اردو
Thursday 5th of December 2024
0
نفر 0

نجات كے لئے كوشش

251

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت علي( ع) كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ على (ع) كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں_ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت على (ع) كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں_

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت على (ع) سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيںكہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

 

252

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_(1)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا ... علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں_ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت على (ع) كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپ (ع) كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوںپر قطعى پانى پھيرديا_(2)

 

253

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ على (ع) كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت على (ع) كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(3)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ... ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے (4) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

 

254

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(5)

بروز جمعہ ( يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ ( اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے (6) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت على (ع) نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپ (ع) نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(7)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات (8)( خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

 

255

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ (19) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(10)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا ( بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت على (ع) كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں''(11)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط ... كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

 

256

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(12)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت على (ع) نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں (13) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت على (ع) نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت على (ع) كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(14)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

 

257

كريں_(15)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنين (ع) ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(16) ...

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنين (ع) ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(17) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ... ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں_

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

 

258

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(18)_

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت على (ع) پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت على (ع) كو اميرالمومنين (ع) خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت على (ع) نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

 

259

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_(19)

انہوں نے حضرت على (ع) كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں_(20)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں_ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت على (ع) كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت على (ع) كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

 

260

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على (ع) نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنين (ع) كو دشمن كے حوالے كرديں؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(21)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت على (ع) كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

 

261

شريك گناہ ہيں'' اس پر مالك نے كہا كہ تم اپنى بات كر رہے ہو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اپنے برگزيدہ لوگوں كو قتل كرا ديا اور جو پست فطرت تھے وہ زندہ ہيں ايسى حالت ميں تم خود كو كس طرح حق پر سمجھ سكتے ہو؟ كيا اس وقت جب تم شاميوں كو قتل كر ہے تھے يا اس وقت جب كہ تم كشت و كشتار سے دستبردار ہوگئے ہو؟ دوسرى صورت ميں تمہيں يہ بات تسليم كر لينى چاہيئے كہ تمہارے وہ عزيز جو قتل ہوئے تم سے بہتر و افضل تھے اگرچہ تم ان كى فضيلت سے انكار نہيں كر سكتے مگر اب وہ اپنى آگ ميں خود جل رہے ہيں''

وہ لوگ جو مالك كى منطق و دليل كا جواب نہ دے سكے انہوں نے كہا'' كہ اب آپ ہم سے حجت و بحث نہ كيجئے كيونكہ ہم نے راہ خدا ميں ہى جنگ كى تھى اور راہ خدا ميں ہى اس جنگ سے دستكش ہو رہے ہيں آپ كى اطاعت ہرگز نہيں كريں گے بہتر ہے كہ آپ اپنى راہ ليں ...''

مالك نے چاہا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) اس جنگ كو جو شاميوں سے ہو رہى تھى سركشوں پر مسلط كرديں_

ليكن انہوں نے چلانا شروع كرديا كہ اميرالمومنين (ع) نے حكميت كو تسليم كر ليا ہے قرآن كے حكم پر وہ راضى ہيں اس كے علاوہ ان كے لئے كوئي چارہ نہيں اس پر اشتر نے كہا كہ اگر اميرالمومنين (ع) نے حكميت كو قبول كر ليا ہے تو ميں بھى اس پر راضى اور خوش ہوں''

حضرت على (ع) نے جب يہ ديكھا كہ سركش لوگ آپ (ع) ہى كى موجودگى ميں دروغ گوئي سے كام لے رہے ہيں تو آپ (ع) نے كوئي بات كہے بغير نظريں زمين پر جھكا ليں (22) ليكن جب سب لوگ خاموش ہوگئے تو آپ (ع) اپنى جگہ سے اٹھے اور فرمايا كہ : تم جب تك مجھ سے متفق و ہم خيال تھے جنگ كر تے رہے يہاں تك كہ جنگ نے تمہيں زبوں و ناتواں كرديا خدا كى قسم جنگ كے زبونى و ناتوانى نے تمہيں پكڑ ليا ہے اور تمہيں تمھارے حال پر چھوڑ ديا ہے تمہيں يہ جان لينا چاہيئے كہ كل تك ميں اميرالمومنين (ع) تھا مگر آج ميں حكم بجالانے كے لئے مامور ہوں كل تك مجھے اختيار تھا اور تمہيں حكم دے سكتا تھا مگر آج ميں اس حكم سے محروم ہوں آج ميرے حكم كو ٹھكرايا جا رہا ہے اس

