فارسی
پنجشنبه 06 دى 1403 - الخميس 23 جمادى الثاني 1446
قرآن کریم مفاتیح الجنان نهج البلاغه صحیفه سجادیه
0
نفر 0

حیات پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم میں ابو طالب کا کردار

حضرت ابراہیم خلیل خدا نے دعا مانگی تھی کہ خدا وند عالم ہم کو مسلم قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایک ( امت مسلمہ ) قرار دے گویا مسلمانوں کی قومی زندگی اور پیغمبر اسلام کی بعثت حضرت ابراہیم کی دعا کا نتیجہ تھی گویا حضرت ابراہیم مسلمانوں کے جد اعلیٰ تھے ۔ حضرت ابراہیم کے دو فرزند تھے ، اسحاق و اسماعیل ۔ حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے دو بیٹوں ” نابت “ اور ” قیدار “ کی اولاد حجاز میں آباد ہوئی۔ قیدار کی اولاد میں حضرت عدنان تھے ۔ بہت مشہور ہے کہ پیغمبر اسلام ابن قیدار کی اولاد میں سے تھے ، چونکہ قیدار کی اولاد میں سے رسول اسلام تک پہنچنے کے لئے آخری فرد تھے ۔ جناب عبد اﷲ والد رسول خدا تھے ۔ قیدار کے کل اکیس (۲۱) بیٹے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد اﷲ تک اکیس (۲۱) پشت ہوئے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قریش کا لقب ان اکیس بیٹوں میں کس کو ملا ۔ زیادہ قوی قول یہ ہے کہ یہ لقب قصی بن کلاب کو ملا ۔ قریش تقرش سے ماخوذ ہے جو کہ تجارت اور کسب معاش کے معنی میں ہے چونکہ لوگ اپنی محنت و مشقت اور قوت بازو کی کمائی کا معیار عزت سمجھتے تھے اور عملی طور پر دین کے پابند تھے اس لئے قریش کہلائے ۔ 

ایک قول یہ ہے کہ تقرش اجتماع سے ماخوذ ہے چونکہ ان لوگوں نے متفرق ہونے کے بعد اجتماعی شکل اختیار کی اس لئے قریش کہے جانے لگے ۔ منتشر خاندان کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام قصی نے انجام دیا ۔ قصی کی اولاد میں عبد مناف اوصاف و کمالات میں اپنے بزرگوں کے حقیقی جانشین تھے ۔ اس لئے اپنے باپ کی زندگی میں ہی انھوں نے ملک عرب میں شہرت و امتیاز کا درجہ حاصل کیا ۔ عبد مناف کے فرزندوں میں ہاشم جس کا اصل نام عمرو تھا نہایت با اثر اور ممتاز تھے کعبہ کی اہم ذمہ داریاں جیسے حاجیوں کی سیرابی اور ضیافت ان کے سپرد کی گئیں ۔ جو انھوں نے بہت قابلیت اور اچھے انداز سے انجام دیں ۔ ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی مطلب جانشین بنے اس لئے کہ ہاشم کے فرزند شیبہ اس وقت بہت کمسن تھے ۔ جب مطلب کی وفات ہوئی تو ان کی جگہ ان کے بھتیجے شیبہ نے حاصل کی جو کہ عبد المطلب کے نام سے مشہور ہوئے جو کہ رسول خدا کے دادا تھے ، یہ شرف ، عظمت اور شہرت میں اپنے بزرگوں پر بھی فوقیت لے گئے اور سید البطحاءکے لقب سے مشہور ہو ئے ۔ عبد المطلب کے دس بیٹے تھے ان میں دو بیٹے عبد اﷲ و ابوطالب ایک ماں سے تھے ۔ عبد اﷲ رسول خدا کے والد بزرگوار تھے ۔ ” ابو طالب “ حضرت علی علیہ السلام کے والد محترم تھے ۔ عبد اﷲ کا انتقال حضرت رسول خدا کی ولادت سے پہلے حضرت عبد المطلب کی زندگی میں ہوا اور رسول خدا (ص) کی تمام ذمہ داریاں بھی ابو طالب کے حوالے کر دی گئیں ۔ حضرت ابو طالب کو بھی شیخ البطحاءاور سید القریش کے خطاب سے نوازا گیا ۔

