اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

یہ آیت کریمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حیات میں اس دقت نازل ہوئی ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تھے اور اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری چادر اوڑھادی اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، خدایا یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، تو ام سلمہ نے گذارش کی کہ حضو ر میری جگہ کہاں ہے؟ فرمایا تم منزل خیر پر ہو … یا … تمہارا انجام بخیر ہے۔

دوسری روایت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کی کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟

تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

ایک دوسری روایت کی بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادراٹھاکر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھینچ لیا اور فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

مسلمان محدثین اورمورخین نے اس تاریخی عظیم الشان واقع کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے اور بقول علامہ طباطبائی طاب ثراہ اس سلسلہ کی احادیث ستر سے زیادہ ہیں، جن میں سے اہلسنت کی حدیثیں شیعوں کی حدیثوں کے مقابلہ میں اکثریت میں ہیں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعید خدری، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پیغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی (ع) سے تقریباً چالیس طریقوں سے نقل کی ہے جبکہ شیعہ حضرات نے امام علی (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابولیلیٰ ، ابواسود دئلی ، عمر ابن میمون اور دی اور سعد بن ابی وقاص سے تیس سے کچھ زیادہ طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن 16 / 311)

مؤلف، عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ان تمام احادیث کو فریقین نے امام علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعید خدری ابولیلیٰ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہلسنت(ع) نے امام حسین (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زینب بنت ابی سلمہ ، صبیح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابی سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کیا ہے جس طرح کہ اہل تشیع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع)سے نقل کیا ہے اور ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جن سے اہلبیت (ع) کے مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے چاہے آیت تطہیر کے نزول کا ذکر ہو۔

مختصر یہ ہے کہ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے یقینی ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح… بالخصوص اسلام نے اہلبیت(ع) کے موارد کی تعیین بھی کردی ہے کہ اب اس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور نہ عنوان اہلبیت (ع) میں کوئی زوجہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اسے مشکوک بنایا جاسکتاہے۔

اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبیت (ع) کو انھیں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئی خاص دخل ہدایت امت میں تھا اور اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں نظر آئیں گی۔

اس کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت 33 کا مضمون بھی ان تمام روایات کی تائید کرتاہے جو شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور ان سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اہلبیت (ع) کے مصداق کے بارے میں شک و شبہہ کسی طرح کی علمی قدر و قیمت کے مالک نہیں ہے۔

 

رمز عظمت مسلمین

زیر نظر کتاب میں اہلبیت (ع) کی معرفت، ان کے خصائص و امتیازات، ان کے علوم وحقوق اور ان کی محبت و عداوت سے متعلق جن احادیث کا ذکر کیا گیاہے… ان سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرم نے انتہائی واضح اور بلیغ انداز سے اپنے بعض قرابتدار حضرات کو امت کا سیاسی ،علمی اور اخلاقی قائد بنادیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ حقیقی اسلام سے وابستہ رہنے اور ہر طرح کے انحراف و ضلال سے بچنے کے لئے انھیں اہلبیت (ع) سے وابستہ رہیں تا کہ واقعی توحید کی حکومت قائم کی جاسکے اور اپنی عزت و عظمت کو حاصل کیا جاسکے کہ اس عظیم منزل و منزلت تک پہنچنا قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ آیت تطہیر کے اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے والے شکوک و شبہات کی تفصیل جناب سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب ” اہل البیت (ع) کی آیہ تطہیر“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث درج کردی ہے۔

غالیوں سے برائت

واضح رہے کہ حقیقی شیعہ کسی دور میں بھی اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو کا شکار نہیں رہے ہیں اور انھوں نے ہر دور میں غالیوں سے برائت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔

اہلبیت (ع) علیہم السلام کی تقدیس و تمجید اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ان کا عمل تمامتر آیات قرآنی اور معتبر احادیث کی بنیاد پر رہاہے جس کے بارے میں ایک مستقل باب اس کتاب میں بھی درج کیا گیاہے۔

