بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کے تمام عبادی احکام و پروگرام میں حکمت موجود ہے۔
O اولاً: کسی مکتب نے غور وفکر پر اتنا زور نہیں دیا جتنا کہ اسلام نے، اس لئے کہ سیکڑوں آیات و احادیث لوگوں کو تعقل و تفکر کی دعوت دے رہی ہیں۔
O ثانیاً: قرآن نے مشرکوں اور بت پرستوں پر شدید تنقید کی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور ان کی بے دلیل باتوں کو مانتے ہیں۔
O ثالثاً: قرآن نے خود احکام بیان کرنے کے ضمن میں ان کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور ائمہ معصومین نے ان کی حکمت بیان فرمائی ہے اور عالم اسلام کے دانشمندوں نے اس سلسلے میں کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔
بشری علم و دانش کی پیشرفت کے علاوہ دینی دستورات اور احکام ِ الٰہی کے اسرار کا بھی پردہ اٹھتا جارہا ہے جیسے جیسے زمانہ گذر رہا ہے ویسے ویسے اسلام کی عظمت بڑھتی جارہی ہے، فوق الذکر نکات سے مندرجہ ذیل باتیں لازم آتی ہیں:
(١) یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر زمانہ کے لوگ تمام احکام کی دلیل کو جانتے ہوں ممکن ہے کہ بعض احکام کا فلسفہ و دلیل ابھی تک آشکار نہ ہوا ہو ممکن ہے گردش زمانہ اسے آیندہ آشکار کرے۔
(٢) احکام کے فلسفہ میں صرف اس کے مادّی اور اقتصادی و طبی فوائد ہی کو مدنظر نہیں رکھنا
چاہیے بلکہ اس کے معنوی و روحانی آثار پر توجہ رکھنا چاہیے۔
(٣) جو شخص خدا کو حکمت والا اور اس کے احکام کی بنیاد کو حکمت پر استوار سمجھتا ہے اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس فعل کو انجام نہ دے کہ جس کی دلیل کو وہ نہیں جانتا۔ اگر ایک مریض یہ کہے کہ میں اس وقت تک کوئی دوا نہ کھاؤں گا جب تک مجھے اس کے خواص معلوم نہ ہوجائیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ درد سے مر جائے گا اس کو دوا کھانا چاہیے اور اس کے خواص کی شناخت میں بھی کوشاں رہے۔
(٤) جہاں ہمارے پاس کسی حکم کے فلسفہ کے لئے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہ ہو وہاں ہمیں خاموش رہنا چاہئے اور اپنی عقل سے توجیہ نہیں کرنا چاہئے۔
(٥) اگر ہم جہان ہستی کے بعض اسرار سے آگاہ ہوگئے تو ہمیں مغرور نہیں ہونا چاہئے اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم تمام چیزوں کی دلیلوں کو جان لیں گے۔
(٦) جس طرح ہم ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور خود کو اس کے سپرد کرتے ہیں یا اپنی موٹر گاڑی کسی مکینک کے حوالہ کردیتے ہیں اور اس سے کسی پیچ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتے (کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر، مکینک ان امور سے آگاہ ہیں) دینی مسائل کو بھی اسی طرح قبول کرنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ خدا حکیم و دانا بھی ہے اور سب سے زیادہ مہربان بھی، وہ ظاہری اور باطنی آثار سے باخبر ، نہاں و آشکار سے آگاہ اور آنے والے زمانہ کے حالات کا جاننے والا ہے۔
(٧) اگر حکم خدا کا مختصر فلسفہ ہمیں معلوم ہوگیا تو یہ خیال نہیںکرنا چاہئے کہ ہمیں تمام اسرار معلوم ہوگئے ۔ دریا میں ہاتھ ڈال کر نکالنے والے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ یہی دریا کا پانی ہے بلکہ اسے یہ کہنا چاہئے کہ اتنا سا پانی مجھے ملا ہے۔
جو کسی حکم کے فلسفہ کو سمجھ لیتا ہے اسے یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ میں نے سمجھا ہے بس اس کا اتنا ہی فلسفہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کیا محدود عقل و فکر کا انسان ان احکام کی گہرائیوں تک پہونچ سکتا ہے کہ جن کا سرچشمہ علم خدا ہے۔؟
