اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

سورهٔ بقره ، آیت نمبر 228میں مر د کے لئے عورت پر برتری کا اعلان هوا هے کیا یه خداوند عالم کی عدالت کے خلاف نهیں هے ؟

سورهٔ بقره ، آیت نمبر 228میں مر د کے لئے عورت پر برتری کا اعلان هوا هے کیا یه خداوند عالم کی عدالت کے خلاف نهیں هے ؟
سوره بقره آیت نمبر 228 میں مرد کے لئے عورت پر برتری کا اعلان هوا هے کیا یه خداوند عالم کے عادل هونے کے خلاف نهیں هے ؟
ایک مختصر

یه آیت مطلَّقه ( طلاق شده) عورت کے بارے میں هے اور طلاق رجعی کے احکام کے بارے میں هے که ان کے شوهرعده کی مدت میں رجوع کر سکتے هیں اور اس آیت نے ایک کلی اصل یعنی عورت کے حقوق اور وظیفے کے مساوی هونے کی طرف اشاره کیا هے ۔

 

اس آیت کے سیاق اور دوسری قرآنی آیات کے پیش نظر یه نتیجه نکلتا هے که قرآن مجید برتری و فضیلت کو تقوے میں سمجھتا هے ، احکام و وظائف میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کو قبول نهیں کرتا اور عدالت پسند هے اسی بنیاد پر خاندان کی ذمه داری ، خداوند عالم کی جانب سے مردوں کو عطا کئے گئے خصوصیات کی وجه سے انھیں کے ذمه کی هے ۔

 

تفصیلی جوابات

جس آیت کی طرف آپ نے اشاره کیا هے وه طلاق رجعی کے بارے میں هے ارشاد هوتا هے :''... اگر ان کے شوهر دوباره ان سے میل جول کرنا چاهیں تو وه مذکوره مدت میں ان کے واپس بلا لینے کے زیاده حق دار هیں اور شریعت کے مطابق عورتوں کا (مردوں پر وهی ﮐﭽﮭ (حقوق ) هے جو ( مردوں کا ) عورتوں پر هے ، هاں البته مردوں کو عورتوں پر ایک طرح کی فوقیت هے اور خداوند عالم زبر دست حکمت والا هے ''۔ [1]

 

اس آیت میں جس چیز کی طرف اشاره هوا هے وه ایک اهم اصل هے اور وه یه که اسلام کی نظر میں عورت کے حقوق و فرائض ایک دوسرے کے مناسب هیں ( جیسا که مرد کے حقوق و فرایض ایک دوسرے کے مناسب هیں )یعنی عورتوں کے حقوق ان کے فرائض کے ساﺘﮭ مساوی هیں البته اس کے بر عکس بھی یهی هے ؛ یعنی اگر کسی کے لئے حق قرار دیں تو اس کے مقابله میں اسی مقدار میں اس کی گردن پر فرائض بھی قرا ر دیں گے اور یهی اهم اصل مرد اور عورت کے مابین عدالت کا سرچشمه هے ۔

 

اصل میں اسلام مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا دعویدار نهیں هے بلکه مرد اور عورت کے درمیان عدالت کا مدعی هے ؛ اس لئے که اس بات سے هرگز انکار نهیں کیا جا سکتا که مرد اور عورت کے درمیاں روحی و جسمانی و...فرق هے اور یهی اختلاف سبب بنتا هے که هر ایک کے فرائض دوسرے سے مختلف هوں اور یهی عین عدالت هے اور اگر ان اختلافات کے هوتے هوئے هر ایک سے ایک هی قسم کا فریضه طلب کیا جائے تو یه عدالت کے خلاف هے [2] ۔

 

اس امر کے پیش نظر که ایک کامیاب اور سعادتمند خاندان کے لئے طاقتور اور توانا مدیر کی ضرورت هے اور تعصب سے دور سارے تجزیه اس بات کے گواه هیں که مرد کی جسمانی کیفیت وغیره سبب بنتے هیں که مرد هی خاندان کا مدیر و سرپرست هو۔ [3]

 

لهٰذا هر چند اسلام میں مرد کو عورت پر اس لحاظ سے برتری حاصل هے لیکن یه برتری اور درجه ان کے لئے ﮐﭽﮭ ایسے فرائض کا سبب قرار پاتا هے جن کا مطالبه عورتوں سے نهیں کیا گیا هے ۔

 

مزه کی بات تو یه هے که آیت آخر میں فرماتی هے که : ''خداوند عالم غالب اور زبردست حکمت والا هے '' یه نورانی الفاظ اس بات کی طرف اشاره هیں که خداوند عالم کا قانون اور اس کی تدبیر سبب قرار پاتی هے که معاشرے میں هر شخص اپنے ان فرائض میں لگارهے جو خلقت کے قانون نے اس کے لئے معین و مشخص کئے هیں جو اس کے بد کی ساخت و ساز کے مناسب هیں ۔ [4]

