ولایت؛ کیوں اور کیسے؟
ولایت کی دو قسمیں ہیں ایک تکوینی اور دوسری تشریع اور ولایت فقیہ تشریعی ولایت کی ایک قسم ہے۔
تشریعی ولایت کی چار قسمیں ہیں:
الف۔ ولایت اللہ۔
ب۔ ولایت رسول اللہ۔
ج۔ ولایت معصوم (ع)۔
د۔ ولایت فقیہ ۔ (1)
غیبت کی دوران جامع الشرائط فقیہ ولایت اور قیادت کا عہدہ سنبھالتا ہے اور یہ بدیہیات اور عقلی ضروریات و مسلمات میں سے ہے۔
ولایت فقیہ ان موضوعات میں سے ہے جس کا تصور(2) اس کی تصدیق (3) کا باعث بنتی ہے اور جس کے لئے برہان و دلیل کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ اور وہ یوں کہ اگر کسی شخص نے اسلامی عقائد و احکام کو اجمالی طور پر بھی وصول کیا ہو جب وہ ولایت فقیہ کے موضوع تک پہنچتا ہے اسی تصور کرے گا تو فوری طور پر اس کی تصدیق بھی کرے گا اور اس کو ضروری اور بدیہی سمجھے گا۔ (4)
ولایت فقیہ کے لئے عقلی اور نقلی دلائل
الف۔ عقلی دلیل: ولایت فقیہ کا عقلی اثبات چند مقدمات کے پیوند سے مسلم اور سب کے لئے قابل قبول بن جاتا ہے؛ یا یوں کہئے کہ جب ان مقدمات کو ایک دوسرے سے ملا دیا جائے تو ہر عقل سلیم ولایت فقیہ کی حقانیت کی تصدیق کرے گی:
مقدمہ 1۔ تمام اسلامی اور الہی احکام بشمول عبادی، سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی (وغیرہ) احکام ـ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئے ہیں ـ ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے دور میں باقی تھے اور غیبت کے زمانے میں بھی باقی اور لازم الاتباع ہیں کیونکہ رسول اللہ (ص) آخری نبی ہیں اور دین اسلام آخری اور مکمل ترین دین ہے۔
2۔ حکومت اسلامی ڈھانچے کا جزو ہے اور حکومت کے عدم تشکیل اسلامی و الہی احکام کی معطلی کے مترادف ہے۔
3۔ اسلامی تصور حیات میں طاغوتی حکام سے رجوع کرکے ان کے ذریعے حقوق کا حصول اور منازعات حل کرانا ممنوع اور حرام ہے حتی اگر کوئی شخص اپنا مسلمہ حق طاغوتی حاکم کے توسط سے حاصل کرے وہ بھی نامشروع (غیر شرعی اور غیر قانونی) ہے۔
4۔ اسلامی حاکم اور اسلامی حاکمیت کے لئے فقاہت، عدل، انتظامی صلاحیت وغیرہ جیسی صلاحیتیں مقرر کی گئی ہیں اور اگر کوئی شخص ان خصوصیات سے عاری ہوکر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالے تو وہ طاغوتی حاکم ہوگا۔
5۔ خدائی حکیم کی حکمت سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو حیران اور سرگشتہ چھوڑے تا کہ وہ افراتفری اور انارکی کے سائے میں زندگی گذاریں اور آخر کار فرعونی اور طاغوتی بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ جائے اور ان کے لئے ترنوالہ بن جائیں۔ (5)
ان پانچ مقدمات کی روشنی میں ذاتی اغراض اور بے بنیاد و جاہلانہ تعصبات سے پاک عقل سلیم فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرے کی چوٹی پر اسلام کے حیات بخش احکام و قوانین کے نفاذ کے لئے معاشرے کی چوٹی پر ولی فقیہ کا استقرار ناقابل انکار ضرورت ہے۔
ب ) نقلی دلائل: ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے کثیر روایات اور احادیث موجود ہیں اور ہم یہاں اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے صرف دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں:
