1ظاہری اختلاف :
انسان جنسیت ،نسل رنگ و علاقے کے لحاظ سے ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے البتہ یہ امور ایک دوسرےپر برتری اورامتیاز کے موجب نہیں ہوسکتے اور نہ ان سے انسان کی ماھیت میں کوئي فرق آتاہے ۔
قرآن نے ان اختلافات کو قبول کیا ہے اور تکوینی و طبیعی امور قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "یاایھاالناس انا خلقناکم من ذکرو انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقیکم 52 اے لوگو ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیداکیاہے اور گروہوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکولیکن خدا کی نظر مین سب سے عزیز وہی ہے جوسب سے زیادہ متقی و پرہیزکار ہے ۔
2 معنوی و باطنی اختلاف
معنوی اختلاف میں متعدد امور دخیل ہوسکتے ہیں جیسے صلاحیتوں کا مختلف ہونا ،ایمانی درجات کا مختلف ہونا وغیرہ ۔
صلاحیتوں کے مختلف ہونے کاسبب ذاتی ہوسکتاہے یعنی بعض افراد کی صلاحیتیں دوسروں سے کہیں بہتر ہوسکتی ہیں یا ممکن ہے کوئي اور سبب ہو جیسے آج کی دنیا میں پیداہونا کیونکہ آج کی دنیا کی ترقی و پیشرفت ماضی کے انسان کے لۓ قابل درک نہیں تھی یہی مسئلہ بعض دینی معارف کے سمجھنے میں بھی صادق آتاہے ،معصومین علیھم السلام سے مروی ہے کہ آخری زمانے میں یہ ممکن ہوسکے گا کہ لوگ سورہ توحید اور سورہ حدید کی ابتدائي آیات کو بھرپور طرح سے سمجھہ لیں گے بہر صورت اس طرح کے اختلافات گرچہ موجود ہیں لیکن دین نے تعلیمات کا ایک کم سے کم نصاب سب کے لۓ معین کیا ہے جس کا فہم و ادراک سب کے لۓ لازمی ہے اور ان اختلافات کو آزمائيش و حصول کمالات کا ذریعہ قراردیا ہے ۔
سورہ مائدہ کی 48 وین آیت میں ارشاد ہوتاہے " ما وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواءھم عماجاءک من الحق لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا ولوشاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی اتیکم فاستبقوا لخیرات "اے رسول ہم نے تم پر بھی برحق کتاب نازل کی کہ جو کتاب اسکے پہلے سے اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اسکی نگہبان بھی ہے تو جو کچہ تم پر خدا نے نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم بھی حکم کرو اور جو بات خداکی طرف سے آچکی ہے اس سے کتراکے ان لوگوں کی خواہش نفسانی کی پیروی نہ کرو اور ہم نے تم میں سے ہرایک کے واسطے (حسب مصلحت وقت ) ایک ایک شریعت اورخاص طریقہ مقررکردیا ہے اور اگرخدا چاھتا تم سب کے سب کو ایک ہی شریعت کی امت بنادیتا مگر (مختلف شریعتوں سے ) خداکا مقصود یہ تھا کہ جو کچہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہارا امتحان لے بس تم نیکیوں میں لپک کرآگے بڑہ جاؤ۔
اس آيۃ مبارکہ میں چند نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔
1 شریعت ودین کے معنی راہ کے ہیں تاہم ظاہرقرآن سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ شریعت کے معنی اخص اور دین سے کم ہیں کیونکہ انبیاء کوگرچہ اصحاب شرایع مانتا ہے لیکن تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے جو اسلام ہے 53 ان الدین عنداللہ الاسلام54 خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ،یا ماکان ابراھیم یھودیا و لانصرانیا ولکن کان حنیفامسلما 55ابراھیم نہ تو یہودی تھے اورنہ نصرانی بلکہ نرے کھرے حق پرست (مسلم، فرمانبرداربندے ) تھے ۔
2 خدانے اپنے بندوں کے لۓ صرف ایک دین یعنی دین اسلام معین فرمایا ہے اور اسی پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس ھدف تک پہنچنے کے لۓ اسے مختلف راہیں دکھائي ہیں اور انسانون کی مختلف صلاحیتوں کے مطابق ان کے لۓ مختلف آداب وسنن مقررفرمائے جنہیں ہم مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کی شریعتوں سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ خدا کسی شریعت میں کسی حکم کی مصلحت کے منقضی(ختم) ہونے اور نئي مصلحت کے وجود میں آنے سے بعض احکام کو منسوخ فرمادیتاہے ۔
3:شرایع میں اختلافات زمانے کے گذرنے ،انسان کی صلاحیتوں میں پیشرفت وترقی کی بناپربھی وجود میں آتےہیں اور خدا کی طرف سے معین کۓ گۓ فرائض و احکام شریعت انسان کے لۓ زندگی کے مختلف موقعوں پرامتحان کے علاوہ کچہ نہیں ہیں بعبارت دیگر خدانے ہرامت کے لۓ الگ شریعت و راستہ قراردیاہے اور اگر خدا چاھتا تو تمام قوموں کو ایک امت میں شامل کردیتا اور اس کے لۓ ایک شریعت اورایک طریقہ بنادیتا لیکن خدانے متعدد شرایع مقررفرماۓ تاکہ تمہیں گوناگون نعمتیں عطاکرکے تمہارا امتحان لے یہاں نعمتوں کا مختلف ہونا امتحان کے مختلف ہونے کا مستلزم ہے اور یہ امتحان فرائض و احکام شرعی سے عبارت ہیں ۔
روایات میں بھی صلاحیتوں اور درجات ایمان کے اختلاف پر توجہ کی گئي ہے ۔
مرحوم کلینی علیہ الرحمۃ کافی میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا ،کیا ہم خود کو میزان قراردیں امام علیہ السلام نے فرمایا میزان کیا ہے ؟انہوں نے کہا جو بھی ہم سے موافق ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی (اسے ہم مسلمان اوراھل نجات کے طورپر دوست رکھیں )اور جو ہمارا مخالف ہو خواہ علوی ہو یا غیر علوی اس سے بیزاری کا اظہارکريں (گمراہ و اھل ھلاکت کے طورپر )اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا کیا خداکا کلام تمہارے کلام سے زیادہ صحیح نہیں ہے ؟ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کے بارے میں خدانے فرمایاہےکہ "مگر جو مرد اور عورتیں اور بچے اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو (دارلحرب سے نکلنے کی) کوئي تدبیر کرسکتے ہیں نہ انہیں اپنی رہائي کی کوئي راہ دکھائی دیتی ہے 56،اوران لوگوں کا کیا ہوگا جو خدا سے امید رکھتے ہیں 57 ،اور ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے نیک کاموں کے ساتھ برے کام بھی کۓ ہیں 58 اصحاب اعراف کا کیا ہوگا 59؟اور مولفۃ القلوب کا کیا بنے گا ؟
حماد اپنی روایت میں زرارہ سے نقل کرتے ہیں کہ زرارہ نے کہا اس موقع پر میرے اورامام علیہ السلام کے درمیان بحث ہونے لگی ہم دونوں کی آوازبلند ہوگئي یہانتک کہ گھر سے باہر بھی آوازسنی جاسکتی تھی 60 ۔
اس حدیث میں امام علیہ السلام کی مراد یہ ہےکہ اچھايی برائي اور اھل بہشت ودوزخ ہونے کا معیار صرف شیعوں سے ہم عقیدہ ہونا نہیں ہے بلکہ امام نے فرمایا کہ وہ لوگ جو شیعہ نہیں ہیں اور قاصرہیں اور عنادبھی نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن کے اوصاف قرآن میں ذکر کۓ گۓ ہیں وہ جنت میں جائيں گے کیونکہ خدانے انہیں معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے اوران سے بیزاری کا اظہارنہیں کرنا چاہیۓ ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ "آپ لوگوں کو بیزاری سے کیا سروکارہے ایک دوسرےسے بیزاری کا اظہارکیوں کرتے ہیں ؟بعض مومنین کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اور کچہ لوگ کچہ لوگوں سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہيں اور کچہ لوگوں کی بصیرت دوسروںسے زیادہ ہے اور یہی ایمان کے درجات ہیں 61 جس کے بارے میں خدانے فرمایاہے "ھم درجات عنداللہ 62 ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر ابوذرکو معلوم ہوتاکہ سلمان کے دل میں کیاہے تو انہیں قتل کردیتے جبکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا تھا 63 ،بنابریں بحث و گفتگو میں ان تمام اختلافات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور بےجا توقع بھی نہیں رکھنا چاھیۓ ۔
ھاشم بن البرید سے روایت ہےکہ میں ،محمد بن مسلم اورابوالخطاب ایک جگہ جمع تھے ،ابوالخطاب نے سوال کیا کہ جو شخص امر امامت سے واقف نہ ہواس کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے ،میں نے کہا میرے خیال میں وہ کافرہے ابوالخطاب نے کہا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہوجاۓ وہ کافرنہیں ہے اگرحجت تمام ہوجاے اور اس کے بعد اس نے امام کونہیں پہچانا تو کافرہے ،محمد بن مسلم نے کہا سبحان اللہ اگر امام کو نہ پہچانتاہو اور انکاربھی نہ کرتاہو توکس طرح سے کافر کہلاۓ گا ہرگزنہیں غیرعارف اگر منکرنہ ہوتو کافرنہیں ہے ھاشم بن البرید کہتے ہیں اس طرح ہم تینوں تین الگ الگ نظریات کے حامل تھے ۔
وہ کہتے ہیں موسم حج آن پہونچا مکہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی بحث کی تفصیل سے امام کو آگاہ کیا اور آپ سے جواب چاھا ،امام نے فرمایا کہ میں اس وقت تمہاراجواب دونگا جب تم تینوں ساتھ ہوگے اور آج کی رات منی میں جمرہ وسطی کے پاس میرے پاس آنا ،رات کو ہم تینوں امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ ،امام علیہ السلام نے ایسے عالم میں کہ اپنے سینے سے تکیہ لگاۓ ہوۓ تھے سوال پوچھنا شروع کیا کہ تم لوگ اپنے ملازموں ،عورتوں اور اھل خانہ کے بارے میں کیاکہتے ہو؟کیا یہ لوگ وحدانیت خداکی گواہی دیتے ہیں ،میں نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا کیارسول کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں میں نے کہا جی ہاں ،آپ نے فرمایا کیا وہ لوگ تم لوگوں کی طرح امامت وولایت کی شناخت رکھتے ہیں ،میں نے کہا جی نہیں اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایاکہ پس تم لوگوں کی نظر مین ان کا انجام کیا ہوگا ؟مین نےکہا جو شخص امام کو نہ پہچانے کافرہے امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم نے کوچہ وبازار میں لوگوں کونہیں دیکھا سقاوں(بہشتیوں ) کو نہیں دیکھا ،میں نے کہا کیوں نہیں دیکھا ہے اور دیکھتےہیں آپ نے سوال فرمایا کیا یہ لوگ نمازنہیں پڑھتے روزہ نہیں رکھتے حج نہیں بجالاتے اورخدا کی وحدانیت و رسول خدا کی رسالت کی گواہی نہیں دیتے ؟میں نے کہا جی ہاں ،اس کے بعد امام نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح امام کو پہچانتےہیں ؟میں نے کہا جی نہیں ،تو امام نے فرمایا پس ان کا کیا ہوگا ؟میں نے کہا میرےخیال میں جو شخص امام کو نہ پہچانے وہ کافر ہے ،اس وقت امام نے فرمایا سبحان اللہ کیا تم کعبہ کے اطراف لوگوں کی بھیڑاور ان کے طواف کو نہیں دیکھہ رہے ہو؟کیا تم نہیں دیکھہ رہے ہوکہ اھل یمن کس طرح سے کعبہ کے پردوں سے چپکے ہوۓ ہیں ،میں نے کہا جی بے شک آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ توحید و نبوت کا اقرارنہیں کرتے ؟نمازنہیں پڑھتے ؟روزہ نہیں رکھتے ،حج نہیں بجالاتے ؟میں نے کہا کیوں نہیں تو آپ نے فرمایا کیا یہ لوگ تمہاری طرح سے امام کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا جی نہیں ،امام نے فرمایا ان لوگوں کے بارے میں تمہارا کیاعقیدہ ہے میں نے کہا میرے خیال میں جو لوگ امام کو نہیں پہچانتے وہ کافرہیں امام نے فرمایا سبحان اللہ یہ تو خوارج کا عقیدہ ہے ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کیا چاہتے ہومیں تمہيں حقیقت سے آگاہ کروں ؟
ھاشم کہ جوجانتا تھا امام کافیصلہ اس کے عقیدہ کے برخلاف ہوگا
اس نےکہا نہیں ۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایاکہ تم لوگوں کے لۓ کس قدر بری بات ہے کہ جو چیزیں ہم سے (اھل بیت ) سے نہیں سنی ہیں اپنی طرف سے کہو،ھاشم نے بعد میں دوسروں سے کہا کہ میں یہ سوچ رہا تھاکہ امام محمد بن مسلم کی نظر کی تائيد کرکے ہمیں اس کی پیروی کا حکم دیں گے 64 ۔
اسلامی فلاسفہ نے اس مسئلہ کو الگ صورت میں بیان کیا ہے تاہم جو نتیجہ اخذ کیا ہے پوری طرح وہی ہے جو ہم نے آيات و روایت سے استفادہ کیا ہے ۔
صدرالمتآلھیں اسفار میں خیروشر کی بحث میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض کہ کس طرح خیرشرپر غالب ہے ؟جبکہ انسان جوکہ اشرف کائنات ہے جب اسے دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان عمل کے لحاظ سے برے اعمال کا شکار ہیں اور اعتقاد کے لحاظ سے عقائد باطل اور جھل مرکب میں گرفتار ہیں اوراس سے ان کی آخرت خراب ہوجاتی ہے اور مستحق شقاوت و عذاب ہوجاتے ہیں لھذا بنی نوع انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کا انجام شقاوت و جہنم ہے ۔
صدرالمتآلھین اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہيں کہ آخرت میں لوگ شقاوت و سعادت کے لحاظ سے اس دنیا میں صحت وسلامتی کے لحاظ سے ہیں کیونکہ اس دنیا میں مکمل صحت وسلامتی ،مکمل خوبصورتی،مکمل بیماری وغیرہ نہایت کم یا اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جو نستبا ان صفات کے حامل ہیں اسی طرح آخرت میں "کملین "کہ جنہیں قرآن السابقون کے لقب سے یاد کرتاہے ان کی تعداد بھی اقلیت میں ہے اور اکثریت متوسطین کی ہے جنہیں قرآن "اصحاب الیمین "کہتاہے بنابریں دونوں صورتوں میں اکثریت رحمت خدامیں شامل ہے 65 بالفاظ دیگر اسلام اور فقہی لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن حقیقت میں مسلم ہیں یعنی حقیقت کے سامنے تسلیم ہیں اور اس سے عناد نہیں رکھتے ہیں ۔
