اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

کاتبان وحی

پیغمبر اکرم (ص) نے کیونکہ ظاھر میں کسی سے لکھنا پڑھنا نھیں سیکھا تھا اور لوگوں نے بھی آپ کو لکھتے پڑھتے نھیں دیکھا تھا لہٰذا لوگ آپ کو ”اْمّی“کہہ کر خطاب کرتے تھے لہٰذا قرآن نے بھی آپ کے لئے اسی لقب کو استعمال کیا اور ارشاد ھوا ( [1] )
”یعنی تم لوگ ایمان لے آوٴ اللہ پر اور اسکے رسول اْمّی پر“۔
اْمّی یعنی جوماں سے منسوب ھو اور اْمّی اْسے کہتے ھیں جومادر زادی ان پڑھ ھو،اور اس کے دوسرے معنی بھی ھیں ”اْمّ القری“ (یعنی شھر مکّہ) سے نسبت دیتے ھوئے یعنی وہ جو مکہ میں پیدا ھواھو قرآن مجید میں مختلف موارد میں لفظ امی کو اسی ” اْم ّالقرای“ سے مشتق کیاگیا ھے مثلاً< ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْاٴُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْهمْ۔۔۔>([2])
”یعنی وہ اللہ جس نے مکہ والوں میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا“۔
مگر پھلے والا احتمال زیادہ مشھور ھے کیونکہ اوّلاً:دوسری آیات کے ساتھ زیادہ سازگار ھے مثلاً< وَمِنْهمْ اٴُمِّیُّونَ لاَیَعْلَمُونَ الْکِتَابَ إِلاَّ اٴَمَانِیَّ۔۔۔>([3])
”یعنی ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے ھیں جو کتاب کو پڑھنا نھیں جانتے ھیں مگر صرف ان کی آرزوئیں ھیں تو اس آیت میں جملہٴ لفظ اْمّیّون کی تفسیر ھے ثانیاً:قرآن کے معجزہ ھونے کے ساتھ بھی جو چیز زیادہ سازگار ھے وہ آنحضرت کالکھا پڑھانہ ھونا ھے جیسا کہ ارشاد ھوا: ([4])
”یعنی تم نے اس سے پھلے کسی بھی کتاب کو نھیں پڑھاھے اور نہ اپنے ھاتھ سے کچھ لکھاھے وگرنہ باطل فکر رکھنے والے افراد شک میں پڑجاتے“۔
یہ آیت اس بات پر دلیل ھے کہ پیغمبر (ص)نے اس سے پھلے نہ کچھ پڑھا نہ لکھامگر یہ بات اس مطلب پر ھر گز دلالت نھیں کرتی ھے کہ پیغمبر (ص) بالکل لکھنا وپڑھنا ھی نھیں جانتے تھے اسی حد تک معترضین کو خاموش کرنے لئے کافی ھے کیونکہ وہ لوگ پیغمبر (ص)کو اصلاًلکھنے وپڑھنے والا نھیں سمجھتے ھیں اسی لئے وہ لوگ اعتراض کی راہ کو اپنے لئے بند پاتے ھیں،شیخ طوسی(رہ)مذکورہ آیت کی تفسیرمیں تحریر کرتے ھیں ”مفسرین نے کھا کہ پیغمبر لکھنا نھیں جانتے تھے مگر آیت اس مطلب پر دلالت نھیں کررھی ھے بلکہ صرف اس مطلب کی طرف اشارہ کررھی ھے کہ پیغمبر لکھتے پڑھتے نھیں تھے لہٰذا ایسا بھی ھوتا ھے کہ بعض لوگ لکھتے نھیں ھیں مگر ان میں لکھنے کی صلاحیت ھوتی ھے یعنی وہ ایسا ظاھر کرتے ھیں کہ انھیں لکھنا نھیں آتالہٰذا آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کررھی ھے کیونکہ پیغمبر (ص)نے لکھنا وپڑھنا شروع ھی نھیں کیا تھا لہٰذا آپ کو لکھنے کی عادت نھیں تھی“۔([5])