جب حضرت محمد دنیا میں آئے تو والد بزرگوار کا سایہ تو پہلے اٹھ چکا تھا ۔ ولادت کے چھ سال بعد مہربان ماں حضرت بی بی آمنہ کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا تو آپ کی پرورش کی ذمہ داری حضرت عبد المطلب آپ کے دادا جان نے سنبھالی ، مگر ابھی آپ آٹھ سال کے تھے کہ دادا بزرگوار کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا تو اس کے بعد آپ کی حفاظت کی ذمہ داری حضرت ابو طالب نے سنبھالی اور آخری سانس تک آپ کا ساتھ دیا ۔ ہر مشکل وقت میں مشکلات کے آگے آپ کے لئے سپر بنے رہے ۔ فقط خود یہ کام انجام نہ دیا بلکہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو بھی حضرت محمد (ص) کی حفاظت کرنے کی نصیحت کرتے تھے ۔

ولادت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم ۱۷ ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام حضرت عبد اﷲتھا جو آپ کی ولادت سے پہلے وفات پا چکے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام حضرت بی بی آمنہ تھا جو آپ کی ولادت کے تقریباً چھ سال بعد انتقال کر گئیں ۔ والدہ گرامی کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کا ذمہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے لے لیا ۔ مگر افسوس کہ ابھی آپ کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ مہربان دادا حضرت عبد المطلب کا بھی انتقال ہو گیا ۔ حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ کی پرورش حضرت ابو طالب نے سنبھال لی چونکہ حضرت عبد المطلب نے وفات سے پہلے اپنے بیٹے حضرت ابو طالب کی نیک سیرت کو دیکھتے ہوئے حضرت محمد کی پرورش کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تھی ۔

حضرت محمد بچوں کے درمیان

فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کہتی ہیں کہ :

” عبد المطلب کی وفات کے بعد ، ابو طالب والد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام حضرت محمد کو ہمارے گھر میں لے آئے میں نے ان کا استقبال کیا اور ان کی دیکھ کی ذمہ داری سنبھال لی ، وہ بھی مجھے والدہ گرامی کہتے تھے ، ہمارے گھر میں کھجوروں کے چند درخت تھے اور موسم بھی کھجوروں کا تھا ، چالیس چھوٹے بچے جو محمد کے ہم سن تھے ہرروز کھجور کے درختوں سے جو کھجور گرتے تھے ان کو جمع کرنے کے لئے آتے تھے اور ایک دوسرے کے پاس سے کھجوروں کو لے لیتے تھے ۔ مگر میں نے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا کہ پیغمبر نے کھجور کو کسی کے ہاتھ سے چھینا ہو “ اور آپ فرماتی ہیں کہ : ” ہر روز میں یا میری خادمہ تھوڑی سی (کچھ مقدار میں ) کھجوروں کو حضرت محمد کے لئے جمع کرتی تھی ایک دن حضرت محمد سو رہے تھے اور ہم دونوں کھجوریں چن کر حضرت محمد کے لئے رکھنا بھول گئے اور سارے بچے ان کھجوروں کو چن کر لے گئے ، ہم دونوں بہت شرمندہ تھے ، میں شرم کے مارے سو گئی اور اپنے بازوؤں کو اپنے چہرے پر رکھ لیا ۔ حضرت محمد جب جاگے تو کھجوروں کے درختوں کی طرف گئے اور ان کو خالی پایا کیونکہ بچے ساری کھجوریں چن لے گئے تھے حضرت محمد جب واپس پلٹے تو خادمہ نے عذر خواہی کر لی ( معافی مانگی ) کہ ہم لوگ آپ کے لئے کھجوریں جمع کرنا بھول گئے ۔ لیکن بغیر فاصلہ کے حضرت محمد دوبارہ کھجوروں کے درخت کی طرف گئے اور ان کو خطاب کر کے کہا : ” میں بھوکا ہوں “ ۔ حضرت فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ درخت نے اپنی شاخ کو اس قدر نیچے کیا کہ حضرت محمد کے نزدیک تک پہنچ گئی ۔ حضرت جتنا چاہتے تھے ان سے کھایا اور پھر درخت کی شاخ اپنی جگہ پر پلٹ گئی ۔ اور حضرت محمد بھی گھر کی طرف پلٹ آئے ۔ “

فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ میں نے جب یہ منظر دیکھا تو تعجب کیا !!! اتنے میں ابو طالب نے دروازہ کھٹکھٹایا اور میں نے معمول کے مطابق جا کر دروازہ کھولا اور جو کچھ دیکھا تھا ابو طالب سے بیان کیا ۔ حضرت ابو طالب نے فرمایا کہ جو عجیب چیزیں تم اس بچے میں دیکھتی ہو تعجب نہ کرو کیونکہ وہ پیغمبر خدا بنے گا اور تجھ سے بھی ایک فرزند اس کی شبیہ دنیا میں آئے گا کہ جو حضرت محمد کا وصی و وزیر بنے گا “ ۔

