293 منصفين كا اجتماعمعاويہ نے جب يہ ديكھا كہ حكميت كے معاملے ميں عراقى فوج كى كثير تعداد اميرالمومنين حضرت على (ع) برگشتہ ہوگئي ہے تو اس نے يہ كوشش شروع كردى كہ جس قدر جلد ہوسكے حكميت كا نتيجہ اس كى مرضى كے مطابق برآمد ہوجائے_اس مقصد كے تحت اس نے حضرت على (ع) كے خلاف سركشى و شورش كا محاذ قائم كرديا تا كہ وہ اپنے سياسى موقف كو قائم كرسكے_ چنانچہ اس ارادے كے تحت اس نے جونمائندے حضرت على (ع) كى خدمت ميں بھيجے انھيں ہدايت كردى كہ جس قد رجلد ممكن ہوسكے منصفين اپنا كام شروع كرديں_ بلاخرہ 38 ھ چار سو افراد كے ہمراہ دو نمائندہ وفد '' دومة الجندل(1)'' نامى مقام پر جمع ہوئے_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى جانب سے جو وفد بھيجا گيا تھا اس كى سرپرستى كے فرائض ابن عباس انجام دے رہے تھے_ (2) جس وقت يہ وفد روانہ ہونے لگا تو اميرالمومنين حضرت على (ع) كے بعض اصحاب نے ابوموسى كو كچھ ضرورى ہدايات بھى كيں(3) جن كا ان پر ذرا بھى اثر نہ ہوا_ جس وقت اُسے مشورے ديئےارہے تھے تو وہ مسلسل اپنے داماد عبداللہ ابن عمر كى جانب ديكھ رہا تھا اور يہ كہہ رہا تھا كہ : خدا كى قسم اگر ميرا بس چل سكا تو عمر كى راہ و رسم كو از سرنو زندہ كروں گا_ (4) عمر و عاص كى جيسے ہى ابوموسى سے ملاقات ہوئي تو وہ اس كے ساتھ نہايت عزت و احترام كى ساتھ پيش آيا اور اس بات كى كوشش كرنے لگا كہ اسے اپنا ہم خيال بنالے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعد وہ دونوں مشاورت كے لئے بيٹھ گئے اور باقى افراد دو جانب كھڑے اس گفتگو كا انتظار كرنے لگے_ |
جب لوگ جمع ہوگئے تو ابوموسى نے عمروعاص كى جانب رخ كيا اور كہا كہ منبر پر چڑھ كر اپنى رائے كا اعلان كردو عمروعاص تو اول دن سے ہى اس بات كا متمنى تھا اور اسى لئے وہ ابوموسى كى تعريف و خوشامد كرتا رہتا تھا مگر اس نے استعجاب كرتے ہوئے كہا كہ : سبحان اللہ حاشا و كلا كہ يہ جسارت كروں اور آپ كى موجودگى ميں منبر پر قدم ركھوں، خداوند تعالى نے ايمان و ہجرت ميں آپ كو مجھ پر فوقيت عطا كى ہے آپ اہل يمن كى طرف سے نمائندہ بن كر رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوچكے ہيں اور پھررسول مقبول (ص) كى جانب سے آپ ہى نمائندہ بناكر يمن كے لوگوں كے پاس بھيجے گئے تھے ... اس كے علاوہ سن و سال ميں آپ مجھ سے بڑے ہيں اس بناپر آپ ہى گفتگو شروع كريں (6) ابوموسى گفتگو شروع ہى كرنا چاہتا تھا كہ ابن عباس نے كہا كہ عمروعاص تمہيں دام فريب ميں لانے كى فكر ميں ہے گفتگو كا آغاز اسے ہى كرنے دو كيونكہ وہ بہت عيار اور نيرنگ ساز آدمى ہے مجھے يقين نہيں كہ جس چيز پر اس نے اپنى رضايت ظاہر كى ہے اس پر وہ عمل بھى كرے_ ليكن ابوموسى نے ابن عباس كى نصيحت پر عمل نہيں كيا اور اس نيك مشورے كے باوجود وہ منبرپر چڑھ گيا اور اعلان كيا كہ ہم نے اس امت كے امور پر غور كيا اور ا س نتيجہ پر پہنچے كہ وحدت نظر سے بڑھ كر ايسى كوئي شي نہيں جو اس در ہم برہم حالت كى اصلاح كرسكے_ چنانچہ ميں نے اور ميرے حريف ساتھى '' عمرو'' نے اس بات پر اتفاق كيا ہے كہ على (ع) اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دستبردار ہوجائيں اور اس معاملے كو مسلمانوں كى مجلس مشاورت كى تحويل ميں دے ديا جائے تا كہ جس شخص كو يہ مجلس مشاورت پسند كرے اسے ہى منصب خلافت پر فائز كيا جائے_ اس كے بعد اس نے پر وقار لہجے ميں كہا كہ ميں نے على (ع) اور معاويہ كو خلافت سے برطرف كيا_ اس كے بعد عمروعاص منبر پر گيا اور اس نے بآواز بلند كہا كہ لوگو تم نے اس شخص كى باتيں سن ليں ميں بھى على (ع) كو ان كے مقام سے برطرف كرتا ہوں ليكن اپنے دوست معاويہ كو اس منصب پر مقرر كرتا ہوں كيونكہ انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ ليا ہے اوراس منصب كے لئے وہ مناسب |
ترين شخص ہے يہ كہہ كر وہ منبر سے نيچے اتر آيا_ مجلس ميں ايك دم شور و ہيجان بپا ہوگيا لوگ طيش ميں آكر ابوموسى پر پل پڑے بعض نے عمروعاص پر تازيانہ تك اٹھاليا ابوموسى نے شكست كھائے ہوئے انسان كى طرح اپنے خيانت كار حريف كى اس حركت پر اعتراض كيا تجھے يہ كيا سوجھي؟ خدا تجھے نيك توفيق نہ دے تو نے خيانت كى ہے اور گناہ كا مرتكب ہوا ہے تيرى حالت كتے جيسى ہى ہے اسے چاہے مارا جائے يا چھوڑديا جائے وہ ہر حالت ميں بھونكتا ہى رہتا ہے اس پر عمرو نے جواب ميں كہا كہ تيرى حالت اس گدھے كى سى ہے جس پر كتابيں لدى ہوئي ہيں_ (7) حكميت كا معاملہ اس تلخ انجام كے ساتھ اختتام پذير ہوا ابوموسى جان كے خوف سے فرار ركر كے مكہ چلا گيا عمروعاص فاتح كى حيثيت سے شام كى جانب روانہ ہوا اور اس نے معاويہ كو خليفہ كى حيثيت سے سلام كيا_ حكميت سے جو نتيجہ بر آمد ہوا اس نے عراق كے لوگوں كى ذہنى كيفيت كو برى طرح متاثر و مجروح كيا كيونكہ ايك طرف تو خوارج كا غم و غصہ پہلے كى نسبت اب كہيں زيادہ بڑھ گيا تھا كہ جس كا سبب يہ تھا كہ انھيں اميد تھى كہ امير المومنين حضرت على (ع) معاہدے كے منسوخ كرنے پر راضى ہوجائيں گے اور معاويہ كے خلاف اعلان جنگ كرديا جائے گا دوسرى طرف جب يہ افسوسناك خبر كوفہ و بصرہ كے لوگوں تك پہنچى كہ حضرت على (ع) خلافت سے برطرف كرديئے گے وہيں تو مسلمانوں كےدرميان اختلافات بہت زيادہ تير كے آورد ان كى خليج كافى وسيع ہوتى چلى گئي چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك دوسرے كو بر ملا سخت و ست كہنے لگے_ امير المومنين حضرت على (ع) نے لوگوں كے درميان رفع اختلاف ، حزن و ملال كے آثار ميں كمى اور مسئلہ حكميت كے بارے ميں رائے عامہ روشن كرنے كى خاطر اپنے فرزند حضرت حسن مجتبي(ع) كو حكم ديا كہ وہ عوام كے سامنے جا كر تقرير كريں_ حضرت امام حسن (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا لوگو حكمين كے بارے ميں تم بہت زيادہ |
