اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ الزہرا ء پندرہویں قسط

حضرت فاطمہ الزہرا ء پندرہویں قسط

گزشتہ مضمون میں ہم جناب ِ سیدہ سلام اللہ علیہا پر بات کر تے ہو ئے احد کے میدان ِ جنگ اور وہاں سے واپسی تک پہونچے تھے۔ گوکہ وہ شفیق دادا سید الشہداءحضرت حمزہ (رض) کو کھو چکی تھیں اور ان کا وہ کلیجہ بھی دیکھ چکیں تھیں جو کہ معاویہ کی والدہ ہندہ نے چبالیا تھا کیونکہ اس وقت یہ پورا خاندان حالت ِ کفر میں اور کٹر اسلام دشمن تھا ۔پھر ان (رض) کی مسخ شدہ میت بھی دیکھی تھی نیز اپنی دادی حضرت صفیہ (رض) کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی ۔ مگر انہوں (رض)نے حوصلہ نہیں ہارا اور ایک سچی مومنہ کی طرح خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کے سر پر والدِ محترم (ص)کا سایہ قائم رکھا اور دشمنوں کی اڑا ئی ہو ئی خبر غلط ثابت ہوئی۔ نہ صرف والد(ص) بلکہ ان کے سر تاج بھی زندہ اور سلامت واپس تشریف لا ئے۔ جبکہ وہ اس سے بے خبر تھیں کہ قدرت ایک اور امتحان لینے والی ہے ، ابھی وہ خون آلودہ تلوار یں دھو بھی نہ پا ئیں تھی ایک اور مر حلہ پیش ہو آگیا کہ کسی مخبر نے خبر دی ابو سفیان مکہ معظمہ جانے والے راستے پر مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ٹھہرا ہوا ہے اور وہ مدینہ پر دو بارہ حملہ کر نے کا منصوبہ بنا رہا تا کہ اسلام کو ہمیشہ کے لیئے نیست و نابود کر دیا جا ئے۔لہذا حضور (ص) نے پھر ان ہی زخموں سے چور مجا ہدین کو طلب فر ما لیا ،جو کہ زخموں اور تھکن سے پہلے ہی نڈھال تھے اور بہت سے تو ایسے تھے کہ ابھی چلنے کے قابل بھی نہیں ہوئے تھے۔
لیکن قرون ِ اولیٰ کے ان مسلمانو ں (رض) کا جذبہ اطا عت تو دیکھیئے کہ وہ اسی حالت میں نکل آئے اور حضور (ص) اور حضرت (علی (رض) نے پھر حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا سے رخصت چا ہی اور میدان ِ جنگ کے لیئے روانہ ہو گئے۔ مدینہ سے چل کراحمر الا سدپہونچ کر مقیم ہو گئے۔ اس جہاد کی عجیب بات یہ تھی کہ حضور (ص) نے یہ شرط لگا دی کہ آج میرے ساتھ صرف وہی لوگ جا ئیں گے جو احد میں میرے ساتھ تھے! عبد اللہ بن ابی سلول نے اپنی کل کی حرکت پر معذرت کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کی تا زہ دم فوج کے ہمراہ چلنے کی اجازت چا ہی ،مگر حضور (ص) نے اجازت نہیں دی۔ اس دن صرف ایک شخص کو اجازت دی گئی جو بنی اشہل میں سے تھے اور غزوہ احد میں شامل نہیں تھے۔ کیونکہ ان کا عذر معقول تھا کہ ان کے والد (رض)نے کہا کہ تم ابھی کم سن اور نا تجربہ کار ہو، میری سات بیٹیاں بھی ہیں لہذا مجھے جانے دو میں تم سے بہتر لڑونگا تم انکی حفاظت کے لیئے رک جا ؤ۔ پھر وہ اپنے بڑے بیٹے کو لیکر میدان ِ جنگ میں تشریف لے گئے اور شہید ہو گئے۔
اب چونکہ والد حیات نہ تھے جن کی حکم عدولی کا خطرہ ہو تا وہ آزاد تھے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ ان کے پاس سواری نہ تھی۔ ان کے ایک بھائی جو کل کی جنگ میں شریک تھے اور بری طرح زخمی تھے اور وہ بھی ارشاد ِرسول (ص) کی تعمیل میں میدان جنگ کے لیئے جانے پر مصر تھے۔ لہذا نہوں (رض) نے اس کا حل یہ نکا لا کہ انہوں نےاپنے اس زخمی بھائی (رض)کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور روانہ ہو گئے گوکہ کچھ تا خیر سے پہونچے لیکن وہ بھی اس وقت حضور (ص) کےقدموں میں جا پہونچے، جبکہ اس وقت تک وہ (ص)مدینہ منورہ سے آٹھ میل دور احمر الا سد میں قیام پذیر ہو چکے تھے ۔ حضور (ص) تین دن تک وہاں تشریف فر ما رہے مگر یہ اس فوجی حکمت عملی کا اثر اورمعجزہ فتح با لرعب کا کرشمہ تھا جوکہ ابوسفیان کو مدینہ کی طرف پیش قدمی کر نے کی ہمت نہیں پڑی۔
