اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

مختصرحالات زندگی حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام

مختصرحالات زندگی حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام

آپ کی ولادت باسعادت

 

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیداہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے توآباؤ اجدادکی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے توفرشتوں کی بے انتہاآوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا،ولادت کے بعدقبلہ روہوکرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین باچھینکنے کے بعدحمدخدا بجالائے،ایک شبانہ روزدست مبارک سے نورساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولدہوئے۔ (جلاء العیون ص ۲۵۹) ۔

 

اسم گرامی ،کنیت اورالقاب

 آپ کااسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا آپ کی کنیت ”ابوجعفر“تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں (مطالب السؤل ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔

 

 

 

باقرکی وجہ تسمیہ

 باقر،بقرہ سے مشتق ہے اوراسی کااسم فاعل ہے اس کے معنی شق کرنے اوروسعت دینے کے ہیں، (المنجد ص ۴۱) ۔ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کواس لقب سے اس لیے ملقب کیاگیاتھا کہ آپ نے علوم ومعارف کونمایاں فرمایااورحقائق احکام وحکمت ولطائف کے وہ سربستہ خزانے ظاہرفرمادئیے جولوگوں پرظاہروہویدانہ تھے(صواعق محرقہ،ص ۱۲۰ ،مطالب السؤل ص ۶۶۹ ،شواہدالنبوت صذ ۱۸۱) ۔
جوہری نے اپنی صحاح میں لکھاہے کہ ”توسع فی العلم“ کوبقرہ کہتے ہیں، اسی لیے امام محمدبن علی کوباقرسے ملقب کیاجاتاہے ،علامہ سبط ابن جوزی کاکہناہے کہ کثرت سجودکی وجہ سے چونکہ آپ کی پیشانی وسیع تھی اس لیے آپ کوباقرکہاجاتاہے اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ جامعیت علمیہ ک کی وجہ سے آپ کویہ لقب دیاگیاہے ،شہیدثالث علامہ نوراللہ شوشتری کاکہناہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاہے کہ امام محمدباقرعلوم ومعارف کواس طرح شگافتہ کردیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔(مجالس المومنین ص ۱۱۷) ۔

 

 

 

بادشاہان وقت

آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہدمیں پیداہوئے ۶۰ ھ میں یزیدبن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہاپھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولیدبن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والدماجدکودرجہ شہادت پرفائزکردیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کاآغازہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادافرماتے رہے، اسی دروان میں ولیدبن عبدالملک کے بعدسلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزیدبن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے (اعلام الوری ص ۱۵۶) ۔

 

 

واقعہ کربلامیں امام محمدباقرعلیہ السلام کاحصہ

 آپ کی عمرابھی ڈھائی سال کی تھی، کہ آپ کوحضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیزمدینہ منورہ چھوڑناپڑا،پھرمدینہ سے مکہ اوروہاں سے کربلاتک کی صعوبتیں سفربرداشت کرناپڑی اس کے بعدواقعہ کربلاکے مصائب دیکھے، کوفہ وشام کے بازاروں اوردرباروں کاحال دیکھاایک سال شام میںقیدرہے، پھروہاں سے چھوٹ کر ۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کومدینہ منورہ واپس ہوئے۔
جب آپ کی عمرچارسال کی ہوئی ،توآپ ایک دن کنویں میں گرگئے ،لیکن خدانے آپ کوڈوبنے سے بچالیا(اورجب آپ پانی سے برآمدہوئے توآپ کے کپڑے اورآپ کابدن تک بھیگاہوانہ تھا(مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹) ۔

 

 

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورجابربن عبداللہ انصاری کی باہمی ملاقات

 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پرامام محمدباقرکی ولادت سے تقریبا ۴۶/ سال قبل جابربن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمدباقرعلیہ السلام کوسلام کہلایاتھا، امام علیہ السلام کایہ شرف اس درجہ ممتازہے کہ آل محمدمیں سے کوئی بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا(مطالب السؤل ص ۲۷۲) ۔
مورخین کابیان ہے کہ سرورکائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کولئے ہوئے پیارکررہے تھے ناگاہ آپ کے صحابی خاص جابربن عبداللہ انصاری حاضرہوئے حضرت نے جابرکودیکھ کر فرمایا،اے جابر!میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیداہوگا جوعلم وحکمت سے بھرپورہوگا،اے جابرتم اس کازمانہ پاؤگے،اوراس وقت تک زندہ رہوگے جب تک وہ سطح ارض پرآنہ جائے ۔
ائے جابر!دیکھو،جب تم اس سے ملناتواسے میراسلام کہہ دینا،جابرنے اس خبراوراس پیشین گوئی کوکمال مسرت کے ساتھ سنا،اوراسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کاانتظارکرناشروع کردیا،یہاں تک کہ چشم انتظارپتھراگیں اورآنکھوں کانورجاتارہا۔
جب تک آپ بیناتھے ہرمجلس ومحفل میں تلاش کرتے رہے اورجب نورنظرجاتا رہاتوزبان سے پکارناشروع کردیا،آپ کی زبان پرجب ہروقت امام محمدباقرکانام رہنے لگاتولوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکادماغ ضعف پیری کی وجہ سے ازکاررفتہ ہوگیاہے لیکن بہرحال وہ وقت آہی گیاکہ آپ پیغام احمدی اورسلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہوگئے راوی کابیان ہے کہ ہم جناب جابرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزندامام محمدباقرعلیہ السلام بھی تھے امام علیہ السلام نے اپنے فرزندارجمندسے فرمایاکہ چچاجابربن عبداللہ انصاری کے سرکابوسہ دو،انہوں نے فوراتعمیل ارشادکیا،جابرنے ان کواپنے سینے سے لگالیااورکہاکہ ابن رسول اللہ آپ کوآپ کے جدنامدارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایاہے۔
حضرت نے کہاائے جابران پراورتم پرمیری طرف سے بھی سلام ہو،اس کے بعدجابربن عبداللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظورفرمایااورکہاکہ میں تمہارے جنت میں جانے کاضامن ہوں(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ، وسیلہ النجات ص ۳۳۸ ،مطالب السؤل ، ۳۷۳ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، نورالابصارص ۱۴۳ ،رجال کشی ص ۲۷ ،تاریخ طبری جلد ۳ ،ص ۹۶ ،مجالس المومنین ص ۱۱۷ ۔
علامہ محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایاتھا کہ ”ان بقائک بعدرویتہ یسیر“ کہ اے جابرمیراپیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑازندہ رہوگے ،چنانچہ ایساہی ہوا(مطالب السؤل ص ۲۷۳) ۔

