اردو
Sunday 29th of December 2024
0
نفر 0

مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق

مختلف طبقوں، درجوں اور مقاموں سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کرنے کی ترغیب مذہب اسلام کی سب سے بڑی اور سب سے اچھی ترغیبوں میں سے ہے چنانچہ آج کے اور پچھلے مسلمانوں کا سب سے زیادہ بے وقعت اور ذلیل کام یہ ہے کہ انہوں نے اس اسلامی بھائی چارے کے تقاضوں کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس بارے میں لاپروائی اور غفلت برتی۔

وجہ یہ ہے کہ اس بھائی چارے کا (جیسا کہ امام جعفر صادق ک کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے اور جسے ہم بیان کریں گے) کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرے اور عزیز رکھے جسے اپنے لیے اس نے پسند کیا ہے اور عزیز رکھا ہے اور جسے اپنے لیے پسند نہیں کرتا اسے دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی پسند نہ کرے۔

اس چھوٹے اور سیدھے سادے سے قاعدے کے بارے میں جو اہلبیت  کے پسندیدہ دستوروں میں سے ہے سوچنا چاہیے اور اس خیال سے سوچنا چاہیے کہ اس قاعدے پر صحیح صحیح عمل کرنا آج کے مسلمانوں کے لیے کتنا مشکل ہے ۔ آج کے مسلمان واقعی اس قاعدے سے کتنے دور ہیں اور اگر واقعی یہ لوگ انصاف سے کام لیتے اور اپنے مذہب کو ٹھیک ٹھیک پہچان لیتے اور صرف اسی قاعدے پر عمل کرتے تو کبھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرتے اور ان میں زیادتی، چوری، جھوٹ، بدگوئی ، چغلی ، الزام ، گستاخی ، تہمت لگانا، توہین کرنا اور خود غرضی وغیرہ کے عیوب ہرگز نہ ہوتے۔

بے شک اگر مسلمان آپس میں بھائی چارے کی کم سے کم خوبی کو سمجھ کر ہی عمل کرتے تو ان میں ظلم اور دشمنی باقی نہ رہتی اور انسان حد درجہ خوشی اور اجتماعی خوش بختی کے اونچے اونچے مرحلوں کی فتح کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی طرح اپنی زندگی گزارتے۔

انسانیت کی دنیا میں وہ ""مثالی بعاشرہ"" جس کا قیام پچھلے فلسفیوں سے رہ گیا تھا یقینی طور پر وجود میں آجاتا، اس صورت میں لوگوں میں دوستی اور محبت کی حکمرانی ہوتی حکومتوں ، عدالتوں ، پولیس ، جیل تعزیری قوانین اور سزا اور قصاص کے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، اگر وہ سامراجیوں اور جابر حکمرانوں کے سامنے سر نہ جھکاتے اور باغی خود سروں کے دھوکے میں نہ آتے تو آخر کار پوری زمین بہشت کا بدل ہوجاتی اور خوش بختی کے گھر کی طرح بن جاتی۔

میں اس جگہ یہ مزید کہتا ہوں : اگر محبت اور بھائی چارے کا قانون جیسا کہ اسلام نے چاہا ہے انسانوں میں حکمرانی کرتا تو ہمارے مکتب کی لغت سے عدالت کا لفظ ہی نکل جاتا۔ یعنی ایسی صورت میں ہمیں عدل کی ضرورت ہی نہ پڑتی جو ہم لفظ عدل سے کام لینے کی حاجت رکھتے بلکہ محبت اور بھائی چارے کا قانون ہی نیکیاں پھیلانے ، امن ، خوش بختی اور کامیابی قائم رکھنے کو ہمارے لیے کافی ہوتا ۔

وجہ یہ ہے کہ انسان قانون عدل کی طرف اس وقت جاتا ہے جب سماج میں محبت نہیں ہوتی لیکن جہاں لوگوں میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی کی سی محبت راج کرتی ہے، وہاں انسان اپنی خواہشات اور ضروریات چھوڑ بیٹھتا ہے اور محبت کے مقدس حدود کی خود خوشی خوشی حفاظت کرتا ہے آخر کار تمام مشکلیں محبت کے سائے تلے دور ہوجاتی ہیں اور پھر عدالت اور سیاست کی ضرورت نہیں رہتی ۔

