اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

315

دو سپاہ كے درميان جنگ و نبرد

حضرت على (ع) نے اگر چہ صلح كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس كے باوجود ان ميں سے چار ہزار سے زيادہ خوارج باقى رہ ہى گئے_ وہ عبداللہ بن وہب كے زير فرمان اب بھى اپنے پر انے عقيدے پر پورى طرح قائم تھے اور الرواح الرواح الى الجنة(بڑھو جنت كى طرف) كے نعرے لگاتے ہوئے حضرت على (ع) كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے(1)

حضرت على (ع) نے بھى اپنى سپاہ كى صفين آراستہ كيں چنانچہ ميمنہ پر حجر بن عدى اور ميسرہ پر شبث بن ربعى كو متعين كيا_ سوار فوج كى فرماندارى ابو ايوب انصارى اور پيادہ لشكر كى ابوقتادہ كے سپرد كى قيس بن سعد كو مدينہ كے لوگوں كا سردار مقرر كيا ان كى تعداد بھى تقريبا آٹھ سوار افراد پر مشتمل تھى قلب لشكر ميں آپ بذات خود موجود رہے(2)

تيراندازى خوارج كى جانب سے شروع ہوئي چنانچہ جب ايك شخص كو خون آلود حالت ميں آپ(ع) كے سامنے لايا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا كہ حملہ كرو كيونكہ اب اس گروہ كا قتل كرنا ہمارے لئے جائز ہے_(3)

دونوں لشكر ايك دوسرے پر حملے آور ہوئے شروع ميں اگر چہ لشكر اسلام كے سوار فوج، دشمن كے سنگين حملے كے باعث اپنے مقام سے پيچھے ہٹ گئے اور پورى صف لشكر سے الگ ہوگئے خوارج اس پر تير كى تيزى سے حملے آور ہوئے وہ قلب لشكر پر حملہ كرنے كے ارادے سے آگے بڑھے ہى تھے كہ يكايك جنگ كا نقشہ ہى بدل گيا تير اندازوں كے اس دستے كو جو پہلے سے ہى اس مقام كى پشت پر متعين تھا جہاں سوار فوج كى جگہ مقرر كى گئي تھى انہيں اپنے تيروں كانشانہ بنايا اور اپنى طرف سے غافل و بے خبر پا كر ان پرحملہ كرديا يہ حملہ ايسا اچانك اور سخت تھا كہ ان كے لئے

 

316

نہ آگے بڑھنا ممكن تھا اور نہ پيچھے ہٹنے كے لئے كوئي چارہ تھا خوارج كا خيال تھا كہ سوراوں كے لشكر نے ان كى طرح سے پشت كرلى ہے ليكن اس نے دائيں اور بائيں بازو كے پرے ساتھ لے كر انھيں اپنے درميان زنبور كى طرف نرغے ميں لے ليا اور دم شمشير و سرنيزے سے ان كى خوب خاطر و تواضع كى _ قلب لشكر اسلام كے درميان محاذ پر متعين دستے كو چونكہ ابھى تك كوئي نقصان نہيں پہنچا تھا وہ بھى ان كى سركوبى كرنے كى غرض سے حملہ آور ہوا سپاہ دشمن كے فرماندار عبداللہ بن وہب كے علاوہ ذوالثديہ ، اخنس طائي ، مالك بن وضَّاح و غيرہ جيسے ديگر فرماندار لشكر، حضرت على (ع) كى شمشير كے باعث ہلاك ہوئے(4)

خوارج چونكہ سخت نرغے ميں آگئے تھے اسى لئے وہ اس ميں برى طرح پھنس گئے اور دو گھنٹے بھى نہيں گذر نے پائے تھے كہ وہ زمين پر اس طرح گرنے لگے جيسے خزاں كے دونوں ميں درختوں سے پتے گرتے ہيں گويا يہ بھى كوئي كن فيكون كى طرح تكوينى حكم تھاجس كے تحت ان سے كہا گيا كہ مرجاؤ اور وہ مرگئے چار ہزار افراد ميں سے صرف نوشخص يعنى شہدائے اسلام كى تعداد كے برابر اپنى جان بچا كر بھاگ گئے اور اس طرح امير المومنين حضرت على (ع) كى پيشيں گوئي صحيح ثابت ہوئي_

جنگ كے بعد

جنگ ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) نے حكم ديا كہ '' ذوالثديہ''كى تلاش و جستجو كريں(رسول خدا(ص) نے جنگ نہروان ميں مقتولين كى جو خصوصيات بتائيں تھيں وہ اس شخص ميں موجود تھيں حضرت على (ع) نے اس كى جستجو اس لئے كرائي تھى كہ حق كى روشن دليل اور تائيد اميرالمومنين حضرت على (ع) واضح ہوجائے)

