اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

امام شناسی امام رضا ع کی نگاہ میں

امام شناسی امام رضا ع کی نگاہ میں

امام شناسی امام رضا ع کی نگاہ میں
        مقالہ از:سید جواد حسینی
ترجمہ و اضافات از:محمد عیسی روح اللہ
تصحیح:حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی
پیشکش:امام حسین فاؤنڈیشن شعبہ قم
دیباچہ

حضرت ابو الحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام گیارہ ذیعقدہ سنہ 148 ہجری قمری  کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی امام موسی کاظم علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ حضرت نجمہ خاتون تھیں جنہیں ام البنین، نوبیہ اور تکتم کے ناموں سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد امام کاظم علیہ السلا م نے طاہرہ کہا۔
امام رضا علیہ السلام اپنی امامت کا زمانہ بنی عباس کے تین جابر بادشاہوں؛ ہارون الرشید، امین اور مامون کے ساتھ گزار دیا۔ ان میں سے ہارون الرشید کے ساتھ دس سال،امین اور مامون میں ہر ایک کے ساتھ پانچ پانچ سال زندگی کی۔ بالآخر مامون کے زہر جفاسے 55 سال کی عمر میں  آخر ماہ صفر سنہ 203  میں سناباد نامی جگہ پر بدرجہ شہادت فائز ہوئے یہ جگہ آج مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے۔اللہ تمام مومنین کو امام رضا کی زیارت سے مشرف فرمائے! آمین۔
امام شناسی کی ضرورت

