اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

تفسیر سورہ فاتحہ تفسیر فصل الخطاب سے اقتباس

تفسیر سورہ فاتحہ تفسیر فصل الخطاب سے اقتباس

بسم الله الرحمن الرحیم

تفسیر سورہ  فاتحہ 
رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خلفاء کی طرف سے جو قرآن جمع کیا گیا اُس میں اکثر ایک سورہ کی آیتیں دوسرے سوروں میں چلی گیئں مگر بعض سورے جو شروع سے آخر تک ایک ساخت رکھتے ھیں اُن میں یقین کیا جاسکتا ھے کہ وہ شروع سے اسی صورت پر تھے جس طرح اس وقت موجود ھیں."سورہ حمد" ایسے ھی سوروں میں سے ھے اس کے علاوہ چونکہ اس سورہ کا ھر نماز میں بالتکرار پڑھنا فرضِ عین ھے لہذا زمانہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھی سے اس کو ترتیب کے لحاظ سے بھی تواتر کا درجہ حاصل ھوگیا جو اس مرتبہ پر بہت کم سوروں کےلیے سمجھا سکتا ھے.
سوروں کے کچھ نام بھی وقتِ نزول ھی سے مقرر تھے جو کسی خاص واقعہ شخص یا لفظ کی مناسبت سے قرار دیے گئے تھے لیکن انہیں ایسی توفیقی حیثیت حاصل نہیں ھے کہ کسی دوسرے نام کا اطلاق جائز نہ ھو لہذا اگر اس واقعہ یا شخص وغیرہ کے علاوہ کوئی اور خصوصی لفظ یا واقعہ بھی اھمیت کے ساتھ کسی سورہ میں مذکور ھو اور اس کی شناخت کا فائدہ دے سکتا ھو یا کوئی خاص نمایاں صفت کسی سورہ کی ھو تو کی مضائقہ ھے کہ اس سے بھی اس سورہ کو یاد کیا جاسکے اور غالبًا یہی وجہ ھے کہ ایک ایک سورہ کے کئی کئی نام کتابوں میں وارد ھیں.ان سب ناموں کا من جانب اللہ یا از جانبِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھونا ثابت نہیں ھے.
تمام سوروں میں سب سے زیادہ نام سورہ حمد کے وارد ھوئے ھیں اور یہ اس کی عظمت کا مقتضا ھے
سیوطی نے اتقان میں 25 تک نام گنوائے ھیں ان میں سب سے مشہور و معروف نام "فاتحۃ الکتاب یا فاتحہ : ام الکتاب : السبع المثانی اور سورہ حمد" ھیں. فاتحۃ الکتاب نام احادیث میں زیادہ آیا ھے.
فاتحۃ کے معانی ھیں افتتاح یعنی آغاز کرنے والی چیز.یہ نام اگر آغازِ تنزیل سے ثابت ھوجائے تو وہ اس کی دلیل ھوگا کہ کم از کم اس سورہ کا محلِ وقوع یقینًا مطابق منشائے الہی ھے.
ان ناموں کے علاوہ دوسرے نام غیرمشہور اور صرف کتابوں میں درج ھیں جیسے : "الاساس ، سورة التعلیم المساءلة ، سورة الكنز ، الشفاء والشافیة ، سورة الصلوة ، الكافيه ، الوافيه" جنہیں علامہ نیشاپوری نے غرائب القرآن میں درج کیا ھے.
جامعیت اس سورہ کی یہ ھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہم السلام نے اسے تمام قرآن کا خلاصہ بتایا ھے یہ بات جمہورات میں شہرت پاگئی چنانچہ ابن ندیم نے اپنی فہرست میں دو جگہ ابو زید بلخی کی ایک کتاب کا ذکر کیا ھے : "فی ان سورةالحمد تنوب عن جمیع القرآن" ھمارے فہم کے مطابق اس کی تشریح یہ ھے کہ تمام قرآن کا مقصدِاصلی دو باتیں ھیں "اعتقاد اور عمل"
اعتقاد کے دو شعبے ھیں :
"مبداء اور معاد"
عمل کے بھی دو شعبے ھیں :
"اچھے اوصاف سے اتصاف اور برے اوصاف سے اجتناب"سورہ حمد ترتیب وار ان تمام امور پر مشتمل ھے.

"الحمدلله رب العالمین الرحمن الرحیم" مبداءاول یعنی حضرت احدیت کا اعتقاد "مالك یوم الدین" معاد یعنی آخرت "ایاك نعبدواياك نستعين اهدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیهم" اچھے اعمال سے اتصاف
اور"غیرالمغضوب علیهم ولاالضآلین" برے اعمالوں سے اجتناب.
معلوم ھوتا ھے کہ سورہ حمد ایک متن ھے اور تمام قرآن اسکی شرح.وہ اجمال ھے اور مجموعہ قرآن مجید اسکی تفصیل.
قرآن مجید کے سوروں کی ایک تقسیم بااعتبار زمانہ نزول ھے یعنی کچھ مکی سورے وہ ھیں جو قبل ھجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ھوئے اور کچھ مدنی ھیں جو بعدِ ھجرت نازل ھوئے.چاھے انکا نزول مدینہ کے اندر نہ ھوا ھو.

قرآن مجید کے سوروں کی ایک تقسیم بااعتبار زمانہ نزول ھے یعنی کچھ مکی سورے وہ ھیں جو قبل ھجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ھوئے اور کچھ مدنی ھیں جو بعدِ ھجرت نازل ھوئے.چاھے انکا نزول مدینہ کے اندر نہ ھوا ھو.
سورہ حمد کے متعق اختلاف ھے کہ وہ مکہ میں نازل ھوا ھے یا مدینہ میں یا دونوں جگہ _ صحیح یہ ھے کہ وہ مکی ھے یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ معظمہ میں تھے تب ھی نازل ھوا بلکہ تحقیق یہ ھے کہ بالکل شروع شروع اترا ھے اس لیے کہ نماز بعثت کے بعد ھی سے جاری ھوگئی تھی اور سورہ حمد نماز کا لازمی جزو ھے.
پاکستان کے ایک باخبر اور سنجیدہ صاحب قلم سید حشمت حسین صاحب جعفری نے اپنے مضمون میں جسکا عنوان ھے "ابتداء نزول وحی کے متعلق احادیث روایت و درایت کے آئینے میں" اپنے موضوع کے سلسلہ کے اقوال کو درج کرتے ھوئے لکھا ھے :
"قول چہارم یہ ھے کہ سب سے پہلے سورہ فاتحہ کا نزول ھوا.امام واحدی نے اپنی کتاب "اسباب النزول" میں اس بارے میں ایک روایت نقل کی ھے اور لکھا ھے کہ یہ قول علی بن ابی طالب علیہم السلام کا ھے (اسباب النزول للواحدی مطبوعہ مصر)
اس سے اس قول کی نفی نہیں ھوتی کہ سب سے پہلے سورہ اقراء کی پانچ آیتیں "مالم یعلم" تک نازل ھوئیں (المنتظر لاھور 20فروری و 5مارچ 1968ء)
علامہ نیشاپوری نے غرائب القرآن (مطبوعہ ایران) میں سورہ الحمد کے ناموں کے ذیل میں لکھا ھے :"تسمیتهابفاتحةالکتاب قیل لانها اول سورةنزلت من السمآء_ روی عن علی بن ابی طالب (ع) انه قال نزلت فاتحة الکتاب بمکةمن کنزتحت العرش ولهذا قال اکثر العلماء انها مکیة و خطاء وا مجاهدافی قوله انهامدینةوکیف لاوقدصح عن النبی (ص) فی حدیث ابی بن کعب انها من اول مانزل بالقراٰن وانها السبع المثانی و سورة الحجر مکیة بلاخاف"

"اسکا نام فاتحۃ الکتاب ھوا ھے ایک قول کےمطابق اس لیےکہ وہ سب سے پہلاسورہ ھے جو عالم بالا سے اترا. حضرت علی بن ابی طالب (ع) سے روایت ھے فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب مکہ میں عرش کے نیچے کے ایک خزانہ سےنکل کرنازل ھوااسی لیےاکثر علماء نے کہا ھے کہ وہ مکیہ ھے اور مجاھد کےقول کوکہ وہ مدنیہ ھے غلط ٹھہرایا ھے اور کیونکر ایسا نہ ھو جبکہ پیغمبر خدا (ص)سے'ھےکہ یہ قرآن کےابتدائی نزول شدہ اجزاء میں سے ھے پھریہ کہ اسی سورہ کا نام سبع مثانی ھےجسکا
ذکر سورہ حجر میں ھے جو بلا اختلاف مکی سورہ ھے"
غور کرنے سے سمجھ میں آتا ھے کہ سب سے پہلے اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ھوئیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کچھ پڑھنے کی ھدایت ھوئی ھے.اب اسکے بعد کیا پڑھا جائے؟؟؟ اسکی تعلیم کےلیے بوحی خاص رسول صلی اللہ علیہ والہ پر "سورہ حمد" اتارا گیا کہ اسکی قراءت کی جائے.
اسی سے اس سورہ کے اندازِبیان کا راز معلوم ھوتا ھے کہ وہ دوسرے اجزائے قرآنی سے مختلف کیوں ھے.قرآن میں عمومًا اندازِتخاطب سے نمایاں ھے کہ وہ خداوندِعالم کا کلام ھے لیکن "سورہ حمد" میں اندازِبیان سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ بندہ کی عرض ھے اپنے خدا کی بارگاھ میں.
اصل یہ ھے کہ وہ کلامِ خدا اس معانی سے ھے کہ اللہ کے ارادہ خاص سے مثلِ بقیہ اجزائے قرآن اس کی انشاء ھوئی ھے اور اسی اعتبار سے وہ قرآن مجید کا جزو ھے.مگر بطور کلامِ الہی نہیں اتارا گیا ھے بلکہ بطورِتعلیمِ رسول صلی اللہ علیہ والہ اور امت رسول(ص) کی قراءت اور اللہ کی بارگاھ میں عرض داشت پیش کرنے کےلیے اتارا گیا ھے اور جس طرح
"قل ربی زدنی علما"
کہیئے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اور اضافہ فرما"
اس میں شروع کا لفظ "قل" جسکا ترجمہ ھوا "کہیئے" دعائے عبد کو کلامِ معبود میں منسلک کرتا ھے، اسی طرح "سورہ حمد" کے پہلے "اقراء" یعنی "پڑھیئے" اس سورہ کو کلامِ الہی میں منسلک کرنے کا ذریعہ ھے.

