اصل نام جندب بن جنادہ بعض نے بریر بن جنادہ اور بعض نے جندب بن سکن اور بعض نے سکن بن جنادہ نام ذکر کیا ہے لیکن متفق القول جندب بن جنادہ ہے ۔
قبیلہ غفار بن ملیل بن ضمرہ بن بکر بن عبد مناة بن کنانہ بن خذیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزار ،ماں باپ کے لحاظ سے غفاری تھے (١)
زاہد ،متقی، صادق اللہجہ مشہور تھے اسلام میں سابقین سے ان کا شمار ہوتاہے۔سب سے پہلے رسول خدا ۖ کو سلام کرنے والے ہیں۔
چار ارکان اسلام میں سے دوسرے حضرت ابوذر غفاری ہیں پہلے حضرت سلمان فارسی ہیں رسول خدا ۖ کے بعد یہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے علی کی ولایت کو قبول کیا اور ولایت ہی کے لیے ربذہ بھیجا گیا ابوذر نے اسلام قبول کیا کہ خدا کی سرزنش سے بچ جائیں ابوذر نے ہمیشہ حق کہا اور حق کا ساتھ دیا کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد خود سے عہد کیا تھا کہ ہمیشہ حق کہے گا اگر چہ تلخ ہی ہو (٢)
ابوذر کو رحلت پیغمبر اکرم ۖ کے بعد عثمان نے شام روانہ کیا تو جب وہاں پہنچے تو ابوذر نے یہ کلمات کہے:
اتتکم الالقطار بحمل الناراللهم اللعن الامرین بالمعروف التارکین له اللهم اللعن الناهین عن المنکر المرتکبین لہ( ٣)
تم نے جہنم کی اگ کو اٹھایا اے اللہ لعنت بھیج اس پر جو امر بالمعروف کا حکم دیتے ہیں اور خود اس کے تارک ہیں اے اللہ ان پر تیری لعنت ہو کہ جو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود نہیں رکتے ۔
ایک دن معاویہ سے کہا :
ماانا بعدوالله و لا لرسوله بل انت وابوک عدوان للله ولرسوله اظهرتما الاسلام وابطنتما الکفر ولقد لقک رسول الله دعا علیک مرات ان لا تشبع فقال معاویة مانا ذاک الرجل فقال ابوذر بل انت ذلک الرجل اخبرنی بذلک رسول الله وسمعته یقول وقد مررت به اللهم اللعنه ولاتشبع الا بالتراب(٤)
ایک دن معاویہ نے کہا میں خدا، ورسول کا دشمن نہیںہوں ابوذر نے کہا تم اور تیرے باپ ہیں تم دونوں نے ظاہری اسلام کا اظہار کیا اور کفر کو چھپا لیا جب تم نے رسول کی ملاقات کی تو رسول خدا ۖ نے تیرے بارے میں فرمایا :
تو سیر نہیں ہوسکے گا مگر یہ کہ تیرا منہ مٹی سے بھر دیا جائے معاویہ نے کہا وہ میں نہیں ہوں ابوذر نے کہا وہ تم ہی ہو، رسول خدا ۖ نے تم پر کئی بار لعنت کی اور تیرے حق میں نفرین کی مجھے رسول خدا ۖ نے خبر دی ہے اور میں نے دیکھا کہ جب تم وہاں سے گزر رہے تھے تو رسول خدا ۖ نے فرمایا:
اے اللہ اس پر لعنت بھیج کہ یہ کسی چیز سے سیراب نہیں ہوگا مگر مٹی سے معاویہ نے سوچا کہ ابوذر ناراض ہے یا شاید فقر کے سبب یہ کہہ رہاہے یا کوئی چیز چاہتاہے لھذا اس نے دلاسہ دیا شاید یہ خاموش ہوجائے لیکن ابوذر نے معاویہ کو وہی کہا کہ جو رسول خدا ۖسے سنا تھا معاویہ نے تین سو دینار بھیجے کہ شاید خاموش ہوجائے لیکن یہ اس کا تصور خام تھا ابوذر نے کہا:
من عطائی حرمتمونیه عاصی ھذا قبلتها وان کانت صلة فلا حاجة لی فیها (٥)
اگر اسلام میں میرا یہ حق تھا کہ جس سے تونے مجھے محروم رکھا تو میں اسے قبول کرتاہوں اگر یہ عطیہ اور رشوت ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں یہ کہہ کر ابوذر نے واپس کردئیے ۔
ربذہ میں بتیس(٣٢)ہجری میں ان کی وفات ہوئی (٦)
ابوذر غفاری کے اسلام لانے کاواقعہ
ابوذر نے جب سنا کہ مکہ میں ایک آدمی پیغمبر وآخری رسول کے عنوان سے مبعوث ہوئے ہیں،اپنے بھائی انیس سے کہا کہ مکہ جائو اور ان کے حالات وآثار سے آگاہ ہوکر آئوکہ وہ مدعی ہے کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے۔
انیس مکہ میں آتے ہیں ان کے حال سے آگاہ ہوتے ہیں اور واپس اپنے بھائی ابوذر کو بتاتے ہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیںاور اچھے اخلاق کے مالک ہیں ان کی گفتگو بہت شیرین ہے لیکن شعر کے مشابہ نہیں ہے۔
ابوذر نے کہا میرے دل کی تپش وگرمایش کو خاموش نہیں کیا جو کچھ چاہتا تھا وہ خبر نہیں لائے اب میں خود جاتاہوں ابوذر نے رختِ سفر باندھا اور مکہ آئے اور کسی سے نہیں پوچھا رات ہوگئی تو مسجد الحرام میں آکر ایک گوشے میں آرام کرنے لگے اسی اثناء میں حضرت علی تشریف لائے اور ابوذر کو گھر لے گئے صبح پھر وہ مسجد الحرام لوٹے تلاش کرتے رہے لیکن پھر رات ہوگئی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے پھر حضرت علی گھر لے گئے پھر اپنی بات کا اظہار نہ کیا لیکن تیسری رات خود حضرت علی نے پوچھا کس کام سے مکہ آئے ہو ؟کہنے لگے اگر عہد کریں کسی کو نہ بتائیں گے تو میں آپ کو اپنے مقصد سے آگاہ کرتاہوںاور میری رہنمائی کریں ۔
