وفات پیغمبر(ص) کے بعد انحراف کے قطعی شواھد
نص کے مقابلے میں اجتھاد
نص سے مراد نص الٰھی یا نص نبوی ھے، اس کے مقابلے میں جب اجتہاد آجائے تو قطعی طور پر اس اجتہاد کی کوئی اھمےت نھیںھوتی اور وہ نص کے مقابلے میں ساقط ھو جاتا ھے نص کے مقابلے اجتہاد صرف اپنی خواھشات کے لئے ھوتاھے خواہ وہ کسی لباس میں ھی کیوں نہ ھو۔
اس سلسلے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نصوص کثرت سے موجود ھیں کہ میرے بعد امام اور خلیفہ کون ھو گایہ نصو ص دعوت ذو العشیرہ سے لے کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک موجود ھیں یہاں ھم اجمالی طور بعض کامختصر تذکرہ کرتے ھیں ۔
دعوت ذ والعشیرہ
جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے )ڈراؤ تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور ان سے فرمایا :
اِني قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة وقد اٴمرني اللہ عزوجل اٴن اٴدعوکم اِلیہ فایکم یؤمن بي ویؤازرني علیٰ ھذا الاٴمرعلی اٴن یکون اٴخي و وصیي و خلیفتي فیکم۔
میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ھوں۔ مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو بھی مجھ پر ایمان لائے گا اور اس اھم معاملے میں میری مدد کرے گا وھی میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ھو گا۔ پوری قوم خاموش اور ساکت رھی لیکن حضرت ابن ابی طالب علی علیہ السلام کھڑے ھوئے اور عرض کی یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا میں اس معاملے میں آپ (ع)کی مدد کروں گا۔
آپ نے دو مرتبہ اسی طرح کھالیکن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ (ع) کو بٹھا دیا تےسری مرتبہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِن ھذا اٴخي ،ووصیي وخلیفتي فیکم فاسمعوا لہ و اٴطیعوا ۔
یہ تم لوگوں میں میرا بھائی‘ وصی اور خلیفہ ھے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ [1]
حد یث منزلت
اصحاب سیرت و حدیث نے یہ روایت نقل کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ تبوک کی طرف جانے لگے تو لوگ بھی آپ (ص)کے ساتھ چل دئے۔
اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ (ص)کیا میں بھی آپ(ص) کے ساتھ چلوں۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا نھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے گریہ کرنا شروع کیا توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اٴماترضیٰ اٴن تکونَ مني بمنزلة ھارون من موسیٰ اِلاّ اٴنہ لا نبي بعدي اِنّہ لا ینبغي اٴن اٴذھب اِلاّ و انتَ خلیفتي ۔
کیا آپ (ع)اس بات پر راضی نھیں ھیں کہ آپ کی قدرو منزلت میرے نزدیک وھی ھے جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا۔ میں فقط یھی چاھتا ھوں کہ آپ (ع)میرے خلیفہ ھوں۔
اِلاّ اٴنہ لا نبّي بعدي ۔
( مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نھیں ھو گا)یہاں جو استثنا ء پایا جاتا ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے جتنے مناقب تھے نبوت کے علاوہ وہ سب حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس میں موجود ھیں ۔[2]
حد یث غد یر
یہ حدیث متواتر احادےث میں سے ھے اسے صحابہ کرام ،تابعےن اور ھر شیعہ سنی نے نقل کیا ھے، ھم یہاں پر ابن حجر سے بیان شدہ روایت کو سپرد قرطاس کر رھے ھیں ابن حجر نے اعتراف کیا ھے کہ اس روایت کی سند صحیح ھے۔ ابن حجر کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر کے مقام پر شجرات کے نےچے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