وہی عقل جو ہمیں احکام کا فلسفہ سمجھنے کی دعوت دیتی ہے یہ بھی کہتی ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے سوال کرو یعنی اولیائے خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاؤ۔
ان مقدمات کے بعد قرآن و حدیث سے کچھ نمونے نقل کرتے ہیں کہ جو احکام کے فلسفہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
قرآن:
نماز کے بارے میں کہتا ہے کہ : '' نماز انسان کو برائیوں سے باز رکھتی ہے۔''(عنکبوت، آیہ ١٥)
دوسری جگہ فرماتا ہے: ''میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔''(طہ، آیہ ١٤)
ایک اور آیت میں فرماتا ہے: ''کہ دلوں کا اطمینان یاد خدا میں ہے۔ (رعد، آیہ ٢٨)
روزہ کے متعلق فرماتا ہے کہ: ''روزہ تم پر اس لئے واجب کیا گیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(بقرہ آیہ ١٨٤)چونکہ بیشتر گناہ شہوت کی منھ زوریوں سے وجود میں آتے ہیں اور روزہ اس کی منھ زوریوں کو روکتا ہے اور متقی بناتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ رمضان میںجرائم کی شرحِ کم جاتی ہے۔
حج کے بارے میں فرماتا ہے: ''زیارت حج کے لئے جاؤ تاکہ وافر مقدار میں منافع حاصل کرسکو۔''(حج، آیہ ٢٨) حج کے اجتماعی اور سیاسی فوائد میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
زکوٰة کے بارے میں فرماتا ہے : ''لوگوں اور ان کے اموال سے زکوٰة لیجئے تاکہ (ان کی روح بخل اور دنیا پرستی سے) وہ پاک ہوجائیں۔'' (توبہ، آیہ ١٠٣)
شراب اور قمار کے متعلق فرماتا ہے: ''شیطان انہیں کے توسط سے تمہارے درمیان بغض و عداوت پیدا کرتا ہے اور تمہیں یاد خدا سے غافل کردیتا ہے۔'' (مائدہ، آیہ ٩١)
قصاص کو معاشرہ کی زندگی قرار دیتا ہے (بقرہ آیہ ١٧٩)
کیونکہ اگر کسی معاشرہ میں ظالم کو کیفر کردار تک نہیں پہونچایا جاتا تووہ معاشرہ ظالم کا دوست اور مظلوم کا دشمن ہے اور اس طرح امن و امان (کہ جو اجتماعی حیات ہے) کا جنازہ نکل جاتا۔
یہ تھے ان آیات قرآنی کے نمونے کہ جن میں احکام الٰہی کے فلسفہ کی طرف بھی اشارہ تھا۔
O حدیث:
اس موضوع پر بے شمار حدیثیں ہیں لیکن ہم صرف حضرت علی علیہ السلام کی حدیث کے چند جملوں کو ''نہج البلاغہ'' سے نقل کررہے ہیں ، آپ فرماتے ہیں:
''خداوند عالم نے شرک سے پاک ہونے کے لئے ایمان کو واجب کیا اور نماز کو تکبر سے محفوظ رہنے کے لئے اور زکوٰة کو رزق و روزی کا ذریعہ بنایا۔''
خدا پر ایمان ، انسان کو شرک آلود افکار اور بیہودہ عشق وغیرہ سے نجات دلاتا ہے۔ نماز جو کہ تمام بزرگیوں کا سرچشمہ ہے انسان کو تکبر سے بچاتی ہے۔ اور قدرت سے استمداد کا وسیلہ ہے۔
زکوٰة وہ آلہ ہے کہ جو معاشرہ کے معطل کاموں کو زندگی عطا کرتا ہے اور محروم افراد کو ثروت مند بنادیتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں مہر ومحبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور زکوٰة دینے والے کے قلب سے دنیا و مال دنیا کی محبت نکال دیتا ہے اور زکوٰة دینے کی وجہ سے جو اصل سرمایہ میں کمی واقع ہوتی ہے وہ اس کے سبب اقتصادیات میں مزید کوشش کرتا ہے تاکہ اس کا جبران کرسکے، طبیعی بات ہے کہ جس کے اخراجات زیادہ ہوجاتے ہیں وہ اپنے کاروبار کو وسعت دیتا ہے پس زکوٰة بھی رزق کا ایک ذریعہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی اس حدیث میں بیس احکام الٰہی کے فلسفے مثلاً نماز، روزہ ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد، زنا و شراب کی حرمت، اجرائے حدود ، اطاعت امام وغیرہ کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن ہم نے اسے مختصر نقل کیا ہے ۔