 

 

سات سال کی عمرمیں امام محمدباقرکاحج

 خانہ کعبہ علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ راوی بیان کرتاہے کہ میں حج کے لیے جارہاتھا،راستہ پرخطراورانتہائی تاریک تھا جب میں لق ودق صحرامیں پہنچاتوایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظرآئی میں اس کی طرف دیکھ ہی رہاتھاکہ ناگاہ ایک سات سال کالڑکامیرے قریب آپہنچا،میں نے سلام کاجواب دینے کے بعداس سے پوچھاکہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں اورکہاں کاارادہ ہے، اورآپ کے پاس زادراہ کیاہے اس نے جواب دیا،سنومیں خداکی طرف سے آرہاہوں اورخداکے طرف سے آرہاہوں اورخداکی طرف جارہاہوں،میرازادراہ ”تقوی“ ہے میں عربی النسل،قریشی خاندان کاعلوی نزادہوں،میرانام محمدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ کہہ کروہ دونوں سے غائب ہوگئے اورمجھے پتہ نہ چل سکاکہ آسمان کی طرف پروازکرگئے یازمین میں سماگئے (شواہدالنبوت ص ۱۸۳) ۔

 

 

حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اوراسلام میں سکے کی ابتدا

 مورخ شہیرذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۲ میں لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ھ میں امام محمدباقرعلیہ السلام کی صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا اسے سے پہلے روم وایران کاسکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشیدعباسی نے پوچھاکہ اسلام میں درہم ودینارکے سکے، کب اورکیونکررائج ہوئے انہوں نے کہاکہ سکوں کااجراخلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیاہے لیکن اس کی تفصیل سے ناواقف ہوں اورمجھے نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اورایجادکی ضرورت کیوں محسوس ہوئی،ہارون الرشیدنے کہاکہ بات یہ ہے کہ زمانہ سابق میں جوکاغذوغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے وہ مصرمیں تیارہواکرتے تھے جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی،اوروہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذہب برتھے وہاں کے کاغذپرجوضرب یعنی (ٹریڈمارک) ہوتاتھا،اس میں بزبان روم(اب،ابن،روح القدس لکھاہواتھا ،فلم یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ ،الخ)۔
اوریہی چیزاسلام میں جتنے دورگذرے تھے سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کازمانہ آیا، توچونکہ وہ بڑاذہین اورہوشیارتھا،لہذا اس نے ترجمہ کراکے گورنرمصرکولکھاکہ تم رومی ٹریڈمارک کوموقوف ومتروک کردو،یعنی کاغذکپڑے وغیرہ جواب تیارہوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دوبلکہ ان پریہ لکھوادو ”شہداللہ انہ لاالہ الاہو“ چنانچہ اس حکم پرعمل درآمدکیاگیاجب اس نئے مارک کے کاغذوں کاجن پرکلمہ توحیدثبت تھا،رواج پایاتوقیصرروم کوبے انتہاناگوارگزرااس نے تحفہ تحائف بھیج کرعبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کولکھاکہ کاغذوغیرہ پرجو”مارک“ پہلے تھاوہی بدستورجاری کرو،عبدالملک نے ہدایالینے سے انکارکردیااورسفیرکو تحائف وہدایاسمیت واپس بھیج دیا اوراس کے خط کاجواب تک نہ دیا قیصرروم نے تحائف کودوگناکرکے پھربھیجااورلکھاکہ تم نے میرے تحائف کوکم سمجھ کرواپس کردیا،اس لیے اب اضافہ کرکے بھیج رہاہوں اسے قبول کرلواورکاغذسے نیا”مارک“ ہٹادو، عبدالملک نے پھرہدایاواپس کردیا اورمثل سابق کوئی جواب نہیں دیااس کے بعدقیصرروم نے تیسری مرتبہ خط لکھااورتحائف وہدایابھیجے اورخط میں لکھاکہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی اب میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی ٹریڈمارک کوازسرنورواج نہ دیا اورتوحیدکے جملے کاغذسے نہ ہٹائے تومیں تمہارے رسول کوگالیاں،سکہ درہم ودینارپرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گااورتم کچھ نہ کرسکوگے دیکھواب جومیں نے تم کولکھاہے اسے پڑھ کرارفص جبینک عرقا،اپنی پیشانی کاپسینہ پوچھ ڈالواورجومیں کہتاہوں اس پرعمل کروتاکہ ہمارے اورتمہارے درمیان جورشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رہے۔
عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کوپڑھااس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،ہاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میںدنیاتاریک ہوگئی اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اہل الرائے اورسیاست دانوں کوفوراجمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکہاکہ کوئی ایسی بات سوچوکہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یاسراسراسلام کامیاب ہوجائے، سب نے سرجوڑکربہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پرعمل کیاجاسکتا”فلم یجد عنداحدمنہم رایایعمل بہ“ جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئین نہ ہوسکاتواورزیادہ پریشان ہوااوردل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیاکروں ابھی وہ اسی ترددمیں بیٹھاتھاکہ اس کاوزیراعظم”ابن زنباع“ بول اٹھا،بادشاہ تویقیناجانتاہے کہ اس اہم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتاہے ،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا،بادشاہ نے کہا”ویحک من“ خداتجھے سمجھے،توبتاتوسہی وہ کون ہے؟ وزیراعظم نے عرض کی ”علیک بالباقرمن اہل بیت النبی“ میں فرزند رسول امام محمدباقرعلیہ السلام کی طرف اشارہ کررہاہوں اوروہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آسکتاہیں ،عبدالملک بن مروان نے جونہی آپ کانام سنا قال صدقت کہے لگا خداکی قسم تم نے سچ کہااورصحیح رہبری کی ہے۔
اس کے بعداسی وقت فورااپنے عامل مدینہ کولکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت مصیبت آگئی ہے اوراس کادفع ہوناامام محمدباقرکے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہوسکے انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیجدو،دیکھواس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے،وہ بذمہ حکومت ہوں گے۔
عبدالملک نے دوخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعدشاہ روم کے سفیرکونظر بندکردیا،اورحکم دیاکہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیاجائے۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں عبدالملک بن مروان کاپیغام پہنچااورآپ فوراعازم سفرہوگئے اورہل مدینہ سے فرمایاکہ چونکہ اسلام کاکام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکوترجیح دیتاہوں الغرض آپ وہاں سے روانہ ہوکرعبدالملک کے پاس جاپہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورابعدعرض مدعاکردیا،امام علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا”لایعظم ہذاعلیک فانہ لیس بشئی“ اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادروتواناقیصرروم کواس فعل قبیح پرقدرت ہی نہ دے گا اورپھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ برآہونے کی طاقت دے رکھی ہے بادشاہ نے عرض کی یابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتاہوں۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کوبلاؤ اوران سے درہم ودینارکے سکے ڈھلواؤ اورممالک اسلامیہ میں رائج کردو، اس نے پوچھاکہ ان کی کیاشکل وصورت ہوگی اوروہ کس طرح ڈھلیں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحیددوسری طرف پیغمراسلام کانام نامی اورضرب سکہ کاسن لکھاجائے اس کے بعداس کے اوزان بتائے آپ نے کہاکہ درہم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جودس مثقال کے دس ہوتے ہیں دوسرے سمری خفاف جوچھ مثقال کے دس ہوتے ہیں تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل ۲۱/ مثقال ہوئے اس کوتین پرتقسیم کرنے پرحاصل تقسیم ۷/ مثقال ہوئے،اسی سات مثقال کے دس درہم بنوا،اوراسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینارتیارکرجس کاخوردہ دس درہم ہو،سکہ کانقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رہنے دیاجائے ،اوردینارکاسکہ رومی حرفوں میں ہے لہذااسے رومی ہی حرفوں میں کندہ کرایاجائے اورڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کابنوایاجائے تاکہ سب ہم وزن تیارہوسکیں۔
عبدالملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوالیے اورسب کام درست کرلیا اس کے بعدحضرت کی خدمت میں حاضرہوکردریافت کیاکہ اب کیاکروں؟ ”امرہ محمدبن علی“ آپ نے حکم دیاکہ ان سکوں کوتمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردے، اورساتھ ہی ایک سخت حکم نافذکردے جس میں یہ ہوکہ اسی سکہ کواستعمال کیاجائے اوررومی سکے خلاف قانون قراردیئے گئے اب جوخلاف ورزی کرے گااسے سخت سزادی جائے گی ،اوربوقت ضرورت اسے قتل بھی کیاجاسکے گا۔
عبدالملک بن مروان نے تعمیل ارشادکے بعدسفیرروم کورہاکرکے کہاکہ اپنے بادشاہ سے کہناکہ ہم نے اپنے سکے ڈھلواکررائج کردیے اورتمہارے سکہ کوغیرقانونی قراردے دیا اب تم سے جوہوسکے کرلو۔
سفیرروم یہاں سے رہاہوکرجب اپنے قیصرکے پاس پہنچااوراس سے ساری داستان بتائی تووہ حیران رہ گیا،اورسرڈال کردیرتک خاموش بیٹھاسوچتارہا، لوگوں نے کہابادشاہ تونے جویہ کہاتھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکوسکوں پرگالیاں کنداکرادوں گا اب اس پرعمل کیوں نہیں کرتے اس نے کہاکہ اب گالیاں کندا کرکے کیاکروں گااب توان کے ممالک میں میراسکہ ہی نہیں چل رہااورلین دین ہی نہیں ہورہا(حیواة االحیوان دمیری المتوفی ۹۰۸ ھ جلد ۱ طبع مصر ۱۳۵۶ ھ)۔

