عثمانیوں اور انقلاب حجاز سے شریف حسین كی مخالفت
عثمانی تركوں نے دسویں صدی ہجری (سلطان سلیم كے زمانہ) سے عرب كی سر زمین پر اپنے نفوذ میں اضافہ كیا اور عرب كے اھم علاقے یا بعض امور میں عرب كے تمام علاقے عثمانی حكومت كے ما تحت تھے لیكن عربوں نے عثمانی حكومت كے برخلاف ھمیشہ آواز اٹھائی اور قیام كرتے رھے، اور مختلف علاقوں جیسے عَسِیر، نجد اور سوریہ سے علم مخالفت بلند هوتے رھے۔
حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ اس حقیقت كاانكار نھیں كیا جاسكتاھے كہ عثمانی افراد جنگجو اور فاتح تھے، لیكن اھل علم و ثقافت نھیں تھے بلكہ ھمیشہ جنگ وجدال اور ویران گری كرتے تھے، جس كی بنا پر ترك اور عرب علاقے جو ایك طولانی مدت تك ان كے زیر اثر رھے وہ پسماندگی كے عالم میں رھےبلكہ تنزّل ھی كرتے رھے، یھی وجہ تھی كہ عرب اور ترك كے آزادی خواہ افراد ایك دوسرے كے ساتھ متحد هوگئے اور مخفی طور پر كمیٹیاں بنانے لگے، اور آشوب برپا كرنے لگے، یھاں تك كہ سلطان عبد الحمید (سلطان عثمانی) كی حكومت ختم هوگئی اور عثمانی حكومت كی طرف سے قانونی حكومت كا اعلان هو گیا۔
عرب كے جوانوں كو یہ امید تھی كہ ھماری اس سر زمین میںقوانین كی وجہ سے كچھ اصلاحات انجام پائیں گی، لیكن ان كی امید كے برخلاف عثمانیوں نے اپنا رویہ ذرہ برابر بھی نھیں بدلا، اور گذشتہ زمانہ كی طرح عثمانی حكّام ،حاكم اور عرب محكوم رھے ،انھیں ان تمام وجوھات كی بناپر عربوں نے اپنے حقوق حاصل كرنے كی سوچی، اور مخفی كمیٹیوں كے علاوہ سیاسی پارٹیاں بھی بنائیں جن میں سے چند ایك اھم پارٹیاں اس طرح ھیں:
”جمعیت قَحطانی“ جو1909ء میں اسلامبول میں تشكیل پائی۔
”جمعیت عہد“ جوجمعیت قحطانی كا ایك حصہ تھی1913ء میں تشكیل پائی۔
”جمعیت لامر كزیہ“ جو1912ء میں مصرمیں سید رشید رضا اور ان كے ساتھیوں كے ذریعہ وجود میں آئی۔
چنانچہ آہستہ آہستہ ان جمعیتوں كے شعبہ جات دوسرے عربی شھروں میں بھی كھلنے لگے، مثلاً بغداد، دمشق، حلب، حمص، حماة اور بیروت وغیرہ میں ۔
1912ھ اور1913ھ میں عربی اور عثمانی اخباروں میں شدید مقابلہ بازی شروع هوگئی، بعض عثمانی مقالہ نگار اپنے مقالوں میں عربوں پر طعنہ كرتے تھے اور ان میں سے كچھ لوگوں پر جو اصلاحات كا دم بھرتے تھے اتھام اور تھمت لگاتے تھے كہ تم لوگ تو غیروں كے قبضے میں هو، اور ایسی جماعتوں انگریز ادارہ كررھے ھیں۔
ادھر عربی طالب علم پیرِس میں ایك انجمن بنانے كی فكر میں پڑگئے، اسی طرح مصر كی ”لامركزی جمعیت“ كو پیشكش كی كہ عربوں كو ان كے حقوق ملنے چاہئے، چنانچہ اس جمعیت كی شورائے عالی نے ان كی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور اپنی طرف سے كچھ نمائندے بھی پیرِس بھیج دیئے اور1913ء میں پیرِس كی جمعیت جغرافیائی كے بڑے ھال میں طلباء كی انجمن تشكیل پائی۔