د:آزادی فکر،آزادی انتخاب مذھب و طریقت :اس بارے میں ادیان الھی کا کہنا ہےکہ دنیوی زندگی کاھدف آخرت ہے ۔
انسانوں کو اس دنیا مین اس طرح زندگی گذرانا چاہیے کہ آخرت میں سعادت و کامرانی حاصل ہوسکے اور اس ھدف کوپانے کے لۓ دینی اعقتادات کاحامل ہونا ضروری ہے تاکہ اعمال درگآہ خداوندی میں قبول ہوں اور عفو بخشش کے سامان فراہم ہوسکیں ورنہ محض عقل و اخلاقی اصولوں کی پیروی انسان کو سعادت مند نہیں بناسکتی ۔
اب جبکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انسان کی سعادت کے لۓ خدا اورمعاد پر ایمان ضروری ہے تو انسان کو اس راہ پر گامزن کرنے کے لۓ کیا کرنا چاہيے ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو سعادت کے راستے پر لگانا چاہیۓ "اگوسٹین "اس نظریے پر استدلال کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اگر یہ یقینی ہوکہ کوئي ایمان سے دستبردار ہونے کی صورت میں ابدی عذاب میں گرفتارہونے والا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اسے طاقت کے بل بوتے پر مومن بنایا جاےتاکہ اسے ابدی سعادت حاصل ہوجاۓ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح سے طاقت کا استعمال پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے انسان کو بہشت حاصل ہوجاتی ہے اور اگر انسان طاقت کے استعمال کے دوران مر بھی جاے تو یہ تکلیفیں آخرت کے عذاب کے مقابل کچہ بھی نہیں ہیں کیونکہ ان تکلیفوں کے ذریعے انسان کی آخرت سدھاری جاتی ہے ۔
اس نظریے کے مقابل دوسرا نظریہ، یہ ہےکہ دین پر اعتقاد،بلا جبر یعنی ازروی اختیار ہے ،طاقت کے استعمال اور جبرسے کبھی بھی قلبی اعتقاد وایمان حاصل نہیں ہوسکتا ۔
جان لاک کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال موثر واقع نہیں ہوتا کیونکہ طاقت سے بظاہر انسان کو اطاعت کرنے پرمجبور کیا جاسکتا ہے لیکن دل کی گہرائيوں سے اسے کسی عقیدے کے قبول کرنے پر ہرگزمجبور نہیں کیا جاسکتا،وہ کہتے ہیں کہ طاقت کے استعمال کا واحد نتیجہ نفاق تظاہراور ریاکاری کوفروغ دینا ہے بنابریں عقائد کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اخلاقی لحاظ سے نقصان دہ ہے اور بدرجہ اولی راہ راست کی طرف ھدایت کا باعث نہیں بن سکتا اور نہ سعادت کا موجب ہے66 ۔
قرآن میں آزادی کے بارے میں کئي آیات ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ انسان اپنی آزادی کے سہارے اپنی راہ کے منتخب کرنے کاخود ذمہ دار ہے اور اسے اس بارے میں جواب دینا ہوگا ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے لااکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی 67 دین مین کسی طرح کا جبرواکراہ نہیں ہے کیونکہ ھدایت کاراستہ گمراہی کے راستے سے الگ ہوچکاہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دین سچا راستہ اورصراط مستقیم ہے ورنہ لااکراہ فی الدین کے کوئی معنی نہ ہوتے کیونکہ اکراہ و زبردستی کسی چیزکو اپنے قلبی لگاؤ کے برخلاف قبول کرنے وکوکہتے ہیں لیکن اگرکوئي فکر واضح اور سچائي پرمبنی ہوتو وہ انسان کو انتخاب واختیار کا موقع فراہم کرتی ہے اور ٹھوس دلیلوں اورمتقن گفتگوسے انسان کو ھدایت کی راہ دکھاتی ہے نیزاس نکتے پر بھی تاکید کرتی ہےکہ غلط راہ اور گمراہی کا انتخاب کرنے والااپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنے برے انجام کا منتظر رہنا ہوگا کیونکہ دین نے کسی طرح کی زبردستی نہیں کی ہے ارشاد ہوتاہے وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر 68 اے رسول تم کہہ دو کہ سچی بات تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوچکی ہے جس جو چاہے مانے اور جوچاہے نہ مانے ۔
اس آیت شریفہ سے یہ استفادہ ہوتاہےکہ ہرانسان اپنی راہ انتخاب کرنے کا خود ذمہ دار ہے ، ارشاد ہوتاہے ولوشاء ربک لآمن من فی الارض کلھم جمیعا ،افانت تکرہ الناس حتی یکونوامومنین 69 اگر تمہارا پروردگارچاھتا تو جتنے لوگ روے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے توکیا تم لوگوں پرزبردستی کرنا چاہتے ہوتاکہ سب کے سب ایماندار ہوجائیں ۔
ایک اور آيت میں ارشاد ہوتاکہ ولوشاء اللہ مااشرکوا وماجعلناک علیھم حفیظا وماانت علیھم بوکیل 70 اور اگر خداچاھتا تو یہ لوگ شرک ہی نہ کرتے اور ہم نے تمکو ان لوگوں کا نگہبان تو بنایا نہیں ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو۔
ان آيات سے یہ واضح ہوتاہے کہ اے پیغمبر تم لوگوں کی فکروں پر دباؤنہیں ڈال سکتے بلکہ اپنی فکرپیش کرواور اپنی رسالت کو اس کے نتائج کی پرواہ کۓ بغیر انجام دو ۔
فذکرانماانت مذکر و لست علیھم بمسیطر 71 اے رسول تم بس نصیحت کرنے والے ہو تم لوگون پر داروغہ تو نہیں ہو۔
ان تمام آیات سے فکروتعقل کی اھمیت واضح ہوتی ہے اوریہ بھی پتہ چلتا ہےکہ فکروخرد پر دباؤنہیں ڈالاجاسکتا کیونکہ یہ کام منطق و فکر سالم کے منافی ہے ۔
بہر صورت خدا فرماتاہے کہ اگر ہم چاہتے تو سارے انسانوں کو ایک ملت میں شامل کردیتے لیکن ہم نے چاہا کہ ان کا امتحان لیں تاکہ وہ خود اپنی راہ پیدا کريں اور ولوشاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ ولایزالون مختلفین 72 اور اگر تمہاراپروردگارچاہتا تو بیشک تمام لوگوں کو ایک ہی قسم کی امت بنادیتا (مگراس نے نہ چاہا اسی وجہ سے )لوگ آپس میں پھوٹ ڈالاکریں گے ۔
ولوشاء لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی مااتیکم 73 خدااگرچاہتاتو تم کوایک ہی امت بنادیتا تاکہ اپنی عطاکی ہوئي نعمتوں کے بارے میں تمہارا امتحان لے ۔
ان تمام امور سے پتہ چلتاہےکہ اگردینداری جبراہوتو اسے دینداری نہیں کہ سکتے ،لوگوں کو مجبورکیا جاسکتاہے لیکن ان کی فکر کو بیڑی نہیں پہنائي جاسکتی اعتقاد کے لۓ ضروری ہےکہ دلیل و منطق پراستوار ہو البتہ امربالمعروف و نہی ازمنکرکا مسئلہ الگ ہے اس میں بھی ارشاد ہے اجبار نہیں ہے ۔
حاشیہ ۔