رسول خدا کے بچپن کے زمانے میں بہت سارے عجیب واقعات تاریخ میں نقل ہوئے ہیں کہ انسان اس مختصر سے مقالہ میں بیان کرنے سے قاصر ہے

( رہنمای سعادت ، ج ۴ ، ص ۱۹ ، بہ نقل از مصباح الحرمین ص ۳۲ )

حضرت ابو طالب کی ممتاز شخصیت

جب حضرت محمد دنیا میں آئے تو حضرت عبد المطلب اپنے اتنے عظیم کمال ہونے کے با وجود آپ کا احترام کیا کرتے تھے اور عبد المطلب اسی وقت پیغمبر کی روشن مستقبل ، نبوت کی عظمت کے بارے میں جانتے تھے ۔ عبد المطلب کی وفات کے بعد ابو طالب جو کہ باپ کی خوبیوں کے آئینہ دار تھے ۔ تمام خوبیوں و فضایل کو باپ سے ارث میں لئے ہوئے تھے ۔ رہبر کے مقام پر تھے ۔ زائروں کی مدد کرنا ، مستضعفین و محرومین کی حمایت ، اہل فساد سے سے جنگ کرنا ان کے عہدہ میں تھا ۔ پیغمبر کی نوبت سے پہلے اور نبوت کے بعد ان کی حمایت میں فداکاری کی ۔ ان کے اوصاف و فضائل بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر فقط ایک نمونہ بیان کیا جا رہا ہے ۔

ایک شخص جس کا نام ” جہلمہ “ ہے بیان کرتا ہے کہ مکہ میں وارد ہوا کیا دیکھا کہ قحط اقتصادی نے لوگوں کا جینا سخت کر دیا ہے ایک کہتا ہے ” لات و عزیٰ “ دو بتوں کی پناہ لیتے ہیں دوسرا کہتا ہے ” منات “ کی پناہ لیتے ہیں اس دوران میں نے ایک بوڑھے نورانی اور باصفا مرد کو دیکھا کہ لوگوں کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کہاں پناہ لے رہے ہو ؟ جبکہ تمہارے درمیان ایک شخص ہے جو حضرت ابراہیم خلیل کے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل سے ہے ۔ لوگوں نے کہا : آپ کا مطلب اس بات کے کرنے کا ابو طالب ہے تو اس بوڑھے مرد نے کہا : ہاں ! اچھا سمجھتے ہو ۔

لوگوں نے حضرت ابو طالب سے ملنے کے لئے ان کے گھر کی طرف حرکت کی میں بھی ان کے ساتھ تھا اور جب ابو طالب کے گھر پہنچے اور دروازے کو دستک دی ۔ اچانک ایک نورانی شخص نکلا جس نے عبا سا پیرہن پہنا ہوا تھا ۔ سب ابو طالب کی طرف بڑھے اور آہ و بکار شروع کی کہ اے ابو طالب ! ہماری مدد کریں ۔ بھوک اور قحط نے ہماری طاقت کو ختم کر دیا ہے ، ہمارے لئے بارش کی دعا کریں ۔ حضرت ابو طالب ایک چھوٹے بچے کے ہمراہ ( جو کہ سورج کی طرح چمک رہا تھا ) چل پڑے یہاں تک کہ کعبہ کے نزدیک گئے اور کعبہ کے پاس دعا میں مشغول ہو گئے ، وہ بچہ بھی دعا کر رہا تھا ، اچانک آسمان پر بادلوں کو دیکھا کہ جس کا آسمان پر پہلے کوئی اثر نہیں تھا ۔ بادلوں نے پورے آسمان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور اچھی طرح بارش ہوئی ، لیکن بعض لکھتے ہیں کہ ابو طالب نے پیغمبر کو ہاتھوں میں لیا جو کہ اس وقت چھوٹے تھے اور دعا کرنا شروع کی ۔ ” اے خدایا ! اس بچے کی حقیقت کا واسطہ ، بارا ن رحمت کو ہم پر نازل فرما اور کچھ وقت نہ گزرا کہ کافی بارش ہوئی ( پیامبر اعظم الگوی مہر ورزی و مقاومت ، مو ¿لف محمد مہدی اشتہاردی ص ۱۹، ۲۱)