 

 

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی علمی حیثیت

 کسی معصوم کی علمی حیثیت پرروشنی ڈالنی بہت دشوارہے ،کیونکہ معصوم اورامام زمانہ کوعلم لدنی ہوتاہے، وہ خداکی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتاہے،حضرت امام محمدباقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات،علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے،لکھتاہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کاخودارشادہے کہ” علمنامنطق الطیرواوتینامن کل شئی “ ہمیں طائروں تک کی زبان سکھاگئی ہے اورہمیں ہرچیزکاعلم عطاکیاگیاہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخداسوگندکہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ خداکی قسم ہم زمین اورآسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اورفرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ظاہری ارباب اقتدارہم سے جلتے اورحسدکرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کاکہناہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہواکہ :
۱ ۔ مولاکونسااسلام بہترہے جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے
۲۔ کونساخلق بہترہے فرمایاصبراورمعاف کردینا ۳ ۔ کون سامومن کامل ہے فرمایا جس کے اخلاق بہترہوں ۴ ۔ کون ساجہادبہترہے ، فرمایا ج س میں اپناخون بہہ جائے ۵ ۔ کونسی نمازبہترہے ،فرمایاجس کاقنوت طویل ہو، ۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے، فرمایاجس سے نافرمانی سے نجات ملے، ۷ ۔ بادشاہان دنیاکے پاس جانے میں آپ کی کیارائے ہے، فرمایامیں اچھانہیں سمجھتا، پوچھاکیوں؟ فرمایاکہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیداہوتی ہیں : ۱ ۔ محبت دنیا،
۲ ۔فراموشی مرگ،
۳ ۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھاپھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیاسے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتاہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہداورشرف میں ساری دنیاسے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایاتھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرافرزند”باقرالعلوم“ ہوگا،علم کی گتھیوں کوسلجھائے گا کہ دنیاحیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید۔
علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمدباقرعلیہ السلام سے ظاہرہوئے اتنے امام حسین اورامام حسین کی اولادمیں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷ ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کادماغ خراب ہوگیاہواورجس کی طینت وطبیعت فاسد ہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم“ علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کادل صاف، علم وعمل روشن وتابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے۔
عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارراسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجزوماندہ ہیں آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرعلامہ زمان اورسردارکبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراوروسیع الاطلاق تھے (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کواچھی طرح سمجھ لیاتھا (تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱) ۔
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرکے علمی تذکرے دنیامیں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح وثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں:
ترجمہ : جب لوگ قرآن مجیدکاعلم حاصل کرناچاہیں توپوراقبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجزرہے گا،کیونکہ وہ خودمحتاج ہے اوراگرفرزندرسول امام محمدباقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے توبے حدوحساب مسائل وتحقیقات کے ذخیرے مہیاکردیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جوہرقسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اوران کے انوارسے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص ۵۲ ،وتاریخ الائمہ ص ۴۱۳) ۔
علامہ ابن شہرآشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۱۱) ۔

 

 