 

262

لئے ميں تمہيں تمہارى مرضى كے خلاف مجبور نہيں كر سكتا''(23)

اميرالمومنين حضرت على (ع) ان سے خطاب كرنے كے بعد تشريف فرما ہوئے قبائل كے سرداروں نے اپنے خيالات كا اظہار كيا ان ميں سے بعض جنگ كى حامى و طرفدار تھے اور بعض صلح كے متمنى و خواہشمند(24)

نفاق و حماقت كے خلاف جدوجہد

اگرچہ سپاہ شام كى طرف سے يہ آوازيں بلند ہو رہى تھيں كہ '' ہم نے قرآن كے سامنے اپنے سر خم كرديئے ہيں اور تم بھى قرآن كى حكومت كو تسليم كر لو'' مگر عمل ميں وہ لوگ در حقيقت قرآن كے حكم سے روگرداں تھے كيا اب تك اميرالمومنين على (ع) نے قرآن كے احكام كو تسليم نہيں كيا تھا اور كيا آپ (ع) كا عمل قرآن كے حكم كى بنياد پر نہ تھا يا جيسے ہى سپاہ شام كے سرداروں نے قرآن كو نيزوں پر چڑھايا اور ظاہر دارى سے كام ليا تو قرآن كا حكم بھى بدل گيا اور يہيں سے على (ع) كا راستہ قرآن سے عليحدہ ہوگيا؟شاميوں نے در حقيقت اپنے اس عمل سے حق و عدالت كو نفاق كے پيروں تلے روند ڈالا_

انہى لوگوں ميں كچھ تعداد ايسے لوگوں كى بھى تھى جنہوں نے اپنے ہادى و پيشوا كو نہ پہچانا انہوں نے اپنى حماقت و نادانى سے اپنى خواہشات ہى نہيں بلكہ دشمن كى خواہشات كو اميرالمومنين (ع) پر مسلط كر كے ظلم و نفاق كى بنيادوں كو مضبوط كرديا جب كچھ كوتاہ فكر اور كج انديش لوگ ان سے آكر مل گئے تو نفاق كى گرم بازارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_ ان حالات ميں نفاق سے ٹكر لينا گويا اس وقت ايسا اقدام كرنا حماقت و نادانى سے پنجہ نرم كرنا تھا_

اميرالمومنين (ع) ايسى حساس صورتحال كے روبرو تھے جس ميں ايك طرف منافق و مفاد پرست لوگ قرآن كو نيزوں پر بلند كئے ہوئے تھے اور دوسرى طرف وہ لوگ تھے جو بظاہر محاذ حق پر جنگ و جدال كر رہے تھے مگر اس كے ساتھ ہى اميرالمومنين حضرت على (ع) پر تلوار كھينچے كھڑے تھے

 

263

كہ حكم قرآن كو تسليم كيجئے_ اور وہ اس بات سے قطعى بے خبر تھے كہ اس بارے ميں قرآن كا صريح ارشاد ہے كہ '' ان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينہما فان بغت احداہما على الاخرى فقاتلوا التى تبغى حتى تفى الى امر اللہ'' (25) اور اگر اہل ايمان ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ جائيں تو ان كے درميان صلح كر او پھر اگر ان ميں سے ايك گروہ دوسرے گروہ پر زيادتى كرے تو زيادتى كرنے والے سے لڑويہاں تك كہ وہ اللہ كے حكم كيطرف پلٹ آئے_

باغى و سركش جانتے تھے كہ مسلمانوں كے قانونى و شرعى زمامدار اميرالمومنين حضرت على (ع) ہيں اور معاويہ آپ(ع) سے باغى و برگشتہ_ اسے چاہيئے كہ سركشى سے دستبردار ہوجائے_ حق كے سامنے گردن خم كردے _ اور اگر ايسا نہيں تو حكم قرآن كے مطابق جنگ و جدال كريں_

