251 نجات كے لئے كوششسپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت علي( ع) كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ على (ع) كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_ عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں_ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت على (ع) كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں_ آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت على (ع) سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيںكہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_ اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا |
پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_(1) اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_ معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا ... علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں_ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_ ابن عباس نے يہ خط حضرت على (ع) كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپ (ع) كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوںپر قطعى پانى پھيرديا_(2) |
آخرى فريبمعاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ على (ع) كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت على (ع) كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(3) اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ... ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے (4) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے |
سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_ معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(5) بروز جمعہ ( يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ ( اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے (6) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_ حضرت على (ع) نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپ (ع) نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(7) مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات (8)( خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا |
كريں_(15) انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنين (ع) ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(16) ... اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنين (ع) ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(17) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ... ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں_ ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا |
مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_ شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(18)_ دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت على (ع) پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_ انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت على (ع) كو اميرالمومنين (ع) خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_ حضرت على (ع) نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم |
شريك گناہ ہيں'' اس پر مالك نے كہا كہ تم اپنى بات كر رہے ہو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اپنے برگزيدہ لوگوں كو قتل كرا ديا اور جو پست فطرت تھے وہ زندہ ہيں ايسى حالت ميں تم خود كو كس طرح حق پر سمجھ سكتے ہو؟ كيا اس وقت جب تم شاميوں كو قتل كر ہے تھے يا اس وقت جب كہ تم كشت و كشتار سے دستبردار ہوگئے ہو؟ دوسرى صورت ميں تمہيں يہ بات تسليم كر لينى چاہيئے كہ تمہارے وہ عزيز جو قتل ہوئے تم سے بہتر و افضل تھے اگرچہ تم ان كى فضيلت سے انكار نہيں كر سكتے مگر اب وہ اپنى آگ ميں خود جل رہے ہيں'' وہ لوگ جو مالك كى منطق و دليل كا جواب نہ دے سكے انہوں نے كہا'' كہ اب آپ ہم سے حجت و بحث نہ كيجئے كيونكہ ہم نے راہ خدا ميں ہى جنگ كى تھى اور راہ خدا ميں ہى اس جنگ سے دستكش ہو رہے ہيں آپ كى اطاعت ہرگز نہيں كريں گے بہتر ہے كہ آپ اپنى راہ ليں ...'' مالك نے چاہا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) اس جنگ كو جو شاميوں سے ہو رہى تھى سركشوں پر مسلط كرديں_ ليكن انہوں نے چلانا شروع كرديا كہ اميرالمومنين (ع) نے حكميت كو تسليم كر ليا ہے قرآن كے حكم پر وہ راضى ہيں اس كے علاوہ ان كے لئے كوئي چارہ نہيں اس پر اشتر نے كہا كہ اگر اميرالمومنين (ع) نے حكميت كو قبول كر ليا ہے تو ميں بھى اس پر راضى اور خوش ہوں'' حضرت على (ع) نے جب يہ ديكھا كہ سركش لوگ آپ (ع) ہى كى موجودگى ميں دروغ گوئي سے كام لے رہے ہيں تو آپ (ع) نے كوئي بات كہے بغير نظريں زمين پر جھكا ليں (22) ليكن جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو آپ (ع) اپنى جگہ سے اٹھے اور فرمايا كہ : تم جب تك مجھ سے متفق و ہم خيال تھے جنگ كر تے رہے يہاں تك كہ جنگ نے تمہيں زبوں و ناتواں كرديا خدا كى قسم جنگ كے زبونى و ناتوانى نے تمہيں پكڑ ليا ہے اور تمہيں تمھارے حال پر چھوڑ ديا ہے تمہيں يہ جان لينا چاہيئے كہ كل تك ميں اميرالمومنين (ع) تھا مگر آج ميں حكم بجالانے كے لئے مامور ہوں كل تك مجھے اختيار تھا اور تمہيں حكم دے سكتا تھا مگر آج ميں اس حكم سے محروم ہوں آج ميرے حكم كو ٹھكرايا جا رہا ہے اس |