حضرت علی نے فرمایا:
ہاں ایسا کرونگا ابوذر نے اپنے ہدف کوبیان کیا :حضرت علی نے فرمایا:ہاں وہ پیغمبر حق ہیںاور اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں ان پر وحی نازل ہوتی ہے صبح تم میرے پیچھے پیچھے چلنا میں آپ کو ان کے پاس لے جائونگا لیکن اگر خطرہ محسوس کروتو مجھ سے فاصلے پہ چلنا دوسرے دن صبح حضرت علی گھر سے باہر انہیں لے کر نکلنا، اس طرح علی آگے اورپیچھے پیچھے رسول خدا ۖ کے گھر میںپہنچے ابوذر نے رسول خدا ۖکو سلام کیا ،سلام ودعا کے بعدرسول خدا ۖنے پوچھا :تم کون ہو؟
کہاابوذر اور قبیلہ غفار سے ہوں، جو کچھ رسول خدا سے چاہتاتھا ان سے لیا اور جو دیکھنا چاہتاتھاوہ دیکھا اسی وقت اظہار اسلام کیا رسول خدا ۖ نے فرمایا:
اب یہاں نہ ٹہرو اور اپنے وطن واپس چلے جائو اور ہمارے پیغام کو جاکر قوم سے بیان کرو تاکہ وہ ہم سے آگاہ ہوں اور وہ بھی مسلمان ہوجائیں۔
لیکن مکہ میں لوگوں سے اپنے اسلام کو پہنان رکھنا کیونکہ مجھے تمہارے بارے میں خوف ہے ابوذر نے عرض کیا خدا کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مکہ کے لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار نہ کرلوں مکہ سے باہر قدم نہیں رکھونگا، وہاں سے مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا:
اشھد ان لا الہ الا للہ وان محمدا عبدہ ورسولہ، لوگوں نے جب یہ سنا ابوذر کی طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھے اور اس قدر مارا کہ قریب تھا جان چلی جائے حضرت عباس بن عبد المطلب نے ان کو چھڑایا اور لوگوں سے کہا: وائے ہو تم پر تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟
یہ قبیلہ غفار سے ہے اور آپ کے شام کے سفر کے لیے وہ راستے میں ہیں جب وہاں سے گزروگے تو یہ تمہاری خبر لیں گے اس طرح ابوذرکو ان کے چنگال سے نجات دی دوسرے دن پھر ابوذر مسجد الحرام میں جاکر پہلے دن کی طرح بلند آواز سے، کلمہ شہادت کہتے ہیں، پھر لوگ ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں پھر بھی حضرت عباس ان کو قتل ہونے سے بچاتے ہیں (٧)
ابوذر کے فضائل
قال النبی ۖ ابوذر فی امتی علی زهد عیسی بن مریم(٨)
رسول خدا ۖنے فرمایا: ابوذر میری امت میں عیسی کی طرح زاھد ہیں جیسے وہ اپنی امت میں زاھد تھے۔
قال علی : وعی ابوذر علما عجز الناس عنه ثم اوکا علیه فلم یخرج منه شئیا( ٩)
حضرت علی فرماتے ہیں؛ابو ذر کے سینے میں علم کا سمندر ہے کہ تمام لوگ اس کویاد کرنے سے عاجز ہیں لیکن اس نے اپنے سینہ میں ایسے جگہ دی کہ اسے باہر نہیں نکالتا۔
عن عبد الله بن عمر قال سمعت عن رسول الله قال: ما اظلت الخضراء ،ولا اقلت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر یعیش وحده ویموت وحده ویبعث وحده ویدخل الجنة وحده١٠)
عبد اللہ بن عمر کہتاہے: میں نے رسول خدا ۖ سے سناہے انہوں نے فرمایا: آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو وہ تنہا زندگی کریگا اور تنہا مریگا ،تنہا اٹھے گا اور تنہا جنت میں داخل ہوگا۔ یہ روایت ابوہریرہ، ابودرداء اور مالک بن دینار نے بھی نقل کی ہے۔
روی الصدوق فی العیون باسنادہ عن الرضا عن ابائه عن علی قال قال رسول الله ۖ ابوذر صدیق هذہ الامة(١١)
مرحوم صدوق اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں امام رضا اور اپنے ابائے طاہرین سے اورانہوں نے، رسول خدا ۖ سے نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا: اس امت کے صدیق ابوذر ہیں۔
فی شرح النهج قال رسول الله:ان الجنة لتشتاق الی اربعة :علی، وعمار وابی ذر والمقداد
ابن ابی الحدید معتذلی شرح نہج البلاغہ میں رسول خدا ۖسے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: جنت چار آدمیوں کی مشتاق ہے حضرت علی ،عمار ،ابوذر اور مقداد ۔
صفوان عن ابی عبد الله قال قال رسول الله ۖ ان الله امرنی بحب اربعة قالوا من هم ؟یارسول الله قال: علی بن ابیطالب والمقداد بن الاسود وابوذر الغفاری وسلمان الفارسی(١٢)
صفوان نے کہا: امام صادق سے سنا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : چار آدمیوں سے محبت کرنے کا خدا نے مجھے حکم کیا ہے اصحاب نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ فرمایا: علی ،مقداد ،ابوذر اور سلمان فارسی۔
ابوذر کا زھد وتقوی
رجال کشی میں ہے کہ ابوذر خوف خدا سے اس قدر گریہ کرتے تھے کہ ایک دن اس وجہ سے آنکھ مریض ہوگئی اس حد تک کہ قریب تھا آنکھ کی بینائی چلی جائے رسول خدا ۖ نے فرمایا: ابوذر خدا سے دعا کرو کہ تمہاری آنکھ ٹھیک ہوجائے ابوذر نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے اس پرغصہ آیاہے ہاں میں تیرا اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے بہت زیادہ محتاج ہوںپھر مجھ سے ابوذر نے کہا :ایسے لگتا
