اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

تيسرا سبق

 

53

تيسرا سبق

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

طرفين كے نقصانات

مفہوم شہادت

نفسياتى جنگ

كہاں جارہے ہيں؟

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

شہداء كى لاشيں

ان كو يہيں دفن كروانيكى دعا مستجاب ہوگئي

مدينہ كى طرف

نماز مغرب كا وقت آن پہنچا

شہيدوں كى ايك جھلك

ايك عقلمند صاحب ثروت كى شہادت

بوڑھے عارف كى شہادت

حجلہ خون

مدينہ ميں منافقين كى ريشہ دوانياں

مدينے سے 20 كيلوميٹر دور '' حمراء الاسد'' ميں جنگى مشق

ابو عزّہ شاعر كى گرفتاري

سوالات

حوالہ جات

 

55

شہيدوں كے پاكيزہ جسم كے ساتھ كيا سلوك ہوا؟

جنگ كے خاتمہ اور ميدان جنگ كے خالى ہوجانے كے بعد قريش كى اوباش عورتيں اور مشركين كے سپاہي، شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كى طرف بڑھے اور انتقام كى آگ بجھانے كے لئے انہوں نے لرزادينے والے مظالم ڈھائے اور شہيدوں كے پاكيزہ اجسام كو مثلہ كيا ، ابوسفيان كى بيوى ہند اس گروہ ميں شامل عورتوں ميں پيش پيش تھى اس نے جناب حمزہ اور تمام شہيدوں كے اعضا كاٹ كر گلوبند اور دست بند بنايا اور جب جناب حمزہ كے جسد اطہر كے پاس پہنچى اُن كے سينہ كو چاك كر كے جگر نكال كر دانت سے چبانا چاہا ليكن كوشش كے باوجود چبانہ سكى بالآخر زمين پر پھينك ديا_

اس بدترين جُرم كے ارتكاب كے بعد وہ '' ہند جگر خوار'' كے نام سے مشہور ہوگئي _

حنظلہ كے علاوہ كہ جن كا باپ(ابوعامر) سپاہ مشركين ميں تھا، تمام شہيدوں كے جسموں كو مثلہ كرديا گيا_(1)

طرفين كے نقصانات

جنگ احد ميں مسلمانوں كى طرف سے ستّر (70 )آدميوں نے جام شہادت نوش فرمايا

 

56

ان ميں چار افراد مہاجرين اور بقيہ انصارميں سے تھے اور تقريباً ستر (70 )افراد زخمى ہوئے_مشركين ميں سے بائيس (22)سے ليكر چھبيس (26) افراد تك ہلاك ہوئے جن ميں سے آدھے حضرت على (ع) كى تلوار كا نشانہ بنے_ (2)

مفہوم شہادت

منافقين مدينہ ميں سے'' قزمان'' نامى ايك شخص تھا _ جب بھى رسول خدا (ص) كے سامنے اس كا ذكر كيا جاتا تو آپ(ص) فرماتے كہ '' وہ جہنمّى ہے''_

جب جنگ احد كا آغاز ہوا تو قزمان لشكر اسلام سے روگردانى كر كے عبداللہ بن ابّى اور ديگر منافقين سے جاملا_ جب وہ مدينہ پہنچا تو عورتوں نے اس كو لعنت و ملامت كى اسے غيرت محسوس ہوئي تو وہ اسلحہ سے ليس ہو كر احد كى طرف روانہ ہوا، مردانہ وار جنگ كى اور نہايت شجاعت اور دليرى كے ساتھ چند مشركين كو قتل اور زخمى كيا _ جنگ كے آخرى لمحات ميں بہت زيادہ زخمى ہوكر ميدان جنگ ميں گر پڑا مسلمان اس كى طرف دوڑے اور كہا'' خوش ہوجاؤ كہ جنت تمہارا ٹھكانہ ہے'' اس نے كہاكہ ميں كيوں خوش ہوں؟ ميں نے صرف اپنے قبيلے كى عزت كے لئے جنگ كى ہے اگر ميرا قبيلہ نہ ہوتا تو ميں جنگ نہ كرتا زخموں كے درد كو اس سے زيادہ برداشت نہ كرسكا اور تركش سے ايك تير نكال كے خودكشى كرلى _(3)

