اس سلسلے میں ایک اہم اختلاف رویت باری تعالی کے متعلق ہے :- اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ جنّت میں سب مومنین کو رویت باری تعالی نصیب ہوگی ۔ان کی حدیث کی مستند کتابوں ،مثلا بخاری اور مسلم وغیرہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں اس پر زوردیا گیا ہے کہ یہ رویت مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہوگی (1)۔
بلکہ ان میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے گویا خدا انسانوں کے مشابہ ہے ، وہ ہنستاہے (2)،آتا جاتا ہے ،چلتا ہے پھرتاہے اور ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر اترتا ہے (3)۔حتی کہ اپنی پنڈلی کھولتا ہے جس پر شناختی علامت بنی ہوئی ہے (4)۔ اور یہ کہ جب وہ اپنا ایک پاؤں دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ بھر جائے گی ۔ غرض ایسی باتیں اور ایسے اوصاف حق تعالی سے منسبوب کیے گئے ہیں جن سے وہ پاک اور منزہ ہے (5)۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار کینیا (مشرقی افریقہ)کے شہر لامو سےمیر اگزر ہوا ۔ وہاں مسجد میں ایک وہابی امام صاحب نمازیوں کوخطاب کررہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے دو ہاتھو ہیں ۔ دوپاؤں ہیں ، دوآنکھیں اور چہرہ ہے ۔ جب میں نے اس پر اعتراض کیاتو انھوں نے اپنی تائید میں قرآن کی کچھ آیات پڑھیں ، فرمایا :-" وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ......"
یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ تو بندھا ہوا ہے ۔ بندھیں ان کے ہاتھ ! اورلعنت ہو ان پر یہ بات کہنے کی وجہ سے ۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہیں "۔
اس کے بعد دوآیتیں اور پڑھیں :" وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا "ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ، اور " کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " جو مخلوق بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے اور تمھارے پروردگار کا چہرہ جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گا ۔
میں نے کہا :- بھائی صاحب !جو آیات آپ نے پڑھی ہیں مجاز ہیں حقیقت نہیں ۔ کہنے لگے سارا قرآن حقیقت ہے اس میں مجاز کچھ نہیں ۔ اس پر میں نے کہا : پھر اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں :" وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى " کیا آپ آیت کو اس کے حقیقی معنی میں لیں گے ؟ کیا واقعی دنیا میں جو بھی اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا ؟
امام صاحب نے جواب دیا : ہم اللہ کے ہاتھ ، اللہ کی آنکھ اور اللہ کےچہرے کی بات کررہے ہیں ، اندھوں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ۔(فکری جمود کی انتہا ملاحظہ ہو۔)
میں نے کہا :- اچھا اندھوں کو چھوڑیۓ ! آپ نے جو آیت پڑھی ہے : " کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " اس کی تشریح آپ کیسے کریں گے ؟
امام صاحب نے حاضر ین کو مخاطب کرکے کہا :کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس آیت کا مطلب نہ سمجھتا ہو؟اس کا مطلب صاف ظاہر ہے ۔یہ بالکل ویسی ہی آیت ہے جیسی "كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه".
