کربلا میں ورود
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو گئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرئہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔
صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔
امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسھر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ابن زیاد نے خط مانگا۔قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیاابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔
عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حرنے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ا س نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں ،یا آپ کو قتل کر دوں۔امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔اَلقَاہُ مِن یَدِہاور اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلاپہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔
دوسری محرم ۶۱ ء ہجری
دوسری محرم الحرام ۶۱ ھجری کو آپ کا کربلا میں ورود ہوا۔آپ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھا۔آپ کے نام ابن زیاد کاخط آیا،اسی تاریخ کو آپ کے حکم سے برلبِ فرات خیمے نصب کئے گئے۔ حرنے مزاحمت کی اور کہا کہ فرات سے دور خیمے نصب کیجئے۔ عباس ابن علی کو غصہ آگیا امام حسین (ع) نے غصہ کوفروکیا۔اور بقول علامہ اسفر ائنی ۳یا۵میل کے فاصلہ پر خیمے نصب کئے گئے نصبِ خیام کے بعد ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوئے تھے۔کہ چند اشعار آپ کی زبان پر جاری ہوئے۔جنابِ زینب نے جونہی اشعار کو سنا اس درجہ روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں۔امام نے رخسار پر پانی چھڑک کر باہوش کیا پھر آلِ محمد داخل خیمہ ہوئے۔اس کے بعد ساٹھ ہزار درہم پر ۱۶مربع میل زمین خرید کر چند شرائط کے ساتھ انھیں کو ہبہ کر دی۔
تیسری محرم الحرام یوم جمعہ
تیسری محرم الحرام یوم جمعہ کو عمر ابن سعد۵،۶اور بقول علامہ اربلی ۲۲ ہزار سوار و پیادے لے کر کربلا پہنچا اور اس نے امام حسین (ع) سے تبادلہ خیالات کی خواہش کی۔حضرت نے ارادہ کوفہ کا سبب بیان فرمایا۔اس نے ابن زیاد کوگفتگو کی تفصیل لکھ دی اور یہ بھی لکھا کہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ اگر اب اہل کوفہ مجھے نہیں چاہتے تو میں واپس جانے کوتیارہوں ۔ابن زیاد نے عمر بن سعد کے جواب میں لکھا کہ اب جب کہ ہم نے حسین (ع) کو چنگل میں لے لیا ہے تو وہ چھٹکارا چاہتے ہیں۔لات حین مناص۔یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ان سے کہہ دو کہ یہ اپنے تمام اعزاواقرباسمیت بیعت بزید کریں یاقتل ہونے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔میں بیعت سے پہلے ان کی کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں اسی تیسری تاریخ کی شام کو حبیب ابن مظاہر قبیلہ ابنی اسد میں گئے ا ور ان میں سے جانبازامداد حسینی کے لیے تیار کئے وہ انھیں لارہے تھے کہ کسی نے ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔اس نے ۴۰۰ سوکالشکر بھیج کر اس کمک کو روکوا دیا۔
چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ۔ہفتہ
چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ کوابن زیاد نے مسجد جامع میں ایک خطبہ دیا جس میں اس نے امام حسین (ع) کے خلاف لوگوں کو بھڑکایااور کہا کہ حکم یزید سے تمھارے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں تم اس کے دشمن حسین (ع) سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاؤ۔اس کے کہنے سے بے شمار لوگ آمادئہ کر بلا ہو گئے اور سب سے پہلے شمر نے روانگی کی درخواست کی ۔چنانچہ شمر کو چارہزار،ابن رکاب کو دوہزار،ابن نمیر کو چار ہزار ،ابن رھینہ کوتین ہزار،ابن خرشہ کو دو ہزار سواردے کر روانہ کر بلا کردیا گیا۔
پانچویں محرم الحرم یوم یک شنبہ۔ اتوار
پانچویں محرم الحرام یوم یک شنبہ اتوار کو شیث ابن ربعی کو چار ہزار،عروہ ابن قیس کو چار ہزار سنان ابن انس کو دس ہزار،محمد ابن اشعث کو ایک ہزار ۔عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔
چھٹی محرم الحرام بروز پیر
