بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟باغبان درخت کو پھل کے لئے لگاتاہے، کسان فصل کاٹنے کے لئے زمین کو کھود کر اس میں کیاریان بناتا ہے اور بیج بوتاہے ۔ آخر خلقت کے باغبان نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟
کیا خداوند متعال کو کسی چیز کی کمی تھی، جس کی تلافی کے لئے ہمین خلق کیاہے؟ اس صورت میں تو خدا کو محتاج ہونا پڑے گا اور پروردگار کے لئے محتاج ہونا اس کی ذات اور اس کے لامحدود وجود کے شایان شان نہیں ہے ۔
مذکورہ سوالات کا جواب مفصل ہے لیکن ان کے جواب چند جملوں میں خلاصہ کرکے واضح کیا جاسکتاہے:
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم خداوند متعال کی صفات کا اپنی ذات سے موازنہ کرتے ہیں، چونکہ ہم ایک محدود مخلوق ہیں، اس لئے جو بھی کام انجام دیتے ہیں، اپنی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہوتاہے، ہم سبق پڑھتے ہین تا کہ اپنی علمی کمی کو پورا کریں، کام کرتے ہیں تا کہ اپنی مال کمی پورا کریں ۔ علاج و معالجہ کے پیچھے دوڑتے ہین تا کہ صحت وسلامتی حاصل کریں۔
لیکن خداوند متعال، جو ہر لحاظ سے ایک لا محدود وجود ہے، اگر کو ئی کام انجام دے تو ہمیں اس کے مقصد کو اس کے وجود سے باہر جستجو اور تلاش کرنی چاہئے، وہ اس لئے کسی کو پیدا نہیں کرتا ہے تا کہ خود اسے کوئی فائدہ ملے،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ”اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازے“۔
وہ ایک پر نور اور لا محدود سورج ہے ، جو کسی احتیاج کے بغیر اپنا نور پھیلاتاہے تا کہ سب اس کے وجود سے مستفید ہوں ۔ یہ اس کی لامحدود اورپر برکت و پر فیض ذات کا تقاضا ہے کہ تمام مخلوقات کا ہاتھ بکڑ کر انھیں کمال کے راستہ پر گامزن کرتاہے ۔
ہماری خلقت اپنے عدم سے کمال کی طرف ایک برجستہ قدم تھا خدا کی طرف سے انبیاء کا بھیجنا،آسمانی کتابوں کا نزول اور قوانین و احکام کا معین ہونا، ہر ایک ہمارے کمال کے مراحل شمار ہوتے ہیں ۔
یہ دنیا ایک عظیم یونیورسٹی ہے اور ہم اس کے طالب علم ہیں(۱) ۔
یہ دنیا ایک آمادہ کھیت ہے اورہم اس کے کسان ہیں(۲) ۔
یہ دنیا ایک فائدہ بخش تجارتی مرکز ہے اورہم اس کے تاجر ہیں(۳) ۔
ہم کیسے انسان کی خلقت کے لئے کسی مقصد کے قائل نہیں ہوسکتے ؟ حالانکہ جب ہم اپنے اطراف پر نظر ڈالتے ہیں اور مخلوقات کے ذرہ ذرہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے ہر ذرہ کا ایک مقصد ہے ۔
۱،۲،۳:نہج البلاغہ:کلمات قصار اور حدیث مشہور”الدنیا مزرعة الآخرة“ کامضمون۔
ہمارے بدن کے عجیب وغریب کارخانہ میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے یہاں تک کہ ہمارے آنکھوں کی پلکیں اور ہمارے تلوؤں کی گہرائی بھی بے مقصد نہیں ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے وجود کا ہر جز کوئی مقصد رکھتا ہولیکن ہمارا پورا وجود بے مقصد ہو؟
جب ہم اپنے وجود سے باہر آکر اس عظیم کائنات پر نظر ڈالتے ہیں،تو ہم اس کائنات میں موجود ہر چیز کو بامقصد پاتے سورج کی روشنی با مقصد ہے ،بارش کا برسنا با مقصد ہے اور ہوا کاچلنا بھی بامقصد ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پوری کائنات بے مقصد ہو؟!