سركشوں نے حيلہ و نيرنگ پر كاربند رہ كر قرآن كو تو نيزوں پر چڑھاديا مگر ان سے يہ نہيں كيا گيا كہ ہم اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت كو تسليم كرنے كے لئے آمادہ ہيں_ بلكہ وہ تو يہ چاہتے تھے كہ انھيں كوئي ايسا موقعہ مل جائے جس كے ذريعے وہ اپنى يورش و سركشى كو جارى ركھ سكيں مگر سپاہ عراق ميں سے كچھ ظاہر بين اور كج انديش افراد انجانے ميں ان كے ہاتھوں كا كھلونا بن كر رہ گئے جس كا يہ نتيجہ ہوا كہ رنج و افسوس كے علاوہ انہيں كچھ نہ ملا_

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ نے سپاہ عراق كے درميان اختلاف پيدا كرنے اور مسئلہ حكميت كى پيش كش كے بعد حضرت على (ع) كى خدمت ميں خط لكھا كہ ہمارا اختلاف كافى طويل ہوگيا ہے اور دونوں طرف سے بہت زيادہ خون بہايا جاچكا ہے اور ڈر ہے كہ كہيں حالت پہلے سے زيادہ بد تر نہ ہوجائے اور اس كى ذمہ دارى ہم دونوں پر ہوگى كيا آپ اس بات سے متفق ہے كہ لوگوں كى كشت و كشتار كو روكا جائے اور دينى اخوت و محبت برقرار ہوجائے_

 

264

اس كى راہ يہى ہے كہ آپ اور ميرے ہوا خواہوں سے دو معتبر حكم (ثالث) انتخاب كئے جائيں اور وہ كلام اللہ كى اساس و بنياد پر فيصلہ كريں_ كيونكہ ہمارے ليئے يہى بہتر ہے كہ خوف خدا كو دل ميں ركھيں اور اگر اہل قرآن ہيں تو اس حكم كا پاس كريں_ (26)

معاويہ ايسا نافہم تو نہيں تھا كہ اسے يہ معلوم نہ ہوتا كہ حضرت على (ع) اس ظاہر سازى كا فريب نہ كھائيں گے اس نے اتنا يقينا سوچ ہى ركھا تھا كہ اس خط كا مضمون سپاہ عراق كے بعض كج انديش او رمنافق افراد كے كانوں تك ضرور پہونچے گا اور وہ اس سے متاثر بھى ہوں گے_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے مدلل بيان سے صريح الفاظ ميں واضح و قطعى جواب ديتے ہوئے اسے لكھا كہ معاويہ تم مجھے حكميت قرآن كى دعوت دے رہے ہو جبكہ تم اس سے كہيں دور ہو اور تم اس كتاب مقدس كو اپنا حكم بنانا نہيں چاہتے ہو ہم نے دعوت قرآن كو حكميت كى بنياد پر قبول كيا ہے نہ كہ تمہارى تجويز پر(27)

معاويہ كى جانب روانگي

اشعث جو دستہ مخالفين اور صلح پسندوں كا سردار بنا ہوا تھا معاويہ كے خط كى تشہير كرنے كے بعد حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہنے لگا كہ ميں ديكھ رہا ہوں كہ لوگ شاميوں كى دعوت حكميت سے خوش و خرم ہيں اگر آپ اجازت ديں تو ميں معاويہ كے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں كہ كيا چاہتے ہو_(28)

كيا اشعث واقعى يہ نہيں جانتا تھا كہ معاويہ كيا چاہتا ہے آخر وہ كون سا مقصد تھا جس كى خاطر وہ معاويہ كے پاس جانے كى كوشش كر رہا تھا اسے ان تمام باتوں كا علم تھا اور وہ يہ بھى جانتا تھا كہ اب فيصلہ كرنے كا اختيار كس كے ہاتھ ميں ہے وہ حضرت على (ع) كے ان الفاظ كو نہيں بھولاتھا جو آپ(ع) نے چند لمحہ قبل فرمائے تھے كہ '' ميں كبھى امير تھا مگر اب تابع و مامور ہوں ليكن اس كے باوجود اس نے حضرت على (ع) سے اجازت مانگى تا كہ وفد كے اراكين كے درميان اس كى حيثيت مامور كى

 