 

نتیجه یه نکلا که اس آیت کے سیاق اور دوسری آیتوں کے پیش نظر ، جس میں ارشاد هوتا هے که اعمال صالح کی جزا کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نهیں هے ، [5] اور تقویٰ هی برتری و فضیلت کا معیار هے ۔ [6] چاهے مرد هو یاعورت کوئی فرق نهیں پڑتا ، یه بات واضح هو جاتی هے که اس آیت نے مرد کی برتری و فضیلت فقط مدیریت اور سر پرستی کے لحاظ سے بیان کی هے اور آیت کے معنی مردوں کی هر طرح کی فضیلت و برتری نهیں هے ۔

 

مزید معلومات کے لئے ملاحظه هو : عنوان؛ قران اور مرد کی عورت پر فوقیت ؛ سوال نمبر 2940 (سائٹ: 3179)

 



[1] سورهٔ مبارکه ٔبقره ،آیت 228۔

[2] مرد اور عورت کے مابین عدالت کا یه مطلب هے که یه دونوں هر چیز میں برابر هیں اور ایک دوسرے کے ساﺘﮭ ساﺘﮭ قدم اٹھائیں ؛عورت کی جنس کو مرد سے مختلف فرائض انجام دینے کے لئے پیدا کیا گیا هے اسی لئے دونوں کے جذبات وا حساسات جدا جدا هیں توقانون خلقت نے عورت کے کاندھوں پر ماں کے حساس فریضه اور طاقتور نسل کی پرورش قرار دی هے اسی لئے پیار ومحبت اور جذاب و احساسات کا زیاده حصه اسے عطا کیا هے جب که اسی قانون کے مطابق معاشرے کے سخت اور بھاری کام مرد کی جنس کے حواله کئے هیں اور فکر و عقل کا زیاده حصه اسی سے مخصوص هے ؛ لهٰذا اگر هم عدالت سے کام لینا چاهتے هیں تو معاشرے کی وه ذمه داریاں جن میں عقل ، استقامت اور فکری کی ضرورت هے مردوں کے حواله کرنی پڑیں گی اور جو ذمه داریاں پیار ومحبت اور جذبات واحساس کی طالب هیں عورتوں کے حوالے کرنی هوگی ، اسی وجه سے خاندان کی سرپرستی مرد کے ذمه هے اور اس کی نیابت عورت کے ذمه قرار دی گئی هے ، بهرحال یه چیز رکاوٹ نهیں بنتی که عورتیں معاشرے میں اپنے جسم و جان کے مطابق کا م کی ذمه داری سنبھالیں اور ماں کے فرائض کے ساﺘﮭ ساﺘﮭ دوسرے حساس امور بھی انجام دیں اس کے علاوه یه فرق اس امر میں بھی رکاوٹ نهیں هو سکتا که معنوی ، تقوا اور علم کے اعتبار سے عورتوں کی ایک جماعت بهت سے مردوں سے آگ بڑھ جائے ۔ بهر حال ﮐﭽﮭ قانون جیسے حق طلاق یا عده کی مد ت میں رجوع یا قضاوت وغیره مردوں کے هاﺘﮭ میں هونے کا سرچشمه یهی هے او اسی واقعیت کا نتیجه هے ، دیکھئے : تفسیر نمونه ، ج2، ص 158۔

[3] یه وه مطلب هے جس کی عملی طور پر مرد اور عورت کے حقوق میں مساوات کے مدعیوں نے تائید کی هے ؛ اس لئے که مرد اور عورت کے حقوق میں مساوات کے دعویدار ممالک کو جب هم دیکھتے هیں تو همیں یه ملتا هے که یه ممالک اکثر اپنے بڑے عهدے کے افسر کو مردوں میں سے انتخاب کرتے هیں اور انھوں نے مدیریت کے امور کو مردوں کے حواله کر رکھا هے ۔

[4] دیکھئے : تفسیر نمونه ، ج2، ص 161۔

[5] سورهٔ مبارکهٔ نحل ، آیت 97۔

[6] سورهٔ حجرات ، آیت 613''اے لوگو! هم نے تم سب کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور هم هی نے تمهارے قبیلے اور برادریاں بنائیں تاکه ایک دوسرے کی شناخت کرے ، یقینا خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وهی هے جو بڑا پرهیز گار هو '' بے شک خدا بڑا واقف کار با خبر هے ''۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
فريقين كى دو كتابيں
قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام

 
user comment