O فطرت:
فطرت انسان بھی بعض احکام کے فلسفہ سے واقف ہے ہر زمانہ کا انسان جھوٹ، خیانت ، تہمت، قتل، چوری، ظلم، کم تولنے وغیرہ کو برا اور حرام سمجھتا ہے اسی طرح وہ عدالت و پاکیزگی، خدمت خلق وغیرہ کو اچھا سمجھتا ہے۔ یہ انسانوں کی فطرت میں سے ہے، فطرت الہامی طور پر بعض نیکیوں اور بعض برائیوں کا ادارک کرتی ہے جیسا کہ سورہ شمس کی آیت نمر ٨ میں ارشاد ہے: ''ہم نے انسان پر اچھے اور برے کا الہام کیا ہے ۔'' ''
O علم :
ہمیں مختلف شعبوں میں علم کی پیشرفت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ علم نے احکام کے فلسفہ کے بیان میں مدد دی ہے اور فلسفۂ احکام سے بہت سے پردوں کو اٹھادیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ منشیات انسان کے بدن کے لئے مضر ہے اس سے ااس کے حرام ہونے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔
اسلام کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو منع کرتا ہے اور علم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے تمام پیشاب بآسانی خارج نہیں ہوتا یا غسل جنابت میں سارے بدن کو دھونا قصد قربت کے ساتھ اس لئے ہے تاکہ زہریلے اثرات بھی زائل ہوجائیں اور (انسان) یاد خدا سے بھی غافل نہ رہیں۔
اگر اسلام نے انار کی شاخ سے مسواک کرنے سے منع کیا ہے تو اس لئے کہ وہ
دانتوں کی جڑوں کو کمزور کرتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے تمام دستورات، واجبات، محرمات، مستحبات، مکروہات میں یہاں تک کہ کھانے پینے، لباس، زندگی کے وسائل و مسائل میں سے کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں محققین و علمائے اسلام نے بہت سی کتابیں تحریر کیں۔ (١)
ہماری اس مختصرتحریر میں ان سب کی گنجائش نہیں ہے لیکن سب کا لبّ ولباب یہ ہے کہ تمام اسلامی احکام کی بنیاد حکمت و فلسفہ پر استوار ہے چاہے ہم انہیں عقل و علم کی مدد سے جانتے ہوں یا ابھی تک ان کے پوشیدہ اسرار کے بارے میں تحقیق نہ کرسکے ہوں بہرحال پرستش و بندگی کی روح کا تقاضا یہ ہے کہ جب ہمیں کسی چیز کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا تعلق احکام خدا سے ہے تو اس کو قبول کرکے عمل کرنا چاہئے۔
تسلیم سب سے بڑا فلسفہ ہے:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا کے دستورات اور شرع کے احکام دلیل و فلسفہ سے خالی نہیں ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم تمام احکام و فرمان خدا میں اقتصادی ، طبی و علمی دلیل تلاش کریں۔ مسلمان کو وحی الٰہی کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہئے اور یہی تسلیم ہونے کا جذبہ کمال آدمیت ہے اور بعض احکام تو صرف جذبۂ تسلیم و بندگی کی آزمائش کے لیے ہیں۔
حضرت ابراہیم کو قربانی اسماعیل کا حکم اس کا منھ بولتا ثبوت ہے اور حضرت ابراہیم کی کمال بندگی کا نمونہ ہے۔ عبادت کے دستورات اور احکام خدا میں کبھی ان کو تسلیم کرنا اور ان کے انجام دینے ہی میں خدا کی خوشنودی ہوتی ہے اور وہ محض پروردگار کی اطاعت قرار پاتی ہے عبادت کا مقصد روح انسان کی پرورش ہے بالکل اسی طرح جیسے انسان کے جسم کی تربیت کیلئے ورزش ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''خدایا ! میں تیری عبادت نہ جنت کے شوق میں کرتا ہوں نہ جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا تو عبادت کرتا ہوں۔''
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
''خدایا ! میرے لئے یہی افتخار کافی ہے کہ تیرا بندہ ہوں۔''