نے قاريان قرآن كے ساتھ يك زبان ہوكر كہا كہ ہمارا انہيں پر اتفاق ہے كيونكہ وہيں ہيں جنہوں نے ہميںا س جنگ كى مصيبت سے محفوظ ركھا اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ مجھے يہ انتخاب منظور نہيں كيونكہ انہوں نے ميرا ساتھ چھوڑ ديا تھا اور وہ لوگوں كو ميرى مدد كرنے سے منع كر رہے تھے اس كے بعد وہ فرار كر گئے چنانچہ كئي ماہ گذر جانے كے بعد ميں نے انھيں امان و پناہ دي'' ميں اس كام كے لئے عباس كو اہل و شايستہ سمجھتا ہوں_ ليكن وہ لوگ حسب سابق اپنى ضد پر قائم رہے اور كہنے لگے كہ ہمارے لئے آپ كے ہونے يا عباس كے ہونے ميں ذرا فرق نہيں ليكن ہم يہ چاھتے ہيں كہ حكم ايسے شخص كو بنايا جائے جو آپ كى اور معاويہ كى طرف سے بے لاگ ہو اور اس كى نظر ميں دونوں افراد يكساں و برابر ہوں_ حضر ت على (ع) نے فرمايا كہ ميں پھر مالك اشتر كو مقرر كرتا ہوں اس پر اشعث نے بلند آواز سے كہا كيا اشتر كے علاوہ كوئي اور شخص تھا جس نے سارى زمين ميں آگ لگائي؟ اگر ہم ان كا نام منظور كر ليتے ہيں تو ہميں ان كا پابند رہنا ہوگا حضرت على (ع) نے دريافت فرمايا كہ ان كا حكم كيا ہے سب نے ايك آواز ہو كر كہا يہ كہ شمشير ہاتھ ميں ليكر تمہارا اور اپنا مدعا حاصل كرنے كى خاطر جان تك كى بازى لگاديں_ حضرت على (ع) كو انكى ضد اور خود سرى پر طيش آگيا اور فرمايا كہ ابو موسى كے علاوہ كسى اور كو اپنا حكم تسليم نہيں كروگے؟ انہوں نے كہا نہيں اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا جو چاھو وہ كرو (31) |
سوالات1_ معاويہ نے جنگ سے فرار كرنے اور اپنى حالت و حيثيت كى حفاظت كے لئے كيا اقدامات كئے؟ 2_ معاويہ اور عمروعاص نے شكست سے نجات پانے كے خاطر كيا سازش كي؟ 3_ جب قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا گيا تو سپاہ عراق كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟ 4_ سپاہ عراق ميں كون لوگ جنگ جارى ركھنے كے حق ميں تھے اور كون اس مقصد كے لئے پيش پيش تھے؟ 5_ وہ لوگ كون تھے جنہوں نے فتح و نصرت كے آخرى لمحات ميں حضرت على (ع) كو جنگ بندى پر مجبور كيا؟ 6_ حكميت كا مسئلہ پہلى مرتبہ كس كى طرف سے پيش كيا گيا ... حضر ت على (ع) اور سركش سپاہ كا حكم مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا نظريہ تھا؟ |
حوالہ جات1_ وقعہ صفين 409_408 2_ وقعہ صفين 413_ 409 3_ وقعہ صفين 477_ 476 4_ وقعہ صفين 476 و لم يبق منہم الا آخر نفس ... انا غار عليہم بالغداة احاكمہم الى اللہ عزوجل 5_ وقعہ صفين 481_480 6_ اعيذكم بااللہ ان ترضعوا الغنم ساير اليوم يہ اس بات پر كنايہ ہے كہ اگر تمہيں فتح نصيب نہ ہو تو تمہارى حالت عورتوں جيسى ہوجائے گى جو چوپاؤں كا دودھ دوہا كرتى ہيں_ 7_ وقعہ صفين 476_475 ، كامل ابن اثير ج 3 ص 31_315 8_ وقعہ صفين ص 479، مروج الذہب ج 2 ص 390 9_ مروج الذہب ج 2 ص 390 ہلم مخباتك يابن عاص فقد ہلكنا 10_ مروج الذہب ج 2 ص 390 ايك قول كے مطابق ليلة الہرير ميں ہى معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كى بات اس تك پہنچادى تھى چنانچہ اس كے بعد ہى معاويہ نے اس بات كا فيصلہ كيا تھا كہ قرآن كو نيزوںپر چڑھا ديا جائے وقعہ صفين 481 11_ نجيب الى كتابہ اللہ عزوجل نتنيب اليہ ، تاريخ طبرى ج 5 ص 48 ، كامل ابن اثير ج 3 ص 316 ، مروج الذہب ج 2 ص 390 12_تاريخ طبرى ج 5 ص 48، مروج الذہب ج 2 ص 391 كامل ج 3 ص 316 13_ شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص 134 14_ وقعہ صفين 483_482 15_ وقعہ صفين 483_482 16و17_ وقعہ صفين 483_482 |
18_ وقعہ صفين 482 19_ فان تطعيونى فقاتلوا و ان تعصونى فاصنعوا ما بدالكم 20_ ملاحظہ ہو، كامل ابن اثير ج 3 ص 317_ 316 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 49 ، وقعہ صفين 490_489 21_ وقعہ صفين 491 _ 490 كامل ج3 ص 317 تاريخ طبرى ج 5 ص 49 22_ وقعہ صفين 491_90 ، كامل ج 3 ص 317، تاريخ طبرى ج 5 ص 50 23_ وقعہ صفين 484 24_ وقعہ صفين 485_484 25_ سورہ حجرات آيت 8 26_ وقعہ صفين 493 27_ وقعہ صفين 493، نہج البلاغہ مكتوب 48 28_ وقعہ صفين 499_498 29_ وقعہ صفين 499 30_ وقعہ صفين ص 499 31_ وقعہ صفين 500_499 ، كامل ابن اثير 319_318 |