سركشى سے كام ليا اور پہلے كى طرح اس مرتبہ بھى نعرہ لا حكم الا اللہ كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على (ع) اور معاويہ كو وہ كافر كہنے لگے_ انھيں جب بھى موقع ملتا وہ شہر كوفہ ميں داخل ہوجاتے اور جس وقت حضرت على (ع) مسجد ميں تشريف فرما ہوتے تو وہ اپنا وہى پرانا نعرہ لگانے لگتے اس كے ساتھ ہى انہوں نے اس شہر ميں اپنے افكار و نظريات كا پرچار بھى شروع كرديا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے خاموش و پر سكون رہ كر اور كوئي رد عمل ظاہر كئے بغير اپنى تحريك كو جارى ركھا وہ ان كے ساتھ انتہائي نرمى اور تواضع كے ساتھ پيش آئے اگر چہ حضرت على (ع) چاہتے تو ان لوگوں سے كسى بھى قسم كا سلوك روا ركھ سكتے تھے مگر آپ(ع) نے ان كى تمام افترا پردازيوں اور سياسى سرگرميوں كے باوجود اپنے محبت آميز رويے ميں ذرہ برابر بھى تبديلى نہ آنے دى آپ(ع) ان سے اكثر فرماتے كہ '' تمہارے تين مسلم حقوق ہمارے پاس محفوظ ہيں : 1_ شہر كى جامع مسجد ميں نماز پڑھنے اور اجتماعات ميں شركت كرنے سے تمہيں ہرگز منع نہيں كيا جائے گا_ 2_ جب تك تم لوگ ہمارے ساتھ ہو بيت المال سے تمہيں تنخواہيں ملتى رہيں گي_ 3_ جب تك تم ہم پر تلوار اٹھاؤ گے ہم تمہارے ساتھ ہرگز جنگ كے لئے اقدام نہ كريںگے(10) خوارج اگر چہ نماز ميں حضرت على (ع) كى پيروى نہيں كرتے تھے مگر اجتماع نماز كے وقت ضرور پہنچ جاتے وہ لوگ اس جگہ نعرے لگا كر اور دوسرے طريقوں سے آپ(ع) كو پريشان كركے آزار پہنچانے كى كوشش كرتے رہتے ايك دن جس وقت حضرت على (ع) نماز ميں قيام كى حالت ميں تھے خوارج ميں سے ايك شخص نے جس كا نام ''كوا'' تھا بآواز بلند يہ آيت پڑھي: '' و لقد اوحى اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين''(11) |
(اس آيت ميں خطاب پيغمبر(ص) سے كيا گيا ہے كہ : اے نبى ان سے كہو' پھر كيا اے جاہلو تم اللہ كے سوا كسى اور كى بندگى كرنے كےلئے مجھ سے كہتے ہو(يہ بات ہميں ان سے صاف كہہ دينى چاہيئے كيونكہ) تمہارى طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبياء كى طرف يہ وحى بھيجى جاچكى ہے_ اگر تم نے شرك كيا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے ميں رہوگے) '' ابن كوا'' يہ آيت پڑھ كرچاھتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو اشارہ و كنايہ ميں يہ بتا دے كہ آپ نے عہد گذشتہ ميں جو اسلام كے لئے خدمات انجام دى ہيں ان سے ہرچند انكار نہيں كيا جاسكتا ليكن آپ(ع) نے كفر كے باعث اپنے تمام گذشتہ اعمال كو تلف و ضائع كرديا ہے_ حضرت على (ع) خاموش رہے اور جب يہ آيت پورى پڑھى جا چكى تو آپ نے نماز شروع كى ... '' ابن كوا'' نے دوسرى مرتبہ يہ آيت پڑھى حضرت على (ع) اس مرتبہ بھى خاموش رہے چنانچہ جب وہ يہ آيت كئي بارپڑھ چكا اور چاہتا تھا كہ نماز ميں خلل انداز ہو تو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے يہ آيت تلاوت فرمائي فاصبر ان وعد اللہ حق و لا يستخفنك الذين لا يوقنون (12)(پس اے نبى صبر كرو يقينا اللہ كا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلكانہ پائيں تم كہ وہ لوگ جو يقين نہيں كرتے) اور آپ نے اس كى جانب توجہ و اعتنا كئے بغير نماز جارى ركھي_(13) اميرالمومنين حضرت على (ع) كا طرز عمل يہ تھا كہ آپ لوگوں كى نعرہ بازى اور نكتہ چينى كا جواب منطقى نيز واضح و روشن دلائل سے ديتے تا كہ وہ اپنى ذھنى لغزش كى جانب متوجہ ہو سكيں اور آپ(ع) كو پريشان كرنے سے باز رہيں اسى لئے آپ (ع) فرماتے كہ اگر خوارج خاموش رہتے ہيں تو ہم انھيں اپنى جماعت كا جزو ركن سمجھتے ہيں اگر وہ اعتراض كيلئے لب كشائي كرتے ہيں تو ہم ان كا مقابلہ منطق و دليل سے كرتے ہيں اور وہ ہمارے ساتھ ضد پر اتر آئيں تو ہم ان سے نبرد آزمائي كرتے ہيں_(14) |
منشورخوارج نے ايك خاص انداز فكر كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت كے خلاف شورش و سركشى كى ان كے اس دائرہ عمل ميں مندرجہ ذيل نكات شامل تھے_ 1_ اميرالمومنين حضرت على (ع) معاويہ ،اور عثمان، اصحاب جمل اور حكميت سے متفق و ہم خيال اشخاص نيز ان افراد كو كافر تصور نہ كرنے والے لوگ اور مذكورہ بالا افراد سے وابستہ گروہ سب كے سب كافر ہيں_ 2_ امر بالمعروف و نہى از منكر كى بنياد پر ظالم و ستمگر خليفہ وقت ( اميرالمومنين حضرت على (ع) كےخلاف بلاقيد و شرط شورش كرنا ضرورى ہے كيونكہ ان كى رائے ميں اس كا اطلاق كسى شرط و پابندى كے بغير ہرجگہ ضرورى و لازمى امر تھا _ 3_ مسئلہ خلافت كا حل مجلس مشاورت كے ذريعے كيا جانا چاہئے اور اس مقام كو حاصل كرنے كيلئے ان كى دانست ميں واحد شرط يہ تھى كہ آدمى صاحب تقوى و ايمان ہو اور اگر خليفہ انتخاب كے بعد اسلامى معاشرے كى مصلحتوں كے برخلاف كوئي اقدام كرے تو اسے اس عہدے سے معزول كرديا جائے اور اگر وہ اپنے منصب سے دست بردار نہ ہو تو اس سے جنگ ونبرد كى جانى چاھيئے_(15) اس منشور كى بنياد پر وہ ابوبكر اور عمر كى خلافت كو صحيح سمجھتے تھے كيونكہ ان كى رائے ميں يہ حضرات صحيح انتخاب كے ذريعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں كى خير و صلاح كى راہ سے منحرف نہ ہوئے تھے عثمان اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے انتخاب كو اگر چہ وہ ہر چند درست ہى سمجھتے تھے مگر اس كے ساتھ وہ يہ بھى كہتے تھے كہ عثمان نے اپنى خلافت كے چھٹے سال سے اپنے رويے كو بدلنا شروع كرديا تھا اسى لئے وہ خلافت سے اگر چہ معزول كرديئے گئے تھے مگر وہ چونكہ اپنے اس منصب پر فائز رہے اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل تھے على (ع) نے بھى چونكہ حكميت كو تسليم كرليا تھا اور اس اقدام پر پشيمان ہو كرا انہوں(ع) نے توبہ نہيں كى تھى اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل ہيں (معاذ اللہ (16) |
بن وہب راہبى نے انھيں اپنے گھر پر جمع ہونے كى دعوت دى اور ان كے سامنے نہايت ہى پر جوش و لولہ انگيز تقرير كے ذريعے انہوں نے اپنے ہم مسلك لوگوں كو شورش و سركشى پر آمادہ كيااس ضمن ميں اس نے كہا كہ بھائيو اس جور و ستم كى نگرى سے نكل كر اچھا تو يہى ہے كہ پہاڑوں ميں جاكر آباد ہو رہيں تا كہ وہاں سے ہم ان گمراہ كن بدعتوں كا مقابلہ كركے ان كا قطع قمع كرسكيں_(20) اس كے بعد ''حر قرص بن زہير'' نے تقرير كى ان دونوں كى تقارير نے خوارج كے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر كيا اور ان ميں پہلے كى نسبت اب زيادہ جو ش و خروش پيدا ہونے لگا اگلا جلسہ '' ذفر بن حصين طائي'' كے گھر پر ہوا اس نے مفصل تقرير كے بعد كہا كہ ميں اپنے نظريئےيں دوسروں كى نسبت زيادہ محكم و پايدار ہوں اگر ايك شخص اس سلسلے ميں ميرا ساتھ نہ دے تو ميں اكيلا ہى شورش و سركشى كروں گا _ اے بھائيو تم اپنے چہروں اور پيشانيوں پر شمشير كى ضربيں لگاؤ تا كہ خدا ئے رحمن كى اطاعت ہوسكے (21) اس كے بعد اس نے يہ تجويز پيش كى كہ بصرہ كے خوارج كو خط لكھا جائے تا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے وہ ''نہروان'' ميں ان سے آن مليں اہل بصرہ نے مثبت جواب ديا اور كوفہ كے گروہ كے ساتھ آكر مل گئے(22) خوارج نے اپنى تحريك كوفہ كے باہر راہزنى اور ناكہ بندى كے ذريعے شروع كى _ قتل و غارتگرى كو انہوں نے اپنا شعار بنايا اور جو لوگ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے حامى و طرفدار تھے ان كے ساتھ وہ دہشت پسندانہ سلوك كرنے لگے_ اس اثناء ميں انھيں دو شخص نظر آئے ان ميں سے ايك مسلمان تھا ا ور دوسرا عيسائي ، عيسائي كو تو انہوں نے چھوڑ ديا مگر مسلمان كو اس جرم ميں قتل كرديا كہ وہ حضرت على (ع) كا طرفدار ہے_ (23) عبداللہ بن خباب سربرآوردہ شخص اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے كار پرداز تھے وہ اپنى زوجہ كے ساتھ جار ہے تھے كہ خوارج سامنے سے آگئے ان كو ديكھتے ہى انہوں نے كہنا شروع كيا كہ : '' اسى قرآن نے جو تيرى گردن ميں حمايل ہے تيرے قتل كا حكم صادر كيا ہے '' قتل كرنے سے پہلے |
رغبت دلانے كى خاطر تقرير كى اور فرمايا كہ : اب تم جہاد كرنے دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ پير كے دن '' نخيلة '' نامى مقام پر عسكر گاہ ميں تمہيں جمع ہونا ہے ہم نے منصفين كا انتخاب اسى لئے كيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر تم نے ديكھ ليا كہ انہوں نے كلام اللہ اور سنت رسول (ص) كے خلاف اقدام كيا خدا كى قسم ميں ان سے جنگ كروں گا اگر كسى نے بھى ساتھ نہ ديا تو ميں تنہاہى ان سے نبرد آزمائي كروںگا_(27) اس كے بعد آپ (ع) '' نخيلہ'' كى جانب روانہ ہوئے اور بصرہ كے صوبہ دار كو خط لكھ كر اس سے مدد چاہى جب خوارج كو يہ علم ہوا كہ سپاہ اسلام نخيلہ ميں جمع ہو رہى ہے تو انہوں نے حَرُوراء ميں قيام كرنا تحفظ كے اعتبار سے خلاف مصلحت سمجھا اور اس جگہ كو ترك كرنے كا فيصلہ كرليا_ اس سے قبل كہ وہ اپنى قيام گاہ كو خالى كر كے جائيں اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اتمام حجت كے طور پر انھيں خط لكھا اور انھيں يہ دعوت دى كہ وہ ديگر سپاہ كے ساتھ آن مليں تا كہ معاويہ كى جانب روانہ ہوا كر اس كے ساتھ جنگ كى جاسكے مگر انہوں نے اس خط كا جواب نفى ميں ديا_(28) اميرالمومنين حضرت على (ع) جب خوارج كو راہ حق پر لانے ميں مايوس ہوگئے تو آپ نے يہى فيصلہ كيا كہ انھيں انہى كے حال پر چھوڑ كر اصل مقاصد كى جانب روانہ ہوا جائے چنانچہ آپ (ع) نے نخيلہ ميں بھى تقرير كا اہتمام كيا اور افواج كى معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے حوصلہ افزائي كى اس ضمن ميں آپ(ع) نے فرمايا: كہ ميں نے بصرہ كے بھائيوں كو بھى خط لكھا ہے اور جيسے ہى وہ يہاں پہنچ جائيں گے ہم دشمن كى جانب روانہ ہوں گے_ (29) بصرہ كى فوج جو تين ہزار دو سو سے زيادہ سپاہيوں پر مشتمل تھى آن پہنچى سپاہ كى مجموعى تعداد تقريبا اڑسٹھ (68) ہزار ہوگئي (30) اس سے پہلے كہ لشكر روانہ ہو بعض سپاہ نے دبى آواز ميں كہنا شروع كيا كہ كيا ہى اچھا ہوتا كہ پہلے خوارج سے جنگ كرلى جاتى اور جب ان كا كام تمام ہوجاتا تو |
