شھر كربلا پر وھابیوں كی كامیابی كے وجوھات
جیسا كہ ھم بعد میں بیان كریں گے كہ وھابیوں نے نجف اشرف پر بھی حملہ كیا او رنجف كو فتح كرنے كی بھت كوششیں كی لیكن وہ لوگ اپنے اس مقصد میں كامیاب نہ هوسكے، لیكن كربلا شھر میں انھوں نے جو كچھ كرنا چاھا وہ با آسانی كرڈالا، موٴلف كی نظر میں اس كی كچھ وجوھات ھیں جن كو چند چیزوں میں خلاصہ كیا جاسكتا ھے:
1۔ سلیمان پاشا والی بغداد ا ور عثمانی بادشاہ كی طرف سے معین شدہ كربلا كے حاكم عمر آقا نے شھر كی حفاظت كے لئے كوئی خاص كام انجام نھیں دیا، بلكہ كچھ بھی نہ كیا، اسی وجہ سے سلیمان پاشا نے اس سے مواخذہ كیا، اور سرانجام اس كو قتل كردیا گیا۔
2۔ شھر كربلا كی دیوار اور اس كا برج زیادہ مضبوط نھیں تھا اور اس كے علاوہ اس كی حفاظت كرنے والوں كی تعداد بھی بھت كم تھی۔
3۔ سب سے اھم وجہ یہ تھی كہ اكثر مرد او رجوان حضرات عید غدیر كی مناسبت سے نجف اشرف زیارت كے لئے گئے هوئے تھے اور شھر كا دفاع كرنے والا كوئی نھیں تھا دشمنوں كے مقابلہ میں فقط عورتیں بچے اور بوڑھے باقی تھے، جو كچھ بھی نھیں كرسكتے تھے۔
4۔ صاحب مفتاح الكرامة كے قول كے مطابق جس وقت وھابیوں نے شھر كربلا پر حملہ كیا بعض شیعہ قبیلوں میں اختلاف پایا جاتا تھا جیسے قبیلہ خزاعل وآل بعیج اور آل جشعم وغیرہ میں شدید اختلاف تھا اور آپس میں چھوٹے موٹے واقعات هوتے رھتے تھے۔ جس كی بناپر ان میں وھابیوں سے مقابلہ كرنے كی طاقت نھیں تھی۔
ھم دیكھتے ھیں كہ انھیں وھابیوں نے جب دوسرے شھروں پر حملہ كرنا چاھا تو لاكھ كوشش كی لیكن پھر بھی كسی شھر میں داخل نہ هوسكے كیونكہ وھاں پر یہ سب وجوھات نھیں تھیں ۔
وھابیوں كے كربلا پر دوسرے حملے
وھابیوں نے تقریباً بارہ سال تك كربلا اور قرب وجوار كے علاقوں پر موقع موقع سے حملہ كیا ھے او رلوگوں كا قتل عام كیا نیز وھاں پر موجود مال و دولت غارت كی ھے جن میں سے سب سے پھلا حملہ 1216 ھ كا تھا جس كی تفصیل گذر چكی ھے۔
صلاح الدین مختار صاحب، ان حملوں میں سے ایك حملہ كے بارے میں اس طرح بیان كرتے ھیں : ” ماہ جمادی الاوّل1223ھ میں امیر سعود بن عبد العزیز نے دوبارہ اپنے عظیم لشكر كے ساتھ عراق كا رخ كیا جس میں بھت سے علاقے مثلاً نجد، حجاز، احسا، حبوب، وادی دواسر، بیشہ، رینہ، طائف اور تھامہ كے افراد شامل تھے، وہ سب سے پھلے كربلا پہنچا اس وقت كربلا شھر كی باھر كی دیوار او ربرجِ مستحكم هوچكی تھی ،كیونكہ كربلا پر هوئے پھلے حملہ نے اھل كربلا كو اپنے دفاع كی خاطر شھر كی دیوار كو مضبوط اور مستحكم بنانے پر مجبور كردیا۔
وھابیوں كے لشكر نے شھر پر گولیاں چلائیں لیكن اس كا كوئی نتیجہ نہ نكلا، اور چونكہ اھل شھر نے ایسے وقت كے لئے اپنے دفاع كی بھت سی چیزوں كو جمع كر ركھا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے شھر كا دفاع كیا، امیر نے یہ دیكھ كر اپنے سپاھیوں كو حكم دیا كہ اپنے ساتھ لائی هوئی سیڑھیوں كا استعمال كریں چنانچہ انھوں نے سیڑھیاں لگا كر دیوار پر چڑھنا شروع كیا۔
