دوسری وجہ: روایات میں بنیادی اختلاف
وہ روایتیں جو اذان كی تشریع اور آغاز كے سلسلہ میں وارد ھوئی ھیں، ان میں سرے سے ھی اختلاف اور تضاد پایا جاتا ھے۔ جو مندرجہ ذیل ھے:
الف) پھلی یعنی "سنن ابو داؤد" كی روایت كے مطابق عمر ابن خطاب نے عبد اللہ ابن زید سے بیس دن پھلے خواب دیكھا، لیكن چوتھی یعنی "ابن ماجہ" كی روایت كے مطابق انھوں نے اسی رات خواب دیكھا جس رات عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔
ب) اذان، عبداللہ ابن زید كے خواب كے ذریعہ شروع ھوئی۔ اور عمر ابن خطاب نے جب اذان كو سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے اور كھا: میں نے بھی یھی خواب دیكھا تھا، لیكن شرم كی وجہ سے آپ سے تذكرہ نھیں كیا۔
ج) اذان كو عمر ابن خطاب نے رواج دیا، نہ كہ ان كے خواب نے۔ اس لئے كہ انھوں نے خود اذان كو ایجاد كیا جیسا كہ ترمذی نے اپنی سنن میں ذكر كیا ھے: مسلمان جب مدینہ آئے… (یھاں تك كہ وہ كھتے ھیں)… اور بعض لوگوں نے كھا: سنكھ سے استفادہ كیا جائے۔ جیسا كہ یھودی كرتے ھیں۔ عمر ابن خطاب نے كھا كہ كسی سے اذان دینے كے لئے كیوں نھیں كھتے؟ لھذا رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا بلال! قم فناد بالصلاة" اے بلال! اٹھو اور نماز كے لئے دعوت دو یعنی اذان كھو۔
ھاں ابن حجر نے "نداء بالصلاة" (نماز كے لئے اذان دینا) 8 سے اذان نھیں بلكہ "الصلاة جامعة" كی تكرار مراد لی ھے۔ لیكن ابن حجر كی اس بات پر كوئی واضح دلیل نھیں پائی جاتی ھے۔
د) اذان كو خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع كیا۔ بیھقی كی روایت ھے: … لوگوں نے ناقوس بجانے یا آگ روشن كرنے (كے ذریعہ نماز كی طرف بلانے) كا مشورہ دیا تو حضور (ص) نے بلال كو حكم دیا كہ اذان كو شفعاً (ھر فقرہ كو دوبار) اور اقامت كو وتراً (ھر فقرہ كو ایك بار) كھو۔ بیھقی كا بیان ھے كہ بخاری نے محمد بن عبد الوھاب اور مسلم نے اسحاق بن عمار سے یھی روایت نقل كی ھے۔ 9
ان تعارضات اور اختلافات كے ھوتے ھوئے بھلا ان روایات پر كیسے اعتماد كیا جاسكتا ھے؟
تیسری وجہ: خواب: ایك نھیں بلكہ چودہ اشخاص نے دیكھا
حلبی كی روایت سے یہ ظاھر ھوتا ھے كہ اذان كا خواب صرف عبد اللہ ابن زید یا عمر بن خطاب سے ھی مخصوص نھیں، بلكہ عبد اللہ بن ابوبكر نے بھی اسی طرح كے خواب دیكھنے كا دعویٰ كیا ھے۔ اور یہ بھی كھا جاتا ھے كہ انصار میں سے سات آدمیوں، اور ایك دوسرے قول كے مطابق چودہ لوگوں نے اذان خواب میں دیكھنے كا ادعا كیا ھے۔ 10
كیا كوئی صاحب عقل ان روایات، بلكہ خرافات كو قبول كرسكتا ھے؟؟ ارے بھائی! شریعت اور اسلامی احكام كوئی بازیچہ اطفال نھیں! جو خوابوں اور خیالوں سے تیار كر لئے جائیں۔ اور اگر اسلام كی یھی حقیقت ھے تو پھر ایسے اسلام كو سلام ھے۔ اس سلسلہ میں حقیقت یہ ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احكام شریعت كو وحی كے ذریعہ حاصل فرمایا كرتے تھے، نہ كہ ھر كس و ناكس كے خواب سے۔