اس کا راز اور سبب یہ ہے کہ ہر انسان صرف اپنے آپ سے اور اس چیز سے محبت کرتا ہے جو اسے اچھی لگتی ہے وہ کبھی ایسی چیز سے جو اس کی ہستی سے باہر ہو اس وقت تک محبت نہیں کرتا جب تک وہ اس سے تعلق پیدا نہ کرے ، وہ اسے بھلی نہ لگنے لگے، اسے اس کی ضرورت نہ پڑجائے اور اس سے رغبت نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی خاطر جسے وہ پسند نہیں کرتا اور جس کی طرف وہ مائل نہیں ہے اپنے ارادے اور اختیار سے جان دے دے اور قربانی ہوجائے اور اس کے لیے اپنی خواہشات اور مرغوبات چھوڑ بیٹھے بجز اس صورت کے وہ ایک ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس کی طاقت اس کی خواہشات اور مرغوبات سے زیادہ ہو ، جیسے عدالت اور احسان کا عقیدہ اس صوت میں زیادہ طاقتور میدان (مثلاً عدالت اور احسان چاہنے کا عقیدہ) کمزور رجحانات کو دبا دیتا ہے۔ یہ زیادہ پکا اور مضبوط عقیدہ انسان میں اس وقت جنم لیتا ہے جب کہ وہ بلند روح کا مالک ہو، ایسی روح جو اس سے زیادہ بلند ہو کہ خیالی اور مادی معاملات کی خاطر مادے سے ماورا (یعنی حقیقی، معنوی اور روحانی ) معاملات کو نظر انداز نہ کرے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی غیر کے ساتھ احسان اور انصاف کیے جانے کے مرحلے کو اعلیٰ سمجھے گا۔

انسان اس صورت میں اس روحانی پروگرام کا محتاج ہوتا ہے جب وہ اپنے اور تمام انسانوں کے بھائی چارے کے جذبے اور سچی محبت کے قائم رکھنے سے عاجزہ جائے۔ ورنہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ محبت، عدالت کی جگہ لے لیتی ہے اور محبت کی حکومت میں عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان پر بھائی چارے کی صفت سے آراستہ ہونا واجب ہے۔ اسے سب سے پہلے یہ چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھائی چارے کا جذبہ رکھے اور جب اپنے نفس کی خواہشات غالب آجانے کے باعث اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے سے عاجز رہ جائے (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) تو اسلامی مواعظ اور رہبریو کی پیروی کرکے اپنے نفس میں عدالت اور احسان طلبی کا عقیدہ مضبوط کرے اور اس کی بدولت اسلامی مقاصد حاصل کرے اور اگر اسے مرحلے سے بھی مجبور ہوگیا تو پھر وہ صرف نام کا مسلمان ہے (کیونکہ محبت کے درجو کی کوئی انتہا نہیں ہے اور عدل ، اسلام کی آخری حد ہے جس کے بعد کفر و ضلالت ہے) اور وہ اللہ کی سرپرستی اور حزب اللہ سے باہر نکل گیا ہے اور امام  کی تشریح کے مطابق جو بیان کی جارہی ہے خدا اس پر مہربانی اور عنایت نہیں کرتے گا۔

اکثر نفس کی سرکش خواہشیں اور تقاضے انسان پر غالب آجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے لیے انصاف چاہنے کی ضرورت محسوس کرے تو پھر اس بات کا توخیر خیال ہی چھوڑ دیجیے کہ وہ انسانی انصاف کی اتنی طاقت اپنے اندر اکٹھی اور تیار کرلے کہ اپنے نفس کی سرکش خواہشوں اور تقاضوں پر غالب آجائے۔

یہی وجہ ہے کہ بھائی چارے کے حقوق کا لحاظ اس حالت میں جب کہ انسان میں بھائی چارے کا سچا جذبہ نہ ہو سب سے مشکل مذہبی تعلیم اور سبق ہے ، چنانچہ امام جعفر صادق ؑ نے اپنے ایک صحابی معلیٰ بن خنیس کے جواب میں جس نے بھائی چارے کے حقوق پوچھے تھے اس کی حالت کا خیال کیا اور اس ڈر سے کہ معلیٰ بن خنیس ان حقوق کو جانتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں کرسکتا اس کی قوت برداشت سے زیادہ وضاحت نہیں کی۔