آغاز دعوت حضرت محمد

جب رسول خدا چالیس سال کے ہوئے اور ان کی یہ عمر بچپن اور نوجوانی میں گزر گئی تو آپ خدا وند کی طرف سے پیغمبری پر مبعوث ہوئے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے قیام کیا اور کسی ڈر اور خوف یا مشکلات کی پرواہ کئے بغیر استقامت کے ساتھ قریش (جو اس وقت بت پرست تھے ) کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ، اپنے مشن کو آگے بڑھایا ۔ خاص طور سے حج کے زمانے میں حاجیوں کا جم غفیر ہوا کرتا تھا آپ اپنی فصیح و بلیغ تقریر سے اپنی رسالت و نبوت کی تبلیغ کیا کرتے تھے اور لوگوں کو اس نئے دین سے آگاہ کیا کرتے تھے ، آپ کی تقریر کا اثر بھی لوگوں پر ہوا کرتا تھا ۔

یہی وجہ تھی کہ دین اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور ہر جگہ ، عام خاص کی زبان پر نئے دین (اسلام) کا چرچا ہو رہا تھا کہ نئے دین کے بارے میں تمام جگہوں سے زیادہ مکہ میں بہت شور و غل تھا کہ لوگوں کے دل حضرت محمد کی طرف مائل ہورہے تھے کہ اسی دوران مکہ کے فرعون ( قبیلوں کے سردار ) متوجہ ہو ئے کہ محمد تو سب کے دلوں پر راج کر نے لگا ہے اس وجہ سے وہ ابوطالب پر اعتراض کرنے لگے اور جب کسی نتیجے پر نہ پہنچے اور انھوں نے پروگرام بنایا کہ سب اکٹھا ہو کر ابو طالب کے پاس چلتے ہیں ۔ سب اکٹھا ہو کر حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے ” اے ابو طالب ! آپ شرافت اور عمر کے لحاظ سے ہم سب پر برتری رکھتے ہیں لیکن ہم نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ اپنے بھتیجے کو دین کی تبلیغ کرنے سے منع کریں مگر آپ نے اسے منع نہیں کیا ۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے وہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے اور ہمیں بے عقل و ہماری افکار کو پست و گھٹیا سمجھتا ہے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس کو اس طرح کے کاموں سے منع کریں ۔ ورنہ اس کے اور آپ کے ساتھ جو اس کے حامی و مددگار ہوں جنگ کریں گے ۔ اور آپ دونوں میں سے ایک کو ختم کر کے چھوڑیں گے “ ۔

اس تمام خطرے کے آگے جو کہ دشمنوں نے کھڑے کئے ۔ حضرت ابو طالب نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور ان سے وعدہ کیا کہ ان کی باتوں کو اپنے بھتیجے تک پہونچا دیں گے ۔ البتہ یہ بردباری کا مظاہرہ فقط ان کے (یعنی قریش والوں کے) غصے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے تھا جب قریش کے سردار چلے گئے تو آپ نے اپنے بھتیجے کو ان کا پیغام سنایا اور جواب کے منتظر تھے کہ حضرت محمد نے جواب میں ایک جملہ فرمایا کہ اس ایک سطر کو تاریخ میں طلائی سطر میں شمار کیا جاتا ہے ۔ فرمایا : ” چچا جان ! خدا کی قسم ! اگر یہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں ( مطلب یہ کہ سارے دنیا کی سلطنت مجھے دے دیں ) اور کہیں کہ اس آئین اس دین کی تبلیغ کرنے سے باز آجاو ¿ تو میں ہرگز حاضر نہیں ہوں گا اور اپنے ہدف کو جاری رکھوں گا یہاں تک کہ ان مشکلات پر کامیاب ہو جاؤں اور اپنے اصل مقصد تک نہ پہنچ جاؤں یا اپنے مقصد کی خاطر اپنے ہدف کی خاطر راہ میں جان دے دوں “

آپ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور چچا کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے ۔ لیکن ان کی گفتار نے مکہ کے رئیس حضرت ابو طالب پر بہت اثر کیا کہ حضرت محمد کو اپنے پاس بلایا اور کہا : محمد جان ! خدا کی قسم ! میں کبھی بھی آپ کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوں گا ۔ اپنے کام کو آخر تک پہونچاؤ جس پر آپ مامور ہوئے ہیں میں آخری سانس تک آپ کی حمایت کروں گا “ ۔

حضرت ابو طالب کا ایمان

بعض اہل سنت حضرت ابو طالب کو مشرک مانتے ہیں لیکن مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب ایک مؤمن اور موحد انسان تھے لیکن اپنے ایمان کو چھپا رکھا تھا ۔ مو ¿من آل فرعون کی طرح کی جن کے بارے میں قرآن فرما رہا ہے : ” یکتم ایمانہ “ ( سورہ غافر ۲۸) وہ اپنے ایمان کو چھپائے تھے ۔

