اردو
Monday 19th of August 2024
0
نفر 0

ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -14

۲۸۔ اللہ سے تضرع و زاری کے سلسلے میں دعا

                اللہم نی اخلصت بانقطاعی الی .و اقبلت بلی علی .و صرفت وجہی عمن یحتاج الی رفد .و قلبت مسلتی عمن لم یستغن عن فضل .و ریت ن طلب المحتاج الی المحتاج سفہ من ریہ و ضل من عقلہ .فم قد ریت - یا الہی - من اناس طلبوا العز بغیر فذلوا ، و راموا الثرو من سوا فافتقروا ، و حاولوا الارتفاع فاتضعوا .فصح بمعاین امثالہم حازم وفقہ اعتبارہ ، و ارشدہ الی طریق صوابہ اختیارہ .فنت یا مولای دون ل مسئول موضع مسلتی ، و دون ل مطلوب الیہ ولی حاجتی .نت المخصوص قبل ل مدعو بدعوتی ، لا یشر احد فی رجائی ، و لا یتفق احد مع فی دعائی ، و لا ینظمہ و یا ندائی .ل - یا الہی - وحدانی العدد ، و مل القدر الصمد ، و فضیل الحول و القو ، و درج العلو و الرفع .و من سوا مرحوم فی عمرہ ، مغلوب علی امرہ ، مقہور علی شنہ ، مختلف الحالات ، متنقل فی الصفات .فتعالیت عن الاشباہ و الاضداد ، و تبرت عن الامثال و الانداد ، فسبحان لا لہ لا نت .

ترجمہ

                اے اللہ ! میں پورے خلوص کے ساتھ دوسروں سے منہ موڑ کر تجھ سے لو لگائے ہوں اور ہمہ تن تیری طرف متوجہ ہوں ، اور اس شخص سے جو خود تیری عطا و بخشش کا محتاج ہے ، منہ پھیر لیا ہے ۔ اور اس شخص سے جو تیرے فضل و احسان سے بے نیاز نہیں ہے ،سوال کا رخ موڑ لیا ہے ۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محتاج کا محتاج سے مانگنا سراسر سمجھ بوجھ کی سبکی اور عقل کی گمراہی ہے ۔ کیونکہ اے میرے اللہ ! میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو تجھے چھوڑ کر دوسروں کے ذریعہ عزت کے طلب گار ہوئے تو وہ ذلیل و رسوا ہوئے ۔ اور دوسروں سے نعمت و دولت کے خواہشمند ہوئے تو فقیر و نادار ہی رہے ۔ اور بلندی کا قصد کیا تو پستی پر جا گرے ۔ لہذا ان جیسوں کو دیکھنے سے ایک دور اندیش کی دوراندیشی بالکل برمحل ہے کہ عبرت کے نتیجہ میں اسے توفیق حاصل ہوئی اور اس کے ( صحیح ) انتخاب نے اسے سیدھا راستہ دکھایا ۔ جب حقیقت یہی ہے ۔ تو پھر اے میرے مالک ! تو ہی میرے سوال کا مرجع ہے نہ وہ جس سے سوال کیا جاتا ہے ۔ اور تو ہی میرا حاجت روا ہے نہ وہ جن سے حاجت طلب کی جاتی ہے اور ان تمام لوگوں سے پہلے جنہیں پکارا جاتا ہے تو میری دعا کے لئے مخصوص ہے اور میری امید میں تیرا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اور میری دعا میں تیرا کوئی ہم پایہ نہیں ہے ۔ اور میری آواز تیرے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتی ۔ اے اللہ ! عدد کی یکتائی ، قدرت کاملہ کی کارفرمائی اور کمال قوت و توانائی اور مقام رفعت و بلندی تیرے لئے ہے اور تیرے علاوہ جو ہے وہ اپنی زندگی میں تیرے رحم و کرم کا محتاج ، اپنے امور میں درماندہ اور اپنے مقام پر بے بس و لاچار ہے ۔ جس کے حالات گوناگوں ہیں اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹتا رہتا ہے ۔ تو مانند و ہمسر سے بلند تر اور مثل و نظیر سے بالا تر ہے تو پاک ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔

۲۹۔ تنگی رزق کے موقع پر پڑھنے کی دعا

اللہم ن ابتلیتنا فی ارزاقنا بسو الظن ، و فی اجالنا بطول الامل حتی التمسنا ارزاق من عند المرزوقین ، و طمعنا بامالنا فی اعمار المعمرین .فصل علی محمد و آلہ ، و ہب لنا یقینا صادقا تفینا بہ من من الطلب و الہمنا ثق خالص تعفینا بہا من شد النصب .و اجعل ما صرحت بہ من عدت فی وحی ، و اتبعتہ من قسم فی تاب ، قاطعا لاہتمامنا بالرزق الذی تفلت بہ ، و حسما للاشتغال بما ضمنت الفای لہ .فقلت و قول الحق الاصدق و اقسمت و قسم الابر الاوفی : و فی السما رزقم و ما توعدون .ثم قلت فو رب السما و الارض نہ لحق مثل ما نم تنطقون .

