209 نمائندگان كى روانگيجب اس راستے پر قبض ہوگيا جو لب دريا تك جاتا تھا تو حضرت على (ع) نے دو روز تك توقف فرمايا اس كے بعد آپ(ع) نے اپنى سپاہ كے سرداروں ميں سے بشير بن عمرو ، سعيد بن قيس اور شبث بن ربعى كو معاويہ كے پاس بھيجا_ اور فرمايا كہ تم ان كے پاس جاؤں اور انہيں اطاعت خدا ، ميرے ہاتھ پر بيعت نيز جماعت كى طرف آنے كى دعوت دو_(1) حضرت على (ع كے نمائندے ماہ ذى الحجہ كى پہلى تاريخ كو معاويہ كے پاس پہنچے اور اس كے ساتھ مذاكرات شروع كئے سب سے پہلے بشير نے كہا كہ :اے معاويہ دنيا ختم ہوا چاہتى ہے اور آخرت تم پر آشكار ہونے لگى ہے_ خداوند تعالى تجھے تيرے اعمال كى جزاء دے_ اب تو امت كے درميان تقرفہ اندازى اور خون ريزى سے باز رہو معاويہ نے ان كى گفتگو كو درميان ميں ہى قطع كرديا اور كہا كہ : يہى مشورہ تم نے اپنے آقا كو كيوں نہيں ديا؟ بشير نے جواب ديا كہ وہ تمہارے جيسے نہيں ہيں وہ دين ، فضيلت ، اسلام ميں سابقہ زندگى اور رسولخدا(ص) كے ساتھ قرابت دارى كے اعتبار سے اور اس امر و قصد كيلئے بہترين اور اہل ترين فرد ہيں_ اس كہ بعد شبث نے گفتگو شروع كى معاويہ نے جب اس كى مدلل گفتگو سنى تو وہ حيران رہ گيا اور جب كوئي جواب بن نہ پڑا تو طيش ميں اس كى زبان سے كچھ ناشايستہ الفاظ نكل گئے _ اس نے حضرت على (ع) كے نمائندوں سے كہا كہ يہاں سے اٹھو اور چلے جاؤ_ ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ اب تلوار ہى كرے گي_ اس پر شبث نے كہا كہ تم ہميں تلوار سے ڈرا رہے ہو خدا كى قسم ہم جلدى ہى تمہيں گرداب بلا ميں گرفتار ديكھيں گے_ يہ كہہ كر يہ نمائندے وہاں سے اٹھ گئے اور حضرت على (ع) كے پاس چلے آئے(2)_ |
لشكر كے سرداروں سے ملاقاتحضرت على (ع) كا وفد جب معاويہ سے رخصت ہوكر چلا گيا تو اس نے اس وفد كے ايك ركن زيادبن خَصَفَہ سے دوبارہ ملاقات كرنے كى خواہش ظاہر كي_ چنانچہ حضرت على (ع) سے متعلق گفتگو كرتے ہوئے اس نے زياد سے كہا كہ وہ اپنے قبيلے كے ہمراہ اس كام ميں ميرى مدد كرے اور ان سے يہ وعد كيا كہ وہ اپنے مقصد ميں كامياب ہوگيا تو شہر بصرہ يا كوفہ كى حكومت اس كو دے دى جائے گي_ ليكن معاويہ كو اس سے مدد و تعاون ميں مايوسى ہوئي تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ ہم على (ع) كے لشكر كے سرداروں ميں سے جس كے ساتھ بھى گفتگو كرتے ہيں وہ ہميں اطمينان بخش لگتا ہے وہ سب دل سے باہمى طور پر متحد ہيں(6)_ 2_ قاريوں، زاہدوں كى جماعت سے ملاقات معاويہ جب حضرت على (ع) كے لشكر كے سرداروں اور فرمانداروں كو فريفتہ كرنے ميں نااميد ہوگيا تو اس نے ان قاريوں اور زہد فروشوں كى جانب توجہ كى جن كى ظاہرى زندگى ہى اسلام سے متاثر ہوئي تھي_ شام اور عراق كى سپاہ ميں دونوں لشكروں كے درميان تيس ہزار سے زيادہ قارى قرآن موجود تھے يہ قارى دونوں لشكروں كى صفوں سے نكل كر باہر آگئے اور انہوں نے عليحدہ جگہ پر اپنے خيمے نصب كئے اور يہ فيصلہ كيا كہ فريقين كے درميان ثالث كے فرائض انجام ديں_ اس مقصد كے پيش نظر ان كے نمائندے