امام زمانہ عجل اللہ فَرَجَہ الشریف شیعیان آل محمد (ص) میں سے ایک کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیہا الی رواہ حدیثنا فانہم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیہم۔ (6)
حوادث اور پیش آنے والے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں سے رجوع کرو کیونکہ وہ تمہارے اوپر میری حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں۔
"حوادث واقعہ" سے مراد شرعی مسائل نہیں ہیں کیونکہ شرعی احکام میں فقہاء سے رجوع کرنا مسلمات اور بدیہیات میں سے ہے اور یہ کوئی تازہ بات نہیں ہے؛ حتی کہ ائمہ طاہرین (ع) کے زمانے میں بھی لوگ ان ہی کے حکم پر فقہاء سے رجوع کیا کرتے تھے؛ بلکہ حوادث واقعہ سے مراد معاشرتی اور سیاسی واقعات اور وہ حوادث و وقائع ہیں جو اسلامی معاشرے کو پیش آیا کرتے ہیں۔
اسی طرح "راویان حدیث" صرف حدیث نقل کرنے والے افراد نہیں ہیں بلکہ وہ فقہاء ہیں جو اجتہاد کے ذریعے حجت خدا کے واسطے سے مناسب راہ حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں "حجت اللہ" وہ ہے جس کو خداوند متعال نے بعض امور کی انجام دہی کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اس کے تمام افعال و اقوال مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔ اگر وہ کسی کام کا امر کرے یا کسی کام سے نہی کرے اور لوگ اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں خداوند متعال قیامت کے روز ان کے ساتھ احتجاج کرے گا اور ان سے بازپرس کرے گا کہ "تم نے اللہ کی حجت کے ہوتے ہوئے اسلامی حکومت کے امور میں طاغوت کے ظلم و ستم کے نظام سے رجوع کیوں کیا؟" (7)
امام حسین علیہ السلام نے منی میں خطبہ دیتے ہوئے علماء کو حکومت ضائع کرنے اور امور حکومت کو ظالمین کے حوالے کرنے کی بنا پر، عتاب و ملامت کے ساتھ مخاطَب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
۔۔۔ مجاری الامور و الا حکام علی ایدی العلما ء باللہ الا مناء علی حلالہ و حرامہ ۔۔۔ (8)
معاشرے کا انتظام اور احکام کے نفاذ کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے جو حلال اور حرام میں خدا کے امین ہیں۔
ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام زمانہ (عج) کے زمانے میں ولی فقیہ اسلامی معاشرے کا زعیم اور رئیس ہے۔ جیسا کہ باشکوہ اسلامی انقلاب میں حضرت امام خمینی (رح)، ـ جو حقیقتاً با تدبیر منتظم، زیرک سیاستدان، باریک بین معاشرہ شناس، عادل و عامل عالم تھے، ـ نے جامع الشرائط فقیہ کے عنوان سے اسلامی حکومت کی تشکیل کا اہتمام کیا اور رسول اللہ (ص) اور ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے تمام حکومتی اختیارات سے استفادہ کرکے غیبت کے زمانے میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام کے راستے پر گامزن ہوکر اسلامی حکومت کا انتظام اسی شکوہ و عظمت کے ساتھ، سنبھالا اور دنیا والوں کو باور کرایا کہ اسلام تمام زمانوں میں انسان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی کے انتظام کے لئے جامع پروگرام کا حامل ہے اور معاشرے کے انتظام کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
ولی فقیہ کی تقرر کی کیفیت:
سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کے حاکم و رہبر کے تعین کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اس کا تعین نبوت کی مانند اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تعالی خود ہی اس کا تعین کرتا ہے؟ یا یہ کہ رہبر و حاکم کے تعین کا اختیار عوام کو سونپ دیا گیا ہے اور عوام ہی رہبر کا انتخاب کرتے ہیں؟
اس بحث میں دو کلی نظریات ہیں: انتخاب ـ انتصاب
1۔ انتخاب کا نظریہ :
اہل تسنن کا عقیدہ ہے کہ اسلامی رہبر و حاکم کے انتخاب کا اختیار عوام کے پاس ہے اور انھوں نے اسلامی حاکم کے لئے تین روشیں اختیار کی ہیں:
الف۔ ارباب حل و عقد (ماہرین اور اہل دانش و علم) کی بیعت: وہ یوں کہ رسول اللہ (ص) یا کسی بھی خلیفہ کے انتقال کے بعد معاشرے کے بعض بزرگ اور سفید ریش ایک شخص سے بیعت کرکے اس کو خلیفہ کے عنوان سے مقرر کرتے ہیں۔ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد خلیفہ اول کا انتخاب اسی روش سے عمل میں آیا۔ (9)
(انتخاب خلیفہ اول ارباب حل و عقد کی بیعت)
ب۔ استخلاف (جانشین کا تقرر): وہ یوں کہ موجودہ حاکم یا خلیفہ کسی شخص کو جانشین کے عنوان سے متعین کرے اور لوگوں کو اس کی بیعت پر وادار کرے؛ ایسا شخص رہبر کے عنوان سے تسلیم کیا جائے گا۔ دوسرے خلیفہ کا تعین اسی روش سے ہوا۔ (10)
ج. تسلط یا قہر اور غلبہ: اگر کوئی شخص لشکرکشی، قتل و غارتگری، بدمعاشی اور سیاست بازی اور دھوکے اور فریب [و جبر ] کے ذریعے مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالے اسے "امام مسلمین" کے عنوان سے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی اطاعت واجب ہوگی۔ (11)
چنانچہ اگر کوئی ایسا شخص جو قیادت کی صلاحیت سے عاری ہے لیکن دھونس، دھمکی اور جبر اور ظلم و ستم کی میدان میں دوسروں سے سبقت لے اور لوگوں پر مسلط ہوجائے لوگوں کو اس کے خلاف قیام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ لوگوں کے قیام کی صورت میں معاشرے کو دشواریوں اور خونریزیوں کا سامنا کرنا پڑے گا! (12) جیسا کہ بنوامیہ اور بنو عباس نے اسی روش سے اسلامی معاشری کی خلافت اور قیادت پر قبضہ کیا۔
انتخابی نظریئے کے حامی افراد کہتے ہیں کہ تاریخی واقعات و حوادث ان کے دعوے کی دلیل ہیں اور اس روش کے لئے ان کے پاس کوئی بھی عقلی یا شرعی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح اس روش میں اسلامی حاکم کے انتخاب کے لئے اسلامی معیارات اور شرائط معین کرنی کی بجائے ذاتی مفادات اور سیاسی مقاصد کو توجہ دی گئی ہے۔(13)
۲۔ انتصاب یا تقرر کا نظریہ:
اس نظریئے کے مطابق اسلامی معاشرے کا حاکم اور رہبر خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔
خدا کی جانب سے اسلامی حاکم کے تعین کی دو صورتیں ہیں: تعیین و نصب خاص ـ تعیین و نصب عام۔
الف ) تعیین و نصب خاص: وہ یوں کہ حکومت اور سرپرستی کے لئے ایک خاص شخص کو مشخص و معین کیا جائے۔ نصب خاص یا خاص تقرر انبیاء اور معصومین (ع) کے لئے ہے اور خداوند متعال نبی (ص) یا امام (ع) کے ذریعے عوام کو اسلامی حاکم کا نام و خصوصیات کے ساتھ، تعارف کراتا ہے۔