ترجمہ

اے اللہ ! تو نے رزق کے بارے میں بے یقینی سے اور زندگی کے بارے میں طول امل سے ہماری آزمائش کی ہے ۔ یہاں تک کہ ہم ان سے رزق طلب کرنے لگے جو تجھ سے رزق پانے والے ہیں اور عمر رسیدہ لوگوں کی عمریں دیکھ کر ہم بھی درازی عمر کی آرزوئیں کرنے لگے ۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ایسا پختہ یقین عطا کر جس کے ذریعہ تو ہمیں طلب و جستجو کی زحمت سے بچا لے اور خالص اطمینانی کیفیت ہمارے دلوں میں پیدا کر دے جو ہمیں رنج و سختی سے چھڑا لے اور وحی کے ذریعے جو واضع اور صاف وعدہ تو نے فرمایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی ہے ۔ اسے اس روزی کے اہتمام سے جس کا تو ضامن ہے ۔ سبکدوشی کا سبب قرار دے اور جس روزی کا ذمہ تو نے لیا ہے اس کی مشغولیتوں سے علیحدگی کا وسیلہ بنا دے ۔چنانچہ تو نے فرمایا ہے اور تیرا قول حق اور بہت سچا ہے اور تو نے قسم کھائی ہے اور تیری قسم سچی اور پوری ہونے والی ہے کہ '' تمھاری روزی اور وہ کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے ۔'' پھر تیرا ارشاد ہے :'' زمین و آسمان کے مالک کی قسم ! یہ امر یقینی و قطعی ہے جیسے یہ کہ تم بول رہے ہو ''

۳۰۔ ادائے قرض کی دعا

                اللّٰہم صل علی محمد و آلہ ، و ہب لی العافیہ من دین تخلق بہ وجہی ، و یحار فیہ ذہنی ، و یتشعب لہ فری ، و یطول بممارستہ شغلی .و اعوذ ب ، یا رب ، من ہم الدین و فرہ ، و شغل الدین و سہرہ ، فصل علی محمد و آلہ ، و اعذنی منہ ، و استجیر ب ، یا رب ، من ذلتہ فی الحیو ، و من تبعتہ بعد الوفا ، فصل علی محمد و آلہ ، و اجرنی منہ بوسع فاضل و فاف واصل .اللہم صل علی محمد و آلہ ، و احجبنی عن السرف و الازدیاد ، و قومنی بالبذل و الاقتصاد ، و علمنی حسن التقدیر ، و اقبضنی بلطف عن التبذیر ، و اجر من اسباب الحلال ارزاقی ، و وجہ فی ابواب البر انفاقی ، وازو عنی من المال ما یحدث لی مخیل و تدیا الی بغی و ما اتعقب منہ طغیانا .اللہم حبب الی صحب الفقرا ، و اعنی علی صحبتہم بحسن الصبر .و ما زویت عنی من متاع الدنیا الفانی فاذخرہ لی فی خزائن الباقی .و اجعل ما خولتنی من حطامہا ، و عجلت لی من متاعہا بلغ الی جوار و وصل الی قرب و ذریع الی جنت ، ن ذو الفضل العظیم ، و نت الجواد الریم .

ترجمہ

                خدایا ! رحمت محمد آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسے قرض سے نجات دے ، جس سے تو میری آبرو پر حرف آنے دے اور میرا ذہن پریشان اور فکرپراگندہ رہے اور اس ی فکر و تدبر میں ہمہ وقت مشغول رہوں ۔ اے میرے پروردگار ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قرض کے فکرواندیشہ سے اور اس کے جھمیلوں سے اور اس کے باعث بے خوابی سے تو محمد ور ان کی آل پر رحمت نازل فرما ۔ اور مجھے اس سے پناہ دے ۔ پروردگار ! میں تجھ سے زندگی میں اس کی ذلت اور مرنے کے بعد اس کے وبال سے پناہ مانگتا ہوں ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے مال و دولت کی فراوانی اور پیہم رزق رسانی کے ذریعے اس سےچھٹکارا دے ۔اے اللہ محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما ۔ اور مجھے فضول خرچی اور مصارف کی زیادتی سے روک دے اور عطا و میانہ روی کے ساتھ نقطہ اعتدال پر قائم رکھ اور میرے لئے حلال طریقوں سےروزی کا سامان کر اور میرے مال کو مصرف امور خیر میں قرار دے اور اس مال کو مجھ سے دور ہی رکھ جو میرے اندر غرور و تمکنت پیدا کرے یا ظلم کی راہ پر ڈال دے یا اس کا نتیجہ طغیان وسرکشی ہو ۔ اے اللہ ! درویشوں کی ہم نشینی میری نظروں میں پسندیدہ بنا دے اور اطمینان افزا صبر کے ساتھ ان کی رفاقت اختیار کرنے میں میری مدد فرما ۔ دنیائے فانی کے مال میں سے جو تو نے مجھ سے روک لیا ہے ۔ اسے اپنے باقی رہنے والے خزانوں میں میرے لئے ذخیرہ کر دے اور اس کے سازو برگ میں سے جو تو نے دیا ہے اور اس کے سروسامان میں سے جو بہم پہنچایا ہے اسے اپنے جوار( رحمت )تک پہچنے کا زاد راہ ، حصول تقرب کا وسیلہ اور جنت تک رسائی کا ذریعہ قرار دے اس لئے کہ تو فضل عظیم کا مالک اور سخی و کریم ہے ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment