خطرناك صورتحالاسلامى تحريك ايك حساس موڑ پر تھى ايك طرف اسلحہ سے ليس دشمن كا دس ہزار افراد پر مشتمل لشكر شہر كے سامنے خيمہ زن تھا اور ہر لحظہ اس بات كا امكان تھا كہ خندق كو پار كر كے شہر ميں كشت وخون كا بازار گرم نہ كردے_ اور دوسرى طرف قبيلہ بَني قُريَظہ كے خائن يہودى پيمان شكنى كر كے مسلمانوں كى پيٹھ ميں خنجر گھونپنے كے لئے آمادہ تھے نہتے مسلمانوں بچّوں اور عورتوں پر يہوديوں كے حملے كا خطرہ ، كفار كے لشكر كا خندق عبور كرنے كے خطرہ سے زيادہ خطرناك تھا _ اس ہنگامے ميں منافقين، شيطانى قہقہوں ، طعنوں اور اشارے و كنائے سے مسلمانوں كے زخموں پر نمك پاشي، لوگوں كو دشمن كے سامنے ہتھيار ڈال دينے كى تشويق ،اپنے گھروں كے دفاع كا سامان نہ ہونے كا بہانہ بنا كر فرار كا قصد اور اپنى دفاع جگہوں كو چھوڑ دينے كا ارادہ كر رہے تھے _ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ : '' جب ايك گروہ ( منافقين اور سياہ قلب افراد) نے كہا كہ اے يثرب كے لوگو اب سرزمين يثرب تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے_ لذا پلٹ جاؤاور ان ميں سے ايك گروہ رسول خدا (ص) سے اجازت مانگ رہا ہے اور كہتا ہے كہ ہمارے گھر كھلے ہوئے ہيں ، دفاع كا كوئي انتظام نہيں ہے _ ايسى صورت ميں ان كا ارادہ و مقصد فرار كے سوااور كچھ نہيں '' (18) ليكن خدااور اس كے رسول(ص) پر ايمان ركھنے والے جاں باز نہ صرف ايسے طوفانوں سے لرزاں نہيں ہوئے بلكہ اور زيادہ مستحكم ہوگئے _ قرآن ان كے بارے ميں كہتا ہے : '' جب مسلمانوں نے احزاب كے لشكر كو ديكھا تو كہا كہ يہ وہى ہے جس كا وعدہ اللہ اور اس كے رسول(ص) نے كيا ہے اور اس واقعہ نے ان كے ايمان و تسليم كو بڑھانے كے علاوہ اور |
كچھ نہيں كيا'' (19) اس حساس موقع پر رسول خدا (ص) مسلسل اپنى شعلہ بار تقريروں سے اسلام كے جاں بازوں كے حوصلے بڑھاتے رہے ،ان كے فرائض ياد لاتے رہے اور فرماتے '' اگر تم صبر سے كام لوگے اور خدا پر بھروسہ كروگے تو كامياب رہوگے_ '' اور ان لوگوں كو خدا اور اس كے پيغمبر(ص) كى فرماں بردارى كى طرف توجّہ دلاتے رہے _ ايسى حالت ميں جاں بازان اسلام اپنے محاذ كى نگہبانى اور تحفظ كے ساتھ ساتھ خندق كے اس طرف بَني قُريَظہ كے شب خون مارنے كے خطرے كو ناكام بنانے كے لئے 500 جاں باروں كا ايك گشتى دستہ ليكر پورى تيارى كے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں كو اپنے نعرہ تكبير كى بلند آوازوںسے دشمن كے دلوں ميں خوف و ہراس ڈالتے رہے_ اس طرح غفلت كے عالم ميں دشمن كو حملے كرنے كا موقع نہيں مل سكا اور مدينہ پر حملے كا خطرہ ٹل گيا _ ايمان و كفر كا آمنا سامناخندق كے دوسرى طرف لشكر احزاب بہت دونوں تك يوں ہى پڑا رہا ليكن نہ پيادوں ميں سے كوئي خندق عبور كرسكا اور نہ سواروں ميں سے _آخر كار لشكر شرك ميں سے پانچ آدميوں عَمروبَن عَبدوَدّ، عكرمةَ بن اَبى جَہل ، ہُبَيرة بَن اَبى وَہب، نَوفل بَن عَبداللہ ، ضرار بن خَطّاب جنگى لباس پہننے كے بعد غرور و تكبّر كے ساتھ اتحادّيوں كى لشكر گاہ سے باہر آكر ان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ ''آج پتہ چل جائے گا كہ حقيقى بہادر كون ہے؟'' اس كے بعد انہوں نے ايڑلگا كر گھوڑوں كو اس حصّہ كى طرف سے اُڑايا جو خندق كا كم چوڑا حصّہ تھا _ جانبازوں كا دفاع ان كو نہ روك سكا عَمروبَن عَبدوَدّ نے بلند آواز سے |
مبارز طلبى كى اور مذاق اُڑانے والے لہجہ ميں بولا '' اے بہشت كے دعويدارو كہاں ہو؟ كيا كوئي ہے كہ جسے ميں بہشت روانہ كروں يا وہ مجھے جہنّم بھيج دے ؟'' وہ اپنى بات كا تكرار كرتا رہا يہاں تك كہ اس نے كہا '' ميں نے اتنى آوازيں دى كہ ميں تھك گيا اور ميرى آواز بيٹھ گئي ہے'' اس موقع پر پيغمبراكرم (ص) نے مسلمانوں كى طرف رخ كيا اور فرمايا كيا كوئي ہے جو اس كے شركو ہمارے سروں سے دور كرے؟'' حضرت على (ع) نے آمادگى كا اعلان كيا_ رسول خدا(ص) نے ان كو اجازت نہيں دى اور اپنى بات پھر دہرائي ،مجاہدين اسلام كے درميان سكوت كى حكمرانى تھى كسى ميں بھى قريش كے بڑے پہلوان سے مقابلہ كى جرا ت نہ تھى _ تيسرى بار آنحضرت(ص) نے پھر فرمايا اور اس موقع پر بھى حضرت على (ع) ہى تھے جنھوں نے آمادگى كا اعلان كيا _ نتيجہ ميں پيغمبر اكرم (ص) نے حضرت على (ع) كو اجازت ديدى اور اپنا عمامہ ان كے سرپر ركھا، اپنى تلواران كو عطا كي_ جب علي(ع) قريش كے اس بہادر سے لڑنے كے لئے چلے تو رسول خدا (ص) نے فرمايا'' اب كل ايمان كل شرك كے مقابل ہے'' (20) اس زمانہ كے آئين رزم كے مطابق اسلام و شرك كے دونوں بہادروں نے رجز خوانى كى اور اس كے بعد تلوار نيام سے باہر نكال كر حملہ آور ہوگئے_ جنگ كے وقت ميدان ميں اتنى گرد اُڑ رہى تھى كہ دونوں ميں سے كوئي دكھائي نہيں ديتا تھا يہاں تك كہ على (ع) كے نعرہ تكبير كى آواز گونجي، پيغمبراسلام(ص) نے فرمايا'' خدا كى قسم علي(ع) نے اس كو قتل كرديا _'' يہ واقعہ اس قدر برق آسا اور حيرت انگيز تھا كہ عمرو كے ساتھى اس كے قتل كوديكھنے كے بعد فوراً فرار كر گئے _ نوفل بن عبداللہ خندق پار كرنے كے لئے كو دتے وقت اس ميں |
گرگيااور جان بازان اسلام نے اس پر سنگ بارى كردي، وہ چلّانے لگا كہ عرب كا قتل جواں مردى كے ساتھ ہوتا ہے_ على عليہ السلام نہايت سرعت سے خندق ميں كود پڑے اور اس كو بھى قتل كر ڈالا_(21) خندق كے دن حضرت على (ع) كى ضربت آئين اسلام كے استقرار كا سبب بنى اس لئے كہ اگر حضرت على (ع) ، عَمرو بن عَبدودّ كو قتل نہ كرديتے تو لشكر احزاب كى مسلمانوں كے سلسلہ ميں جرا ت بڑھ جاتى اور ان ميں سے دوسرے افراد بھى خندق كو پار كر كے حيات اسلام كا خاتمہ كرديتے_ رسول خدا (ص) نے اس ضربت كى فضيلت ميں فرمايا_ '' روز خندق علي(ع) كى ضربت تمام جن و انس كى عبادت سے افضل ہے'' (22) اس كے دوسرے دن خالدبن وليد نے شكست كے جبران كے لئے خندق كے كم چوڑے حصّہ كى طرف سے اپنے شہ سواروں كے دستہ كو خندق سے عبور كرانا چاہا ليكن مجاہدين اسلام كے مردانہ واردفاع نے، جو غروب تك جارى رہا ، دشمن كے ہر طرح كے ابتكار عمل كى قوّت كو سلب كرليا_ |
سوالات :1_ غزوہ دومة الجندل كى اہميّت كس چيز ميں ہے؟ 2_ جنگ احزاب كے اصلى محرّك كون لوگ ہيں؟ 3_ خندق كھود نے كى تجويز كس نے پيش كي؟ 4_ بنى قُرَيظَہ كے يہوديوں نے كيوں پيمان شكنى كي؟ 5_ جنگ خندق ميں ضربت على (ع) كى اہميت كس وجہ سے ہے؟ |