ب) تعیین و نصب عام: تعیین و تقررِ عام یوں ہے کہ خداوند متعال پیغمبر اکرم (ص) یا اور ائمہ (ع) کے ذریعے حاکم کی صفات و خصوصیات بیان فرماتا ہے اور جو بھی شخص ان صفات و خصوصیات کا مالک ہوگا وہ معاشرے کی قیادت و سرپرستی سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے تقرر میں کسی خاص شخص کا نام نہیں لیا جاتا۔ یہ شیوہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کے دور میں مؤثر ہے اور جو فقیہ ان صفات و خصوصیات سے لیس ہوگا وہ اسلامی معاشرے کی قیادت کا عہدہ دار ہوسکتا ہے۔ (14)
ولی فقیہ کی تعین میں عوام اور عوامی رائی کا کردار:
جیسا کہ ذکر ہوا ولی فقیہ خدا کی طرف سے نصب عام کے ذریعے معاشرے کی سیاسی و معاشرتی ولایت اور زعامت کے لئے مقرر ہوا ہے اور فقیہ کے لئے ولایت کے ثبوت (15) میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ امام خمینی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں:
اگر عوام میں سے کوئی ایک شخص بھی فقیہ کی مدد کے لئے نہ اٹھے اور اسلامی حکومت کی تشکیل میں اس کی معاونت نہ کرے، فقیہ اپنی ولایت سے معزول نہیں ہوتا کیونکہ فقیہ کی ولایت اللہ کی جانب سے ہے اور بنیادی طور پر فقیہ کے لئے زعامت کے ثبوت کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوکہ اگر عوام حمایت کا اعلان نہ کریں تو فقہاء حکومت کی تشکیل و تأسیس سے معذور ہونگے کیونکہ ایسی صورت میں فقہاء کے پاس حکومت تشکیل دینے کے لئے ضروری قوت نہیں ہے۔ (16)
امام معصوم (ع) کے نصب اور ثبوت میں بھی عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ حضرت علی (ع) اور دیگر ائمہ (ع) خدا کی جانب سے امامت پر منصوب ہوئے ہیں؛ خواہ عوام ستمگروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ائمۂ معصومین (ع) کی ولایت تسلیم نہ بھی کریں اور ان کا حقِّ حکومت غصب ہوجائے یا ان کی حکومت کے لئے فضا ہموار نہ ہوسکے۔
عوام اور عوامی رائی معصومین (ع) اور ولی فقیہ کی ولایت کے عملی جامہ پہننے میں کردار بہت اہم ہے۔ الہی حکومتوں سمیت عوام کی رائے سے اٹھے ہوئے حکومتوں میں عوام کا تعمیری کردار ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی عوام نے انبیاء الہی (ع) کی دعوت ٹھکرائی کی ہے اور دین الہی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پر عمل کرنے میں قصور کے مرتکب ہوئے ہیں، انبیاء (ع) بھی اللہ کے فرامین کے نفاذ میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ جس طرح کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام الہی معاشرہ تشکیل نہیں دے سکے۔ اور جب بھی عوام نے انبیاء (ع) کے ہم قدم ہوئے ہیں اور ان کی دعوت کا مثبت جواب دیا ہے الہی حکومت اور الہی معاشرے کی تشکیل بھی ممکن ہوگئی ہے۔ جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیعت عقبہ اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد انصار اور مہاجرین کی مدد سے مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بھی اس وقت اسلامی معاشرے کی قیادت و سرپرستی کا عہدہ سنبھالا جب عوام نے آپ (ع) کی طرف رجوع کیا اور اس کے بعد ہی امام (ع) نے اسلامی عدل کی حکومت قائم کی۔ (17)
ایران کے اسلامی انقلاب کےی تجربےی نے بھی اس حقیقت کو روشن کردیا کہ اگر عوام الہی قیادت کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کریں، طاغوتی نیست و نابود ہوجاتے ہیں اور اسلامی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور الہی احکام نافذ ہوجاتے ہیں۔