سپاہى اس كى لاش تلاش كرنے كے لئے نكلے مگر ناكام واپس آگئے اس كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) خود اس كى لاش نكالنے كے لئے تشريف لے گئے كچھ دير بعد اس كى لاش ديگر مقتولين

 

317

كى لاشوں كے نيچے سے نكل آئي اسے ديكھ كر آپ مسرور ہوئے اور فرمايا اللہ اكبر ميں نے پيغمبر(ص) كى كوئي بات كبھى غلط نہ پائي رسول خدا(ص) نے فرمايا تھا كہ اس كاايك ہاتھ چھوٹا ہوگا جس ميں ہڈى نہ ہوگى اس كے ايك طرف پستان جيساگوشت كا گولہ ابھرا ہوا ہوگا جس پر پانچ ياسات بال اگے ہوئے ہوں گے جس وقت اميرالمومنين حضرت على (ع) نے يہ تمام خصوصيات ديكھيں تو آپ فورا سجدے ميں تشريف لے گئے اور خدا كا شكر بجالائے_(5)

اس كے بعد آپ(ع) گھوڑے پر سوار ہوئے اور مقولين كى لاشوں كے پاس سے گذرے اور فرمايا افسوس تمہارے اور اس كے حال پر جس نے تمہيں مغرور كيااور اس حال كو پہنچا ديا _دريافت كيا گيا كہ كس شخص نے انھيں مغرور كيا؟ آپ(ع) نے فرمايا شيطان اور نفس امارہ انھيں غرور كى جانب لے گيا آرزوں نے انھيں فريب ديئے نا فرمانياں انھيں حسين و جميل نظر آئيں اور فتح و نصرت كے وعدے نے انھيں اپنا فريفتہ كرليا_(6)

حضرت على (ع) نے وہ ہتھيار اور چوپائے جو ميدان جنگ ميں بطور مال غنيمت ہاتھ آئے تھے سپاہ كے درميان تقسيم كرديئے خوارج كے باقى سامان، ان كے كنيز و غلام و غيرہ كو كوفہ واپس آنے كے بعد ان كے وارثوں كے حوالے كرديا_(7)

اصل دشمن كى جانب توجہ

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے خوارج كى سركوبى كے بعد جد وجہد كے اصل محاذ اور اسلام كے دفاع كى جانب رخ كيا اس جد و جہد كى خصوصيت و اہميت بتانے، معاويہ كے خلاف جہاد مقدس كى لشكر اسلام كو ترغيب دلانے اور عوام كو معاويہ كى حكومت كے عواقب و انجام سے باخبر كرنے كى غرض سے آپ(ع) نے تقرير كى اور فرمايا كہ اے لوگو جب فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل چكى تھيں اور اس كابحران اپنے انتہائي درجہ كو پہنچ چكا تھا اس وقت كسى ميں اتنى جرات و ہمت نہ تھى كہ ميدان كار زار ميں داخل ہو اس وقت ميں ہى ايسا شخص تھا جس نے اس فتنے كو خاموش كرديا ...

 

318

ياد ركھو فتنوں ميں سب سے زيادہ بھيانك خطرہ بنى اميہ كے فتنے كا ہے يہ فتنہ سياہى اور اندھيرے كا فتنہ ہے اور جب اس كا سايہ پھيل جائے گا تو اس كى بلا خاص طور پر نيك لوگوں پر نازل ہوگي ... ان كے اذيت ناك مظالم تم پر سالہا سال تك جارى رہيں گے ان پر تمہارافاتح ہونا اتنا ہى اہم ہے جتنا غلاموں كا اپنے مالك پر غالب آنا يا پيروكاروں كا اپنے پيشوا پر غلبہ حاصل كر لينا ... اس وقت قريش يہ چاہيں گے ان كے پاس جو كچھ اس دنيا ميں ہے اسے خرچ كركے بس ايك بار اسے ديكھ ليں اگر چہ وقت چند ہے لمحات پر منحصر ہے بس اتنا ہے جتنا ايك اونٹ كو نحر كرنے ميں صرف ہوتا ہے آج وہ چيز جس كا صرف ايك حصہ ميں ان سے مانگ رہاہوں اور وہ نہ دينے پر بضد ہيں كل اسے مجھے دينے كے لئے اصرار كريں گے اور يہ چاہيں گے كہ ميں اسے قبول كرلوں_

غاليوں كاوجود(8)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنى حقانيت ثابت كرنے، خواب غفلت ميں سوئے ہوئے لوگوں بالخصوص خوارج كو جگانے اور چند ديگر مصلحتوں كى بنا پر بہت سے غيبى مسائل كى پشين گوئي كرنا شروع كردى ليكن كچھ كم ظرف لوگوں نے آپ كے بارے ميں مبالغے سے كام ليا وہ خوارج كے عين مقابل آگئے اور چونكہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى غير معمولى عقل و نظر اور دانش و بينش سے وہ حيرت زدہ و مرغوب تھے اسى لئے وہ آپ(ع) كو حد انسانيت اور مخلوقيت سے بالاتر سمجھنے لگے اور آپ(ع) كى الوہيت كے قائل ہوگئے_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كے نظريے كے مطابق دونوں ہى گروہ ہلاك و بدبختى سے دوچار ہوئے چنانچہ اس سلسلے ميں آپ(ع) خود فرماتے ہيں كہ ميرے معاملے ميں دو شخص ہلاك ہوئے ايك وہ جس نے مبالغہ كيا اور دوسرا ميرا بدخواہ دشمن(9)