نفسياتى جنگ

لوگوں كے افكار و عقائد ميں نفوذ كرنے كے لئے مناسب وقت كى ضرورت ہوتى ہے

 

57

جبكہ افكا7ر و عقائد كو خراب كرنے كے ليے شكست اور مصيبتوں ميں مبتلا ہونے والے زما7نے جيسا مناسب اور كوئي زمانہ نہيںہوتا، موقع كى تلاش ميں رہنے والے دشمن نے اس اصول كے تحت شكست كے آخرى لمحات كو اپنے عقائد كى نشر و اشاعت كے لئے غنيمت سمجھا اور مخالف اسلام نعروں كے ذريعہ سادہ لوح افراد كو دھوكہ دينے اور انہيں متاثر كرنے كى كوشش كى _كيونكہ يہ ايسا موقع تھا جب غلط پروپيگنڈہ نہايت آسانى كے ساتھ شكست خوردہ قوم كے دلوں پراثر كر سكتا تھا_

ابوسفيان اور عكرمہ بن ابى جہل نے ''اُعلُ ھُبل '' (ھبل سرفرازرہے )كا نعرہ بلند كيا_ يعنى ہمارے بتوں نے ہميں كامياب كيا_

رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ تم كہو ''اَللہ اَعلى وَ اَجَلّ'' خدا برتر اور بزرگ ہے_ مشكرين كا نعرہ تبديل ہوا اور ابوسفيان چلايا: ''نَحنُ لَنَا العُزّى وَ لا عزّى لَكُم'' ہمارے پاس عُزّى نامى بُت ہے ليكن تمہارے پاس نہيں ہے_ رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ تم بھى بلند آواز سے كہو'' اللہ مَولانَا وَ لا مَولى لَكُم'' اللہ ہمارا مولا ہے اور تمہارا كوئي مولا نہيں ہے_

مشركين كا نعرہ دوبارہ بدل گيا ابوسفيان نے نعرہ بلند كيا كہ '' يہ دن روز بدر كا بدل ہے''_ مسلمانوں نے پيغمبراكرم(ص) كے حكم سے كہا كہ '' يہ دونوں دن آپس ميں برابر نہيں ہيں'' ہمارے مقتولين بہشت ميں اور تمہارے مقتولين جہنم ميں ہيں_ ابوسفيان نے كہا كہ '' ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر ميں وعدہ رہا''_(4)

كہاں جا رہے ہيں؟

جنگ كى آگ بُجھ گئي ، دونوں لشكر ايك دوسرے سے جُدا ہوگئے، مشركين كے لشكر نے

 

58

كوچ كا ارادہ كيا پيغمبراكرم(ص) سوچنے لگے ، ديكھيں يہ لوگ كہاں جاتے ہيں؟ كيا يہ لوگ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مدينہ پر حملہ كرنا چاہتے ہيں يا مكّہ كا راستہ اختيار كرتے ہيں؟ حالات سے آگاہى كے لئے رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا '' اے على (ع) تم جاكر دشمن كى خبر لاؤ اگر تم نے ديكھا كہ يہ لوگ گھوڑوں پر سوار اونٹوں كو كھينچتے ہوئے لے جاتے ہيں تو سمجھنا كہ مدينہ پر حملہ كا ارادہ ہے_ اس صورت ميں خدا كى قسم ہم ان سے لڑيں گے_ اور اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوكر گھوڑوں كو كھينچتے ہوئے لے چلے تو سمجھنا كہ مكّہ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں''(5)_

حضرت على (ع) دور سے دشمن پر نظر ركھے ہوئے ديكھ رہے تھے كہ وہ انٹوں پر سوار ہوكر اپنے ديار پلٹ جانے كا ارادہ ركھتے ہيں_

احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب كا جائزہ

جنگ كے پہلے مرحلے ميں سپاہ اسلام كى فتح اور بعد كے مرحلہ ميں ان كى شكست كى وجہ احد كے واقعات ديكھنے كے بعد بڑى آسانى سے واضح ہوجاتى ہے_ليكن وحى كى زبان سے مسلمانوں كى شكست كے اسباب مختصراً بيان كيئے جاتے ہيں_

1_ جنگى نظم و ضبط كى كمى ، سردار كى نافرمانى اور جنگى اعتبار سے اہم جگہ كو چھوڑ دينا مسلمانوں كى شكست كى اہم وجوہات ہيں_ قرآن كہتا ہے كہ '' خدا نے ( احد ميں دشمنوں پر) فتحيابى كا تم سے سچّاوعدہ كيا _ اس موقع پر تم اس كے فرمان كے مطابق جنگ كر رہے تھے (اور يہ كاميابى جارى تھي)_ يہاں تك كہ تم سست ہوگئے اور اپنے كام ميں نزاع كرنے لگے _ جس چيز كو تم دوست ركھتے تھے ( دشمن پر غلبہ كو ) تمہيں دكھا ديا گيا پھر اس كے بعد تم نے نافرمانى كى _(6)

 

59

2_ ايمان كى كمزورى اور دنيا پرستي، نئے نئے مسلمان ہونے والوں ميں ايك گروہ نے دشمن كا پيچھا كرنے كى بجائے مال غنيمت جمع كرنے كو ترجيح دى اور اسلحہ ركھ كرمال غنيمت جمع كرنے لگا_ قرآن مندرجہ بالا آيات كے آخر ميں كہتا ہے كہ ''تم ميں سے بعض دُنيا طلب تھے اور بعض آخرت كے خواہاں، اس كے بعد اللہ نے تم كو ان سے منصرف كرديا( اور تمہارى كاميابى شكست پر تمام ہوئي) تا كہ تم كو آزمائے_(7)

دوران جنگ ايك بڑى تعداد كا اپنى جان بچانے كيلئے ميدان فرار اور پيغمبر اكرم(ص) كو تنہا دشمن كے نرغے ميں دشمن كے حوالے كرنا،ا ن افراد كے دنيا پرست اور ضعيف ايمان كا بہت بڑانمونہ ہے_

پيغمبر كے قتل كى افواہ ، اور وہ اس طرح كہ بعض مسلمان تو اسلام كى بنياد ہى سے نااميد ہوگئے تھے قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ '' محمد نہيں ہيں مگر فرستادہ خدا كہ اُن سے پہلے بہت سے پيامبر ہوچكے اور اس دنيا سے جاچكے ہيں_ اگر وہ بھى مرجائيں يا شہادت پاجائيں تو كيا تم اپنے جاہليت كے دين پر پلٹ جاؤگے؟(8)

شہداء كى لاشيں

مشركين كے لشكر كے ميدان جنگ سے نكل جانے كے بعد رسول خدا (ص) لشكر اسلام كے مجاہدين كے ساتھ شہيدوں كى ميّت پر حاضر ہوئے تا كہ ان كو سُپرد خاك كريں_ جب آنحضرت(ص) نے شہيدوں كے مُثلہ شدہ اجسام ، خصوصاً سيّد الشہداء حضرت حمزہ كے پارہ پارہ بدن كو ديكھا تو دل غم سے پاش پاش ہوگيا اور مشركين كى طرف سے آپ كے دل ميں مزيد غصّہ اور نفرت كا طوفان اُٹھ كھڑا ہوا_وہاں مسلمانوں نے يہ عہد كيا كہ اگر دوسرى لڑائي ميں وہ مشركين پر فتح پائيں گے تو ايك آدمى كى تلافى ميں كافروں كے تيس اجسام كو

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وحدت و اتحاد کے بارے میں امام علی﴿ع﴾ کا نظریہ ...
اسلام اور مغربی زندگی میں فرق
الکافی
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
لالچي بوڑھا اور ہارون الرّشيد
بعثت پیغمبراسلام(ص)
اندازِ خطبہ فدک
کربلا کے متعلق تحقيقي مواد اور مدارس کي ذمہ داري
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
مجلس شوری کا تجزیہ

 
user comment