خبرگان اور رہبر کا تعین:
جیسا کہ بیان ہوا، ولایت فقیہ نصبِ عام کے ذریعے، اللہ تعالی کی جانب سے منصوب و متعین ہے تاہم عوامی آراء ولایت فقیہ کے عملی قیام میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عوامی رائے کبھی تو طبیعی طور پر کسی ایک فرد کے سلسلے میں واضح ہوجاتی ہے اور عوام اس کو قیادت و امامت کے لئے قبول کرلیتے ہیں؛ جیسا کہ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی ولایت و امامت کو عوامی قبول عام بھی حاصل ہوا۔ لیکن اگر اس طرح کی اکثریت کسی ایک فقیہ کے لئے ثابت نہ ہوسکی؛ یعنی اگر کئی افراد زعامت اور قیادت کے اوصاف و خصوصیات کے حامل ہوں اور کسی ایک کو غالب اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہوئی یا لوگ لائق ترین فرد کی تشخیص میں حیرت سے دوچار ہوئے تو ایسی صورت میں توقف اور انتظار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلامی معاشرہ حتی ایک دن بھی زعیم و رہبر کے بغیر نہیں رہنا چاہئے۔ اسی بنا پر آئین میں قرار دیا گیا ہے کہ عوام عام انتخابات میں شریک ہوکر اور خبرگان (دینی، سیاسی اور سماجی مسائل سے آگاہ ماہرین) کو اپنے نمائندوں کے عنوان سے منتخب کریں تا کہ وہ صالح ترین، لائق ترین اور اہل ترین فرد کو اسلامی معاشرے کا قائد لوگوں کو متعارف کرائیں۔
قابل ذکر ہے کہ خبرگان کا ـ ولی فقیہ کے لئے ولایت اور معاشرے کی زعامت کے ثبوت یا ولی فقیہ کو معاشرے کی قیادت سے معزول کرنے میں ـ کوئی کردار نہیں ہے؛ کیونکہ فقہاء خدا کی طرف سے منصوب و مقرر ہیں اور خبرگان یا ماہرین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ "فقہاء میں سے رہبری اور قیادت کے لئے لازمی ساری صفات و خصوصیات کے حامل فقیہ کی شناخت کریں اور تشخیص دین اور عوام کو متعارف کرائیں اور عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے اس کی ولایت کو تسلیم کریں۔ ولی فقیہ کی معزولی کے بارے میں ان کی ذمہ داری کچھ ایسی ہے کہ اگر ولی فقیہ قیادت و زعامت کے اوصاف و خصوصیات کھو ڈالے، وہ خود بخود قیادت سے معزول ہوجاتا ہے اور خبرگان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس امر کو تشخیص دیں اور اعلان کریں کہ "ولی فقیہ اپنی اہلیت اور خصوصیات کھوچا ہے اور یہ کہ وہ مزید ولی فقیہ نہیں رہا۔ (18)
..........................
مآخذ اور وضاحتیں:
1. ولایت فقیہ سید حسن طاہری خرم آبادی ص۱۷۔
2. تصور (Conception): تصور علم النفس کے مطابق عقل کے نزدیک کسی شیئے کی صورت حاصل ہوجانے کو کہتے ہیں جبکہ منطق کے مطابق تصور کسی شیئے کی ماہیت کا ادراک ہے۔ تصور میں کوئی چیز آپ کے ذہن میں آتی ہے جس پر سلب و ایجاب کا کوئی حکم نہیں ہوتا جیسا کہ انسان کے مفہوم کا تصور یا وحدت و کثرت یا پھر انسان یا نباتات، یا حیوان کا تصور./م
3. تصدیق (Assent): تصدیق کسی شیئے کا ذہنی تصور ہی ہے لیکن اس میں حکم بھی ہوتا ہے اور اس میں سلب یا ایجاب بھی ہوتا ہے؛ جیسے ہر چیز کا ایک آغاز ہوتا ہے./م
فارابی کے مطابق: تصور میں تمام افکار اور تعریفات داخل ہیں، اور تصدیق میں رائے اورا ستدلال شامل ہیں۔
4. ولایت فقیہ امام خمینی (رح) ص۶.
5. تحقیقی پیرامون ولایت فقیہ ص۱۹۷ تلخیص.
6. وسائل الشیعہ ج۱۸ص۱۰۱ بیروت.
7. کتاب البیع امام خمینی (رح) ج۲ص۴۷۴.
