315 دو سپاہ كے درميان جنگ و نبردحضرت على (ع) نے اگر چہ صلح كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس كے باوجود ان ميں سے چار ہزار سے زيادہ خوارج باقى رہ ہى گئے_ وہ عبداللہ بن وہب كے زير فرمان اب بھى اپنے پر انے عقيدے پر پورى طرح قائم تھے اور الرواح الرواح الى الجنة(بڑھو جنت كى طرف) كے نعرے لگاتے ہوئے حضرت على (ع) كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے(1) حضرت على (ع) نے بھى اپنى سپاہ كى صفين آراستہ كيں چنانچہ ميمنہ پر حجر بن عدى اور ميسرہ پر شبث بن ربعى كو متعين كيا_ سوار فوج كى فرماندارى ابو ايوب انصارى اور پيادہ لشكر كى ابوقتادہ كے سپرد كى قيس بن سعد كو مدينہ كے لوگوں كا سردار مقرر كيا ان كى تعداد بھى تقريبا آٹھ سوار افراد پر مشتمل تھى قلب لشكر ميں آپ بذات خود موجود رہے(2) تيراندازى خوارج كى جانب سے شروع ہوئي چنانچہ جب ايك شخص كو خون آلود حالت ميں آپ(ع) كے سامنے لايا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا كہ حملہ كرو كيونكہ اب اس گروہ كا قتل كرنا ہمارے لئے جائز ہے_(3) دونوں لشكر ايك دوسرے پر حملے آور ہوئے شروع ميں اگر چہ لشكر اسلام كے سوار فوج، دشمن كے سنگين حملے كے باعث اپنے مقام سے پيچھے ہٹ گئے اور پورى صف لشكر سے الگ ہوگئے خوارج اس پر تير كى تيزى سے حملے آور ہوئے وہ قلب لشكر پر حملہ كرنے كے ارادے سے آگے بڑھے ہى تھے كہ يكايك جنگ كا نقشہ ہى بدل گيا تير اندازوں كے اس دستے كو جو پہلے سے ہى اس مقام كى پشت پر متعين تھا جہاں سوار فوج كى جگہ مقرر كى گئي تھى انہيں اپنے تيروں كانشانہ بنايا اور اپنى طرف سے غافل و بے خبر پا كر ان پرحملہ كرديا يہ حملہ ايسا اچانك اور سخت تھا كہ ان كے لئے |
نہيں(61) اس كے اگلے دن مسجد ميں لوگوں كے درميان جو حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے آئے تھے انہوں نے كہا تھا كہ يہ پيغمبروں(ص) كے وصى اور علم انبياء كے وارث اور وہ بزرگ ہستى ہيں جو سخت آزمايشوں سے گذرے ہيں كلام اللہ اور رسول خدا(ص) نے آپ كے رضوان بہشت ہونے كى شہادت دى ہے آپ وہ شخص ہيں جو فضائل كے اعتبار سے كمال كى منزلت پر پہنچ چكے ہيں آپ كى نيك طينتى اور دانشمندى كے بارے ميں ان لوگوں كو بھى شك نہ تھا جو اس دنيا سے گذر چكے ہيں اور جو آئندہ آئيں گے وہ بھى اس پر يقين كريں گے آپ لوگ اٹھيے اورآپ كے دست مبارك پر بيعت كيجئے(17) اس كے بعد وہ ہرجگہ اور ہر مرحلے پر اپنى لاثانى اور بے نظير بہادرى كے باعث ہميشہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے دوش بدوش رہے ان كے اثر و رسوخ اور سياسى تدبر كااندازہ اس فرمان سے لگايا جاسكتا ہے جو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كے نام حكومت مصر تفويض كرتے وقت جارى كيا تھا اس كے علاوہ وہ خطوط جو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كے نام تحرير فرمائے تھے نيز وہ مراكز جن كى فرمانروائي انہوں نے قبول