٭بسم الله الرحمن الرحیم٭

سہارا اللہ کےنام کا جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ھے"
یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ھے اور چونکہ مثل دوسرے سوروں کے وہ سورہ اقراء کا بھی جزو ھے اس لیے ماننا پڑتا ھے کہ قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اتری وہ "بسم اللہ" ھی ھے جسکی صراحت بعض کتبِ اھل سنت میں بھی موجود ھے.
'آیۃ' کے لغوی معانی نشانی کے ھیں.اسکے علاوہ ایک مستقل پیغام یا خبر کو بھی آیۃ کہا جاتا ھے.غالبًا اسی دوسرے معانی کی مناسبت سے ھر سورہ کی تقسیم آیتوں پر ھوئی یعنی کلام کا ایسا فقرہ جہاں سلسلہ کلام رکنے کی علامت میں ایک لفظ اس طرح آگیا ھے جیسے شعر میں قافیہ ھوتا ھے.مگر اس میں قافیہ کے قیود و شرائط کی پابندی نہیں ھے.اسی لیے اُسے سجع کے لفظ سے یاد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سجع نثرِکلام میں وھی ھوتا ھے جو شعر کے قافیہ والی پابندی کے ساتھ ھو.یہ اختتامی الفاظ اپنی نوعیت کے ساتھ قرآن سے مخصوص ھیں اور انکا اصطلاحی نام "فواصل" ھے.
اس آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کی خصوصیت و اھمیت اس سے ظاھر ھے کہ یہ ھر سورہ کی ابتدا میں اتاری گئی اس طرح جتنے قرآن میں سورہ ھیں اتنی ھی تعداد میں یہ آیت ھے.صرف سورہ براءت کا آغاز بسم اللہ سے نہیں کیا گیا اس لیے کہ یہ آیت رحمت ھے اور وہ سورہ سورہ عذاب.یہ کمی پوری ھوگئی اس طرح کہ سورہ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے مکتوب میں جو ملکہ سبا کے نام تھا یہ آیت یوں آگئی کہ
"انه من سلیمان وانه بسم الله الرحمن الرحیم"
اور اس طرح بسم اللہ کی تنزیلی تعداد سوروں کی گنتی کے بالکل برابر ھوگئی.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی متواتر احادیث سے یہی ثابت ھوتا ھے کہ بسم اللہ سورہ کا جزو ھے اور اسی پر آئمہ اھلبیت علیہم السلام کا اجماع رھا ھے جو صحیح السند روایات سے ثابت ھوتا ھے.قاریان مکہ اور قاریان فقہائے کوفہ سب اس سے متفق رھے ھیں اور اھل سنت کے آئمہ اربعہ میں سے "شافعی" اور انکے متبعین کا مسلک بھی یہی ھے. (غرائب القرآن نیشاپوری جلد1)
تواریخ واخبار سے ثابت ھوتا ھے کہ بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھنے کا طریقہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ سے عہد معاویہ تک برابر قائم رھا.
سب سے پہلے اس میں تغیر امیرشام معاویہ نے کیا اور مدینہ آکر جب پہلی دفعہ بغیر بسم اللہ کے اور رکوع و سجود کےلیے جھکتے وقت تکبیر کو ترک کرتے ھوئے نماز پڑھائی تو مہاجرین و انصار میں شور ھوگیا کہ
"یا معویة سرقت من الصلٰوة این بسم الله الرحمن الرحیم والتکبیر عند الرکوع والسجود"
اے معاویہ تم نے نماز میں سے چوری کی بسم الله الرحمن الرحیم کیا ھوگئی اور رکوع و سجود کے وقت تکبیریں کدھر گئیں؟"
مجبور ھوکر معاویہ کو بسم اللہ اور تکبیروں کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھانی پڑی.
علامہ نیشاپوری لکھتے ھیں کہ "کان معاویة شدید الشکمیۃ ذاسوکۃ فلولاان الجهر بالتسمیة کان مقرراعند کل الصحابة لم یحسبروا علٰی ذلك"
معاویہ بڑےطمطراق اورشان وشوکت کےآدمی تھےتو اگر بسم اللہ کوبآواز بلند کہنا تمام صحابہ کے نزدیک متفق علیہ نہ ھوتا تووہ اسکی جراءت کبھی
نہ کرتے" (غرائب القرآن جلد1)
مگر بعد کے مسلمانوں کی اکثریت کا عمل امیر شام ھی والے طریقہ پر ھوگیا جس کے برخلاف آئمہ اھلبیت علیہم السلام نے نہ صرف یہ کہ بسم اللہ کو جزو قرآن بتایا بلکہ نماز میں (چاھے وہ اخفاتی ھو) اُسے بجہر کہنے کی تاکید فرمائی ھے.
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کا ارشاد ھے کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" والی آیت سب سے زیادہ اسکی مستحق ھے کہ اسے بآواز بلند کہا جائے اور یہی وہ آیت ھے جس کےلیے قرآن میں ارشاد ھوا ھے کہ
"واذاذکرت ربك فی القرآن وحده ولوا علی ادبارهم نفورًا" جب آپ پڑھنےمیں اپنےواحد پروردگار کا نام لیتے ھیں تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ھیں" (بنی اسرائیل#46)
قرآن کریم کی اس آیت کے بارے میں جناب امیر علیہ السلام نے اس حدیث میں (جسکا حوالہ پہلے دیا جاچکا ھے) یہ بتایا ھے کہ جو کچھ سورہ حمد میں ھے وہ سب بسم اللہ میں ھے.اسکی تشریح یہ سمجھ میں آتی ھے کہ اُن شعبوں پر غور کیجئے جن کا بیان سورہ حمد کے متعلق آچکا ھے تو اُن سب کا خلاصہ ھے "عبدومعبود" کا باھمی تعلق کہ خالق بےنیاز اور مرکزفیض ھے اور مخلوق محتاج اور اس کے فیض کی طالب ھے.خالق و مخلوق کا یہ تعلق بسم اللہ سے ظاھر ھوتا ھے جس میں بندہ اپنے خالق کے فیض و رحمت کا پتہ دیتا ھوا اس سے امداد کا طالب ھوتا ھے.اس طرح یہ آیت خود ایک معانی سے قرآن مجید کا لبِ لباب قرار پاتی ھے اور اسی لیے باوجود جزو ھونے کے اس کا انداز سوا سورہ حمد کے تمام دوسرے سوروں کے عنوان سے مختلف ھے. وہ ھر سورہ کا جزو ھے اسی طرح جیسے سورہ حمد قرآن کا جزو ھے.مگر جیسے سورہ حمد تمام قرآن کا فاتحہ قرار دیا گیا ھے اور کلام کی ساخت کے لحاظ سے اُس سے الگ ھے اسی طرح بسم اللہ ھر سورہ کا جزو ھے مگر ساختِ کلام کے لحاظ سے اس سے الگ ھے.
اس سے ھر سورہ کی ابتداء کرکے یہ رسم قائم کی گئی ھے کہ مسلمان بھی اپنی ھر تقریر ، ھر تحریر اور ھر کام کا اس سے آغاز کریں تاکہ اُن کو زندگی کے ھر قدم میں اللہ سے سہارا لینے کا احساس قائم رھے اور اس کا برابر مظاھرہ ھوتا رھے.اس سے سرِغرور جھکتا بھی ھے اور ھمتِ دل بلند بھی ھوتی ھے اور یہ بہت بڑا مقصد ھے جو عاجز و قاصر بندہ کے قادرِ مطلق پر اعتماد ھی سے حاصل ھوسکتا ھے اور جسے زندہ رکھنے سے اسلام نے مسلمانوں میں
"خودی" اور "بےخودی" دونوں کو سمو کرانسانی رفعت کی شاھراہ قائم کی ھے.
پہلا لفظ "بسم اللہ" مرکب ھے دو جزووں سے ایک "ب" جو عربی میں استعانت یعنی مدد حاصل کرنے کے لیے آتی ھے. یہی اس نیازمندی کے اظہار کا ذریعہ ھے جو بندوں کو اپنے مالک سے مرتبط بناتی ھے. دوسرے "اسم" اس کے معانی ھیں نام.
مگر تحقیق یہ ھے کہ "بسم اللہ" کا مطلب صرف یہ ھے کہ بندہ اللہ سے مدد حاصل کرنا چاھتا ھے.اسم کا لفظ مقام تعبیر میں اس محاورہ کے مطابق لایا گیا ھے کہ کسی بلند ذات کے متعلق جب کوئی کلام کیا جائے تو یہ کچھ ادب کے خلاف محسوس ھوتا ھے کہ بےدھڑک کسی امر کو خود اسکی طرف منسوب کیا جائے بلکہ اس سے قریبی تعلق رکھنے والی کسی چیز کو واسطہ بنایا جاتا ھے "جناب" ، "حضرت" اور "سرکار" اس قسم کے الفاظ کی اضافت کسی بڑے کے نام کے ساتھ اسی لیے ھوتی ھے.نیز "خدام والا شان" ، ملازمان بارگاھ" اور جدید عربی میں "فخامۃ ، جلالۃ ، عظمۃ ، معالی اور سمو" وغیرہ کے الفاظ اسی لیے آتے ھیں.بس اسی طرح قرآن کریم میں اللہ کی طرف تسبیح اور تحمید اور استعانت کی نسبت میں "اسم" کے لفظ کا واسطہ آیا ھے اور اسی لیے "بسم اللہ" کے معانی حضرت علی علیہ السلام نے یہی فرمائے ھیں کہ
"استعین علی اموری کلها بالله"
میں اپنے تمام معاملات میں خدا سے مددطلب کرتا ھوں"(کتاب التوحید صدوق)
"اللہ" خدائے بحق کا اسم ذات ھے جس کا اطلاق کسی دوسرے پر نہیں ھوسکتا.(1)
اسم اللہ کے علاوہ جتنے الفاظ اس کی نسبت استعمال ھوتے ھیں وہ "اسمائے صفات" یعنی تعریفی القاب ھیں جو اسکے کسی نہ کسی کمال کے پہلو کو پیش نظر رکھ کر استعمال کیے جاتے ھیں.ان میں اگر اختصاص ذات خالق کے ساتھ ھوگا تو بااعتبار مفہوم ھوگا اس لیے کہ اس لفظ کے معانی ھی ذات الہی میں منحصر ھیں جیسے "رحمن" جسکی تشریح بعد میں ھوگی لیکن اگر وہ معنی ناقص درجہ پر سہی دوسرے افراد میں پائے جاتے ھیں تو اس وصف کا اطلاق دوسرے پر بھی درست ھوگا جیسے "رحیم ، عالم ، قادر" وغیرہ لیکن اللہ کا لفظ اس ذات کےلیے قرار دیا گیا ھے جو ان تمام صفات پر جامع و حاوی ھے.
نام ھونے کے اعتبار سے اسکے اشتقاق کی جتنی بحثیں ھیں وہ میرے نزدیک دورازکار ھیں.اور اس لفظ کا ترجمہ بھی کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں ھے. "خدا" یا "GOD" یا اس طرح کے تمام الفاظ جو دوسری زبانوں میں استعمال ھوسکتے ھیں وہ اسمائے صفات کی جگہ پر تو لائے جاسکتے ھیں مگر لفظ "اللہ" کی قائم مقام ھرگز نہیں ھوسکتے.
"رحمن" اور "رحیم" دونوں صفتیں رحم سے مشتق ھیں اور مبالغہ یعنی وصف کی شدت و قوت کو بتاتی ھیں(2) مگر ان دونوں میں فرق ھے.
"رحمن " کا اطلاق صرف ذات باری تعالٰی پر ھوتا ھے(3) اور "رحیم" کا اطلاق غیر پر بھی ھوسکتا ھے جسکی نظیریں قرآن کریم میں بھی موجود ھیں جیسے رسول (ص) کےلیے "بالمؤمنین رؤف رحیم" اور مومنین کےلیے "رحماء بینھم".
زیادہ تر احادیث(4) سے ان دونوں لفظوں کا فرق یہ ظاھر ھوتا ھے کہ "رحمٰن" اس رحمت کو بتاتا ھے جو خالق کی طرف سے بتقاضائے ربوبیت تمام کائنات سے متعلق ھے اور جس میں مومن اور کافر کی تفریق نہیں ھے.اسکے جلوے دنیا میں آنکھوں کے سامنے نمایاں ھیں اور
"رحیم" اسکی رحمت کے اظہار کےلیے ھے جو توجہ و عنایت خاص کے طور پر اپنے محبوب اشخاص سے متعلق ھوتی ھے اور یہ مومنین سے مخصوص ھے جس کا نمایاں ظہور آخرت میں ھوگا.اسکو امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان الفاظ میں بتایا ھے کہ "الرحمٰن اسم خاص لصفةعامة والرحیم اسم عام لصفة خاصة (مجمع البیان) (5).
"رحمٰن" کے عموم کو ترجمہ میں "سب کو فیض" کے الفاظ سے ظاھر کیاگیا ھے اور "ھمہ گیر" ھونے ھی کی بنا پر وہ صفت اللہ میں منحصر ھوگئی ھے:
"اے کریمی کہ ازخزانہ غیب گبروترساراوظیفہ خُورداری"
رہ گئی اپنی موافق طبع اور دل پسند یا متحد الخیال یا اطاعت شعار افراد پر مہربانی تو یہ اپنے مقدور بھر بندے بھی کرلیتے ھیں.
چونکہ مقام توصیف میں قاعدہ یہی ھے کہ موصوف نام کو قرار دیا جاتا ھے جو ذات پر دلالت کرتا ھے اور اسکی توصیف وصف کے ساتھ ھوتی ھے.اسی لیے ان الفاظ کی ترتیب میں پہلے "اللہ" کا لفظ لایا گیا ھے جو نفسِ ذات کو بتلاتا ھے.پھر "الرحمٰن" کو لایا گیا ھے جو اسکی صفتِ خاص ھے مثل نام کے اور اس لیے تقریبًا اُسے لقب کا درجہ حاصل ھے اور پھر "الرحیم" کہا گیا جس میں صرف توصیف ھے.
پھر یہ کہ "رحمٰن" ھونے کے مظاھر چونکہ عموم رکھتے ھیں اور مومن و کافر سب کےلیے ھیں اس لیے بھی انہیں مقدم ھونا چاھیئے اور "رحیم" ھونے کے مظاھر خصوصیت رکھتے ھیں اور انکا ظہور بھی بطور نمایاں بعد کو یعنی آخرت میں ھے لہذا اسے بعد کو ذکر کیاگیا.
مولوی عبدالماجد صاحب دریابادی نے خوب لکھا ھے کہ "یہ بات اتفاقی نہیں ، بہت پرمعنی ھے کہ قرآن مجید میں اسمِ ذات کے بعد جو سب سےپہلا اسم صفاتی ارشادھواهے
وہ 'صفتِ رحمانیت' کا مظہر ھے. لین پول (LANE POOLE) انگریز اسی لیے اپنے ھم قوموں کو سنا کے کہتا ھے کہ :
"لوگ یہ بات برابر بھول جاتے ھیں کہ قرآن کےاندروصف رحمت پرکتنا زور دیا گیا ھے"
اس کے ساتھ قرآنی آغاز کلام کی رفعت اُس وقت زیادہ نمایاں ھوتی ھے جب اس کے سامنے مسیحیت کا افتتاحی فقرہ لایا جاتا ھے:
"شروع باپ،بیٹے اورروح القدس کے نام سے یہاں آغاز ھی سے'تثلیث' کا گورکھ دھندا سامنے آجاتا ھے جسکا سمجھنا اور سمجھانا عقل کو خیرباد
کہے بغیر ممکن ھی نہیں ھے