ہے کہ تم نے دنیا کو بہت مہم سمجھ رکھاہے اے عطا !یہ لباس جو میرے جسم پر دیکھ رہے ہو یہ مسجد کیلیے مخصوص ہے اپنے لیے بیابان میں کچھ بکریاں ،دودھ وخوراک کے لیے رکھتاہوں، ایک چارپائی ہے کہ جس پر چند لمحے آرام کرتاہوں، ایک میری بیوی ہے، کہ جو کھانے پینے کے تیار کرنے کے لیے ہے کہ جس نے مجھ زحمت سے نجات دے رکھی ہے، کتنی اچھی وبرتر نعمت میرے پاس الحمد للہ ہے؟!( ١٣)
ایک لباس ابوذر کے لیے کسی نے دیا تو ایک پارچہ خود اپنے پرانے لباس کے نیچے پہن لیا، ایک اپنے
غلام کو دیا ،جو بہتر تھا ،جب لوگوں نے دیکھا، تو کہا دوسرا لباس غلام کی بجائے خود پہن لیتے تو آپ کو زیبالگتا ابوذر نے کہا :میں نے رسول خدا ۖسے سناہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہو اپنے غلام کے لئے بھی وہی پسند کرو۔(١٤)
عبد اللہ بن ابی خراش کہتاہے کہ ایک دن ربذہ میں ابوذر کو اس کی سیاہ فام بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوادیکھا تو کہا ابوذر کوئی اس سے بہتر بیوی نہیں چاہیے ؟ابوذر نے کہا: دوست رکھتاہوں ایسی بیوی کہ، جو میرے مقام کو پست رکھے اس بیوی سے، کہ جس کے ذریعہ میرا مقام اس پست دنیا میں بلند ہو پھر ان سے کہا: اس سے کوئی فرزند اس دنیا میں باقی نہیں رہا ابوذر نے جواب دیا:
خدا کی حمد کرتاہوں اس نے اس ناپیدار دنیا سے لے لیا اور اسے ہمیشہ کے گھر کیلیے ذخیرہ کیا پھر کہا: کس لیے نرم بستر نہیں لیتے؟ جواب دیا:خدا یا مجھے بخش دے پھر طعنہ دے کر کہا: جو میرے لیے تہیہ کرسکتے ہوکرو! ( (١٥)
ابو آسماء کہتا ہے ربذہ میں ابوذر کے پاس گیا دیکھا ایک سیاہ چہرے والی بیوی کے ساتھ زمین پر بیٹھاہے۔
ابوذر نے کہا: دیکھ رہے ہو اس کو کہ اس بیوی نے کہا عراق چلو، عراق گیا، لوگ مال و ثروت مجھے دینے لگے در حالیکہ میرے دوست نے کہا :جہنم پر پل لرزنے والا ہے اس قدر، وزن اٹھائو کہ اس سے گذر سکو( ١٦)ابوذر سے کہاگیا کیا کوئی ملک نہیں حاصل کرتے؟ جیساکہ فلاں فلاں نے کیا ہے کہنے لگے :کیا کرونگا ان سے میرے شوم وبخیل ارباب مجھے ایک پیالہ دودھ ایک روٹی دیتے ہیں کہ جو میرے لیے کافی ہے( ١٧)
غذوہ احد میں ابوذر
جب پیغمبر اکرم ۖاور مسلمان جنگ احد پرجارہے تھے ،منافقین کی سازش سے لوگ دستے دستے اور فرد فرد واپس جنگ سے پلٹ رہے تھے، یہاں تک کہ عبد اللہ بن ابی نے ایک جماعت کو اپنے ساتھ کرلیا اور مسلمان جنگ سے فرار کررہے تھے یا جنگ سے عقب نشینی کررہے تھے ،رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ فلاں نے جنگ سے عقب نشینی کی ہے حضرت نے فرمایا: اسے اپنے حال پر چھوڑ دو اگر بہتری ہے تو خدا ہمارے ساتھ ملحق کردیگا یہاں تک کہ رسولخدا ۖسے کہا گیا ابوذر بھی پیچھے رہ گیاہے تو پیغمبر ۖنے وہی جواب دیا لیکن ابوذر اپنے اونٹ سے اتر کر پیدل رسولخدا کی طرف روانہ ہوا راستے میں پیاس نے غلبہ کیا ایک پانی کاچشمہ ملا، پینے کا ارادہ کیا رسول خدا کی یاد آئی تو خود سے عہد کیا جب تک رسول اللہ ۖپانی نہ پی لیں ،نہیں پیئونگا۔
پیغمبر اسلام ایک مقام پر پہنچے اور ایک مسلمان کی نظر پڑی کہ دور سے ایک آدمی آرہاہے رسول خدا سے عرض کیا گیا توفرمایا: خداکرے ابوذر ہو جب نزدیک آیا تو ابوذر تھا رسول خدا ۖ نے فرمایا: خدا رحمت کرے ابوذر پر تنہا زندگی کریگا تنہااس دنیا سے جائیگا اور تنہا مبعوث ہوگا ۔
جب رسول خدا ۖ نے ابوذر کو دیکھا فرمایا: اسے پانی دو پیاسا ہے جب پانی پیا ، پیغمبر کی زیارت سے مشرف ہوا اصحاب نے کہا :یارسول اللہ ابوذر کے پاس پانی تھا کیوں نہیں پیا؟ حضرت نے فرمایا :ابوذر تمہارے پاس پانی تھا کیوں نہیں پیا؟ عرض کیا ہاں حضور میرے ماں باپ آپ پر فداہوں راستہ میں پیاس لگی تھی ،ایک چشمہ سے پانی لیا جب پینے کا ارادہ کیا تو آپ کی پیاس یاد آگئی اس لیے خود سے عہد کیا جب تک حضرت کی زیارت نہیں کرونگا پانی نہیں پیئونگا ۔
پیغمبر اسلام ۖنے فرمایا:
ابوذر خدا تجھے بخش دے تنہائی میں زندگی کریگا اور تنہا مرے گا اور تنہا مبعوث ہوگا اور تنہا جنت میں داخل ہوگا جو لوگ اسے غسل ،کفن اور دفن کا انتظام کریں گے اس کی وجہ سے سعادتمند ہونگے۔ (١٨)
خلافت امیر المومنین سے ابوذر کادفاع
جب ا بوبکر نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اصحاب پیغمبر سے بارہ آدمیوں نے ارادہ کیا کہ اس پر اعتراض کریں ہر ایک نے باری باری گفتگو کی جب ابوذر اٹھے اور کہا:اے قریش کی جماعت بہت بڑی غلطی کا اس نے ارتکاب کیاہے خدا کی قسم اس کی وجہ سے عرب کا ایک گروہ اپنے دین سے خارج ہوگا اور ایک گروہ دین میں متذلذل ومضطرب ہوگا اگر خلافت خاندان پیغمبر میں قراردیں ہرگز جھگڑا نہ ہوگا لیکن اب بڑاخون خرابہ ہوگا اور اہل دنیا کے نیزے آپس میں ٹکرائیں گے تم گواہ ہو اور جانتے ہو کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
میرے بعد خلیفہ علی ہونگے اس کے بعد حسنین شریفین ان کے فرزند ان کے بعد ان کی معصوم اولاد، تم نے رسول کی بات کو پس ِپشت ڈال دیا ان سے عہد کو فراموش کردیا ان کی وصیت کو بھول گئے دنیا کی لذت کی پیروی کی ،آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمت کو چھوڑ دیا، تم بھی گذشتہ امتوں کی طرح انبیا ئ
کے اقوال کو فراموش کردیا ہے، حقیقت میں دین سے منحرف ہوگئے ....اب جلدی تم اپنے کیئے کی سزا بھتوگے (١٩)
پیغمبراسلام ۖنے ابوذر کے ربذہ کی طرف تبعید
کی خبر دی۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا: انبیاء اور اولیاء کی مصیبت سب سے زیادہ ہے پھر علماء ودانشوروں کی مصیبت ہے پھر ان کے بعد ان لوگوں کی جو ان سے زیادہ مشابہ ہیں ۔ ہاں فارسی میں شعر ہے:
ہرکہ در این بار مقرب تر است۔ جام بلا بیشتر میدھند
حاکم مستدرک میں ابوذر سے نقل کرتاہے کہ رسول خدا ۖ نے مجھ سے فرمایا:
ابوذر کس طر ح ہو گے تم جب کہ پست ورذیل لوگوں کے درمیان رہوگے اس طرح پیغمبر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں دبا کر کہا: کہ تم کو اس طرح شکنجہ واذیت دیں گے میں نے عرض کیا :یارسول اللہ مجھے کیا حکم دیتے ہو؟ فرمایا: صبر کرنا تین بار اس جملہ کو دھرایا لوگوں سے اخلاق کے ساتھ رہنا اور کردار میں ان کی مخالفت کرنا (٢٠)
کس لیے ابوذر کو ملک بدر کیا گیا؟
تحقیق کے ساتھ کہہ سکتے ہیںابوذر کو ربذہ کی طرف تبعید کیا ایک علت یہ ہے کہ وہ ایک حق گو اور نڈر صحابی تھے کیونکہ ابوذ ر کاکام یہ تھا ،حق کو واضح بیان کرنا اور نہ ڈرنا اور یہ مطلب ابوذر کی تاریخی زندگی سے واضح وروشن ہے اب سوال یہ ہے کہ کس لیے ابوذر نے تقیہ نہیں کیا؟ جس کو حق کے خلاف دیکھا اس کے خلاف بول دیا کسی سے خوف نہیں کیا !کیونکہ ابوذر نے جب رسول خدا ۖ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی تو حضرت نے شرط لگائی کہ ہمیشہ حق کا اظہار کرنا اگرچہ تلخ حالات کا سامنا کرنا پڑے۔
جب عبد الرحمن بن عوف پر موت واقع ہوئی عثمان نے اس کا مال وارثوں میں تقسیم کیا لوگوں نے کہا :اس قدر زیادہ مال جو عبد الرحمن نے چھوڑا ہے آخرت کے بارے میں اس کے لیے نگران ہیں! عثمان نے کعب سے پوچھا: اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو کہ جس نے اللہ کی راہ میں بہت مال خرچ کیا،یہ کیا، وہ کیا کعب نے کہا :میں اس کے بارے میں خیر وخوبی کے علاوہ کوئی چیز اس سے نہیں دیکھی اس نے حلال کمایا ،بہت انفاق کیا اور یہ باقی اس سے بچا ہے ابوذر سے نہ رہا گیا ابوذر نے زمین پر پڑی ہوئی ہڈی اٹھائی اور کعب کے پیچھے مارنے کے لیے بھاگ پڑے۔
یہاں تک کہ کعب عثمان کے پاس آکر پناہ لی اور ابوذر بھی پیچھے آگئے جب کعب نے دیکھا ابوذر کی اندر آگئے ہیں فورا اٹھ کر عثمان کے پیچھے ڈر کے مارے کھڑے ہوگئے ابوذر نے کہا: اے یہودی زادے تو خیال کرتا ہے کہ عبدالرحمن کے لیے کوئی حرج نہیں کہ اس نے اتنا زیادہ مال چھوڑا ہے؟!
ابوذر جب دیکھا عثمان نے عبد الرحمن پر اس قدر مال کی بخشش کی ہے ہر جگہ اور ہر مقام پر ابوذر نے عثمان کی بیجا بخشش کومورد اعتراض قرار دیا، کوچہ وبازار میں عثمان کے خلاف تقریریں کیں اور اس آیہ کی تلاوت کی :والذین یکنزون الذھب و الفضة لاینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم (٢١)
کہ جو سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دو۔ اس طرح کی تقریریں سب کے سامنے، حکومت وقت کے خلاف، جب کی ہوں تو کیسے وہ اسے ربذہ تبعید نہ کرتا! ابوذر ایک پیغمبر کے بزرگ صحابی اور باعظمت کو کیسے لوگوں کے درمیان سزا دے کوئی چارہ کار نہ دیکھا تو ایک آدمی ابوذر کے پاس بھیج دیا کہ مجھ پر اعتراض کی بارش نہ کرو! ابوذر نے جواب میں کہا: تم مجھے آیات الہی سنانے سے منع کرتے ہو؟ خدا کی قسم عثمان کی خوشنودی کے لیے اللہ تعالی کو ناراض نہیں کرونگا۔(٢٢)
عثمان نے جب دیکھا کہ ابوذر کسی تہدید ودھمکی سے نہیں ڈرتا اور طمع ولالچ سے بھی اسے نہیں خریدا جاسکتا ۔