اسلامی معاشرے میں رونما ہونے والے سب سے خطرناک اور مہلک  انحرافات میں سے ایک راہ امامت سے منحرف ہونا ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ کے افراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امامت کے مقام اور منزلت اور اس کی اہمیت کو درک کر لیتے تو ہرگز  نالائق، نادان اور برے لوگوں کو اپنے اوپر حکمران بننے کی اجازت نہیں دیتے، ہرگز امامت کو اپنے مقام سے گھٹا کر ایک سیاسی یاقبائلی لیڈری نہیں سمجھتے۔
قرآن کریم امامت کو نبوت سے بھی بڑھ کر سمجھتا ہے، قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نبوت، رسالت اور خلت (خلیل اللہ) کے بعد  امامت کے مقام پر فائز ہوئے اور فرمایا:
﴿ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً﴾(1)
 میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔
اسی طرح روز غدیر امام کی معرفی کرنے کو کفار کی ناامیدی، اکمال دین اور اتمام نعمت کا دن  کہا:
﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ﴾ (2)
آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کوبطور دین پسندکر لیا۔
اور اعلان کر رہا ہے کہ امام کی معرفی نہ کرنا رسول کی اپنی رسالت کو انجام نہ دینے کے مترادف ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ (3 )
اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
«مَن مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» (4 )
جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی اپنے امام زمانہ کو نہ جانتا ہو در حقیقت اس کا کوئی دین نہیں ہے۔
فخر رازی اہل سنت کے سب سے بڑے عالم دین اس حدیث کو یوں نقل کرتے ہیں:
«مَن مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً فَلْيَمُتْ إِنْ شَاءَ يَهُودِيّاً وَ إِنْ شَاءَ نَصْرَانِيّا» ( 5)
جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے پس وہ یہودیت یا نصرانیت کی موت مرے گا ۔ (کم از کم مسلمان تو نہیں مرے گا)
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے امام کتنے ہوں گے؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و  آلہ و سلم نے فرمایا:
«يَا جَابِرُ سَأَلْتَنِي رَحِمَكَ اللَّهُ عَنِ الْإِسْلَامِ بِأَجْمَعِهِ عِدَّتُهُمْ عِدَّةُ الشُّهُورِ
اے جابر! خدا تم پہ رحمت کرے تم نے مجھ سے کل اسلام کے بارے میں پوچھااماموں کی تعداد مہینوں کے برابر ہے۔
(مترجم) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 وَ هِيَ ﴿عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ﴾( 6)   ….. فَالْأَئِمَّةُ يَا جَابِرُ اثْنَا عَشَرَ [إِمَاماً] أَوَّلُهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع وَ آخِرُهُمُ الْقَائِمُ الْمَهْدِيُّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ ».(7 )
جو " کتاب خدا میں اللہ کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے" اور ان کی تعداد ان چشموں کے برابر ہے جو حضرت موسی بن عمران علیہ السلام کے ہاتھوں پھوٹے جب انہوں نے اپنی عصا پتھر پر مارا  " اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے"  اور ان کی تعدا بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر ہے  " اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا "پس ائمہ کی تعداد اے جابر بارہ ہے ان میں سے پہلا علی بن ابی طالب ع اور آخری قائم المہدی صلوات اللہ علیہم ہے۔
ایک صحیح السند روایت میں امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے:
جو شخص اللہ سے قربت چاہے اور عبادت میں مشقت اٹھائے اور اس کا منصوص من اللہ امام نہ ہو تو  اس کی یہ کوشش غیر مقبول ہے وہ گمراہ اور امر دین میں متحیر ہے اور خدا اس کے اعمال کا دشمن ہے۔(8)
(مترجم)روایت آگے کہتی ہے:
 اس کی مثال اس بکری کی سی ہے جو اپنے چرواہے سے جدا ہو گئی ہو اور اپنے گلہ کو اس نے چھوڑ دیا ہو اور اپنی گمشدگی کے دن اپنی آمد و رفت کے دن مضطرب ہو۔ اس حالت میں جب رات نے اس کو آلیا تو اس نے بکریوں کے ایک گلہ کو اپنے چرواہے کے ساتھ دیکھا پس وہ دھوکہ میں اس کی طرف چلی اور رات کو انہی کے تھاون پر رہی۔ صبح کو جب گلہ بان اپنے گلے کو لے کر چلنے لگا تو اس کو یہ بکری غیر معلوم ہوئی ؛ لہذا اپنے گلہ سے اسے جدا کر دیا، اب ہو حیران ہو کر اپنے چرواہے  اور گلہ کو ڈھونڈنے لگی اب اس نے ایک بکری کو اس کے چرواہے کے ساتھ دیکھا پس دھوکہ کھا کر اس کے ساتھ ہو لی۔ چرواہے نے کہا تو اپنے چرواہے اور گلے کے پاس جا۔ یہاں کیسے آگئی؟ تو اپنے چرواہے اور گلہ سے الگ ہو کر حیران و پریشان پھر رہی ہے اب وہ اس حالت میں مضطرب الحال اور گم کردہ راہ تھی کہ کوئی چرواہا اس کا نہ تھا، ناگاہ ایک بھیڑٰیے نے اس گمشدگی کو غنیمت جان کر چیر پھاڑ ڈالا۔  پس اے محمد (راوی کا نام) یہی حال اس امت کے  اس شخص کا ہے جس کا کوئی امام منصوص من اللہ نہیں جوظاہر و عادل ہو ایسی صورت میں وہ گمراہ ہو کر حیران و پریشان پھرتا ہے۔ اگر ہو اس حالت میں مر گیا تو کفر کی موت مرااور نفاق کی حالت میں مرا۔ اے محمد (راوی) جان لوکہ ائمہ کفر اور ان کے تابعین دین سے الگ ہیں اور خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں۔ ان کے اعمال "اس راکھ کی طرح ہیں جس کو آندھی کا جھونکا اڑا کر لے جائے جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ اس کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے بس اسی کا نام کھلی گمراہی ہے"۔ (9)  (روایت کی انتہاء )
اسی طرح کسی اور روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:
«يَا عَلِيُّ لَوْ أَنَّ عَبْداً عَبَدَ اللَّهَ مِثْلَ مَا قَامَ نُوحٌ فِي قَوْمِهِ وَ كَانَ لَهُ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَباً فَأَنْفَقَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ مُدَّ فِي عُمُرِهِ حَتَّى حَجَّ أَلْفَ حِجَّةٍ ثُمَّ قُتِلَ بَيْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ ثُمَّ لَمْ يُوَالِكَ يَا عَلِيُّ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَ لَمْ يَدْخُلْهَا »(10 )
یا علی! اگر کوئی رسالت حضرت نوح کے برابر (950 سال) عبادت کرے،کوہ احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں انفاق کرے،اس کی عمر اتنی لمبی  ہوجائے کہ ہزار بار ننگے پاؤں حج کرے اور اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان ناحق مارا جائے، اگر تیری ولایت اس کے دل میں نہ ہو تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا اور کبھی بھی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔  (11)
امام کی معرفت حاصل نہ کرنے کے بعض نقصانات کے نمونے
اتنی تاکید کے باوجود اسلامی معاشرے نے امام کی صحیح معرفت حاصل نہیں کی اور یہ عدم معرفت امام چاہے پیغمبر اکرم کے زمانے میں ہو یا بعد میں، اس کے بہت سارے نقصانات ہیں وہ ساری بدعتیں اور اختلافات اپنی جگہ سب سے بڑے علمی اور ثقافتی نقصانات الگ ہیں۔اس بڑی غلطی نے اسلامی معاشرہ کو کس قدر نقصانات پہنچائے۔
ذیل میں ان نقصانات کے بعض نمونے بیان کئے جارہے ہیں ۔ اور ساتھ اس نکتہ کو بیان کرتا چلوں کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  مقام نبوت اور رسالت کے علاوہ مقام امامت پر بھی فائز تھے کیونکہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام  مقام امامت پر فائز تھے تو آنحضرت تو تمام انبیاء کے سردار ہیں بطریق اولی اس مقام (امامت) پر فائز ہیں۔
1-    عبد اللہ بن عمر کہتا ہے کہ ہم رسول اللہ سے جو کچھ سنتے تھے اسے لکھتے تھے، یہاں تک کہ قریش کے ایک گروہ نے ہمیں اس کام سے منع کیا اور کہتے تھے کہ ہو سکتا ہے رسول اللہ کبھی ناراضگی میں اور کبھی خوشی میں بات کریں۔ ہم نے بھی لکھنا چھوڑ دیا ایک دن میں رسول اللہ ص کے محضر میں پہنچا آنحضرت سے اس حالت کو بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا "میری باتوں کو لکھو، خدا کی قسم میری زبان سے حق کے علاوہ کوئی بات نکلتی ہی نہیں ہے"
اس سے پتہ چلتا ہے  بعض لوگوں نے آنحضرتؐ کے علمی مقام اور منزلت کو ابھی درک نہیں کیا تھا اور یہی جہالت تھی کہ جس کے سبب حسبنا کتاب اللہ کی نوبت آگئی کہ جب آنحضرت بستر بیمار پر تھے اور مسلمانوں سے قلم دوات مانگا تاکہ ایک ایسا نسخہ ان کے لیے لکھ دین جس پر عمل کر کے بعد میں وہ گمراہی سے محفوظ رہ سکیں، عمر مانع ہو گیا اور کہا  کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے العیاذ باللہ  یہ آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بکواس بکتا ہے۔
اگر مقام نبوت، رسالت اور امام کو درک کر لیتے تو ان جیسے لوگوں کو یہ جرائت نہیں ہوتی کہ وہ رسول اللہ جیسی شخصیت کے سامنے گستاخی کرے۔
2-    بعض مسلمانوں نے مقام امامت کی حقیقی معرفت حاصل نہیں کی ؛ اس لیے یہ ہر کسی کو امام ماننے کے لیے تیار رہتے ہیں اگر کوئی طاقت کے بل بوتے پر بھی امام بن جائےیا فسق و فجور بھی انجام دیں تب بھی وہ خلیفۃ الرسول بن سکتا ہے۔ جیسا کہ اس بات کو بعض حشویہ اور معتزلہ کی طرف نسبت دی ہے۔
3-    امام کی حقیقی معرفت نہ  ہونے کی وجہ سے ابن ابی الحدید  (جو نہج البلاغہ کے شارحین میں سے ایک ہے) خطبہ ہمام (نہج البلاغہ میں خطبہ متقین کے نام سے معروف ہے) کے شروع میں کہتے ہیں کہ ہمام کے جواب میں کیوں امام ع نے تامل کیاجب ہمام نے امام سے متقین کو توصیف چاہا تو امام نے فی الفور جواب نہیں دیا بلکہ ہمام  نے بہت زیاد منت سماجت کی تب امام نے تفصیل سے جواب دیا اس کی کیا وجہ  ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ابن ابی الحدید کہتے ہیں: «ولعله تثاقل عن الجواب ليرتب المعانی التی خطرت له فی الفاظ مناسبة لها ثم ينطق بها کما يفعله المتروي في الخطبة» (12)  شاید امام نے اس لیے تھوڑا تامل کیا ہو گا کہ اپنے ذہن میں موجود مطالب کو الفاظ کے قالب میں ڈال کر پھر اسے ایک بہترین انداز میں پیش کیا جا سکے۔
ابن ابی الحدید کا مذہب اور اعتقاد اس بات کی اجازت نہیں دے رہا ہے کہ امام ع علم الہی اور علم لدنی کا مالک ہے اور اسے الفاظ کو بنانےذہن میں اسے آمادہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
(مترجم) عجیب یہ ہے یہ ابن ابی الحدید معتزلی جب شرح کرتے ہوئے خطبہ ہمام تک پہنچا تو شاید نہج البلاغہ کی حد تک تو امام کے لب و لہجہ سے آشنا ہوا ہوگا آخر ایک سو نوے سے زیادہ خطبوں کا شرح بھی لکھا جا چکا تھا ان میں خطبہ شقشقیہ، خطبہ غرا جیسے خطبات تھے پھر یہاں اس سخیف بات کو کیوں کہا؟ جواب بہت ہیں واضح ہے دل کے کینے اور کدروتیں کسی نہ کسی جگہ سر اٹھاتی ہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے اس نے نہج البلاغہ کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن ساتھ ہی اپنا بت بھی ساتھ رکھا۔ تبھی تو کہیں نہ کہیں غلطی کر جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ  «قدم المفضول على الأفضل لمصلحة اقتضاها التكليف » (13) حمد اس اللہ کے لیے جس نے مصلحت کی خاطر مفضول کو افضل پر مقدم کیا۔  یعنی نوبت خدا تک پہنچی کہ خدا بھی ابو بکر کو علی پر مقدم کر رہا ہے!؟ یہ سب امام شناسی سے محروم ہونے کا نتیجہ ہے۔
4-    ایک مجلہ میں ہم پڑھتے ہیں: مہدی قلب تاریخ میں چلا گیا اور ایک طولانی مدت غیبت میں رہنے کی وجہ سے کافی تجربہ حاصل کرے گا اور بعد میں ان تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے زمین پر اصلاح کریں گے۔(14)
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک معصوم جو کہ تمام انبیاء اور ائمہ کے علوم کے وارث ہیں ساتھ ہی علم الہی اور علم لدنی کی دولت سے بھی سر شار ہیں، تجربہ کا محتاج ہو جائے؟! کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں خود اپنے اندر بھی امام شناسی کو  مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔عصر حاضر کے روشن خیالوں کے زیادہ تر شبہات بھی امام شناسی سے عاری ہونے کی وجہ سے ہے۔جیسا کہ وہابیوں کی یہ روش رہی ہے  وہ بین الاقوامی سطح پر  شیعوں کے خلاف  شبہات پھیلائیں۔
اسی  لئے اماموں نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ مفہوم امامت اور مصداق امامت کی صحیح شناخت لوگوں کو کرائی جائے ۔ امام رضا علیہ السلام نے بہت زیادہ کوششیں کہ مختلف فرصتوں سے استفادہ کر کے معاشرے کو امامت اور خلافت الہی کی حقیقی معرفت کرائی  جائے کیونکہ اس زمانے میں امامت اور خلافت بادشاہت کا لبادہ اوڑھ کر نمودار ہوا تھا اور وہ حقیقی امام کو ولایتعہدی تک منحصر کرنا چاہتا تھا۔ ایسے ماحول میں امام نے امامت کے درست مفہوم کو واضح کیا۔
امامت کا مقام و منزلت