ہم تم سے دستبردار ہو كر شام كى جانب روانہ ہوجائيں انہوں نے جواب ديا كہ ہم سب ہى قاتل ہيں اور مزيد يہ كہا كہ تمہارا اور ان كا خون بہانا ہمارے لئے جائز و مباح ہے (38) 2_ آپ (ع) نے يہ تجويز ركھى كہ تم ميں سے كون شخص اس كام كيلئے آمادہ ہے كہ قرآن مجيد اٹھائے اور اس جماعت كو كلام اللہ كى جانب آنے كى دعوت دے طائفہ بنى عامر كے ايك نوجوان نے اپنے آمادگى كا اعلان كيا انہوں نے قرآن پاك اپنے ہاتھ ميں ليا اور خوارج كو اس كى جانب آنے كى دعوت دى خوارج نے ان پر بھى تيروں كى بارش كردى اگر چہ ان كے چہرے پر سب سے زيادہ تير لگے تھے مگر اس كے باوجود وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے نزديك آگئے اور چند لمحہ بعد ہى شہيد ہوگئے_ (39) 3_ قيس بن سعد اور ايوب انصارى جيسے اصحاب نے بھى اتمام حجت كے طور پر خوارج كے سامنے تقارير كيں ان حضرات كے علاوہ اميرالمومنين حضرت على (ع) بذات خود تشريف لے گئے اور آخرى مرتبہ انھيں مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ''ميں تمہيں كل كے لئے آگاہ كيئے ديتا ہوں كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ امت اسلاميہ تمہيں لعنت و ملامت سے ياد كرے كيونكہ تمہارے جسم تو اسى نہر كے كنارے زمين پر گريں گے اور تم كوئي محكم دليل يا سنت بطور سند اپنے بارے ميں چھوڑ كر نہيں جاؤگے'' اس كے بعد آپ (ع) نے حكميت كے افسوناك واقع اس معاملے ميں اپنے نيز خوارج كے كردار اور اپنے ہى قول سے ان كى روگردانى و خلاف ورزى كے بارے ميں تقرير كى اس ضمن ميں آپ(ع) نے مزيد فرمايا: كہ اگر چہ حكمين نے كلام اللہ اور سنت رسول(ص) سے منحرف و رو گردان ہو كر اپنے نفسانى ميلان كى بنيادپر حكم جارى كيا مگر ہم اب بھى اپنى اس سابقہ روش پر قائم ہيں اس كے بعد تم كہو كہ كيا كہنا چاھتے ہو اور كہاں سے آگئے ہو؟ (40) 3_ تقرير ختم كرنے كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) نے پرچم امان ابو ايوب انصارى كے حوالے كيا اور انھيں حكم ديا كہ اعلان كريں كہ جو شخص بھى اس پرچم كے نيچے آجائے گا امن و امان |
ميں رہے گا اس كے علاوہ جو كوئي شہر ميں داخل ہوگا يا عراق كى جانب واپس چلا جائے گاوہ بھى امان ميں رہے گا ہميں تمہارا خون بہانے كے ضرورت نہيں (41) اميرالمومنين حضرت على (ع) نے جيسے ہى پرچم امان لہرايا تو بہت سے لوگوں نے بآواز بلند كہناشروع كيا التوبہ ، التوبہ يا اميرالمومنين چنانچہ اس كے بعد تقريبا آٹھ ہزار افراد مخالفت سے دستبردار ہوكر پرچم امان كے نيچے جمع ہوگئے_ (42) |