معلیٰ بن خنیس کہتے ہیں ، میں نے امام جعفر صادق  سے عرض کیا :

مَا حَقُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ :۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے ؟

آپ نے فرمایا :

لَہُ سَبعُ حُقُوقٍ وَاجِبَاتٍ ، مَامِنھُنَّ حَقٌّ اِلاَّ وَھُوَ عَلَیہِ وَاجِبٌ ، اِن ضَیَّعَ مِنھَا شَیئاً خَرَجَ مِن وِلاَیَۃِ اللہِ وَطَاعَتِہِ ، وَلَم یَکُن لِلّٰہِ فِیہِ نَصِیبٌ :۔ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سات حق واجب ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک خود اس پر بھی واجب ہے اگر وہ ان میں سے ہر حق ضائع کردے گا تو خدا کی بندگی، حکومت اور سرپرستی سے باہر نکل جائے گا اور پھر خدا کی طرف سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

میں نے کہا : میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ حقوق کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا:۔ اے معلیٰ ! میں تجھ پر شفقت کرتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ تو کہی یہ حقوق تلف نہ کرے، ان کی حفاظت نہ کرسکے اور انہیں سمجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہ کرسکے۔

میں نے کہا : خدا کے سوا کسی میں طاقت نہیں ہے مجھے خدا کی مدد سے امید ہے کہ میں کامیاب ہوجاؤں گا۔

اس وقت امام نے ساتوں حقوق بیان کیے، اس کے بعد فرمایا کہ جو ان میں سب سے ادنی ہیے وہی سب سے سادہ بھی ہے اور وہ یہ ہے:

اَن تُحِبَّ لَہُ کَمَا تُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَہَ لَہ مَاتکرَرہُ لِنَفسِکَ :۔ دوسروں کے لیے بھی وہ چیز پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی وہ ناپسند کر جو تو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔

کس قدر عجیب ہے ! سبحان اللہ ! کیا سچ مچ یہ سب سے ادنیٰ اور سب سے سادہ حق ہوسکتا ہے؟

آج ہم مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ کیا اس حق کا ادا کرنا ہمارے لیے سادہ اور سہل ہے؟ ان کے مہ کو لوکا لگے جو مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اسلام کے سب سے سادہ قاعدے پر بھی عمل نہیں کرتے ۔ اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ اسلام کے پچھڑ جانے اور زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا عمل اس زوال کا سبب بنا ہے۔ اسلام می خود کوئی برائی نہیں ہے جو برائی ہے وہ ہمارے مسلمان ہونے کے دعوے میں ہے۔ ہاں تمام گناہ ان کے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے مذہب کے سب سے آسان اور سادہ قاعدے پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

صرف تاریخ میں لکھے جانے کے لیے اور اس لیے کہ ہم خود کو اور اپنی کوتاہیوں کو پہچان لیں، یہ ساتوں حقوق جن کی امام جعفر صادق  نے معلیٰ بن خنیس کی خاطر تشریح کی ہے ہم اس مقام پر پیش کرتے ہیں :

۱۔ آن تحِبَّ لاَخِیکَ المُسلِمِ مَاتُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَہَ لَہُ مَا تَکرَہُ لِنَفسِکَ :۔ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند کو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا اس کے لیے بھی پسند نہ کر۔

۲۔ آن تَجتَنِبَ سَخَطَہُ وَتَتَّبِعَ مَرضَاتَہُ وَتُطِیعَ اَمرَہُ :۔ اپنے مسلمان بھائی کو ناراض کرنے سے (یا اس کے غصے سے) بچتا رہ جو اس کی مرضی کے مطابق ہو وہ کر اور اس کا حکم مان۔

۳۔ اَن تُعِینَہُ بِنَفِسکَ وَمَالِکَ وَلِسَانِکَ وَیَدِکَ وَرِجلِکَ :۔ اپنی جان ، مال ، زبان اور ہاتھ پاؤں سے اس کا ساتھ دے۔

۴۔ آن تَکُونَ عَینَہُ وَدَلِیلَہُ وَمِراٰتَہُ :۔ اس کی آنکھ، رہنما اور آئینہ بن کر رہ۔