.*اَلحَمدُ لِلهِ رَبِ الْعٰلَمِیْنَ* اَلرَحْمٰنِ الرَحِیْم ٭ مٰلِكِ یَوْمِ الدِیْنِ*
ھر ایک تعریف اُس اللہ کے لیے ھےجوتمام جہانوں کا پروردگار ،سب کو فیض پہنچانے والا ،بڑا مہربان ،جزا و سزا کا مالک ھے"
 اُردو زبان کی کوتاھی سمجھنا چاھیئے کہ حمد کے لیے کوئی ھم معنی لفظ جو اُسکے تمام خصوصیات کا حامل ھو ابھی تک نہیں مل سکا ھے.
"تعریف" کے ساتھ حمد کا ترجمہ مجبوری کا نتیجہ ھے کیونکہ تعریف تو مدح کے بھی معنی ھوئے.مگر عربی میں "مدح" اور "حمد" میں فرق ھے.مدح غیر ذی شعور چیزوں کی بھی ھوتی ھے جیسے موتیوں کی چمک ، پھولوں کی مہک ، سبزہ کی لہک ، پانی کی روانی ، سورج کی درخشانی وغیرہ.انکی تعریف مدح کہلائے گی.مگر حمد مخصوص ھے ایسے شخص کی تعریف سے جس کے افعال اختیاری حیثیت رکھتے ھوں خواہ ان افعال کا کوئی احسان اس شخص کی گردن پر نہ ھو جو تعریف کر رھا ھے(6). رہ گیا "شکر" تو اسکے معنی تعریف میں ھیں ھی نہیں بلکہ وہ اس احسان کا جو اپنےساتھ ھوا ھو کسی طرح اعتراف اور نعمت کی قدر کرنے کا نام ھے جو کبھی عملی طور پر ھوتا ھے اور کبھی قولی طور پر.اس صورت میں کہ جب اس کا اعتراف تعریف کی صورت میں ھو تو یہ کہنا صحیح ھوگا "الحمدللہ شکرًا" یعنی میں اسکی تعریف کرتا ھوں اسکے احسانات کے اعتراف کے لیے. (7)
ھر تعریف کا ذات الہی کی طرف راجع ھونا اس عقیدہ کی دلیل نہیں ھوسکتا کہ انسانی افعال سب اللہ کی مخلوق ھیں لہذا جس نے جو اچھا کام کیا وہ اللہ کی طرف سے ھوا تو جو اس شخص کی تعریف ھو وہ درحقیقت خدا کی تعریف ھے کیونکہ اس عقیدہ کی بنا پر تو حمد ھی نہیں معاذاللہ ھر مذمت بھی خدا ھی کی طرف عائد ھونی چاھیئے بلکہ ھر تعریف کا ذات الہی کےلیے ھونا اس بنا پر ھے کہ ھر فعل خیر یا تو براہ راست اسی کا عمل ھوتا ھے یا دوسرے کا عمل تو اسکی تحریک یعنی ترغیب اور پھر توفیق کے ساتھ ھوتا ھے لہذا اس کام کی تعریف بھی آخر میں اسکی طرف راجع ھے.لیکن فعل قبیح براہ راست اس سے تو ھوتا ھی نہیں اور دوسرے کی جانب سے ھوتا ھے تو وہ اسکی ترغیب سے نہیں بلکہ ممانعت کے ساتھ ھوتا ھے لہذا اسکی مذمت خدا کی طرف راجع نہیں ھوسکتی. (8
"رب" اسم صفت ھے تربیت سے جس کے معنی ھیں تدریجی طور پر کسی شے یا شخص کو اس کے مناسب حال کمال کی منزل تک پہنچانا.
خداوندِعالم "خالق" بھی ھے اور "رب" بھی مگر ان دونوں کے مفہوم میں یہی فرق ھے کہ "خالق" کا لفظ سبب وجود ھونے کو بتاتا ھے اور "رب" کا لفظ سببِ بقا ھونے اور پھر مستقل طور پر اسکی نظر توجہ مخلوقات کی جانب مبذول رھنے کو بتاتا ھے.
"مالک" اور "ولی" وغیرہ پر باضافت رب کا اطلاق کلام عرب میں اسی لیے ھوتا ھے کہ وہ اس شے کے حالات کی نگرانی رکھتے ھیں لیکن اس لفظ کا اطلاق مطلق اور بلا اضافت صرف "حق سبحانہ وتعالی" پر ھوتا ھے اور اسی وجہ سے اسکا ترجمہ "پروردگار" کے لفظ کے ساتھ مربی سے زیادہ مناسب ھے کیونکہ مربی کے لفظ کا ھمارے محاورہ میں ذات الہی کے ساتھ اتنا اختصاص نہیں ھے جتنا پروردگار کے لفظ کا ھے.
عیسائیوں نے اُسے "اب یعنی باپ" کہا ھے.وہ مجازی تصرف کے بعد بھی صرف سببِ وجود ھونے کا اظہار کرسکتا ھے.مگر اسلام نے اس کےلیے "رب" کا لفظ منتخب کیا ھے جو ھرھر لمحہ اس کے فیض اور عنایت کا پتہ دے رھا ھے.
عالم کے ایک معانی تو ماسوی اللہ کے ھیں اور اس اعتبار سے غیراللہ تمام و کمال ایک ھی عالم ھے اس کی جمع بنانے کا کوئی حاصل نہیں.مگر عرفی طور پر عالم اس ایک دنیا کو کہہ سکتے ھیں جس کے آسمان و زمین ، سورج اور چاند ھم سے تعلق رکھتے ھیں.موجودہ زمانہ کے علم ھئیت کی اصطلاح میں ایک نظام شمسی سے جتنے سیارات متعلق ھیں انہیں ایک عالم سمجھنا درست ھے.اب جبکہ تحقیقات جدیدہ نے اور متعدد آفتابوں اور انکے نظاموں کا پتہ چلا لیا ھے تو "عالمین" یعنی "بہت سی دنیاؤں" کے مفہوم کو سمجھنا زیادہ آسان ھوگیا ھے.پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکے اھلبیت طاھرین علیہم السلام کی احادیث تو پہلے ھی سے اسکا پتہ دے رھی ھیں.ھمارے طرق سے امام محمد الباقر علیہ السلام کا ارشاد جسے جناب صدوق ابن بابویہ قمی(رض) نے خصال میں وارد کیا ھے :
"ان الله قد خلق الف الف عالم و الف الف اٰدم" اللہ نے ھزار ھزار عالم پیدا کیے ھیں اور ھزار ھزار آدم" اھل سنت کے طرق سے ھے :
"عن رسول الله صلی الله علیه واله و سلم ان الله خلق قبل اٰدم المعلوم عندنامائة الف اٰدم و روی عن جعفر الصادق مثله اخرج الامام ابواللیث فی نفسه وعن ابن عباس رضی الله عنهما عن رسول الله صلی الله علیه و اله و سلم ان الله ثمانیة عشر الف عالم و لك دیناکم منها عالم واحد"
پیغمبر خدا صلی الله علیہ والہ وسلمکی حدیث ھے کہ اللہ نے اُن آدم کے پہلے جو عام طور پر معلوم ھیں ایک لاکھ آدم پیدا کیے اور اسی مضمون کی روایت امام جعفر صادق (ع) سے
ھے __ امام ابواللیث نے اپنی تفسیر میں جناب ابن عباس کے واسطہ سے حضرت پیغمبرخدا(ص) کی حدیث درج
کی ھےکہ اللہ کے18ھزارعالم ھیں اور تمہاری دنیا انکا ایک عالم ھے"(محاضرةالاوائل)