 

 

داستان مصائب اہلبیت (ع)

عالم اسلام کا سب سے زیادہ المناک باب یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشادات اور سرکار دو عالم (ع) کے مسلسل تاکیدات کے باوجود اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ایسے ظلم و ستم کا نشانہ رہے ہیں جن کے بیان سے زبان عاجز اور جن کے تحریر کرنے سے قلم درماندہ ہیں … بلکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر سرکار دو عالم نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہوتا تو امت اس سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتی تھی اور مختصر منظوم میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر غم و الم ، رنج و اندوہ کو مجسم کردیا جائے تو اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کا مرقع دیکھا جاسکتاہے۔

یہ مصائب اس قابل ہیں کہ ان پر خون کے انسو بہائے جائیں اور اگر ان کی مکمل وضاحت کردی جائے تو صاف طور پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن مجید کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ اور مسلمانوں کے انحطاط کا سبب اور راز کیا ہے۔

اور حقیقت امریہ ہے کہ یہ داستان مصائب اہلبیت (ع) کی داستان نہیں ہے بلکہ ترک قرآن کی داستان ہے اور دستور اسلامی کو نظر انداز کردینے کی حکایت ہے۔

 

امت اسلامیہ کی بیدارمغزی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر میں امت اسلامیہ کے تمام گذشتہ ادوار سے زیادہ بڑھتے ہوئے اسلامی شعور اور اسلامی انقلاب کے زیر اثر اسلامیات سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے وہ موقع فراہم کردیا ہے کہ امت علوم اہلبیت علیہم السلام کے چشموں سے سیراب ہو اور مسلمان کتاب و سنت اور تمسک بالثقلین کے زیر سایہ اپنے کلمہ کو متحد بنالیں۔

قرآن و اہلبیت (ع) کے نظر انداز کرنے کی داستان تمام ہو اور امت رنج و الم، غم و اندوہ کے بجائے سکون و اطمینان کی طرف قدم آگے بڑھائے جس کے لئے زیر نظر کتاب ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد باقی ذمہ داری امت اسلامیہ اور اس کے علماء و زعماء کرام پر ہے!۔

قسم اول :مفہوم اہل البیت (ع) 

ازدوا ج پیغمبر ا کرم اور مفہوم اہلبیت (ع)

1 ۔ ام سلمہ (ع)

1 ۔ عطا ء بن یسار نے جناب ام سلمہ(ع) سے روایت کی ہے کہ آیت ” اِنّمَا یُرِید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ ”خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں“۔ (مستدرک علی الصحیحین 3 ص 158 / ص 4705 ، سنن کبریٰ 2 ص 214 / ص 2861 )۔

2 ۔ عطاء بن یسار راوی ہیں کہ جناب ام سلمہ (ع) نے فرمایا کہ آیت انّما یرید اللہ …… میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جب رسول اکرم نے علی (ع) فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جس کے بعد ام سلمہ (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو آپ نے فرمایا تم ” اَھلِی خَیْر“ ہو اور یہ اہلبیت (ع) ہیں خدایا میرے اہل زیادہ حقدار ہیں۔

( یہ لفظ مستدرک میں اسی طرح وارد ہوا ہے حالانکہ بظاہر غلط ہے اور اصل لفظ ہے ” علیٰ خیر“ جس طرح کہ دیگر روایات میں وارد ہوا ہے)۔

3 ۔ ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جس کے بعد میں نے عرض کی کہ یا رسول (ع) اللہ کیا میں اہلبیت میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے اور تم ازدواج رسول میں ہو۔ (تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) ص 70 ، ص 127 ، حالات امام حسین (ع) ص 73 ، ص 106 تاریخ بغداد ص 9 ص 126 ، المعجم الکبیر 3 ص 52 / 2662)۔