چھٹی محرم الحرام بروز پیر کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار کعب ابن الحروکوتین ہزار،حجاج ابن حرکوایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کر نے کے بعد ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو لکھا کہ اب تک تجھے اسی ہزار کا کوفی لشکر بھیج چکا ہوں،ان میں حجازی اور شامی شامل نہیں ہیں۔تجھے چاہئے کہ بلاحیلہ حوالہ حسین کو قتل کر دے۔ اسی تاریخ کو خوبی ابن یزید نے ابن زیاد کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں عمر ابن سعد کے لیے لکھا کہ یہ امام حسین(ع) سے رات کو چھپ کر ملتا ہے۔اور ان سے بات چیت کیاکرتا ہے۔ابن زیاد نے اس خط کو پاتے ہی عمر سعدکے نام ایک خط لکھا کہ مجھے تیری تمام حرکتوں کی اطلاع ہے تو چھپ کر باتیں کرتا ہے۔دیکھ میرا خط پاتے ہی امام حسین (ع) پر پانی بند کر دے اور انھیں جلد سے جلد موت کے گھاٹ اتار نے کی کوشش کر۔
ساتویں محرم الحرام بروز منگل
ساتویں محرم الحرام بروزمنگل عمر ابن حجاج کو پانچ سوسواروں سمیت نہرفرات پر اس لیے مقرر کر دیا گیا کہ امام حسین (ع) کے خیمہ تک پانی نہ پہنچنے پائے پھر مزید احتیاط کے لیے چار ہزار کا لشکر دے کر حجر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر شیث ابن ربعی کو روانہ کیا گیا۔ اور پانی کی بندش کر دی گئی۔پانی بند ہو جانے کے بعد عبداللہ ابن حصین نے نہایت کر یہہ لفظوں میں طعنہ زنی کی جس سے امام حسین (ع) کو سخت صدمہ پہنچا پھر ابن حوشب نے طعنہ زنی کی جس کا جواب حضرت عباس نے دیا۔ آپ نے غالباََ طعنہ زنی کے جواب میں خیمہ سے ۱۹قدم کے فاصلہ پر جانب قبلہ ایک ضرب تیشہ سے چشمہ جاری کر دیا۔ اور یہ بتادیا کہ ہمارے لیے پانی کی کمی نہیں ہے۔لیکن ہم اس مقام پرمعجزہ دکھانے نہیں آئے بلکہ امتحان دینے آئے ہیں۔
آٹھویں محرم الحرام بروز بدھ
آٹھویں محرم الحرام بروزبدھ کی شب کو خیمہ آلِ محمد سے پانی بالکل غائب ہو گیا۔اس پیاس کی شدت نے بچوں کو بے چین کر دیا ہے۔امام حسین (ع) نے حالات کو دیکھ کر حضرت عباس کو پانی لانے کا حکم دیا آپ چند سواروں کو لے کر تشریف لے گئے اور بڑی مشکلوں سے پانی لائے۔وَلِذَالِکَ سُمِیَ العَبَّاسُ السقَاء اسی سقائی کی وجہ سے عباس(ع) کو سقاء کہا جاتا ہے۔ رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو یزید ابن حصین صحرائی نے باجازت امام حسین (ع)،ابن سعد کو فہمائش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں حسین (ع) کو پانی دے کر حکومت رے چھوڑدوں۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ابن حصین اور ابن سعد کی گفتگو کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے خیموں کے گرو خندق کھودنے کاحکم دیا۔ اس کے بعد حضرت عباس(ع) کو حکم دیا کہ کنواں کھود کر پانی برآمد کرو۔آپ نے کنواں تو کھودا۔لیکن پانی نہ نکلا۔ ۷۷
نویں محرم الحرام بروز جمعرات
نویں محرم الحرام بروز جمعرات کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور علی اکبر بھی تھے۔آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔
نویں کی صبح کو آپ نے حضرت عباس کو پھر کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔
تھوڑی دیر کے بعد امام حسین نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی آپ نے سعی بلیغ شروع کردی جب بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔فھربت الاطفال الخیام دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا حتی حفراربعا۔یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کو فہ واپس گیااور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے حکم تعمیل حکم یزید دے دیا ہے۔
ابن زیاد کا حکم پاتے ہی ابن سعد تعمیل پر تیار ہو گیا۔اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی دلیری سے اسے ٹھکرادیا ( تفصیل کے لیے ملاخطہ ہوذکر العباس از۱۷۶تا۱۸۲)
اسی نویں کی شام آنے سے پہلے شمر کی تحریک سے ابن سعد نے حملہ کاحکم دے دیا۔امام حسین (ع) خیمہ میں تشریف فرما تھے۔آپ کو حضرت زینب(ع) پھر حضرت عباس (ع) نے دشمن کے آنے کی اطلاع دی۔حضرت نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی غنودگی طاری ہو گئی تھی۔میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا۔انھوں نے فرمایا کہ انک تروح غدا حسین (ع) تم کل میرے پا س پہنچ جاؤ گے
جناب زینب رونے لگیں اور امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا کہ بھیا تم جاکر ان دشمنوں سے ایک شب کی مہلت لے لو۔حضرت عباس(ع) تشریف لے گئے اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔
محرم الحرام کے پيغام
کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے، عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کوہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔
(1) پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:
بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔“
(2) باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:
بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا، تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
(3) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہے۔
(4) حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:
آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروںا ور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔
(5) عزت کی حفاظت کرنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ : ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میںذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں.
(6) طاغوتی طاقتوں سے جنگ:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کررہا ہو، تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے سزا دی جائے گی۔“
(7) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:
دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔
(8) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا :
جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ : میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔
(9) اپنے ہدف پرآخری دم تک باقی رہنا:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میںیہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوںکے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہئے۔
(10) جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ سے کمک حاصل کرو:
کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر س طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔
(11) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیںچاہئے :
کربلا ،امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت سے نہیںگھبرانا چاہئے۔“ جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے -----۔
(12) ایثار کے ساتھ سماجی تربیت کوملا دینا:
کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام پوشیدہ ا ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا،تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک ،اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔
(13) تلوار پر خون کوفتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔
(14) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے :
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔
(15) نظام :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔
(16) خواتین کے کردار سے استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام------ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے ہی پہنچایا ہے۔
(17) میدان جنگ میں بھی یاد خدا:
جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔ میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور اللہ سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایاتھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔
(18) اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:
سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہداری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو اللہ چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔
(19) مکتب کی بقاء کے لئے قربانی:
دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنے خون و جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کردیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاںضروری ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قانون فقط آپ کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔
(20) اپنے رہبر کی حمایت ضروری ہے:
کربلا ،اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کے سروں سے اپنی بیعت کو اٹھالیا تھااور فرمایا تھا جہاں تمھارا دل چاہے چلے جاؤ۔ مگر آپ کے ساتھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور آپ کو دشمنون کے نرغہ میں تنہا نہ چھوڑا۔ شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور ظہیر ابن قین کی بات چیت قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑہے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے ،جیسے حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے میران داہنا ہاتھ جدا کردیا تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی اپنے امام ودین کی حمایت کروں گا۔
مسلم ابن عوسجہ نے آخری وقت میں جو حبیب کو وصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ امام کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان پر اپنی جان قربان کردنیا۔
(21) دنیا ، خطرناک لغزش گاہ ہے:
دنیا کے عیش و آرام و مالو دولت کی محبت تمام سازشوںا ور فتناو فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیںکیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہا یا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے انھوںنے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔
(22) توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے:
توبہ کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا، انسان جب بھی توبہ کرکے صحیح راستے پر آ جائے بہتر ہے۔ حر جو امام علیہ السلام کو گھیرکر کربلا کے میدان میں لایا تھا، عاشور کے دن صبح کے وقت باطل راستے سے ہٹ کر حق کی راہ پر آگیا۔ حر امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر اپنی جان کو قربان کرکے، کربلا کے عظیم ترین شہیدوں میں داخل ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لئے ہر حالت میں اور ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
(23) آزادی :
کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔
(24) جنگ میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے:
اسلام میں جنگ کو اولویت نہیں ہے۔ بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوںکی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ ک دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے۔ اسی لئے آپنے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں ابتداء نہیں کرےں گے۔
(25) انسانی حقوق کی حمایت:
کربلا جنگ کا میدان تھا ،مگر امام علیہ السلام نے انسانوں کے مالی حقوق کی مکمل حمایت کی۔ کربلا کی زمین کو اس کے مالکوں سے خرید کر وقف کیا۔ امام علیہ السلام نے جو زمین خریدی اس کا حدود اربع چارضر ب چار میل تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے عاشور کے دن فرمایا کہ اعلان کردو کہ جو انسان مقروض ہو وہ میرے ساتھ نہ رہے۔
(26) اللہ سے راضی رہنا:
انسان کا سب سے بڑا کمال، ہر حال میں اللہ سے راضی رہنا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔
ماہ محرم الحرام کے اعمال
واضح ہوکہ محرم کا مہینہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیر وکا روں کے لیے رنج وغم کا مہینہ ہے ۔امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو ہرکو ئی شخص والد بزرگوار امام موسی ٰکا ظم کوہنستے ہوئے نہ پاتاتھا ۔ آپ پر حزن وملال طاری رہاکرتا اور جب دسویں محرم کادن آہ وذاری کرتے اورفرماتے کہ آج وہ دن ہے جس میں امام حسین کوشہید کیاگیا تھا ۔
پہلی محر م کی رات
سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی چندنمازیں ذکر فرمائی ہیں :
۱۔ سو رکعت نماز کہ ہر رکعت میں سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھے :
۲۔ دو رکعت نماز کہ پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ انعام اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ یاسین پڑھے :
۳۔ دورکعت نماز کہ ہر رکعت میں سو رئہ الحمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے :
روا یت ہوئی ہے کہ حضرت محمد نے فر ما یا کہ جو شخص اس را ت دورکعت نماز اداکرے اوراسکی صبح کوجوسا ل کاپہلادن ہے روزہ رکھے تو وہ اس شخص کے مانند ہوگا۔جوسال بھر تک اعمال خیر بجالاتارہا ۔وہ شخص اس سال محفوظ رہےگا اوراگراسے موت آجائے تو وہ بہشت میں داخل ہوجائے گا۔نیز سید نے محرم کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک طویل دعاء بھی نقل فرمائی ہے ۔