8. صحیفة الامام الحسین علیہ السلام ـ تألیف و ترجمہ جواد قيومي اصفہاني - مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة ص. 264.
9. تحف العقول ص۱۷۲ بیروت.
10. (احکام سلطانیہ ما وردی ص۴)۔ خلیفہ ثانی کے انتخاب کے حوالے سے کئی دعوے کئے گئے ہیں؛ اجماع امت کا دعوی بھی کیا گیا ہے لیکن یہ دعوی اتنا بے بنیاد ہے کہ کئی لوگوں نے اسے ترک کردیا کیونکہ تمام بنوہاشم اور بہت سے قریشی مہاجرین تو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود ہی نہیں تھے اور انہیں اس مخصوص اجلاس کے لئے بلایا ہی نہیں گیا تھا اور پھر سعد بن عبادہ جیسے انصار بھی جو سقیفہ میں موجود تھے بزور شمشیر بیعت دینے پر آمادہ ہوئے تھے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے شام چلے گئے جہاں سقیفہ کے اندرونی راز افشاء ہونے کے خوف سے انہیں شام میں "جنوں" نے قتل کردیا!. لہذا کہا گیا کہ سقیفہ میں اکٹھے ہونے والے امت کے علماء اور زعماء اور ارباب حل و عقد تھے جنہوں نے "اسلام کے وسیع تر مفاد میں" رسول اللہ (ص) کا جنازہ زمین پر چھوڑ کر خلیفہ کو منتخب کیا. یہ دعوی بھی کافی کمزور ہے کیونکہ امیرالمؤمنین (ع)، عباس بن عبدالمطلب، زبیر بن عوام، سلمان فارسی، مقداد بن اسود، ابوذر غفاری، عمار یاسر اور کئی دیگر صحابی ـ جو حقیقتاً ارباب حل و عقد میں سی تھی اور پھر امیرالمؤمنین (ع) سے زیادہ بڑا عالم کون تھا؟ ـ سقیفہ میں بلائے ہی نہیں گئے تھے اور ان کو خبر ہی نہیں تھی کہ سقیفہ میں کیا ہورہا ہے بلکہ وہ تو ثانی کائنات حضرت رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکفین و تدفین میں مصروف تھے./مترجم
11. الفقہ الاسلامی و ادلہ ڈاکٹر زہیلی ج۶ص۶۸۲.
12. منہاج السنہ النبویہ کتاب البغاة ص ۵۱۸.
13. اس روش میں ارباب حل و عقد کو انتخاب کا حق دیا گیا ہے جبکہ ارباب حل و عقد کے انتخاب میں عوام کو کوئی کردار نہیں دیا گیا ہے اور ارباب حل و عقد کی صلاحیت و اہلیت کے تعین کے لئے بھی کوئی معیار مقرر نہیں کیا گیا ہے؛ چنانچہ یہ انتخاب بھی عوامی انتخاب نہیں ہے۔ /مترجم
14. ولایت فقیہ و حاکمیت ملت سید حسن طاہری خرم آبادی ص۸۷.
15۔ یعنی عوامی رائے کا عقلی لحاظ سے اس امر سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ وہ کسی کوفقیہ قرار دیں ـ تا کہ اس کو ولایت و زعامت کا الہی عہدہ سونپا جاسکے؛ جیسا کہ کسی بھی پڑھے لکھے ماہر شخص کی مہارت کے اثبات میں کسی کی رائے کی ضرورت نہیں ہوتی. مثلاً کسی ڈاکٹر کے لئے عوام کی جانب سے تأئید کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ ڈاکٹر ہے؛ یا اگر عوام رائے دیں کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے تو یہ عبث سی رائے ہوگی۔
16۔ البیع امام خمینی (رح) ج۲ص۴۶۶۔
17۔ حکومت اسلامی و ولایت فقیہ آموزش و پرورش ْمن خدمت ص۶۴۔
18۔ ولایت فقیہ و رہبری در اسلام جوادی آملی ص۱۸۹۔
source : www.abna.ir