قرآن مجید کے مطابق، خود آگاہی کے معنی یہ ہیں کہ انسان، اپنی فطرت اور باطن میں موجود استعدادوں کی پرورش کرے اور زندہ کر کے اپنی حقیقت کو دوبارہ پائے اور اس کے بعد ہستی اور اسماء و صفات الہٰی کا قلباً ادراک کرے۔
خود آگاہی کے مختلف مراتب اور درجے ہیں ، جیسے: فطری خودآگاہی، عالمی خودآگاہی اور عرفانی خودآگاہی اور ان میں سے مکمل مرتبہ عرفانی خودآگاہی ہے، اور یہ خودآگاہی، انسان، یعنی خلیفہ الہٰی، کا حقیقت و اصلیت کے ساتھ پیوند ہے۔
قرآن مجید کے مطابق، خود آگاہی کے معنی یہ ہیں کہ انسان، اپنی فطرت اور باطن میں موجود استعدادوں کی پرورش کرے اور زندہ کر کے اپنی حقیقت کو دوبارہ پائے اور اس کے بعد ہستی اور اسماء و صفات الہٰی کا قلباً ادراک کرے۔ پس انسان کی ذات اور ذاتی جوہر ، خود کو دوبارہ پانا اور خود آگاہی حاصل کرنا ہے[1]، اور فطری طور پر انسان اس کے ساتھ عشق و محبت کرتا ہے۔
اس لحاظ سے، خودآگاہی کے مختلف مراتب اور درجے ہیں[2] اور اس کا مکمل مرتبہ عرفانی خودآگاہی ہے، اور یہ خودآگاہی، انسان ، یعنی خلیفہ الہٰی کا حقیقت و اصلیت کے ساتھ پیوند ہے۔
ہم اس مقالہ میں خودآگاہی کے مختلف مراتب پر اجمالی طور پر روشنی ڈالیں گے:
۱۔ فطری خودآگاہی:
یہ آگاہی، فکر و غور کی قسم اور حصولی علم نہیں ہے[3]، بلکہ ایک بیداری اور حضوری علم ہے۔ حضوری خودآگاہی، یعنی میں ہوں اور اپنی باطنی استعدادوں کے ذریعہ اس ہستی کی آگاہی رکھتا ہوں۔ یہ خود آگاہی، اصلی اور حقیقی ہے اور انسان کی عین شخصیت ہے۔ اس خودآگاہی میں، انسان "میں" نام کی ایک حقیقت کو پاتا ہے ، جو اس کی شخصیت کی عین آگاہی ہے[4]۔
البتہ، اس مظہر میں، عام طور پر بلاواسطہ اور براہ راست "میں" پر تسلط نہیں جمایا جا سکتا ہے، بلکہ پہلے انسان کی باطنی طاقت اور فعالیتوں کا ادراک ہوتا ہے، پھر حضوری خودآگاہی کے لیے "میں" کا ادراک ہوتا ہے[5]۔
قرآنمجید، رحم میں جنین کی خلقت کے مراحل کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے، اس کے آخری مرحلہ کے عنوان سے، جو حقیقت میں انسان کی خلقت کا سب سے اہم مرحلہ ہے[6]، ارشاد فرماتا ہے:"ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ"[7] {پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا}، اسی کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ خودبخود خود آگاہی روحانی جوہر میں تبدیل ہوتا ہے[8]۔ بہ الفاظ دیگر اسے صاحب حیات و قدرت و علم بنا دیا اور اسے ذاتی جوہر عطا کیا، جسے "میں" کہتے ہیں[9]۔
۲۔ عالمی خودآگاہی:
عالمی خودآگاہی، یعنی عالم کی بہ نسبت اپنے بارے میں آگاہی کہ: میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں پر ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟ اور اس خودآگاہی میں انسان انکشاف کرتا ہے کہ وہ عالم نام کے ایک "کل" کا جزء ہے، وہ جانتا ہے کہ آزاد نہیں ہے بلکہ وابستہ ہے، یعنی، خود نہیں آیا ہے، خود زندگی نہیں گزارتا ہے، اور اس دنیا سے خود نہیں جا رہا ہے، وہ اس "کل" میں اپنی حالت کو مشخص کرنا چاہتا ہے[10]۔ امام علی{ع} نے اپنے بامعنی کلام میں اس قسم کی خودآگاہی کے بارے میں فرمایا ہے: " خدا اس پر رحمت کرے، جو جانتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں پر ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟"[11]
قرآن مجید میں انسان کے مبدا ومعاد کے بارے میں بکثرت آیات موجود ہیں، جو انسان کو دنیا و آخرت کی زندگی کی حقیقت کے بارے میں بیداری و آگاہی حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہیں:
" ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں۔[12]"
" وہ خدا، وہ ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا ہے { تاکہ انسان کمال حاصل کرے} اور مقررہ مدت اس کے پاس اور بھی ہے { جس سے صرف وہی آگاہ ہے}۔"[13]
"اللہ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو خلق کیا ہے پھر روزی دی ہے پھر موت دیتا ہے پھر زندہ کرتا ہے۔ ۔ ۔[14]"