وھابی لشكر كربلا میں داخل هونا ھی چاھتا تھا لیكن اس طرف سے اھل كربلا اپنے دفاع میں لگے هوئے تھے، انھوں نے ان پر حملہ كیا، جس كی وجہ سے وہ لوگ كربلا پر حملہ كی فكر چھوڑ كر نكل بھاگے، ابن بشر صاحب نے (گویا صلاح الدین مختار نے اس واقعہ كی تفصیل انھیں سے نقل كی ھے) مذكورہ واقعہ كو1222ھ میں نقل كیا ھے اور اس طرح كھتے ھیں كہ گولیوں سے حملہ كی وجہ سے بھت سے (سپاہ سعود كے) سپاھی قتل هوئے اور جب سعود نے دیكھا كہ كربلا شھر كی دیوار مضبوط اور مستحكم بنی هوئی ھے اس نے ان كو كربلا پر حملہ كرنے سے روكا اور عراق كے دوسرے علاقوں كا رخ كیا ۔
مرحوم علامہ سید محمد جواد عاملی صاحب نے بھی مفتاح الكرامہ كی ساتویں جلد كے آخر میں اس طرح بیان كیا ھے كہ یہ كتاب رمضان المبارك1225ھ كی نویں تاریخ كی آدھی رات میں ختم هوئی جبكہ ھمارا دل بھت پریشان تھا كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے عربوں نے جو وھابی خارجیوں كے عقائد سے متاثر تھے، نجف اشرف كے اطراف اور قرب وجوار نیز حضرت امام حسین ں كے روضہ پر حملہ كیا اور
وھاں پر قتل وغارت كا كھیل كھیلا، اس وقت كے مقتولین كی تعداد 150افراد بتائی جاتی ھے اگرچہ بعض لوگ اس تعداد كو اس سے بھی كم بتاتے ھیں۔
”عبد اللہ فیلبی“ صاحب كھتے ھیں كہ كربلا پر وھابیوں كے اس حملہ نے شیعوں كے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں كو تعجب اور حیرانی میں ڈال دیا، لیكن اس حملہ كے انتقام میں ایك بھترین محاذبن گیا جس كی بنا پر سعودی حكومت كو كافی نقصان اٹھانا پڑا۔
وھابیوں كے كربلا پر حملے كاذكر ایرانی كتابوں میں
بعض ان ایرانی علماء نے اس حادثہ كو اپنی كتابوں میں لكھا ھے جو وھابیوں كے حملہ كے وقت یا اس كے نزدیك زندگی بسر كرتے تھے ،یھاںان كی بعض تحریروں كو هوبهو یا خلاصہ كے طور پر نقل كرنا زیادہ مناسب ھے۔
(موٴلف كی اطلاع كے مطابق) ایرانی موٴلفوں میں سب سے قدیمی كتاب جس میں اس حادثہ كے بارے میں تحریر ھے وہ میرزا ابو طالب اصفھانی كی كتاب ھے، موصوف وھابیوں كے كربلامیں قتل عام كے گیارہ ماہ كے بعد كربلا پهونچے ھیں، او رجس وقت وھاں پهونچے ھیں صرف یھی واقعہ زبانزد خاص وعام تھا چنانچہ موصوف اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھیں:
كربلا میں وھابیوں كے حملہ كا ذكر
18 ذی الحجہ (عید غدیر) كو كربلا كے اكثر اور معتبر افراد نجف اشرف میں حضرت امیر المومنین علی ں كی مخصوص زیارت كے لئے گئے هوئے تھے، ادھر 25000 كا وھابی لشكر (عربی گھوڑوں اور بھترین اونٹوں پر سوار) شھر كربلا میں داخل هوا، جس میں سے بعض لوگ زائرین كے لباس میں پھلے ھی سے شھر میں داخل هوچكے تھے اور شھر كا حاكم عمر آقا ان كے ساتھ ملا هوا تھا(یعنی ان سے سانٹھ گانٹھ كئے هوئے تھا ”یہ بات حاشیہ سے نقل هوئی ھے“) جس كی وجہ سے وھابی لوگ پھلے ھی حملے میں شھر میں داخل هوگئے اور یہ نعرے بلند كئے، ”اقتلوا المشركین“ و ” اذبحوا الكافرین“،یہ سن كر عمر آقا ایك دیھات كی طرف بھاگ نكلا، لیكن بعد میں اپنی كوتاھیوں كی بناپر سلیمان پاشا كے ھاتھوں قتل كیا گیا۔
