ابن عبد البرنے کتاب میں آپ کا ذکر کیا ہے اور سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرہ الخواص میں حضرت فاطمہ کی اولاد کا ذکر ترتیب کے ساتھ کیا ہے۔ علامہ سید محسن عاملی مرحوم نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی شادی جناب عون ابن جعفر طیار کے ساتھ ہوئی تھی جبکہ استیاب ، اصابہ ،اسدالغابہ جیسی کتابوں میں خلیفہ عمر خطاب کے ساتھ آپ کی شادی کی روایتیں لائی گئی ہیں جو جعلی ہیں جب کہ علامہ محسن عاملی نے تحقیق کے بعد اس بات کا یقین حاصل کیا ہے کہ سرے سے یہ واقعہ وجود میں نہیں آیا اور اس شادی کی روایت من گھڑت ہے اور اسے خلیفہ عمر کے فضائل کے طور گڑھا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں روایات و اخبارات سے متعلق اس قدر اختلاف موجود ہیں جو خود اس واقعہ کے نہ ہونے کی دلیل ہیں ۔ صاحب ریاحین الشریعہ نے بھی اس روایت سے مختلف اقوال کو جمع کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں سرے سے یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ شادی ہوئی ہو گی ۔
علامہ مامقانی نے اپنی کتاب رجال میں زینب صغری کی کنیت ام کلثوم بتائی ہے اور یہ لکھا ہے کہ آپ اپنے بھائی کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور امام سجاد کے ساتھ شام اور پھر مدینہ تشریف لے گئیں ۔ آپ بڑی جلیل لقدر ، صاحب فہم اور صاحب بلاغت تھیں ۔ روایات میں ہے کہ خلیفہ عمر بن خطاب نے زبردستی آپ سے شادی کی جب کہ دوسری بہت سی روایتیں اس سے انکارکرتی ہیں ۔
روایات میں ہے کہ جب جناب فاطمہ زہرا کی وفات ہوئی تو جناب ام کلثوم برقعہ پہنے ہوۓ یہ فریاد کر رہی تھیں ۔ اے رسول (ص) آج ہم نے آپ کو کھو دیا اور اس طرح سے کھو دیا کہ اب پھر کبھی نہیں پا سکتے ۔
شیخ مفید اور شیخ طوسی نے امالی میں لکھا ہے کہ جب امیرالمومنین کو ضربت لگی تو جناب ام کلثوم آپ کے قدموں کے پاس بیٹھیں ، امیرالمومنین نے آنکھیں کھولیں اور جناب ام کلثوم کو دیکھا اور فرمایا میں اب اپنے پروردگار کی جانب سفر کر رہا ہوں جو بہترین منزل ہے یہ سن کر جناب ام کلثوم نے ہاۓ بابا کہہ کر رونا شروع کر دیا اور ابن ملجم کے پاس آئیں اور فرمایا اے دشمن خدا تو نے امیرالمومنین کو قتل کر ڈالا ۔ اس ملعون نے کہا ! میں نے امیرالمومنین کو قتل نہیں کیا بلکہ تمہارے بابا کو قتل کیا ہے ۔ جناب کلثوم نے فرمایا ! امید ہے میرے بابا اس ضربت سے جان بر ہو جائیں گے لیکن ابن ملجم نے کہا کہ میں نے تمہارے بابا کے سر پر ایسی زہر آلود ضربت لگائی ہے کہ اگر اس کا زہر تمام اہل کوفہ پر تقسیم کر دیا جاۓ تو سب ہلاک ہو جائیں گے ۔
ابو مخنف نے ام کلثوم سے روایت نقل کی ہے کہ امام حسین کے قتل کے بعد میں نے کسی کو امام کے اوپر مرثیہ پڑھتے ہوۓ سنا لیکن اسے نہیں دیکھا ۔ ام کلثوم کہتی ہیں کہ میں نے اس شخص کو قسم دے کر پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں جنوں کا بادشاہ ہوں امام کی نصرت کے لۓ آیا ہوں لیکن جب پہنچا تو امام قتل ہو چکے تھے ۔ واقعات کربلا میں جناب ام کلثوم کے اشعار اور کوفہ وشام میں آپ کے اتشین خطبے امام حسین کی مظلومیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لۓ بہترین نمونے ہیں ۔ کوفے میں جناب ام کلثوم نے اپنے خاندان کی حقیقت کو کوفے والوں کے سامنے روشن کرنے کے لۓ جبکہ اہل کوفہ صدقے کے خرمے پھینک رہے تھے اور چھوٹے بچے انہیں منہ میں رکھ رہے تھے تو بچوں سے وہ خرمے لے کر آپ نے پھینک دیۓ اور اہل کوفہ سے فرمایا اے اہل کوفہ ہمیں صدقے کے خرمے نہ دو اس لۓ کہ صدقہ ہم آل محمد (ص) پر حرام ہے ۔ قید شام سے چھوٹ کر جب آپ مدینے تشریف لاتی ہیں تو آپ نے مدینے کے درودیوارکو دیکھ کر بڑا دردناک مرثیہ پڑھا جسے بحارالانوار نے دسویں جلد میں نقل کیا ہے ۔ آپ کی وفات کے بارے میں تحقیق کے ساتھ زیادہ معلوم نہیں ہے لیکن کتاب بحرالمصایب میں نقل ہے کہ مدینہ آنے کے چار ماہ بعد آپ انتقال کر گئیں ۔ چونکہ علامہ حلی ، شیخ کفعمی ، شیخ مفید جیسے علماء کے مطابق اہل بیت سفر کو مدینہ واپس ہوۓ تھے لہذا تقریبا جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں 62 ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے ۔ آپ مدینہ میں ہی مدفون ہوئیں ۔