دونوں سپاہ كے فرمانداروں سے ملاقات كرنے كى غرض سے گئے اور ہر ايك نے اپنے نظريات دوسرے كے سامنے بيان كيئے ان كى طرز گفتگو سے يہ اندازہ ہوتا تھا كہ ان پر معاويہ كى جاد و بيانى كا اثر ہوگيا ہے_ جب يہ جماعت حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تو آپ (ع) نے انھيں آگاہ كيا كہ وہ كسى كى پر فريب گفتگو سے متاثر نہ ہوں_ اور فرمايا كہ : اس بات كا خيال رہے كہ معاويہ كہيں دين كے |
معاملے ميں تمہارى جانوں كو مفتون و فريفتہ نہ كرلے_ (7) ليكن ابھى كچھ عرصہ نہ گذرا تھا كہ انہى لوگوں كى كثير تعداد اشعث اور چند ديگر افراد كى سركردگى ميں معاويہ كى جادو وبيانى پر فريفتہ ہوگئے اور جنگ كے معاملے ميں انہوں نے عہد شكنى كى _ اور حضرت على (ع) كے خلاف صف بستہ ہوگئے چنانچہ حضرت على (ع) نے مجبورا معاويہ كى جانب سے مسلط كردہ شرط جنگ بندى كو قبول كرليا_ 3_ سپاہ كے درميان خلل اندازي معاويہ نے حضرت على (ع) كى سپاہ كے دلوں ميں تذبذب و تزلزل پيدا كرنے اور ذہنوں پر خوف و ہراس طارى كرنے كى غرض سے اس دوران جب كہ فريقين كے درميان جنگ جارى تھى حكم ديا كہ خط لكھا جائے جسے تير پر باندھ كر حضرت على (ع) كے لشكر ميں پھينك ديا گيا_ اس خط كا مضمون يہ تھا كہ : خدا كے ايك خير انديش بندے كى طرف سے لشكر عراق كو پيغام _ آگاہ كيا جاتا ہے كہ معاويہ نے تم پر دريائے فرات كا كنارہ كھول ديا ہے وہ چاہتا ہے كہ تمام لشكر عراق كو اس ميں غرق كردے_ جس قدر ممكن ہوسكے فرار كر جاؤ_ اہل كوفہ ميں سے ايك شخص نے يہ خط اٹھاليا اور پڑھ كر دوسرے كو دے ديا_ اور اسطرح يہ خط دست بدست ايك جگہ سے دوسرى جگہ پہنچ گيا چنانچہ جس شخص نے بھى يہ خط پڑھا لكھنے والے كو خير انديش ہى سمجھا_ معاويہ نے اس اقدام كے بعد دو سو آدميوں كو بيلچے اور كداليں دے كر اس پشتے كى جانب روانہ كرديا جو دريائے فرات پر بنا ہوا تھا اور ان سے كہا كہ تم اپنے كام پر لگ جاؤ_ حضرت على (ع) كو جب اس خط كے بارے ميں علم ہوا تو آپ(ع) نے اپنے سپاہيوں سے كہا كہ : معاويہ كا يہ اقدام عملى نہيں وہ چاھتا ہے كہ اپنى سازش سے تمہيں پسپائي كيلئے مجبور كرے اور تمہارے درميا ن آشفتگى و سراسيمگى پيدا كردے اس پر سپاہيوں نے جواب ديا كہ ہم كيسے اس بات پر يقين نہ كريں_ہم ديكھ ہى رہے ہيں كہ ان كے مزدور نہر كھودنے ميں لگے ہوئے ہيں_ |
بصرہ كے دستہ كا فرماندار مقرر كيا_ كوفہ كى پيادہ فوج كى فرماندارى عمار ياسر كو تفويض كى گئي اور بصرہ كى پيادہ فوج كا فرماندار قيس بن سعد كو مقرر كيا كوفہ و بصرہ كے قاريوں كو آپ (ع) نے '' مسعر بن فد كى '' كى تحويل ميں ديا اور پرچم ہاشم مرقال ك سپرد كيا_(11) يكم صفرہ 37 ھ دونوں فوجوں كے درميان جنگ شروع ہوئي كوفہ كى فوج نے مالك كى كمانڈرى اور شام كى فوج نے حبيب بن مسلمہ كى كمانڈرى ميں شديد جنگ كا آغاز كيا يہ معركہ ظہر تك جارى رہا_ اگلے دين ہاشم مرقال ميدان ميں اترے اور شام كے اس لشكر كے ساتھ جو ابوالاعور كى زير فرماندارى ميدان جنگ ميں آيا تھا نبرد آزمائي كى