اولیائے خدا عبادت سے لطف اندوز ہوتے ہیں دیگر گناہگار اس کی شیرینی عبادت سے محروم ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی محبت کی بنا پر کسی کی خدمت کرتا ہے نہ کسی مالی منفعت کے لئے بلکہ اس شخصیت کی خدمت ہی اس کا مقصد ہوتا ہے بہت سے لوگ ہیں کہ جو کسی شخصیت کے پاس بیٹھنے یا اس کی تصویر اپنے پاس رکھنے کو فخر سمجھتے ہیں اس میں ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا صرف اس کی نزدیکی انہیں محبوب ہوتی ہے۔ جب اس دنیا میں انسان کسی کی قربت کو فخر سمجھتا ہے تو کیا خدا کے سامنے اس کی عبادت کرنا مایۂ افتخار نہیں ہے؟
بہانہ یا تحقیق:
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن میں تسلیم و تعبد کا جذبہ نہیں ہوتا اور وہ بار تکلیف سے سبکدوش ہونے کے لئے بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور اس بہانہ جوئی کو وہ تحقیق کا نام دیتے ہیں اور ہر حکم دین کے لئے دلیل و فلسفہ تلاش کرتے ہیں، بہت سے خود کو روشن فکر شمار کرتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:
'' انسان چاہتا ہے کہ وہ برائی کرتا چلا جائے اور پوچھتا یہ ہے کہ قیامت کب آنے والی ہے؟(قیامت ٥)
یہ افراد ان بچوں کی طرح ہیں جو ہر لحظہ بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور جب ایک بہانہ ختم ہوجاتا ہے تو دوسرا بہانہ نکال لیتے ہیں۔ قرآن ایسے افراد کے متعلق کہتا ہے:''اور جب یہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منھ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک مسلسل جادو ہے۔''(۔ قمر ٢)
یہ ڈاکٹر و مکینک کے مقابل اور شیطانی وسوسوں کے سامنے سپر انداختہ ہیں اور بے چون و چرا ان کی باتوں کو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن جب دینی احکام کی بات آتی ہے تو محقق و منطقی بن جاتے ہیں۔
ایک مڈبھیڑ:
ایک روز ایک شخص نے پوچھا: ''نماز صبح دو رکعت کیوں ہے؟'' میں نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہے خدا کا حکم ہے لہٰذا انجام دینا چاہئے۔جیسے ہی اسے یہ اندازہ ہوا کہ میں نہیں جانتا ویسے ہی اس نے روشن فکروں کی صورت بنائی اور کہا کہ '' (آج کی) دنیا ، دنیائے علم ہے آج بغیر علم کے دین صحیح نہیں ہے۔'' میں نے بھی اس سے ایک سوال کرلیا کہ: آپ بتائیے کہ انار کا پتا چھوٹا ہے لیکن انگور کا پتا بڑا ہوتا ہے کیوں؟ اس نے کہا: ''مجھے معلوم نہیں ہے۔''میں نے بھی ویسی ہی شکل بنائی اور کہا: دنیا، دنیائے علم ہے آپ کو ثابت کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے؟
جب میری بات سے اس کا غرور تھوڑا کم ہوگیا تو میں نے کہا: برادر! میں بھی مانتا ہوں کہ دنیا، دنیائے علم ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ پوری کائنات کے اسرار ہم آج ہی جان لیں۔ممکن ہے کہ انار کے باریک اور چھوٹے پتّے اور انگور کے چوڑے پتّے انکے پھلوں کے ذائقہ میں کوئی ربط ہو کہ جس کو ابھی تک ماہرین ارضیّات و نباتات کشف نہیں کرسکے ہیں۔ ہم اسرار و فلسفہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں لیکن کسی کے اس دعوے کو قبول نہیں کرسکتے کہ وہ پوری دنیا کے اسرار سے واقف ہے۔
حقیقت ہے کہ اگر ہم عمل سے پہلے اس کے فلسفہ کو جانیں اور پھر اس کو انجام دیں تو یہ خدا پرستی نہیں ہوگی۔ وحی اسرار آمیز علم بشری سے بلند و برتر ہے جب کہ یہ جدت پسند ہر ایک قانون کو قبول کرلیتے ہیں لیکن دین خدا کے قوانین کا جب مسئلہ آتا ہے تو منطقی بحث کرنے لگتے ہیں، کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ اسرار نماز کی تجلی سے اقتباس