1 سب سے پہلی گفتگو ھابیل و قابیل کے درمیان قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت کے بارے میں ہوئي تھی (سورہ مائدہ 27-30 )
2 الامام الصدر و الحوار(کلمۃ سواء)الموتمرالدول ص95
3 دکتراحمد شلبی ،مقارنۃ الادیان ،الطبعۃ الثامنہ ج 1 ص27
4سورۃ بقرہ 113
5 سورہ بقرہ
6سورۃ بقرہ 32-30
7اسورہ اعراف 18-12
8 عنکبوت 14
9ھود 32
10 ھود 47-45
11ھود 74
12نحل 125
13 مفسرین کا کہنا ہےکہ صرف ایک خاص گروہ کو حکمت و برھان و دلیل عقلی وعلمی کے ذریعے دعوت ھدایت دی جاسکتی ہے لیکن بعض لوگ عقلی وعلمی استعداد کے حامل نہيں ہوتے ہیں انہیں وعظ ونصیحت و قصہ وحکایات کے ذریعے ھدایت کی جاسکتی ہے ،تیسراگروہ ایسا ہے جو صرف اعتراض کرنا جانتا ہے اس کے ساتھہ بحث ومباحثہ کرنا چاہیے لیکن اچھے اور بہتر طریقے سے ،مباحثہ کرتے وقت راہ حق وحقیقت سے خارج نہیں ہونا چاہیے بے انصاف حق کشی اور جھوٹ کا سہارانہی لینا چاہیے ۔
14 عنکبوت 48
15 نوح 21/شعراء130و151 /انبیاء54 /طہ47/زخرف63 /
16 زخرف 87 /عنکبوت 61و63 /لقمان 25 /زمر38/زخرف 9/۔
17 زمر3 ۔
18 یوسف 106
19 کلینی ،کافی ج4 ص 143
20 مجلسی ،مرآۃ العقول ج11 ص234 ۔
21 توبہ 31 ۔
22 محمد ابوزہرہ ،تاریخ الجدل ۔
23 فصلت 34
24 زمر 18
25 وصیتہ لھشام وصفتہ للعقل ان اللہ تبارک وتعالی بشراھل العقل والفہم فی کتابہ فقال فبشر عبادی۔۔۔۔۔
بحارالانوار ج75 ص296 ۔کلینی کافی ج1 ص14 روایت 12
26 المیزان ج23 ص 251
27 انفال 22
28 کلینی کافی ج1 ص35
29 فیض کاشانی ،محجۃ البیضاء قم ج1ص21 ۔
30 کلینی کافی ج1ص43 روایت 5
31 کلینی ایضا ج8ص167
32 خذوالحق من اھل الباطل ولاتاخذالباطل من اھل الحق کونوانقادالکلام بحارالانوار ج2 ص96رایت 39۔
33 نھج البلاغہ ،صبحی صالح حکمت 289
34نہج البلاغہ خطبہ 94
35 نہج البلاغہ حکمت 139
36 اسراء 36
37 اصول کافی ،چاپ آخوندی ج2ص388
38 تفکرسیاسی ،گلن تیندر،ترجمہ محمود صدری ص23
39 جانلد،نسبت گرائي اخلاقی ،ودسورث 1973 مجلہ نقد ونظر ش13-14 ص327
40 الگوھاے فرھنگ نیویورک 1942 ،ص219 مجلہ نقد ونظر ش13-14 ص327
41تفکرسیاسی گلن تندر ترجمہ محمودصدری ص 23
42 مجلہ نقد ونظر ش 13-14 ص335
43 سورہ روم 30 ۔
44 ترجمہ تفسیر المیزان ج31 ص288-287
45 سورہ اعراف 172
46 يس 60
47 سورہ نساء 1
48 نہج البلاغہ خطبہ اول
49 ص 72
50 نہج البلاغہ مکتوب 53
51مولوی دیوان شمس
52سورہ حجرات 13
53 البتہ خدا کے سامنے تسلیم ہونے کے لۓ اس کے بھیجے ہوۓ احکام پر عمل کرنا ضروری ہے اور خدا کی آخری شریعت یعنی اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنا لازمی ہے ۔
54 آل عمران 19
55 آل عمران 67
56 نساء 98
57 یہ سورہ توبہ کی آیت 106 کی طرف اشارہ ہے
58 سورہ توبہ کی آیت 102 کی طرف اشارہ ہے
59 سورہ اعراف کی آيت 42 کی طرف اشارہ ہے
60 کلینی کافی ج4 ص92
61 کلینی ایضا ج3 ص76 ۔
62آل عمران 163
63 بحارالانوارج2 ص190
64 کلینی ایضا ج2 باب الضلال ص 104 نقل ازکتاب عدل الھی شہید مطہری ص345 ۔
65 نقل ازعدل الھی شہید مطہری ص 349
66 تسامح آری یا نہ دفتر نخست ص 49
67 بقرہ 256
68 کھف 29
69 یونس 99
70 انعام ر107
71 غاشیہ 21-22
72 ھود 118
73 آل عمران 48۔