلسیۺ اپنی کتاب بحارالانوار (ج/۶،ص/۲۱۴) میں فرماتے ھیں: برزخ دو امروں کے درمیان ایک امر ھے اور جس سے مراد دنیا وآخرت کے درمیان ثواب وعذاب ھے۔
قرآن مجید میں اس لفظ کااستعمال تین مقامات پر ھوا ھے جن میں سے ایک موت وقیامت کے درمیان فاصلے سے مربوط ھے:
(حَتَّی اِذَا جَاءَ اَحَدَهمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجَعُونِ۔ لَعَلِّی اَعْمَلُ صَالِحاً فیِمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّها کَلِمَةٌ هوَ قَائِلُها وَمِنْ وَرَائِهمْ بَرْزَخٌ اِلیٰ یَومِ یُبْعَثُونَ)
یھاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آگئی تو کھنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے۔ شاید اب میں کوئی نیک عمل انجام دوں۔ ھرگز نھیں! یہ ایک بات ھے جو یہ کھہ رھا ھے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ھے جو قیامت کے دن تک باقی رھنے والاھے۔ (۱)
یہ آیت اس بات کو روشن کرتی ھے کہ موت کے بعد انسان اظھار پشیمانی کرتا ھے اور خدا سے چاھتا ھے کہ اسے دوبارہ دنیا میں لوٹا دے لیکن اس کی درخواست رد کردی جاتی ھے۔
بھت سی آیات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ھے کہ انسان موت وقیامت کے درمیانی فاصلے میں ایک طرح کی زندگی گزارتا ھے اور اس حالت میں اس کے حواس باقاعدہ اپنا عمل انجام دے رھے ھوتے ھیں مثلاً بولتا ھے، سنتا ھے، لطف اندوز ھوتا ھے، رنجیدہ ھوتا ھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک ایسی حالت ھوتی ھے جس میں اس پر یا تو عذاب نازل ھورھا ھوتا ھے یا خدائی رحمتیں۔ یہ آیتیں جن کی تعداد پندرہ ھے، چنداقسام کی ھیں:
۱) ایسی آیتیں جن میں صالح و نیک یا فاسد وبدکار انسانوں کو موت کے بعد فرشتوں سے گفت وشنید کرتے ھوئے پیش کیا گیا ہے:
(اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّ-ٰیهمُ الْمَلَا ئِکَةُ ظَالِمِی اٴَنْفُسِهمْ قَالُوا فِیِمَ کُنْتُمْ قَالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوا اٴَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِیها فَاٴُولٰئِکَ مَاٴْ ویٰهمْ جَهنَّمُ وَسَائَتْ مَصِیراً)
جن لوگوں کو ملائکہ نے اس حال میں اٹھایا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے تو انھوں نے کہا کہ ھم زمین میں کمزور بنادئے گئے تھے۔ ملائکہ نے کہا کہ زمین خدا وسیع نھیں تھی کہ تم ھجرت کرجاتے۔ ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ھے اور وہ بدترین منزل ھے۔ (۲)
یہ آیت ان افراد سے متعلق ھے جو غیر مناسب معاشرے میں زندگی بسر کرتے ھیں اور اس فساد اور غلط معاشرے کو اپنے عذر کے طور پر پیش کرتے ھیں۔ فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے بعد ان سے گفتگو کرتے ھیں اور انکے عذر کو غیر قابل قبول بتاتے ھیں کیونکہ یہ افراد کم از کم اتنا تو کر ھی سکتے تھے کہ ھجرت کرجاتے۔ (سورہٴ مومنون کی آیت نمبر:۱۰۰ جو گزر چکی ھے وہ بھی اسی قسم میں شمار ھوتی ھے۔)
