اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

خاندانی حقوق

دوسری فصل

خاندانی حقوق

پہلی بحث

والدین کے حقوق

      اسلام نے خاندان کوخاص اہمیت دی ہے اور چونکہ معاشرہ سازی کے سلسلہ میں اسے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے لذا اسلام نے اس کی حفاظت کے لئے تمام افرد پر ایک دوسرے کے حقوق معین کئے ہیں اور چونکہ والدین کا نقش خاندان اور نسل کی نشو ونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے لذا قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں ان کی عظمت کوبیان کیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔

      اس بحث میں ہم قرآن کریم، سنت نبویہ اورفرامین اہل بیت کی روشنی میں والدین کے حقوق کا جائزہ لیں گے۔

اول  :  حقوق والدین قرآن میں

      اللہ تعالی نے متعدد آیات کریمہ میں اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ  حسن سلوک کا بھی حکم دیا ہے مندرجہ ذیل آیات ملاظہ فرمائیے :

      وقضی ربکالاتعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا [1]۔

      ”تیرے پروردگار کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کےعلاوہ کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دوسری آیت میں ارشاد رب العزت ہے :

      واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا [2]۔

      ”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا سوا اللہ کے کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو“۔

نیزفرمایاہے :

      قل تعالوااتل ماحرم ربکم علیک الاتشرکوابہ شیئا وبالوالدین احسانا [3]۔

      ”اور کہدو آو میں بیان کروں جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے اوپرحرام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو“۔

      اوراس آیت میں اپنے شکرکو والدین کے شکرکے ہمراہ ذکر فرمایا ہے  :

      اناشکرلی ولوالدیک الی المصیر [4]۔

      ”میرا اور اپنے والدین کا شکر بجالاؤ تمہاری بازگشت میری طرف ہے“۔

      اسی طرح خدا تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو ایک بنیادی فیصلہ قرار دیا ہے، اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے بہت ساری آیات میں اولاد پر زور دیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اس کے برعکس والدین کو بہت کم غیر معمولی حالات میں اولاد کو اہمیت دینےکا حکم دیاہے جیسے بھوک کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم۔

      اور صرف اس پر زور دیتا ہے کہ اولاد زینت، تفریح کا سامان اور والدین کے لئے آزمائش ہے اور اولاد کا ذکر مال و متاع کے ہمراہ اور تفاخر کے مقام میں کیا ہے۔

      چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

      واعلموا انما اموالکمو اولادکم  فتنة وان اللہ عندہ اجرعظیم۔

      ”اور جان لو تمہارے اموال اور اولاد آزمائش ہیں، اور جب بیشک اللہ کے ہاں اجر عظیم ہے“ [5]۔

      نیز فرماتا ہے: …وتفاخربینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد…”اور ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ خو اہش ہے…[6]۔

      اور اس کا راز یہ ہے کہ اولاد کے ساتھ تعلق کی نسبت والدین کا اولاد کے ساتھ تعلق زیادہ شدید ہوتا ہے بالخصوص ماں جو ہمیشہ اپنی اولاد کو محبت کی رد امیں لپیٹے رکھتی ہے اور ان کی محبت میں قیمتی سے قیمتی اور نفیس سے نفیس چیز بھی قربان کر دیتی ہے اور اس کی پوری تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد سعادتمندانہ زندگی بسر کرے۔

      لہذا والدین کو اس بارے میں کسی خاص تنبیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی نسل کی صحیح تربیت کرنے کے لئے فقط ان کے ضمیر کو جگا دینا کافی ہے۔

      اور چونکہ اولاد کی محبت والدین کے ساتھ فطری طور پر کمزور ہوتی ہے لہذا قرآن کریم نے انہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ طرفین کی محبت میں توازن آجائے اور اسی وجہ سے دیکھیں تو والدین کے ساتھ حسن سلوک، حقیقی عبادت کا اجتماعی مظہر ہے اورعبادت اور اس کے اجتماعی مظاہر کے درمیان ہر قسم کی تفکیک و جدائی بالخصوص والدین کے ساتھ بدسلوکی اگرچہ ”اف“ کے ساتھ کیوں نہ ہو عبادت کو اسی طرح خراب کر دیتی ہے جیسے سرکے کا ایک قطرہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔

اول : ماں کاعظیم حق

      قرآن کریم نے ماں کے حق کو اس سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے اس کی وجہ یہ ہے ماں کی قربانیاں بھی زیادہ ہیں یہ ماں ہی ہے جو حمل، وضع حمل اور پھر دودھ پلانے جیسی تکالیف برداشت کرتی ہے اور حمل کے مرحلے میں عام طور پر نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے، اس کی غذ۱سے غذا حاصل کرتا ہے اور ماں کی راحت و صحت کی پروا کئے بغیر مطمئن رہتا ہے۔

      پھر وضع حمل کا مرحلہ آتا ہے کہ جس کی سختی کا احساس صرف ماں ہی کو ہو سکتا ہے اور بعض اوقات تو اس مرحلے میں ماں کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے، اس کے بعد دودھ پلانے، پرورش کرنے، زحمتیں اٹھانے اور راتوں کو جاگنے کا مرحلہ آتا ہے اس لئے اسلام ماںکے حقوق ادا کرنے  پر بہت زیادہ زور دیتا ہے اور اس کی فضیلت کا اعتراف کرنے کے لئے اسے بہترین بدلہ دینے پر زور دیتا ہے اور ان قربانیوں کے پیش نظر قرآن کریم ماں کا خصوصیت سے تعارف کراتا ہے اور اس کے حقوق کے بارے میں خاص طور سے نصیحت کرنا ایک فطری سی بات ہے چنانچہ فرماتا ہے :

      ووصینا الانسانبوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن فصالہ فی عامین…۔

      ”اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کی طرف کہ جس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو برس تک شیردھی کافریضہ انجام دیا“[7]

      اسی کے ساتھ قرآن کریم نے اولاد کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بالخصوص ماں کی زحمتوں اور تکلیفوں کو فراموش یا نظرانداز کرکے اپنی پوری توجہ بیوی، بچوں پر مرکوز نہ کریں۔

دوم : والدین کے حقوق سنت نبویہہیں

      مسئلہ حقوق بالعموم اورحقوق والدین بالخصوص پیغمبر اکرم کی احادیث و نصائح کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اس کی وجہ قرآن کی متواتر تاکیدات و تنبیہات اور اجتماعی ضرورت ہے۔

      بالخصوص اس تناظر میں کہ پیغمبر نے معاشرہ سازی اور تمدن جدید کی تشکیل کے لئے ایک بڑی مہم کا آغاز کیا تھا اور چونکہ خاندان کو معاشرتی عمارت میں خشت اول کی حیثیت حاصل ہے اور والدین کی مثال خانوادے میں ایک رہبر کی سی ہوتی ہے اس لئے ان کے حقوق کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اجتماعی عمارت ریت کی دیوار کی طرح متزلزل اور بے ثبات ہو جائیگی۔

      اسی لئے دعوت توحید کے بعد یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیغمبر کی توجہ کا مرکز بنا اور مسئلہ کے عبادی پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے آپ نے اللہ کی رضا اور والدین کی رضا کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے اور تاکید کی ہے کہ والدین کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالی کی محبت و مغفرت اور والدین کی محبت و اطاعت کے درمیان رابطہ کے بارے میں امام زین العابدین سے روایت ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے ہرقسم کا بر عمل کیا ہے کیا میرے لئے بھی توبہ کا موقع ہے توآپ نے پوچھا:

      فھل منوالدیک احد حی ۔

      ”کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا میرا باپ زندہ ہے تو آپ نے فرمایا:

      فاذھب فبرہ  ”جا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر“ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:

      لوکانت امہ ”کاش کہ اس کی ماں زندہ ہوتی“ [8]۔

      اور امام صادق سے روایت ہے : جاء رجل الی النبی ،فقال : یارسول اللہ من ابر؟ قال امک قال :ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال اباک۔

      ”ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ حسن سلوم کروں تو آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے پوچھا

پھرکس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھرکس کے ساتھ  فرمایا ماں کے ساتھ اس نے کہا پھرکس کے ساتھ فرمایا باپ کے ساتھ“ ۔[9]

      پیغمبر نے اولاد کے لئے والد کے جن حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے ان میں سے یہ ہے کہ والد کو غیظ و غضب میں دیکھ کر اس کی ہتک حرمت سے بچنے کے لئے پسر کو خاضع و متواضع ہو جانا چاہئے۔

      مزیدبرآن کسی کے باپ کوگالی دے کراپنے باپ کوگالی دئیے جانے کاسبب بننابھی ایساگناہ ہے جوعقاب اخروی کاموجب ہے اوران کے ساتھ حسن سلوک فقط ان کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کی موت کے بعدبھی ہے مثلا ان کاقرض اداکرنااوران کے لئے دعاخیرواستغفارکرناوغیرہ وغیرہ۔

      پیغمبر نے اپنی زندگی ہی میں ان سب وصیتوں کوعملی جامہ پہنا دیا تھا چنانچہ جس وقت آپ لوگوں کو ہجرت کے لئے تیار کر رہے تھے تاکہ مدینہ میں ایک جدید توحید پرست معاشرہ تشکیل دیا جا سکے اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انگلیوں پرگنے جا سکتے تھے سیرت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں ہجرت کے لئے آپ کی بیعت کرتا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ آیا ہوں تو آپ نے فرمایا:

      ”ان کے پاس جلد واپس جا اور جس طرح انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنسا“ [10]۔

      اس واقعہ سے بھی والدین کے حقوق کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دن پیغمبر کی ایک رضاعی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے نہایت گرمجوشی سے اس کا استقبال و احترام کیا پھر اس کا بھائی آیا تو آپ نے اس کا ویسا احترام نہ کیا جیسے اس کی بہن کا کیا تھا اس پر آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ نے اس کی بہن کا جو احترام کیا وہ اس کے بھائی کا نہیں کیا حالانکہ وہ مرد ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا اس کی بہن اپنے باپ کے ساتھ اپنے بھائی کی بہ نسبت زیادہ حسن سلوک کرتی ہے۔

      تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر کے نزدیک قربت و دوری اور ان کے نزدیک محترم ہونے کا معیار والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ آخرمیں ماں کے اس منصب کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو پیغمبر نے ماں کو عطا فرمایا ہے کہ :

      الجنة تحت اقدام الامھات۔

      ”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“ [11]۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر
اسلامی جہاد اور عوامی جہاد میں فرق

 
user comment