اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام موسی کاظم علیہ السلام کی عبادتیں

امام موسی کاظم علیہ السلام کی عبادتیں

مقدمہ :

خدا کی عبادت :

خدا کی عبادت مقصد تخلیق (۱) اور پیغمبر خدا کے مبعوث ہونے کی علت (۲) قرآن مین بیان کی گئی ہے ۔ رسول اور امام عبادت میں شکر گزری اور بندگی میں بشریت کے تمام لوگوں میں سب سےآگے اور ممتاز تھے وہ حضرات خدا کی طرف سے انسانی معاشرے میں نمونہ تھے ۔


امام موسی کاظم علیہ السلام :

ان کا نام ( موسی ) اور ان کا لقب ( کاظم ) ہے ۔ ان امام کی والدہ گرامی ایک با فضیلت و کرامت بی بی جن کا نام (حمیدہ) ہے ، اور امام کے والد بزرگوار شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام ہیں ، امام موسی کاظم علیہ السلام ابواء ( جو مدینہ کے قریب گاؤں میں سے ایک ہے ) اس سر زمین پر پیدا ہوئے اور سن ۱۸۳ ھ قمری میں شھید ہو گئے ۔ حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں متعدد خلفاء نے خلافت کی ۔
منصود دوانیقی (۱۳۶/ ۱۵۸ ھ قمری ) محمد معروف بہ مھدی ۱۵۸ /۱۵۹ ) ھادی ( ۱۵۹ /۱۷۰ ) ھارون ۱۷۰ / ۱۹۳ ) ۔ ( ۳ )
حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دس سال میں کوئی سختی اور مشکلات نہیں تھی ۔ انھوں نے اس زمانے میں قرآن کی تعلیم اور اسلامی تعلیمی دینے میں مشغول ہو گئے ۔ ( ۴)
لیکن اس کے بعد دباؤ ، سختی ، ھجرت ، تخویف شروع ہو گئی امام علیہ السلام نے اپنی امامت کا کچھ زمانہ مدینہ میں گزارا تو باقی زمانے میں وہ بغداد میں تھے ۔
امام کی زندگی میں سماجی اور دینی پہلو کے علاوہ خدا کی عبادت اور اس کی بندگی شروع سے آخر تک نمایاں ہے ۔


امام موسی کاظم علیہ السلام کی عبادت :

امام موسی کاظم علیہ السلام : اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے (۵) اسی طرح ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو (عبد صالح ) کہا جاتا تھا ۔ (۶)
ذھبی لکھتا ہے : « قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء» (حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے) ۔ (۷ ) تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :« کان موسی بن جعفر من اشد الناس عبادة » حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔ (۸ )
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ( ان کی عبادت مشھور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت مین گزارتے تھے روز کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔ ( ۹ )
شفیق بلخی کہتا ہے : سن ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھے جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا یے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھاے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ «شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ، اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواھی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى» پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باھر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انھوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاھری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہں پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہے ۔ اس طرح وہ صبح تک تھے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باھر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہو نگے ۔ ( ۱۰ )
شیخ مفید ارشاد میں لکھتے ہیں : حضرت موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین لوگوں میں سے تھے ۔ سخی ترین ، سخاوت مند ترین اور بزرگوار ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ روایت میں ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیشہ نماز نافلہ شب کو پڑھتے تھے اور اس کو نماز صبح سے ملا دیتے تھے اس کے بعد بھی نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ خورشید طلوع ہو جائے اور اس وقت سجدے میں جاتے تھے اور دعا و حمد میں مشغول ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ظھر کا وقت نزدیک ہو جاتا تھا بہت دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ۔ «اللهم ان أسألک الراحة عند الموت و العفو عند الحساب» خدا وند عالم تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ میری موت کے وقت کو آسان کر اور حساب کے وقت مجھے معاف کر دے اور اسی دعا کو کئی مرتبہ پڑھتے تھے ان کی دعاؤں میں ہے کہ وہ کہتے تھے ۔ «عظم الذنب من عبدک فلیحسن العفو من عندک» ۔ خدایا تیرے بندے کا گناہ بہت ہے تو بخش دے تیری بخشش حسین ہے تو بہترین بخشنے والا ہے ۔


زندان میں امام علیہ السلام کی عبادت :