ایک دفعہ ایک غلام سے کہا جائو ابوذر کو روکو، اگر وہ تمہاری باتوں سے مجھے سرزنش نہ کرے تو میں تم کو آزاد کرودنگا وہ ابوذر کے پاس ہر قسم کی کوشش کی کہ کسی طرح عثمان کو برا بھلا کہنے سے رک جائے ،جب کچھ نہ ہوسکا ،تو غلام نے کہا: میری وجہ سے اسے معاف کردو اور کچھ نہ کہو تاکہ وہ مجھے آزاد کردے ابوذر نے غلام سے کہا :ہاں تم آزادہو جائوگے اور میں غلام بن جائونگا تمہاری دنیا کے لیے اپنی آخرت نہیں بیچ سکتا۔( ٢٣)
ایک دن ابوذر مریض تھا اور عصا(لکڑی)کے سہارے چل کر عثمان کے پاس گیا دیکھا اس کے سامنے ایک لاکھ درھم ہیں اور لوگ اس کے پاس بیٹھے انتظار کررہے ہیں کہ کب تقسیم کرتاہے ؟ابوذر نے عثما ن سے پوچھا :یہ مال کہاں سے آیا ہے اور اس کا مصرف کیا ہے؟
عثمان نے جواب دیا: ایک جگہ سے آیاہے چاہتاہوں اور مال آجائے پھر کوئی ارادہ کروں ابوذر نے کہا تجھے یاد ہے کہ جب پیغمبر اکرم ۖ کے پاس ایک دن گئے تو وہ محزون تھے اور ہم پھر دوسرے دن گئے تو خوشحال نظر آرہے تھے ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :
کل میرے پاس چار درھم بیت المال کے بچ گئے تھے اور پریشان تھا کہ موت آجائے اور یہ مال تلف ہوجائے ،آج وہ اپنے مستحق کے پاس چلے گئے خوشحال ہوں ۔
عثمان نے کعب الاحبار کی طرف رخ کیا اور پوچھا جس نے زکات دے دی اب اس پر کچھ ہے ؟کہنے لگا نہیں: ابوذر نے عصا اٹھا کر سر پر دے مارا اورکہا: تم مسلمانوں کے امور میں کیوں دخالت کرتے ہو؟ اے یہودی کے بیٹے !تجھے کیا حق ہے؟ مسلمانوں کے احکام میں اپنی نظر دے، کلام خدا پر کوئی چیز مقدم نہیں ہوسکتی کلام خدا تمہارے کلام پر مقدم ہے، پھر اس آیت کو پڑھا:
والذین یکنزون الذھب والفضة.......عثمان نے ابوذر سے کہا: تم خرافات کہتے ہو کیا عقل تمہاری چلی گئی؟ اگر رسول خدا ۖ کا صحابی نہ ہوتا تو تجھے یہیں پر قتل کردیتا۔
ابوذر نے کہا رسول خدا ۖکے دوست نے مجھے بتایاہے: تم مجھے فریب نہیں دے سکتے البتہ عقل میری اس قدر باقی ہے جو خبر رسول خدا ۖ سے سنی تھی اب تک میرے ذہن میں باقی ہے اور مجھے یاد ہے ۔
عثمان نے کہا: رسول خدا سے کیا سناہے؟ ابوذر نے کہا: میں نے رسول خدا ۖ سے سناہے جب ابو العاص کے تیس آدمی پہنچ جائیں خدا کے مال کو مفت کھاجائیں گے اور قرآن کو مکر وفریب کا وسیلہ قرار دیں گے ۔
اور دوسری روایت میں اس طرح ذکر ہے:
''یقول اذا بلغ بنو ابی العاص ثلاثین رجلاً۔ اتخذوا دین الله دخلاًا و عباد الله خولًا و مال الله دولًا فقتلوہ فقدا وجوعًا و ذِلًا و ضرًّا و صبرًا''۔(٢٤)
عثمان نے سامعین سے کہا :تم نے یہ خبر رسول سے سنی ہے؟ سب نے کہا نہیں ۔عثمان نے کہا :علی کو بلائو جب علی تشریف لائے عثمان نے کہا: یا ابو الحسن جھوٹے آدمی کے بارے کیا کہتے ہو ؟ علی نے فرمایا: ایسا نہ کہو میں نے رسول خدا ۖ سے سنا ہے : کہ ابوذر کے بارے میں فرمایا: آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو نہیں اٹھایا کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو سب نے کہا ہاں ہم نے یہ رسول اللہ سے سنا ہے ؟!( ٢٥)
ابوذر کے اعتراضات عثمان پر روز بروز زیادہ ہوتے گئے، یہاں تک کہ جب عثمان نے حامی بہت زیادہ اس کے پاس بیٹھے دیکھے تو پوچھا کیا خلیفہ کیلیے جائز ہے کہ بیت المال سے قرض لے لے جب ممکن ہو واپس کرے؟ کعب الاحبار نے کہا: کوئی مانع نہیں ،لے سکتاہے یہاں پر ابوذر سے نہ رہا گیا اس نے کعب سے کہا: تو چاہتا ہے ہم کو احکام دین یاد کرائے اے یہودی زادے ۔
عثمان نے کہا :اے ابوذر مجھے بہت اذیت کررہے ہو صحابی پیغمبر ہوکر مجھے ملامت کرتے ہو؟ اب تم حق نہیں رکھتے کہ مدینہ میں رہو شام چلے جائو(٢٦)
ابوذر شام کی طرف تبعید
جب عثمان نے مجبور ہوکر ابوذر کو شام کے ملک کی طرف روانہ کیا تو ابوذر شام میں آکر جورسول اکرم ۖ سے احادیث اہلبیت کے بارے میں سنی تھیں لوگوں کے درمیان صبح ،شام بیان کرتا رہا یہاں تک کہ اکثر لوگ اہلبیت کے گرویدہ بن گئے تاریخ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ لبنان کے لوگ اکثر ابوذر کی تبلیغ کی وجہ سے شیعہ ہوئے ہیں ،ابوذر ہمیشہ حق کہتا اور جو حق کے مخالف ہوتا اس کے وجود کو تحمل نہ کرسکتا تھا، شام میں امر ونہی سے ہاتھ نہیں اٹھایا ،جب معاویہ کے محل میں آیا پوچھا، اگر یہ محل خدا کے مال سے بنایا ہے، تو خیانت کی ہے۔
اگر لوگوں کے ،مال سے بنایا ہے، تو اسراف کیا ہے خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