۲) دوسری قسم میں وہ آیتیں آتی ھیں جن کے مطابق فرشتے گفت وشنید کے بعد نیک بندوں سے کھتے ھیں کہ جاؤ اب نعمات الٰھی سے لطف اندوز ھو۔ ان آیات کے مطابق خدا کے نیک بندے قیامت کبریٰ کے برپا ھونے سے پھلے بھی الٰھی نعمتوں سے بھرہ ور ھوتے رھتے ھیں:
(اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّیٰهمُ الْمَلَا ئِکَةُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَیکُمُ ادْخُلُوالْجَنَّةَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)
جنھیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ھیں کہ وہ پاک وپاکیزہ ھوتے ھیں اور ان سے ملائکہ کھتے ھیں کہ تم پر سلام ھو اب تم اپنے نیک اعمال کی بنا پر جنت میں داخل ھوجاؤ۔ (۳)
خیال رھے کہ موت کے بعد اھل نجات کے لئے کوئی ایک بھشت فراھم نھیں کی گئی ھے بلکہ جنت بھت سے انواع باغات اور بھشتوں کا نام ھے اور روایات کے مطابق ان میں سے کچھ باغات کو فقط عالم برزخ سے مخصوص کردیا گیاھے۔ لھٰذا اس آیت میں لفظ ”الجنة“ اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ یہ آیتیںقیامت سے متعلق ھیں۔
۳) تیسری قسم میں وہ آیتیں آتی ھیں جو براہ راست موت اور قیامت کے درمیانی وقفے میں نجات یافتہ یا بدکار وگناھکار افراد کی زندگی سے متعلق خبر دیتی ھیں۔ ان آیات کے مطابق پھلا گروہ نعمتوں اور رحمتوں اور موخرالذکرگروہ عذاب وسختیوں میں زندگی گزارتا ھے۔
(وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهمْ یُرْزَقُون# فَرِحِینَ بِمَا آتٰیهمُ اللهُ مِنْ فَضْلِه.وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِینَ لَمْ یَلْحَقُوا بِهمْ مِنْ خَلْفِهمْ اَلَّا خَوفٌ عَلَیهمْ وَلَا همْ یَحْزَنُون)
اور خبردار ! راہ خدا میں قتل ھونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا۔ وہ زندہ ھیں اور اپنے پروردگار کے یھاں سے رزق پاتے رھے ھیں۔ خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ھیں اور جوابھی تک ان سے ملحق نھیں ھو سکے ھیں ان کے بارے میں یہ خوش خبری رکھتے ھیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ھے اور نہ کوئی حزن۔ (۴) (اگرچہ یہ آیت جنگ احد کے ۷۲/ شھداء کے بارے میں نازل ھوئی ھے لیکن اس کا مضمون عام ھے اور تمام شھداء کو اپنے دائرے میں لے لیتا ھے۔)
راہ خدا میں قتل اور خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ھونے والے افرا دپر اس آیت کی دلالت واضح، صریح اورغیر قابل تاویل ھے نیز یھی آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ یہ افراد ان لوگوں کے احوال سے بھی واقف ھیں جو ابھی دنیاوی زندگی ھی میں مشغول ھیں اور ان کی موت کا وقت ابھی نھیں آیا ھے۔
(وحَاقَ بِآلِ فِرْعَونَ سُوْءُ الْعَذَابِ النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیها غَدُواً وَعَشِیاًّ وَیَومَ تَقُومُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوا آلَ فِرْعَونَ اَشَدَّ الْعَذَابِ)
اور فرعون والوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا۔ وہ جھنم جس کے سامنے یہ ھر صبح وشام پیش کئے جاتے ھیں اور جب قیامت برپا ھوگی تو فرشتوں کوحکم ھوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو۔ (۵)