حدیث میں وارد هوا هے کہ "روی فی الخبر عنه صلی الله علیه و اله وسلم انه قال لله ثمانیة عشر الف عالم الدنیا منها عالم واحد"روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والهوسلم سےواردھواھےکہ آپ نےفرمایااللہ کے 18 ھزار عالم ھیں کہ دنیا ان میں سے ایک ھے"(محاضرةالاوائل)

پہلے اس قسم کی احادیث بھی "متشابہات" کی حیثیت رکھتی تھیں لیکن اب موجودہ انکشافات نے ذرا انکی حقیقت سے پردہ ھٹایا ھے.مصر کے عصری عالم دکتور علی مصطفی شرفہ دارالمعارف کے وقت الشیوع رسالہ "العلم والحیاة" میں دکتور طہ حسین ، انطوف الجمیل ، عباس محمود العقاد اور فوائد صرف ایسے ممتاز عصری علماء کی معاونت سے شائع ھوتا رھا ھے.1945 کے شمارہ میں لکھتے ھیں :
"ماالشمس الاواحد من مائة الف ملیون شمس بین کل شمس جابرتهامسیربضع سنین بسرعۃ الضوء و یتاءلف من هذا الشموس عالم هوا الذی یظهرلنا لیلا کسحابۃ عظمٰی من النور تخترف وجه السماء وتسمیه نهرالمحترة وهذا العالم بدر واحد من مائة الف ملیون عالم یبلغ قطر کل منها مات ولالف من السنین الطوالة"

یہ ھمارا سورج کروڑ در کروڑسورجوں میں کاایک ھے جن میں ھر ایک سورج کادوسرےسےفاصلہ روشنی کی رفتارسے کئی کئی سال کا ھے اور ان سورجوں سےایک دنیاھمیں نظر آتی ھے جو رات کو ھمیں روشنی ایک بڑے بادل کی طرح محسوس ھوتی ھےاوروہ سطح فلک کو طےکرتی ھوئی گزرتی ھے اور ھم اسے کہکشاں کہتے ھیں اور یہ علم اپنے پورےاحاطہ کےساتھ کروڑ درکروڑ عالموں میں ایک ھے جن میں سےھر ایک
کاعرض وطول ھزارھزارسال کی مسافت کے برابر ھے"
اس ذھنیت کے مقابلہ میں جو ھر دن کا ایک خدا قرار دے رھی تھی اور اس وقت جب ھر قبیلہ کا خدا الگ الگ سمجھا جارھا تھا اسلام یہ آواز بلند کررھا تھا کہ وہ تو ایک عالم کا پروردگار نہیں بلکہ ھزاروں جہان ایسے ایسے ھوں تو سب کا وھی ایک پروردگار ھے.
اس سے ایک طرف ھر طرح کے شرک کا سدباب کیا اور دوسری طرف اتحادِعالمی کی ایک مستحکم بنیاد قائم کی جس پر آج تک دنیا باوجود انتہائی تہذیب و تمدن کی ترقی کے کوئی عمارت نہیں بناسکی.اس بنیاد پر عمارت اسی وقت قائم ھوسکتی ھے جب اس دین (اسلام) اور کتاب (قرآن) کو عمومی طور پر تسلیم کرلیا جائے جو اس اخوت کا سنگ بنیاد رکھنے والے ھیں.یہ ھوگا مگر اسی وقت جب قرآن کا وعدہ :
"لیظھرہ علی الدین کله"تاکہ اس دین کو ھر دین پر غلبہ عطا کرے" (الحجرات#28)
پایہ تکمیل تک پہنچے.یہ وھی موقع ھوگا جسکے متعلق کہا گیا ھے :
"ولیمکنن لهم دینهم الذی ارتضٰی لهم ولیبدلنهم من بعدخوفهم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شئا"
اور ان کےلیے قائم و برقرار کرے گا انکے اس دین کو جسے اس نے پسند کیا ھے اور ضرور خوف کے بدلے میں انہیں امن و سلامتی عطا کرے گا کہ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی
کو شریک نہیں کریں گے"(النور#55)
دنیا کے مضطربانہ اٹھتے ھوئے قدم آخر کو اس منزل پر ہہنچ کے دم لیں گے.
"تمام جہانوں کا پروردگار" کہنے کے بعد پھر دو وصف دھرائے گئے جو "بسم اللہ" میں آچکے تھے.
"سبکو فیض پہنچانےوالا" اور "بڑا مہربان" یہ تکرار بےمحل اس لیے نہیں کہ بسم اللہ اگرچہ سورہ کا جزو ھے اسی طرح جیسے سورہ حمد قرآن کا جزو لیکن معانی کے اعتبار سے وہ اسکا جزو نہیں بلکہ اس پورے کل کا خلاصہ کہا جائے کہ اسکے بعد والی شرح کا متن ھے جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث سے ظاھر ھے.اور متن کے کسی خاص جزو کا شرح کے ضمن میں آجانا کوئی خلاف توقع امر نہیں ھے.اس کے علاوہ ان وصفوں کا تذکرہ اگرچہ بسم اللہ میں ھوا تھا مگر وھاں امداد طلب کرنے کے ذیل میں تھا اور یہاں استحقاقِ حمد کے ثبوت میں محل بدلا ھوا ھے اور مفاد جداگانہ اس لیے تکرار لازم بھی نہیں آتی.
غور کیا جائے تو "الرحمٰن" سے متصل اس سے قبل "رب العالمین" کا لفظ اس ھمہ گیری کا برھانِ واضح ھے جو اس وصف کے حق سبحانہ سے مختص ھونے کا اصلی سبب ھے اور "الرحیم" سے "مالك یوم الدین" کا بعد میں اتصال "الرحیم" کے معنی میں جو مخصوص رحمت ھے اس کے محلِ ظہور کا پتہ دینے کا ذریعہ ھے.
"الدین" کے معانی لغت اور اصطلاح میں بہت سے ھیں.مگر یہاں اس کے معانی جزاء کے ھیں یعنی اعمال کا معاوضہ خواہ اچھا جسے ھمارے محاورہ میں "جزا" کہتے ھیں اور خواہ برا جسے ھمارے محاورہ میں "سزا" کہتے ھیں.
جزاء و سزا کی بمناسبت اعمال تعیین ھی کا نام "حساب" ھے اس لیے حدیث میں "یوم الدین" کی تفسیر روز حساب کے ساتھ ھوئی ھے.(9)
جزاء و سزا کا پورا نظام ربوبیت اور رحمانیت کا تقاضہ ھے کیونکہ انسان کا کمال لائق شعورواختیار کے ساتھ اطاعت و ایمان میں مضمر ھے جس کے بالمقابل معصیت و کفر کے اختیار کی قوت ضروری ھے.اور جب دونوں قوتیں کارفرما ھوگئیں تو خالق کی طرف سے اطاعت کی جانب تحریک اور معصیت سے تخویف کی ضرورت محسوس ھوئی اور یہیں سے جزاء و سزا کی تفریق قائم ھوئی جو مقتضائے حکمت و عدالت ھے پھر اس کے تحت میں مومنین اور اھل اطاعت توجہاتِ خصوصی کے مورد بن کر "رحیم" کی صفت کے جلوھ گاھ بنتے ھیں.
مالک حقیقی دنیا میں بھی وھی ھے مگر یہاں دوسرے بھی محدود پیمانہ پر سہی مالک ھونے کا دعوٰی رکھتے ھیں روزِجزاء کی تخصیص اس لیے ھے کہ اُس دن کوئی مالک ھونے کا دعویدار بھی نظر نہیں آسکتا
"لمن الملك الیوم لله الواحدالقهار"(10)
اوصاف الہی کے بیان میں اللہ کے لفظ کے بعد ربوبیت کا تذکرہ آیا جس کے نمایاں آثار اس دنیا میں سامنے ھیں.اس کے بعد نظر آگے بڑھی اور آخرت کی طرف گئی کہ وھاں قبضہ صرف اُسی کا ھے اس لیے بندہ کی حاجتیں وھاں کےلیے تمامتر اُسی سے وابسطہ ھیں.الوھیت انسان کی ھستی سے پہلے ھے.ربوبیت انسان کی ھستی کے اثناء میں ھے جو اس کی بقاء و تکمیل کا سبب ھے اور "یوم الدین" کی مملکت آئندہ دور سے متعلق ھے.ان مختصر الفاظ میں انسان کی نگاہ ماضی ، حال اور مستقبل سب پر پڑ گئی اور خالق کی عظمت کا ایک نقشہ سامنے کھچ گیا.