علامہ طباطبائی نے بھی مذکورہ نظر یہ کو قبول کیا ھے۔([6])
اس کے علاوہ خود لکھنا پڑھنا آنا کمال ھے نقص وعیب نھیںھے اور کیونکہ پیغمبر کو تمام کمالات خدا کی طرف سے خاص طور پر عنایت ھوئے تھے لہٰذا ان کے لئے کسی استاد کی ضرورت نھیں تھی اور یہ بات ناممکن تھی، کہ پیغمبر کے کمالات میں اس کمال کی کمی ھوتی۔
پیغمبر اکرم (ص)کا اپنے لکھنے کو ظاھر نہ کرنا سبب بنا کہ آپ اپنے پاس کچھ کاتبوں کو رکھیںجومختلف باتوں کومنجملہ ان میں سے وحی کو آپ کے لئے کتابت کریں لہٰذا چاھے مکی زندگی ھو یا مدنی زندگی آنحضرت(ص) نے اچھے کاتبوں کو اپنے پاس کتابت کے لئے رکھا ھواتھا،سب سے پھلے شخص جنھوں نے مکہ میں پیغمبر کے لئے کتابت کاکام مخصوصاًوحی کی کتابت کاکام شروع کیا وہ علی بن ابی طالبں تھے جو پیغمبر کی آخری عمر تک اس کام کو انجام دیتے رھے اور پیغمبر کا بھی اکثر اصرار حضرت علی (ع) سے یھی ھوتا تھا کہ تم ھی میرے اوپر نازل ھونے والی وحی کو لکھاکرو تاکہ کوئی بھی قرآن اور وحیٴ آسمانی کی بات علی (ع)سے پوشیدہ نہ رھے۔
سلیم بن قیس ھلالی کہتے ھیں میں ایک دفعہ مسجد کوفہ میں علی (ع) کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا اور لوگ بھی علی (ع)کے اطراف میں گھیر ا ڈالے بیٹھے ھوئے تھے کہ علی (ع)نے فرمایا: ”تم لوگوں کو جو کچھ بھی پو چھنا ھے مجھ سے پو چھو مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں پو چھو خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نھیں جو پیغمبر (ص)پر نازل ھوئی ھو اور آنحضرت (ص)نے اسے میرے لئے تلاوت نہ کیا ھواور اس کی تفسیروتاٴویل مجھے نہ سکھائی ھو“ ایک شخص نے سوال کیا:جو آیات آپ کی عدم موجودگی میں نازل ھوا کرتی تھیں ان کے لئے آپ کیا کرتے تھے؟تو حضرتں نے فرمایا:”جب میں بعد میںپیغمبر کی خدمت میں پہنچتا تھا تو پیغمبر(ص) مجھ سے فرماتے تھے کہ اے علی (ع)! تمھاری عدم موجودگی میںیہ یہ آیات نازل ھوئی ھیں اور ان کی میرے سامنے تلاوت کیاکرتے تھے اور ان کی تاویل کی بھی مجھے تعلیم دیتے تھے“۔([7])
دوسرے نمبر پر مدینہ میں سب سے پھلے کتابت وحی کے لئے اُبیّ بن کعب انصاری منتخب ھوئے جو کہ زمانہٴ جاھلیت سے لکھنے میں کافی مھارت رکھتے تھے پیغمبر(ص)نے پورے قرآن کو ان کے