اس آیت سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ آل فرعون دوطرح کے عذاب میں گرفتار ھوں گے۔ ایک ”سوء العذاب“ کہ جو قیامت کبریٰ کے پھلے والے مرحلے سے مربوط ھے جس میں یہ ھوگا کہ روزانہ دو بار آتش جھنم میںڈالے جائیں گے ۔ دوسرا ”اشد العذاب“ کہ جو قیامت اور اس وقت سے مربوط ھے کہ جب حکم ھوگا ”آل فرعون کو سخت ترین عذاب میںگرفتار کردو۔“ دوسرے والے عذاب کے برخلاف، پھلے والے عذاب میں ”صبح وشام“ کا تذکرہ ھے اور یہ اس وجہ سے ھے کہ عذاب اول، عالم برزخ سے مربوط ھے اور عالم برزخ میں ھماری اس دنیا کی طرح روز وشب ،ماہ وسال پائے جاتے ھیں جب کہ عالم قیامت میں ایسا نھیں ھوتا۔
یہ نکتہ قابل توجہ ھے کہ وہ آتش جس میں آل فرعون ڈالے جائیں گے، آتش آخرت ھے لیکن وہ آگ جس کو آل فرعون کے اوپر ڈالا جائے گا ، آتش بزرخ ھے البتہ بزرخ سے مربوط بعض آیتیں اس بات پربھی دلالت کرتی ھیں کہ گناھگار، آگ میں ڈالے جائیں گے جیسے سورہٴ ھود:۱۰۵۔
عالم برزخ، روایات کی روشنی میں
عالم برزخ اوراس کے احکام واحوال سے متعلق متعدد روایات وارد ھوئی ھیں۔ اس سلسلے میں جامع ترین وہ طویل روایت ھے جو متعدد سندوں کے ساتھ مختلف معتبر کتب احادیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ھے:
”اس وقت جب انسان کی دنیوی زندگی کا آخری دن او رعالم آخرت کا پھلا دن آپھونچتا ھے تو اس کی بیوی، بچے ، مال ودولت اور اس کے اعمال اس کے سامنے مجسم ھو کر آجاتے ھیں۔ اس حالت میںوہ ( وہ شخص جس کا ابھی انتقال ھوا ھے) مال و دولت کی طرف رخ کرتا ھے او رکھتا ھے: خداکی قسم! میں تیرے لئے بھت لالچی اور حریص تھا۔ اب بتا میرے لئے تیرے پاس کیا ھے؟ دولت جواب دیتی ھے: مجھ سے کفن لے لو اور جاؤ۔ وہ پلٹتا ھے اور اپنی اولاد کی طرف متوجھ ھوتا ھے اور ان سے کھتا ھے: خدا کی قسم! میں تمھاراچاھنے والا اور تم سے محبت کرنے والا تھا۔ میرے لئے تمھارے پاس کیا ھے؟ وہ جواب دیتے ھیں: ھم تمھیں قبر تک پھونچا دیں گے اور دفنا دیں گے۔
بالآخر اپنے اعمال سے مخاطب ھو کر کھتا ھے: خدا کی قسم! میں تمھاری طرف سے غافل تھا، تم سے پھلو تھی کرتا رھتا تھا۔ تم بتاؤ میرے لئے تمھارے پاس کیا ھے؟ اس کے اعمال اس سے کھتے ھیں کہ ھم تمھاری قبر میں اور بروز محشر تمھارے ساتھ ھوں گے یھاں تک کہ بارگاہ خداوند عالم میں حاضر ھو جائیں۔ اب اگر مرنے والا اولیائے خدا اور نیک بندوں میں سے ھوتا ھے تو نھایت جمیل اور عمدہ لباس وخوشبو کے ساتھ ایک شخص اس کے پاس آتا ھے اور اس سے کھتا ھے: تیرے لئے بشارت اور خوش خبری ھے کہ تجھے تمام سختیوں اور مصائب سے نجات حاصل ھوگئی ھے، جنت کا لذیذ رزق تیرے لئے آمادہ ھے اور سرائے ابدی، بھترین منزل گاہ،میں تجھے داخلہ مل رھا ھے وہ ولی خدا (جس کا ابھی ابھی انتقال ھواھے) اس سے سوال کرتا ھے کہ تم کون ھو ، وہ جواب دیتا ھے کہ میں تیرا نیک عمل ھوں۔پھر اس سے کھتا ھے: پس اب تو دنیا سے بھشت کی طرف کوچ کر۔ اس کے ساتھ ھی غسل دینے والے اور میت کو کاندھا دینے والے اپنے امور کو جلدی جلدی انجام دینا شروع کردیتے ھیں۔