اٴیھّا الناس اِنہّ قد نّباٴ ني اللطیف الخبیر اٴنہ لم یعمّر نبي الانصفُ عمر الذي یلیہ من قبلہ واٴنيّ لاٴظن اٴني یو شک اٴن اٴدعی فاجیب و اِنی مسوٴول و اٴنکم مسوٴولون فماذا اٴنتم قائلون؟ قالو ا نَشھدُاٴنّک بلغت و جھدت و نصحت فجزاک اللہ خیراً: فقال اٴ لیس تشھدون اٴن لا الہ الا اللّہ و اٴنَّ محمداً عبدہ ورسولہ واٴن جنتہ حق واٴنَّ نارہ حق وان الموت حق واٴن البعث حق بعدالموت ، واٴنّ الساعة آتیة لا ریب فیھا واٴن اللّہ یبعثُ مَن في القبور ؟قالوا بلی نشھد بذلک قالٰ اللھم اشھد ثم قال(( یا اٴیھاالناس اِن اللہ مولاٴي واٴنا مولیٰ المؤمنین واٴنا اٴولیٰ بھم من اٴنفسھم فمن کنت مولاہ فھذا ےعني علیا۔مولاہ اللھم وال من والاہ وعا د من عاداہ ))۔
اے لوگو! مجھے لطیف الخبےر نے خبر دی ھے کہ ھر نبی اپنے پھلے نبی کی نسبت آدھی عمر پاتا ھے لہٰذا میں بھی یہ گمان نھیں کرتا کہ مزید تم لوگوں کے درمیان رھوں، مجھے بارگاہ خداوندی میں بلایا گیا ھے قریب ھے کہ میں اس دعوت کو قبول کروں، وہ وقت آپھنچا ھے کہ میں اس دار فانی کو الودع کھوں اگر میں پکاروں تو مجھے جواب دو۔میں مسئول ھو ں اور تم لوگ بھی اس کے مسئول ھیں اس بارے میں آپ کیا کھتے ھو؟ یہ سن کر وہ لوگ کھنے لگے:
ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی ،جہاد کیا ،نصےحت کی ،اللہ کی ذات ھی آپ(ص) کو بھترین جزا دینے والی ھے پھر آنحضرت(ص)نے فرمایا کیا تم یہ گواھی نھیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کو ئی معبود نھیںھے اور محمد اللہ(ص) کے عبد اوراس کے رسول ھیں۔
بے شک اس کی جنت ،جھنم ،موت ، موت کے بعد قبروں سے نکالنا یہ سب حق ھے اور بے شک قیامت اس کی ایسی نشانیوں میں سے ھے جس میں کسی کو کوئی شک وشبہ کی گنجا ئش نھیں ھے اور جو کچھ قبروں میں ھے اللہ ھی اس کو نکالنے والا ھے۔
وہ کھنے لگے ۔جی ہاں۔
ھم ان تمام چیزوں کی گواھی دیتے ھیں: آپ(ص) نے فرمایا اے پروردگار تو بھی اس پر گواہ رہ۔ پھر آپ (ص)نے فرمایا: اے لوگو ! ا للہ میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور میں ان کی جانوں پر ان کی نسبت اولیٰ ھوں ۔پس جس کا میں مولا ھوں اس کا یہ علی (ع) مولا ھے پروردگار اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے اس سے دشمنی رکھ جو اس سے دشمنی رکھے ۔[3]
اس میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے کہ جو شخص حدیث غدیر کے مضمون اور اس میں موجود حالیہ اور مقالیہ قرائن کو مد نظر رکھے تو اسے معلوم ھو جائے گا کہ اس حدیث کا مقصد حضرت علی علیہ السلام کو امامت اور خلافت پر نصب کرنا ھے۔ اسی مطلب کو اس بابرکت محفل میں موجود مہاجرین و انصار نے بھی سمجھا ھے۔ جیسا کے اس کو پھنچانے والے نے سمجھا ھے اور ایک مدت کے بعد امت میں بھی یہ بات ظاھر ھو ئی ھے اوراس وقت سے لے کر آج تک اس کی اتباع مشھور ادباء اور شعراء نے بھی کی ھے ۔ےعنی شعراء وغیرہ نے بھی ابتداء ھی سے اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کا خلافت پر نصب کرنا سمجھا تھا ۔[4]
اس موقع پر حسان بن ثابت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں: یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مجھے اجاز ت ھے کہ میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں چند اشعار کھوں۔
چنا نچہ انھوںنے یہ شعارکھے:
ینادیھم یوم الغدیر نبیھُّم
بخم واٴسمعِ بالرسولِ منادیا
فقال فمن مولاکمُ وولیکم
فقالو ا و لم یبدوا ھناک التعامیا
الھٰک مولانا و اٴنت ولینا
و لم تلق منا في الولایة عاصیا
فقال لہ قم یا علي فاِنني
رضیتُک من بعدي اِماماً و ھادیا
فمن کنتُ مولاہُ فھذا ولیّہ
فکونوا لہ اٴتباع صدق موالیا
ھنا کَ دعا اللھم والِ ولیّہ
وکن للذي عا دیٰ علیا مُعادیا