اور شاميوں كے ساتھ سخت جنگ كے بعد وہ واپس اپنى لشكر گاہ ميں آئے_ تيسرے روز عمارياسر مہاجر و انصار بدريوں كے ساتھ ميدان جنگ ميں اترے اور عمرو عاص سے مقابلہ كيا عمار نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : كيا تم ان دشمنوں كو ديكھنا چاہتے ہو جنہوں نے خدا اور اس كے رسول(ص) كے خلاف جنگ كى اور دشمنوں كو مدد پہنچائي خداوند تعالى كو چونكہ اپنا دين عزيز تھا اسى لئے اس نے اسے كاميابى عطا كى اور بالاخر اس دشمن نے خوف كى وجہ سے اپنا سر اسلام كے سامنے خم كرديا پيغمبر اكر م(ص) كے رحلت كے بعد اس دشمن كى مسلمانوں كے خلاف دشمنى و عداوت آشكارا ہوگئي_مسلمانو تم دشمن كے لشكر سے جنگ كرو كيونكہ انكے سردار ان لوگوں ميں سے ہيں جو نور الہى كو خاموش كرنے كا ارادہ كئے ہوئے ہيں_ اس كے بعد انہوں نے پيادہ فوج كے فرماندار زياد بن نَضر كو حكم ديا كہ حملہ كريں اور خود بھى حملہ آور ہوئے اور عمروعاص كو پسپا كرديا_ چوتھے دن حضرت على (ع) كے فرزند محمد حنفيہ ميدان جنگ ميں گئے اور عبيداللہ بن عمر سے جنگ كى _ دونوں جانب سے مقابلہ سخت رہا_ بالاخرہ عبيداللہ نے محمد حنفيہ كو جنگى كشتى كى دعوت دى محمد حنفيہ نے پيشقدمى كى مگر حضرت على (ع) نے منع كرديا اور خود ان كى جگہ كشتى گيرى كيلئے تشريف لے گئے _مگر |
رہے_ آپ كے حكم كے مطابق منادى كے ذريعے دشمن كو اعلان جنگ سنايا اور كہا كہ : اے شاميو كل صبح تم سے ميدان كارزار ميں ملاقات ہوگى _(13) منادى كى آواز جب دشمن كے كانوں ميں پہنچى تو اس كى صفوں ميں كہرام مچ گيا سب نے بيم و ترس كى حالت ميں معاويہ كى جانب رخ كيا اس نے تمام سرداروں اور فرمانداروں كو بلايا اور حكم ديا كہ اپنى فوجوں كو تيار كريں_ حضرت على (ع) نے جب اپنے لشكر كو آراستہ كر ليا تو آپ (ع) اپنى جگہ سے اٹھے اور سپاہ ميں جوش و خروش پيدا كرنے كيلئے ان كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : اے لوگو خداوند تعالى نے تمہيں اس تجارت كى جانب آنے كى دعوت دى ہے جس ميں عذاب سے نجات دلائي جائے گى اور خير و فلاح كى جانب بلايا ہے_يہ تجارت خدا اور اس كے رسول(ص) كى صداقت پر ايمان اور راہ خدا ميں جہاد ہے_ اس كا معاوضہ تمہيں يہ ملے گا كہ تمہارے گناہ بخش دئے جائيں گے اور خُلد بريں ميں تمہيں رہنے كيلئے پاكيزہ مكان مليں گے اور اس كا انتہائي اجر يہ ہے كہ تمہيں خدا كى رضا نصيب ہوگى جو ہر اجر سے كہيں عظيم ہے_ قرآن كا خدا كے محبوب بندوں سے ارشاد ہے كہ : خداوند تعالى ان مجاہدين حق كو دوست و عزيز ركھتا ہے جو محكم ديور كى طرح دشمن كے مقابل آجاتے ہيں اور اس سے جنگ و جدال كرتے ہيں(14)_اپنى صفوں كو سيسہ پلائي ہوئي بنيادوں كى طرح محكم كرلو اور ايك دوسرے كے دوش بدوش رہو_ زرہ پوش سپاہ پيشاپيش رہيں اور جن كے پاس زرہ نہيں انہيں زرہ پوش سپاہ كے عقب ميں ركھا جائے اپنے دانت بھينچے ركھو كيونكہ اس كے باعث شمشير كى ضرب سے كاسہ سر محفوظ رہتا ہے_ اس سے قلب كو تقويت اور دل كو آسودگى حاصل ہوتى ہے_ اپنى آوازوں كو خاموش ركھو اس لئے كہ اس كى وجہ سے سستى و شكست سے نجات ملتى ہے اورچہرہ پر متانت و وقار كى كيفيت پيدا ہوتى ہے ... اپنے پرچموں كو يكجا ركھو اور انہيں باحميت دلاوروں كے سپرد كرو جو لوگ مصائب و مشكلات ميں صبر كرتے ہيں اور پرچم پر مسلط رہتے ہيں_ وہ اس كى ہر طرف سے حفاظت ميں كوشاں رہتے ہيں_(15) |