جب میت کو قبر میں اتارا جاتا ھے تود و فرشتے اس کے نزدیک آتے ھیں یہ قبر کے نگھبان ھوتے ھیں ۔ان کے بال اتنے لمبے لمبے ھوتے ھیں کہ زمین پر کھنچتے چلے جاتے ھیں اور یہ اپنے پیروں سے زمین کو کھود تے چلتے ھیں ۔ان کی آنکھیں برق کی طرح چمکتی ھوئی اور آواز بجلی کی طرح کڑکڑاتی ھوئی ھوتی ھے۔ مرنے والے سے سوال کرتے ھیں کہ تیرا پروردگار کون ھے؟ تیرا نبی کون ھے؟ تیرا دین کیا ھے؟
وہ جواب دیتا ھے کہ الله، میرا پروردگار ، محمد میرے نبی اور اسلام میرا دین ھے۔ پس وہ دونوں فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ھیں کہ خدایا! اس کو جس چیز میں تو دوست رکھتا ھے، ثابت قدم رکھ اور یہ وھی قول خدا ھے: (یثبت الله الذین آمنوا بالقول الثابت فی الحیوة الدنیا)اللہ صاحبان ایمان کو قول ثابت کے ذریعہ دنیاوآخرت میں ثابت قدم رکھتا ھے۔ (۶)
سپس فضائے قبر کو تا حد نگاہ وسیع کردیا جاتا ہےاور اس کے لئے بھشت کا دروازہ کھول دیا جاتا ھے اور وہ اس سے کھتے ھیں: مطمئن ھو کر آرام سے سوجاؤ جس طرح نعمتوں میں غرق ایک جوان سوتا ھے اور یہ وھی قول خدا ھے: (اصحاب الجنة یومئذخیر مستقرا واحسن مقیلاً) اس دن صرف جنت والے ھونگے جن کے لئے بھترین ٹھکانہ ھوگااور بھترین آرام کرنے کی جگہ ھوگی ۔ (۷)
اور اگر مرنے والا دشمن خدا ھوتا ھے تو ایک شخص اس کے پاس آتا ھے جس کے چھرے سے وحشت اور ھیبت ٹپک رھی ھوتی ھے۔ وہ اس سے کھتا ھے: تجھے جھنم اور اس کی آگ کی بشارت ھو۔ اس کے ساتھ ھی مرنے والا اپنےغسل دینے والوں اور اپنی میت کو کاندھا دینے والوں سے گذارش کرتا ہے کہ اس کو دفن کرنے کی تیاریاں نہ کریں اور دفن ہونے سے روک لیں۔ جس وقت وہ قبر میں اتارا جاتا ھے تو منکر و نکیر اس کے پاس پھونچ جاتے ھیں: اس کے کفن کو اس کے جسم سے جدا کرکے اس سے سوال کرتے ھیں: تیرا پروردگار کون ھے؟ تیرا نبی کون ھے؟ اور تیرا دین کونسا ھے؟ وہ جواب دیتا ھے: میں نھیں جانتا۔ پھر منکر و نکیر اس سے کھتے ھیں، نہ تو جانتا ھے اور نہ تونے ھدایت حاصل کی ھے۔ اس کے ساتھ ھی اتنی زور سے آھنی گرز سے اس پر حملہ کرتے ھیں کہ جن وانس کے علاوہ تمام جنبد گان وحشت زدہ ھو جاتے ھیں۔ سپس اس کے اوپر دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ھے اور وہ فرشتے اس سے کھتے ھیں: اپنی سخت ترین حالت میں سو جا۔ اس کی قبر اس حد تک تنگ ھو جاتی ھے کہ وہ ایک نیزے بلکہ نیزے کی انی کی طرح ھوجاتا ھے اور اس کے ناخنوں اور گوشت سے اس کا مغز باھر نکلنے لگتا ھے۔ سانپ، بچھو اور دوسرے حشرات الارض اس پر حملہ کردیتے ھیں اور اس کے بدن کو ڈسنا شروع کردیتے ھیں۔
………یہ زمانہ اس پر اتنا سخت اور دشوار گزرتا ھے کہ وہ قیامت کے جلد از جلد رونما ھونے کی تمنا اور دعا کرتا رھتا ھے۔ (۸)
مرنے کے بعد سوال وجواب اور عذاب وثواب: متعدد دوسری روایتوں کے علاوہ گذشتہ روایت کے مطابق بھی مرنے کے بعد دو فرشتے منکر و نکیر مرنے والے کے پاس آتے ھیں اور اس سے توحید، نبوت، امامت اور دین وغیرہ کے متعلق سوالات کرتے ھیں۔ یہ سوالات بھی دوسرے واقعات کی طرح عالم برزخ ھی میں پیش آتے ھیں اور فقط وھی افراد ان واقعات کے مشاھدے کی قدرت رکھتے ھیں جن کے پاس صور برزخی کے ادراک کی صلاحیت ھوتی ھے۔