كى تھى ان كے حسن تدبر و معاملہ فہمى كے آئينہ دار ہيں(18) جنگ صفين اور واقعہ حكميت كے بعد سپاہ عراق ميں بتدريج كمزورى اور پراگندگى كے باعث لوگوں كے درميان بالخصوص دارالخلافت سے دور و دراز كے علاقوں ميں استقامت و پايدارى كاوہ جذبہ جس سے خوشى و نشاط ہوتى ہے نيز معاويہ سے جنگ كرنے كاجوش و خروش آہستہ آہستہ سرد ہونے لگا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو اطلاع ملى كہ معاويہ كاحامى و طرف دار معاويہ بن خديج نامى ايك شخص مصر ميں عثمان كے خون كابدلہ لينے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ہے اس نے وہاں كے امن و امان كو درہم برہم ، صوبہ دار محمد بن ابى بكر كى حيثيت و منزلت كو متزلزل اور وہاں كے لوگوں كا زندہ رہنا |
قيس ، بسر بن ارطاة اور ابوالاعور سلمى جيسے مشاورين كو اپنے پاس بلايا اور ان كے ساتھ مشورہ كيا اتفاق اس بات پر ہوا كہ وہ علاقے جو حضرت على (ع) كى قلمرو حكومت ميں شامل ہيں حملہ كركے ان پر قبضہ كرليا جائے_ اس وقت مصر چونكہ خاص اہميت كا حامل تھا(جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ منطقہ عراق كے مقابلے شام سے نزديك تر ہے اور وہاں كے اكثر و بيشتر لوگ عثمان كے مخالف تھے اس لئے بھى معاويہ كو اس منطقہ كى طرف سے تشويق لا حق رہتى تھى اس كے علاوہ مصر پر قبضہ ہوجانے كے بعد محصول كى آمدنى ميں اضافہ ہوسكتا تھا اور وہاں كى انسانى طاقت كو حضرت على (ع) كے خلاف استعمال كياجاسكتاتھا) اسى لئے اس نے يہ خاكہ تيار كياكہ عثمان كے طرفداران عناصر كو جو مصر ميں ہيں بروئے كار لائيں اور لشكر كشى كا آغاز وہاں سے كياجائے اس سے قبل كہ وہ اس طرف اپنے فوجى طاقت روانہ كريں انہوں نے ''معاويہ بن خديج'' اور '' مسلمہ بن مخلد'' جيسے اپنے ہوا خواہوں كو خط لكھا اور اس ميں اس بات كا تذكرہ كيا كہ كثير تعداد ميں ميرى سپاہ جلد ہى تمہارى مدد كے لئے پہنچ جائے گي(27) اس كے بعداس نے تقريبا چھ ہزار سپاہى عمر و عاص كى زير فرماندارى روانہ كئے اس كى چونكہ ديرينہ آرزو تھى كہ اس منطقہ پر حكمرانى كرے اسى لئے اس طرف روانہ ہوگيا عثمان كے طرفدار بھى بصرہ سے چل كر اس كے ہمراہ ہوگئے_ اس سے قبل كہ شہر ميں داخل ہوں عمر وعاص نے محمد بن ابى بكر كو خط لكھا جس ميں انہيں يہ تنبيہ كى كہ اس سے پہلے كہ شام كى سپاہ تمہارا سر تن سے جدا كردے تم خودہى اپنے عہدے سے برطرف ہوجاؤ اور بصرہ سے نكل كر كسى بھى طرف چلے جاؤ_ محمد بن ابى بكر نے اپنے خط كے ساتھ عمر و عاص كامراسلہ اور معاويہ كا عريضہ حضرت على (ع) كى خدمت ميں روانہ كرديا اور آپ سے مدد كے طالب و خواستگار ہوئے_ حضرت على (ع) نے محمد بن ابى بكر كو جو خط لكھا اس ميں آپ(ع) نے انہيں ہدايت كى تھى كہ |