حضرت على (ع ) كا خطبہ ختم ہونے كے بعد آپ كے اصحاب ميں سے بھى ہر شخص نے اپنے قبيلے كے لشكر ميں جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر تقرير كى _ انہى مقررين ميں سعيد بن قيس بھى شامل تھے چنانچہ وہ اپنے ساتھيوں كے درميان سے اٹھے پہلے تو انہوں نے حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے اصحاب كى قدر و منزلت كا ذكر كيا اس كے بعد انہوں نے معاويہ كا تعارف كرايا_(16) اس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنے دوستوں كو جنگ كرنے كيلئے ترغيب دلائي_ فريقين كے لشكر چونكہ جنگ كيلئے آمادہ تھے اس لئے بدھ كے دن سخت معركہ ہوا _ رات كے وقت دونوں لشكر بغير فتح و نصرت واپس اپنے خيموں ميں آگئے(17)_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے جمعرات كى صبح نماز فجر جلدى پڑھ لى سپاہ سے خطاب كرنے اور جنگ كى ترغيب دلانے كے بعد آپ (ع) نے گھوڑا طلب فرمايا (18) اس پر سوار ہونے كے بعد آپ قبلہ رخ كھڑے ہوگئے انكے دونوں ہاتھ آسمانكى طرف تھے اور خداوند تعالى سے يوں راز و نياز كر رہے تھے: خداوند ا يہ قدم تيرى راہ ميں بڑھ رہے ہيں بدن خستہ و ناتواں ہيں دلوں پر لرزہ و وحشت طارى ہے اور يہ ہاتھ تيرى بارگاہ ميں اٹھے ہوئے ہيں اور آنكھيں تيرى طرف لگى ہوئي ہيں اس كے بعد آپ نے ايك آيت پڑھى جس كا ترجمہ يہ ہے ( اے رب ہمارى قوم كے درميان ٹھيك ٹھيك فيصلہ كردے اور تو بہترين فيصلہ كرنے والا ہے_(19) آخر ميں آپ نے سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ سيرو على بركة اللہ ((20) آگے بڑھو خدا تمہارى پشت و پناہ ہے)_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے نبرد آزما ہونے سے قبل شام كے ہر قبيلے كا نام دريافت فرمايا اس كے بعد آپ (ع) نے اپنى سپاہ كے قبائل كو حكم ديا كہ تم ميں سے ہر سپاہى اپنے ہم نام اور ہم پلہ و شان قبيلے كے ہراس شخص سے جنگ كرے جو دشمن كى صفوں ميں شامل ہے(21)_ سپاہ اسلام كى علامت وہ سفيد رنگ كا كپڑا تھا جو انہوں نے اپنے سرو ںاور بازووں پر باندھ ركھتا تھا_ اور ان كا نعرہ ياللہ، يا احد ، يا صمد ، يا رب محمد يا رحمت اور يا رحيم تھا_ |
پر خوف و ہراس طارى ہوگيا بعض قبائل كو تو اپنى جان كے لالے پڑگئے اور يہ فكر ستانے لگى كہ كس طرح نجات پائيں چنانچہ قبيلہ خثعم كے سردار عبداللہ خنش نے خثعم قبيلہ عراق كے سرگروہ كعب سے پيغام كے ذريعے يہ درخواست كى كہ صلہ رحم كى خاطر اور ايك دوسرے كے حقوق كا پاس كرتے ہوئے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لے ليكن مخالفت سے دوچار ہوا_(24) اسى اثناء ميں سپاہ اسلام كے فرماندار ميمنہ عبداللہ بديل جو بہت ہى شجاع و