۲۔بچے کااچھے نام کاحق
بعض نام نہایت خوبصورت اوراعلی معانی اورحسین احساسات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اورصاحب نام کی طرف ایسے جذب کرتے ہیں جیسے پھولوں کی تیز خوشبو شہدکی مکھی کوجذب کرتی ہے لیکن بعض نام اس قدر قبیح اوربے معنی ہوتے ہیں کہ ان کوسن کردل تنگ ہوتاہے اورکان اکتاجاتے ہے اورنام کابہت بڑا نفسیاتی اوراجتماعی اثرہوتاہے کتنے ایسے بچے ہیں کہ جن کے بدنماناموں نے ان کی راتوں کی نیند حرام اوران کے آرام وسکون کوخراب کردیاہے اوریہ نام جواس بچے کامقدربن چکاہے اس کے لئے معاشرے میں طنزومزاح اوراہانت کاموجب ہے جس کی وجہ سے اس پرہمیشہ مایوسی اوربدنصیبی سایہ فگن رہتی ہے اگرچہ بعض مضبوط لوگ نام کے اس سیاہ پردے کواپنی زندگی کی خوشیوں پرغالب آنے کی اجازت نہیں دیتے اوراسے تبدیل کرکے ایسے جڑسے اکھاڑ پھینکتے ہیں جیسے ماہرسرجن کینسر کے پھوڑے کونکال پھینکتاہے۔ اور اسلام کہ جس نے عظیم ثقافتی اورفکری انقلاب کابیڑا اٹھاررکھاہے نام کے معاملے میں بھی خاموش نہیں ہے۔
چنانچہ پیغمبر عقیدہ توحید کے منافی اوربرے ناموں کوتبدیل کردیاکرتے تھے اوربیٹے کا باپ پرحق سمجھتے تھے کہ وہ اس کے لئے اچھے نام کاانتخاب کرے فرماتے ہیں :
ان اول ماینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ
”باپ کابیٹے کے لئے پہلاتحفہ اچھانام رکھناہے لہذا بچے کے لئے اچھے نام کا انتخاب کرناچاہئے“ [78]۔
اورایک دوسری حدیث میں نام کے اخروی پہلوؤں کوبیان کرتے ہوئے فرمایاہے :
استحسنوا اسمائکم فانکم تدعون بھا یوم القیامة : قم یافلان بن فلان الی نورک، وقم یافلان بن فلان لانورلک۔
”اچھے ناموں کاانتخاب کرو کیونکہ روزقیامت انہیں کے ذریعے پکارے جاؤگے اورکہا جائے گا اٹھ اے فلان بن فلان تیرے ہمراہ نورہے اوراٹھ اے فلان بن فلان تونورسے خالی ہے“ [79]۔
۲۔ قابل ذکرہے کہ انبیا ورسل اورآئمہ کے نام بہترین نام ہیں۔ پیغمبر فرماتے ہیں : سموااولاکم اسماء الانبیاء [80]۔
”بچوں کے لئے انبیا کے ناموں کاانتخاب کرو“۔
امام باقر فرماتے ہیں :
اصدق الاسماء ماسمی بالعبودیة، وخیرھا اسماء الانبیاء صلوات اللہ علیھم [81]۔
”سب سے اچھانام وہ ہے جس میں عبودیت کااظہار ہو اوربہترین نام انبیا کے اسماء گرامی ہیں“۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیغمبر اشخاص اورشہروں کے قبیح ناموں کوتبدیل کرنے پرجس قدرحریص تھے اتنے ہی اہل بیت اوراصحاب کوخوبصورت نام عطا کرنے میں سخی تھے۔
سیرت کی کتابوں میں ملتاہے کہ جب آپ کوامام حسن کی ولادت کی خوشخبری دی گئی اور آپ کی پیاری اوراکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا سیدة نساء العالمین کی گود میں آپ کے نواسے کاپھول کھلا توآپ فورا حضرت زہرا کے گھرتشریف لائے مولود مبارک کوہاتھوں پے لیا، دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اورحضرت علی سے فرمایا :
ای شی سمیت ابنی؟ قال : ماکنت لاسبقک بذلک، فقال ولاانا سابق ربی بہ، فھبط جبرئیل : فقال : یامحمد، ان ربک یقرئک السلام، ویقول لک : علی منک بمنزلة ھارون من موسی ولکن لانبی بعدک، فسم ابنک ھذاباسم ولدھارون، فقال : وماکان اسم ابن ھارون یاجبرئیل ؟ قال : شبر، فقال ان لسانی عربی فقال : سمہ الحسن، فسماہ حسنا وکناہ ابامحمد ۔
”آپ نے میرے بیٹے کانام کیارکھاہے ؟ عرض کیامیری کیامجال آپ سے پہلے نام رکھوں توآپ نے فرمایا میں بھی اپنے پروردگار پرسبقت نہیں کرسکتا، پس جبرئیل نازل ہوئے اورکہا اے محمد تمہارپروردگار تمہیں سلام کہتاہے اورفرماتاہے کہ علی کوتم سے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے ہے مگریہ کہ تیرے بعد کوئی نبی نہیں ہے لذا اپنے بیٹے کاوہی نام رکھو جوہارون کے بیٹے کانام تھا پیغمبر نے پوچھا جبرئیل ہارون کے بیٹے کاکیانام تھا توجواب دیاشبر، پیغمبر نے فرمایا میری زبان توعربی ہے توجبرئیل نے کہاپس اس کانام حسن رکھئے چنانچہ آپ نے نام حسن اورکنیت ابومحمد رکھی [82]۔
اورجب امام حسین پیدا ہوئے توآپ کوپیغمبر کے پاس لایاگیا آپ بہت خوش ہوئے اوردائیں کان میں آذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اورجب ساتواں دن ہوا توآپ کانام حسین رکھااورحضرت فاطمہ کوبچے کاسرمنڈانے اوراس کے بالوں کے برابرچاندی صدقے میں دینے کاحکم دیا جس طرح ان کے بھائی امام حسن کی ولادت کے موقعے پرکیاجاچکاتھا اورحضرت فاطمة نے آپ کے حکم کی اطاعت کی [83]۔
پیغمبر کی ان تعلیمات میں بچے کے نام کوجواس قدر اہمیت دی گئی ہے یہ بغیر وجہ کے یاکسی عیاشی کا شاخصانہ نہیں ہے بلکہ اس کا سرچشمہ برے نام کے نتائج سے آگاہ ترقی یافتہ فکرہے اورآج کے جدید علوم بھی انہیں تعلیمات نبویہ کی تائیدکرتے ہیں آج علماء نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کا اپنے نام اورلقب کے ساتھ بہت گہراتعلق ہوتاہے اگرکسی کانام خراب اوربھدا ہے تواس کے کان کے ساتھ مسلسل ٹکراتے رہنا اوراس کے ذہن میں مسلسل پڑتے رہنااس کے باطن پربھی اثرکرتاہے اوراس کااخلاق ورفتاربھی اسی طرح خراب ہوجاتے ہیں
۔ اوربلاشک اسی وجہ سے پیغمبر بعض لوگوں کے نام تبدیل کر دیا کرتے تھے چنانچہ آپ نے حرب (جنگ) کا نام سمح (سخی) رکھا [84]۔
اورآئمہ نے بھی اس حق کی پاسداری پر زور دیا ہے امام موسی کاظم فرماتے ہیں:
اول مایبرالرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[85]
”سب سے پہلا احسان جو کوئی شخص اپنے بچے پر کر سکتا ہے وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کے لئے اچھے ناموں کا انتخاب کرو“۔
اورامام صادق نے آئمہ کے ناموں کے بعض فوائد ذکرکئے ہیں جب کسی نے آپ سے عرض کیا آپ پرفدا ہو جاؤں اگر ہم اپنے بچوں کے لئے آپ کے اور آپ کے باپ دادا کے ناموں کا انتخاب کریں تو ہمیں کوئی فائدہ ہوگا توآپ نے فرمایا:
ای واللہ وھل الدین الاالحب؟ قال اللہ (ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم۔