4 ۔ ابوسعید حذری جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے ان کے سرپر ایک خیبری چادر اوڑھادی اور فرمایا خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت (ع) لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور اس طرح پاک رکھنا جو تطہیر کا حق ہے۔ جس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا میں ان میں سے نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص 7)۔

5 ۔ابوسعید خدری نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور میں دروازہ پر بیٹھی تھی ، جب میں نے پوچھا کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے اور تم ازواج رسول میں ہو، اس وقت گھر میں رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) اور حسین (ع) تھے ” رضی اللہ عنہم“ ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔

6 ۔ ابوہریرہ نے جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اکرم کے پاس ایک پتیلی لے کر آئیں جس میں عصیدہ (حلوہ) تھا اور اسے ایک سینی میں رکھے ہوئے تھیں، اور اسے رسول اکرم کے سامنے رکھدیا۔

تو آپ نے فرمایا کہ تمھارے ابن عم اور دونوں فرزندکہاں ہیں ؟ عرض کی گھر میں ہیں فرمایا سب کو بلاؤ تو فاطمہ (ع) نے گھر آکر علی (ع) سے کہا کہ آپ کو اور آپ کے دونوں فرزندوں کو پیغمبر اکرم نے طلب فرمایاہے۔

جس کے بعد ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جیسے ہی سب کو آتے دیکھا بستر سے چادر اٹھاکر پھیلادی اور اس پر سب کو بٹھاکر اطراف سے پکڑ کر اوڑھادیا اور داہنے ہاتھ سے طرف پروردگار اشارہ کیا مالک یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 7)۔

7۔ حکیم بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کے سامنے علی (ع) کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آیت تطہیرانھیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، اتنے میں فاطمہ (ع) آگئیں تو میں انھیں روک نہ سکی، پھر حسن (ع) آگئے تو انھیں بھی نانا اور ماں کے پاس جانے سے روک نہ سکی، پھر حسین (ع) آگئے تو انھیں بھی منع نہ کرسکی اور جب سب ایک فرش پر بیٹھ گئے تو حضور نے اپنی چادر سب کے سر پر ڈال دہی اور کہا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اور میں ؟ تو حضور نے ہاں نہیں کی اور فرمایا کہ تمہارا انجام خیر ہے( تفسیر طبری 22 ص 8)۔

8 ۔ شہر بن حوشب جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) پر چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا ۔

جس پر میں نے عرض کی کہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں ؟ تو فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 197 / 26659 ، سنن ترمذی 5 ص 699 /3871 ، مسند ابویعلیٰ 6 ص290 / 6985 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 62 / ص88 تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 65 ص 118 )۔

واضح رہے کہ ترمذی میں انا منہم کے بجائے انا معہم؟ ہے اور آخری تین مدارک میں خاصتی کے بجائے حامتی ہے۔

9 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے راوی ہیں کہ فاطمہ (ع) بنت رسول پیغمبر اکرم کے پاس حسن (ع) و حسین (ع) کو لے کر آئیں تو آپ کے ہاتھ میں حسن (ع) کے واسطے ایک برمہ (پتھر کی بانڈی) تھا جسے سامنے لاکر رکھدیا تو حضور نے دریافت کیا کہ ابوالحسن (ع) کہاں ہیں، فاطمہ (ع) نے عرض کی کہ گھر میں ہیں ! تو آپ نے انھیں بھی طلب کرلیا اور پانچوں حضرات بیٹھ کر کھانے لگے۔

جناب ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضور نے آج مجھے شریک نہیں کیا جبکہ ہمیشہ شریک طعام فرمایا کرتے تھے ، اس کے بعد جب کھانے سے فارغ ہوئے تو حضور نے سب کو ایک کپڑے میں جمع کرلیا اور دعا کی کہ خدایا ان کے دشمن سے دشمنی کرنا اور ان کے دوست سے دوستی فرمانا۔ (مسند ابویعلی 6 ص 264 / 6915 ، مجمع الزوائد 9 ص 262 / 14971 )