ان کے نبی(ص) غدیر کے دن خم کے مقام پر انھیں پکار رھے تھے اور پکارتے ھوئے نبی (ص)کتنے اچھے معلوم ھو رھے تھے انھوں نے کھاکہ تمہارا مولا اور نبی(ص) کون ھے؟ وہ سب لو گ کھنے لگے اور ان میں سے کسی نے مخالفت اور دشمنی کا اظہار نہ کیا آپ(ص) کا معبود ھمارا مولا ھے اور آپ(ص) ھمارے نبی(ص) ھیں اور آپ (ص)ولایت کے سلسلے میں ھم سے کسی کو نافرمان نھیں پائےں گے۔ آپ (ص)نے فرمایا اٹھو اے علی کیونکہ میں نے آپ(ع) کو اپنے بعد کے لئے امام اور ہادی منتخب کیا ھے۔ پس جس کا میں مولا ھوں اس کا یہ ولی اور مولا ھے ۔لہٰذا اس کے سچے پیروکار اور موالی بن جاؤ اور پھر دعا کی خدا یا اس کے دوست کوتو دوست رکھ اور حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرنے والے کو دشمن رکھ۔[5]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو تنہا(اسی مفھوم کے ساتھ) حسان بن ثابت نے ھی نھیں سمجھا تھا‘ بلکہ اس مطلب کو عمرو بن عاص نے بھی سمجھا تھا ۔حا لانکہ کہ یہ اےسا شخص ھے جس کی حضرت علی علیہ ا لسلام کے ساتھ دشمنی ڈھکی چھپی نہ تھی جب معاویہ کو اس مسئلہ میں شک ھو ا تو حضرت علی علیہ السلام کی جلالت و بزرگی کو بیان کرتے ھوئے کھتا ھے :
وکم قد سمعنا من المصطفیٰ
وصایا مخصصّة في علي
و فی یوم خمّ رقیٰ منبرا
و بلغّ والصحب لم تر حل
فاٴمنحہ اِمرةالمؤمنین
من اللہ مستخلف المنحل
فی کفّہ کفّہ معلنا
ینادي باٴ مر العزیز العلي
قال فمن کنت مولیٰ لہ
عليٌّ لہ الیوم نعم الولي
ھم نے اکثر حضرت محمد (ص)سے حضرت علی (ع) سے متعلق مخصوص وصیتیں سنیں ھیں، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خم والے دن منبر پرگئے اور خطبہ دیا۔ کسی صحابی اور صحابیہ نے ان کے مطالب کے خلاف گفتگو نہ کی ان (علی (ع)) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے یہ اعلان کیا اور فرمایا جس جس کا میں مولا ھوں آج سے حضرت علی علیہ السلام اس کے بھترین ولی ھیں ۔[6]
اس طرح حدیث غدیر کے اس معنی کو سب بزرگوں نے واضح انداز میں تسلیم کیا شاعر ذائع صےت کمےت بن زید الاسدی کھتا ھے :
و یوم الدوح دوح غدیر خم
اٴبان لہ الخلافة لواٴُ طیعا
یوم روح ‘روح غدیر خم ھے ۔ اگر وہ اطاعت کر لیتے توان کے لئے خلافت کا مسئلہ واضح ھو چکا ھوتا۔[7]
غدیر خم میں موجود جلیل القدر صحابی حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کھتے ھیں:
و عليٌ اِما مُنا و اِمامٌ
لسوانا اٴتی بہ التنز یل
یوم قال النبي من کنت مولا ہ
فھذا مولاہ خطبٌ جلیل
قرآن مجےد نے ھمیں بتا یا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام ھمارے اور ھمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے امام ھیں۔ اس دن جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر خطبہ میں ارشاد فرمایا: جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کا یہ مولا ھے [8]
ھم نے اس حدیث کی مزید وضاحت اور اس کی سند و دلالت اور حجت پر بحث اس لئے نھیں کی کیونکہ احادےث اور سیرت کی کتب نے اس حدیث کو بیان کیا ھے لیکن ھم نے مسلمان بھائیوں کے سامنے اس کی اصل صورت اور حقےقت پیش کر دی تاکہ صاحبا ن عقل کے سامنے حق و حقیقت واضح ھو جائے۔
[1] بحوت فی الملل والنحل شیخ جعفر سبحانی ج ۴۴،تا ریخ طبری ج ۲ ص۶۲ ،۶۳، تاریخ ابن اثیر ج ۲ ص۴۰ ، ۴۱۔
[2] بحوث فی الملل والنحل ج ۶ ص۴۵ ،صحیح بخاری ۵ باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب مناقب حضرت علی علیہ السلام ۲۴۰۔
[3] ابن حجر کی کتاب الصواعق المحرقہ ص۴۳ ،۴۴ ، اسی طرح مسند امام احمد ج ۴ ص۳۷۲۔
[4] بحوث فی الملل والنحل ج ۶ ص ۵۰
[5] شیخ جعفر سبحانی کی کتاب الا لھیات ج ۲ ص ۵۸۶ ، ۵۸۷۔
[6] ابن ابی الحدید کی شرح نھج البلاغہ ج ۱۰ ،ص ۵۶ ،۵۷۔
[7] الغدیر ج ۲ ص ۱۸۱ ۔
[8] الالھیات ج ۲ص۶۰۰۔