امام ھشتم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) نے نبوت کی بحث میں ارشاد فرمایا:((فإن قال: فلم وجب علیھم معرفة الرسل و الإقرار بھم والإذعان لھم بالطاعة؟ قیل: لاٴنہ لما لم یکن فی خلقھم و قولھم و قواھم ما یکملون لمصالحھم وکان الصانع متعالیاً عن اٴن یری، وکان ضعفھم و عجزھم عن إدراکہ ظاھراً لم یکن بدّ من رسول بینہ و بینھم معصوم یوٴدّی إلیھم اٴمرہ و نھیہ و اٴدبہ و یقفھم علی ما یکون بہ إحراز منافعھم و دفع مضارھم إذ لم یکن فی خلقھم ما یعرفون بہ ما یحتاجون إلیہ من منافعھم و مضارھم)) [19]
[1] علل الشرایع ،ج۱ ،ص۵، باب ۶، حدیث ۱۔(عبد اللہ بن سنان نے کھا میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا ملائکہ افضل ھیں یا بنی نوع آدم؟
امام نے علیہ السلام نے فرمایا: حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ھیں:خد اوند متعال نے ملائکہ کو عقل بغیر شہوت وھواء پرستی کے عطا کی ھے اور جانوروں میں شہوت بغیر عقل کے اور انسان میں ان دونوں کو جمع کیا ھے بس جو اپنی عقل کے ذریعہ شہوت کو قابو میں رکھے وہ ملائکہ سے افضل ھے اور وہ جس کی عقل پر اس کی شہوت غلبہ کر لے وہ جانور وں سے بدتر ھے۔
[2] سورہ حجر کی آیت نمبر ۲۹ کی طرف اشارہ ھے:<فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ>
”بس جس وقت میں نے اس کا پتلا بنایا اور اس میں روح پھونکی(اور کھا )آدم کے لئے سجدہ میں گر جاوٴ“۔
[3] سورہ مومنون، آیت ۱۴۔”اس کے بعد ھم نے اس کو ایک دوسری صورت میں پیدا کیا تو (سبحان اللہ )خدا با برکت ھے جو سب بنانے والوں سے بہتر ھے“۔
[4] بحار الانوارج۶ ص۲۴۹۔”تم فنا کے لئے نھیں پیدا هوئے هو بلکہ باقی رھنے کے لئے خلق هوئے هو اور بے شک اس کے علاوہ کچھ بھی نھیں کہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل هو رھے هو“۔
[5] سورہ طہ، آیت ۵۰۔”ھر چیز کو اس نے خلق کیا پھر ھدایت کی“۔
[6] افراط در تشبیہ:(یعنی خدا کو مخلوق کی طرح سمجھنا)
[7] سورہ انعام ، آیت۱۵۳۔”اور بے شک یھی میرا سیدھا راستہ ھے بس اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو جو تم کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا کر تتر بتر کردیں گے یہ وہ باتیں ھیں جن کا خدا نے تم کو توصیہ کیا ھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو“۔
[8] سورہ روم ، آیت ۴۱۔”خود لوگوں ھی کے اپنے ھاتھوں کی کارستانیوں کی بدولت خشک وتر میں فساد پھیل گیا“۔
[9] سورہ جاثیہ ، آیت ۱۳۔”خدانے تمھارے لئے تسخیر کردیا ان سب کو جو زمین وآسمان میں ھے یہ سب خدا کی طرف سے ھے بے شک ان سب میں لوگوں کے لئے نشانیاں ھیں جو تفکر کرتے ھیں“۔
[10] سورہ حدید ، آیت ۲۵۔”بہ تحقیق ھم نے اپنے پیغمبروں کو دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ عدل کو برپا کریں“۔
[11] نھج البلاغہ خطبہ نمبر۱۔(پس خدانے ان کے درمیان اپنے رسولوں کو مبعوث کیا اور لگا تار وہ بھیجتا رھا تاکہ وہ لوگ اس عھد وپیمان کو جو خدانے ان کی فطرت کے ساتھ باندھا تھا طلب کر سکیں اور لوگوں کو فراموش شدہ نعمت کو یاد دلائیں<وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ وَمِیثَاقَہُ الَّذِی وَاثَقَکُمْ بِہِ>( سورہ مائدہ ، آیت ۷)”اور تبلیغ وحیٴ الٰھی کے ذریعہ ان پر حجة کو تمام کردیں اور عقل کے چھپے خزانوں کو آشکار کردیں اور قدرت کی نشانیوں کو ان کے سامنے پیش کریں“۔
[12] سورہ فصلت ، آیت ۴۲۔”جھوٹ و باطل نہ اس کے آگے پھٹک سکتا ھے اور نہ اس کے پیچھے سے“۔
[13] سورہ نحل، آیت ۹۷ ۔”مرد هو یا عورت جو شخص نیک کام کرے گا اور وہ ایمان دار بھی هوتو ھم اس (دنیا میں بھی)پاک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور(آخرت میں بھی)جو کچھ وہ کرتے تھے اس کا اچھے سے اچھا اجر وثواب عطا فرمائیں گے“۔
[14] اصول کافی ج۱ ص۱۶۸۔
[15] سورہ زخرف، آیت ۶۳۔”توا نھوں نے کھا کہ میں تمھارے پاس حکمت لے کر آیاہوں“۔
[16] سورہ نحل، آیت ۲۵ا۔”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں“۔
[17] سورہ نور، آیت ۳۵۔”قریب ھے کہ اس کا روغن روشنی دینے لگے، چاھے اسے آگ مس بھی نہ کرے“۔
[18] سورہ جمعہ، آیت ۱،۲۔”زمین وآسمان کا ھر ذرہ اس خدا کی تسبیح کررھا ھے جو بادشاہ ،پاکیزہ صفات،صاحب عزت اور صاحب حکمت ھے۔اس خدا نے ایک رسول بھیجا ھے جو انھیںمیں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگر چہ یہ لوگ بڑی کھلی هوئی گمراھی میں مبتلاتھے۔“
[19] بحار الانوار ج۶ ص۵۹۔”امام نے اس حدیث میں پیغمبران خدا کی معرفت اور ان کی رسالت کا اقرار اور ان کی اطاعت کے واجب هونے کے سلسلے میں فرمایا:کیونکہ مخلوق خلقت کے اعتبار سے اپنی مصلحتوں تک نھیں پہونچ سکتے تھے، دوسرے طرف خالق عالی ومتعالی ھے مخلوق اپنے ضعف و نقص کے ساتھ خدا کا ادراک نھیں کرسکتے لہٰذا کوئی اور چارہ نھیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان ایک معصوم رسول وسیلہ بنے جو خدا کے امر و نھی کو اس کمزور مخلوق تک پہونچا سکے ۔
اور ان کے مصالح و مفاسد سے آگاہ کرے کیونکہ ان کی خلقت میں اپنی حاجتوں کے مطابق مصلحتوں اور نقصان دینے والی چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت نھیں ھے“۔