چوتھی وجہ: بخاری سے منقول روایت اور دوسری روایات كے درمیان تعارض
بخاری نے صراحت كے ساتھ روایت نقل كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجلس مشاورت میں بلال (رض) كو یہ حكم دیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو بلاؤ، اور حضرت عمر اس وقت وھاں موجود نھیں تھے۔ خود ابن عمر راوی ھیں كہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز كے وقت، نماز كے لئے متوجہ كرنے اور اس كی طرف بلانے والے كی ضرورت كا احساس كر رھے تھے۔
ایك دن اس سلسلہ میں گفتگو كرنے لگے۔ بعض افراد نے "نصاریٰ" كی طرح ناقوس بجانے كا مشورہ دیا۔ بعض نے كھا كہ یھودیوں كی طرح قرن یا سینگ سے استفادہ كیا جائے۔ عمر بولے: كسی كو نماز كی دعوت دینے كے لئے كیوں نھیں بھیجتے؟ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور لوگوں كو نماز كے لئے بلاؤ۔ 11
اور وہ صریحی روایت جو خواب كے بارے میں ھیں ان كے مطابق نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال (رض) كو اذان كا حكم، فجر كے ھنگام اس وقت دیا جب كہ ابن زید نے اذان كے سلسلہ میں اپنا خواب حضور سے بیان كیا۔ اور عبد اللہ بن زید كا خواب مجلس مشاورت كے كم از كم ایك رات بعد قابل تصور ھے۔
اور جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال (رض) كو اذان كا حكم دے رھے تھے تو حضرت عمر وھاں موجود نھیں تھے، بلكہ جب اذان دی گئی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ دوڑتے ھوئے آئے اس حالت میں، كہ ان كے كپڑے زمین پر گھسٹ رھے تھے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھنے لگے كہ یا رسول اللہ! قسم ھے اس پروردگار كی جس نے حق كے ساتھ آپ كو مبعوث كیا، یھی خواب میں نے بھی دیكھا ھے۔
اور ھمارے پاس ایسا كوئی قرینہ نھیں جس كی روشنی میں یہ كھا جاسكے كہ بخاری كی روایت میں "نداء بالصلاة" سے مراد "الصلاة جامعہ" كی تكرار ھے اور خواب كی روایتیں اذان كے سلسلہ میں ھیں۔ اور اگر كوئی اس طرح كی بات كھے بھی تو یہ بغیر كسی دلیل كے ھوگا۔
دوسرے یہ كہ اگر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب بلال (رض) كو یہ حكم دیتے كہ الصلاة جامعہ كو با آواز بلند كھو تو مسئلہ ھی حل ھوجاتا، اور خصوصاً اگر اس كی تكرار كا حكم دیتے، تو حیرانی و پریشانی كی بات ھی نہ رہ جاتی۔
لھذا یہ اس بات كی دلیل ھے، كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز كی دعوت دینے كا جو حكم دیا اس سے مراد یھی معروف اذان شرعی تھی۔ 12
یہ چار مذكورہ وجوھات، احادیث كے مضمون كی تحقیق كا تقاضہ كرتی ھیں۔ اور یہ اشكالات مذكورہ، احادیث كے غیر قابل قبول ھونے كے لئے كافی ھیں۔ لیكن پھر بھی ھم ان كی اسناد كے بارے میں گفتگو كرتے ھیں۔ (تاكہ ھماری بات كی اور وضاحت ھوجائے) ان میں سے بعض كی سندیں موقوف ھیں، اور ان كا سلسلہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتا۔ اور بعض، مسند تو ھیں مگر ان كے راوی یا تو مجھول ھیں یا غیر موثق ھیں یا ضعیف۔ اور اسی وجہ سے علم رجال میں انھیں كوئی اھمیت نھیں دی گئی ھے۔ اب ھم ان تمام چیزوں كو آپ كے سامنے ترتیب وار، وضاحت كے ساتھ بیان كر رھے ھیں۔
