مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وںكى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_ حضرت على (ع) نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ (ع) نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_ ''لوگوں عائشےہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشےہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں ( اور عائشےہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے ) خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں_ خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_ عائشےہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں، طلحہ اور زبير بھى جانتے |
دعا فرمائي _(5) اسى طرح اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت على (ع) كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت على (ع) كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت على (ع) كى مدد نہ كريں_ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _ (6) حضرت على (ع) كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنين (ع) كو خبر كى _ يہ خط حضرت على (ع) كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسن (ع) اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں_ حضرت على (ع) نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنين (ع) نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت على (ع) نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_ حضرت امام حسن (ع) اور حضرت عمار (ع) نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت على (ع) كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت على (ع) كى تحرير اور حضرت امام حسن (ع) اور حضرت عمار (ع) كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_ حضرت امام حسن (ع) نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر |
قرآن مجيد تھا انہوں نے قرآن دوسرے ہاتھ مےں لے ليا اور حسب سابق انہيں قرآنى حكومت كى دعوت دى مگر ان سنگدلوں نے ان كا دوسرا ہاتھ بھى قطع كرديا اور انہيں شہيد كرديا _ (11) 3_ حكومت قرآن كى دعوت دينے والے جوان مسلم كے قتل نے كشت وخون كا سد باب كرنے والے اقدامات سے حضرت على (ع) كو مايوس كرديا _ آپ (ع) نے آخرى مرتبہ عمار ياسر كو بھيجا يہ وہ بزرگ صحابى تھے جن كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا كہ جو لوگ انہيں قتل كريں گے ان كا شمار ظالموں ميں ہوگا اور ان كے مقام و مرتبے نيز ايمان كے بارے ميں نبى اكرم (ص) نے فرمايا تھا: حق ہميشہ عمار كے ساتھ ہے اور عمار حق سے پيوستہ _''عمار'' نے بھى پند و نصيحت كے ذريعے سمجھانے كى كوشش كى انہوں نے دشمنوںكى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا اے لوگو تم نے پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ انصاف كا رويہ اختيار نہ كيا تم نے اپنى عورتوں كو تو اپنے گھروں ميں محفوظ كرديا اور زوجہ مطہر رسول خدا (ص) كو گھر سے نكال كر نيزوں اور تلواروں كے روبرو لے آئے_ اس كے بعد وہ مزيد آگئے بڑھے اور عائشےہ كے ہودج كے مقابل آكر ان سے گفتگو كى ان كى يہى كوشش تھى كہ وہ ان فتنہ انگيزوں كے ساتھ شريك نہ ہوں وہ ابھى گفتگو