امام کاظم علیہ السلام کو مخفی رکھنے کے لئے مختلف زندان میں بھیجا گیا ۔ ھارون نے حاکم بصرہ کو حکم دیا کہ امام کو بصرہ کے زندان میں ڈالا جائے ، اس زمانے میں بصرہ کا حاکم عیسی بن جعفر بن منصور تھا ۔ عیسی نے ایک سال تک امام علیہ السلام کو بصرہ کے زندان میں رکھا ، اسی کے درمیان ھارون نے عیسی کو خط لکھا کہ امام علیہ السلام کو قتل کر دے ۔
عیسی نے کچھ اپنے نزدیکی لوگ اور مشاروں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے اس کام کو اس کے صلاح کے خلاف سمجھا ۔ اور ان لوگوں نے رائے دی کہ ان کو قتل کر نے کے ارادے کو چھوڑ دے ۔ اور ھارون سے کہے کہ وہ اس کام کو کرنے کے لئے اس کو معاف کر دے ۔ عیسی بن جعفر نے ھارون کو خط لکھا ۔
موسی کاظم ہمارے زندان میں ایک زمانے سے ہیں ۔ اور اس عرصے میں میں نے ان کو آزمایا ، اور کچھ لوگوں کو ان پر نظر رکھنے کے لئے معین کیا لیکن کچھ دیکھا نہیں گیا سوائے اس کے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے ہیں ۔ اور کچھ لوگوں کو اس کام پر معین کیا کہ وہ چپکے سے ان کی بات سنیں کہ وہ دعا میں کیا کہتے ہیں اور کیا دعا کرتے ہیں مگر سنا نہیں گیا کہ وہ تمہارے یا میرے لئے بد دعا کرتے ہوں ۔ یا ہم لوگوں کو برا کہتے ہوں ۔ سوائے اس کے کہ وہ خداوند عالم سے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔ ابھی کسی کو بھیجو تاکہ میں موسی کاظم کو اس کے حوالے کر دوں ورنہ میں ان کو آزاد کر دوں گا ۔ کیونکہ میں اس سے زیادہ ان کو زندان میں نہیں رکھ سکتا ۔
روایت میں ہے کہ بعض چپکے سے امام پر نظر رکھنے والے جن کو عیسی نے معین کیا تھا ۔ اس نے دیکھا اور عیسی کو خبر دی کہ امام علیہ السلام سے بہت سنا ہے کہ وہ دعا میں کہتے ہیں اے خدا ! تو جانتا ہے کہ میں چاہتا تھا کہ مجھے تنھائی میسر ہو تاکہ تیری عبادت کر سکوں تو نے مجھے یہ جگہ عنایت کی میں تیرا بہت ہی مشکور ہوں ۔ (۱۲)
اس ماجرے کے بعد ھارون نے امام کو بغداد منتقل کر دیا فضل بن ربیع ( اس کے ورزاء میں تھا ۔ ) اس کے سپرد کر دیا ۔ امام علیہ السلام طولانی زمانے تک اس کے پاس تھے ۔ ھارون نے فضل سے چاہا کہ امام کو شھید کر دے فضل بن ربیع نے بھی اس کام سے پرھیز کیا ۔ تب ھارون نے ایک خط ابن ربیع کو لکھا کہ ان حضرت کو فضل بن یحیی بن خالد برمکی کے حوالے کر دے ۔ فضل بن یحیی نے اپنے گھر کے کمرےمیں جگہ دی اور اس میں رکھا اور ان پر نظر رکھنے کے لئے کچھ لوگوں کو معین کیا امام روز و شب عبادت میں مشغول تھے ۔ تمام شب نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن مجید کرنے اور دعا کرنے اور عبادت خدا میں گزارتے تھے ۔ زیادہ تر دن میں امام روزہ رکھتے تھے اپنے چھرے کو محراب عبادت سے دوسری طرف نہیں موڑتے تھے ۔ فضل بن یحیی نے امام کو اس طرح دیکھا تو امام کے کاموں کو اچھی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور امام کا احترام کرنے لگا ۔ اور امام کے آرام اور ضرورت کا سامان مھیا کرنے لگا ۔ یہ بات ھارون کے کانوں تک پہنچی ھارون نے خط کے ذریعے ابن یحیی کو توبیخ کی اور حکم دیا کہ امام کو قتل کر دے ۔ مگر ابن یحیی نے اس کام کو انجام نہیں دیا ۔ ھارون اس وجہ سے کہ فضل نے اس کے حکم کی تعمیل نہیں کی اس پر بہت ہی ناراض اور غصہ ہو گیا ۔ اور حکم دیا کہ اس کو تنبیہ کی جائے امام کو ابن یحیی کے پاس سے سندی بن شاھک کے پاس منتقل کر دیا۔ سندی نے امام کو اپنے پاس قید کر لیا اور امام کو شھید کر دیا ۔ (۱۳)
ثعبانی کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام چودہ پندرہ سال تک ھر روز آفتاب کی سفیدی سے ظھر کے وقت تک سجدے میں رہا کرتے تھے بعض وقت ھارون اپنے چھت پر جاتا تھا تاکہ چھت سے زندان کے اندر کے حالات کو دیکھ سکے ۔ ایک روز ربیع سے کہتا ہے یہ کپڑا ہر روز زندان کے درمیان میں دکھتا ہے ۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا اے امیر المؤمنین یہ کپڑا نہیں ہے وہ موسی کاظم ہیں جو سجدے کی حالت میں ہیں ہر روز طلوع آفتاب سے ابتدائے ظھر تک سجدہ کرتے ہیں ۔ ھارون کہتا ہے واقعی وہ بنی ھاشم کے راھب میں سے ہیں ۔ (۱۴)
سندی کی بہن کہتی ہے وہ یعنی موسی کاظم علیہ السلام نماز عشاء کے بعد حمد و ثنا و درود و دعا سے نماز شب کے لئے آمادہ ہوتے تھے ۔ اور طلوع فجر تک نماز پڑھتے تھے اور نماز صبح پڑھنے کے بعد پھر طلوع آفتاب تک نماز پڑھتے تھے ۔ پھر تھوڑی دیر بیٹھتے تھے اور جیسے ہی آفتاب اوپر کی طرف جاتا تھا وہ سوتے تھے ۔ اور ظھر سے پہلے اٹھتے تھے ۔ اور وضو کرتے تھے۔ اور ظھر کی نماز ادا کرتے تھے ۔ اور پھر سو جاتے تھے پھر اٹھتے تھے۔ اور نماز عصر پڑھتے تھے اور عبادت کرتے تھے آفتاب کے ڈوبنے تک۔ پھر مغرب کی نماز پڑھتے تھے اس کے بعد نماز عشاء ۔ ان کی اس طرح کی حالت تھی یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے جب سندی کی بہن امام کو دیکھتی تھی تو کہتی تھی وائے ہو اس قوم پر جو اس پرھیز گار شخص پر آزار و اذیت دیتے ہیں وہ لوگ کبھی بھی بخشے نہیں جائیں گے ۔ (۱۵)
---------------------------
[1] . وَ ما خَلَقْت الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ. (ذاریات/56)
[2] . وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ... .(نحل/36)