10 ۔ شہر بن حوشب نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور فرزندوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے تو ان پر ایک فدک کے علاقہ کی چادر اوڑھادی اور سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدایا یہ سب آل محمد ہیں لہذا اپنی رحمت و برکات کو محمد و آل محمد کے حق میں قرار دینا کہ تو قابل حمد اور مستحق مجد ہے۔

اس کے بعد میں نے چادر کو اٹھاکر داخل ہونا چاہا تو آپ نے میرے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل 10 ص 228 / 26808۔ المعجم الکبیر 3 ص 53 / 2664 ۔ 23 ص 336 / 779 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 64 ص 93، حالات امام حسن (ع) 65 ، ص 116 67 ،ص 120، مسند ابویعلی ٰ 6 ص 248 / 6876 ۔

11 ۔ شہر بن حوشب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم میرے پاس تھے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے، میں نے ان کے لئے غذا تیار کی اور سب کھاکر لیٹ گئے تو پیغمبر اکرم نے ایک عبا یا چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ( تفسیر طبری 22 ص 6 )۔

12 ۔ زوجہ پیغمبر جناب ام سلمہ کے غلام عبداللہ بن مغیرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے مجھے حکم دیا کہ میں علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کروں اور میں نے سب کو طلب کرلیا ، آپ نے داہنا ہاتھ علی (ع) کے گلے میں ڈال دیا اور بایاں ہاتھ حسن (ع) کے گلے میں ، حسین (ع) کو گود میں بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو سامنے، اس کے بعد دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل اور میری عترت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طریقہ سے پاک و پاکیزہ رکھنا … اور یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو میں نے عرض کی کہ پھر میں ؟ تو فرمایا کہ انشاء اللہ تم خیر پر ہو ۔( امالی طوسی (ر) 263 / 482 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 67 / 97 لیکن اس میں راوی کا نام عبداللہ بن معین ہے جیسا کہ امالی کے بعض نسخوں میں پایا جاتاہے)

13 ۔ عطا ابن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے جناب ام سلمہ کو یہ بیان کرتے سنا تھا کہ رسول اکرم ان کے گھر میں تھے اور فاطمہ (ع) ایک برمہ (ہانڈی) لیکر آئیں جس میں ایک مخصوص غذا تھی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں تو حضرت نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بلاؤ اور جب سب آگئے اور کھانا کھالیا تو ایک بستر پر لیٹ گئے جس پر خیبری چادر بچھی ہوئی تھی اور میں حجرہ میں مشغول نماز تھی تو آیت تطہیر نازل ہوئی اور آپ نے اس چادر کو سب کے اوپر ڈھانک دیا اور ایک ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) اور خواص ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا ، خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے اس گھر میں سرڈال کر گذارش کی کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں یا رسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھارا انجام خیر ہے، تمہارا انجام بخیر ہے ۔(مسند احمد بن حنبل 10 ص 177 / 26570۔ فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 587 / 994 ۔ تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 68 ص 123 ، مناقب ابن مغازلی 304 / 348 ، مناقب امیر المومنین کوفی 2 ص 161 / 638 بروایت ابویعلی ٰ کندی)۔

14 ۔ عمرہ بنت افعلی کہتی ہیں کہ میں نے جناب ام سلمہ کو یہ کہتے سنا کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی ہے جبکہ گھر میں سات افراد تھے۔

جبرئیل ، میکائیل، رسول اللہ ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ۔

میں گھر کے دروازہ پر تھی ، میں نے عرض کی حضور کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو ، اہلبیت (ع) میں نہیں ہو ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 69 ص 102 ، 68 ص 101 ، در منثور 6 ص 604 از ابن مردویہ ، خصال 403 / 113 ، امالی صدوق (ر) 381 / 4 روضة الواعظین ص 175، تفسیر فرات کوفی 334 / 454 ،از ابوسعید)۔