265

رہے_

حضرت على (ع) نے اسے بہت بے اعتنائي سے جواب ديا كہ اگر چاھو تو معاويہ كے پاس جاسكتے ہو (29) اشعث تو اس موقع كى تلاش ميں تھا ہى اورخود كو اس نے وفد كا رہبر فرض كر ليا تھا وہ ظاہراً حضرت على (ع) كے نمائندے كى حيثيت سے معاويہ كے پاس گيا اور اس كے سامنے چند سوال پيش كئے معاويہ نے اس كے وہى جواب ديے جو وہ خط ميں حضرت على (ع) كو لكھ چكا تھا_

اس پر اشعث نے كہا يہ سب مبنى بر حق ہے اس كے بعد وہ حضرت على (ع) كے پاس واپس آگيا_

جب يہ خبر پھيل گئي كہ اشعث كو وفد كا سربراہ بنايا گيا ہے تو لوگوں نے بآواز بلند كہنا شروع كيا كہ : ہم اس حكم پر راضى ہيں اور ہميں يہ منظور ہے_

اس كے بعد شام و عراق كے لشكروں كے قارى يكجا جمع ہوئے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق كيا كہ حكم قرآن كو بحال كيا جائے_ (30)

حكمين ( ثالثوں) كا انتخاب

يہ تو پہلے سے معلوم تھا كہ معاويہ كا حكم عمروعاص ہوگا اور شام كے لوگوں كو بھى اس كے انتخاب كئے جانے پر اتفاق ہوگا چنانچہ معاويہ نے بغير كسى مشورے كے حكم مقرر كرديا اور اپنى سپاہ كو اپنے اس انتخاب كے ذريعہ مطمئن كرديا_

عراق كے لوگ اپنے ہادى اور پيشوا كى حكم عدولى كے باعث اگر چہ تباہى اور ہلاكت كے دہانے تك پہنچ چكے تھے مگر اس كے باوجود انہوں نے حكم كے انتخاب كے حق سے بھى اميرالمومنين (ع) كو محروم كرديا اشعث نے ان قاريان قرآن كے ہمراہ ( جو بعد ميں خوارج شمار كئے گئے) بلند كہنا شروع كيا كہ '' ہم ابو موسى اشعرى كو انتخاب كرتے ہيں اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ : مجھے اس پر اتفاق نہيں كيونكہ ميں انہيں اس كام كا اہل نہيں سمجھتا اشعث ، زيد بن حصين اور مسعر بن فدكى

 

266

نے قاريان قرآن كے ساتھ يك زبان ہوكر كہا كہ ہمارا انہيں پر اتفاق ہے كيونكہ وہيں ہيں جنہوں نے ہميںا س جنگ كى مصيبت سے محفوظ ركھا اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ مجھے يہ انتخاب منظور نہيں كيونكہ انہوں نے ميرا ساتھ چھوڑ ديا تھا اور وہ لوگوں كو ميرى مدد كرنے سے منع كر رہے تھے اس كے بعد وہ فرار كر گئے چنانچہ كئي ماہ گذر جانے كے بعد ميں نے انھيں امان و پناہ دي'' ميں اس كام كے لئے عباس كو اہل و شايستہ سمجھتا ہوں_

ليكن وہ لوگ حسب سابق اپنى ضد پر قائم رہے اور كہنے لگے كہ ہمارے لئے آپ كے ہونے يا عباس كے ہونے ميں ذرا فرق نہيں ليكن ہم يہ چاھتے ہيں كہ حكم ايسے شخص كو بنايا جائے جو آپ كى اور معاويہ كى طرف سے بے لاگ ہو اور اس كى نظر ميں دونوں افراد يكساں و برابر ہوں_

حضر ت على (ع) نے فرمايا كہ ميں پھر مالك اشتر كو مقرر كرتا ہوں اس پر اشعث نے بلند آواز سے كہا كيا اشتر كے علاوہ كوئي اور شخص تھا جس نے سارى زمين ميں آگ لگائي؟ اگر ہم ان كا نام منظور كر ليتے ہيں تو ہميں ان كا پابند رہنا ہوگا حضرت على (ع) نے دريافت فرمايا كہ ان كا حكم كيا ہے سب نے ايك آواز ہو كر كہا يہ كہ شمشير ہاتھ ميں ليكر تمہارا اور اپنا مدعا حاصل كرنے كى خاطر جان تك كى بازى لگاديں_