میں نے کہا:- آپ نے اور بھی گڑبڑکردی ۔بھائی صاحب میرا آپ کا اختلاف قرآن کے بارے میں ہے ۔آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میں مجاز نہیں سب حقیقت ہے ، میں کہتا ہوں مجاز بھی ہے خصوصا ان آیات میں جس میں تجسیم یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے ۔ اگر آپ کو اپنی رائے پر اصرارہے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ "كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه"
کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ ،پاؤں اور اس کا پورا جسم فنا ہوجائے گا اور صرف چہرہ باقی بچے گا ۔ (نعوذ باللہ)پھر میں نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا : کیا آپ کو یہ تفسیر منظور ہے ؟
پورے مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور امام صاحب کو بھی ایسی چپ لگ گئی جیسے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہوں ۔ میں انھیں رخصت کرکے یہ دعا کرتا ہوا چلاآیا کہ اللہ انھیں نیک ہدایت کی توفیق دے ۔
جی ہاں ! یہ ہے ان کا عقیدہ جو ان کی معتبر کتابوں میں اور جو ان کے مواعظ وخطبات میں بیان کیا جاتا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ علمائے اہل سنت اس کے انکاری نہیں ہیں لیکن اکثریت کو یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار ہوگا اور وہ اس کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں کا چاند دیکھتے ہیں ۔ ان کا استدلال اس آیت سے ہے :
" وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة "(6)
کچھ چہرے اس دن ہشاش بشاش اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔
جیسے ہی آپ کو اس بارے میں شیعوں کا عقیدہ معلوم ہوگا آپ کے دل کو اطمینان ہوجائے گا اور آپ کی عقل اسے تسلیم کرلے گی ۔ کیونکہ شیعہ ان قرآنی آیات کی جن میں تجسیم یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے تاویل کرتے ہیں اور انھیں مجاز پر محمول کرتے ہیں ، حقیقت پر نہیں ۔ اور وہ مطلب نہیں لیتے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ، یا جیسا بعض دوسرے لوگ سجمھتے ہیں ۔
اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام کہتے ہیں :
"ہمت کتنی ہی بلند پروازی سے کام لے اورعقل کتنی ہی گہرائی میں غوطے لگائے ، اللہ کی ذات کا ادراک ناممکن ہے ۔ اس کی صفات کی کوئی حد نہیں اور نہ اس کی تعریف ممکن ہے نہ اس کا وقت متعین ہے اورنہ زمانہ مقررہے "(7)
امام محمد باقر علیہ السلام تجسیم الہی کی تردید کرتے ہوئے کتنی فلسفیانہ ،علمی ،نازک اور جچی تلی بات کہتے ہیں : "ہم چاہے جس چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس کے بارے میں جتنا بھی سوچیں ہمارے ذہن میں جو بھی تصویر ابھرے گی وہ ہماری طرح کی مخلوق ہوگی "(8)
جو عقل میں گھر گیا لاانتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیوں کر ہوا
(اکبر آلہ آبادی)
تجسیم اور تشبیہ کی رد میں ہمارے لیے تو اللہ پاک کا اپنی کتاب محکم میں یہ قول کافی ہے:
"ليس كمثله شيءٌ" اور "لاتدرکه الأبصار"
اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔ اور ۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔
جب حضرت موسی نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا :"ربّ أرني أنظر إليك "تو جواب ملا "لن ترانی"تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکو گے ۔ اوربقول زمخشری
لن کے مفہوم میں تابید شامل ہے ۔یعنی ابد تک کبھی بھی نہیں دیکھ سکو گے ۔
یہ سب شیعہ اقوال کی صحت کی دلیل قاطع ہے ۔بات یہ ہے کہ شیعہ ان ائمہ اہل بیت کے اقوال نقل کرتے ہیں جو سرچشمہ علم تھے ۔ اور جنھیں کتاب اللہ کا علم میراث میں ملا تھا ۔
جو شخص اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہے وہ اس موضوع پر مفصل کتابوں کی طرف رجو ع کرے ۔ مثلا المراجعات کے مولف سید شرف الدین عاملی کی کتاب "کلمۃ حول الرویہ "
--------------------
(1):-صحیح بخاری جلد 2صفحہ 47 ۔جلد 5 صفحہ 178 اور جلد 6صفحہ 33
(2):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 225۔جلد 5صفحہ 47۔48 ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 114۔122
(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 197
(4):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 182
(5):- صحیح بخاری جلد 8صفحہ 187 ،صفحہ 202 سےثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی کے ہاتھ اور انگلیاں ہیں ۔
نوٹ:- واضح ہو کہ یہ تو خدا کو حادث ماننا ہوا جبکہ وہ قدیم ہے ۔(ناشر)
(6):- سورہ قیامہ ۔آیت 22۔ ائمہ اہل بیت ع نے " اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوںگے " کی تفسیر یہ کی ہےکہ اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار ہوںگے ۔
(7):-نہج البلاغہ ۔پہلا خطبہ ۔
(8):- عقائد الامامیہ ۔شیخ مظفر ۔یہ کتاب جامعہ تعلیمات اسلامی نے مکتب تشیع کے نام سے شایع کی ہے