٭اِیَاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَاكَ نَسْتَعِیْنُ ٭

تیری ھی ھم عبادت کرتےھیں اور تجھ ھی سے بس مدد مانگتے ھیں"
عبادت کے معانی ھیں اظہار تذلل یا حکم کی تعمیل جو کسی کو خدا یا خدا کا اوتار (محل حلول) مان کر اختیار کی جائے.مطلق تعظیم جیسے کسی کو دیکھ کر کھڑے ھوجانا یا سلام کو جھکنا یا ھاتھ چومنا یا آستان بوسی کرنا عبادت نہیں ھے.نہ مطلق حکم کی تعمیل عبادت سمجھی جاسکتی ھے.
مشرکین اپنے اصنام کو "الھہ" کہتے تھے.ھندوستان کی مشرک قومیں بھی جن مجسموں کو پوجتی ھیں اُن مجسموں کے اصل اشخاص کو اوتار مانتی ھیں.
اس لیے "تیری ھی ھم عبادت کرتے ھیں" کے الفاظ کسی نوع عمل کو اللہ سے مخصوص قرار دینے کا اظہار نہیں ھیں کہ مثلاً ھم کھڑے بس تیرے ھی سامنے ھوتے ھیں.کیونکہ کھڑا ھونا اس کے سامنے تو حقیقۃً ممکن ھی نہیں اور اس کے غیر کے سامنے مختلف اغراض سے آدمی کھڑا ھوتا ھے.یا "جھکتے تیرے ھی آگے ھیں" آدمی کو بہت سے اسباب سے بہت سوں کے سامنے جھکنا پڑتا ھے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ھے کہ ھم تیرے سوا کسی کو خدا نہیں مانتے ، نہ کسی کو تیرا اوتار سمجھتے ھیں.اس لیے بحیثیت خدا کے ھمارا جھکنا صرف تیرے ھی لیے ھے.اب اگر اس کے حکم کی تعمیل سے کسی کی تعظیم ھو تو وہ تعظیم اس شخص یا اس شے کی طرف منسوب ھوسکتی ھے مگر عبادت وہ خدا ھی کی قرار پائے گی جس کے حکم کی وہ تعمیل ھے
"ومن یعظم شعائرالله فانها من تقویالقلوب" (حج#32)
دوسرا فقرہ "تجھ ھی سے بس مدد مانگتے ھیں" اس کا مطلب یہ ھے کہ تیرے مقابل میں اور تجھ سے بےنیاز ھوکر کسی کو ھم مددگار نہیں سمجھتے.
یوں اسباب ظاھری کی بنا پر گرتا ھوا پاس والے سے مدد لیتا ھے،فقیر دولتمند سے مدد لے لیتا ھے،بلکہ ڈوبتا تنکے کا سہارا ڈھونڈ لیتا ھے مگر یہ سب ظاھری اسباب کی حد تک ھے.اس کے پس پردہ ایک مسلمان اپنے دل کی گہرائیوں میں ایک اور طاقت کو محسوس کرتا ھے جس کے سہارا دیئے بغیر کوئی ظاھری سبب کاربراری کےلیے کافی نہیں ھو سکتا.وہ خالق کی ذات ھے.
اسی طرح خالق کے حکم سے گناھوں کی مغفرت یا دعاؤں کی قبولیت کے لیے اس کے مقربین کے ساتھ توسل بھی اس استعانیت کے خلاف نہیں ھے جو ذات الہی میں منحصر ھے.کیونکہ یہ وسائل اسی کے مقرر کردہ ھیں.پھر بھی اصل مرکز اعانت ذات حضرت احدیت ھی ھے.
"الحمد" میں شروع ھی سے ذاتِ الہی کا بطور غائب اس کا نام لےکر تذکرہ تھا.وہ تمہید تھی جہاں سے اصل دعاء شروع ھوئی انداز تخاطب کا ھوگیا. یہ انداز کی تبدیلی عربی زبان کے معانی و بیان کی اصطلاح میں "التفات" کہلاتی ھے اور نظیریں اُس کی ھر زبان کے ادب میں ملتی ھیں.یہاں اُس میں لطافت یہ ھے کہ اس انداز کی تبدیلی سے ایسا محسوس ھوتا ھے کہ جیسے بندہ نے حمد و ثنا کرتے کرتے معبود کی بارگاھ میں رسائی حاصل کرلی اور اُس کی نگاھ کو اپنی جانب موڑ لیا ھے.اس میں قرب معنوی کی جو بذریعہ حمد حاصل ھونا چاھیئے قرب صوری سے تمثیل بھی ھے اور یہی تصور کمال کے درجہ پر ھوجائے تو نماز کے صحیح معنی میں استعارةً "معراج المومن" بن جانے میں شک ھی کیا ھوسکتا ھے.
"نَعبُدُ" اور "نَسْتَعِیْنُ" میں جمع کے صیغے "تیری ھی ھم عبادت کرتے ھیں اور تجھ ھی سے ھم مدد طلب کرتے ھیں" اُس احساسِ اجتماعیت کے تحفظ کےلیے ھیں جس کےلیے نماز میں فراوٰی سے بدرجہا زیادہ "جماعت" کو پسند کیا گیا ھے.پھر نماز اگر فراوٰی بھی ھو تو الفاظ زبان پر یہی ھونا ضروری ھیں.گویا ھر بندہ سے اللہ یہ چاھتا ھے کہ اول تو بارگاھ میں اکیلا حاضر نہ ھو بلکہ سب کے ساتھ مل کر آئے اور اگر اکیلا آتا بھی ھی ھے تو عرض معروض فقط اپنی ذات کی طرف سے نہ کرے بلکہ تمام بنی نوع کا نمائندہ بن کر جو عرض معروض کرے سب کی طرف سے کرے اور جو مانگے سب کےلیے مانگے.دوسرا مقام ھوتا تو "ھم" کے لفظ سے تخاطب میں عظمت کی شان پیدا ھوتی تھی مگر بڑے کی بارگاھ میں اپنی خدمت پیش کرنے کے موقع پر "میں" کا لفظ انانیت کا اظہار کرتا ھے."ھم" کے استعمال میں یہ پہلو بھی ھے کہ یہ خود اپنی ھستی کو انفرادا اور اُس کی خدمات کو قابل تذکرہ ھی نہیں سمجھتا.اس سے انانیت اور خودغرضی دونوں باتیں ختم ھوجاتی ھیں.
عبدالماجد صاحب نے بہت صحیح لکھا ھے کہ "نعبد" کے معًا بعد "نستعین" لانا گویا بندوں کی زبان سے یہ کہلوانا ھے کہ ھم عبادت تک میں تیری ھی توفیق ، تیری ھی اعانت ، تیری ھی دستگیری کے محتاج ھیں.
مگر اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جب ھماری عبادت اُس سے استعانت پر مترتب ھے تو "نستعین" پہلے ھونا چاھیئے اور "نعبد" بعد میں.یہاں "نعبد" پہلے ھے اور "نستعین" بعد میں تو یہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ھے کہ بغیر اپنی امکانی کارگزاری کیے ھوئے بندہ کو اللہ سے طالب امداد ھونے کا حق ھی نہیں :
"والذین جاهدوافینا لنهدینهم سبلنا"
جوھمارےراستوں میں جدوجہدکرتے ھیں، انہیں ھم منزل مقصود تک پہنچا دیتے ھیں" (العنکبوت#69)
علامہ نیشاپوری لکھتے ھیں
"کانه یقول شرعت فی العبادة فاستعین بك فی ایمانها حتٰی لا یمتعنی مانع ولا یعارضی صارف" (غرائب القرآن)
گویا بندہ کہہ رھا ھے کہ میں نے عبادت کے لیے قدم تو اٹھا دیا ھے اب اس کےحدکمال تک پہنچنے میں تجھ سے مدد کا خواستگار ھوں کہ میرےلیے کوئی رکاوٹ پیدا نہ ھو"
بہرصورت اس سے یہ نتیجہ ظاھر ھے کہ انسانی افعال مخلوق الہی نہیں ھے اور نہ بالکل مطلق العنان ھیں ورنہ اُس سے اعانت طلب کرنے کی ضرورت نہ ھوتی.یہ جبرواختیار کے درمیانی نقطہ ھی پر منطبق ھے جو "امر بین الامرین" کا مصداق ھے.