حضرت على (ع) كو انكى ضد اور خود سرى پر طيش آگيا اور فرمايا كہ ابو موسى كے علاوہ كسى اور كو اپنا حكم تسليم نہيں كروگے؟ انہوں نے كہا نہيں اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا جو چاھو وہ كرو (31)

 

267

سوالات

1_ معاويہ نے جنگ سے فرار كرنے اور اپنى حالت و حيثيت كى حفاظت كے لئے كيا اقدامات كئے؟

2_ معاويہ اور عمروعاص نے شكست سے نجات پانے كے خاطر كيا سازش كي؟

3_ جب قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا گيا تو سپاہ عراق كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

4_ سپاہ عراق ميں كون لوگ جنگ جارى ركھنے كے حق ميں تھے اور كون اس مقصد كے لئے پيش پيش تھے؟

5_ وہ لوگ كون تھے جنہوں نے فتح و نصرت كے آخرى لمحات ميں حضرت على (ع) كو جنگ بندى پر مجبور كيا؟

6_ حكميت كا مسئلہ پہلى مرتبہ كس كى طرف سے پيش كيا گيا ... حضر ت على (ع) اور سركش سپاہ كا حكم مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا نظريہ تھا؟

 

268

حوالہ جات

1_ وقعہ صفين 409_408

2_ وقعہ صفين 413_ 409

3_ وقعہ صفين 477_ 476

4_ وقعہ صفين 476 و لم يبق منہم الا آخر نفس ... انا غار عليہم بالغداة احاكمہم الى اللہ عزوجل

5_ وقعہ صفين 481_480

6_ اعيذكم بااللہ ان ترضعوا الغنم ساير اليوم يہ اس بات پر كنايہ ہے كہ اگر تمہيں فتح نصيب نہ ہو تو تمہارى حالت عورتوں جيسى ہوجائے گى جو چوپاؤں كا دودھ دوہا كرتى ہيں_

7_ وقعہ صفين 476_475 ، كامل ابن اثير ج 3 ص 31_315

8_ وقعہ صفين ص 479، مروج الذہب ج 2 ص 390

9_ مروج الذہب ج 2 ص 390 ہلم مخباتك يابن عاص فقد ہلكنا

10_ مروج الذہب ج 2 ص 390 ايك قول كے مطابق ليلة الہرير ميں ہى معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كى بات اس تك پہنچادى تھى چنانچہ اس كے بعد ہى معاويہ نے اس بات كا فيصلہ كيا تھا كہ قرآن كو نيزوںپر چڑھا ديا جائے وقعہ صفين 481

11_ نجيب الى كتابہ اللہ عزوجل نتنيب اليہ ، تاريخ طبرى ج 5 ص 48 ، كامل ابن اثير ج 3 ص 316 ، مروج الذہب ج 2 ص 390

12_تاريخ طبرى ج 5 ص 48، مروج الذہب ج 2 ص 391 كامل ج 3 ص 316

13_ شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص 134

14_ وقعہ صفين 483_482

15_ وقعہ صفين 483_482

16و17_ وقعہ صفين 483_482

 

269

18_ وقعہ صفين 482

19_ فان تطعيونى فقاتلوا و ان تعصونى فاصنعوا ما بدالكم

20_ ملاحظہ ہو، كامل ابن اثير ج 3 ص 317_ 316 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 49 ، وقعہ صفين 490_489

21_ وقعہ صفين 491 _ 490 كامل ج3 ص 317 تاريخ طبرى ج 5 ص 49

22_ وقعہ صفين 491_90 ، كامل ج 3 ص 317، تاريخ طبرى ج 5 ص 50

23_ وقعہ صفين 484

24_ وقعہ صفين 485_484

25_ سورہ حجرات آيت 8

26_ وقعہ صفين 493

27_ وقعہ صفين 493، نہج البلاغہ مكتوب 48

28_ وقعہ صفين 499_498

29_ وقعہ صفين 499

30_ وقعہ صفين ص 499

31_ وقعہ صفين 500_499 ، كامل ابن اثير 319_318

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنت البقیع اور ا س میں د فن اسلامی شخصیات
واقعہ قرطاس
عام الحزن
حضرت ام کلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ...
حضرت مسلم(ع) کون تھے؟
حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
میثاقِ مدینہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
حق کیا هے اور کس طرح حق کی پیروی کی جا سکتی هے؟
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ

 
user comment