اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

حضرت امام حسین علیہ السلام کی سبق آموز زندگی

حضرت امام حسین علیہ السلام کی سبق آموز زندگی

مومن کے دل کی خوشی

حضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل ہوا کہ آپ نے فرمایا: میرے نزدیک ثابت ھے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نماز کے بعد بہترین کام کسی مومن کے دل کو خوش کرنا ھے، اگر اس کام میں گناہ نہ ہو۔
میں نے ایک روز ایک غلام کو دیکھا جو اپنے کتے کے ساتھ کھانا کھا رھا تھا، میں نے اس سے سبب دریافت کیا تو اس نے کھا: یابن رسول اللہ! میں غمگین ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کتے کا دل خوش کروں تاکہ میرا دل خوش ہوجائے، میرا آقا یہودی ھے میں اس سے جدا ہونے کی تمنا رکھتا ہوں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام دو سو دینار اس کے آقا کے پاس لے گئے اور اس غلام کی قیمت ادا کرنی چاھی، اور اس کو خریدنا چاھا، اس مالک نے کھا: غلام آپ کے قدموں پر نثار اور میں نے یہ باغ بھی اس کو بخش دیا اور یہ دینار بھی آپ کو واپس کرتا ہوں۔
امام حسین علیہ السلام نے کھا: میں نے بھی یہ مال تمھیں بخشا، اس آقا نے کھا: میں نے آپ کی بخشش کو قبول کیا اور اسے غلام کو بخش دیا، امام حسین علیہ السلام نے کھا: میں نے غلام کو آزاد کردیا اور یہ مال اس کو بخش دیا۔
اس شخص کی زوجہ اس نیکی کو دیکھ رھی تھی، چنانچہ وہ مسلمان ہوگئی اور اس نے کھا: میں نے اپنی مھر شوھر کو بخش دی، اس کے بعد وہ آقا بھی اسلام لے آیا اور اپنا مکان اپنی زوجہ کو بخش دیا۔
ایک قدم اٹھانے سے ایک غلام آزاد ہوگیا، ایک غریب بے نیاز ہوگیا، ایک کافر مسلمان ہوگیا، میاں بیوی آپس میں با محبت بن گئے، زوجہ صاحب خانہ ہوگئی، اور عورت مالک بن گئی، یہ قدم کیسا قدم تھا۔[1]

 

لوگوں میں سب سے زیادہ کریم

ایک بادیہ نشین عرب مدینہ میں وارد ہوا اور مدینہ کے سب سے زیادہ کریم شخص کی تلاش کرنے لگا، چنانچہ اس کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام بتایا گیا، وہ عرب مسجد میں آیا اور آپ کو نماز کے عالم میں دیکھا، وہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے؟
جو شخص آپ کے دروازہ پر دق الباب کرے وہ ناامید نھیں ہوگا، آپ عین جود و سخا اور معتمد ھیں، آپ کے والد گرامی طاغوت اور نافرمان لوگوں کو ھلاک کرنے والے تھے اگر آپ نہ ہوتے تو ھم دوزخ میں ہوتے۔
امام حسین علیہ السلام نے اس اعرابی کو سلام کیا اور جناب قنبر سے فرمایا:
کیا حجاز کے مال سے کچھ باقی بچا ھے؟ انھوں نے کھا: جی ھاں، چار ہزار دینار باقی ھیں، فرمایا: ان کو لے آؤ کہ یہ شخص اس مال کا ھم سے زیادہ سزاوار ھے، اس کے بعد اپنی ردا اتاری اور اس میں دینار رکھے اور اس عرب سے شرم کی وجہ سے اپنا ھاتھ دروازہ سے نکالا اور اس مضمون کے اشعار پڑھے:
یہ مال ھم سے لے لو ، میں تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، جان لو کہ میں تمھاری نسبت مھربان اور تمھارا دوستدار ہوں، اگر میرے اختیار میں حکومت ہوتی تو ھمارے جود و سخا کی بارش تمھارے اوپر ہوتی، لیکن زمانہ کے حادثات نے مسائل ادھر ادھر کردئے ھیں، اس وقت صرف یھی کم مقدار میں دے سکتے ھیں۔
چنانچہ اس اعرابی نے وہ مال لیا اور اس نے رونا شروع کردیا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: شاید جو کچھ ھم نے تمھیں عطا کیا ھے وہ کم ھے؟ اس نے کھا: نھیں، میرا رونا اس وجہ سے ھے کہ اس عطا کرنے والے کو یہ زمین کس طرح اپنے اندر سمالے گی۔!![2]