ايك روز اميرالمومنين حضرت على (ع) تقرير فرمارہے تھے سا معين ميں سے ايك شخص جو آپ(ع) كا والہ و شيدائي تھا اپنى جگہ سے اٹھا ا ور كنہے لگا انت ، انت آپ (ع)نے فرمايا

 

319

افسوس تيرے حال پر ميں كيا ہوں ؟ اس نے كہا انت اللہ يہ سن كر اميرالمومنين حضرت على (ع) نے حكم ديا كہ اس كے ہم عقيدہ ساتھيوں كو گرفتار كرليا جائے(10)

غلات جو غيب كى باتيں اميرالمومنين حضرت على (ع) سے سنتے تھے انھيں لوگوں ميں مشہور كرديتے اور كہتے كہ ايسے كاموں كا كرنا خدا كے علاوہ كسى كے بس كى بات نہيں اسى بنا پر على (ع) يا تو خدا ہيں يا كوئي ايسى شخصيت ہے جس كے وجود ميں ذات خداوندى حلول كرگئي ہے(11)

جنگ نہروان كے نتائج و عواقب

جنگ نہروان كا خاتمہ اگرچہ خوارج كى سركوبى پر ہوا ليكن اس كے جو نتائج پر آمد ہوئے وہ نہايت مضر اور اندوہناك ثابت ہوئے جن ميں سے بعض كا ذكر ذيل ميں كيا جاتا ہے_

1_ اس جنگ ميں مقتولين كى تعداد چونكہ بہت زيادہ تھى اس لئے سپاہ عراق كے دلوں پر بہت زيادہ خوف و ہراس غالب آگيا اور باہمى اختلاف كى بنا پر وہ دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے اس كے علاوہ وہ لوگ جن كے عزيز و اقربا اس جنگ ميں مارے گئے تھے وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) سے سخت بدگمان ہوگئے_

2_ لشكر اسلام ميں سركشى اور نافرمانى كاجذبہ بہت زيادہ بڑھ گيا چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ سپاہ يہ بہانہ بنا كر كہ جنگ كى كوفت دور كر رہے ہيں حضرت على (ع) كے فرمان بجالانے ميں سستى اور كاہلى سے كام لينے لگے بالخصوص اس وقت جب كہ وہ جنگ سے واپس آكر اپنے خاندان كى گرم آغوش ميں پہنچے اور اہل خاندان كے چہروں پر غم و اندوہ كے آثار ديكھے يہ عامل نيز اس كے ساتھ ہى ديگر عوامل اس امر كا باعث ہوئے كہ انہوں نے ہميشہ كيلئے جنگ كا ارادہ ترك كرديا اور معاويہ كے ساتھ آشتى كرنے كو ان كے ساتھ جنگ كرنے پر ترجيح دينے لگے_

مورخين نے لكھا ہے كہ جب جنگ نہروان ختم ہوگئي تو اميرالمومنين حضرت على (ع) اپنى سپاہ كے سامنے كھڑے ہوئے اور فرمايا: كہ خداوندتعالى نے تمہيں آزمايا اور تم اس كے امتحان ميں پورے

 

320

اترے اسى لئے اس نے تمہارى مدد كى اب تم جلدى سے معاويہ اور اس كے ظالم و ستمگر ساتھيوں سے جنگ كرنے كے لئے روانہ ہوجاؤ انہوں نے كلام اللہ كو پس پشت ڈال ديا ہے اور نہايت معمولى قيمت پر دشمن سے ساز باز كرلى ہے يہ سن كر ساتھيوں نے كہا كہ اميرالمومنين(ع) ہمارى طاقت اب جواب دے چكى ہے ہمارے زرہ بكتر پارہ پارہ ہوچكے ہيں تلواريں ٹو ٹ چكى ہيں اور نيزوں كى نوكوں ميں خم آگئے ہيں ہميں وطن جانے كى اجازت ديجئے تا كہ وہاں ہم اپنا اسلحہ تيار كر سكيں وہاں رہ كر كچھ وقت خوشى و خرمى ميں بسر كريں اور اپنے ساتھيوں كى تعداد ميں اضافہ كريں ايسى صورت ميںہم دشمن كا بہتر طور پر مقابلہ كرسكيں گے(12)

اميرالمومنين حضرت على (ع) جانتے تھے كہ واپس جانے كا كيا انجام ہوگا ليكن جب آپ(ع) نے اكثريت كو اس نفاق انگيز نظريے كى جانب مائل ديكھا تو مجبورا ًان كے سات اتفاق كيا اور نخيلہ كى جانب واپس آگئے يہاں آپ(ع) نے(سپاہ كو تاكيد كردى كہ وہ اپنى لشكر گاہ(چھاؤني) كو چھوڑ كرنہ جائيں اہل و عيال كى جانب كم توجہ ديں اللہ كے جہاد كيلئے تيارى كرتے رہيں سپاہ ميں سے چند ہى لوگ ايسے تھے جنہوں نے حضرت على (ع) كى ہدايات پر عمل كيا چنانچہ چند روز تك يہاں قيام كرنے كے بعد آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں كى جانب واپس جانے لگے جہاں انہوں نے آرام كى زندگى بسر كرنا شروع كردي_(13)

جہادكى دعوت

جب حضرت على (ع) كوفہ واپس تشريف لے آئے تو آپ(ع) كوشش كرنے لگے كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو معاويہ سے جہاد كرنے كى ترغيب دلائيں ايك موقعے پر تقرير كرتے ہوئے آپ(ع) نے فرمايا كہ اے لوگو اس دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ جس كے ساتھ جنگ كرنا خداوند تعالى كى قربت كا سبب ہے وہ لوگ جو امر حق سے روگرداں ہوچكے ہيںكلام اللہ سے دور ہيں اور دين كے كاموں ميں پيچھے رہ گئے ہيں درحقيقت اندھيرے اور گمراہى ميں ڈوبے

 

321

ہوئے ہيں ان كے خلاف تم جتنے سپاہى اور گھوڑے فراہم كرسكتے ہو مہيا كر لو اور خداوند تعالى پر بھروسہ كرو_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كى تقرير كا لوگوں پر ذرا بھى اثر نہ ہوا اور جنگ پر جانے كے لئے انہوں نے كوئي آمادگى ظاہر نہيں كى حضرت على (ع) نے انھيں چند دنوں كے لئے ان كے حال پر چھوڑديا اس عر صے ميں آپ(ع) نے سرداران قوم كو دعوت دى اور ان كا نظريہ جاننا چاہا بعض نے عذر و بہانہ بنايا(14) كچھ نے رضايت كا اظہار كيا مگر چند لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے اس دعوت كو قبول كيا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) دوبارہ عوام كے اجتماع ميں كھڑے ہوئے اور فرمايا كہ اے اللہ كے بندو ميں جب بھى حكم ديتاہوں آخر تم كيوں زمين سے چپك پر بيٹھ جاتے ہو كيا آخرت كى زندگى كے مقابلے اس چند روزہ دنيا كى خوشيوں پر فريفتہ ہو گئے ہو؟ عزت كى بجائے تم نے ذلت و خوارى كو اختيار كر ليا ہے آخر كيا وجہ ہے كہ ميں تمہيں جب بھى جہاد كى دعوت ديتاہوں تم آنكھيں پھيرنے لگتے ہو؟ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تم موت كے كنارے آپہنچے ہو يا تمہارے دل سراسيمہ و پريشان ہيں جو سمجھ نہيں سكتے آنكھيں بند ہيں جو ديكھ نہيں سكتيں شاباش تم پر اور تمہارى دليرى پر فرصت كے لمحات ميں تم گويا جنگل كے شير ہو اور جب تمہيں جنگ كيلئے دعوت دى جائے تو لومڑيوں كى طرح فرار كرنے لگتے ہو اب مجھے تم پر اعتماد نہيں رہا(15)

حضرت مالك كا صوبہ دا مصر كى حيثيت سے تقرر

مالك اشتر ايك بااثر و رسوخ سردار اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے محكم و طاقتور فرماندار نيز آپ(ع) كے سچے حامى و طرفدار تھے عثمان كے قتل كے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كي'' بيعت كرتے وقت بہت ہى پريشانى كے عالم ميں كہا تھا كہ ''كيا ان تين افراد كے بعد بھى آپ(ع) زمام حكومت سنبھالنے كيلئے تيار

 

322

نہيں(61)

اس كے اگلے دن مسجد ميں لوگوں كے درميان جو حضرت على (ع) كے دست مبارك پر بيعت كرنے آئے تھے انہوں نے كہا تھا كہ يہ پيغمبروں(ص) كے وصى اور علم انبياء كے وارث اور وہ بزرگ ہستى ہيں جو سخت آزمايشوں سے گذرے ہيں كلام اللہ اور رسول خدا(ص) نے آپ كے رضوان بہشت ہونے كى شہادت دى ہے آپ وہ شخص ہيں جو فضائل كے اعتبار سے كمال كى منزلت پر پہنچ چكے ہيں آپ كى نيك طينتى اور دانشمندى كے بارے ميں ان لوگوں كو بھى شك نہ تھا جو اس دنيا سے گذر چكے ہيں اور جو آئندہ آئيں گے وہ بھى اس پر يقين كريں گے آپ لوگ اٹھيے اورآپ كے دست مبارك پر بيعت كيجئے(17)