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
إِنَّ الْإِمَامَةَ أَجَلُ قَدْراً وَ أَعْظَمُ شَأْناً وَ أَعْلَى مَكَاناً  وَ أَمْنَعُ جَانِباً وَ أَبْعَدُ غَوْراً مِنْ أَنْ يَبْلُغَهَا النَّاسُ بِعُقُولِهِمْ أَوْ يَنَالُوهَا بِآرَائِهِمْ أَوْ يُقِيمُوا إِمَاماً بِاخْتِيَارِهِمْ إِنَّ الْإِمَامَةَ خَصَّ اللَّهُ بِهَا إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلَ ع بَعْدَ النُّبُوَّةِ وَ الْخُلَّةِ مَرْتَبَةً ثَالِثَةً وَ فَضِيلَةً شَرَّفَهُ بِهَا وَ أَشَادَ بِهَا ذِكْرَهُ   فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَ ﴿إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً﴾ ( 15)
امامت از روئے قدر و منزلت بہت اجل و ارفع ہے اور از روئے شان بہت عظیم ہے اور بلحاظ محل و مقام بہت بلند ہے اور اپنی طرف غیر کے آنے سے مانع ہے اور اس کا مفہوم بہت گہرا ہے لوگوں کی عقلیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور ان کی راہیں اس کو پا نہیں سکتیں وہ اپنے اختیار سے اپنے امام کو نہیں بنا سکتے ۔ اللہ تعالی نے ابراہیم ع کو امات سے مخصوص کیا نبوت اور رسالت کے بعد امامت کا تیسرا مرتبہ ہے خدا نے ابراہیم ع  کو اس کا شرف بخشااور اس کا یوں ذکر کیا "میں تم کو لوگوں کا امام بنا نے والا ہوں"(16)
کسی دوسری جگہ امام فرماتے ہیں:
«إِنَّ الْإِمَامَةَ هِيَ مَنْزِلَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَ إِرْثُ الْأَوْصِيَاءِ إِنَّ الْإِمَامَةَ خِلَافَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ خِلَافَةُ الرَّسُولِ وَ مَقَامُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مِيرَاثُ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع»
امامت منزلت انبیاء ہے اور میراث اوصیاءہے امامت اللہ کی خلافت ہے اور رسول اللہ کی جانشینی ہے اور مقام امیر المومنین اور میراث حسن و حسین  علیہما السلام ہے۔(17)
إِنَّ الْإِمَامَةَ زِمَامُ الدِّينِ۔۔۔۔۔ وَ الْحُجَّةِ الْبَالِغَةِ( 18)
امامت زمام دین ہے اور نظام مسلمین ہے اور اس سے امور دنیا کی درستی ہے اور مومنین کی عزت ہے۔ امامت ترقی کرنے والے اسلام کا سر ہے اور اس کی بلند شاخ ہے امام ہی نماز، زکواۃ  و صوم ، حج، و جہاد کا تعلق ہے وہی مال غنیمت کا مالک ہے، وہی صدقات کا وارث ہے وہی حدود و احکام کو جاری کرنے والاہے وہی حدود و اطراف اسلام کی حفاظت کرنے والا ہے۔امام حلال کرتا ہے حلال خدا کو اور حرام کرتا ہے حرام خدا کو۔اور قائم کرتا ہے حدود اللہ کو،  اور دفع کرتا ہے  دشمنوں کو دین خدا سے اور بلاتا ہے دین خدا کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور وہ خدا کی پوری پوری حجت ہے۔  (19)
امام کی توصیف