 

قرض ادا کرنا

حضرت امام حسین علیہ السلام، اسامہ بن زید کی بیماری کے وقت اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ، حالانکہ اسامہ ھمیشہ کھے جار ھے تھے: ھائے ، یہ غم و اندوہ !
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے برادر! تمھیں کیا غم ھے؟ انھوں نے کھا: میں ۶۰۰۰۰ درھم کا مقروض ہوں، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کو ادا کروں گا، انھوں نے کھا: مجھے اپنے مرنے کا خوف ھے، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تمھارے مرنے سے پھلے ادا کردوں گا اور آپ نے اس کے مرنے سے پھلے اس کا قرض ادا کردیا۔[3]

 

خدمت کی نشانی

حادثہ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے شانے پر زخم کی طرح ایک نشان پایا گیا، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ نشانی ان بھاری تھیلیوں کی وجہ سے ھے جو ھمیشہ بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کی مدد کے لئے اپنے شانوں پر رکھ لے جایا کرتے تھے۔[4]

 

استاد کی تعظیم

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے ایک بیٹے کو سورہ حمد کی تعلیم دی، جب اس بیٹے نے امام حسین علیہ السلام کے سامنے اس سورہ کی قرائت کی، تو (خوش ہوکر) استاد کو ایک ہزار دینار اور ہزار حُلّے عطا کئے اور ان کا منھ نایاب درّ سے بھر دیا، لوگوں نے ایک دن کی تعلیم کی وجہ سے اتنا کچھ عطا کرنے پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:
”اٴَیْنَ یَقَعُ هذٰا مِنْ عَطٰائِه۔“[5]
”جو کچھ میں نے اس کو عطا کیا ھے اس کی عطا کے مقابلہ میں کھاں قرار پائے گا؟!“

 

میری خوشی حاصل کرو

حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے بھائی محمد حنفیہ میں ایک گفتگو ہوئی، محمد نے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط لکھا: میرے بھائی، میرے والد اور آپ کے والد علی (علیہ السلام) ھیں، اس سلسلہ میں نہ میں تم پر فضیلت رکھتا ہوں اور نہ تم مجھ پر، اور آپ کی والد جناب فاطمہ بنت پیغمبر خدا ھیں، اگر میری والدہ پوری زمین کی مقدار بھر سونا رکھتی ہو تو بھی آپ کی والدہ کے برابر نھیں ہوسکتی، اور جب تمھیں یہ خط مل جائے اور اس کو پڑھو تو میرے پاس آؤ تاکہ میری خوشی حاصل کرسکو، کیونکہ نیکی میں آپ مجھ سے زیادہ حقدار ھیں، تم پر خدا کا درود و سلام ہو۔
امام حسین علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو اپنے بھائی کے پاس گئے اور اس کے بعد سے ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو نھیں ہوئی۔[6]

 

حرّیت اور آزادی کی انتھا

روز عاشوراء جب امام حسین علیہ السلام سے کھا گیا کہ یزید کی حکومت کو تسلیم کرلو اور اس کی بیعت کرلو اور اس کے مرضی کے سامنے تسلیم ہوجاؤ! تو آپ نے جواب دیا:
نھیں، خدا کی قسم میں اپنے ھاتھ کو ذلیل و پست لوگوں کی طرح تمھارے ھاتھ میں نھیں دوں گا، اور تم سے میدان جنگ میں غلاموں کی طرح نھیں بھاگوں گا اور پھر یہ نعرہ بلند کیا: اے خدا کے بندو! میں ھر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہ لائے اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوں۔[7]

 

بہترین انعام

انس کہتے ھیں: میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کی کنیز آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ریحان کا گل دستہ تھنیت اور شاد باش کے عنوان سے تقدیم کیا، امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو خدا کی راہ میں آزاد ھے!
میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: (اس کنیز نے) ایک ناچیز گل دستہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے اس کے مقابلہ میں اُسے راہ خدا میں آزاد کردیا! امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم نے ھماری اس طرح تربیت کی ھے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
< وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنٍ مِنْها اٴَوْ رُدُّوه...>[8]
”اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام)پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ھی واپس کرو...۔“
اس کی شاد باش سے بہتر شاد باش، اس کو غلامی کی قید و بند سے آزاد کرنا۔[9]

 