سوالات1_ منصفين كس تاريخ كو اور كہاں جمع ہوئے ان ميں سے ہر ايك كى ابتدائي رائے كس كے حق تھى اور انہوں نے كس مسئلے پر اتفاق رائے كيا؟ 2_ حكميت كے نتيجے كا عراق كے لوگوں پر كيا رد عمل ہوا حضرت على (ع) نے حكميت كے ناپسنديدہ اثرات دور كرنے اور عامہ پر حقائق كى وضاحت كيلئے كيا اقدامات كيئے؟ 3_ اس سے قبل خوارج كہ دہشت پسندانہ راہ و روش اختيار كريں حضرت على (ع) كا ان كے ساتھ كيسا سلوك و رويہ تھا؟ اس سلسلے ميں حضرت على (ع) كے اقوال ميں سے ايك قول بطور نمونہ پيش كيجئے_ 4_ خوارج كے فكرى دائرہ عمل كى تشكيل كن چيزوں پر منحصر تھي؟ 5_ حضرت على (ع) نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے اپنى توجہ كس بناپر خوارج كى جانب كردي؟ 6_ حضرت على (ع) نے خونريزى روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے؟ اس كے دو نمونے پيش كيجئے |
حوالہ جات1_ اس كا شمار مدينہ كے قريات ميں ہوتا ہے 2_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين 533، مروج الذہب ج 2 ص 390 3_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين 536 4_ وقعہ صفين 534، واللہ ان لو استطعت لاحين سنة عمر 5_ وقعہ صفين 534 6_ ملاحظہ ہو الامامہ و السياسہ ج 1 ص 118، وقعہ صفين 544 7_ وقعہ صفين 546-----_ 545، الامامہ و السياسہ ج 1 ص 118 8_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 119 9_ خوارج جمع ہے خارجہ كى اصطلاحا اس كا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جنہوں نے حضرت على (ع) كے خلاف شورش و سركشى كى اور نہروان نامى مقام پر آپ سے بر سر پيكار ہوئے ابن ملجم كا شمار بھى خوارج ہى ميں ہوتا ہے حضرت على (ع) اسى شخص كے ہاتھوں شہيد ہوئے ( كتاب ملل و نحل تاليف شہرستانى ج 1 ص 144) 10_ ان لكم عندنا ثلاثا لا نمنعكم صلواة فى ہذا المسجد و لا نمنعكم نصيبكم من ہذا الفي ى ما كانت ايديكم مع ايدينا و لا نقتلكم حتى تقاتلونا ( تاريخ طبرى ج 5 ص 74 كامل ج 3 ص 335، المجموعہ الكاملہ ج 5 ص 171) 11_ سورہ زمر آيت 65 12_ سورہ روم آيت 60 13_ شرح ابن ابى الحديد ج 2 ص 311، تاريخ طبرى ج 5 ص 73 14_ ان سكتوا عمعناہم ان تكلموا حججنا ہم و ان خرجوا علينا قاتلنا ہم ( تاريخ طبرى ج 275، كامل بن اثير ج 3 ص 334) 15_ خوارج كے نعرہ '' لاحكم الا للہ'' سے جو مطلب اخذ كيا گيا تھا اسى مفہوم ميں اس كا ذكر حضرت على (ع) كے خطبہ نہج البلاغہ 40 ميں بھى ملتا ہے ابتداء ميں ان كى رائے يہ تھى اجتماع كو امام وقت اور حكومت كى ضرورت نہيں اور |
لوگوں كو چاہيئے كہ خود براہ راست كلام اللہ پر عمل كريں مگر اس رائے كو ظاہر كرنے كے بعد انہوں نے حضرت عبداللہ بن وہب راسبى سے رجوع كيا اور انہى كے ہاتھ پر بيعت كى ( كامل ابن اثير ج 3 ص 335) 16_ جاذبہ و دافعہ على (ع) منقول از ضحى الاسلام و ملل و نحل شہرستاني 17_ ان الحكم الا للہ يقص الحق و ہو خير الفاصلين ( فيصلہ كا سارا اختيار اللہ كو ہے وہى امر حق بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (سورہ الانعام آيت 57) 18_ شوہر اور بيوى كے اختلاف كا ذكر سورہ نساء كى آيت 35 ميں آچكا ہے اور ہم اس كا پہلے ذكر كرچكے ہيں ليكن احرام كى حالت ميں اگر كوئي محرم ديدہ و دانستہ شكار كرے تو اسے چاہيئے كہ كفارہ ادا كرے اور بطور كفارہ وہ جو جانور ذبح كرے اس كى حكميت دو عادل انسان كريں چنانچہ قرآن مجيد فرماتا ہے و من قتلہ منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم بہ ذوا عدل منكم( احرام كى حالت ميں شكار نہ مارو اور اگر تم ميں سے كوئي جان بوجھ كر ايسا گذرے تو جو جانور اس نے مار اہے اسى كے ہم پلہ ايك اور جانور اسے مويشيوں ميں سے نذر دينا ہوگا جس كا فيصلہ تم ميں سے دو عادل آدمى كريں گے ( سورہ مائدہ آيت 94) 19_ كلمة حق يراد بہا باطل نعم انہ لا حكم الا اللہ و لكن ہولاء يقولون لا امرة الا للہ انہ لا بد للناس من امير من بر او فاجر ...