۱۳۔ خداوندعالم کی طرف سے ہدایت و گمراہی کے کیا معنی ہیں؟
لغت میں ہدایت کے معنی دلالت اور رہنمائی کے ہیں(1) اور اس کی دو قسمیں ہیں
۱)”ارائة الطریق“ (راستہ دکھانا) ۲) ”إیصالٌ إلیٰ المطلوبِ“ (منزل مقصود تک پہنچانا) دوسرے الفاظ میں یوں کہئے: ”تشریعی اور تکو ینی ہدایت“۔(۲)
وضاحت: کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کو اپنی تمام دقت اور لطف و کرم کے ساتھ راستہ کا پتہ بتاتا ہے، لیکن راستہ طے کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنا خود اس انسان کا کام ہوتا ، اور کبھی انسان راستہ معلوم کرنے والے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور راستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے، دوسرے الفاظ میںیوں کہیں کہ انسان پہلے مرحلہ میں صرف قوانین بیان کرتا ہے،اور منزل مقصودتک پہنچنے کے شرائط بیان کردیتا ہے، لیکن دوسرے مرحلہ میں ان چیزوں کے علاوہ سامان سفر بھی فراہم کرتا ہے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی برطرف کردیتا ہے، نیز اس کے مشکلات کو دور کرتاہے اور اس راہ پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو منزل مقصود تک پہنچنے میں حفاظت بھی کرتا ہے۔
(1) مفردات راغب ،مادہ ”ھدی“
(۲) یہاں پر تکوینی ہدایت وسیع معنی میں استعمال ہوئی ہے، جس میں بیان قوانین اور ارایہٴ طریق کے علاوہ ہر طرح کی ہدایت شامل ہے ․
اس کے مقابلہ میں ”ضلالت اور گمراہی“ ہے۔
اگر انسان قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظرڈالے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے ہدایت اور گمراہی کو فعل خدا شمار کیا ہے، اور دونوں کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے، اگر ہم اس سلسلہ کی تمام آیات کو یکجا کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی، صرف اتناہی کافی ہے، چنانچہ ہم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۳ میں پڑھتے ہیں:
<ِ وَاللهُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ>
”اور خدا جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دےتا ہے“۔
سورہ نحل کی آیت نمبر ۹۳ میں ارشادہوتا ہے:
<وَلَکِنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَہْدِی مَنْ یَشَاءُ>
”خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچا دیتا ہے“۔
ہدایت و گمراہی کے حوالہ سے قرآن مجیدمیں بہت سی آیات موجود ہیں(1)
بلکہ اس کے علاوہ بعض آیات میں واضح طور پر پیغمبر اکرم (ص) سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور خدا کی طرف نسبت دی ہے، جیسا کہ سورہ قصص آیت نمبر ۵۶ میں بیان ہوا ہے:
< إِنَّکَ لَاتَہْدِی مَنْ اٴَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللهَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ>
”(اے میرے پیغمبر!) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دےتا ہے“۔
(1) نمونہ کے طور پر:سورہ فاطر ، آیت ۸․ سورہ زمر، آیت ۲۳․ سورہ مدثر ، آیت ۳۱․ سورہ بقرہ، آیت ۲۷۲․ سورہ انعام ، آیت ۸۸․ سورہ یونس ، آیت ۲۵․ سورہ رعد ، آیت ۲۷․ سورہ ابراہیم ، آیت ۴․
سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۷۲ میں بیان ہوا ہے:
< لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ>
”اے پیغمبر ! ان کے ہدایت پانے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے“۔
ان آیات کے عمیق معنی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض افراد ان کے ظاہری معنی پر تکیہ کرتے ہو ئے ان آیات کی تفسیر میں ایسے ”گمراہ“اور راہ ”ہدایت“ سے بھٹکے کہ”جبریہ“ فرقہ کی آتشِ عقا ئد میں جا گرے اور یہی نہیں بلکہ بعض مشہور مفسرین بھی اس آفت سے نہ بچ سکے، اوراس فر قہ کی خطرناک وادی میں پھنس گئے ہیں، یہاں تک کہ ہدایت و گمراہی کے تمام مراحل کو ”جبری“ طریقہ پر مان بیٹھے، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی انھوں نے اس عقیدہ کو خدا کی عدالت و حکمت کے منافی دیکھا تو خدا کی عدالت ہی کے منکر ہوگئے، تاکہ اپنی کی ہوئی غلطی کی اصلاح کرسکیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ”جبر“ کے عقیدہ کو مان لیں تو پھر تکالیف و فرائض اور بعثت انبیاء،اورآسمانی کتابوں کے نزول کا کوئی مفہوم ہی نہیں بچتا۔