۵۔ اَن لاَّ تَشبَعَ وَیَجُوعَ وَلاَ تَروٰی وَیَظمَاَ وَلاَ تَلبَسَ وَیَعرٰی :۔ تو اس وقت تک پیٹ نہ بھر جب تک وہ بھوکا ہے۔ اس وقت تک سیراب نہ ہو جب تک وہ پیاسا ہے اور اس وقت تک کپڑے نہ پہن جب تک وہ ننگا ہے۔

۶۔ اَن یَّکُونَ لَکَ خَادِمٌ وَلَیسَ لاَخِتکَ خَادِمٌ فَوَاجِبٌ اَن تَبعَثَ خَادِمَکَ فَیُغَسِّلَ ثِیَابَہُ وَیَصنَعَ طَعَامَہُ وَ یُمَھِّدَ فِرَاشَہُ :۔ اگر تیرے پاس ملازم ہے اور تیرے بھائی کے پاس نہیں ہے تو تجھے لازم ہے کہ اپنا ملازم اس کے پاس بھیج دے تاکہ وہ اس کا لباس دھودے ، کھانے کا انتظام کردے اور بستر لگا دے۔

۷۔ اَن تُبِرَّ قَسَمہُ وَتُجِیبَ دَعوَتَہُ وَ تَعُودَ مَرِیضَہُ وَتَشھَدَ جَنَازَتَہُ وَاِذَا عَلِمتَ اَنَّ لَہُ حَاجَۃً تُبادِرُہُ اِلیٰ قَضَآئِھَا وَلاَ تُلجِئُہُ اِلٰی اَن یَّساَلَکَھَا وَلٰکِن تُبَادِرہُ مُبَادَرَۃً :۔ اسے اس کے معاہدوں کی ذمے داری سے آزاد کر، اس کی دعوت قبول کر، اس کی بیماری میں مزاج پرسی کر، اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر تو جانتا ہے کہ اسے کوئی ضرورت ہے تو فوراً اس کی ضرورت پوری کر۔ اس کی ضرورت پوری کرنے میں اس انتظار میں دیرنہ کر کہ وہ خود ضرورت ظاہر کرے بلکہ جلد سے جلد اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جا۔

پھر امام صادق  نے اپنی گفتگو ان جملوں پر ختم کی:

فَاِذَا فَعَلتَ ذٰلِکَ وَصَلتَ وِلاَیَتَکَ بِوِلاَیَتِہِ وَ وَلاَیَتَہُ بِوِلاَیَتِکَ :۔ جب تو نے یہ حقوق ادا کر دیے تو اپنی محبت کا رشتہ اس کی محبت سے اور اس کی محبت کا رشتہ اپنی محبت سے جوڑ لیا۔

(نوٹ، وسائل الشعیہ ، کتاب الجج ابواب احکام احکام العشرۃ باب ۱۲۲ حدیث ۷)

اس مضمون کی بہت سی روایتیں ائمہ اطہار  سے منقول ہیں اور ان کا بیشتر حصہ کتاب وسائل الشیعہ کے مختلف ابواب میں درج ہے۔

ایک شک کا ازالہ :۔

بعض اوقات کچھ لوگ یہ شک کرتے ہیں کہ اس برادری سے جس کا ذکر اہل بیت  کی حدیثوں میں آیا ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نہیں بلکہ شیعوں کی برادری مراد ہے لیکن ان تمام حدیثوں کو دیکھ کر جن میں یہ موضوع بیان ہوا ہے یہ شک دور ہو جاتا ہے، درآنحالیکہ ائمہ اطہار  دوسری وجوہ سے مخالفین کے طور طریقوں کے خلاف تھے اور ان کےعقیدے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔

اس مقام پر یہی کافی ہے کہ ہم پڑھنے والے سامنے ""معاویہ بن وہب"" کی حدیث پیش کریں، وہ کہتے ہیں:

میں نے امام جعفر سے عرض کیا کہ ہم تمام مسلمانوں سے جو ہمارے یہاں آمدورفت رکھتے ہیں لیکن شیعہ نہیں ہیں کس طرح پیش آئیں؟ آپ نے فرمایا:

اپنے اماموں کو دیکھو اور انہیں کی طرح مخالفوں سے پیش آؤ ۔ خدا کی قسم ! تمہارے امام ان کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں ، ان کی موافقت یا مخالفت میں قاضی کے سامنے گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے۔(نوٹ ، اصول کافی کتاب العشرۃ باب اول)