دلير شخص اور دو زرہ پہن كر جنگ كرتے تھے دونوں ہاتھوں ميں تلواريں لئے دشمن كى سپاہ كے ميسرہ كى جانب بڑھے اور اسے چيرتے ہوئے ان لوگوں تك پہنچ گئے جو معاويہ كے فدائي كہلاتے تھے يہ لوگ معاويہ كے ايسے جانثار و با وفا دوست تھے جنہوں نے يہ عہد كيا تھا كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے اس كى حفاظت كرتے رہيں گے معاويہ نے ان فدائيوں كو حكم ديا كہ عبداللہ كے بمقابل آجائيں اور خفيہ طور پر اسے اپنے ميسرہ كے فرماندار حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ وہ ابن بديل كو آگے بڑھنے سے روكے ليكن وہ آگے بڑھتے ہى گئے معاويہ نے ناچار مصلحت اس امر ميں سمجھى كہ اپنى جگہ بدل دے اور وہ پيچھے كى طرف بھاگ گيا ليكن عبداللہ پكار پكار كر كہہ رہے تھے يا لثارات عثمان ( عثمان كے خون كا بدلہ ) معاويہ كى سپاہ نے جب يہ نعرہ سنا تو اس نے انہيں اپنا ہى سپاہى سمجھ كر انہيں راستہ ديا_ معاويہ كو چونكہ دوسرى مرتبہ اپنى جگہ سے ہٹ كر پيچھے آنا پڑا تھا اس لئے اس نے دوبارہ حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ ميرى مدد كرو چنانچہ اس نے بڑا سخت حملہ كيا اور دائيں جانب كے لشكر ( جناح راست) كو چيرتا ہوا عبداللہ بن بديل تك پہنچ گيا_ عبداللہ سو قاريوں ميں سے اكيلے رہ گئے تھے ( باقى سب پسپا ہو چكے تھے) چنانچہ وہ پورى دليرى سے جنگ كرتے رہے اور زبان سے بھى كہتے رہے كہ : معاويہ كہاں ہے_ معاويہ نے جب عبداللہ كو اپنے نزديك ديكھا تو اس نے پكار كر كہا كہ اگر تلوار سے ان پر حملہ نہيں كر سكتے تو انھيں آگے بھى نہ آنے دو ان پر سنگبارى شروع كردو چنانچہ ہر طرف سے اس جانباز اسلام پر اس قدر پتھر برسائے گئے كہ وہ وہيں شہيد ہوگئے_ |
يشف صدور قوم مومنين'' ( انھيں قتل كر ڈالو خدا تمہارے ذريعہ انہيں عذاب ميں مبتلا كرتا ہے اور ذليل كرتا ہے اور تمہارى مدد كرتا ہے مومنوں كے دلوں كو شفا بخشتا ہے اور ان سے كدورت دور كرتا ہے(29)) جب ميں نے پلٹ كرديكھا تو وہاں اميرالمومنين حضرت على (ع) كو پايا_ اس كے بعد آپ (ع) نے مجھ سے فرمايا ہم سے كس شخص نے دشمن سے جنگ كى ؟ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے بھتيجے نے_ اس پر آپ(ع) نے فرمايا كيا ميں نے تمہيں اور ابن عباس كو جنگ كرنے سے منع نہيں كيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا كہ جى ہاں آپ نے منع فرماياتھا_ مگر دشمن نے خود ہى مجھے للكارا_ اس پر آپ نے كہا كہ اگر تم نے اپنے پيشوا كى اطاعت كى ہوتى تو وہ اس سے كہيں زيادہ بہتر تھا كہ تم دشمن كى للكار كا جواب ديتے _ اس كے بعد آپ نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ وہ عباس كى لغزش كو معاف كرے اور جہاد كى انہيں جزا دے_ غرّار كے قتل ہوجانے كى وجہ سے معاويہ بہت زيادہ مضطرب و آشفتہ خاطر ہوا چنانچہ اس كے حكم كے مطابق اور انعام كے وعدے پر قبيلہ '' لخم'' كے دو افراد نے عباس بن ربيعہ كو پيكار كى غرض سے للكارا_ ليكن حضرت على (ع) نے انھيں نبرد آزمائي كى اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ معاويہ تو يہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم ميں سے ايك شخص بھى زندہ نہ رہے ... اس كے بعد آپ (ع) نے عباس كے لباس اور اسلحہ سے خود كو آراستہ كيا اور انہى كے گھوڑے پر سوار ہو كر ان دونوں افراد كى طرف روانہ ہوئے اور انہيں وہيں ہلاك كرديا_ ميدان كارزار سے واپس آكر آپ نے عباس كا اسلحہ انہيں واپس كيا اور فرمايا كہ جو كوئي تمہيں نبرد آزمائي كے لئے للكارے پہلے تم ميرے پاس آؤ ...(30) اس واقعے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ حضرت على (ع) كى بنى ہاشم بالخصوص خاندان رسالت كى جانب خاص توجہ و عنايت تھى اور انكى جان كى حفاظت كيلئے آپ (ع) ہر ممكن كوشش فرماتے_ چنانچہ بحران جنگ ميں جب كہ آپ (ع) كى جانب تيروں كى بارش ہو رہى تھى اور آپ كے فرزندوں كو دشمن |
اپنے تيروں كا نشانہ بنائے ہوئے تھا، اس وقت بھى آپ (ع) كو اپنى جان كى پروانہ تھى چنانچہ خود آگے بڑھ كر جاتے اور اپنے ہاتھ سے تيروں كے رخ كو كبھى ايك طرف اور كبھى دوسرى جانب منتشر كرديتے_(31) |
سوالات1_ حضرت على (ع) نے اپنے نمائندے معاويہ كے پاس كس مقصد كے تحت روانہ كئے؟ 2_ معاويہ نے اپنے لشكر كى كمزورى كى تلافى كس طرح كرنا چاہى اور لشكر اسلام كو كمزور و ناتوان كرنے كيلئے اس نے كيا اقدامات كئے؟ اس كى دو مثاليں پيش كيجئے؟ 3_ نبرد آزمائي سے قبل حضرت على (ع) نے اپنے سپاہيوں كے لئے كيا احكامات صادر كئے؟ 4_ پہلى اور دوسرى عام جنگوں كا آغاز كن تاريخوں سے ہوا؟ فريقين كے لشكروں كى علامات و نعرے كيا تھے؟ 5_ حضرت على (ع) نے جنگ سے قبل اتمام حجت كے طور پر اور مسلمانوں كى خون ريزى كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كيئے؟ 6_ جنگى پہلو كو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت على (ع) كے سپاھيانہ كردار كو مختصر طور پر بيان كريں_ |
حوالہ جات1_ ائتوا ہذا الرجل و ادعوہ الى اللہ و الى الطاعة و الى الجماعة 2_ وقعہ صفين ص 188_ 187، كامل ابن اثير ج 3 ص 285 3_ كامل ابن اثير ج 3 ص 286، وقعہ صفين ص 195 4_ وقعہ صفين ص 198_ 197 5_ كامل ابن اثير ج 3 ص 293 _ 291 ،تاريخ طبرى ج 5 ص 7 ، وقعہ صفين ص 202_ 201 6_ كامل ابن اثير ج 3 ص 290 ، وقعہ صفين ص 200 _199 ، معاويہ كى اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے كہ اس نے حضرت على (ع) كے ديگر سرداران سے بھى اس قسم كى بات كى تھي_ 7_ وقعہ صفين ص 190_ 188 8 _ وقعہ صفين 490_489 ، اس واقعہ كى تفصيل بعد ميں آئے گي_ 9_ وقعہ صفين ص 190 10_ وقعہ صفين ص 204_203 11_ كامل ابن اثير ج 3 ص 294 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 11 ، ليكن وقعہ صفين ميں صفحہ 205 پر منقول ہے كہ سوار دستے كى كمانڈرى عمار كو اور پيادہ فوج كى عبداللہ بديل كو دى گئي_ 12_ كامل ج 3 ص 294 ، ليكن وقعہ صفين ميں درج ہے كہ فريقين كے لشكر فتح و كامرانى كے بغير واپس آئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص 222_ 13_ مروج الذہب ج 2 ص 379 ، كامل ج 3 ص 295_ 294 ، وقعہ صفين ص 223_214 14_ سورہ صف آيہ 4 ان اللہ يحب الذين يقاتلون فى سبيلہ صفا كانہم بنيان مرصوص_ 15_ نہج البلاغہ كے خطبہ 124 كا اقتباس، وقعہ صفين ص 235 16_ وقعہ صفين ص 236 17 _ كامل ابن اثير ج 3 ص 296 18_ اس سے قبل حضرت على (ع) كى سوارى ميں جانور خچر تھا اس روز آپ (ع) نے تنومند و دراز دم گھوڑا لانے كے لئے حكم |