اس كے بعد وہ ہرجگہ اور ہر مرحلے پر اپنى لاثانى اور بے نظير بہادرى كے باعث ہميشہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے دوش بدوش رہے ان كے اثر و رسوخ اور سياسى تدبر كااندازہ اس فرمان سے لگايا جاسكتا ہے جو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كے نام حكومت مصر تفويض كرتے وقت جارى كيا تھا اس كے علاوہ وہ خطوط جو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كے نام تحرير فرمائے تھے نيز وہ مراكز جن كى فرمانروائي انہوں نے قبول كى تھى ان كے حسن تدبر و معاملہ فہمى كے آئينہ دار ہيں(18)

جنگ صفين اور واقعہ حكميت كے بعد سپاہ عراق ميں بتدريج كمزورى اور پراگندگى كے باعث لوگوں كے درميان بالخصوص دارالخلافت سے دور و دراز كے علاقوں ميں استقامت و پايدارى كاوہ جذبہ جس سے خوشى و نشاط ہوتى ہے نيز معاويہ سے جنگ كرنے كاجوش و خروش آہستہ آہستہ سرد ہونے لگا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كو اطلاع ملى كہ معاويہ كاحامى و طرف دار معاويہ بن خديج نامى ايك شخص مصر ميں عثمان كے خون كابدلہ لينے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ہے اس نے وہاں كے امن و امان كو درہم برہم ، صوبہ دار محمد بن ابى بكر كى حيثيت و منزلت كو متزلزل اور وہاں كے لوگوں كا زندہ رہنا

 

323

سخت دشوار كر ركھا ہے اميرالمومنين حضرت على (ع) نے فيصلہ كيا كہ صوبہ دار كا تبادلہ كرديا جائے مالك اشتر چونكہ نصبين (19)ميں مامور تھے اس لئے جنگ صفين كے بعد وہ واپس وہيں چلے گئے تھے حضرت على (ع) نے انھيں بلايا اور مصر سے متعلق مسائل كے بارے ميں انھيں سمجھا كر محمد بن ابى بكر كا جانشين مقرر كرديا(20) اس ضمن ميں فرمايا كہ تمہارے علاوہ اس جگہ كيلئے كوئي اور اہل و شايستہ نہيں اس لئے اس طرف روانہ ہوجاؤ(21) اس كے ساتھ ہى آپ (ع) نے وہاں كے لوگوں كے لئے مراسلہ روانہ كيا جس ميں آپ (ع) نے مرقوم فرمايا كہ بندہ خدا على اميرالمومنين(ع) كى جانب سے مسلمانان مصر كو معلوم ہو كہ جب لوگوں نے خطہ ارض پر حكم خدا سے روگردانى كى تو انہوں نے اس كے غضب كو دعوت دى ... ميں ايك ايسے بندہ خدا كو تمہارى طرف روانہ كر رہا ہوں جو خوف و ہراس كے دنوں ميں چين كى نيند نہيں سوتا سخت و بحرانى وقت ميں وہ دشمن سے خوفزدہ نہيں ہوتا اور وہ بد كار لوگوں كے لئے آگ سے زيادہ سوزناك ہے اس كا نام مالك بن حارث ہے_

حضرت مالك كى شہادت

مالك مصر جانے كيلئے تيار ہوگئے كوفہ ميں مقيم معاويہ كے جاسوسوں نے اس واقعے كى اطلاع اسے دے دى معاويہ جانتا تھا كہ اگر مالك مصر پہنچ گئے تو وہ اس پر قبضہ كرنے ميں ہرگز كامياب نہ ہوسكے گا چنانچہ اس نے خفيہ طور پر علاقہ ''قلزم''(22) كے تحصيلداركے نام فرمان جارى كيا كہ جس طرح بھى ممكن ہوسكے مالك كو مصر پہنچنے سے قبل ہى قتل كردے اور اس سے يہ وعدہ كيا كہ اگر وہ اس مقصد ميں كامياب ہوگيا تو تا دم حيات اس علاقے كى مالگذارى اسے عطا كرے گا_

اس پر فريب فرمان كے جارى كرنے كے بعد اس نے دعاگوئي كے لئے ايك جلسہ طلب كيا تا كہ حاضرين جلسہ مالك كى تباہى كے لئے دعا كريں كہ اگر كہيں اس كا يہ حربہ كامياب ہو گا تو وہ لوگوں كو يہ كہہ كر خوش فہمى ميں مبتلا كر سكے كہ ان كى موت تمہارى دعاؤں كے اثر سے واقع ہوئي ہے_

 