حوالہ جات1_ اس غزوہ كى تاريخ ميں اختلاف ہے، ابن ہشام اس كو جمادى الاولى 4ھ كے واقعات ميں ذكر كرتے ہيں ليكن واقدى اور مسعودى نے اسے محرم 5 ھ كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرة ابن ہشام ج 3 ص 213_ تاريخ طبرى ج 2 ، ص 555_ مغازى واقدى ج 1 ص 395 _ التنبہ و الاشراف مسعودى ملاحظہ ہو_ 2_ سيرة ابن ہشام ج3ص 213_ تاريخ طبرى ج 2 ص 557/555_ 3 _ مغازى واقدى ج 1 ص 402 تا 404_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 62_ 4_ التنبيہ و الاشراف ص 215_ 5_ ليكن غزوہ احزاب كى صحيح تاريخ مورخين نے بيان نہيں كى ہے اور كہا ہے كہ شوال يا ذى قعدہ 5 ہجرى ہے_ مذكورہ بالا فرض كى بنا سپاہ احزاب كے ذريعہ مدينہ كا محاصرہ 23 شوال 5 ہجرى ہوگا_ 6_ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ ايك مہينے تك مدينہ پر لشكر احزاب كا محاصرہ تھا_ اور پھر مورخين كى اكثريت نے لكھا ہے كہ دشمن كے فرار كے بعد بلافاصلہ اسلامى سپاہيوں نے اسى دن بنى قريظہ كے لشكر اور قلعہ كا محاصرہ كرليا جس كى تاريخ 23 ذى قعدہ بيان كى گئي ہے ليكن غزوہ احزاب كى دقيق تاريخ مؤرخين نے بيان نہيں كى بلكہ لكھاہے كہ 5 ھ ق ميں ماہ شوال يا ذى القعدہ ميں يہ غزوہ پيش آيا ليكن اگر بنى قريظہ كے قلعہ كى تاريخ كو دقيق فرض كريں تو پھر دشمن نے مدينہ كا محاصرہ 23 شوال 5 ھ ق كو كيا_ 7_ طبقات ابن سعد ج2 ص 66_ تاريخ طبرى ج 2 ص 565_ 8_حيات محمد(ص) ، ڈاكٹر ہيكل ص 297_ 9_ اَلم تَرَ الى الّذين اُوتوا نَصَيباً من الكتب يُؤمنون بالجبت و الطّاغوت و يقولون للّذين كَفَرُوا ہؤلاء اَہدى منَ الَّذينَ اَمنُو سبيلاً(نسائ/51)_ 10_ تاريخ طبرى ج 2 ص 566_ 11_ التنبيہ و الاشراف ميں مسعودى كى نقل كے مطابق حملہ آواروں كى تعداد چوبيس ہزار تھي_ |
12_ مغازى واقدى ج 2 ص 444_ 13_سيرة حلبيہ ج 2 ص 313_'' سلمانُ منّا اہلَ البيت''_ 14_ سيرة حلبيہ ج 2 ص 313_ تاريخ طبرى ج 2 ص 569 _ تاريخ بغداد ج 1 ص131 ، 132 تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_ 15_ و اذ يقولُ المُنافقون و الّذين فى قلوبہم مَرَضٌ ما وعدنا اللہُ و رسُولُہ الا عُزوراً (احزاب12) تاريخ طبرى ج 2 ص 570_ 16_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 50_ 18_ مغازى واقدى ج 2 ص 454/459 سے تلخيص كيساتھ_ عَضَل و قارّہ دو قبيلوں كے نام ہيں _ يہ وہ قبيلے ہيں جنہوں نے اصحاب رجيع والے واقعہ ميں بے وفائي كى ، اپنا پيمان توڑڈالا اور مسلمانوں كو شہيد كيا ان كلمات كے استعمال كا مطلب يہ تھا كہ بنى قريظہ نے بھى ان دوقبيلوں كى مانند پيمان شكنى كى ہے _ 18_ مغازى واقدى ج 2 ص 459_ 19_ وَ اذ قَالت طَائفةٌ منہُم يَا اَہلَ يَثربَ لا مُقامَ لَكم فَارجعُوا وَيَستَاذن فريقٌ مَنہُمُ البَّنيَّ يَقولُونَ انَّ بُيُو تَنَاعَورة وَ مَا ہيَ بعَورَة: ان يُريدُونَ الّا فراراً ( احزاب/13) _ 20_ وَ لمّارَا المؤمنُونَ الا حزاَبَ قَالوا ہذا مَا وَعَدَنَا اللہُ و رَسُولُہُ و صَدَقَ اللہ و رَسُولُہُ و مَازَادَ ہُم اَلّا ايماناً و تَسليماً(احزاب /22) _ 21_ برزالايمانُ كُلَّہ، الى الشرك كُلہ_ 22_ مغازى واقدى ج 2 ص 470_ ارشاد شيخ مفيد ص 53_ 23_ ضَربة عَليّ يومَ الخَندَق اَفضَلُ من عبادة الثَقَلَين_ دلائل الصدق ج 2 ص 175، مستدرك ج 3 ص 32_ |