”ہاں قسم بخدا دین صرف محبت کا نام ہے اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخشدے گا“ [86]۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نام ”ولادت نامہ“ birth certificateپر لکھاہوا محض ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ بچے کا ایک پیدائشی حق ہے جو اس کی شخصیت کو سنوارتا ہے اور اس کی پریشان روح اس کے دلکش معنی کی وجہ سے ایسے کھلکھلا اٹھتی ہے جیسے بہار کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر انسان کا دل شاد ہو جاتا ہے اور روح معطر ہوجاتی ہے۔
۳:تعلیم وتربیتکاحق :
بلاشک بچے کی عمر کے پہلے سال اس کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں اور اسی مرحلہ میں ماہرین تعلیم و تربیت بچے کا خاص خیال رکھنے اور اسے آداب حسنہ سکھانے پر زور دیتے ہیں سید الموحدین امام علی فرماتے ہیں :
خیر ما ورث الآباء الابناء الادب۔ ”والدین بہترین وراثت جو اولاد کو دے سکتے ہیں وہ ادب ہے“ اور نیز فرماتے ہیں ان الناس الی صالح الادب احوج منھم الی الفضة والذھب۔ والدین بہترین وراثت جو اولاد کو دے سکتے ہیں وہ ادب ہے نیز فرماتے ہیں لوگوں کو سونے یا چاندی کے بجائے اچھے آداب کی زیادہ ضرورت ہے“۔
اور آپ کے لخت جگر امام صادق تربیت کے مال سے افضل ہونے کی علت یوں بیان فرماتے ہیں : ان خیر ما ورث الآباء لابنائھم الادب لاالمال فان المال یذھب والادب یبقی“۔
”بہترین چیز جو والدین اپنی اولاد کو وراثت میں دے سکتے ہیں تربیت ہے نہ مال کیونکہ مال ختم ہو جاتا ہے اورتربیت باقی رہتی ہے“ [87]۔
بچوں کی تربیت کا موضوع اہل بیت کی احادیث کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اور آپ بچوں کے دلوں کے سخت اور ہڈیوں کے پختہ ہونے سے پہلے ان کی تربیت پر زور دیتے ہیں کیونکہ بچہ کورے کاغذ کی طرح اپنے پر نقش ہونے والے تمام خطوط اور تحریرات کو قبول کرتا ہے۔
حضرت علی اپنے فرزند امام حسن سے فرماتے ہیں :
انما قلب الحدث کالارض الخالیة، ماالقی فیھا من شیء قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک، ویشتغل لبک۔
”نو عمرکا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ اس میں جو ڈالا جائے اسے قبول کرتا ہے اس لئے میں نے تجھے ادب سکھانے میں جلدی کی ہے قبل اس کے کہ تیرا ذہن سخت ہو جائے اور تیرا ذہن دوسرے امور میں مشغول ہوجائے [88]۔
یہ آئمہ کی فکر ہے اورآپ معصوم ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے چنانچہ حضرت علی کی تربیت پیغمبر نے کی اورآپ اس طرح پیغمبر کے ساتھ ساتھ رہتے تھے جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے ہوتا ہے۔
اورآ پنے اپنی اولاد کے لئے یہی اعلی میراث چھوڑی کیونکہ دونوں چراغ وحی سے منور ہوئے تھے۔
امام صادق فرماتے ہیں :
ادبنی ابی بثلاث …قال لی یابنی من یصحب صاحب السوء لایسلم،ومن لایقید الفاظہ یندم، ومن یدخل مداخل السوء یتھم۔
”مجھے میرے والد گرامی نے تین چیزوں کا ادب سکھایا اور فرمایا میرے پیارے بیٹے برے کا ساتھی برائی سے بچ نہیں سکتا، زبان کو کھلا چھوڑنے والا پشیمان ہوتا ہے اور برائی کے مقامات پرجانے والا متھم ہوتا ہے“ [89]۔