كرہى رہے تھے كہ دشمن كے تير ہر جانب سے ان كى طرف آنے لگے _ اگرچہ انہوں نے اپنے سر كو اس طرف يا اس طرف خميدہ كركے خود كو تيروں كى زد سے بچاليا اور قطع گفتگو كركے اميرالمومنين حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ : جنگ كے علاوہ چارہ نہيں ہے_(12) 4_ ناكثين كى جانب سے شدت كے ساتھ مسلسل تير اندازى شروع ہوگئي ادھر سپاہ اسلام كا نعرہ بلند ہوا كہ : يا اميرالمومنين (ع) دشمن ہم پر تيروں كى بارش كر رہا ہے دفاع كا حكم صادر كيجئے_ اس وقت ايك مرد كا جنازہ اميرالمومنين (ع) كے روبرو لايا گيا جسے دشمن نے اپنے تيروں كا نشانہ بنايا تھا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے يہ حالت ديكھ كر رخ مبارك آسمان كى جانب كيا اور زبان حال سے فرمايا :خداوند تو عادل وداد گر ہے شاہد و گواہ رہنا _اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے كہا كہ تم صبر |
دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوششدونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل صف آرا ہوئے اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو حضرت على (ع) كو يہ موقع مل گيا كہ زبير ان كے سامنے آگئے _ اگر چہ حضرت على (ع) نے ان سے چند ہى جملے كہے جن كا ان كے دل پر ايسا گہرا اثر ہوا كہ دشمن كے سرداروں ، فوج كى تشكيل كا شيرازہ منتشر ہوگيا جس وقت حضرت على (ع) نے گفتگو كے دوران زبير كو رسول خدا (ص) كى حديث سنائي اور كہا كہ اے زبير كيا وہ دن ياد ہے جب كہ تو نے ميرى گردن ميں اپنا ہاتھ حمايل كر ركھا تھا اور پيغمبر خدا (ص) نے يہ ديكھ كر تجھ سے پوچھا تھا كہ كياتجھے على سے بہت پيا ر ہے؟ اور تو نے جواب ديا تھا آخر كيوں نہ پيار كروں يہ ميرا ماموں زاد بھائي ہى تو ہے اس كے بعد پيغمبرا كرم (ص) نے فرمايا تھا تو مستقبل قريب ميں اس سے جنگ كرے گا درحاليكہ تو ستمگر ہوگا _ (16) زبير نے جب يہ حديث سنى تو كہا ''انا للہ وانا اليہ راجعون'' مجھے پورا واقعہ ياد آگيا ميں آپ (ع) سے ہرگز جنگ نہ كروں گا اس كے بعد انہوں نے ديگر سرداران كى پر ہيجان اور وسوسہ انگيز باتوں كى جانب توجہ كئے بغير ميدان جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرلى اور ''وادى اسباع''نالى مقام پر ''عمروبن جرموز'' كے ہاتھوں قتل ہوئے _ (17) حضرت على (ع) نے اس خيال سے كہ شايد طلحہ بھى جنگ سے باز رہيں اور نوبت خون ريزى كى نہ آئے ان سے بھى ملاقات كى اور فرمايا كہ وہ كون سا عامل تھا جس كے باعث تو نے شورش و سركشى كى _ انہوں نے جواب ديا كہ عثمان كے خون كا بدلہ ، اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا : خدا اس شخص كو پہلے قتل كرے جو اس گناہ ميں ملوث ہو _ پھر فرمايا : اچھا يہ بتا كہ عثمان كا قاتل كون ہے ميں يا تو ؟ كيا تو نے نہيں سنا كہ رسول خدا (ص) نے ميرے بارے ميں فرمايا تھا : خدايا تو اسے دوست ركھ جو على (ع) كا دوست ہو اور اسے دشمن ركھ جو على سے دشمنى كرے كيا تو ان لوگوں ميں شامل نہ تھا جنہوں نے سب سے پہلے بيعت كي؟ طلحہ نے كہا ميں توبہ واستغفار كرتاہوں اس كے بعد وہ بھى كسى كى پند و نصيحت كے بغير ميدان جنگ سے چلے گئے _ (18) ليكن ان كا بھى وہى انجام ہوا جس سے زبير دوچار ہوئے تھے_ مروان كيونكہ عائشےہ كے لشكر |