وہ بھائی چارہ جو ائمہ اطہار  نے اپنے شیعوں سے چاہا ہے وہ اس اسلامی بھائی چارے سے بھی بڑھ کر ہے جس باب میں شیعوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں بہت سی حدیثیں اس بات کی گواہ ہیں اس سلسلے میں وہ گفتگو کافی ہے جو امام صادق  اور ان کے ایک صحابی ابان بن تغلب کے درمیان ہوئی ہے ہم اسے یہاں درج کرتے ہیں۔

ابان کہتے ہیں : ہم لوگ امام جعفر صادق  کے ساتھ خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے کہ اس بیچ میں ایک شیعہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ایک کام کے لیے میرے ساتھ چلے چلو، اسی وقت امام جعفر صادق  نے ہم دونوں کو دیکھ لیا تو مجھ سے فرمایا :

کیا اس شخص کو تم سے کام ہے؟

آپ نے فرمایا : کیا وہ تمہاری طرح ہی شیعہ ہے ؟

میں نے کہا : جی ہاں

آپ نے فرمایا : طواف چھوڑ دو اور اس کے ساتھ اس کے کام سے چلے جاؤ۔

میں نے کہا : چاہے طواف، طواف واجب ہو اسے چھوڑ دوں ۔

آپ نے فرمایا : ہاں

میں اس کے ساتھ چلاگیا اور اس کا کام کرنے کے بعد امام جعفر صادق  کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے مومن کا حق دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا:

یہ سوال چھوڑ دو اور نہ ہراؤ ۔

لیکن میں نے سوال دہرایا تو آپ نے فرمایا :

اے ابان ! کیا تم اپنی دولت اس مومن کے ساتھ بانٹ لو گے؟

اس کے بعد امام نے میری طرف دیکھا اور جوکچھ امام کی بات سن کر میں نے سمجھا تھا وہ انہوں نے میرے چہرے سے بھی پڑھ لیا تو فرمایا :

اے ابان ! کیا تم جانتے ہو کہ خدا ایثار کرنے والوں کو یاد کرتا ہے

(نوٹ، وَ یُؤثِرُونَ عَلٰی اَنفُسُھِم وَلَو کَانَ بِھِم خَصَاصَۃٌ ، وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفِسِہِ فَاُولٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ (سورہ حشر۔ آیت ۹)

میں نے جواب دیا: جی ہاں میں جانتا ہوں۔

آپ نے فرمایا :

تم اپنا مال اس کو بانٹ دو گے تب بھی ""صاحب ایثار"" نہیں ہوسکو گے البتہ تم اس وقت ایثار کے درجے پر پہنچو گے جب اپنا آدھا مال اس کو دے دو گے اور جو دوسرا آدھا مال تمہارے لیے رہ گیا ہے وہ بھی اس کو دے ڈالو گے۔

(وسائل الشیعہ کتاب العج ابواب العشرہ باب ۱۲۲ حدیث ۱۶)

میں کہتا ہو کہ واقعی ہماری زندگی کی حقیقت کتنی شرم دلانے والی ہے واقعی ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اپنے آپ کو مومن کہیں، ہم ایک وادی میں اور ایک طرف ہیں، ہمارے امام دوسری وادی میں اور دوسری طرف ہیں، وہی حالت اور رنگ بدلنے کی کیفیت جو امام کے فرمانے پر (مال بانٹنے کے سلسلے میں) ان کی ہوئی ان لوگوں کی بھی ہوگی جو یہ حدیث پڑھیں گے۔

ہم نے اپنے آپ کو اتنا بھلا دیا ہے اور حدیث سے منہ موڑ بیٹھے ہیں جیسے یہ حدیث ہمارے لیے نہیں ہے اور ہم ایک ذمے دار انسان کی طرح کبھی اپنے نفس کو نہیں جانچتے۔


source : http://wilayat.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
معاد اور تخلیق کا فلسفہ
مسلمان ایک جسم کی مانند
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ سوّم )
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت
اتحاد بین المسلمین کے دشمن کون ہیں اور کیوں
اسلام میں عید غدیر کی اھمیت

 
user comment