متعدد روایات میں وارد ھوا ھے کہ سوال وعذاب قبر فقط مومنین اور کافرین سے مخصوص ھے۔ اس زمرے میں ان دونوں مذکورہ گروھوں کے وسط کا طبقہ نھیں آتا ھے۔ شیخ کلینی اپنی کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں:
قبر میں فقط ان لوگوں سے سوال وجواب اور ان پر عذاب وثواب ھوگا جو ایمان محض یاکفر محض کے حامل ھوں گے۔ دوسرے افراد کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ (فروع کافی: باب المسالة فی القبر، حدیث/۱)
علی بن ابراھیم نے اپنی تفسیر میں ضریس کناسی سے نقل کیا ھے:
میں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا، میری جان آپ پر قربان ھو، ایسے افراد جو موحد ھیں اور نبوت حضرت محمد کو بھی قبول کرتے ھیں لیکن گناھکار ھیں نیز امام نھیں رکھتے ھیں (یعنی) آپ کی ولایت کی معرفت نھیں رکھتے ھیں، مرنے کے بعد کس حال میں رھیںگے؟ امام نے فرمایا: قبر ھی میں رھیں گے۔ اگران افراد نے عمل صالح انجام دئے ھوں گے اور (ھم اھل بیت سے) دشمنی نہ رکھتے ھوں گے تو ان کے لئے بھشت کا ایک دروازہ جو کہ مغرب میں ھے، کھول دیا جائے گا اور وھاں سے ان کے لئے زندگی افزا نسیم آتی رھا کرے گی یھاں تک کہ روز قیامت اپنے خدا سے ملاقات کریں گے اور خداوندعالم ان کاان کی نیکیوں اور بدیوں کی بنا پر حساب وکتاب کرے گا۔ یہ وہ لوگ ھیں جن کی وضعیت اور حالت امر خدا پر موقوف ھے۔ ستم رسیدہ، مجنون، بچے اور مسلمانوں کے وہ فرزند جو حد بلوغ تک نھیں پھونچتے ھیں وہ بھی اسی زمرے میں آتے ھیں۔
مرنے والے کی اپنے افراد خانوادہ سے ملاقات: شیخ کلنی ۺ امام صادق علیہ السلام نقل کرتے ھیں:
مومن مرنے کے بعد اپنے افراد خانوادہ سے ملاقات کرتا ھے ۔ ان کے احوال میں سے وہ جس چیز سے خوش ھوتا ھے اس کو نظر آتی ھے اور جس سے وہ رنجیدہ ھوتا ھے، مخفی رھتی ھے۔ (فروع کافی، باب ان المیت یزور اھلہ، حدیث/۱)
ایک دوسری رویات میں وارد ھوا ھے:
کوئی مومن یا کافر ایسا نھیں ھے جو ظھر کے وقت اپنے افراد خانوادہ کے پاس نہ آتا ھو۔ جب مومن اپنے اعزا کو نیک اعمال انجام دیتے ھوئے دیکھتا ھے تو حمد وشکر خدا کرتا ھے اور جب کافر اپنے اعزا کو نیک اعمال انجام دیتے ھوئے دیکھتا ھے تو ان پر رشک کرتا ھے۔ (فروع کافی، باب ان المیت یزور اھل، حدیث/۲)
اس کے علاوہ بھی اسی مضمون کے تحت متعدد روایات نقل ھوئی ھیں جن میں سے بعض میں وارد ھوا ھے کہ مرنے والے کی روح ایک لطیف پرندے کی صورت میں آتی ھے اورآکر گھر کی دیوار پر بیٹھ جاتی ھے اور ان کے احوال سے آگاہ ھوتی رھتی ھے کہ ایساباب تجسم ارواح کی بدولت ھوتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔مومنون: ۱۰۰،۹۹، نیز رحمٰن: ۲۰،فرقان:۵۳
۲۔نساء: ۹۷
۳۔نحل:۳۲،یس:۲۶،۲۷
۴۔آل عمران: ۱۷۰، ۱۶۹
۵۔غافر: ۴۶،۴۵
۶۔ابراھیم: ۲۷
۷۔فرقان:۲۴
۸۔تفسیر علی بن ابراھیم قمی: ج/۱، سورہٴ ابراھیم، تفسیر عیاشی، سورہٴ ابراھیم، ج/۲، فروع کافی ،ج/۳،کتاب الجنائز، امالی، شیخ طوسی، ج/