ابوذر ہمیشہ شام میں اپنی تقریوں کے ذریعہ ان جملات کا تکرار کرتا رہتاتھا کہ جب رسول ہم میں نہیں آئے تھے اس وقت بھی ہم جھوٹ نہیں بولتے تھے اور ہمسایوں کا احترام کرتے تھے، مہمان کی عزت کرتے، فقراء سے اچھا سلوک کرتے ۔جب اسلام آیا ،ہمارے ان اچھے کاموں کی تائید کی ،مسلمان ان صفات کو پسند کرتے اوراس پر عمل کرتے،لیکن جب یہاں رسول کے بعد برے حکمران آئے انہوں نے ظلم وستم کرنا شروع کیا ،حق پائمال کرنے لگے اور ایسے برے کردار انجام دئیے کہ نہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے اور نہ رسول کے خلیفہ کو یہ زیب دیتاہے ،ان برے حکمرانوں نے باطل کو زندہ کردیا، سچوں کو جھوٹا ،جھوٹوں کو سچا کہناشروع کردیا، نالائق لوگ اقتدار کے مالک بن گئے، لائق لوگوں سے ان کا حق چھین لیا گیا ہے۔
معاویہ کے جاسوس معاویہ کے پاس آکر کہنے لگے ،اگر ابوذر نے اس کام کو اسی طرح جاری رکھا تو تمہاری حکومت کی خیر نہیں ،معاویہ پریشان ہوگیا ،عثمان کوخط لکھا ،صبح ،شام لوگ ابوذر کے ارد گرد جمع رہتے ہیں اور وہ ایسی تقریریں کررہاہے کہ جس سے لوگ ہم سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ان کو اپنے پاس بلالے ورنہ دونوں حکومتوں کے خاتمہ کے لیے زمینہ فراہم کررہاہے اور لوگ تیری حکومت کے مخالف ہوتے جارہے ہیں عثمان نے جواب میں لکھا ۔جب میرا خط تم کو ملے فورا ابوذر کو میرے پاس بھیج دے معاویہ نے خط ِعثمان کسی کودے کر ابوذر کے پاس بھیجا ،ابوذرنے اسی وقت مدینہ کے لیے تیاری کی اور لوگوں کو مطلع کیا کہ میں مدینہ واپس جارہاہوں، معاویہ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتا، لوگ گریہ کرنے لگے ابوذر نے کہا: نہ خود آیا ہوں نہ خود واپس جارہاہوں ۔
جب لوگوں نے دیکھا ابوذر شام سے جارہاہے ،خدا حافظی کیلیے آئے اور مقام دیر مران تک ان کے ساتھ چلے ابوذر نے وہاں نمازِ جماعت اقامہ کی اور آخری تقریر کی ۔
ابوذر کی تقریر
ابوذر نے حمد وستایش باری تعالی کے بعد کہا :اے لوگو! میں نے کسی کے درمیان تفرقہ اندازی نہیں کی اور نہ کسی کو وصیت کی خدا کی حمد ہے سب نے بلند آواز سے الحمد للہ کہا پھر کلمہ شہادتین پڑھا تو سب نے پڑھا ایسی بلند آواز تھی کہ کاخ معاویہ تک پہنچی پھر فرمایا:
میں گواہی دیتاہوں کہ قیامت حق ہے ،موت حق ہے، قبر حق ہے ،جنت حق ہے، جہنم حق ہے ،سزا وجزا حق ہے ،جو کچھ خدا کی طرف سے حکم آیا خود عمل کیا، آپ کو بھی بتایا تم میرے گواہ رہو،ظالم ستم کار کی کبھی مدد نہ کرنا۔ ہمیشہ حق کہنا اور حق کا ساتھ دینا، حاکم کے ساتھ کسی بدعت میں ساتھ نہ دینا،نماز وروزہ کو ضایع نہ کرنا، غضب ِخدا سے ڈرنا، نماز میں اجتماع کرنا، حاکم کے برے اعمال سے بیزاری کا اظہار کرنا، اگر کسی حکمِ خدا کو بدلے اس سے دوری کرنا اور جس قدر ہوسکے، مقابلہ کرنا۔ ہر چند تمہیں شکنجہ دے، حاکم کی خوشنودی کے لیے خدا کی ناراضگی مول نہ لینا، اگرچہ تم کو تبعید کردے خدا تم کو اور مجھے بخش دے ،لوگوں نے کہا :اگر اجازت دیں تو ہم تمہیں نہ جانے دیں، ابوذر نے کہا: تم صبر کرو اگر ایسا کروگے تو ستم کارلوگ اپنے ظلم سے باز نہیں آئیں گے تم واپس چلے جائو، خدا حافط۔
ابوذر کی شام سے واپسی۔
ابوذر جب واپس مدینہ، عثمان کے پاس آیا عثمان نے کہا: تم نے اپنا کام کیا اور لوگوں کو میرے خلاف بھڑکایا ہے ابوذر نے کہا: جو تمہاری خوشامد کرے اور جھوٹ بولے وہ تجھے اچھا لگتاہے ، میں نے لوگوں کو احادیث رسول سے آگاہ کیا ہے، ظالم اور مظلوم کی پہچان کرائی ہے۔
کعب الاحبارنے ابوذر کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا: تم حاکم وقت کے سامنے ایسے کلام کرتے ہو ؟ ابوذر نے عصا اس کے سر پر دے مارااور کہا: چپ کرو یہودی زادے تم کو کیا حق ہے کہ مسلمانوں کے امور میں کوئی رائے دو ۔خدا کی قسم !ابھی تک تیرے اندر یہودی دل موجود ہے ، عثمان نے کہا :خدا کی قسم میں اور تم ایک محل میں نہیں رہ سکتے ،حکم دیا ان کو مجھ سے دور کرو اور کوئی بھی اس سے بات چیت نہ کرے، کچھ مدت تک کلام نہیں کی ،یہاں تک کہ ایک دن ابوذر کو عثمان نے بلایا اور کہا :ابوذر جانتاہے کہ تم نے مجھ سے کیا کیاہے؟
ابوذر نے کہا: میں نے تیرے لیے خیر خواہی کی ۔عثمان نے کہا :جھوٹ بولتے ہو تم نے خیانت کی ہے ،شام کے لوگوں کو میرے خلاف کردیاہے۔
ابوذر نے کہا: تم پہلے خلفاء کی طرح رویہ رکھو تو تم سے کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔
عثمان نے کہا :یہ بات کیوں کرتے ہو تم سے کیا مربوط؟
ابوذر نے کہا: خدا کی قسم میں نے تم سے مکر وحیلہ نہیں کیا بغیر امر ونہی کے۔
عثمان لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا: اس کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ قتل کردوں یا زندان میں ڈالودوں یا ملک بدر کروں ؟!