حقیقت یہ ہے کہ گویا اس عظیم کائنات کے بیچ میں مقصد کی نشامذہبی کے لئے ایک بڑاسائن بورڈ نصب کیا گیا ہے ہم اس کی عظمت کے پیش نظر کبھی پہلے لمحات میں اسے دیکھ نہیں پاتے ہیں اس سائن بورڈپر یہ عبارت لکھی گئی ہے: ” تربیت و تکامل“۔
اب جبکہ ہم اپنی خلقت کے مقصد کے بارے میں کسی حدتک آگاہ ہوگئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری اس دنیا کی چند دنوں کی زندگی ان تمام مشکلوں،مصیبتوں اور ناکامیوں کے ساتھ ہماری خلقت کا مقصد ہوسکتی ہے؟
فرض کیجئے میں اس دنیا میں ساٹھ سال زندگی بسر کروں ،ہرروز صبح سے شام تک روزی کمانے کے لئے کوشش کروں اور شام کو تھکا ہوا گھر لوٹوں ،اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ میں اپنی پوری عمر میں کئی ٹن غذا اور پانی صرف کروں ،بڑی زحمتوں اور محنتوں کے بعد ایک گھر تعمیر کروں ،پھر اسے یہیں پر چھوڑ کر اس دنیا سے چلاجاؤں ۔کیا اس مقصد کی یہی اہمیت ہے کہ مجھے درد ورنج سے بھری اس چند روزہ زندگی کی طرف بلایا جائے؟
اگر ایک انجینئر ،ایک بیابان کے بیج میں ایک بڑی عمارت تعمیر کرے اور اس کو مکمل کر نے میں اسے برسوں لگ جائیں اور اس عمارت کو مکمل کر نے کے بعد اس میں تمام سازوسامان فراہم کرے ۔لیکن جب اسے اس عمارت کی تعمیر کے بارے میں سوال کریں کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟ تو وہ جواب میں کہے :میرا مقصد یہ ہے کہ جب تک یہ عمارت اس بیابان میں موجود ہے جو بھی مسافر یہاں سے گزرے،اس میں ایک گھنٹہ آرام کرے!کیا یہ جواب سن کر ہم سب تعجب سے یہ نہیں کہیں گے :ایک مسافر کے ایک گھنٹہ آرام کے لئے اس قدر زحمتوں اور محنتوں کی ضرورت نہیں تھی!
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ قیا مت اور موت کے بعد والی زندگی کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیںوہ اس دنیا کی زندگی کو فضول سمجھتے ہیں ۔مادہ پرستوں کی زبان سے یہ جملہ اکثر سنا گیا ہے کہ اس دنیا کی زندگی بے مقصد ہے ۔حتی بعض اوقات ان میں سے کچھ افراد خود کشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا کی مادی اور مکرر اور بے مقصد زندگی سے تنگ آجاتے ہین۔
جو چیز زندگی کو مقصد بخشتی ہے اور اسے معقول اور با حکمت بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس زندگی کو دوسری دنیا کے لئے مقدمہ سمجھاجائے اور اس زندگی کے مشکلات کو برداشت کر نا اور اس کے لئے اتنے دکھ درد اٹھانا ایک ابدی زندگی کی راہ میں استفادہ کر نے کے لئے ہو۔
یہاں پر اس دلچسپ مثال کا پھر سے ذکر کر نا مناسب ہو گا جسے ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے،یعنی اگر ماں کے شکم میں موجود جنین صاحب عقل وشعور ہو تا اور اس سے کہا جاتا :”تیری اس زندگی کے بعد کوئی خبر نہیں ہے ،“تو وہ اپنی زندگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا:”پس اس کا کیا مطلب ہے کہ میں اس جگہ قیدی بنا رہوں؟خون پیتا رہوں اور ہاتھ پاؤں باندھے ہو ئے ایک کو نے میں پڑا رہوں اور اس کے بعد کچھ نہ ہو ؟پرور دگار کا میری اس خلقت سے کیا مقصد تھا؟!“لیکن اگر اسے اطمینان دلایا جائے کہ یہ چند مہینے جلدی گزرنے والے ہیں اور یہ دنیا میں نسبتاً ایک طولانی زندگی کی آمادگی کا دور ہے ،وہ دنیا اس جنین کے ماحول سے بہت زیادہ وسیع،پر نور اور با شکوہ ہے اور اس کی نسبت زیادہ نعمتوں سے مالا مال ہے ۔“اس وقت وہ مطمئن ہو جائے گا کہ اس کاجنینی دوران ایک با معنی و با مقصد دور ہے اسی لئے قابل برداشت ہے ۔
قرآن مجید سورہ واقعہ آیت نمبر ۶۲ میں ارشاد فر ماتا ہے:
<ولقد علمتم النشّاة الاولیٰ فلو لا تذکرون>
”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو؟(کہ اس کے بعد بھی ایک جہان ہے) ۔“
مختصر یہ کہ یہ دنیا اپنے تمام وجود سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس کے بعد ایک اور دنیا ہے ورنہ یہ دنیا فضول ،بیہودہ اور بے معنی ہوتی ۔
اس بات کو قرآن مجید کی زبانی سنئے کہ سورہ مو منون کی آیت نمبر ۱۱۵ میں ارشاد فر ماتا ہے:
<اٴفحسبتم اٴنّما خلقنکم عبثا وانکم إ لینا لا تر جعون>
”کیا تمھارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے؟“
اس کا اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ اگر ”معاد“(جس کی تعبیر قرآن مجید میں خدا کی طرف پلٹنا ہے)کا وجود نہ ہو تا تو انسان کی خلقت عبث اور بیہودگی کے برابر ہوتی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلقت کا فلسفہ کہتا ہے:اس عالم کے بعد ایک اور عالم کا وجود ضروری ہے ۔
source : http://www.taqrib.info