٭اِھْدِنَاالصِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ٭
بتلاتا رہ ھم کو سیدھا راستہ"
ھدایت جس کی خصوصی درخواست ھے وہ نہ ھدایت عمومی ھے جو اللہ کی طرف سے تمام خلق کےلیے لوازم ربوبیت سے ھے اور نہ جبرًا منزل مقصود تک پہنچا دیتا ھے کیونکہ وہ کوئی انسانی کمال نہیں ھے بلکہ یہ ھدایت وھی اعانت ھے جسکی خواھش کا اجمالی طور پر "وایاك نعبدوایاك نستعین" میں ذکر آیا تھا.یہ وہ توفیق ھے جو بندہ کے شامل حال ھوتی ھے جسکی بدولت وہ خیروفلاح سے قریب آجاتا ھے مگر راستے پر چلنا خود اسکا ذاتی عمل ھوتا ھے.
"سیدھے راستے" سے مراد خالق کا پسندیدہ راستہ ھے جس میں نہ افراط ھے اور نہ تفریط اور وھی دین حق ھے.وھی اتباع رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اطاعت آئمہ علیہم السلام کا ماحصل ھے.اسی سے رضائے الہی اور اس کے نتیجہ میں نعیم آخرت کا حصول ھے.احادیث کے مختلف الفاظ مثلاً :
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا قول هے کہ :
*- "ما قصر عن الغلو وارتفع عن التقصير"
جو غلو کی حد سے پیچهے هو اورکوتاهی کی منزل سےآگے هو"
حضرت امام جعفرالصادق علیہ کے ارشادات هیں
*- "الطریق المؤدی الٰی محبتك والمبلغ الٰی جنتك والمانع من ان نتبع اهواءنا فنغطب و ان تأخذ يارائنا فنهلك"
وہ راستہ جو تیری محبت تک لے جانےوالا اورتیری جنت تک پہنچانے والا اوراس سے روکنے والاھےکہ ھم اپنی نفسانی خواھشوں کی پیروی کرکے زحمت و مشقت میں گرفتار ھوں اور اپنی اپنی رائے پر چل کر مبتلائے ھلاکت ھوں"
*- "الطریق الی معرفة الله"
معرفت خداوندی تک پہنچانے والا راستہ"
*- "الامام المفترض الاطاعة"
وه امام جسکی اطاعت منجانب الله فرض هے"
*- "الطریق الی معرفت الامام"
امام کی معرفت کا راستہ"
*- هو امیرالمؤمنین و معرفته"
یہ جناب امیر (ع) اور ان کی معرفت هے" (11)
یہ سب اسی ایک راستے کے تعارف کی تعبیریں ھیں اور حقیقت ایک ھے. (12)
یہ ظاھر ھے کہ دعا کا تعلق ھمشہ مستقبل کے ساتھ ھوا کرتا ھے.ماضی اور حال امرِحاصل ھے.اس کے متعلق دعا کے کوئی معنی نہیں لہذا جو شخص راہِ راست پر نہیں ھے اس کے راہِ راست پر آنے کے لیے اللہ کی ھدایت درکار ھے اور جو راہِ راست پر ھے اُس کے بھی آئندہ اسی راستے پر چلنے کےلیے اللہ کی اعانت مطلوب ھے.اور اس لیے "اھدنا" کی تفسیر وارد ھوئی ھے کہ
"ھمیں راہِ راست پر ثابت قدم رکھ" (13)
اس کے معنی یہ ھیں کہ آئندہ زندگی میں راہِ راست پر چلنا دونوں ھی کے یہاں توفیقِ الہی سے وابستہ ھے پھر یہ کہ عارف اور منزل حق کا سالک جس منزل پر پہنچتا ھے اُس سے بالاتر بھی ایک منزل اُسے نظر آتی ھے یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان اقدس پر آتا رھا
"رب زدنی علما"
اور ھر بلند تر منزل صراطِ مستقیم ھی کا ایک درجہ ھے جو
"اهدنا الصراط المستقیم"
کے ساتھ مطلوب ھے.
لہذا یہ ترجمہ کہ "بتلاتا رہ ھم کو سیدھا راستہ" مقام عبودیت میں زیادہ مناسب اور جامع ھے.