ابوذر نے کہا: عثمان تم نے رسولخدا ۖ اور پہلے دوخلیفوں کو دیکھا ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کیا رویہ رکھا ہے ؟خدا کی قسم! تم ایسے نہیں ہو تم ستم کار ،ظالم بن کر میرے ساتھ سلوک کررہے ہو ۔
عثمان نے غصے سے کہا: میرے ملک سے نکل جائو ۔ابوذر! خدا کی قسم تمہاری ہمسائیگی سے بیزار ہوں کہاں جائوں؟عثمان نے کہا جہاں چاہو ۔
ابوذر نے کہا: شام کی طرف کفار سے جہاد کے لیے چلاجائوں ،
عثمان نے کہا :وہاں تم نے فتنہ کھڑا کردیا ہے اس لیئے تو میں نے وہاں سے تمہیں واپس بلالیا دوبارہ وہاں جانا چاہتاہے نہیں۔
ابوذر نے کہا: عراق چلاجائوں،
عثمان نے کہا :نہیں، وہاں کے لوگ فتنہ گر ہیں ۔
ابوذر! مصر چلاجائوں ؟ عثمان نے کہا: نہیں،
ابوذر نے کہا: پھر کہاں جائوں؟
عثمان نے کہا: ربذہ!
ابوذر نے( انا لله وانا الیه راجعون) پڑھا اور کہا: رسول خدا ۖ نے مجھ سے فرمایاتھا: تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا آخر میں تمہیں ربذہ کی سر زمین ملے گی )(٢٧)
ابوذر ربذہ کی طرف تبعید
عثمان نے دستور دیا ابوذر کو ربذہ کی طرف بھیج دو اور کوئی اس سے کلام نہ کرے اورکوئی اس سے خداحافظی نہ کرے عثمان سے علی اور عقیل کے علاوہ سب ڈرتے تھے علی نے حسنین شریفین سے فرمایا: اس کے ساتھ مدینہ کے باہر تک ساتھ چلو اور عقیل وعمار یاسر بھی ساتھ گئے تو مروان نے امام حسن کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا: مگر عثمان کی گفتگو نہیں سنی، علی نے تازیانہ اس کے کانوں پر مارا اور فرمایا :ہم سے دور ہوجا، خدا تم کو ہلاک کرے پھر مروان نے عثمان کے پاس جاکر شکایت کی ، عثمان سخت غصے ہوا، علی بھی اس پر بہت غصے تھے۔ ابوذر کو علی نے خدا حافظی کی اور عقیل،عمار یاسر نے تقریر یںکیںاور ابوذر کو دلاسہ دیا اور صبر کی تلقین کی یہاں پر ابوذر سے صبر نہ ہوسکا آنکھوں سے آشک بہنے لگے پھر کہا: خدا آپ پر بھی اپنی رحمت نازل کرے ہاں دوستوں کی جدائی بڑی سخت ہوتی ہے خصوصا ایمانی دوست کیا خوب عرب شاعر نے کہا:
یقولون ان الموت صعب علی الفتی۔ مفارقة الاحباب واللہ اصعب
کہتے ہیں کہ جوان کی موت سخت ہے لیکن دوستوں کی جدائی اس سے زیادہ سخت ہے۔
ابوذر نے کہا: خاندان نبوت سے جدائی میرے لیے سخت ہے لیکن کیا کروں چارہ ہی نہیں ابوذر ربذہ روانہ ہوئے اور علی اور دوسرے ساتھی مدینہ واپس پلٹے (٢٨)
لوگوں نے علی سے کہا: عثمان آپ پر ابوذر کی خدا حافظی کی وجہ سے غصے ہواہے علی نے فرمایا: غضب الخیل علی صم اللجم۔ مثل یہ کہ کھوڑے کے منہ پر لجام ہے تو غضب کرتاہے یعنی میرا کیا کرسکتاہے ؟عثمان نے علی سے کہا: کیا چیز باعث بنی کہ ابوذر سے بدرقہ کیا ہے ؟
علی نے کہا: کیا چیز باعث بنی کہ مروان کو ہم پر مامور کیا ہے؟مگر تم کو ہم پر اعتماد نہیں تھا کہ میں نے کیا کہا :تم نے میرے امر کو سبک شمار کیا ہے تیرا الیچی چاہتاتھا کہ ہمیں واپس لے آئے ہم نے تیرے امر کو سبک شمار نہیں کیا ،
عثمان نے کہا: میں نے نہیں کہا تھا کہ کوئی ابوذر کو بدرقہ نہ کرے ۔
علی نے فرمایا: مگر بنا یہ ہے کہ جو تم کہو وہ مانا جائے ہر معصیت میں تیری اطاعت کروں؟!(٢٩)
ابوذر اور حق طلبی
ابوذر کچھ مدت کے بعد پھر مدینہ واپس لوٹے کہ جب عثمان کے ارد گرد لوگوںکا ہجوم تھا ، ابوذر نے عثمان سے کہا: تم نے مجھے وہاں بھیجاہے کہ جہاں کھانے کو کچھ نہیں ملتا ،درختوں کے سایہ میں زندگی کررہاہوں، میرے لیے ایک غلام اور بیت المال سے میرا حصہ دو، عثمان نے منہ پھیر لیا ابوذر اسی طرف رخ کرکے کہنے لگے یہاں پر حبیب بن سلمہ نے ابوذر سے کہا: ایک ہزار درھم ایک خادم اور پانچ سو گوسفند میرے پاس آپ کے ہیں میں آپ کو دونگا ۔
ابوذر نے کہا: میں فقیر بن کر سوال نہیں کیا کہ تمہیں میرے اوپر رحم آرہاہے! میں نے وہ حق طلب کیا ہے کہ جو میرا حق کتاب میں لکھا ہے عثمان میرا مدیون ہے اسی حال میں علی وارد ہوئے تو عثمان نے کہا: اس بیوقوف کو مجھ سے دور کرو علی نے فرمایا: یہ بے وقوف نہیں ہے بلکہ رسول خدا ۖ سے میں نے سنا ہے کہ کسی ماں نے آسمان کے نیچے ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ زمین میں ہے کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو ۔ان کو مومن آل فرعون کی طرح قراردیاہے اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس کی گردن پر اس کا گناہ ہے اگر سچ کہتا ہے اور بعض عذاب کا وعدہ کہتاہے تو تو دیکھے گا(٣٠)
ابوذر کا خط ،