آپ کے بعض علمی ہدایات وارشادات

 علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتوآپ نے فرمایا اے جابرمیں دنیا سے بالکل بے فکرہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہووہ دنیاکوکچھ نہیں سمجھتا،اور تمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ دنیاچھوڑی ہوئی سواری اتاراہواکپڑا اوراستعمال کی ہوئی عورت ہے مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاہئے کہ وہ ہروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے نزلت بہ وارتحلت منہ “ اس میں آناجانالگارہتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں …
آپ نے فرمایا تکبربہت بری چیزہے ،یہ جس قدرانسان میں پیداہوگا اسی قدراس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کاحربہ گالیاں بکناہے ۔
ایک عالم کی موت کوابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہترسمجھتاہے ایک ہزارعابدسے وہ ایک عالم بہترہے جواپنے علم سے فائدہ پہنچارہاہو۔
میرے ماننے والے وہ ہیں جواللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والابخشاجاتاہے اورجس رخسارپر آنسوجاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔
سستی اورزیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔
خداکے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کوچاہئے کہ اپنے پیٹ اوراپنی شرمگاہوں کومحفوظ رکھیں۔
دعاسے قضابھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے
بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کواپنی آنکھ کی شہتیردکھائی نہ دے،اور دوسرے کی آنکھ کاتنکانظرآئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظرآئیں اورخودعمل نہ کرے، صرف دوسروں کوتعلیم دے۔
جوخوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دوررہے ،وہ تمہارابھائی اوردوست نہیں ہے (مطالب السؤل ص ۲۷۲) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے توکہوالحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے توکہو”لاحول ولاقوة الاباللہ“ اورجب روزی تنگ ہوتوکہواستغفراللہ ۔
دل کودل سے راہ ہوتی ہے،جتنی محبت تمہارے دل میں ہوگی ،اتنی ہی تمہارے بھائی اوردوست کے دل میں بھی ہوگی
تین چیزیں خدانے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں :
۱ ۔ اپنی رضااپنی اطاعت میں ،کسی فرمانبرداری کوحقیرنہ سمجھو شایداسی میں خداکی رضاہو۔
۲ ۔ اپنی ناراضی اپنی معصیت میں کسی گناہ کومعمولی نہ جانوتوشایدخدا اسی سے ناراض ہوجائے۔
۳ ۔ اپنی دوستی یااپنے ولی، مخلوقات میں کسی شخص کوحقیرنہ سمجھو، شایدوہی ولی اللہ ہو (نورالابصار ص ۱۳۱ ،اتحاف ص ۹۳) ۔
احادیث آئمہ میں ہے امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں انسان کوجتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب وکتاب ہوگا۔
ایک نفع پہنچانے والاعالم سترہزارعابدوں سے بہترہے ،عالم کی صحبت میں تھوڑی دیربیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہترہے خداان علماء پررحم وکرم فرمائے جواحیاء علم کرتے اورتقوی کوفروغ دیتے ہیں ۔
علم کی زکواة یہ ہے کہ مخلوق خداکوتعلیم دے جائے ۔ قرآن مجیدکے بارے میں تم جتناجانتے ہواتناہی بیان کرو۔
بندوں پرخداکاحق یہ ہے کہ جوجانتاہواسے بتائے اورجونہ جانتاہواس کے جواب میں خاموش ہوجائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعداسے پھیلاو،اس لیے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان کاغلبہ ہوتاہے ۔
معلم اورمتعلم کاثواب برابرہے ۔ جس کی تعلیم کی غرض یہ ہوکہ وہ … علماء سے بحث کرے ،جہلاپررعب جمائے اورلوگوں کواپنی طرف مائل کرے وہ جہنمی ہے ،دینی راستہ دکھلانے والااورراستہ پانے والادونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں۔ جودینی راستہ دکھلانے والااورراستہ پانے والادونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابرہیں ۔
جودینیات میں غلط کہتاہواسے صحیح بنادو، ذات الہی وہ ہے، جوعقل انسانی میں نہ سماسکے اورحدودمیں محدودنہ ہوسکے ۔
اس کی ذات فہم وادراک سے بالاترہے خداہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا، خداکی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو،ورنہ حیران ہوجاؤگے ۔ اجل کی دوقسمین ہیں ایک اجل محتوم،دوسرے اجل موقوف، دوسری سے خداکے سواکوئی واقف نہیں، زمین حجت خداکے سواکوئی واقف نہیں ،زمین حجت خداکے بغیرباقی نہیں رہ سکتی۔
امت بے امام کی مثال بھیڑکے اس گلے کی ہے،جس کاکوئی بھی نگران نہ ہو۔
امام محمدباقرعلیہ السلام سے روح کی حقیقت اورماہیت کے بارے میں پوچھاگیاتوفرمایاکہ روح ہواکی مانندمتحرک ہے اوریہ ریح سے مشتق ہے ، ہم جنس ہونے کی وجہ سے اسے روح کہاجاتاہے یہ روح جوجانداروں کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ،وہ تمام ریحوں سے پاکیزہ ترہے۔
…روح مخلوق اورمصنوع ہے اورحادث اورایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی ہے۔
…وہ ایسی لطیف شئے ہے جس میں نہ کسی قسم کی گرانی اورسنگینی ہے نہ سبکی، وہ ایک باریک اوررقیق شئے ہے جوقالب کثیف میں پوشیدہ ہے،اس کی مثال اس مشک جیسی ہے جس میں ہوابھردو،ہوابھرنے سے وہ پھول جائے گی لیکن اس کے وزن میں ا ضافہ نہ ہوگا۔۔ روح باقی ہے اوربدن سے نکلنے کے بعدفنا نہیں ہوتی، یہ نفخ صورکے وقت ہی فناہوگی۔
آپ سے خداوندعالم کے صفات بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا،کہ وہ سمیع وبصیرہے اورآلہ سمع وبصرکے بغیرسنتااوردیکھتاہے،رئیس معتزلہ عمربن عبیدنے آپ سے دریافت کیاکہ”من یحال علیہ غضبی“ ابوخالدکابلی نے آپ سے پوچھاکہ قول خدا”فامنواباللہ ورسولہ والنورالذی انزلنا“ میں،نورسے کیامرادہے؟آپ نے فرمایا”واللہ النورالائمة من آل محمد“ خداکی قسم نورسے ہم آل محمدمرادہیں۔
آپ سے دریافت کیاگیاکہ یوم ندعواکل اناس بامامہم سے کون لوگ مرادہیں آپ نے فرمایاوہ رسول اللہ ہیں اوران کے بعدان کی اولادسے آئمہ ہوں گے، انہیں کی طرف آیت میں اشارہ فرمایاگیاہے جوانہیں دوست رکھے گااوران کی تصدیق کرے گاوہی نجات پائے گااورجوان کی مخالفت کرے گاجہنم میں جائے گا، ایک مرتبہ طاؤس یمانی نے حضرت کی خدمت مین حاضرہوکریہ سوال کیاکہ وہ کونسی چیزہے جس کاتھوڑااستعمال حلال تھا اورزیادہ استعمال حرام،آپ نے فرمایاکہ وہ نہرطالوت کاپانی تھاجس کاصرف ایک چلوپیناحلال تھا اوراس سے زیادہ حرام پوچھاوہ کون ساروزہ تھاجس میں کھاناپیناجائزتھا،فرمایاو ہ جناب مریم کا روزہ صمت تھا جس میں صرف نہ بولنے کاروزہ تھا ،کھاناپیناحلال تھا، پوچھاوہ کون سی شئے ہے جوصرف کرنے سے کم ہوتی ہے بڑھتی نہیں، فرمایاکہ وہ عمرہے ۔ پوچھاوہ کون سی شئے ہے جوبڑھتی ہے گھٹتی نہیں ،فرمایاوہ سمندرکاپانی ہے ،پوچھاوہ کونسی چیزہے جوصرف ایک باراڑی پھرنہ اڑی،فرمایاوہ کوہ طورہے جوایک بارحکم خداسے اڑکربنی اسرائیل کے سروں پرآگیاتھا۔ پوچھاوہ کون لوگ ہیں جن کی سچی گواہی خدانے جھوٹی قراردی،فرمایاوہ منافقوں کی تصدیق رسالت ہے جودل سے نہ تھی۔
پوچھابنی آدم کا ۱/۳ حصہ کب ہلاک ہوا،فرمایاایساکبھی نہیں ہوا،تم یہ پوچھوکہ انسان کا ۱/۴ حصہ کب ہلاک ہواتومیں بتاؤں کہ یہ اس وقت ہواجب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا،کیونکہ اس وقت چارآدمی تھے آدم،حوا،ہابیل اورقابیل ،پوچھاپھرنسل انسانی کس طرح بڑھی فرمایاجناب شیش سے جوقتل ہابیل کے بعدبطن حواسے پیداہوئے۔