استقامت اور پايدارى سے كام ليں اور شہر كى حفاظت كے پورے انتظامات كئے جائيں اس كے ساتھ ہى آپ (ع) نے حكم دياكہ كنانہ بن بشر كو چونكہ آزمودہ ، با تجربہ اور جنگجو سردار سپاہ ہيں حملہ آوروں كى جانب روانہ كياجائے اور مصر ميں بھى اپنے لوگوں كو جو بھى سوارى ميسر آسكے اس كے ہمراہ تمہارى طرف روانہ كر رہاہوں(28) اس كے بعد حضرت على (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ : نابغہ زادہ (29) كثير سپاہ لے كر مصر پر حملہ كرنے كى غرض سے روانہ ہوا ہے محمد بن ابى بكر اور ديگرى مصرى بھائيوں كو تمہارى مدد كى ضرورت ہے جس قدر جلد ممكن ہوسكے ان كى داد و فرياد كو پہونچو كہيں ايسا نہ ہو كہ مصر تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اگر يہ ملك تمہارے ہاتھ ميں رہے تو باعث عزت و شرف ہے اور تمہارے دشمنوں كى كمزورى اور ناتوانى كا سبب كل كے لئے يہ ہمارى وعدہ گاہ ہے اور جرعہ كى فوجى چھاوني(30) حضرت على (ع) دوسروں سے پہلے ہى سپاہ كى لشكر گاہ(چھاؤني) ميں تشريف لے گئے وہاں آپ(ع) نے ظہر كے وقت تك انتظار كيا جو لوگ وہاں پہونچے ان كى تعداد سو سے بھى كم تھى مجبورا كوفہ كى جانب روانہ ہوگئے جب رات ہوئي تو آپ (ع) نے قبائل كے سرداروں كو بلايا اور فرمايا كہ : حمد و تعريف خدا كى قضاء و قدر نے ميرے باعث تمہيں آزمائشے ميں مبتلا كيا لوگو ميں نے جب بھى تمہيں حكم ديا تم نے اس كى اطاعت نہيں كى اور جب بھى ميں نے تمہيں اپنى طرف آنے كى دعوت دى تم نے اسے قبول نہ كيا ... اپنى مدد اور راہ حق ميںجہاد كرنے كے لئے تم كس چيز كے منتظر ہو؟ موت چاھتے ہو يا ذلت و خواري ... كيا تمہارے پاس وہ دين و ايمان نہ رہا جو تمہيں متحد كر سكے كيا اب تم ميں وہ غيرت و حميت باقى نہيں رہى جو تمہيں جہاد كى جانب جانے كے لئے ترغيب دلا سكے ... كيا يہ بات باعث حيرت نہيں كہ معاويہ پست فطرت ، ظالم و جفا كار لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كہے اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں اور صلہ و انعام كى تمنا كئے بغير اس كى اطاعت و پيروى كريں ليكن اس كے برعكس جب ميںتم كو جو اسلام اور ہمت و مردانگى كى يادگار رہ گئے ہو اپنى طرف آنے كى دعوت ديتا ہوں تو ميرى مخالفت كرتے ہو تم مجھے اكيلا نہ چھوڑو اور |
مصر پر قبضہ كر ليا تو آپ (ع) نے واضح طور پر لوگوں كو سخت سست كہنا شروع كرديا اور فرمايا كہ تم وہ لوگ ہو جوكسى كے خون كا بدلہ لينے ميں ميرى مدد نہيں كر سكتے اگر كوئي گتھى الجھ جائے تم اسے سلجھا نہيں سكتے پچاس دن سے زيادہ ميں تمہارے سامنے داد و فرياد كرتا رہا كہ بھائيو آؤ اور ميرى مدد كرو مگر تم اس اونٹ كى طرح كلبلاتے رہے جو درد شكم كے مارے تڑپ رہا ہو تمہارى حالت اس شخص كى سى ہے جو راہ جہاد ميں تو نكلے مگريہ سوج كر كہ اس كام سے مجھے حاصل كيا ہوگا زمين پكڑے بيٹھے رہے يہاں تك كہ تم ہى ميں سے ايك مختصر سپاہ كى جماعت تھى جنہيں ديكھ كر لگتا تھا كہ خود كو جان بوجھ كر موت كے منہ ميں دھكيل رہے ہيں افسوس تمہارى حالت زار پر(37) حضرت على (ع) كے رنج و اندوہ كايہ عالم تھا كہ زندگى سے بيزارى اور يہ آرزو كرنے لگے كہ جس قدر جلد ہو سكے موت آجائے تا كہ ان