پھلی روایت
جس كو ابو داؤد نے نقل كیا ھے، ضعیف ھے۔كیونكہ :
1) یہ روایت ایك، بلكہ كئی نا معلوم افراد سے منقول ھے، كیونكہ اس كی سند میں بعض راویوں كے نام كے بجائے اس طرح كے كلمات آئے ھیں: "انصار میں سے ان كے بعض خاندان والے" یا "یا انصار كے ایك گروہ نے ان سے روایت كی ھے۔"
2) یہ روایت ابو عمیر بن انس كے كچھ خاندانی رشتہ داروں سے منقول ھے۔ جیسا كہ ابن حجر كھتے ھیں: "روایت ھلال اور اذان كی روایت" كو ابو عمیر كے خاندانی رشتہ داروں نے، جن كا تعلق انصار و اصحاب نبی (ص) سے تھا، نقل كیا ھے۔
اور ابن سعد كھتے ھیں كہ یہ موثق راوی تھا، لیكن اس سے كم احادیث نقل ھوئی ھیں۔ ابن عبد البر رقمطراز ھیں: یہ مجھول اور غیر معروف ھے، اور اس كا قول دلیل نھیں بن سكتا۔ 13 مروی كا بیان ھے كہ اس نے صرف دو عنوان كے تحت احادیث بیان كی ھیں۔ یا چاند دیكھنے كے سلسلہ میں یا اذان كے بارے میں۔
دوسری روایت
اس روایت كی سند میں ایسے راویوں كا تذكرہ ھے جن كا قول قابل قبول نھیں، وہ مندرجہ ذیل ھیں:
الف) محمد بن ابراھیم بن حارث خالد تیمی، ابو عبداللہ (سن وفات تقریباً 120 ھجری): ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل كا قول نقل كیا ھے كہ وہ كھتے ھیں: میں نے اپنے والد سے سنا (انھوں نے محمد بن ابراھیم تیمی كا تذكرہ كرتے ھوئے فرمایا) كہ اس كی احادیث میں اشكال ھے، اس نے بھت سی غیر قابل قبول احادیث نقل كی ھیں۔ 14
ب) محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار: اھل سنت اس كی روایت پر اعتماد نھیں كرتے۔ (اگر چہ سیرۂ ابن ھشام كی اساس یھی ھے)
احمد بن ابی خیثمہ كھتے ھیں كہ یحییٰ بن معین سے اس (محمد بن اسحاق) كے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا كہ میرے نزدیك ضعیف اور غیر قابل قبول ھے۔
ابوالحسن میمونی كا بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین كو كھتے ھوئے سنا ھے كہ محمد بن اسحاق ضعیف ھے۔ اور نسائی كھتے ھیں كہ وہ قوی نھیں ھے۔ 15
ج) عبد اللہ بن زید: اس كے بارے میں اتنا ھی كھنا كافی ھے كہ اس نے بھت كم احادیث كی روایت كی ھے۔ ترمذی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں: حدیث اذان كے علاوہ جو بھی حدیث اس نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت كی ھے وہ صحیح نھیں ھے۔ حاكم كھتے ھیں: حقیقت یہ ھے كہ وہ جنگ احد میں قتل كردیا گیا تھا۔
اور اس كی تمام روایات منقطعہ (جس كی سند نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتی) ھیں۔ ابن عدی كا بیان ھے: حدیث اذان كے علاوہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی حدیث بیان كی ھے وہ صحیح نھیں ھے۔ 16 ترمذی نے بخاری سے روایت كی ھے كہ حدیث اذان كے علاوہ اس سے مروی اور كسی حدیث كے بارے میں ھم نھیں جانتے۔ 17