ان تمام چیزوں كو دیكھتے هوئے عثمانیوں نے مزید شدت عمل اختیار كرلی اور بیروت میں بعض اصلاح طلب افراد كو گرفتار كرلیا، لیكن عوام كی طرف سے عكس العمل یہ هوا كہ بازاز بند هوگئے، چنانچہ عثمانیوں نے سوچا كہ كسی دوسرے راستہ كو اپنایا جائے اور وہ یہ كہ عربوں كے ساتھ ظاھری طور پر صلح ودوستی كی جائے لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ دوسری تدبیریں بھی كی جائیں، اور ان كا یہ حیلہ كارگر بھی ثابت هوا، اوروہ یہ كہ خود اصلاح طلب لوگوں میں اختلاف هوگیا، مذكورہ تدبیر یہ تھی كہ ان میں سے بعض لوگوں كو بلند مقام دیا جائے مثلاً سید عبد الحمید زھراوی جو پیرس انجمن كے صدر تھے ان كو مجلس اعیان كا ممبر بنادیا گیا اور دوسرے چند اصلاح طلب جوانوں كو اھم كاموں میں مشغول كردیا گیا۔
ہ دیكھ كر عرب كے جوانوں میں ان كی نسبت غصہ بھڑك اٹھا اور انھوں نے یہ كہنا شروع كردیا كہ انھوں نے امانت میں خیانت كی ھے (جس كی وجہ سے ان لوگوں كو یہ بڑے بڑے عہدے مل گئے) جبكہ ھم لوگوںكو ان پر اعتماد تھا۔
ان تمام واقعات كو كچھ ھی دیر گذری تھی كہ عالمی جنگ شروع هوگئی، اور جیسا كہ ھم بعد میں بیان كریں گے عثمانی حكومت كی حالت بدل گئی۔
انقلاب كی ابتدا اور خلافت شریف حسین كی داستان
عثمانی حكومت كے عہدہ داروں كے درمیان یہ بات مشهور هوگئی تھی كہ شریف حسین مخفی طور پر كچھ خاص كام انجام دے رھے ھیں اور اپنے كو تركوں سے الگ كرنا چاھتے ھیں، اور ان كے لڑكوںنے مصر سے گذرتے وقت ”بالُرد كِیچنر“ (انگلینڈ كا مشهور ومعروف سیاستمدار) سے گفتگو كیھے تاكہ ان كی اس سلسلے میں مدد كرے، اور اسی طرح یہ بات بھی مشهور هوئی كہ شریف حسین كا ارادہ صرف تركوں سے جدا هونے كا نھیں ھے بلكہ اس كی كوشش عثمانیوں سے حكومت بھی چھین لےنے كی ھے۔
عثمانیوں نے اس احتمالی خطرے سے نپٹنے كے لئے اپنے ایك شخص ”وُھیب بك“ كو حجاز كا والی بناكر بھیجا تاكہ وہ جاكر اس مھم كو ختم كردے۔
شریف كے خلاف جو منصوبے بنائے جاتے تھے وہ ان سب سے آگاہ هوجا تے تھے اور اپنی دور اندیشی سے وہ ان كے جال سے بچنے كی كوشش كرتے رھتے تھے، اس موقع پر عثمانی حكومت انگلینڈ اور فرانس كی ضدمیں جرمنی كے ساتھ متحد هوگئی، او ران دونوں ملكوں سے اعلان جنگ كردیا تھا، ادھر انگلینڈ كی حكومت نے شریف حسین سے (لرد كیچنركے ذریعہ) هوئی گفتگو كو آگے بڑھایا اور دونوں نے آپس میں اپنا ایك پروگرام بنالیا۔
اس كے بعد برٹین كے حكومتی افراد اور شریف حسین كے درمیان خط وكتابت هونے لگی، چنانچہ ان خطوط كی عبارت كتاب جزیرة العرب فی القرن العشرین اور 2كتاب الثورة العربیة الكبریٰ میں موجود ھے۔ 3