پہلی محر م کادن
یہ سال کا پہلا دن ہے اور اس کے لئے دوعمل بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ روزہ رکھے اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا سے روایت کی ہے ۔کہ جوشخص پہلی محر م کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کر ے تو وہ اس کی دعا ء قبو ل فرما ئے گا۔ جیسے حضرت زکر یا علیہ السلام کی دعاء قبو ل فر مائی تھی ۔
۲۔ امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ پہلی محرم کے دن دو رکعت نمازادا فرماتے اورنماز کے بعداپنے ہاتھ سو ئے آسما ن بلند کر کے دعاء پڑھتے تھے :
شیخ طوسی نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پئے اور بعد عصر تھوڑی سی خاک شفاکھالے سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اورفرمایاہے کہ اس مہینے کا روزے رکھنا انسان کوہر گنا ہ سے محفو ظ رکھتاہے ۔ سوائے یو م عاشو رہ کے کیو نکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے ۔
تیسر ی محرم کا دن
یہ وہ دن ہے کہ جس میں حضرت یو سف قید خا نے سے آزاد ہو ئے تھے جو شخص اس دن کا رو زہ رکھے حق تعا لی اس کی مشکلات آسان فرما تااوراس کے غم دو ر کر دیتاہے ۔ حضرت رسو ل اللہ سے روایت ہوئی ہے کہ اس دن کاروزہ رکھنے والے کی دعا قبو ل کی جا تی ہے :
نو یں محرم کادن
یہ روز تا سو عاہے امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ ۹محرم کے دن فوج یزید نے امام حسین اوران کے انصار کاگھیراؤ کرکے لوگوں کوان کے قتل پرآمادہ کیا ابن مرجانہ اورعمر سعد اپنے لشکر کی کثرت پرخوش تھے اورامام حسین کوان کی فوج کی قلت کے با عث کمزور ضعیف سمجھ رہے تھے ۔انہیں یقین ہوگیاتھا کہ اب امام حسین کاکوئی یارومدد گارنہیں آسکتا اورعراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کریں گے امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا کہ اس غریب وضعیف یعنی امام حسین پر میرے والد بزرگوارفدادقربان ہو ں ۔
دسو یں محرم کی رات
یہ شب عاشو ر ہے سید نے اس رات کی بہت سی بافضیلت نماز یں اور دعائیں نقل فرمائی ہیں ان سے ایک سورکعت نماز ہے ۔جواس رات پڑھی جاتی ہے ۔ اس نمازکی ہر رکعت میں سو رہ الحمد کے بعد تین مر تبہ سو رہ تو حید پڑھے اور نماز سے فارغ ہو نے کے بعد ستر مر تبہ کہے :
سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حو ل ولا قوةالا با اللہ العلی العظیم
پاک ترہے اللہ حمد اللہ ہی کے لیے ہے نہیں کوئی معبودسوائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور نہیں ہے کوئی حرکت وقوت مگر وہی جو خدا بلند وبرترسے ملتی ہے
بعض روایات میں ہے کہ العلی العظیم کے بعد استغفار بھی پڑھے اس رات کے آخری حصے میں چار رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت مین سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ آیتہ الکرسی دس مرتبہ سورہ توحید دس مرتبہ سورہ فلق اور دس مرتبہ سورہ ناس کی قرائت کر لے اور بعد از سلام سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے:
آج کی را ت چا ر رکعت نماز ادا کرے کہ ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورہ توحید پڑھے یہ وہی نماز امیر المومنین ہے کہ جس کی بہت ذیادہ فضیلت بیان کی گی ہے اس نماز کے بعد زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کرے حضرت رسول پر صلوات بھیجے اور ان کے دشمنوں پر بہت لعنت کرے ۔اس را ت میں بیداری کی فضیلت میں روا یت ہوئی ہے کہ اس رات کا جاگنے والا مثل اس کے ہے کہ جس نے تمام ملائکہ جتنی عبادت کی ہو ۔اس رات میں کی گی عبادت ستر سال کی عبادت کے برابرہے ۔
اگر کسی شخص کے لیے ممکن ہو تو آج رات اسے زمین کر بلا میں رہنا چاہیے جہاں وہ امام حسین کے روضہ اقدس کی زیارت کرے اور حضرت کے قرب میں شب بیداری کرے تاکہ حق تعالیٰ اس کو امام حسین کے ان ساتھیوں میں شمار کرے جو اپنے خون میں لتھڑے ہوئے تھے ۔
دسویں محرم کادن