15 ۔ امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے امام زین العابدین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ آیت تطہیر میرے گھر میں اس دن نازل ہوئی ہے جس دن میری باری تھی اور رسول اکرم میرے گھرمیں تھے، جب آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو بلایا اور جبریل بھی آگئے آپ نے اپنی خیبری چادر سب پر اوڑھاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور سے پاک و پاکیزہ رکھنا جس کے بعد جبریل نے عر ض کی کہ میں بھی آپ سے ہوں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ہم سے ہوا ہے جبریل … اور پھر ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ اور میں بھی آپ کے اہلبیت (ع) میں ہوں اور یہ کہہ کر چادر میں داخل ہونا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، تمہارا انجام بخیر ہے ، لیکن تم ازواج پیغمبر میں ہو جس کے بعد جبریل نے کہا کہ یا محمد ! اس آیت کو پڑھو ” انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا“ کہ یہ آیت نبی ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کے بارے میں ہے ( امالی طوسی (ر) 368 / 783 از علی بن علی بن رزین)۔

 

2 ۔ عائشہ

16 ۔ صفیہ بنت شیبہ عائشہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم ایک صبح گھر سے برآمد ہوئے جب آپ سیاہ بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اتنے میں حسن (ع) آگئے تو آپ نے انھیں بھی داخل کرلیا، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بھی لے لیا ، پھر فاطمہ (ع) آگئیں تو انھیں بھی شامل کرلیا اور پھر علی (ع) آگئے تو انھیں بھی داخل کرلیا، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ( صحیح مسلم 4 / 1883 / 2424 ، المستدرک 3 ص 159 / 4707 ، تفسیر طبری 22 ص 60 اس روایت میں صرف امام حسن (ع) کا ذکر ہے، السنن الکبری ٰ 2 ص 212 / 2858 ، المصنف ابن ابی شیبہ 7 ص 502 / 39 مسند اسحاق بن راہویہ 3 ص 278 / 1271 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 63 / 113 )

17 ۔ عوام بن حوشب نے تمیمی سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا توانھوں نے یہ روایت بیان کی کہ میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع) کو بلایا اور فرمایا کہ خدا یہ میرے اہلبیت (ع)ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔ (امالی صدوق (ر) 5 ص 382)

18 ۔ جمیع بن عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری والدہ نے سوال کیا کہ آپ فرمائیں رسول اکرم کی محبت علی (ع) کے ساتھ کیسی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ تمام مردوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ نے انھیں اور فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کو اپنی ردا میں داخل کرکے فرما یا کہ خدا یا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔

جس کے بعد میں نے چاہا کہ میں بھی چادر میں سرڈال دوں تو آپ نے منع کردیا تو میں نے عرض کی کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟ تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو، بیشک تم خیر پر ہو ، (تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 164 ، 642 ، شواہد التنزیل 2 ص 61 / 682 ، 684 ، العمدة 40 / 23 مجمع البیان 8/ 559 ۔

واضح رہے کہ تاریخ دمشق میں راوی کا نام عمیر بن جمیع لکھا گیا ہے جو کہ تحریف ہے اور اصل جمیع بن عمیر ہے جیسا کہ دیگر تمام مصادر میں پایا جاتاہے اور ابن حجر نے تہذیب میں تصریح کی ہے کہ جمیع بن عمیر التیمی الکوفی نے عائشہ سے روایت کی ہے اور ان سے عوام بن حوشب نے نقل کیا ہے ۔!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی علیہ السلام اور نا اہل گورنروں كا تقرر
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت زھرا(ع) اور حضرت مہدی(عج)
اونٹوں کي تقسيم اور حضرت علي عليہ السلام
امام حسن(ع) کی شہادت کے وقت کے اہم واقعات
فاطمہ (س) کا مہر
عزت امام حسین (ع) کی نگاہ میں
صحیفہ امام رضا علیہ السلام
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں

 
user comment