امام کی معرفی اور اس کے اوصاف کا بیان کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے ۔ اس لیے امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
الْإِمَامُ كَالشَّمْسِ الطَّالِعَةِ ۔۔۔   مَنْ فَارَقَهُ فَهَالِكٌ  (20)
امام چڑھتا سورج ہے جو اپنی روشنی سے عالم کو جگمگاتا دیتا ہے وہ ایسے مقام بلند پر ہے لوگوں کے ہاتھ اور ان کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ امام روشن چاند ہے اور ضیاء بار چراغ ہے اور چمکتا چراغ ہے جگمگاتا نور ہے ہدایت کرنے والا ستارہ ضلالت کی تاریکیوں میں، شہروں کے درمیان جنگلوں اور سمندروں کی گہرائیوں میں راہ بتانے والا ۔ امام آب شیرین سے پیاسے کے لئے رہنمائی کرنے والا (بیابانوں میں)۔ اور ہلاکت سے نجات دینے والا  ہے وہ اس آگ کی مانند ہے جوکسی بلندی پر لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے روشن کی جائے۔ اور مہلکوں میں صحیح راستہ بتانے والا ہے جس اس سے الگ رہا وہ ہلاک ہوا۔
کس طرح ان بلند و بالا معارف کو لوگوں کے سمجھایا جا سکےاور لوگ کس طرح ان گہرے معارف کو درک کر سکےنہ مجھ میں ان فضائل کے موتیوں کو بکھیرنے کی زبان ہے اور نہ لوگوں میں انہیں سننے کا کان۔ نہ میں کہہ سکتا ہوں اور نہ لوگ سن سکتے ہیں۔ امام فرماتے ہیں:
الْإِمَامُ السَّحَابُ الْمَاطِرُ وَ الْغَيْثُ الْهَاطِلُ وَ الشَّمْسُ الْمُضِيئَةُ  وَ الْأَرْضُ الْبَسِيطَةُ وَ الْعَيْنُ الْغَزِيرَةُ وَ الْغَدِيرُ وَ الرَّوْضَةُ الْإِمَامُ الْأَمِينُ   الرَّفِيقُ وَ الْوَالِدُ الرَّقِيقُ وَ الْأَخُ الشَّفِيقُ وَ مَفْزَعُ الْعِبَادِ فِي الدَّاهِيَةِ الْإِمَامُ أَمِينُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ وَ حُجَّتُهُ عَلَى عِبَادِهِ وَ خَلِيفَتُهُ فِي بِلَادِهِ الدَّاعِي إِلَى اللَّهِ وَ الذَّابُّ عَنْ حَرَمِ اللَّهِ
امام برسنے والا بادل ہے اور زور کی رو ڈالنے والا ابر ہے وہ آفتاب درخشاں  ہے وہ سایہ فگن آسمان ہے وہ ہدایت کی کشادہ زمین ہے وہ ابلنے والا چشمہ ہے وہ تالاب ہے وہ باغ ہے۔امام مومن کے لیے مہربان ساتھی، شفیق باپ، اور سگا بھائی ہے۔ اور ایسا ہمدرد و مہربان جیسے نیک ماں اپنے چھوٹے بچے پر، اور بندوں کا فریاد رس ہے مصائب و آلام میں۔امام خدا کا امین  ہے اس کی مخلوق ،میں اس کی حجت ہے اس کے بندوں پر اور خدا کا خلیفہ ہے شہروں میں اور اللہ کی دعوت دینے والا ہے اور حرم خدا سے دشمنوں کو دور کرنے والاہے۔
الْإِمَامُ الْمُطَهَّرُ مِنَ الذُّنُوبِ۔۔۔  وَ يُمْكِنُهُ اخْتِيَارُهُ
امام گناہوں سے پاک ہوتا ہے جملہ عیوب سے بریٔ، وہ علم سے مخصوص اور حلم سے موسوم  ہوتا ہے۔

(مترجم) افادیت کی خاطر روایت کو کامل انداز میں شامل کی جا رہی ہے، یہاں سے آگے اصل مقالے کا حصہ نہیں ہے۔
روایت آگے کہتی ہے:
 وہ دین کے نظام کو درست کرنے ولا ہے امسلمانوں کی عزت ہے، منافقوں کے لئے غیظ و غضب اور کافروں کے لئے ہلاکت۔ امام اپنے زمانے میں واحد و یگانہ ہوتا ہے کوئی فضل و کمال میں اس کے نزدیک بھی نہیں ہوتا  اور نہ کوئی عالم اس کے مقابلے کا ہوتا ہےنہ اس کا بدل پایا جاتا ہےنہ اس کا مثل و نظیر ہے وہ بغیر اکتساب اور خدا سے طلب کے ساتھ ہر قسم کی فضیلت سے مخصوص ہوتا ہے۔ یہ اختصاص اس کے لیے خدا کی طرف سے ہوتا پس کون ہے کہ معرفت تامہ امام حاصل کر سکے،یا امام بنانا اس کے اختیار میں ہو۔
امام سب سے زیادہ علم رکھتا ہے