وہ لوگ قتل وغارت كے بعد گنبد كی سونے كی اینٹوں كو اكھاڑنا چاھتے تھے لیكن چونكہ یہ اینٹیں بھت مضبوطی سے لگائی گئی تھیں، لہٰذا جب ان كو اكھاڑ نہ سكے تو گنبد كے اندر كا حصہ كلھاڑیوںوغیرہ سے توڑ ڈالا اور عصر كے وقت بے خوف وخطر اپنے وطن كو لوٹ گئے، تقریباً پانچ ہزار لوگوں كو قتل كیا او ر زخمیوں كی تعداد تو بے شمار تھی منجملہ میرزا حسن ایرانی شاہزادہ، میرزا محمد طبیب لكھنوی وعلی نقی لاهوری اور ان كے ساتھ میرزا قنبر علی وكنیز وغلام وغیرہ،اور حضرت امام حسین ں كے روضہ مبارك اور شھر كا جتنا بھی قیمتی سامان تھا سب غارت كردیا۔
اس قتل وغارت میں حضرت امام حسین ں كے صحن میں مقتولین كا خون بہہ رھا تھا اور صحن مبارك كے تمام حجرے مقتولین كی لاشوں سے بھرے پڑے تھے، حضرت عباس ں كے روضہ اور گنبد كے علاوہ، اور كسی كو بھی اس حادثہ سے نجات نھیں ملی، اس حادثہ كی وجہ سے لوگوں میں اس قدر خوف ووحشت تھی كہ میں اس حادثہ كے گیارہ مھینہ بعد كربلائے معلی گیا هوں لیكن پھر بھی اس حادثہ میں اتنی تازگی تھی كہ صرف یھی حادثہ لوگوں كی زبان پر تھا، اور جو لوگ اس حادثہ كو بیان كرتے تھے وہ حادثہ كو بیان كرتے كرتے رونے لگتے تھے اور اس حادثہ كی وہ درد بھری داستان تھی كہ سننے والوں كا بھی رُواں كھڑا هوجاتا تھا۔
لیكن اس حادثہ كے مقتولین كو بڑی بے غیرتی سے قتل كیا گیا تھا بلكہ جس طرح گوسفند كاھاتھ پیر باندھنے كے بعد بے رحم قصّاب كے حوالے كردیاجاتا ھے اس طرح سے ان لوگوں كو ذبح كیا گیا۔
اور جس وقت وھابی لشكر شھر سے باھر نكل گیا اس وقت اطراف كے اعراب نے ان كے پلٹنے كا شور مچایا اور جب شھر كے لوگ دفاع كے لئے شھر سے باھر باغات كی طرف پهونچے تو خود وہ اعراب گروہ گروہ كركے شھر میں داخل هوئے اور وھابیوںسے بچا هوا تمام سامان غارت كردیا، اس طرح شب وروز لوٹ مار هوتی رھی، اور اس وقت جو شخص بھی شھر میں داخل هوتا تھا وہ قتل هوجاتا تھا، اور جب ھم نے وھابی مذھب كے اصول وفروع اور اس كے ایجاد كرنے والے كا حسب ونسب معلوم كیا تو كسی نے نھیں بتایا، كیونكہ اس شھر كے رہنے والے افراد عثمانی بادشاهوں كے تحت تاثیر اور نسبتاً كم عقلی كی وجہ سے ان كے بارے میں نھیں جانتے تھے اور اس كے معلوم كرنے كی ضرورت بھی نھیں سمجھتے تھے۔
سید عبد اللطیف شوشتری نے كتاب ”تحفة المعالم“ میں شھر كربلا پر وھابیوں كے حملے كا ذكر كیا ھے اور وھابیوں كے بعض عقائد كو لكھا ھے جس كو ھم نے باب پنجم میں ذكر كیا ھے، یھاں پر یہ بات قابل ذكر ھے كہ مذكورہ كتاب ”تحفة المعالم“1216ھ كی تالیف ھے یعنی جس سال كربلائے معلی پر وھابیوں كا حملہ هوا ھے اور اس كتاب كا ضمیمہ دوسال بعد بنام ”ذیل التحفة“ كے نام سے لكھا گیا ھے۔