كو ادھر ادھر بكھير ديا ہو _(20) اس موقع پر ''ازد بنى ناجيہ'' اور'' بنى ضبہ'' جيسے عرب قبائل اونٹ كے گرد جمع ہوگئے جس پر لشكر كا كمانڈر سوار تھا اور بھڑكى ہوئي جنگ ميں غير معمولى فداكارى كا مظاہر كيا _ خلاف معمول عائشےہ كے لشكر كے ساتھ پرچم نہ تھا البتہ پرچم كى جگہ لشكر سے آگے آگے اونٹ (جمل) چل رہا تھا اور يہى گويا ان كا پرچم تھا (21)_ اور اسى سے ان كے سپاہيوں كى حوصلہ افزائي ہو رہى تھى اور جب تك يہ اونٹ اپنى جگہ قائم رہا دشمن نے خود ميں كسى قسم كى كمزورى يا شكست محسوس نہ كى _ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ وہ دشمن كے بائيں بازو پر حملہ آور ہوں اور انہوں نے جسے ہى ميسرہ پر حملہ كيا لشكر دشمن كى صفيں يك لخت منتشر ہوگئيں اور انہوں نے اپنى عافيت راہ فرار ميں سمجھي_ اب جو لشكر باقى رہ گيا تھا وہ حسب سابق ''اونٹ'' اوراس كے سوار كا دفاع وتحفظ كر رہا تھا _ فطرى طور پر اميرالمومنين حضرت على (ع) كى سپاہ نے بھى اپنى پورى طاقت اسى حصہ پر لگادى تھى _ چنانچہ اس ''اونٹ'' كے گرد شديد خونى جنگ شروع ہوگئي _ (22) سرگردنوں سے جدا ہو كر ، ہاتھ جسموں سے كٹ كٹ كر فضا ميں بكھر رہے تھے نوك شمشير مسلسل دشمن كے شكموں كو چاك كئے جارہى تھيں مگر اس كے باوجود عائشےہ كے سپاہى اس اونٹ ''جمل'' كى حفاظت آہنى فصيل كى مانند كر رہے تھے انہوں نے اس اونٹ كو اپنے حلقہ مےں لے ركھا تھا اور اس كا سختى سے دفاع كيا جارہا تھا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے سمجھ ليا كہ جب تك يہ اونٹ اپنے پيروں پر كھڑا رہے گا جنگ كا خاتمہ نہ ہوگا اس پر آپ (ع) نے اپنے لشكر كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا كہ اس اونٹ كى ٹانگيں كاٹ دو كيونكہ جيسے ہى يہ اونٹ زمين پر گرے گا دشمن كا لشكر منتشر ہوجائے گا_ (23) حضرت على (ع) كے فرمان كے مطابق تلواريں بلند ہوئيں او ہر طرف سے تيروں كى بارش جمل كى |
جانب ہوگئي يہاں تك كہ تيروں كے پھل اس اونٹ كے پورے بدن ميں اتر گئے_ جن لوگوں نے اونٹ كى مہار اپنے ہاتھوں ميں سنبھال ركھى تھى وہ يكے بعد ديگرے زمين پر گرنے لگے ان ميں سب سے پہلے گرنے والا بصرہ كا مشہور و معروف قاضى ''كعب بن سور'' تھا اس نے قرآن مجيد اپنى گردن ميں حمايل كر ركھا تھا اس كے ايك ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ميں اونٹ كى مہار اس كے بعد قريش نے پيش قدمى كى اور انہوں نے بھى مہار كو اپنے ہاتھ ميں تھاما يہاں تك كہ ستر افراد نے يكے بعد ديگرے دفاع كى خاطر جان دے دى ، قريش كے بعد بنى ناجيہ، بنى ضبہ اور ازد قبائل كے لوگوں نے بالترتيب اس كے مہار كو سنبھالا ليكن وہ بھى قتل ہوئے مختصر يہ كہ بقول زبير جس نے بھى اس اونٹ كى مہار كو تھاما وہ فوراً ہى مارا گيا _(24) اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان گروہوں كے ہمراہ نخعى اور ہمدانى قبائل كے حامى و طرفدار تھے مركزى نقطے كى جانب شدت سے حملہ كركے دشمن كو منتشر و متفرق كرديا اور بجير نخعى سے فرمايا كہ اس وقت يہ اونٹ تمہارے دست اختيار ميں ہے اس كى ٹانگوں كى رگيں كاٹ دو ، بجير نے شمشير سے اس پر حملہ كيا اونٹ زور سے چيخا اور زمين پر گر پڑا جب وہ زمين پر گر گيا تو باقى لشكر بھى فرار ہوگيا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے سپاہيوں نے آپ (ع) كے حكم سے عائشےہ كے كجاوہ كو ايك طرف منتقل كيا پہلے تو اس اونٹ كو مار