امام رضا علیہ السلام اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انبیاء اور ائمہ علیہم السلام موفق من اللہ ہوتے ہیں اور علم و حکمت الہیہ کے خزانہ سے وہ چیز ان کو دی جاتی ہے جو ان کے غیر کو نہیں دی جاتی، پس ان کا علم تمام اہل زمانہ کے علم سے زیادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ زیادہ حقدار پیروی ہے جس سے جو خود محتاج ہدایت ہے پس تمہیں کیا ہو گیا  یہ کیسا حکم کرتے ہو؟! اور یہ بھی فرمایا جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی (قول باریٔ تعالی طالوگ کے بارے میں)  بے شک اللہ نے تم پر طالوت کا اصطفا کیا اور اس کو علم و جسم (قوت) میں تم پر فضیلت دی اور اللہ جسے چاہتا ہے ملک کا مالک بنا دیتا ہے اور وہ بڑی وسعت والا بڑا جاننے والا ہے۔
اور اپنے نبی سے فرمایا تمہارے اوپر کتاب اور حکمت کو نازل کیا اور جو تم نہ جانتے تھے اس کی تعلیم دی اور یہ تمہارے اوپر خدا کا بڑا فضل تھا اور اپنے نبی کی اہل بیت و عترت و زریت کے متعلق فرمایا کیا لوگ حسد کرتے ہیں اس چیز سے جو ہم نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے۔ پس ہم نے اولاد ابراہیم ع کو کتاب و حکمت دی اور کو ملک عظیم دیا، پس ان میں بعض ایمان لے آئے اور بعض ایمان سے بے نصیب رہے ان کے لیے جہنم کے شعلے کافی ہیں۔ جب خدا کسی بندہ کو اپنے بندوں کے امور کی اصلاح کے لئے منتخب کرلیتا ہے تو اس کام کے لئے اس کے سینہ کو کشادہ کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے قلب میں ودیعت فرماتا ہے اور علم کا الہام کرتا ہے پس وہ کسی سوال کے جواب میں عاجز نہیں ہوتا  اور نہ وہ راہ صاب میں حیران ہوتا ہے وہ معصوم ہے موئد موفق من اللہ ہے ہدایت یافتہ ہے وہ گناہوں، لغزشوں اور غلطیوں سے محفوظ ہوتا ہے خدا اسے ان امور  سے مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہو  اور اس کی مخلوق پر اس کا گواہ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہےاور اللہ صاحب فضل و عظیم ہے۔
امام کی توصیف سے عقل کی عاجزی

امام رضا فرماتے ہیں:
ہائے ہائے لوگوں کی عقلیں گمراہ ہو گئی ہیں اور فہم و ادراک سرگشتہ اور اور پریشان ہیں اور عقول حیران ہیں اور آنکھیں ادراک سے قاصر ہیں اور عظیم المرتبت لوگ اس امر میں حقیر ثابت ہوئے اور حکماء حیران ہو گئے  اور ذی عقل چکرا گئے اور خطیب لوگ عاجز ہوگئے، عقول پر جہالت کا پردہ پڑ گیا اور شعراء تھک کر رہ گئے اور اہل ادب عاجز ہو گئے  اور صاحبان بلاغت عاجز آئے۔ امام کی کسی ایک شان کو بیان نہ کر سکےاور اس کی کسی ایک فضیلت کی تعریف نہ کر سکے انہوں نے اپنی عجز کا اقرار کیا اور اپنی کوتاہیوں کے قائل ہو ئے۔ پس جب امام کے ایک وصف کا یہ حال ہے تو اس کی تمام صفات کو کس کی طاقت ہے کہ بیان کر سکے اور ان کے حقائق پر روشنی ڈالاے یا اس امر امامت کے متعلق کچھ سمجھ سکے یا کوئی ایسا آدمی پا سکے کہ وہ امر دین میں سے  بے پروا کر سکےایسا کیسے ہو سکتا ہے در آنحالیکہ امام کا مرتبہ ثریا ستارہ سے بھی بلند ہے پکڑنے والا اس مرتبت کو کیسے پکڑ سکتا ہے اور وصف بیان کرنے والے کیوں کر اس کا وصف بیان کر سکتے ہیں؟ ایسی صورت میں امام سازی میں بندوں کا اختیار کیسا اور عقلوں کی رسائی کے بارے میں  کہاںاور امامت جیسی چیز اور کون سی ہے؟
راہ امامت سے بھٹک جانے کا انجام

امام ع فرماتے ہیں:
کیا تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ یہ امامت آل رسول ص کے غیر میں پائی جاتی ہے واللہ لوگوں کے نفسوں نے ان کو جھٹلایا ہے اور ان کے نفسوں کے ان  کو انتہائی باطل امور میں پھانس کر رکھا ہے۔ وہ اوپر کو چرھے سخت چڑھائی، پھر ان کے قدم  پستی کی طرف پھیلے، انہوں نے امام بنانے کا ارادہ کای اپنی تباہ کرنے والی ناقص عقلوں سے اور گمراہ کرنے والی راویوں سے ، پس حقیقی امام سے ان کا بعد بڑھتا ہی گیا۔ خدا ان کو ہلاک کرےیہ کہاں بہکے جا رہے ہیں۔ انہوں نے سخت کام کا ارادہ کیا اور افترا پردازی کی اور بہت خوفناک گمراہی میں پڑ گئے اور حیرت کے بھنور میں پھنس گئے۔ جبکہ انہوں نے امام کو بصیرت سے لینا ترک کیا اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہوں میں زینت دے دی اور ان کو صحیح راستہ سے ہٹا دیا اور وہ صاحبان عقل  تھے انہوں نے نفرت کی۔ انتخاب خدا اور رسول  اور اہل بیت رسول سے اور اپنے انتخاب کو پسند کیا۔ حالاکہ قرآن  ان سے پکار پکار کر کہہ رہا ہےتیرا رب جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے انتخاب کرتا ہے لوگوں کو اس میں دخل نہیں ، لائق تسبیح ہے اللہ شریک سے پاک ہے اور فرماتا ہےجب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کو طے فرمادیں تو کسی مومن و مومنہ کو اپنے معاملہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
اور اللہ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا تم خود کیسا حکم لگاتے ہوں۔ آیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا تم درس لیتے ہو، کیا تمہارے لئے اس میں کوئی ایسی چیز ہے جس کی تم خبر دیتے ہو یا تمہارا ہم سے روز قیامت تک کے لئے کوئی معاہدہ ہے کہ تم اس کے متعلق حکم کرتے ہو۔ اے رسول! تم ان سے پوچھو کہ کون ان میں ان عہدوں کا ضامن ہے کیا ان کے خدا کے شریک ہیں۔ پس اگر تم سچے ہو تو اپنے ان شریکوں کو بلاؤ۔ فرماتا ہے کیا یہ لوگ آیات قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے قلوب پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ یا ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے کہ وہ نہیں سمجھتے، کیا وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے ۔ خدا کے نزدیک روئے زمین پر بد ترین چلنے  والے گونگے بہرے ہیں جو سمجھتے ہی نہیں ہے اگر اللہ جانتا کہ ان میں کوئی بہتری ہے تو ضرور ان کو سناتا لیکن اگر وہ  سنتے تو البتہ روگردانی کر کے بھاگ  جاتے۔یا انہوں نے کہا ہم نے سنا اور نا فرمانی کی، بلکہ یہ تو خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
لوگ امام کو انتخاب نہیں کر سکتے ہیں