اس کام کو حضرت ابو طالب نے اس لئے انجام دیا تاکہ بہتر طریقے سے پیغمبر کی حمایت کر سکیں ۔ ان کے ایمان کے بارے میں مختلف دلائل ہیں :

۱ ) ابو طالب جانتے تھے کہ حضرت محمد نبوت اور رسالت پر مبعوث ہوں گے لہذا انھوں نے اپنی ساری عمر میں آخر وقت تک ان کی حمایت کی ۔

۲) حضرت ابو طالب نے ۵۵ بیت کا قصیدہ پڑھا کہ دوسرے بیت کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے قریش جانتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ( محمد ) جھوٹا نہیں ہے اور کبھی بھی باطل کاموں کا پیچھا نہیں کیا ۔ اس قصیدہ کے آخری شعر میں کہتے ہیں کہ ( محمد ) میزان حق ہے اس طرح کہ ایک ” جو“ کے برابر بھی کم و زیادہ نہیں کرتا ۔

۳ ) حضرت ابو طالب نے خط میں بادشاہ حبشہ کو لکھا کہ آگاہ ہو جاؤ کہ محمد پیغمبر خدا ہے جس طرح حضرت موسی و عیسی و دوسرے پیامبران خدا تھے کہ ان پر آسمانی کتاب نازل ہو چکی ۔

۴ ) آیت نازل ہوئی

” لن یجعل اﷲ للکافرین علی المؤمنین سبیلاً “ ( سورہ نساء ۱۴۱)

کافرین کو مؤمنین پر کوئی حق نہیں ہے

یعنی کہ مسلمان عورت کا کافر مرد سے شادی کرنا صحیح نہیں ہے اگر ابو طالب مشرک ہوئے تو پیامبر اکرم فاطمہ بنت اسد کہ جو کہ ایک مؤمنہ ہمسر ابو طالب تھیں ان سے جدا کر لیتے ۔

۵ ) روایت میں ہے کہ حضرت علی ؑ نے ایک شخص کو معین کیا وہ حضرت عبد اﷲ ، حضرت آمنہ اور حضرت ابو طالب کی نیابت میں حج انجام دے ۔ جبکہ ہم مانتے ہیں کہ کافر کی نیابت کرنا باطل ہے ( آئینہ ایزد نما ، حاج شیخ عباس شیخ الرئیس کرمان ، ص ۹۱ )

رسول خدا سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت ابو طالب اصحاب فیل کی مثل تھے کہ اپنے ایمان کو چھپا رکھا تھا اور شرک کا اظہار کرتے تھے ۔ یہ جرم نہیںہے بلکہ ان کو دوہرا اجر دیا جائے گا ۔

حضرت علی  فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! میرے آباءو اجداد ( ابو طالب ، عبد المطلب ، ہاشم ، عبد المناف ) ہرگز بت پرست نہیں تھے بلکہ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے ۔

جابر بن عبد اﷲ روایت نقل کرتے ہیں ؛ پیغمبر سے حضرت ابو طالب کے عقیدہ کے بار ے میں میں نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اے جابر ! خدا دانا ہے اور غیب کو جانتا ہے ۔ میں جب شب معراج آسمان پر گیا تو ساق عرش پر چار نور دیکھے تو عرض کی اے پرور دگار عالم ! یہ نور کس کے ہیں ؟ خدا وند عالم نے جواب دیا : اے محمد یہ نور عبد المطلب ، عبد اﷲ ، ابو طالب اور چوتھا ابو طالب کے بھائی کا ہے تو رسول خدا نے عرض کی کہ کس بنا پر ان کو یہ مقام دیا ؟

خدا وند عالم کا خطاب ہوا

کہ یہ ایمان کو چھپانے اور ان کے کفر کو ظاہر کرنے اور ان کے مصائب پر صبر کرنے کی بنا پر ہے ۔ ( مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم ، جلد ۱ ص ۴۵ ، ۴۶ مؤلف عماد زادہ )  

حضرت ابو طالب رسالت کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ گئے :۔

قریش نے مؤمنین کے اس پہلے گروہ کو ہر طرح کی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، لیکن اس کے با وجود اس دعوت کے رہبر ، رسول خدا کو اس طرح کی کوئی تکلیف نہیں پہونچا سکتے تھے ، کیونکہ ان کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ ابو طالب ، سردار بطحاء، رسول خدا کے سامنے ہر طرح کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے لئے دیوار کی طرح کھڑے ہیں ۔

کیونکہ جناب ابو طالب صرف بنی ہاشم کے سردار نہ تھے بلکہ ان کا رعب و دبدبہ مکہ کے تمام قبائل میں تھا ۔