۳۔ عرفانی خود آگاہی:
عرفانی یا عارفانہ خودآگاہی ، خداوندمتعال کے ساتھ رابطہ کے سلسلہ میں اپنے بارے میں آگاہی ہے۔ یہ رابطہ، دو ایسے موجود کے درمیان نہیں ہے جو ایک دوسرے کے متوازی قرار پائے ہیں۔ بلکہ فرع کے اصل سے رابطہ کی قسم ہے، جائز کے واحد حقیقت {حق تعالیٰ} سے اور مقید کے مطلق سے رابطہ کی قسم ہے، عارف کی کسک ایک اندرونی کسک ہوتی ہے اور فطری ضرورت سے پیدا ہوتی ہے[15]۔
عارف کی نظر میں، روح و جان ، حقیقی "میں" نہیں ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں آگاہی ، خود آگاہی نہیں ہے بلکہ روح و جان، "خود" اور "میں" کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہوتا ہے اور حقیقی "میں" خداوندمتعال ہے۔ اگر انسان خود سے فانی ہو جائے اور تعینات کو توڑپھوڑ کے انہیں مدنظر نہ رکھے تو روح و جان کا وجود باقی نہیں رہتا ہے اور اس طرح انسان حقیقی خودآگاہی کی منزل تک پہنچتا ہے[16]۔
اگر انسان ، اپنی فطری اور عالمی خودآگاہی کو پرورش بخشے اور اپنی اصلیت {خلیفہ الہٰی ہونے} سے آگاہ ہو جائے، تو اس نے اس عارفانہ خودآگاہی کے میدان میں قدم رکھا ہے اور اس عارفانہ رابطہ کا ادراک کیا ہے اور خدا کی طرف سے اس کے لیے عشق و محبت اور اپنی طرف سے خدا کے عشق و محبت کو دل میں محسوس کرتا ہے:"یحبّهم و یحبّونه"[17] عارفانہ خودآگاہی، فطری اور عالمی خودآگاہی کی پرورش یافتہ ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں خداوندمتعال کے ارشاد کے مطابق، جو چیز خود آگاہی کے منافی اور اس کے لیے رکاوٹ ہے، وہ "خود فراموشی" ہے، جو "خدا فراموشی" کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے: " اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا، جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں۔[18]"
کیونکہ جب انسان خدا کو فراموش کرتا ہے، تو وہ خداوندمتعال کے اسمائے حسنیٰ اور عالی صفات کو بھی فراموش کرتا ہے، جن کے ساتھ اس کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنی خودآگاہی کی کوشش و تلاش میں نہ ہو اور اسے اپنے اندر زندہ نہ کرے، تو اس نے خدا کو بُھلا ڈالا ہے اور وہ ہر گناہ کا مرتکب ہو کر عبودیت و بندگی سے خارج ہوتا ہے[19]۔
[1]. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 2، ص 304 و 308، انتشارات صدرا.
[2]. ملاحظہ ہو: مجموعه آثار، ج 2، ص 308 – 326.
[3]. اس کے برخلاف جب ماہر نفسیات خودآگاہی کی بحث کرتے ہیں، علم حصول اور ذہن کے طریقے سے اپنے بارے میں آگاہی کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔( مجموعه آثار، ج 2، ص 309).
[4]. مجموعه آثار، ج 2، ص 308،
[5]. ملاحظہ ہو: جعفری، محمد تقی، ترجمه و تفسیر نهج البلاغه، ج 6، ص 262، و ج 26، ص 61 و 62، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، تهران، طبع هفتم، 1376ھ ش.
[6]. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 14، ص 208، دارالکتب الاسلامیة، تهران، طبع اول، 1374ھ ش.
[7]. مؤمنون، 14.
[8]. مجموعه آثار، ج 2، ص 309.
[9]. طباطبايى، سيد محمد حسين، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 15، ص 20، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ھ.
[10]. مجموعه آثار، ج 2، ص 310.
[11]. «رحم اللّه امرأ أعد لنفسه، و استعد لرمسه، و عرف من أين و في أين و الى أين» ( مغنیة، محمد جواد، فی ظلال نهج البلاغه، ج 1، ص 22، دارالعلم للملایین، بیروت، طبع سوم، 1358ش؛ نقوی قاینی خراسانی، سید محمد تقی، مفتاح السعادة فی شرح نهج البلاغه، ج 5، ص 128، مکتبة المصطفوی، تهران، بی تاریخ).
[12]. بقره، 156.
[13]. انعام، 2.
[14]. روم، 40.
[15]. مجموعه آثار، ج 2، ص 319 و 320.
[16]. مجموعه آثار، ج 2، ص 321.
[17]. مائده، 54.
[18]. حشر، 19.
[19]. ملاحظہ ہو: المیزان فی تفسیر القرآن، ج 19، ص 219 و 220.