امام کسی دوسری جگہ فرماتے ہیں:
پس اس صورت میں امام کے متعلق ان کا اختیار کیا؟ امام عالم ہوتا ہے کسی چیز سے جاہل نہیں۔ امور دین کی رعایت کرنے والا ہوتا ہے توقف نہیں کرتا۔ معدن قدس و طہارت ہوتا ہے۔ صاحب عمل و زہد ہوتا ہے۔ صاحب علم و عبادت ہوتا ہے۔ دعائے رسول سے مخصوص ہوتا ہےنسل سیدہ طاہرہ و معصومہ سے ہوتا ہے ۔ اس کی نسل میں کھوٹ نہیں ہوتی۔ کوئی شرافت نسب میں  اس کے برابر نہیں ہوتا۔ وہ خاندان قریش سے ہوتا ہے اور خاندان بنی ہاشم میں سے سب سے بلند مرتبہ۔ وہ عترت رسول سے ہوتا ہے اور مرضی الہی سے چاہنے والا ہوتا ہے۔ وہ تمام اشراف کا اشرف ہوتا ہے وہ علم کو ترقی دینے والا ہوتا ہے وہ حلم سے پر ہوتا ہے۔ وہ جامع شرائط امامت ہوتا ہے۔ وہ سیاست الہیہ کا عالم ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت لوگوں پر فرض ہوتی ہے۔ امر خدا کا قائم کرنے والا ہوتا ہے۔ خدا کے بندوں کو نصیحت کرنے والا ہوتا ہے۔ دین خدا کا نگہبان ہوتا ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ امام ارشاد فرماتے ہیں
پس آیا لوگ ایسا امام بنانے پر قادر ہیں کہ وہ اس کو انتخاب ک لیں اور ان صفات والے پر وہ کسی اور کو مقدم کر دیں۔ قسم ہے خانۂ کعبہ کی انہوں نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا ہے گویا وہ جانتے ہی نہیں۔ در آنحالیکہ کتاب خدا میں ہدایت اور شفا ہے انہوں نے اسے پس پشت ڈال کر اپنی خواہشوں کا اتباع کیا ۔ خدا نے ان کی مذمت کی ہے اور ان کو دشمن رکھا ہے اور ان کے لئے ہلاکت ہے اس نے فرمایا کہ اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا  جو ہدایت خدا کے بغیر اپنی خواہشات کااتباع کرے بے شک خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا اور فرماتا ہے  ہلاکت ہو ان کے لیے ، ان کے اعمال اکارت گئے  اور خدا نے فرمایا خدا اور ایمان والوں کی اس سے سخت دشمنی ہے خدا نے ہر متکبر و جبار کے دل پر مہر لگا دی  ہے ارو بکثرت درود و سلام محمد اور ان کی اولاد پر۔
یہاں سے آگے اصل مقالے کا حصہ ہے۔
کتنی پیاری بات کہی شاعر نے
گر بيابم صد دهان و اين چنين
تنگ آيد در بيان آن امين
اين قدر هم گر نگويم ای سند
شيشه دل از ضعيفی بشکند ()
ہزار زبان اور لایا جائے کہ اس کی مدح کی جائے تب بھی وہ کم ہےاگر اتنا بھی میں نہ کہوں تو اے سند مجھے خوف ہے کہ شدت ضعف سے دل کا شیشہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔
یہ بات بھی لطف سے خالی نہیں کہ یہاں دشمن کےا س اعتراف کو زیب قرطاس کروں جو اس امام رضا علیہ السلام کے بارے میں کیا تھا:
روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
جب امام رضا علیہ السلام کو مجبورا ولایتعہدی دی گئی تو دربار کے بعض نوکروں اور غلاموں نے جو مامون کے پٹھو تھے یہ طے کر لیا کہ جب حضرت امام رضاع مامون کے پاس دربار میں وارد ہو جائیں گے تو ان کا احترام نہیں کریں گے اور بے اعتنائی کریں گے۔ انہوں نے طے کر لیا کہ اس پردہ کو جو کسی بڑی شخصیت کے داخل ہوتے وقت اوپر کیا جاتا تھا اسے اوہر نہ کیا جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ امام ع کے داخل ہوتے ہیں سب نے بے اختیار پردہ اٹھا لیا اور بڑے احترام کے ساتھ امام ع داخل ہوئے۔ کسی دوسرے وقت میں پھر  سب نے اتفاق کر کے پردہ کو نہیں اٹھایا تو اللہ نے  ہوا کے ایک جھونکے کو موکل کیا اس نے پردہ کو اٹھا لیا اور امام ع داخل ہوئے۔ اسی طرح امام پلٹے وقت بھی یہ واقعہ پیش آیا اس وقت یہ لوگ ایک دوسرے سےکہتے تھے: لوگو! اس شخص کے لیے اللہ کے ہاں مقام و منزلت ہے اور اللہ کی اس پر بہت زیادہ عنایت ہے۔ کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جب تم نے پردہ کو نہیں اٹھایا تو خدا نے حضرت سلیمان ع کی طرح ہوا کو اس کے لئے مسخر کیا پس اس کی خدمت میں چلے جائیں  یہ تم لوگوں کے لیے بہتر ہے۔ اس واقعہ کے بعد سے لوگوں نے اپنے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور حضرت کی احترام پہلے سے زیادہ کرنے لگے۔
امام کے بعض نشانیاں