كر جلايا اور پھر اس كى راكھ كو فضا ميں منتشر كرديا_ حضرت على (ع) نے اپنے اس حكم كے ثبوت نيز اس كى تائيد ميں كتاب خدا سے استشہاد پيش كرتے ہوئے فرمايا كہ اے لوگو يہ اونٹ بنى اسرائيل كے بچھڑے كى طرح منحوس و فتنہ انگيز حيوان تھا اس كے بعد آپ نے اس آيت كى تلاوت كى جو حضرت موسى (ع) نے سامرى سے خطاب كرتے ہوئے پڑھى تھى _ اپنے اس خدا كو ديكھو جس كى تم پرستش كرتے ہو كہ ہم اسے كس طرح جلاتے ہيں اور پھر اس كى راكھ كو دريا ميں بہاديں گے _ (25) |
انھيں يہ بتايا كہ حضرت علي(ع) نے فيصلہ كر ليا ہے كہ آپ كو مدينہ لے جايا جائے تو مجبورا وہ تيار ہو گئيں_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے عا يشہ كے سفر كى تيارى شروع كى اور انھيں انكے بھائي عبدالرحمن ' تيس سپاہيوں اور قبيلہ القيس و ہمدان كى بيس عورتوں كى نگرانى ميں مدينہ كى جانب روانہ كى ان سب نے عائشےہ كى انتہائي خدمت كى اور ان كے ساتھ پورے اعزاز و احترام كا سلوك كيا (27) يہاں يہ بات بھى قابل توجہ و ذكر ہے كہ حضرت علي(ع) نے عائشےہ كى پورى حفاظت اس بنا پر كى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ انھيں كہيں راستے مےں كوئي گزند پہنچے حضرت علي(ع) كى جانب سے عا يشہ كے تحفظ كا مقصد يہ بھى ہو سكتا ہے كہ زوجہ مطہرہ رسول(ص) كے مرتبہ كا پاس كر كے ان كا مقصد مقام رسالت كا احترام كيا جائے اس كے علاوہ حضرت على (ع) كو يہ خدشہ تھا كہ اگر عائشےہ كا قتل ہو گيا تو كہيں ايسا فتنہ بپانہ ہو جائے جو عثمان كے قتل كى وجہ سے رونما ہوا تھا چنانچہ عمر و عاص نے جنگ كے بعد عائشےہ سے كہا تھا كہ : اے كاش تم جنگ ميں قتل كر دى گئي ہوتيں عا يشہ نے اس كا مطلب دريافت كيا تو اس نے كہا كہ اگر تم مارى جاتيں تو جنت ميں جاتيں اور ہم اس مسئلے كو حضرت على (ع) كے خلاف حملہ كرنے كا اہم ترين بہانہ بناليتے (28) _ |
سوالات1 _ '' ناكثين'' كى شورش كے بارے مےں اطلاع حاصل كرنے سے قبل حضرت على (ع) كس شخص سے جنگ كرنے كيلئے تيار تھے اور آپ نے اپنا ارادہ كيوں بدل ديا ؟ 2 _ حضرت علي(ع) نے كس منزل پر اور كن افراد كو كوفہ كى جانب روانہ كيا وہاں انھيں كيسے كاميبابى حاصل ہوئي؟ 3 _ كشت و خون روكنے كيلئے حضرت على (ع) نے كيا اقدامات كئے ؟ انكى تين مثاليں بيان كيجئے _ 4 _ فيصلہ كن جنگ كس طرح شروع ہوئي عا يشہ كے تحفظ و دفاع ميں كون سے قبائل پيش پيش اور سرگرم عمل تھے ؟ 5 _ جنگ كے بعد جو افراد باقى رہ گئے تھے انكے ساتھ حضرت علي(ع) بالخصوص عا يشہ كے ساتھ كيا سلوك رہا ؟ 6 _ جنگ جمل ميں كس جگہ كو مركزيت حاصل تھى اور حضرت علي(ع) نے اس كى كس طرح سركوبى كى ؟ 7_ حضرت علي(ع) نے عا يشہ كى حفاظت كے لئے كيوں اس قدر اہتمام كيا ؟ |
حوالہ جاتواللہ لا اكون كالضبع تنام على طول اللّارم حتى يصل اليہا طالبہا و يختلہا راصدہا ولكننى اضرب بالمقبل الى الحق المدبر عنہ و باالسامع المطيع العاصى المريب ابدا حتى ياتى على يؤمى ... 