لوگوں كى ہمنشينى كے سخت و سنگين بار سے نجات ملے_ حضرت على (ع) نے حضرت ابن عباس كوجو خط مرقوم فرمايا تھا اس ميں آپ(ع) نے اس احساس كرب كا اظہار اس طرح كيا تھا: مصر كو دشمن نے فتح كر ليا محمد بن ابى بكر شہادت سے ہمكنار ہوئے ... ميں نے لوگوں كو بار بار ان سے ہمدوش ہونے اور ان كى مدد كرنے كى ترغيب دلائي اور كہا اس سے پہلے كہ پانى سرسے گذر جائے تم ان كى داد و فريادكو پہنچو چند لوگ تيار بھى ہوئے مگر بد دلى كے ساتھ كچھ عذر و بہانہ كر كے عليحدہ ہوگئے اور بعض نے تو ان كى مدد كرنے سے قطعى ہاتھ اٹھايا اورگھروں ميں گھس گئے ميں تو خدا سے يہى دعا كر رہا ہوں كہ مجھے ان لوگوں كے چنگل سے نجات دلائے اور ان سے رہائي كى كوئي سبيل نكل آئے_ خدا كى قسم دشمن كے ساتھ جنگ و پيكار كرتے وقت شہادت كى آرزو نہ ہوتى اور ميں نے راہ خدا ميں خود كو مرنے كيلئے آمادہ نہ كر ليا ہوتا تو ميں اس بات كو ترجيح ديتا كہ ايسے لوگوں كا ايك دن بھى منھ نہ ديكھوں اور ان كے پاس سے بھى نہ گذروں(38) |
سوالات1_ جنگ نہروان كس كى طرف سے شروع ہوئي اس ميں كون فاتح رہا؟ 2_ ذوالثديہ كس شخص كا نام تھارسول اكرم(ص) نے اس كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟ 3_ غلات كون تھے او ر ان كے وجود ميں آنے كى كيا اسباب تھے؟ 4_ جنگ نہروان كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟ 5_ صوبہ دار مصر كو تبديل كرنے كى كيا وجہ تھي؟ 6_ مالك اشتر كى كہاں اور كيسے شہادت ہوئي؟ 7_ كن محركات كى بنا پر معاويہ نے اسلامى حكومت كے قلمرو پر حملہ كرنامصر سے شروع كيا؟ 8_ محمد بن ابى بكر كى شہادت كس شخص كے ہاتھوں اور كس طرح ہوئي؟ |
حوالہ جات1_ الامامة و السياسة ج 1 ص 128 ، كامل بن اثير ج 3 ص 346 ، تاريخ طبرى ج 5ص 86 2_ الامامة و السياسة ج 1 ص 128_ 3_ الان حل قتالہم احملوا على القوم مروج الذہب ج 2 ص 405_ 4_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج 4 ص 136 ، منقول از كشف الغمہ 5_ مروج الذہب ج 2 ص 406 6_ نہج البلاغہ كلمات قصار 323 7_مروج الذہب ج 2 ص 407 و الامامة والسياسة ج 1 /128 8_ نہج البلاغہ خطبہ 93 9_ غلات اور غاليہ على (ع) كے عقيدت مندوں كا وہ گروہ تھا جس نے آپ(ع) كے بارے ميں اس قدر مبالغے سے كام ليا كہ دائرہ مخلوق سے نكال كر الوہيت كے سراپردے تك لے آيا ملل و نحل شہرستانى ج 1 ص 237 10_ ہلك فيّ رجلان محب غال و مبغض قال، نہج البلاغہ كلمات قصار 117 11_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 5_ 12_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 7 13_ الامامة و السياسة ج 1 128 ، تاريخ طبرى ج 895، كامل ابن اثير ج 3 ص 349 ، طبرى لكھتے ہے كہ حضرت على (ع) سے يہ گفتگو اشعث نے كى تھي_ 14_ الامامة و السياسة ج 1 ص 129 15_ ان ميں سے كچھ نے بيمارى كا بہانہ بنايا اور خود كو بيمار ظاہر كيا حالانكہ وہ بيمار نہ تھے بلكہ وہ جنگ سے فرار چاہتے تھے_ 16_ كامل ابن اثير ج 3493 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 90 ، الامامة و السياسة ، ج 1 ، ص 129، غارات ج 1 ص 35_ 17_ الامامة و السياسة ج 1 ص 47 18_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 179 |