سامنے پڑھا تھا اور انھو ں نے لکھا تھا اسی لئے عثمان کے دور میں جب قرآن کی جمع آوری کا مسئلہ پیش آیاتو اس جمع آوری کر نے والے گروپ کا سر پرست اْبیّ بن کعب کو بنایا گیا لہٰذا کسی وقت بھی کوئی مشکل پیش آتی تو اْبیّ بن کعب کی رائے کے تحت اس مشکل کو حل کردیا جاتا تھا۔( [8])
زید بن ثابت مدینہ میں پیغمبر(ص) کے پڑوس میں رہتے تھے اور لکھنا جانتے تھے لہٰذا پیغمبر(ص)نے انھیں بھی کتابت وحی کی دعوت دی اور ان کی کتابت بھی ھلکے ھلکے مشھورھوگئی،حتی انھوں نے پیغمبر(ص) کے حکم سے عبرانی زبان پڑھنا لکھنا سیکھ لی تھی اور عبرانی زبان میں آنے والے خطوط کو پیغمبر(ص) کے سامنے پڑھتے اور ان کے جواب لکھا کرتے تھے زید بن ثابت دوسرے اصحاب کی نسبت لکھنے کے مسائل میں پیغمبر(ص) کی خدمت میں زیادہ رھے۔ ( [9])
لہٰذا سب سے پھلے نمبر پر کاتب وحی حضرت علی (ع) پھر اْبیّ بن کعب اور پھر زید بن ثابت تھے بقیہ کاتبان وحی کا درجہ ان تینوں کے بعد ھے۔
ابن اثیر لکھتے ھیں:”پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں کتابت وحی کے لئے عبداللہ بن ارقم زھری بھی تھے جو پیغمبر(ص) کے خطوط کے جواب دیاکرتے تھے مگر پیغمبر(ص) کے معاھدوں اور صلح ناموں کی لکھنے کی ذمہ داری علی بن ابی طالب (ع) کی تھی“اور پھر لکھتے ھیں”منجملہ اور بھی کا تبان وحی تھے جن میں خلفاء ثلاثہ،زید بن عوام،خالد، ابان اور سعید بن عاص کے دو بیٹے ،حنظلہ ،اْسَیدی،علاء بن حضرمی،خالد بن ولید، عبداللہ بن رواحہ،محمد بن مُسلمہ ،عبداللہ بن ابی سلول،مغیرة بن شعبہ،عمر وبن العاص، معاویہ بن ابی سفیان،جھم یاجھیم بن صلت ،معیقب بن ابی فاطمہ وشرجیل بن حسنہ تھے ‘ ‘ ۔
ظاھراً یہ وہ افراد تھے جو اس وقت عرب میں لکھنا پڑھنا جاننے والے شمار ھوتے تھے جن سے کبھی کبھار پیغمبر لکھوانے کا کام لیا کرتے تھے لیکن کاتبان وحی فقط تین افراد تھے دیگر افراد سے صرف کبھی کبھار لکھوانے کاکام لیا جاتا تھا۔( [10])
زمانہٴ رسالت میں کتابت کا طریقہٴ کاریہ تھا کہ اس وقت جو بھی لکھنے کے لئے چیز مل جاتی تھی اس پر لکھ لیا جاتا تھا جوکہ مندرجہ ذیل چیزیں ھیں:
۱۔عُسُب:(عُسِیب کی جمع ھے)یعنی درخت خرمہ کی شاخوں کی درمیانی لکڑی اور اس کے پتے۔
۲۔لِیخاف:(لَخْفہ کی جمع ھے)یعنی پتلے اور سفید پتھر۔
۳۔رِقاع:(رقعہ کی جمع ھے)یعنی کھال کے ٹکڑے ،پتّے،کاغذ۔
۴۔اُدُم:(اَدیم کی جمع ھے)یعنی لکھنے کے لئے تیار کی ھوئی کھال۔
آیاتِ قرانی مذکورہ چیزوںپر لکھی جانے کے بعد پیغمبر (ص) کے پاس ان کے گھر میں محفوظ کردی جاتیں تھیں اور اگر کبھی کوئی صحابی یہ چاہتا تھا کہ کسی ایک یا بعض سوروں کے نسخوں کو اپنے پاس رکھیں تو وہ پتوں یاکاغذوں پر لکھ کر کپڑے میں لپیٹ کر دیوار پر لٹکا دیا کرتا تھا ۔( [11])
آیات کو بطور منظم ومرتّب ھر سورہ میںلکھ دیاجاتاتھا اور ھر سورہ نازل ھوتے ھوئے بسمہ اللہ سے آغاز ھوتا اور جب دوسرا سورہ نازل ھوتا تو اس سے پھلے بسم اللہ نازل ھوتا جو پھلے سورہ کے ختم ھونے اور دوسرے سورہ کے آغاز ھونے پر دلالت کرتا تھا اس طرح سے تمام سورے ایک دوسرے سے جدا اور مستقل لکھے جاتے رھے البتہ زمانہ رسالتِ پیغمبر(ص)میں سوروں کے درمیان کسی طرح کی ترتیب نھیں تھی صرف سوروں کو علیحدہ علیحدہ رکھا جاتا تھا۔

________________________________________

[1] سورہ اعراف آیہ۱۵۷،۱۵۸۔
[2] سورہ جمعہ آیہ۲۔
[3] سورہ بقرہ آیہ۷۸۔
[4] سورہ عنکبوت آیہ۴۸۔
[5] التبیان،ج۱۶ص۱۹۳۔
[6] المیزان،ج۱۶،ص۱۴۵۔
[7] السقیفہ؛ ص۲۱۴۔
[8] التمھید ،ج۱،ص۳۴۸۔
[9] مصاحف سجستانی،ص۳۔
[10]تاریخ القرآن ؛ص۲۰۔
[11] التمھید؛ج۱،ص۲۸۸۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
بے فاﺋده آرزو کے اسباب
شیطان اور انسان
سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟
امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام

 
user comment