ديا_ يہ گھوڑا اس قدر تنومند و طاقتور تھا كہ اسے قابو ميں ركھنے كے لئے دو لگا ميں استعمال كرنى پڑتى تھيں اور وہ اپنى اگلى ٹانگوں سے زمين كھودتا رہتا تھا_ 19_ سورہ اعراف آيہ 88 ''رَبَنا افتَح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفاتحين''_ 20_ وقہ صفين ص 230 ، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 176 21_ وقعہ صفين ص 229 ،كامل ابن اثير ج 3 ص 298 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 14، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 186 22_ وقعہ صفين ص 332 23_ وقعہ فين ص 244 ، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 196 ، اس پورے قضيے ميں يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ حضرت على (ع) نے خير خواہى كا جو يہ اقدام كيا تھا اس كے پيش نظر معاويہ كے كسى سپاہى نے اپنے فيصلہ جنگ پر ترديد نہيں كى وہ اس نوجوان كو ديكھتے رہے ليكن جب معاويہ كى صفوں ميں شكست كے آثار نمودار ہوئے تو اس كے سپاہيوں نے اس شكست كى تلافى كے لئے قرآن كو نيزے پر چڑھا ليا اور وہ بھى سپاہ عراق كو قرآن كى دعوت دينے لگے حضرت على (ع) كى سپاہ ميں سے كچھ لوگوں پر اس كا اثر ہوگيا چنانچہ انہوں نے حضرت على (ع) سے كہا كہ حكم صادر كيجئے كہ مالك اشتر واپس آجائيں ورنہ ہم آپ (ع) كو قتل كرديں گے_ 25_ حضرت عبداللہ بن بديل كے بھائي كا نام بھى عثمان تھا_ وہ بھى دشمن كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے_ يہاں عثمان سے مراد ان كے بھائي ہيں_ 26_ وقعہ صفين ص 248 _ 245، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 196، اگرچہ تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي دلير جانبازوں كا ذكر ملتا ہے مگر اس كتاب كے اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان كى كيفيات بيان كرنے سے چشم پوشى كى گئي ہے تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 214 وقعہ صفين ص 258 27_ وقعہ صفين ص 250_ 249 ، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 198 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 19، كامل ابن اثير ج 3 ص 299 28 _ وقہ صفين ص 250 ، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 199 29_ عباس بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب 30_ سورہ توبہ آيہ 14 31_ شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 219 32_ وقعہ صفين ص 249 ، شرح ابن ابى الحديد ج 5 ص 198، تاريخ طبرى ج 5 ص 19 |