19_ مصر كى فرمان دارى پر مامور ہونے سے قبل حضرت مالك اشتر موصل ،نصيبين، داراسنجار ، آمد، ہيت اور عانات كے والى رہ چكے تھے شرح نہج البلاغہ ناصر مكارم ج 3 ص 455 20_ نصيبين آباد جزيرہ كاشہر اوور شام ميں موصل كے مقام پرہے معجم البلدان 5 ج /288 21_ اس بارے ميں اختلاف ہے كہ حضرت مالك اشتر كو محمد بن ابى بكر كى شہادت سے قبل صوبہ دار مقرر كيا گيا يا اس واقعے كے بعد مورخين كے نزديك يہى قول مشہور و معتبر ہے اس كے علاوہ نہج البلاغہ كا مكتوب 34 جو محمد بن ابى بكركو لكھا گيا تھے اور اس بتايا تھا كہ ان كا تبادلہ كس وجہ سے عمل ميں آيا ہے اس امر كى تائيد كرتا ہے ليكن علامہ مفيد ( مرحوم) نے اپنى كتاب امالى ميں دوسرے قول كو قابل قبول قرار ديا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج 1 ص 257 حاشيہ 22_ الغارات ج 1 258 شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 /74 23_ يہ مصر كے راستے ميں ايك بستى تھى يہاں سے مصر كا فاصلہ تين دن كا تھا معجم البلدان ج 4 ص 388 24_ الغارات نامى كتاب كے مصنف نے اس كا نام '' خراخر'' لكھا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج 1 ص 259 25_ الغارات ج 1 ص 264_ 259 26_ مالك و ما مالك و اللہ لو كان جبلا لو كان فندا ولو كان حجرا لكان صلدا لايرتقيہ الحافر و لايوقى عليہ الطائر ( نہج البلاغہ _ كلمات قصار 443، الغارات ج 1 ص 265 ) الغارات كے مصنف نے يہ واقعہ قدرے مختلف طور پر بيان كيا ہے_ 27_ كانت لعلى بن ابى طالب يدان يمينان فقطعت احداہما يوم صفين يعنى عمار و قطعت الاخرى اليوم و ہو مالك اشتر الغارت ج 1 ص 264، كامل ابن اثيرج3 ص 353 28_ شرح نہج ا لبلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 81 29_ الغارات ج 1 ص 280 276، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 85_82، كامل ابن اثير ج 3 ص 356 30_ عمروعاص كى ماں كا نام تھا 31_ يہ جگہ كوفہ كے باہر خيرہ و كوفہ كے درميان وقع ہے_ 32_ نہج البلاغہ ج 180، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 90، و لغارات ج 1 ص 290 |
33_ الغارات ج 1 ص 294_ 292و 7 شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 /91 34_ كوئي ذى روح اللہ كے اذن كے بغير نہيں مرسكتا موت كا وقت تو لكھا ہوا ہے( آل عمران آيہ 145) 35_ الغارات ج 1 ص 282، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6/ 86، كامل ابن اثير ج 3 ص 357 36_ الغارات ج 1 ص 282، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 2 ص 86، كامل ابن اثير ج 3 ص 357 37_ مروج الذہب ج 2/ 409 38_ الغارات ج 1 ص 297 39_ نہج البلاغہ مكتوب 35 ، الغارات ج 1/ 298 |