اس کے علاوہ بھی رسول اعظم کی اس دعوت کی دیواریں آپ پر تکیہ کئے ہوئے تھیں اور یہ دعوت روز اول سے ہی آپ کے سہارے پر قائم تھیں اور اسے قریش بخوبی جانتے تھے ۔

اسی لئے انھوں نے اس دعوت کو ختم کرنے لئے جلسے کئے ، بولیاں لگائیں اور دھوکا دھڑی کرنا چاہی کبھی انھوں نے اس دعوت کو ختم کرنے کے لئے رسول خدا سے بات چیت کی اور کبھی ابو طالب سے ۔ جب وہ رسول خدا کے سامنے حکومت اور دولت کی پیشکش کرتے تھے تو اس وقت جناب ابو طالب پر زور ڈالتے کہ اپنے اثر کو بروئے کار لاتے ہوئے محمد کو اس دعوت سے باز رکھیں ۔ جب اس طرح سے کام نہ چلتا تو وہ ابو طالب کو دھمکیاں دیتے تھے کہ اگر آپ ہمارے اور محمد کے درمیان سے نہ ہٹے تو پورا قریش آپ کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا ۔

اس کے با وجود جناب ابو طالب رسول خدا کی طرفداری کا اعلان کرتے رہے بھلے ہی اس کے لئے انھیں کتنی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے اور بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑی ۔ ( حیات معصومین (ع) ۲ ، علی بن ابی طالب ، ج ۱ ، ص ۴۳ ، ۴۴ مترجم سید قمر عباس نقوی )

رسول خدا کے ساتھ محاصرے میں حضرت ابو طالب

جب قریش کو مایوسی ہو گئی اور انھیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ابو طالب حضرت رسول خدا کی حمایت اور مدد میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے تو ان کے سرداروں نے ” دار الندوة “ ( جن کی بنیاد قصی بن کلاب نے رکھی تھی اور قریش اپنے مختلف مسائل کے متعلق یہیں بیٹھ کر مشورے کیا کرتے تھے )

وہاں باہمی مشورے کے ساتھ بنی ہاشم اور ان کے ہم خیالوں کی اقتصادی اور اجتماعی محاصرے کی قرار دار منظور کی جس کی رو سے بنی ہاشم کے ساتھ ہر طرح کی خرید و فروخت اور شادی بیاہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔ اس قرار داد پر قریش کے چالیس سر بر آوردہ افراد کے دستخط تھے ۔

بنی ہاشم اپنے سردار ابو طالب کے حکم سے ، شعب ابو طالب میں محصور ہو گئے تاکہ اس طرح سے قریش کے مظالم سے بچا جاسکے ، اور شعب میں رسول خدا (ص) کی حفاظت کی جا سکے یہ لوگ شعب ہی میں رہتے سوائے حج و عمرہ کے موسم میں یہ لوگ اس وقت ضروریات کی چیزوں کو خریدنے کے لئے باہر نکلتے تھے ۔

بنی ہاشم ، رسول خدا اور حضرت علی ؑ تقریباً تین سال تک اسی صورت حال کا شکار رہے ۔ بعض روایتوں کے مطابق چار سال ۔ اس دوران انھوں نے اتنی سختیوں کو تحمل کیا جن کو سن کر دل لرز جاتے ہیں ۔

اور آخر کار جب بھوک ، سختیوں سے بھرے ہوئے تین سال گذر گئے تو رسول خدا نے اپنے چچا ابو طالب کو بتایا کہ ظلم و ستم پر مشتمل محاصرے کی قرار داد کو دیمک چاٹ گئی ہے اب اس میں صرف ” باسمک اللھم “ کی عبارت محفوظ ہے جناب ابو طالب نے فوراً قریش کے پاس جا کر کہا :

” ان ابن اخی اخبرنی ا ن اﷲ قد سلط علی صحیفتکم الارضة فاکلتھا ، غیر اسم اﷲ ، فان کان صادقاً نزعتم عنہ سوءرایکم ، و ان کان کاذباً دفعتہ الیکم “

میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ خدا وند عالم نے تمہاری اس قرار داد پر دیمک مسلط کر دیا ہے جو اسے چاٹ گئی ہیں اگر اس نے صحیح کہا ہے تو تم اس کے متعلق اپنے نظریات بدل دو اور اگر اس کی یہ بات جھوٹی ہو گی تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا ۔