حاكم كا بیان ھے: عبداللہ بن زید وہ شخصیت ھیں، جنھیں خواب میں اذان سكھائی گئی۔ اور یكے بعد دیگرے فقھاء اسلام اسے قبول كرتے رھے لیكن صحیحین میں اس كو نقل نھیں كیا گیا۔ كیونكہ اس كی سند میں اختلاف پایا جاتا ھے۔ 18
تیسری روایت
اس كی سند "محمد بن اسحاق بن یسار، اور محمد بن ابراھیم تیمی، پر مشتمل ھے۔ اور آپ ان كے حالات سے واقف ھوچكے ھیں۔ نیز یہ بھی جان چكے ھیں كہ عبداللہ بن زید بھت كم روایت بیان كرنے والا تھا۔ اور اس كی تمام روایات منقطعہ ھیں۔
چوتھی روایت
اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی پائے جاتے ھیں:
1۔ عبد الرحمٰن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی: یحییٰ بن سعید قطان كھتے ھیں: میں نے مدینہ میں اس كے (عبدالرحمٰن بن اسحاق) كے بارے میں معلوم كیا تو مجھ سے كسی نے بھی اس كی تعریف نھیں كی۔ اس بارے میں علی بن مدنی كا بھی یھی كھنا ھے۔
بلكہ علی تو یھاں تك كھتے ھیں كہ جب سفیان سے عبدالرحمٰن بن اسحاق كے بارے میں سوال كیا گیا تو میں نے اس كو یہ كھتے ھوئے سنا كہ وہ فرقۂ قدریہ 19 میں سے تھا۔ مدینہ والوں نے اسے مدینہ سے باھر نكال دیا تھا، وہ ھمارے پاس "مقتل ولید" میں آیا تو ھم نے اس كو اپنا ھم نشین بنایا۔ ابوطالب كھتے ھیں: میں نے احمد بن حنبل سے اس كے بارے میں پوچھا تو انھوں نے كھا كہ اس نے ابو زناد سے بھت سی غیر قابل قبول روایات نقل كی ھیں۔
احمد بن عبداللہ العجلی كا بیان ھے: وہ ضعیف احادیث نقل كرتا تھا۔ ابو حاتم كا قول ھے: وہ ایسی احادیث نقل كرتا تھا جن كے اوپر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔ بخاری تحریر كرتے ھیں: اس كے حافظہ پر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔ اور مدینہ میں موسیٰ زمعی كے علاوہ اس كا كوئی شاگرد بھی نھیں تھا۔ موسیٰ زمعی نے اس سے ایسی روایت بھی نقل كی ھیں جن میں اضطراب پایا جاتا ھے۔
دارقطنی رقمطراز ھیں: وہ ضعیف ھے اور اس پر "قدری" ھونے كا الزام ھے۔
ابن عدی كھتے ھیں: اس كی احادیث میں بعض ایسی چیزیں ھیں جو نادرست ھیں۔ اور غلط بیانی پر مشتمل ھیں۔ 20
2۔ محمد بن عبداللہ واسطی: جمال الدین مزی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں كہ ابن معین نے اس كو "لاشی" (جس كی كوئی اھمیت نھیں) سے تعبیر كیا ھے۔ اور اس كی ان روایتوں كا انكار كیا ھے جو اس نے اپنے باپ سے نقل كی ھیں۔ ابو حاتم كا بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین سے اس كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے كھا: وہ بھت برا اور جھوٹا آدمی ھے۔ اس نے بھت سی ناقابل قبول اور جھوٹی روایتیں نقل كی ھیں۔ ابو عثمان سعید بن عمر بردعی كھتے ھیں كہ میں نے "ابازرعہ" سے محمد بن خالد كے بارے میں سوال كیا۔ وہ بولے: برا انسان ھے۔ ابن حیان نے كتاب "الثقاة" میں ذكر كیا ھے: وہ خطا كار اور مخالف حق تھا۔ 21
شوكانی نے اس كی روایت كو نقل كرنے كے بعد تحریر كیا ھے كہ اس روایت كی اسناد بھت ضعیف ھیں 22