حذیفہ کے نام جب ابوذر ربذہ میں تنہائی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے تو حذیفہ کوخط لکھا غربت وبیٹے کی وفات غمم وغصہ، حرم رسول خدا سے دوری اور میرے پاس کوئی نہیں کہ جس سے درد دل کہوں آپ کو معلوم ہے کہ میرے بیت المال سے میرے حصہ کو مجھ سے قطع کردیا ہے میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ کسی کا حق لوٹا ہے اور نہ کسی کو اذیت کی ہے مجھے بے گناہ بیابان میں بھیجاہے خدا سے پناہ چاہتاہوں کہ شکوہ وشکایت کروں بلکہ خدا سے تیرے لیے خیر چاہتاہوں اور دعا کا طالب ہوں کہ آپ دعا کریں خدا تمام مومنین ومسلمین اور میرے لیے مشکلات کو حل فرمائے والسلام (٣١)
حذیفہ کاجواب
جواب سلام کے بعدآپ کاخط ملا جو نصیحت کی تم ہمیشہ ہمارے لیے خیر وخوبی خدا سے چاہتے رہے ہو یہ سب خدا تعالی کالطف ہے ہاں میرے بھائی جو تم پر مصیبت وارد ہوئی ہے میں تیرے ساتھ اس غم میں شریک ہوں اگر ممکن ہوتاتو تیرے لیے دفاع کرتا فقط خدا کی پناہ چاہتاہوں غم نہ کرو خدا اس کی پاداش تم کو عطاکرے گا تیرے لیے اٹھتے بیٹھتے دعاکرتارہونگا والسلام (٣٢)
ابوذر اپنے بیٹے کی قبرپر
ابوذر ربذہ میں تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے، روزبروز مشکلات کے ہجوم میں پس رہے تھے کہ اسی حال میں ان کے بیٹے کی وفات ہوتی ہے بیٹے کی لاش تنہا اٹھاتے ہیں، غسل وکفن اور دفن کا خود انتظام کرتے ہیں، آخر میں بیٹے کی قبر کے پاس بیٹھ کر گریہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بیٹا تم نے اچھے اخلاق کے ساتھ زندگی گزاری میں تم سے راضی ہوں اگر تیری جگہ موت آتی تو میں قبول کرلیتا دوست رکھتا ہوں کہ تیری جگہ قبر میں دفن ہوں لیکن یہ حکم خدا ہے کہ جس پر میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے تجھے عارضی گھر کی تکالیف سے جلد بلالیا اور اپنی ہمیشہ کی نعمتوں سے نوازا ہے پھر آسمان کی طرف منہ کرکے دعاکرتے ہیں:
اے اللہ میںباپ ہوکر اس کے حقوق سے درگزر کررہاہوں اور واجب حقوق بخشتاہوں توبھی اپنے حقوق سے درگزر فرماتو عفو درگزر میں مجھ سے زیادہ سزاوار ہے( ٣٣)
ابوذر کا فتوی
ایک آدمی نے ابوذر سے کہا :کہ عثمان کے کارکنان مالیات لینے میں مجھ پر ستم کرتے ہیں اور کچھ زیادہ لیتے ہیں کیا اپنے مال سے کچھ چھپادوں جائز ہے؟ ابوذر نے کہا :نہیں ایسا نہ کرنا بلکہ مال سامنے رکھ کر ان سے کہنا کہ جو تمہارا حق ہے لے لو اگر زیادہ لوگے تو قیامت کے دن تمہارے نامہ ا عمال سے میرے لیے تم کو واپس کرنا پڑے گا اس وقت ایک جوان ابوذر کے سر پر کھڑے تھے کہا :
اے ابوذر مگر عثمان نے تم کو نہیں روکا کہ آیندہ فتوی نہ دیا کرو ابوذر نے کہا: تجھے اس نے مجھ پر باز رس اور رقیب قرار دیا ہے! خدا کی قسم! اگر شمشیر میرے سر پر مارے گا تو میں قبل از شمیر کلمہ شہادتین پڑھ لونگا اور اپنے فتوی سے دست بردار نہیں ہونگا۔
ابوذر کی عبادت
ابوعثمان نہدی کہتاہے: کہ ابوذر کو سوار دیکھا کہ کبھی قبلہ کی طرف سر کو موڑتاہے اور کبھی زمین کی طرف اشارہ !میں نے تصور کیا کہ ابوذر کو نیند آرہی ہے پوچھا ابوذر نیند آرہی ہے ابوذر نے کہا: نہیں بیدار ہوں اور نماز پڑھ رہاہوں ۔
اہل بصرہ کاایک آدمی ابوذر کے بیٹے کی وفات کے بعد ان کے پاس بیٹے کی تعزیت و تسلیت کے لیے آیا اور ان کی گھر والی سے پوچھا ابوذر اب کس حال میں ہے کہا: ہمیشہ اللہ کی عبادت اورتفکر میں وقت گزار تاہے اور تنہائی میں بیٹھ کر فکر ی عبادت کرتاہے ۔ ابن اثیر اسد الغابہ میں لکھتاہے کہ ابوذر رسول خدا کے تین سال بعثت سے پہلے وحدہ لاشریک کی عبادت کرتاتھا جب رسول کی بیعت کی تو شرط کی کہ ہمیشہ حق کہنا حق کا ساتھ دینا اور حق پر مرنا (٣٤)
ابوذر کی وفات
ابوذر کی بیوی نقل کرتی ہے کہ جب ابوذر پر موت کے آثار دیکھے گریہ کرنے لگی ابوذر نے کہا: گریہ کیوں کرتی ہے؟ میں نے رسولخدا ۖ سے سناہے کہ انہوں نے ہم اصحاب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایاتھا: تم میں سے ایک بیابان میں تنہائی کے عالم میں مرے گا جو اسے کفن دے گا وہ خوش نصیب ہوگا جب یہ بات سنی تو اب ان میں سے جو اس دن بیٹھے تھے رسول کی بات سنی کوئی نہیں رہا سوائے میرے اب تم غم نہ کرو جب میں مرجائوں تم راستے پر جاکر بیٹھ جانا ۔
وہاں سے ایک قافلہ گزرے گا ان کو کہنا وہ مجھے دفن کریں گے اسی اثنا میں ایک قافلہ حاجیوں کا وہاں سے گزرا تو ابوذر کی بیوی نے ان کو ابوذر کا بتایا تو وہ اپنی سواریوں سے اترے اور اسے کفن دیا اور مالک اشتر یا عبد اللہ بن مسعود نے نماز جنازہ پڑھی اور دفن کیا اور مالک اشتر ان کی قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر کہنے لگے ابوذر نے کسی کا حق نہیں لوٹا بلکہ حق گوئی کی وجہ سے ملک بدر کیے گئے اے اللہ جنہوں نے ان پر ظلم وستم کیا ہے ان کو ہلاک کر سب نے بلند اواز سے امین کہیٍ پھر ان کی بیوی اور عیال کو مدینہ لے کر چل پڑے۔(٣٥)
..............