324

حضرت مالك جب قلزم پہنچے وہ ايك شخص (23) جو ان كى ہلاكت كے لئے مامور كيا گيا تھا ان كے پاس آيا اورانھيں اپنے گھر آنے كى دعوت دى حضرت مالك نے اس كى دعوت قبول كرلى ميزبان نے اميرالمومنين حضرت على (ع) اور آپ(ع) كى حكومت كى تعريف كے ايسے پل باندھے كہ مالك كو اس پر اعتماد ہوگيا اس نے دسترخوان بچھايا اور شہد كا شربت جس ميں مہلك زہر يلا ہوا تھا سامنے لاكر ركھ ديا مالك نے اسے پيا اورتھوڑى دير بعد ہى وہيں شہيد ہوگئے(24) اس شہادت كے باعث اميرالمومنين حضرت على (ع) كو سخت رنج ہوا اور معاويہ بہت خوش و خرم دونوں حضرات نے جو باتيں ان كے بارے ميں كہيں ان سے اندازہ ہوتا ہے كہ يہ ايك عظيم سانحہ تھا_

قبيلہ ''نخع'' كے چند سردار پرسہ دينے كے لئے حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے انہوں نے آپ(ع) كى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كياہے'' آپ (ع) مالك كى شہادت سے سخت مضطرب خاطر تھے اس موقعے پر آپ نے فرمايا كہ اس شہادت كااجر خدا ہى دے _مالك كى كيا تعريف كروں خدا كى قسم اگر اسے پہاڑ سے بھى تراشا گيا ہوتا تو وہ يكتا و ممتاز زمانہ ہوتا اگر وہ پتھر كا بھى انسان ہوتا تو ايسا ہى محكم اور ارادے كا مضبوط ہوتاكوئي سوارى اس كے كہسار وجود سے بالاتر نہ ہو سكتى كوئي پرندہ اس كى عظمت كے اوج بلندى سے نہيں گذرسكتا(25)

معاويہ تو حضرت مالك كا جانى دشمن تھا جب اس نے يہ خبر سنى كہ وہ شہيد ہوگئے ہيں تو اس نے كہا كہ على (ع) كے دو ہاتھ تھے ان ميں سے ايك تو جنگ صفين ميں قطع ہوگيا وہ تھا عمار اور دوسرا ہاتھ مالك اشتر تھا جو آج شہيد ہوگيا(26)

مصر پر لشكر كشي

معاويہ كو جب يہ معلوم ہوا كہ عراق كى سپاہ نے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے حكم سے روگردانى كى ہے اور آرام طلبى و تن پرورى كو اس نے اپنا شعار بناليا ہے تو اس نے عمر و عاص ، ضحاك بن

 

325

قيس ، بسر بن ارطاة اور ابوالاعور سلمى جيسے مشاورين كو اپنے پاس بلايا اور ان كے ساتھ مشورہ كيا اتفاق اس بات پر ہوا كہ وہ علاقے جو حضرت على (ع) كى قلمرو حكومت ميں شامل ہيں حملہ كركے ان پر قبضہ كرليا جائے_

اس وقت مصر چونكہ خاص اہميت كا حامل تھا(جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ منطقہ عراق كے مقابلے شام سے نزديك تر ہے اور وہاں كے اكثر و بيشتر لوگ عثمان كے مخالف تھے اس لئے بھى معاويہ كو اس منطقہ كى طرف سے تشويق لا حق رہتى تھى اس كے علاوہ مصر پر قبضہ ہوجانے كے بعد محصول كى آمدنى ميں اضافہ ہوسكتا تھا اور وہاں كى انسانى طاقت كو حضرت على (ع) كے خلاف استعمال كياجاسكتاتھا) اسى لئے اس نے يہ خاكہ تيار كياكہ عثمان كے طرفداران عناصر كو جو مصر ميں ہيں بروئے كار لائيں اور لشكر كشى كا آغاز وہاں سے كياجائے اس سے قبل كہ وہ اس طرف اپنے فوجى طاقت روانہ كريں انہوں نے ''معاويہ بن خديج'' اور '' مسلمہ بن مخلد'' جيسے اپنے ہوا خواہوں كو خط لكھا اور اس ميں اس بات كا تذكرہ كيا كہ كثير تعداد ميں ميرى سپاہ جلد ہى تمہارى مدد كے لئے پہنچ جائے گي(27)

اس كے بعداس نے تقريبا چھ ہزار سپاہى عمر و عاص كى زير فرماندارى روانہ كئے اس كى چونكہ ديرينہ آرزو تھى كہ اس منطقہ پر حكمرانى كرے اسى لئے اس طرف روانہ ہوگيا عثمان كے طرفدار بھى بصرہ سے چل كر اس كے ہمراہ ہوگئے_