 

 

آپ کی عبادت گذاری اورآپ کے عام حالات

 آپ آباؤاجدادکی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نمازپڑھنی اورسارا دن روزہ سے گزارناآپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پربیٹھتے تھے ہدایاجوآتے تھے اسے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیتے تھے غریبوں پربے حدشفقت فرماتے تھے تواضع اورفروتنی ،صبروشکرغلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیرتھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پرصرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اورانہیں اچھے نام سے یادکرتے تھے (کشف الغمہ ص ۹۵ ۔
آپ کے ایک غلام افلح کابیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پرنظرپڑی آپ چیخ مارکررونے لگے میں نے کہا کہ حضورسب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشادکیا،اے افلح شاید خدابھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اورمیری بخشش کاسہاراہوجائے، اس کے بعدآپ سجدہ میں تشریف لے گئے اورجب سراٹھایاتوساری زمین آنسوؤں سے ترتھی (مطالب السؤل ص ۲۷۱) ۔

 

 

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورہشام بن عبدالملک

 تواریخ میں ہے ۹۶ ھ میں ولیدبن عبدالملک فوت ہوا(ابوالفداء) اوراس کابھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ مقررکیاگیا(ابن الوردی ) ۹۹ ھ میں عمربن عبدالعزیزخلیفہ ہواابن الوردی اس نے خلیفہ ہوتے ہی اس بدعت کوجو ۴۱ ھ سے بن امیہ نے حضرت علی پرسب وشتم کی صورت میں جاری کررکھی تھی حکما روک دیا (ابوالفداء) اوررقوم خمس بنی ہاشم کودیناشروع کیا(کتاب الخرائج ابویوسف) ۔
یہ وہ زمانہ تھاجس میں علی کے نام پراگرکسی بچے کانام ہوتاتھا تووہ قتل کردیاجاتاتھا اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑاجاتاتھا (تدریب الراوی سیوطی) اس کے بعد ۱۰۱ ھ میں یزیدبن عبدالملک خلیفہ بنایاگیا(ابن الوردی) ۱۰۵ ھ میں ہشام بن عبدالملک بن مروان بادشاہ وقت مقررہوا(ابن الوردی)۔
ہشام بن عبدالملک،چست،چالاک،کنجوس ومتعصب،چال باز،سخت مزاج، کجرو،خودسر،حریص،کانوں کاکچاتھا اورحددرجہ کاشکی تھا کبھی کسی کااعتبارنہ کرتاتھا اکثرصرف شبہ برسلطنت کے لائق لائق ملازموں کوقتل کرادیتاتھا یہ عہدوں پرانہیں کوفائزکرتاتھا جوخوشامدی ہوں، اس نے خالدبن عبداللہ قسری کو ۱۰۵ ھ سے ۱۲۰ ھ تک عراق کاگورنرتھا قسری کاحال یہ تھاکہ ہشام کورسول اللہ سے افضل بتاتااوراسی کاپروپیگنڈہ کیاکرتاتھا(تاریخ کامل جلد ۵ ص ۱۰۳) ۔
ہشام آل محمدکادشمن تھااسی نے زیدشہیدکونہایت بری طرح قتل کیاتھا، تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۹) اسی نے اپنے زمانہ ولیعہدی میں فرزدق شاعرکوامام زین العابدین کی مدح کے جرم میں بمقام عسقلان قیدکیاتھا۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔

 

 

ہشام کاسوال اوراس کاجواب

 تخت سلطنت پربیٹھنے کے بعدہشام بن عبدالملک حج کے لیے گیاوہاں اس نے امام محمدباقرعلیہ السلام کودیکھاکہ مسجدالحرام میں بیٹھے ہوئے لوگوں کوپند ونصائح سے بہرہ ورکررہے ہیں یہ دیکھ کر ہشام کی دشمنی نے کروٹ لی اوراس نے دل میں سوچاکہ انہیں ذلیل کرناچاہئے اوراسی ارادہ سے اس نے ایک شخص سے کہاکہ جاکران سے کہوکہ خلیفہ پوچھ رہے ہیں کہ حشرکے دن آخری فیصلہ سے قبل لوگ کیاکھائیں اورپئیں گے اس نے جاکرامام علیہ السلام کے سامنے خلیفہ کاسوال پیش کیاآپ نے فرمایاجہاں حشرونشرہوگاوہاں میوے داردرخت ہوں گے،وہ لوگ انہیں چیزوں کواستعمال کریں گے بادشاہ نے جواب سن کرکہایہ بالکل غلط ہے کیونکہ حشرمیں لوگ مصیبتوں اوراپنی پریشانیوں میں مبتلاہوں گے ان کوکھانے پینے کاہوش کہاں ہوگا؟ قاصدنے بادشاہ کاگفتہ نقل کردیا،حضرت نے قاصدسے فرمایاکہ جاؤاور بادشاہ سے کہوکہ تم نے قران بھی پڑھاہے یانہیں،قرآن میں یہ نہیں ہے کہ ”جہنم“ کے لوگ جنت والوں سے کہیں گے کہ ہمیں پانی اورکچھ نعمتیں دیدوکہ پی اورکھالیں اس وقت وہ جواب دیں گے کہ کافروں پرجنت کی نعمتیں حرام ہیں (پ ۸ ،رکوع ۱۳) توجب جہنم میں بھی لوگ کھاناپینانہیں بھولیں گے توحشرونشرمیں کیسے بھول جائیں گے جس میں جہنم سے کم سختیاں ہوں گی اوروہ امیدوبیم اورجنت ودوزخ کے درمیان ہوں گے یہ سن کرہشام شرمندہ ہوگیا(ارشادمفید ص ۴۰۸ ،تاریخ آئمہ ص ۴۱۴) ۔

 

 

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی دمشق میں طلبی

 علامہ مجلسی اورسیدابن طاؤس رمقطرازہیں کہ ہشام بن عبدالملک اپنے عہدحکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچاوہاں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام بھی موجودتھے ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں اورباتوں کے علاوہ یہ بھی کہاکہ ہمیں روئے زمین پرخداکے خلیفہ اورا سکی حجت ہیں ،ہمارادشمن جہنم میں جائے گا،اورہمارادوست نعمات جنت سے متنعم ہوگا۔
اس خطبہ کی اطلاع ہشام کودی گئی ،وہ وہاں توخاموش رہا،لیکن دمشق پہنچنے کے بعدوالی مدینہ کوفرمان بھیجاکہ محمدبن علی اورجعفربن محمدکومیرے پاس بھیجدے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے وہاں ہشام نے آپ کوتین روزتک اذن حضورنہیں دیاچوتھے روزجب اچھی طرح دربارکوسجالیا،توآپ کوبلوابھیجاآپ حضرات جب داخل دربارہوئے توآپ کوذلیل کرنے کے لیے آپ سے کہاکہ ہمارے تیراندازوں کی طرح آپ بھی تیراندازی کریں حضرت امام محمدباقر نے فرمایا کہ میں ضعیف ہوگیاہوں مجھے اس سے معاف رکھ، اس نے بہ قسم کہاکہ یہ ناممکن ہے پھرایک کمان آپ کودلوایاآپ نے ٹھیک نشانہ پرتیرلگائے ، یہ دیکھ کروہ حیران رہ گیا اس کے بعدامام نے فرمایا، بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں،ہمارامقابلہ کسی امرمیں کوئی نہیں کرسکتا،یہ سن کرہشام کوغصہ آگیا،وہ بولاکہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادعلی بن ابی طالب نے غیب کادعوی کیاہے آپ نے فرمایابادشاہ قرآن مجیدمیں سب کچھ موجود ہے اورحضرت علی امام مبین تھے انہیں کیانہیں معلوم تھا(جلاء العیون)۔
ثقةالاسلام علامہ کلینی تحریرفرماتے ہیں کہ ہشام نے اہل دربارکوحکم دیاتھاکہ میں محمدبن علی(امام محمدباقرعلیہ السلام) کوسردربارذلیل کروں گا تم لوگ یہ کرناکہ جب میں خاموش ہوجاؤں توانہیں کلمات ناسزاکہنا،چنانچہ ایساہی کیاگیاآخرمیں حضرت نے فرمایا،بادشاہ یادرکھ ہم ذلیل کرنے ذلیل نہیں ہوسکتے ،خداوندعالم نے ہمیں عزت دی ہے،اس میں ہم منفردہیں یادرکھ عاقبت کی شاہی متقین کے لیے ہے یہ سن کرہشام نے فامربہ الی الحبس آپ کوقیدکرنے کاحکم دیدیا،چنانچہ آپ قیدکردیئے گئے۔
قیدخانہ میں داخل ہونے کے بعدآپ نے قیدیوں کے سامنے ایک معجزنماتقریر کی جس کے نتیجہ میں قیدخانہ کے اندرکہرام عظیم برپاہوگیا،بالآخرقیدخانہ کے داروغہ نے ہشام سے کہاکہ اگرمحمدبن علی زیادہ دنوں قیدرہے توتیری مملکت کانظام منقلب ہوجائے گاان کی تقریرقیدخانہ سے باہربھی اثرڈال رہی ہے اورعوام میں ان کے قیدہونے سے بڑاجوش ہے یہ سن کرہشام ڈرگیااوراس نے آپ کی رہائی کاحکم دیااورساتھ یہ بھی اعلان کرادیاکہ نہ آپ کوکوئی مدینہ پہنچانے جائے اورنہ راستے میں آپ کوکوئی کھاناپانی دے، چنانچہ آپ تین روزکے بھوکے پیاسے داخل مدینہ ہوئے۔
وہاں پہنچ کرآپ نے کھانے پینے کی سعی،لیکن کسی نے کچھ نہ دیا، بازارہشام کے حکم سے بندتھے یہ حال دیکھ کرآپ ایک پہاڑی پرگئے اورآپ نے اس پرکھڑے ہوکرعذاب الہی کاحوالہ دیایہ سن کرایک پیرمردبازارمیں کھڑاہوکرکہنے لگا بھائیو!سنو،یہی وہ جگہ ہے جس جگہ حضرت شعیب نبی نے کھڑے ہوکرعذاب الہی کی خبردی تھی اورعظیم ترین عذاب نازل ہواتھا میری بات مانواوراپنے کوعذاب میں مبتلانہ کرویہ سن کرسب لوگ حضرت کی خدمت میں حاضرہوگئے اورآپ کے لیے ہوٹلوں کے دروازے کھول دئیے (اصول کافی)۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبدالملک کولکھاکہ امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکردے (جلاء العیون ص ۲۶۲) ۔
کتاب الخرائج والبحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام بن عبدالملک نے زیدبن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کودوبارہ دمشق میںطلب کرناچاہالیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے بازآیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اورامام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرمادئیے۔