لیکن جو افراد نظریہٴ ”اختیار“ کے طرفدار ہیں ،وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عقل سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ خداوندعالم کسی کو گمراہی کا راستہ طے کرنے پر مجبور (بھی) کرے اور پھر اس پر عذاب بھی کرے، یا بعض لوگوں کو ”ہدایت“ کے لئے مجبور کرے اور پھر بلاوجہ ان کو اس کام کی جزا اور ثواب بھی دے، اور ان کو ایسے کام کی وجہ سے دوسروں پر فوقیت دے جو انھوں نے انجام نہیں د یا ہے۔
لہٰذا انھوں نے ان آیات کی تفسیر کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بہت ہی دقیق تفسیر کی ہے جو ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں بیان ہونے والی تمام آیات سے ہم آہنگ ہے اور بغیر کسی ظاہری خلاف کے بہترین طریقہ سے ان تمام آیات کی تفسیر کرتی ہے، اور وہ تفسیر یہ ہے:
” تشریعی ہدایت“یعنی عام طور سے سبھی کو راستہ دکھادیا گیا ہے اس میں کسی طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، جیسا کہ سورہ دہر آیت نمبر ۳ میں وارد ہوا ہے:
< إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا>
”یقینا ہم نے اس (انسان) کو راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔
اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵۲ میں پڑھتے ہیں:
<وَإِنَّکَ لَتَہْدِي إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ>
” اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرر ہے ہیں“۔
ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق خداوندعالم کی طرف سے ہے کیونکہ انبیاء کے پاس جو کچھ بھی ہوتاہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔
بعض منحرف اور مشرکین کے بارے میں سورہ نجم آیت نمبر ۲۳ میں بیان ہوا ہے:
<وَلَقَدْ جَائَہُمْ مِنْ رَبِّہِمْ الْہُدَی>
”اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے“۔
لیکن ”تکوینی ہدایت “یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ، راستہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا اور ساحل نجات پر پہنچنے تک ہر طرح کی حمایت و حفاظت کرنا،جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوا ہے، یہ موضوع بدون قید و شرط نہیں ہے، اور یہ ہدایت ایک ایسے خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اور اس کے مدمقابل ”ضلالت و گمراہی“ ہے وہ بھی خاص گروہ سے مخصوص ہے جس کے صفات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔
اگرچہ بہت سی آیات مطلق ہیں لیکن دوسری بہت سی آیات میں وہ شرائط واضح طور پر بیان ہوئے ہیں، اور جب ہم ان ”مطلق“ اور ”مقید“ آیات کو ایک دوسرے کے برابر رکھتے ہیں تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے اور آیات کے معنی و تفسیر میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اور نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار ، آزادی اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ مکمل اور دقیق طور پر ان کی تاکید کرتی ہے۔
(قارئین کرام!) یہاں درج ذیل وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
< یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ >(1)
”خدا ا سی طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دے دیتا ہے اور گمراہی صرف انھیں کا حصہ ہے جو فاسق ہیں “۔
یہاں پر ضلالت و گمراہی کا سرچشمہ، فسق و فجور اور فرمان الٰہی کی مخالفت بیان کی گئی ہے۔