اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

قرآن کی عبارت میں (فبشرھم بعذاب الیم) ، کیوں آیا ہے جب کہ بشارت کے مثبت معنی ہوتی ہیں؟

قرآن کریم میں (فبشرھم بعذاب الیم) کیوں آیا ہے جب کہ بشارت کے مثبت معنی ہوتے ہیں؟
ایک مختصر

قرآن اور لغت میں لفظ (بشارت) اچھی اور بری دونوں خبر کے لئے آتاہے ، لیکن قرائن کی روشنی میں ان دونوں معنی میں سے ایک مشخص ہوتا ہے۔ قرآن کریم استعمال شدہ لفظ بشارت میں اندوہ ناک خبر ایک طرح کا استعارہو تحکم ہے یعنی عذاب کے علاوہ کوئی اور چیز ان کے لئے نہیں ہے کیونکہ موعظہ و پند و نصیحت کفار و بت پرستی کے دلوں پرکوئی اثر نہیں کرتی لہذا خداوند عالم نے پیغمبرؐ سے فرمایا کہ انھیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔

تفصیلی جوابات

قرآن اور لغت میں لفظ (بشارت) اچھی اور بری دونوں خبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔[1] لیکن قرائن کے مطابق ان دونوں میں سے ایک خبر مشخص ہوتی ہے۔

لفظ ’’بشارت‘‘ قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن اس کے مشتقات ذکر ہوئے ہیں جیسے’’بشری‘‘:’’ و ’’ما جعلہ اللہ الا بشری لکم‘‘[2] خداوند عالم نے اسے (فرشتوں کی نصرت کو) تمہارے لئے بشارت اور خوش خبری قرار دیا ہے۔ لفظ’’بشری‘‘ اس آیت اور اس جیسی آیات میں خوش خبری کے معنی میں آیا ہے۔ لیکن لفظ ’’بشر‘‘ قرآن کریم میں ۔۔۔ اچھی اور بری دونوں خبروں کے معنی میں آیا ہے مثلا :(بشر الذین آمنوا و عملوا الصالحات ان لھم جنات تجری من تحت الانھار)[3] جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ہیں انھیں جنت کے ان باغوں کی بشارت دے دیجئے۔۔۔۔ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ لفظ ’’بشّر‘‘ اس آیت میں خوش خبری کے معنی میں آیا ہے۔

’’بشّر المنافقین بان لھم عذاباً الیما‘‘[4] منافقون کو بشارت دے دیجئے کہ دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔ اور’’و بشرھم بعذاب الیم‘‘[5] ان آیات میں لفظ ’’بشّر‘‘ بری اور اندوہ ناک خبر کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو ایک طرح کا استعارہ اور تحکم ہے، یعنی عذاب کے علاوہ ان کے لئے کوئی اور چیز نہیں ہے۔[6] کیونکہ کفار اور بت پرستوں کے دل پر کسی موعظہ اور نصیحت کا اثر نہیں ہوتا لہذا خداوندعالم نے پیغمبرؐ سے فرمایا کہ انھیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے اور یہ ایک طرح کا لعن اور سرزنش ہے۔[7]

 


[1] - قریشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن ج۱، ص۱۹۴، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ ششم، ۱۳۷۱ ش؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، ج۳، ص۲۲۱، کتابفروشی مرتضوی، تہران، چاپ سوم، ۱۳۷۵ش۔

[2] - آل عمران، ۱۲۶۔

[3] - بقرہ، ۲۵۔

[4] - نساء، ۱۳۸۔

[5] - انشقاق، ۲۴۔

[6] - قاموس قرآن، ج۱، ص۱۹۴؛ مجمع البحرین، ج۳، ص۲۲۱۔

[7] - حسینی ھمدانی، سید محمد حسین، انوار درخشان، تحقیق: بہبودی، محمد باقر، ج۱۸، ص۶۲و ۶۳، کتابفروشی لطفی، تہران، چاپ اول، ۱۴۰۴ق؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ۲۶، ص۳۱۹، دار الکتب الاسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا
دینی معاشرہ قرآن و سنت کی نظر میں
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ احقاف کی آیت ...

 
user comment