اسی دوران حضرت معبد خزاعی (رض) جنہوں نے ابھی تک کسی وجہ سے اپنے مسلمان ہو نے کا با قاعدہ اعلان نہیں فر ما یا تھا، جبکہ وہ ایمان لا چکے تھے۔ حضور (ص) کی خدمت اقدس میں حا ضر ہو ئے اوراحد کے واقعات پر افسوس کا اظہار فر مایا۔ پھر فر مایا کہ مجھ سے جو اب بن پڑے گا میں کرونگا آپ مجھے صرف اجازت مر حمت فر مادیں؟ حضور (ص) نے اجازت مر حمت فر مادی۔ تو وہ ابو سفیان کے پاس پہونچے اور اس سے پوچھا کہ یہاں کس ارادے سے ٹھیرے ہو ئے ہو؟ اس نے کہا کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اب اسلام کو ختم کر کے ہی جاؤں گا، کیونکہ اس سے بہتر موقعہ پھر نہیں ملے گا کہ تمام مسلمان اس وقت زخمی ہیں ۔ مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ وہ (ص)احمر الاسد میں آکر رک گئے ہیں، نہ آگے بڑھ رہے ہیں کہ جنگ ہو نہ واپس جا رہے ہیں کہ میں تعاقب کروں۔ میں اس عجیب صورت ِ حال کو سمجھ نہیں پارہاہوں کہ ایک شکست خوردہ فوج ایک فاتح فوج کے تعا قب میں کیسے آسکتی ہے جبکہ زخموں سے چور چور بھی ہو؟
انہوں (رض) نے جواب دیا کہ اس بھلا ئے میں مت رہنا وہ لوگ جواحد میں شامل نہیں ہو ئے تھے اور ان کے عزیزو اقارب وہاں شہید ہو ئے ہیں، انتہائی غضب ناک ہیں اور وہ کسی آن تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا چا ہتے ہیں کیونکہ وہ احد کا بدلہ لینے کے لیئے بیچین ہیں اور وہ لے کر رہیں گے۔ ابو سفیان ہمیشہ سے ایک پست ہمت انسان تھا جبکہ بدر میں تمام سرداران کفار کے مارے جانے کے بعد قدرت نے اس کو سردار بنا دیا تھا۔ لہذا اس نے بھاگنے کی ٹھانی پہلے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورہ کیا، صفوان بن امیہ جس کااس کے بعد دوسرا نمبر تھا وہ بھی واپسی پر اڑگیا پھر دوسرے سر داروں سے مشورہ کیا اور سب کی را ئے یہ ہی ہو ئی کہ وہ یہاں سے حضور (ص) کے آنے سے پہلے چلے جائیں۔
اسی دوران ایک قافلہ جو کہ ابو قیس کی قیادت میں مدینہ کی طرف جا رہا تھا وہاں سے گزرا ، ابو سفیان نے اس کو یہ پیغام دیا کہ حضور (ص) کہنا کہ ہم ان کی بیخ کنی کیئے بغیر مکہ نہیں جا ئیں گے۔ اس میں اس کی مصلحت یہ تھی کہ وہ تعاقب سے بچ جا ئے۔ انہوں نے اس کا پیغام حضور (ص) کو پہو نچا یا ۔اور وہ آگے بڑھ گیا ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے اس کے لیئے اس کو ابو سفیان نے کچھ رقم بھی دی تھی تاکہ وہ قریش کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دے اور حضور (ص) تعاقب سے باز رہیں ۔ اتنے میں مخبروں نے خبر دی کہ کفار فرار ہو چکے ہیں۔اس خبر کو سن کر حضور (ص) نے فر مایا کہ “ مجھے قسم ہے اس ذات ِ پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ۔ اگر وہ ادھر کا قصد کر تے تو عذاب الٰہی ان پر نازل ہو جاتا اور وہ نشان زدہ پتھر تیار ہو چکے تھے جن پر ان کے نام لکھے گئے تھے “اس کے بعد حضور(ص)ر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ اور رات کو اس مسجد میں قیام فر مایا جہاں وہ ہمیشہ قیام فر ما یاکرتے تھے کیونکہ یہ ان کی سنت تھی کہ وہ رات کومدینہ شریف میں داخل نہیں ہو تے تھے۔ بلکہ صبح کو نماز سے فا رغ ہو نے کے بعد داخل ہو تے تھے۔ سب سے پہلے اپنی سنت ِ مبارکہ کے مطابق حضرت فا طمہ (رض) کے حجرے پر تشریف لا ئے۔ اور انہوں اپنے والد کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ باقی آئندہ

بشکریہ عالمی خبریں ڈاٹ کام

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری

 
user comment