٭صَرَاطَ الَذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهمْ ^ غَیْرالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهم وَلَاالضَآلِیْنِ ٭
ان کا راستہ جنہیں تونے اپنی نعمت سےنوازا ھے،نہ ان کا جن پر غضب ھےاورنہ ان کاجوبھٹکےھوئے ھیں"
یہ اس سیدھے راستے کی تشریح ھے جس پر چلانے کی پہلے دعا کی گئی تھی.اس میں نعمت سے مراد نعمتِ دنیا یعنی مال و اولاد وغیرہ نہیں ھے کیونکہ یہ تو کافروں اور گمراھوں کو بھی ملی ھے اور یہاں "انعمت علیھم" کا مقابلہ ھے "مغضوب علیھم" اور "ضالیں" کے ساتھ.لہذا یہ نعمت صرف وہ ھدایت و توفیق ھو سکتی ھے جو اس کے بہترین طاعت گزار بندوں کے شاملِ حال رھی.(14)
اس سے ظاھر ھوتا ھے دین حق کی معرفت اس کے نفس قانون (شریعت) اور کتاب سے اتنی نہیں ھوسکتی جتنی اُن اشخاص کے ذریعہ سے جو اس دین کے اصول پر بہترین عمل کرکے اس کا ایک جیتا جاگتا مجسمہ ھوگئے.اگر ایسا نہ ھوتا تو سورہ حمد میں جو براہ راست عبد و معبود کے درمیان ھے ان بندوں کا ذکر نہ ھوتا جنہوں نے اس کے جادہ رضا پر چل کر اس کی راہِ رضا کے سنگِ میل یا اس کی منزل مقصود کےلیے مینارہ بلند کی حیثیت اختیار کرلی ھے.چنانچہ مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی اپنی تفسیر ماجدی میں نقل کرتے ھیں کہ "مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ الذین انعمت علیھم سے اشارہ اس طرف ھوگیا کہ صراطِ مستقیم میسر نہیں ھوتا بغیر اس کے کہ پیروی اھلِ صراطِ مستقیم کی کی جائے اور اس کےلیے محض اوراقِ کتب کافی نہیں" _______ یہ مخصوص نعمتوں سے نوازے ھوئے بندے کون ھیں؟؟؟ ان کی تفصیل خود قرآن مجید میں دوسری جگہ اس طرح آئی ھے :
"ومن یطیع الله والرسول فاولئك مع الذین انعم الله علیهم من النبیین و الصدقین والشهداء والصالحین
اور جو اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کریں تو یہ ان کے ساتھ
ھوں گے جن پر اللہ نے انعام و احسان کیاھے،انبیاء اورصدیقین اور شہداء اور صدیقین" (النساء#69)
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ھیں :
"سورہ نساء کی اس آیت کریمہ سے "انعمت علیھم" کی مزید تفسیر و تشریح کرنا ایک ایسی مسلم اور متفق علیہ تفسیر ھے جسے عہدصحابہ و اھلبیت نبوت (رضوان اللہ علیہم) سے لے کر طبقاتِ متاخرہ تک تمام اربابِ علم و رسوخ نے اختیار کیا ھے اور مفسرین "خاصہ" و "عامہ" سب نے اسے قبول کیا ھے.چنانچہ جس طرح محدث ابن جریر طبری نے اس کے متعلق مفسرین صحابہ کے آثار جمع کیے ھیں اسی طرح علامہ کلینی اور شیخ طبری (صاحب تفسیر مجمع البیان) بھی اس سے انکار نہیں کرتے.اس عاجز نے "تفسیر البیان" میں تصریحات حضرات آئمہ کرام علیہم السلام و اقوالِ مفسرینِ خاصہ بھی نقل کردیئے ھیں فمن یشاءالتفصیل فلیرجع الیہ" (15)
مولانا کی متداول تفسیر "ترجمان القرآن" ھے.اس میں ھم نے تلاش کیا تو یہ تفصیل دستیاب نہیں ھوئی.اس کے علاوہ "تفسیر البیان" جس کا حوالہ دیا گیا ھے ھمارے علم میں نہیں ھے.
اس جماعت کے ذکر کے بعد جن کے قریب لانا ھے اُن کے بالمقابل دوسری جماعت کا ذکر بھی ضروری سمجھا گیا ھے جس سے دوری اختیار کرانا منظور ھے.اس سے ظاھر ھے کہ صراطِ مستقیم کی معرفت اور عملی پابندی میں صرف ثبوتی پہلو کافی نہیں ھے جب تک اس کے ساتھ سلبی پہلو یعنی اشخاص اور جماعتوں سے بیزاری بھی نہ ھو جو اس صراطِ مستقیم سے دوری کا باعث ھیں.
اس ذیل میں دو جماعتوں کا ذکر ھے.ایک وہ جن پر اللہ کا غضب ھے اس کا مطلب یہ ھے کہ انہوں نے جان بوجھ کر عداوةً حق سے انحراف اختیار کیا ھے.
دوسرے وہ جو بھٹکے ھوئے ھیں یعنی جو طلبِ حق میں کوتاھی سے کام لےکر نادانستہ گمراھی میں پڑگئے ھیں.یہ "نادانستہ گمراھی" اگر پوری امکانی جدوجہد کے ساتھ ھوتی تو وہ مستوجبِ ملامت و عقوبت نہیں ھوسکتی تھی لیکن یہ نادانستگی قصور کا نہیں، ارادةً تقصیر یعنی سہل انگاری اور دماغی کاھلی کا نتیجہ ھے لہذا معاف کیے جانے کے قابل نہیں ھے.پھر بھی یہ جماعت اُن سے تو بہتر ھی ھے جو حق کو جاننے کے بعد صرف عداوةً منحرف رھتے ھیں.
اب یہ جماعتیں ھیں کون؟؟؟ ایک تفسیر یہ ھے کہ "المغضوب علیھم" سے مراد یہود ھیں جن کا ذکر قرآن میں دوسری جگہ ان الفاظ میں ھے کہ :
"من لعنه الله وغضب علیه وجعل منهم القردة والخنازیر"
جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضبناک ھوا اور ان میں سے کچھ کو بندروں اور سؤروں کی شکل میں کر
دیا" (المائدہ#60)
اور "الضآلین" سے مراد نصارٰی ھیں جن کا ذکر ان الفاظ میں آیا ھے کہ :
لاتتبعوااهوآءقوم قدضلوا من قبل و اضلوا کثیرا وضلوا عن سوآءالسبیل"
اس جماعت کے خیالات کی پیروی نہ کروجوپہلےگمراہ ھوئےاوربہت سوں کو گمراہ کیا اورسیدھےراستے سے بھٹک گئے" (المائدہ#77)
یہ تفسیر ھمارے یہاں بھی امام جعفر الصادق علیہ السلام سے وارد ھوئی ھے (16) اور مفسرین اھل سنت نے بھی آیات مذکورہ کی بنا پر اسے اختیار کیا ھے.(17)
ممکن ھے کہ براہ راست تنزیلی طور پر یہ جماعتیں مقصودِکلام ھوں اور تبعًا ھر جماعت کے ساتھ وہ تمام افراد ملحق ھوں جو صفات میں ان کے ساتھ شریک ھیں.اسی لیے ایک حدیث میں آیا ھے
"المغضوب علیهم النصاب و الضالین اھل الشکوك الذین لا یعرفون الامام"
یعنی مغضوب علیہم سے مراد اھل بیت (علیہم السلام) سے عداوت کااظہارکرنےوالے ھیں اور ضالین وہ شکوک و اوھام میں مبتلا لوگ ھیں جو معرفت امام نہیں رکھتے" (18)
یہ بحث کہ اللہ غضبناک کیونکر ھوتا ھے غضب تو انفعال و تاثر کا نتیجہ ھوتا ھے اور خدا ھر تاثر سے بری ھے اس لیے کوئی وزن نہیں رکھتی کہ یہ غضب سے مخصوص نہیں یہی سوال تو رحمت میں بھی پیدا ھوتا ھے.پھر جب رحمت تاثر و انفعال کا نام نہیں بلکہ اس فعل کا نام ھے جو دوسروں کے لیے بہتری اور فائدہ کا باعث ھو تو غضب کے لیے بھی یہ سمجھنا درست نہیں ھے کہ وہ تاثر و انفعال کے قبیل سے ھے بلکہ وہ کفر و نفاق ، معصیت اور گمراھی کی بنا پر کسی شخص کے مستحقِ عذاب ھونے کے علم اور اسی علم کے مطابق اُس کے ساتھ سلوک کرنے کا نام ھے.
جیسا کہ عبدالماجد صاحب نے لکھا ھے "غضب الہی کا ذکر اگلے آسمانی نوشتوں میں صراحت کے ساتھ ھے، توریت میں بھی اور انجیل میں بھی. توریت میں ھے کہ اب تو مجھ کو چھوڑ کہ میرا غضب ان پر بھڑکے اور میں انہیں بھسم کردوں (خروج 11:32) نیز خروج 12:32 و 13 استثنا 19، 20 و 21 وغیرہ.انجیل کو عام طور پر سر تا سر حلم درافت و شفقت کا صحیفہ سمجھا گیا ھے مگر وہ بھی اس ذکر سے خالی نہیں.(ملاحظہ ھو متی 8:3 و مکاشفہ 9، 15 وغیرہ)

--------------------------------------
(1). "اسم لایطلق الاعلیه سبحانه وتعالٰی" (مجمع البیان)جناب امیر علیہ السلام فرماتے ھیں کہ"اللہ اعظم اسم من اسماء اللہ عزوجل لاینبغی ان یتسمٰی به غیرہ (صافی)
(2). "اسمان وضعاللمبالغة واشتقامن الرحمۃ (مجمع)
(3). "لایطلق الرحمٰن الا علی الله تعالٰی"
(4). "تلاش سے بعض جگہ پر اسکے خلاف بھی ملتا ھے جیسے سیک دعاء میں ھے :"یارحمٰن الدنیا والاٰخرة ورحیمھما" مگر اسکو شاذ یعنی خلاف مشہور سمجھنا چاھیئے.
(5). "فالرحمة الرحمانیة تعم جمیع الموجودات وتشمل کل النعم وامام الرحمة الرحیمیة فهی مختصة بالمؤمنین (الصافی)
(6). الحمد قول دال انه مختص بفضله اختیارته مغنیۃ وهی فضلة الانعام الیك والٰی غیرك (نیشاپوری)
(7). شکرا مفعول لاجله نحوستجته تعظیما (بلاغی)
(8). لا یحمد حامد الا ربه ولا یذم ذام الا نفسه (نہج البلاغہ)
(9). عن ابی بصیر عن ابی عبداللہ مالك یوم الدین قال یوم الحساب (علی بن ابراھیم)
(10). المومن #16
(11). علی بن ابراھیم
(12). امال الکل واحد عندالعارفین باسرارھم (صافی)
(13). عن علی کرم الله وجه ثبتنا علی الھدایة (غرائب القرآن)
(14). معانی الاخبار حدیث امیرالمومنین علیہ السلام
(15). داستان کربلا مطبوعہ حیدرآباد دکن ص 22
(16). تفسیر علی بن ابراھیم
(17). غرائب القرآن
(18). عن ابن اذنیة عن ابی عبدالله علیه السلام (تفسیر علی بن ابراھیم)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا

 
user comment