یہ یوم عاشورہ ہے امام حسین کی شہا دت کادن ہے ۔یہ آئمہ طاہرین اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے اورحزن وملال میں رہنے کادن ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ امام علی کے چاہنے والوں اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہو ں اورگھر کیلئے کچھ نہ کما ئیں بلکہ نو حہ و ماتم اورنالہ وبکامیں لگے رہیں ۔امام حسین کیلئے مجا لس بر پا کر یں اوراس طرح ماتم وسینہ کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پرماتم کیاکرتے ہیں آج کے دن امام حسین کی زیارت عاشور پڑھیں جوتیسرے باب میں آئے گی حضرت کے قاتلوں پر بہت بہت لعنت کریں اور ایک دوسرے کوامام حسین کی مصیبت پران الفاظ میں پرسہ دیں :
اعظم اللہ اجورنابمصابنا بالحسین علیہ السلام و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من ال محمد علیہم السلام
اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر وثواب کو اسپر جوکچھ ہم امام حسین کی سوگواری میں کر تے ہیں اور ہمیں اور تمھں امام حسین کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدی کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد علیہم السلا م میں سے ہے
ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسین کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں۔خودروئیں اور دوسروں کو رلائیں رو ایت میں ہے۔ جب حضرت مو سی ٰکو حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنے اوران سے تعلیم حاصل کرنیکا حکم ہوا توسب سے پہلی با ت کہ جس پر انکے درمیان مذکرہ ومکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسی ٰ کے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد پر آنا تھاپھر ان دو نوں بز رگواروں نے ا ن مصائب پر بہت گر یہ وبکا کیا ۔
ابن عباس سے روا یت ہے کہ انہو ں نے کہا :میں مقا م میں ذی قا ر میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حضو ر گیا تو آپ نے ایک کتا بچہ نکا لاجو آپ کا لکھا ہو ا تھا اور حضرت رسو ل اللہ کا لکھوایاہو اتھا #آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا ۔اس میں امام حسین کی شہادت کا ذکر اس طرح تھا کہ شہادت کس طرح ہوگی اور کون آپ کو شہید کرے گا کون کون آپ کی مدد ونصرت کرے گااور کون کون آپ کے ہمرکاب رہ کر شہید ہو گا یہ ذکر پڑھ کر خود بھی امیر المو منین نے یہ گریہ کیااور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔مئولف کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں اتنی گنجائش ہوتی تو میں یہاں امام حسین کے کچھ مصائب کرتا ۔لیکن موضو ع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذاقارئین میری کتب مقاتل کی طرف رجوع کریں۔
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسین کے روضئہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا ۔جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ہو اور آپ کے ہمرکاب کربلا میں موجود رہا ہو آج کے دن ہزار مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے جیساکہ روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فر ماتا ہے سید نے آج کے دن ایک دعاء پڑھنے کی تا کید کی ہے جو عثرات کی مثل ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعاء عثرات ہی ہے۔ شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز اور دعاء پڑھنا چاہیے کہ جسے ہم نے اختصارکے پیش نظرترک کردیاہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاہتا ہو وہ زاد المعادمیں ملاحظہ کرے یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن امساک کریں یعنی کچھ کھائیں پیئں نہیں مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں اور عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ لوگ کھاتے ہیں۔مثلا دودھ یا دہی وغیرہ نیزآج کے دن قمیضوں کے گر یبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لو گوں کی طرح رہیں جو مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل بنائے رہیں ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ نویں اوردسویں محرم کاروزہ نہ رکھے کہ بنی امیہ اوران کے پیرو کا ر ان دو دنوں کو بڑے بابرکت تصور کرتے ہیں ۔شہادت حسین پر طعن کر تے اور ان دنو ں میں روزہ رکھتے تھے ۔انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسو ل لله کی طرف منسو ب کرکے یہ ظاہر کیا کہ ان دودنوں کاروزہ رکھنے میں بڑا ثو اب ہے ۔