[3] . پیشوایی ، مہدی ؛ سیرہ پیشوایان ، ص413؛ اول ، قم ، مؤسسہ تعلیماتی – تحقیقاتی امام صادق علیہ السلام ، 1372ش.
[4] . اصفہانی ( عماد زادہ ) ، عماد الدین حسین ؛ مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم ، ج2 ، ص307؛ چہارم ، تہران ، شرکت سہامی طبع کتاب ، 1348ش.
[5] . ابو عباس احمد بن محمد بن محمد بن علی إبن حجر الہیتمی؛ الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593؛ تحقیق : عبدالرحمن بن عبداللہ الترکی وکامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت، اول ، 1997م.
[6] . عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعہ جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م.
[7] . ذہبی؛ میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204؛ بیروت ، دار المعرفة ، { بی تا }.
[8] . احمد بن ابی یعقوب ؛ تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسہ و نشر فرہنگ اہل بیت ، {بی تا }.
[9] . بہ نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز اللہ ، مسند الامام الکاظم ، اول ، مشہد ، کنگرہ جہانی امام رضا علیہ السلام ، 1409ق .
[10] . عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعہ جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م * عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعہ جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م* مجلسی ، محمد باقر؛ زندگانى حضرت امام موسى کاظم علیہ السلام( ترجمہ جلد یازدہم بحار الانوار) ، ص72؛ ترجمہ: موسی خسروی، اسلامیہ ، تہران، دوم، 1377ش.
[11] . شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان ؛ الارشاد فی معرفة حجج اللہ على العباد، ج 2، ص223؛ترجمہ :سید ہااشم رسولى محلاتى، اسلامیہ ، تہران،دوم، [بی تا] .
[12] . الإرشاد فی معرفة حجج اللہ على العباد ، ج 2، ص232-231(ہمان).
[13] . ر.ک: الإرشاد فی معرفة حجج اللہ على العباد ، ج 2، ص232(ہمان).
[14] . شیخ صدوق ابن بابویہ ؛ متن و ترجمہ عیون اخبار الرضا ، ج1 ، ص95 ؛ ترجمہ حمید رضا مستفید – علی اکبر غفاری ، اول ، تہران ، نشر صدوق ،1372ش * مجلسی ، محمد باقر ؛ بحارالانوار ، ج48، ص221 ، دوم، بیروت ، مؤسسة الوفاء ، 1403ق.
[15] . عز الدین علی بن اثیر ؛ کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ، ج16 ، ص106؛ ترجمہ ابو القاسم حالت – عباس خلیلی ، تہران ، مؤسسہ مطبوعاتی علمی ، 1371ش .

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )
اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں حصول علم
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ
نہج البلاغہ کی عظمت
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر

 
user comment