1_ شرح ابن ابى الحديد ج 2/233 ، ارشاد مفيد 131_ 2_ الجمل للمفيد /129 الامامة السياسة ج 1/ 53 ميں سہل كى بجائے قسم بن عباس كا ذكر ملتا ہے_ 3_ يہ جگہ ذات عرق كے قريب حجاز ومدينہ كے درميان تين روزہ راہ كى دورى پر واقع ہے (معجم البلدان ج 3/24 مروج الذہب ج 2/ 359 _ 358 4_ مروج الذہب ج 2/ 359_ 358 5_ كامل ابن اثير ج 3/ 226 ، تاريخ طبرى ج 4/ 480 ،تاريخ يعقوبى ج 2/ 182 ، شرح ابن ابى الحديد ج 9/ 321_ 6_ الجمل للمفيد /130 _ شرح ابن ابى الحديد ج 14/ 9 7_ تاريخ طبرى ج 4/ 478 ، 477 ، كامل ابن اثير ج 3/ 277 ، شرح ابن ابى الحديد ج 14/ 9 8_ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج 2/ 359 ، والجمل / 138، طبرى ج 4/ 500 اور ابن ابى الحديد نے ج 14 /21 پر ابى الطفيل سے نقل كيا ہے كہ اس سے قبل كہ سپاہ كوفہ پہنچے حضرت على (ع) نے پيشن گوئي كردى تھى كہ كوفہ سے ايك ہزار ايك سپاہى آئيں گے اور ايسا ہى ہوا _ راوى كا كہنا ہے كہ ميں نے انہيں گنا ان ميں سے نہ كم تھا نہ ايك زيادہ_ 9_ مروج الذہب ج 2/ 361 _ 359 كا خلاصہ 10_ مروج الذہب ج 2/ 361 ''اللہم ان ہؤلاء القوم قد خلعوا طاعتى بغوا على ونكثوا بيعتى اللہم احقن دماء المسلمين ''_ 11_ الجمل للمفيد / 167 12_ مروج الذہب ج 2/ 361 ، الجمل للمفيد /181 تاريخ طبرى ج 4/ 509 _511 |
13_ مروج الذہب ج 2/ 362 14_ الجمل للمفيد / 182 ، شرح ابن ابى الحديد ج 9/11 ، تاريخ يعقوبى ج 2/ 182 ، ليكن تاريخ يعقوبى اورشرح ابن ابى الحديد ميںمقتول كو عبداللہ كا بھائي تحرير كيا گيا ہے _ 15 _ شرح ابن ابى الحديد ج 9 /111 16_ مروج الذہب ج 2/ 262 _ الجمل للمفيد /182 17_ اماانك ستحاربہ و انت ظالم لہ 18_ مروج الذہب ج 2/ 363 زبير كے سلسلے ميں يہ روايت بھى ملتى ہے كہ وہ بھى دوسروں كى طرح حضرت على (ع) كے ساتھ آخرى لمحہ تك جنگ كرتے رہے ليكن جب اصحاب جمل كو شكست و ہزيمت ہوئي تو انہوں نے بھى راہ فرار اختيار كى جس وقت وہ فرار كررہے تھے تو اچانك جرموزے نے انہيں غافل پاكر قتل كرديا (سيرة الائمہ اثنى عشر ج 1/ 455 ) ان اقوال كے علاوہ يہ قول بھى ہے كہ جب زبير نے كنارہ كشى كا فيصلہ كرليا تو ان كے فرزند عبداللہ نے ان پر يہ الزام لگايا كہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہوگئے ہيں اور انہيں قسم ياد لائي اور كفارہ دينے كو كہا زبير نے اپنے غلام كو آزاد كركے كفارہ ادا كيا اور بيٹے نے جو الزام لگايا تھا اسے دور كرنے كے لئے انہوں نے تلوار اٹھائي اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كى لشكر پر حملہ آور ہوگئے ملاحظہ ہو تاريخ الفداء ج 1/ 174 _ 173 20_ مروج الذہب ج 2/364 تاريخ يعقوبى ج 2/ 182 ، انساب الاشراف ج 2/ 248 ، الجمل للمفيد / 204 شرح ابن ابى الحديد ج 9/ 113 21_ مروج الذہب ج 2/ 366 ، الجمل للمفيد / 183 ، تاريخ طبرى ج 4/ 514 ، سيرة الائمہ اثنى عشر ج 1/ 457 ، شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 257 22_ تاريخ ابن اعثم / 176 و شرح ابن ابى الحديد _ 23_ شرح ابن ابى الحديد ج / 258 24 _ اعقروا الجمل فانہ ان عقر تفرقوا ( تاريخ طبرى ج4 / 519 ) _ 25 _ تاريخ طبرى ج / 4/ 519 ' اسد الغابہ 3 / 308 ' شرح ابن ابى الحديد ج1 / 265 _ |
26 _ سورہ طہ آيہ 96 ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج1 / 266 _ 27 _ اس حكم كے جارى كرنے سے حضرت علي(ع) كا مقصد يہ تھا كہ دشمن كے افراد كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو مسلمانوں كے ساتھ روا كھا جاتا ہے ان كے ساتھ كفار كا _ سا برتاؤ نہ كيا جائے _ 28 _ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج3 / 258 ' خ 255 ' تاريخ طبرى ج 4 / 44،5 4،53 9 2 _ شرح ابن ابى الحديد ج6 / 322 _ |