( نہج البلاغہ خ 40) 20_ كامل ابن اثير ج 3/ 335 21_ يا اخواننا ضربوا جباہہم و وجوہہم بالسيف حتى يطاع الرحمن عزوجل 22_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 133، تاريخ طبرى ج 5 ص 75، كامل ج 3 ص 336 23_شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4/127 24_ ستكون بعدى فتنہ يموت فيہا قلب الرجل كما يموت بَدَنُہُ يمسى مومنا و يصبح كافر افَكُن عنداللہ المقتول و لا تكن القاتل( شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128، تاريخ طبرى ج 5/81 25_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128، تاريك طبرى ج 5 ص 81، اعيان الشيعہ ج 1ص 522 ( دس جلديں مطبوعہ بيروت ) و كامل ابن اثير ج 3 ص 341 |
26_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج 4 ص 128، اعيان الشيعہ ج 1/ 523 27_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 123 28_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 123 29_ تاريخ طبرى ج 5 ص 78، كامل ابن اثير ج 3 ص 239 30_ كامل ج 3 ص 340 31_ سر بنا يا اميرالمومنين حيث احببت فنحن حزبُكَ و انصارك، الامامہ و السياسة ج 1 ص 125، تاريخ طبرى ج 5 ص 80، كامل ج 3 ص 341 32_ واللہ لو اقر اہل الدنيا كلہم بقتلہ بكذا و انااقدر على قتلہم بہ لقتلتہم شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128 و ابن ابى الحديد ج 2 ص 282 33_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127، تدع ہولاء القوم و ارثنا يخلفوننا فى عيالنا و اموالنا ؟سربنا اليہم فاذا فرغنا نہضنا الى عدونا من اہل الشام 34_ يہ پل دريائے طبرستان پر حلوان اور بغدادكے درميان واقع تھا اور شاہراہ خراسان اسى پل سے گذرتى تھى (مروج الذہب ج 2 ص 405) 35_ اس نام كے تين گاؤں ہيں جو طول ميں ايك دوسرے كے بعد آباد تھے ان كى شناخت نہروان اعلى نہروان اوسط اور نہروان اسفل سے كى جاتى تھى يہ گاوں واسطہ اور بغداد كے درميان آباد تھے 36_ مصارعہم دون النطفة واللّہ لا يغلت منہم عشرة و لايہلك منكم عشرہ نہج البلاغہ خ59 37_ مروج الذہب ج 2 ص 405 38_ انا كلنا قتلنا ہم كلنامُستَحل لدمائ كُم و دمائہم الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127 39_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 129 40_ فما نبوكم و من اين ايتتم ؟ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127، تاريخ طبرى ج 5 ص 84، كامل ج 3 ص 343 41_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 128 ، كامل ج 3 ص 345، تاريخ طبرى ج 5 ص 85 42_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 135 |