 

 

دمشق سے روانگی اورایک راہب کامسلمان ہونا

 علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام قیدخانہ دمشق سے رہاہوکرمدینہ کوتشریف لئے جارہے تھے کہ ناگاہ راستے میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے ،راہب جوانتہائی ضعیف تھا،مقررہ وقت پربرامدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکربولا:
۱ ۔ کیاآپ ہم میں سے ہیں فرمایامیں امت محمدیہ سے ہوں۔
۲ ۔آپ علماء سے ہیں یاجہلاسے فرمایامیں جاہل نہیں ہوں۔
۳ ۔ آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں فرمایانہیں۔
۴ ۔ جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، فرمایاضرورپوچھیے۔
یہ سن کرراہب نے سوال کیا ۱ ۔ شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے،جس کاشمار نہ دن میں ہے اورنہ رات میں ، فرمایاوہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں ،وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اورایسا مبترک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔
۲ ۔ آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی؟کیا دنیا میں اس کی مثال ہے ؟ فرمایابطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔
۳ ۔ مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہ ہوگی۔
۴ ۔ وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا”عزیز اورعزیرپیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانے عزیرنبی کومارڈالا(جس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے) اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا(جلاء العیون ص ۲۶۱ طبع ایران ۱۳۰۱ ھ۔

امام محمدباقرعلیہ السلام کی شہادت آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میںدفن ہوئے (کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴) ۔
علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموماکابیہ“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے (نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرخورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والدماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلارہے ہیں (نورالابصار ص ۱۳۱) ۔ آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ امام راجزامام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے (شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کاماتم کیاجائے (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔
علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بندہائے کفن قبرمیں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا(جنات الخلود ص ۲۷) ۔

 

 

ازواج اوراولاد

 آپ کی چاربیویاں تھیں اورانہیں سے اولادہوئیں ۔ام فروہ،ام حکیم،لیلی،اور ایک اوربیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابی بکرجن سے حضرات امام جعفرصادق علیہ السلام اورعبداللہ افطح پیداہوئے اورام حکیم بنت اسدبن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم وعبداللہ اورلیلی سے علی اورزینب پیداہوئے اورچوتھی بیوی سے ام سلمی متولدہوئے (ارشادمفید ص ۲۹۴ ، مناقب جلد ۵ ص ۱۹ ،نورالابصارص ۱۳۲) ۔
علامہ محمدباقربہبھانی ،علامہ محمدرضاآل کاشف الغطاء اورعلامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولادزندہ اورباقی نہیں رہی (دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۹ ،انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۴۸ ،روضة الشہداء ص ۴۳۴ طبع لکھنؤ ۱۲۸۵ ءء)۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ماہ رجب کےواقعات
نماز کی اذان دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز
شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
بے فاﺋده آرزو کے اسباب
شیطان اور انسان
سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟

 
user comment