اس سے قبل كہ شہر ميں داخل ہوں عمر وعاص نے محمد بن ابى بكر كو خط لكھا جس ميں انہيں يہ تنبيہ كى كہ اس سے پہلے كہ شام كى سپاہ تمہارا سر تن سے جدا كردے تم خودہى اپنے عہدے سے برطرف ہوجاؤ اور بصرہ سے نكل كر كسى بھى طرف چلے جاؤ_

محمد بن ابى بكر نے اپنے خط كے ساتھ عمر و عاص كامراسلہ اور معاويہ كا عريضہ حضرت على (ع) كى خدمت ميں روانہ كرديا اور آپ سے مدد كے طالب و خواستگار ہوئے_

حضرت على (ع) نے محمد بن ابى بكر كو جو خط لكھا اس ميں آپ(ع) نے انہيں ہدايت كى تھى كہ

 

326

استقامت اور پايدارى سے كام ليں اور شہر كى حفاظت كے پورے انتظامات كئے جائيں اس كے ساتھ ہى آپ (ع) نے حكم دياكہ كنانہ بن بشر كو چونكہ آزمودہ ، با تجربہ اور جنگجو سردار سپاہ ہيں حملہ آوروں كى جانب روانہ كياجائے اور مصر ميں بھى اپنے لوگوں كو جو بھى سوارى ميسر آسكے اس كے ہمراہ تمہارى طرف روانہ كر رہاہوں(28)

اس كے بعد حضرت على (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ : نابغہ زادہ (29) كثير سپاہ لے كر مصر پر حملہ كرنے كى غرض سے روانہ ہوا ہے محمد بن ابى بكر اور ديگرى مصرى بھائيوں كو تمہارى مدد كى ضرورت ہے جس قدر جلد ممكن ہوسكے ان كى داد و فرياد كو پہونچو كہيں ايسا نہ ہو كہ مصر تمہارے ہاتھ سے نكل جائے اگر يہ ملك تمہارے ہاتھ ميں رہے تو باعث عزت و شرف ہے اور تمہارے دشمنوں كى كمزورى اور ناتوانى كا سبب كل كے لئے يہ ہمارى وعدہ گاہ ہے اور جرعہ كى فوجى چھاوني(30)

حضرت على (ع) دوسروں سے پہلے ہى سپاہ كى لشكر گاہ(چھاؤني) ميں تشريف لے گئے وہاں آپ(ع) نے ظہر كے وقت تك انتظار كيا جو لوگ وہاں پہونچے ان كى تعداد سو سے بھى كم تھى مجبورا كوفہ كى جانب روانہ ہوگئے جب رات ہوئي تو آپ (ع) نے قبائل كے سرداروں كو بلايا اور فرمايا كہ : حمد و تعريف خدا كى قضاء و قدر نے ميرے باعث تمہيں آزمائشے ميں مبتلا كيا لوگو ميں نے جب بھى تمہيں حكم ديا تم نے اس كى اطاعت نہيں كى اور جب بھى ميں نے تمہيں اپنى طرف آنے كى دعوت دى تم نے اسے قبول نہ كيا ... اپنى مدد اور راہ حق ميںجہاد كرنے كے لئے تم كس چيز كے منتظر ہو؟ موت چاھتے ہو يا ذلت و خواري ... كيا تمہارے پاس وہ دين و ايمان نہ رہا جو تمہيں متحد كر سكے كيا اب تم ميں وہ غيرت و حميت باقى نہيں رہى جو تمہيں جہاد كى جانب جانے كے لئے ترغيب دلا سكے ... كيا يہ بات باعث حيرت نہيں كہ معاويہ پست فطرت ، ظالم و جفا كار لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كہے اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں اور صلہ و انعام كى تمنا كئے بغير اس كى اطاعت و پيروى كريں ليكن اس كے برعكس جب ميںتم كو جو اسلام اور ہمت و مردانگى كى يادگار رہ گئے ہو اپنى طرف آنے كى دعوت ديتا ہوں تو ميرى مخالفت كرتے ہو تم مجھے اكيلا نہ چھوڑو اور

 

327

انتشار و پراكندگى سے گريز كرو(31)

حضرت على (ع) كى تقرير نے مالك بن كعب كى غيرت كو للكاراوہ مجمع كے درميان سے اٹھ كھڑے ہوئے كہ جہاد پر جانے كيلئے تيار ہيں حضرت على (ع) نے اپنے خدمتگذار سعد سے كہاكہ لوگوں ميں جاكر منادى كريں اور مالك كے ہمراہ مصر كى جانب روانہ ہوں چنانچہ ايك ماہ گذرجانے كے بعد مالك كے گرد دوہزار افراد جمع ہوگئے تو مصر كى جانب انہوں نے كوچ كياپانچ روز تك سفر كرنے كے بعد حضرت على (ع) كے نمائندے نے يہ اطلاع پہنچائي كہ محمد بن ابى بكر شہيد ہوگئے يہ خبر سن كر مالك حضرت على (ع) كے حكم بموجب واپس كوفہ آگئے(32)