حالانکہ اہل بیت سے مروی کثیرحدیثیوں میں ان دودنوں اورخاص کریوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے بنی امیہ اور ان کی پیر وی کر نے والے لوگ بر کت کے خیا ل سے عاشورہ کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کرکے رکھ لیتے تھے اسی بنا ء پر امام علی رضا سے منقول ہے کہ جوشخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کارو با رچھو ڑے رہے تو حق تعا لی اسکے دنیا و آخرت سب کا مو ں کو انجام تک پہنچادے گا جو شخص یو م عاشور کو گر یہ و زاری اور رنج میں گزارے تو خدا تعالی قیامت کے دن کو اس کے لیے خوشی و مسرت کادن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں ہم اہل بیت کے دیدا ر سے روشن ہوں گی ۔مگر جو لوگ یوم عاشور کو بر کت والا دن تصور کر یں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کاخرچ لاکر رکھیں تو خق تعالی ان کی فراہم کی ہو ئی اس جنس ومال کو ان کے لیے با بر کت نہ کرے گا اورایسے لو گ قیامت کے دن یزید بن معاویہ عبید اللہ بن زیاد اور عمروبن سعد ایسے ملعون عذا بیوں کے سا تھ محشو ر ہو گا اس لیے یو م عا شو ر میں کسی انسان کو دنیا کے دھندے میں نہ پڑنا چاہیے اور اس کی بجائے گر یہ وزاری نو حہ وما تم اوررنج وغم میں مشغو ل رہنا چاہیے ۔ نیز اپنے اہل وعیا ل کوبھی آمادہ کر ے کہ وہ سینہ زنی وما تم میں اس طرح مشغو ل ہوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پرہواکرتے ہیں۔
آج کے دن روز ے کی نیت کے بغیر کھا ناپینا تر ک کیے رہیں اور عصرکے بعد تھو ڑے سے پا نی وغیر ہ سے فا قہ شکنی کریں ۔ اوردن کے تما م ہو نے تک فاقہ سے نہ رہیں آج کے دن گھرمیں سا ل بھر کے لیے غلہ وجنس جمع نہ کر ے آج کے دن ہنسنے سے پر ہیز کرے اور کھیل کو د میں ہرگزمشغول نہ ہو اور امام حسین کے قاتلو ں پر ان الفاظ میں لعنت کرے:
اللھم العن قتلۃ الحسین علیہ السلام
اے اللہ امام حسین کے قاتلوں پر لعنت کر
مولف کہتے ہیں :اس حدیث سے ظاہرہوتا ہے کہ یوم عا شورہ کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں جھو ٹ حضرت رسول کی طرف منسوب کیا گیا ہے :
اللھم ان ھذایوم تبرکت بہ بنو امیہ
اے اللہ!یہ وہ دن ہے جسکو بنو امیہ نے با برکت قراردیا
صاحبان شفا ء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اسکی تشریح فرمائی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ بنو امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر با برکت تصور کرتے تھے :
۱۔ بنو امیہ نے آج کے دن آئندہ سال کے لیے غلہ وجنس جمع کر رکھنے کومستحب جانا اوراس کو وسعت رزق اور خوش حآلی کا سبب قرار دیا چنانچہ اہل بیت کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی بار بار تردید اور مذمت کی گئی ہے ۔
۲۔ بنو امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے جیسے اہل وعیال کے لیے عمدہ لباس اور خورا ک فر اہم کرناایک دوسرے سے ملن ااور حجا مت بنو انا وغیر ہ لہذا یہ امور ان کے پیر وکا روں میں عام طور پر رائج ہو گئے۔
۳۔ انہو ں نے آج دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیر ا ہوئے۔
۴۔ انہوں نے عاشو رہ کے دن دعاء کرنے اور اپنی حاجا ت طلب کرنے کو مستحب ٹھرا یا اس لیے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور منا قب گھڑ لیے ۔ نیز آج کے دن پڑھنے کے لیے بہت سی دعا ئیں بنا ئیں اور انہیں عام کیا تا کہ لو گو ں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے ۔ چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہر وں میں منبر وں پر جو خطبے دیتے ۔ان میں یہ بیان ہو ا کر تا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضا فہ ہو ا ہے مثلا نمر ود کی آگ بجھ گئی حصرت نو ح کی کشتی کنا رے لگی فرعون کا لشکر غرق ہوا اور حضرت عیسی ٰکو یہو دیو ں کے چنگل سے نجا ت حا صل ہوئی ۔یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھو ٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس بارے میں شیخ صدوق جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمارسے سناہے کہ وہ کہتے تھے خداکی قسم !یہ امت اپنے نبی کے فر زند کو دسو یں محرم کے دن شہید کرے گی اورخد ا کے دشمن اس دن کوبابرکت دن تصور کریں گے ، یہ سب کا م ہو کر ہی رہے گااوریہ با تیں اللہ کے علم میں آچکی ہیں ۔