انسان کی اھمیت

ایک اعرابی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کھا: یا بن رسول اللہ! میں ایک کامل دیت کا ضامن ہوں، لیکن اس کو ادا نھیں کرسکتا، میں نے دل میں سوچا کہ اس کے بارے میںسب سے زیادہ کریم و سخی انسان سے سوال کروں اور میں پیغمبر اکرم (ص) کے اھل بیت (علیھم السلام) سے زیادہ کسی کریم کو نھیں جانتا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اے عرب بھائی تجھ سے تین مسئلہ معلوم کرتا ہوں اگر ان میں ایک کا جواب دیا تو تمھاری درخواست کا ایک تھائی حصہ تجھے عطا کردوں گا، اگر تو نے دو مسئلہ کا جواب دیا تو دو تھائی مال عطا کردوں گا اور اگر تینوں کا جواب دیدیا تو سارا مال تجھے عطا کردوں گا۔
اس عرب نے کھا: کیا آپ جیسی شخصیت جو علم و شرف کے مالک ھیں مجھ جیسے شخص سے مسئلہ معلوم کرتی ھے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: جی ھاں، میں نے اپنے جد رسول اکرم (ص) سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: شخص کی اھمیت اس کی معرفت کے مطابق ہوتی ھے، اس عرب نے کھا: تو معلوم کیجئے کہ اگر مجھے معلوم ہوگا تو جواب دوں گا اور اگر معلوم نھیں ہوگا تو آپ سے معلوم کرلوں گا، اور خدا کی مدد کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نھیں ھے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: سب سے افضل عمل کونسا ھے؟ اس عرب نے کھا: خدا پر ایمان رکھنا۔
امام علیہ السلام نے اس سے سوال کیا: ھلاکت سے نجات کا راستہ کیا ھے؟ اس عرب نے کھا: خدا پر بھروسہ رکھنا۔
آپ نے فرمایا: مردوں کی زینت کیا ہوتی ھے؟ اس عرب نے کھا: ایسا علم، جس کے ساتھ بُردباری ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا کہ اگر یہ نہ ہوتو؟ اس عرب نے کھا: ایسی دولت جس کے ساتھ ساتھ سخاوت ہو، امام علیہ السلام نے سوال کیا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس نے کھا: تنگدستی اور غربت کہ جس کے ساتھ صبر ہو، امام علیہ السلام نے سوال فرمایا: اگر یہ نہ ہو تو؟ اس عرب نے کھا: آسمان سے ایک بجلی گرے اور ایسے شخص کو جلا ڈالے کیونکہ ایسے شخص کی سزا یھی ھے!
حضرت امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اس کو دی اور اپنی انگوٹھی اس کو عطا کی جس میں دو سو درھم کا قیمتی نگینہ تھا، اور فرمایا: اے عرب! ہزار دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھی کو اپنی زندگی کے خرچ کے لئے فروخت کردو، چنانچہ عرب نے وہ سب کچھ لیا اور کھا: اللہ بہتر جانتا ھے کہ اپنی رسالت کو کھاں رکھے ۔[10]..[11]
---------------------------------------------------
[1] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۰، باب۲۶، حدیث۲.
[2] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۰، باب۲۶، حدیث۲.
[3] مناقب، ج۴، ص۶۵؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۸۹، باب۲۶، حدیث۲.
[4] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۰، باب۲۶، حدیث۳.
[5] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۰، باب۲۶، حدیث۳.
[6] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۱، باب۲۶، حدیث۳.
[7] مناقب، ج۴، ص۶۶؛ بحار الانوار، ۴۴، ص۱۹۱، باب۲۶، حدیث۴.
[8] سورہٴ نساء (۴)، آیت۸۶.
[9] کشف الغمة، ج۲، ص۳۱؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۵، باب۲۶، حدیث۸.
[10] ، سورہٴ انعام (۶)، آیت۱۲۴.
[11] جامع الاخبار، ص۱۳۷، فصل ۹۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۶، باب۲۶، حدیث۱۱.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام علی النقی علیہ السلام
اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت
فرقہٴ امامیہ جعفریہ
کيا خواتين کے لئے بھي بہشتي حور العين ہيں؟
بارش اور پانی، اللہ کی نشانی
امام شناسی امام رضا ع کی نگاہ میں
انا قتیل العبرہ
اقوام متحدہ کو ایک بار پھر تشویش
حضرت معصومہ (س) کے مختصر حالات
محافظ کربلا امام سجاد عليہ السلام

 
user comment