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
علی بن حسن بن فضال نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے  کہا کہ: ابو الحسن علی بن موسی الرضا علیہما السلام  نے فرمایا:
امام کی علامتیں یہ ہیں:
1-    امام لوگوں میں سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔
2-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے۔
3-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوتا ۔
4-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم اور برد بار ہوتا ہے۔
5-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور شجاع ہو تا ہے۔
6-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی ہوتا ہے۔
7-    امام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عابد ہوتا ہے۔
8-    امام ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے۔
9-    امام طاہر و مطہر ہوتا ہے۔
10-    امام اپنے پس پشت ایسے دیکھتا ہے جیسا کہ اپنے سامنے دیکھتا ہے۔
11-    امام کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔
12-    امام جب شکم مادر سے زمین پر قدم رکھتا ہے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے بل زمین پر سجدہ کرتا ہے اور بلند آواز میں کلمہ شہادتین ادا کرتا ہے۔
13-    امام کو احتلام نہیں ہوتا ہے۔
14-    امام کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن امام کا دل نہیں سوتا۔
15-    امام محدث بہ الہام خدا ہوتا ہے۔
16-    امام کے جسم پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زرہ پوری آتی ہے۔
17-    امام کا بول و براز کسی کو دکھائی نہیں دیتا کیونکہ زمین اس کے نگلنے پر موکل ہے۔
18-    امام کے بدن سے اٹھنے والی خوشبو مشک سے کہیں زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
19-    امام لوگوں کی جانوں سے ان پر زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔
20-    امام لوگوں کے لئے والدین سے زیادہ شفیق ہوتا ہے۔
21-    امام اللہ کے لئے تمام انسانوں سے زیادہ تواضع کرنے والا ہوتا ہے۔
22-    امام حکم خدا کا سب سے زیادہ پابند ہوتا ہے۔
23-    امام منہیات سے سب سے زیادہ پرہیز کرنے والا ہوتا ہے۔
24-    امام کی دعا مقبول ہوتی ہے، اگر وہ چٹان کے لئے بھی دعا کرے تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔
25-    امام کے پاس رسول خدا کے ہتھیار اور ان کی تلوار ذوالفقار ہوتی ہے۔
26-    امام کے پاس ایک صحیفہ ہوتا ہے جس میں روز قیامت تک آنے والے تمام شیعوں کے نام موجود ہوتے ہیں۔
27-    امام کے پاس ایک ایسا صحیفہ بھی ہے جس میں قیامت تک آنے والے دشمنوں کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
28-    امام کے پاس ایک "جامعہ" ہوتا ہے ، جامعہ ایک صحیفہ ہے جس کی لمبائی  ستر ہاتھ کی ہے، اس میں وہ تمام چیزیں ہوتی ہیں جن کی اولاد آدم کو ضرورت ہو سکتی ہے۔
29-    امام کے پاس جفر اکبر اور جفر اصغر ہوتا ہے۔
30-    امام کے پاس ایک بکری اورایک بھیڑ کی کھال ہوتی ہے جس میں تمام علوم ہوتے ہیں، یہاں تک کہ خراش کرنے کی دیت اور ایک نصت کوڑے تک کا بھی تذکرہ موجود ہوتا ہے۔
31-    امام کے پاس حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مصحف ہوتا ہے۔
دوسری جگہ امام رضا ع فرماتے ہیں:
1-    امام موئد بروح القدس ہوتا ہے۔
2-    امام کے اور خدا کے درمیان نور کا ایک ستون ہوتا ہے جس کے ذریعے سے وہ بندوں کے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے، امام کو جب کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس ستون میں دیکھتا ہے، جب ستون پھیل جائے تو وہ جان لیتا ہے اور اگر ستون سمیٹ لیا جائے تو اسے علم نہیں ہوتا۔
3-    امام کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوتی ہے اور امام خود بھی پیدا ہوتا  ہے۔
4-    امام تندرست بھی ہو سکتا ہے اور بیمار بھی ہو سکتا ہے۔
5-    امام کھاتا اور پیتا بھی ہے امام بول براز بھی کرتا ہے۔
6-    امام نکاح بھی کرتا ہے۔
7-    امام کو نیند بھی آتی  ہے ۔
8-    امام خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی ہوتا ہے۔
9-    امام ہنستا اور روتا بھی ہے۔
10-    امام زندگی بسر بھی کرتا ہےاور امام پر موت بھی وارد ہوتی ہے۔
11-    امام مدفون بھی ہوتا ہے اور امام کی زیارت بھی کی جاتی ہے۔
12-    امام عرصہ محشر میں اٹھایا بھی جائے گا اور اس سے سوال بھی کیا جائے گا۔ محشر میں امام کو ثواب بھی عطا کیا جائے گا اور ان کا احترام بھی کیا جائے گا۔
13-    امام شفاعت بھی کریں گے۔
امام کی پہچان

امام رضا علیہ السلام دوسری جگہ فرماتے ہیں:
امام کی پہچان دو چیزوں سے ہوتی ہے، علم اور دعا کی قبولیت سے۔ امام کسی واقعے کی قبل از وقت خبر اس لئے دیتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس واقعے کی خبر اپنے رسول کو دی ہوئی ہوتی ہےاور رسول خدا ص نے ائمہ کو اس کی خبر دی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے امام اپنے آبائے طاہرین سے وہ علم لے کر قبل از وقت کسی واقعے کی خبر دیتے ہیں، اور آنحضرت ص کو و خبر علام الغیوب خدا کی طرف سے جبریل امین کے ذریعے موصول ہوتی ہے۔
غالی اور امام رضا
غالیوں کے بارے میں اہل بیت علیھم السلام کا نظریہ:

آئمہ اہل بیت علیھم السلام نے غالیوں کے بارے شدید ترین موقف اختیار کیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا کہ اہل بیت علیھم السلام نے جس طرح غلو کے مسئلہ میں غالیوں کی مذمت کی ہے ایسی کسی اور مسئلہ میں مذمت نہیں کی ۔پوری قوت وشدت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور اس خطرناک بیماری کا متعدد انواع و مختلف طریقوں کے ساتھ علاج کیا ہے ۔
اور اس اہتمام کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی حکمرانوں نے غالیوں کو شیعہ کی صفوں میں داخل کیا تاکہ پوری امت کو یہ بیان کریں کہ شیعہ اپنے آئمہؑ کو خدا مانتے ہیں لہذا ان کا خون جائز ہے ،ان کا مال ،جان،عزت وآبرو مباح ہے اور تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔
اسی وجہ سے اہل بیت علیھم السلام نے اپنی احادیث اور مختلف انداز کے ذریعہ غالیوں اور ان کے عقائد کی بھر پور مذمت کرکے پورے عالم اسلام کو بتادیا کہ اس قسم کے عقائد رکھنے والوں کا مذھب جعفری سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ لوگ ہماری صفوں میں داخل کر دئے گئے ہیں تاکہ شیعہ مذہب کو بدنام کریں اور انکے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا موجب بنیں ۔
اور آج کے اس جدید دور میں شیعہ کے خلاف جو فتوی بازی کا بازار گرم ہے یہ ہماری بات کی بہترین دلیل ہے ۔
یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے آئمہ علیھم السلام کو مجبور کیا کہ وہ غالیوں سے علی الاعلان برائت کا اظہار کریں اور ان پرکھلم کھلا لعن وطعن کریں اور ان کے کفر کا واضح حکم لگائیں اور آئمہؑ نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ کسی حالت میں ان کے ساتھ نہ بیٹھیں ،ان کی باتوں کی طرف کان نہ دھریں اور اس قسم کے عقائد رکھنے والوں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کر دیں۔(21)
اب آئیں امام رضا علیہ السلام  کا غالیوں کے بارے میں موقف بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ ص کے بعد گیارہ ائمہ میں سے حضر علی اور امام حسین علیہما السلام  تلوار سے شہید ہوئے اور باقی نو امام زہر سے شہید کئے گئے اور ہر امام کو ان کے زمانے کے طاغوت نے شہید کرایا۔
ائمہ حقیقی معنوں میں شہید ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں غلاۃ اور مفوضہ لعنہم اللہ  کا قول غلط  ہے یہ بد بخت کہتے ہیں کہ ائمہ ہدا  در حقیقت قتل نہیں ہوئے، لوگوں کو ان کی شہادت کے متعلق اشتباہ ہوا ہے۔یہ لوگ جھوٹے ہیں ان پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
عیسی بن مریم ع کے علاوہ کسی بھی نبی یا امام کی شہادت کا معاملہ کبھی بھی اشتباہ میں نہیں آیا۔ حضر عیسی علیہ السلام کو زندہ زمین سے اٹھایا گیا اور زمین و آسمان کے درمیان ان کی روح قبض کر لی گئی پھر انہیں آسمان پر لے جایا گیا اور ان روح ان کے جسم میں پلٹا دی گئی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
جب اللہ تعالی نے کہا ، ائے عیسی میں وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف بلند کرنے والا ہوں
حضرت عیسی علیہ السلام سے قیامت کے دن کا قیامت کے دن کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:
اور جب تک میں ان میں رہا ، میں ان کا گواہ تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو خود ہی ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز کا گواہ ہے۔
ائمہ ہدا علیہم السلام کے متعلق تجاوز کرنے والے یہ بد بخت کہتے ہیں:۔
جب عیسی کا معاملہ اشتباہ رہ سکتا ہے تو پھر ائمہ ہدی کا معاملہ کیوں مشتبہ نہیں رہ سکتا ؟
ان لوگوں کو یہ جواب دیا جائے گا :۔
یہ ضروری نہیں کہ ہمارے ائمہ اور عیسی بن مریم  میں ہر لحاظ سے مشابہت پائے جائے، حضرت عیسی ع بغیر باپ کے پیدا ہوئے جب کہ ہمارے ائمہ کے والد موجود تھے۔
حضرت عیسی کی پیدائش اور موت دونوں ہی اللہ نے عجیب و غریب بنایا تاکہ دنیا جان کے لے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔  (22)
____________________

 (1) بقرہ: 124
(2) مائدہ: 3
 (3) مائدہ: 67.
(4 ) ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة،؛ ج 2 ؛ ص409
 (5)  فخر رازی، مجموعة الرسائل، چاپ مصر، 1328، المسائل الخمسون، ص 384 .
 (6) توبہ: 36
(7)  ابن شاذان، محمد بن احمد، مائة منقبة من مناقب امیر المؤمنین و الائمة من ولدہ علیہم السلام من طریق العامة، ص 72.
(8)  کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی (ط - الاسلامیة)، ج 1، ص: 184
(9)  الشافی، ترجمہ اصول کافی، مترجم سید نجم الحسن کراروی قبلہ،
(10)  طبری آملی، عماد الدین ابی جعفر محمد بن ابی القاسم، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی (ط - القدیمة)، ؛ ج 2 ؛ ص94
(11)  الشافی ترجمہ اصول کافی
(12)  ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغة لابن ابی الحدید ج 10 ؛ ص134
(13)  ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغة لابن ابی الحدید،؛ ج 1 ؛ ص3
(14)  مجلہ حوزہ، شمارہ 71 - 70، چاپ دوم، 1374، ص 50 .
(15)  بقرہ: 124
(16)  الشافی، ترجمہ اصول کافی ج 2 ص 64
(17)  ایضا ص 65
(18)  کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی (ط - الاسلامیة)، 8جلد،؛ ج 1 ؛ ص198
(19)  الشافی، ترجمہ اصول کافی ج 2 ص 64
(20)  اصول کافی۔
(21)   اہل قلم کی ایک جماعت، علماء شیعہ کاغالیوں کے بارے میں نظریہ، نجف اشرف، عراق http://alsadeqain.blogfa.com/cat-2.aspx
(22)  جعفری، محمد حسن، ترجمہ عیون اخبار الرضا ج 1، ص 554
کتابنامہ

1.    ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، 2جلد، نشر جہان - تہران، چاپ: اول، 1378ق
2.    ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ - تہران، چاپ: دوم، 1395ق.
3.    فخر رازی، مجموعة الرسائل، چاپ مصر، 1328،
4.    ابن شاذان، محمد بن احمد، مائة منقبة من مناقب امیر المؤمنین و الائمة من ولدہ علیہم السلام من طریق العامة، 1جلد، مدرسة الامام المہدی عجّل اللة تعالی فرجة الشریف - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1407ق.
5.    ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغة لابن ابی الحدید، 10جلد، مکتبة آیة اللہ المرعشی النجفی - قم، چاپ: اول، 1404ق.
6.    مجلہ حوزہ، شمارہ 71 - 70، چاپ دوم، 1374،
7.    اہل قلم کی ایک جماعت، علماء شیعہ کاغالیوں کے بارے میں نظریہ، نجف اشرف، عراق
8.    http://alsadeqain.blogfa.com/cat-2.aspx
9.    کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی (ط - الاسلامیة)، 8جلد، دار الکتب الاسلامیة - تہران، چاپ: چہارم، 1407 ق.
10.    جعفری، محمد حسن، ترجمہ عیون اخبار الرضا، اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ، کراچی ، پاکستان۔
11.    نقوی، امروہی، سید ظفر حسن، الشافی ترجمہ اصول کافی، ظفر شمیم پبلکیشنز، کراچی، پاکستان، پہلا ایڈیشن، 2004۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟
امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا
يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟

 
user comment