لوگوں نے کہا یہ تم نے انصاف کی بات کی اس کے بعد انھوں نے اس قرار داد کو کھولا تو جس طرح آپ نے کہا تھا ویسے ہی پایا اس کی وجہ سے قریش کے سر برآوردہ افراد میں شدید اختلاف پھوٹ پڑا جس کے نتیجے میں فیصلہ یہ ہوا کہ اس قرار کو پھاڑ دینا چاہیے اور اس طرح محاصرہ ختم ہوا اور بنی ہاشم کا بائیکات ختم کر کے ان سے دوبارہ رابطہ قرار کر لیا گیا اس محاصرہ کا اعجازی طور پر ختم ہونےسے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔

اس عجیب ماحول میں حضرت ابو طالب نے اﷲ کی رسالت کے لئے اتنی بڑی مشقتیں برداشت کیں لیکن آپ رسول اکرم کے سامنے سینہ سپر رہے ، حالانکہ مادی سماج میں اپنی سماجی حیثیت کی حفاظت بڑی اہمیت کی حامل تھی ۔

صبر و استقامت

حضرت ابو طالب علیہ السلام کا مشرکان کے مقابل ثابت قدم رہنا ، مخصوصاً ان تین سالوں میں جب یہ تین سال حضرت ابو طالب کو اپنے عزیزوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں گزارنے پڑے ۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے چچا جان اور فداکار ہمسر حضرت خدیجہ اس تین سالہ محاصرہ کے ختم ہونے کے بعد جلد ہی اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ۔ اس طرح رسول خدا نے اپنے بہترین حامیوں یعنی حضرت ابو طالب ( جو بہترین یار و مدد گار اور دشمنوں کے مقابل میں سینہ سپر تھے ) کو کھو دیا ۔

ایک طرف وفات ابو طالب نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو بہت صدمہ پہونچایا ، دوسری طرف قریش کے آزار و اذیت پیغمبر پر زیادہ ہو گئے ۔ ابھی ابوطالب کی وفات کو چند روز نہیں گذرے تھے کہ پیغمبر (ص) خاک آلود حالت میں گھر میں آئے ۔ حضرت فاطمہ زہرا دوڑ کر بابا کی طرف گئیں اور اپنے بابا حضرت محمد کے سر کو دھویا ۔

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی شہزادی حضرت فاطمہ رو رہی ہیں تو فرمایا :

” فاطمہ ! نہ روؤ آپ کا بابا تنہا نہیں ہے خدا وند عالم اس کا حامی و مدد گار ہے “ ( در سایہ اولیاءخدا ، مؤلف محمود شریف زادہ خراسانی ، ص۲۵ )

حضرت علی علیہ السلام کو حضرت ابو طالب کی وصیت وفات کے وقت :

حضرت ابو طالب نے جب اپنے نزدیک موت کے آثار کا مشاہدہ کیا تو انھوں نے اپنے بیٹوں اپنے بھائیوں ، حضرت عباس ، حضرت حمزہ کو وصیت کی کہ ایک لحظہ کے لئے بھی پیامبر خدا کی مدد کرنے سے غافل نہ ہوں ۔ اور انھوں نے بھی خصوصاً حضرت علی ، حضرت حمزہ ، حضرت جعفرطیار نے اس وصیت کو عملی جامہ پہنایا ۔ حضرت ابو طالب نے اپنی وفات کے وقت حضرت علی کو حضرت جعفر ، حضرت حمزہ اور حضرت عباس کی صف میں قرار دیا ۔ ان سب کو ایک ہی وصیت و کی ۔

حضرت ابو طالب کو حضرت علی کی شجاعت اور مردانگی دکھائی دے رہی تھی اور یہ امید تھی کہ یہ پیامبر کا دفاع کرے گا تو پس حضرت ابو طالب کا ظن و گمان غلط نہ تھا اور پیامبر کے دفاع اور ان کی مدد میں ہمیشہ صف میں اپنے آپ کو قرار دےا اور ہر جگہ پروانہ کی طرح حضرت محمد کا دفاع کیا ہے ۔ ( سیری در زندگی امیر المؤمنین ، برگرفتہ از دائرة المعارف اسلامیة الشیعة ص ۱۷)

حضرت ابوطالب کی وفات کا ما جرا

حضرت ابو طالب ۴۲ سال کے تھے اورجب حضرت محمد ۸ سال کے تھے اس وقت سے لے کر نبوت کے دسویں سال تک حامی و مدد گار حضرت محمد تھے اور کبھی بھی ان کی حفاظت میں غفلت نہین کی اور اس طرح حضرت محمد نے بھی ۳۳ سال حضرت علی کے حق میں ( ابو طالب کے بیٹے ) عواطف اور احسان کا مظاہرہ کیا اور کسی مقام پر بھی ان کے حق میں کوتاہی نہیں کی ۔