ان خطوں میں سے ایك خط جس پر ”سر آرٹرماكماهون“ كے دستخط ھیں اس طرح وضاحت كی گئی ھے كہ انگلینڈ عربی ممالك كا استقلال چاھتا ھے اور جب خلافت كا مسئلہ بیان هوگا تو وہ اس كو پاس كردیگا، اسی طرح ماكماهون ایك دوسرے خط میں لكھتا ھے كہ ھم ایك بار پھر اس بات كو واضح طور پر كھتے ھیں كہ بادشاہ كبیر برٹین اس بات پر راغب ھیں اور خوش آمد كھتے ھیں كہ خلافت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت ركھنے والے عرب كے ایك حقیقی شخص كوھی ملنی چاہئے۔
مختلف وجوھات كی بناپر شریف حسین نے عثمانیوں كی مخالفت شروع كردی، ان میں سب سے اھم انگریزوں كا وہ وعدہ تھا جس میں مدد كا عہد وپیمان كیا گیا تھا۔
اس سلسلہ میں ”كولو نل لُورَنس“ نامی انگریز كی كوششوں كو بھی مد نظر ركھا جائے جو مدتوں سے حجاز میں رھا اور كافی عرصے سے جزیرہ نما عربستان میں عربی لباس پہن كر گھوما كرتا تھااور حجاز كے انقلاب كے وقت یعنی1334ھ میں شریف حسین اور اس كے دوستوں نے ”لورنس“ جو انگلینڈ كے ٹیلیفون آفس میں كام كرتا تھا، اس سے درخواست كی كہ مدینہ اور اس كے قرب وجوار میں هورھی جنگ كی مكمل طریقہ پر رپورٹ پیش كرے اور دونوں طرف سے میدان جنگ كی ضرورتوں كو بیان كرے تاكہ ضروری سامان بھیجا جاسكے، لورنس (مدینہ میں) فیصل اور شریف حسین كے بیٹے علی سے ملحق هوگیا، اور سپاہ كی مدد كرنے لگا، اور اپنے مشاہدات اور جستجو كے نتائج كو بھت جلد بھیج دیتا تھا، یھی نھیں بلكہ انگلینڈ كی مدد بھی یكے بعد دیگرے پهونچتی رھی، چنانچہ شریف حسین كی مدد كے لئے چار هوائی جھاز بھیجے گئے۔
بھر حال پھلے مدینہ اور پھر مكہ میں شریف حسین اور عثمانی سپاھیوں میں جنگ كا آغاز هوا، اس وقت مدینہ میں عثمانی لشكر كا سردار عثمانی حكومت كانامور شخص فخری پاشا تھا۔
ہ لشكر عثمانی حكومت كی طرف سے مضبوط اور طاقتورهوتا رھا، شریف بھی اپنی طاقت كو جمع كرنے میں مشغول رھا اور قرب وجوار كے روٴسا سے مدد طلب كرتا رھا اور شریف كے بیٹوں نے بھی اپنے باپ كی ھر ممكن مدد كی چاھے وہ سیاسی هو یا كسی دوسرے طریقہ سے۔
لڑائی كا آغاز 9 جنوری1916ء كو مدینہ میں شروع هوا، فخری پاشا نے شریف كے لشكر كو شكست دیدی، اس كے بعد بھی مقابلہ هوتا رھا، اور چونكہ فخری پاشا بھت قدرتمند تھا شریف نے مجبوراً انگلینڈ سے مدد مانگی، چار مھینے كی لگاتار گفتگو كے بعد مصر او رانگلینڈ كے كچھ سپاھی اس كی مدد كے لئے پهونچے جبكہ شریف كی امید یں اس سے كھیں زیادہ تھیںاور یھیں سے انگلینڈ كی بنسبت شریف حسین كی مایوسی شروع هوگئی۔
شریف نے طاقت اور قوت كو جمع كرنے كی بھت كوشش كی، ادھر عالمی جنگ بھی ختم هونے والی تھی اور اس جنگ كے خاتمہ پر عثمانی حكومت كا بھی خاتمہ هوجانا تھا۔
ادھر عالمی جنگ ختم هوئی، ادھر شریف حسین نے مدینہ میں فخری پاشا كو گھیر لیا (كیونكہ عالمی جنگ كے آخر میں عثمانی حكومت اس حالت میں پهونچ گئی تھی كہ فخری پاشا كی مدد نھیں كرسكتی تھی) چنانچہ اسی مدت میں ترك فوج كو حجاز سے واپس بلالیا گیا جس كا نتیجہ یہ هوا كہ شریف حسین نے بغیر كسی زحمت اور مشكل كے حجاز پر اپنا سكّہ جمالیا۔