مرحوم میرزائے قمی كا وہ خط جس میں وھابیوں كے بارے میں ان كے كربلا كے حملہ كے ضمن میں ذكر هوا ھے جس كو ھم نے عبد الرزاق دنبلی كی تفصیل كے ساتھ باب پنجم میں بیان كیا ھے۔
اس سلسلہ میں رضا خان ہدایت صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ1216ھ كے آخری حصے میں 18 ذی الحجہ عید غدیر صبح كے وقت سعود اور اس كے لشكر نے حضرت امام حسین ں كے روضہٴ مبارك پر حملہ كردیا اور بے خبری كے عالم میں شھر پر قبضہ كرلیا، اس وقت شھر كے بھت سے افراد زیارت امام علی (ع) كے لئے نجف اشرف گئے هوئے تھے اور صرف كمزور او ربوڑھے زاہد و عابد حضرات موجود تھے وہ لوگ روضہ امام حسین ں میں نماز اور عبادت میں مشغول تھے وھابیوں نے تجّار اور حرم میں ساكن افرادكے كئی لاكھ تومان غارت كردلئے اور بھت زیادہ كفر اور الحاد كا مظاھرہ كیا او رتقریباً چھ گھنٹوں میں سات ہزار علماء او رمحققین كو قتل كرڈالا، اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں پر وہ ظلم كیا كہ ان كے خون سے سیلاب جاری تھا، حق پرست اور متقی لوگ جو حضرت امام حسین ں كے ساتھ رہكر شھادت كے درجہ پر فائز هونا چاھتے تھے لیكن اس زمانہ میں نھیں تھے انھیں حضرت كی بارگاہ میں جام شھادت مل گیا اور شہدائے كربلا كے ساتھ ملحق هوگئے۔
”میرزا محمد تقی سپھر “رقمطراز ھیں :”عبد العزیز نے جس وقت نجف اشرف كا رخ كیا اور حضرت كے روضہٴ مبارك پر حملہ كرنا چاھا او رنجف اشرف كے گنبد كو گرانا چاھا اور وھاں پر زیارت كرنے والوں كو جنھیں وہ اپنے خیال میں بت پرست جانتا تھا ان سب كو قتل كرنا چاھا تو اس نے سعود كی سرداری میں ایك لشكر تیار كیا اور نجف كی طرف روانہ كیا اس لشكر نے نجف اشرف كا محاصرہ كرلیا، قلعہ پر كئی حملے بھی كئے لیكن كوئی كامیابی حاصل نھیں هوئی، مجبوراً اس نے واپسی كا ارادہ كیا اور وھاں سے كربلا ئے معلی كا رخ كیا بارہ ہزار كے لشكر كے ساتھ طوفان كی طرح كربلائے معلی پر حملہ كردیا وہ دن عید غدیر كا دن تھا۔
شھر میں داخل هونے كے بعد انھوں نے پانچ ہزار لوگوں كا خون بھایا حضرت امام حسین كی ضریح مقدس كو بھی توڑ ڈالا، وھاں موجود قیمتی سامان جومختلف ممالك كے شیعوں كے ذریعہ بطور نذر وھاں آیا تھا سب غارت كردیا بھترین قندیلوں كو توڑ ڈالا سونے كی اینٹوں كو حرم مطھر كے دالان سے نكال لیا حرم مطھر میں ھر ممكن توڑ پھوڑ كی، اور چھ گھنٹے كی اس قتل وغارت كے بعد شھر سے باھر نكل گئے اورنفیس اور قیمتی سامان كو اپنے اونٹوں پر لاد كر درعیہ شھر كی طرف نكل گئے۔
قارئین كرام!جناب سپھر صاحب كی یہ عبارت دوسرے موٴلفوں سے فرق كرتی ھے،اسلئے كہ وھابیوں نے پھلے كربلا ئے معلی پر حملہ كیا اس كے بعد نجف اشرف پر حملہ كیا ھے مگر یہ احتمال دیا جائے كہ ان كی مراد قبیلہ خزاعل كے ذریعہ دفع شدہ حملہ هو جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں آئے گی۔