ان دنوں میں کہ جب قریش نے محمد پر سختی کو زیادہ کر دیا تو حضرت ابو طالب راتوں کو اٹھ اٹھ کر حضرت محمد کی جگہ تبدیل کیا کرتے تھے ۔ حضرت ابو طالب حضرت علی ؑ کو حضرت محمد کی جگہ پر اور حضرت محمد کو حضرت علی ؑ کی جگہ پر سلاتے تھے کہ اگر کوئی بھی حضرت محمد کو نقصان پہونچانا چاہے تو وہ نقصان حضرت علی کو پہونچے نہ حضرت محمد کو ۔ حضرت علی  بچپن سے اپنے آپ کو حضرت محمد پر فدا کرتے آ رہے تھے یہاں تک کہ شب ہجرت بھی فداکاری کا مظاہرہ کیا ۔

سید فخار بن صدر موسوی ، اپنی کتاب میں ( جو انھوں نے ابو طالب کے اسلام کے بارے میں لکھی ہے ) لکھتے ہیں :

جب حضرت ابو طالب کا اس دنیا سے انتقال ہو گیا تو حضرت علی (ع) نے پیامبر کے پاس آکر انھیں انتقال حضرت ابو طالب کی خبر دی جب حضرت محمد نے یہ خبر سنی تو بہت غمگین ہوئے ۔ پیغمبر نے حضرت ابو طالب کو خود غسل دیا اور خود تجہیز و تدفین کیا اور فرمایا :

” مات عبد المطلب و ابو طالب علی قول لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ و علی ملة ابراہیم “

اپنے چچا کو مخاطب کیا اور فرمایا : اے چچا جان ! آپ نے صلہ رحم انجام دیا اور میرے ساتھ بہت اچھائیاں اور نیکیاں کیں ، بچپن میں میری پرورش کی اور اس کے بعد میری کفالت کو آپ نے اپنے ذمہ لے لیا اور اپنی بزرگواری کے ساتھ میری مدد و نصرت کی ۔

آخر کار اتنی زحمتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد حضرت ابو طالب ۵۱ شوال بعثت کے دسویں سال ۷۸ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اور اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے ۔

حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد قریش نے دل کھول کر حضرت محمد کو دکھ پہونچائے حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد حضرت محمد پر مصیبتوں کے پہاڑ گرنے لگے اس الہی دعوت کی عظیم تاریخ میں ابو طالب کا کتنا دخل تھا اور ان کی کتنی اہمیت تھی اس کا رسول خدا کے اس قول سے پتہ چلتا ہے ۔

” مازالت قریش کاعة عنی حتی مات ابو طالب “

قریش نے اپنا کینہ چھپائے رکھا یہاں تک کہ ابو طالب کی وفات ہو گئی ۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

 منابع کلام

 ۱) رہنمای سعادت

 ۲) پیامبر اعظم ، الگوی مہرورزی و مقاومت

 ۳) آئینہ ایزد نما

 ۴) مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم

 ۵ ) حیات معصومین

 ۶ ) بالغ پر ششصد نکتہ از زندگانی امامان علیہم السلام

 ۷ ) سیری در زندگی امیر المؤمنین

 ۸ ) تاریخ بنی ہاشم و بنی امیہ


منبع : http://hedayatorg.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

آخرین مطالب

حکایتی از ذلت و مسكنت، پادشاهى و مكنت‏
حكايت ميرغضب و نان و نمك مجرم‏
اين هم نتيجه پاكى !
حکایتی از توصیف حضرت علی علیه السلام
نيت پاكت را قبول كردم
خوش به حال كسى كه نفسش رام شد
حکایتی از جمال دل‏
جوان عاق شده و مادر
برگرفته از کتاب «عبرت آموز» از تالیفات استاد ...
معرفت بيشتر، خضوع بيشتر

بیشترین بازدید این مجموعه

آقازاده‌ای که منصب حکومتی را قبول نکرد!
برگرفته از کتاب «عبرت آموز» از تالیفات استاد ...
اينان زيباترين مردم هستند
حكايت گرگان و كرمان‏
گردنبند با برکت حضرت زهرا(س)
داستان شگفت انگيز سعد بن معاذ
زن بدكاره‏ در خانه عابد
حکایتی از توصیف حضرت علی علیه السلام
حکایت خدمت به پدر و مادر
دیگر از احدی چیزی سؤال نخواهم کرد و امید به غیر او ...

 
نظرات کاربر

پر بازدید ترین مطالب سال
پر بازدید ترین مطالب ماه
پر بازدید ترین مطالب روز



گزارش خطا  

^