یہ با ت تجھے اس عہد کے زریعے سے معلوم ہے جو مجھ کو امیر المو منین کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم تما ر سے عر ض کی کہ وہ لوگ امام حسین کے رو زشہادتکو کس طرح ب ابر کت قر ار دیں گے ؟تب میثم تمار رو پڑے اور کہاکہ لو گ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں یہ کہیں گے کہ آج کادن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالی ٰ نے حضرت آدم کی تو بہ قبول فر مائی ۔ حالانکہ خدائے تعالی ٰ نے ان کی توبہ ذ ی ا حجہ میں قبو ل فر ما ئی وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدا وند کر یم نے حضرت یونس کومچھلی کے پیٹ سے با ہر نکالا -حالانکہ اللہ تعالی ٰ نے ان کو ذی القعدہ میں شکم ما ہی سے نکا لاتھاوہ تصو ر کر یں گے کہ آج کے دن حضرت نو ح کی کشتی جو دی پر رکی جبکہ کشتی ۱۸ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالے ٰنے حضرت مو سی ٰ کے لیے دریا کوچیر احالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہو اتھا۔
خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس رو ایت میں مذکو ر یہ تصر یحا ت جو کہ اصل میں نبوت ومامت کی علامات ہیں اورشیعہ مسلمانوں کے بر سر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں ۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے ۔ جو ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں ۔پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لو گوں نے اپنے وہم و گمان کی بناء پر قرار دی ہو ئی چھو ٹی با توں کے مطا بق دعا ئیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخا ص کی کتابو ں میں درج ہے کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا ان کتابوں کے زریعے سے دعائیں عوام کے ہا تھو ں میں پہنچ گئی ہیں لیکن ان دعاؤ ں کا پڑھنا بدعت ہو نے کے علا وہ حرام بھی ہے ان بدعت وحرام ہے
یوم عاشو ر کے آخر وقت کھڑا ہو جائے اور حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیر المومنین علی المر تضی علیہ السلا م جنا ب فاطمتہ الزہرا علیہ السلام امام حسن مجتبٰی علیہ السلام اورباقی ائمہ علیہم السلا م جو اولادحسین علیہم السلام میں سے ہیں ان سب پر سلام بھیجے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دے اور یہ زیا رت پڑھے :
السلام علیک یاوارث ادم صفوة اللہ السلام علیک
سلام ہو آپ پر اے آدم کے وارث جو بر گزیدہ خداہیں سلام ہو آپ پر
یاوارث نوح نبی اللہ السلام علیک یا وارث
اے نوح کے وارث جو اللہ کے نبی ہیں سلا م ہو آپ پر اے ابر اہیم کے وارث
ابراہیم خلیل اللہ السلام علیک یا وارث موسی
جو اللہ کے دوست ہیں سلام ہو آپ پر اے مو سی ٰ کے وارث جو
کلیم اللہ السلام علیک یاوارث عیسی ٰروح اللہ
خد اکے کلیم ہیں سلام ہو آپ پر اے عیسی ٰ کے وارث جو خدا کی رو ح ہیں
السلام علیک یاوارث محمد حبیب اللہ السلام
سلام ہو آپ پر اے محمد کے وارث جو خد اکے حبیب ہیں سلام ہو پر
علیک یا وارث علی امیر المومنین ولی اللہ
آپ پر اے علی کے وارث جو مو منوں کے امیر اور دوست خدا ہیں
السلام علیک یا وارث الحسن الشہید سبط
سلام ہو آپ پر اے حسن کے وا رث جو شہید ہیں
رسول اللہ السلام علیک یا بن رسول اللہ السلام
سلا م ہو ا آپ پر اللہ کے رسول کے فرزند سلام ہو آپ پر
علیک یابن البشیر النذیر و ابن سید الوصیین
اے بشیر و نز یر اور وصیوں کے سر دار
السلام علیک یا بن فاطمۃ سیدة نساء العالمین
کے فرزند سلام ہو آپ پر اے فرزند فاطمہ جو
السلام علیک یا ابا عبد اللہ السلام علیک
جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں سلام ہو آپ پر اے ابو عبد اللہ سلام ہو
یاخیرةاللہ وابن خیرتہ السلام علیک یا ثار
اے خدا کے پسند یدہ کیے ہو ئے او ر پسند یدہ کے فر زند سلام ہو آپ پر اے شہید
اللہ وابن ثارہ السلام علیک ایہا الوتر الموتور
راہ خدا اورشہید کے فر زند سلام ہو آپ پر اے وہ مقتو ل جس کے قاتل قتل ہو گئے ۔
السلام علیک ایہاالامام الہادی الزکی و علی ارواح
سلام ہو آپ پراے ہدایت و پاکیزگی والے امام اورسلام ہو ان روحوں پرجو
حلت بفنائک و اقامت فی جوارک و وفدت مع
آپ کے آستاں پر سوگئیں اور آپ کی قربت میں رہی ہیں اور
زوارک السلام علیک منی مابقیت و بقی الیل والنھار
سلام ان پرجوآپ کے زائروں کے ہمراہ آئیں میراسلام ہو آپ پر جب تک زندہ ہوں اور رات دن
source : http://www.iqna.ir/