محمد بن ابى بكر كى شہادت

محمد بن ابى بكر كو جب حضرت على (ع) كا خط ملا تو انہوں نے معاويہ اور عمر و عاص كو تند لہجے ميں قطعى جواب ديااس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنى سپاہ كو دعوت دى كہ حملہ آوروں سے جنگ و پيكاركريں جن لشكروں نے نبرد آزمائي كا اعلان كياان كى تعداد تقريبا دو ہزار افراد ہوگئي چنانچہ انھيں كنانہ بن بشر كى زير قيادت و فرماندارى دشمن كى جانب روانہ كيا اور خود بھى دو ہزار افراد كو ساتھ ليكر ان كے پيچھے كوچ كيا پہلے قصبے ميں شام كے پيشگام سپاہ نے پے در پے حملوں كے باعث مصر كى مختصر دفاعى قوت كا قطع قمع كرديا عمر و عاص نے معاويہ بن خديج كو پيغام بھيجا اور اس سے مدد طلب كى تھوڑى ديرنہ گذرى تھى كہ معاويہ بن خديج نے ميدان كارزار كو لشكريوں سے بھرديا_

مصريوں كے مخالف اپنى پورى طاقت كے ساتھ كنانہ كے مقابل جمع ہوگئے انہوں نے جب يہ ديكھا كہ دشمن كے ہر طرف سے سخت دباؤ كے باعث وہ اپنے گھوڑے كو حركت نہيں دے سكتے تو وہ چھلانگ لگا كر زمين پر گركئے ان كے ساتھى بھى انہيں ديكھ كرگھوڑوں سے اتر گئے كنانہ جس وقت دشمن كے سپاہيوں كو برى طرح كچل رہے تھے يہ آيت ان كے زبان پر تھي_

 

328

و ما كان لنفس ان تموت الا باذن اللہ كتبا موجلا(33)

چنانچہ آپ اس قدر دشمن سے بر سر پيكار رہے كہ شہيد ہوگئے_

كنانہ بن بشر كى شہادت كے بعد محمد بن ابى بكر كے اطراف سے فرماندارى كا سلسلہ چونكہ ٹوٹ چكا تھا اس لئے جو سپاہ باقى رہ گئي تھى وہ منتشر اور پراگندہ ہوگئي ناچار انہوں نے بھى ايك ويرانے ميں پناہ لى _مصر كے شورش پسندوں كے رہبر ابن خديج نے انكى تلاش شروع كى اور انہيں اس ويرانے ميں چھپا ہوا پايا اور گرفتار كيا پہلے شمشير سے سر كو تن سے جدا كيا اسكے بعد جسم كو مرے ہوئے گدھے كى كھال ميں بھر كر آگ لگادى (34)

جب محمد بن ابى بكر كے قتل كى خبر معاويہ اور عمر عاص كے پاس ملك شام ميں پہونچى تو انہوں نے انتہائي مسرت اور شادمانى كااظہار كياعبداللہ ابن مسيب كا كہنا ہے كہ جس وقت محمدبن ابى بكر كے قتل كئے جانے كى خبر ملك شام ميں پہنچى تو اس موقع پر جسقدر خوشى اور مسرت كا اظہار كياگيا ايسى خوشى و مسرت و شادمانى ميں نے كبھى نہيں ديكھى تھي(35)

ليكن ان كى شہادت كى خبر جب امير المومنين حضرت على (ع) كو ملى تو آپ نے فرمايا كہ : ان كے قتل كئے جانے كا غم و اندوہ اتناہ ہى ہے جتنا معاويہ كو اس كا سرور _جب سے ميں نے ميدان كارزار ميں قدم ركھا مجھے كسى كے قتل كئے جانے كا اتنا صدمہ نہيںہوا جتنا اس كى وجہ سے ہوا ہے وہ ميرے اپنے گھر ميں پل كر جو ان ہوا اور ميں نے اسے اپنى اولاد كى طرح سمجھا وہ ميرا حقيقى خيرخواہ تھا ايسے شخص كى وفات پر جس قدر رنج و غم كياجائے بجا ہے خدا سے دعا ہے كہ وہى اس كى جزا دے(36)

لوگوں كى تنبيہ و سرزنش

محمد بن ابى بكر كى رقت انگيز شہادت اور لوگوں كى پے در پے تباہ كاريوں كے باعث اميرالمومنين حضرت على (ع) بہت زيادہ آزردہ خاطر ہوئے چنانچہ جب يہ اطلاع ملى كہ عمر و عاص نے

 

329

مصر پر قبضہ كر ليا تو آپ (ع) نے واضح طور پر لوگوں كو سخت سست كہنا شروع كرديا اور فرمايا كہ تم وہ لوگ ہو جوكسى كے خون كا بدلہ لينے ميں ميرى مدد نہيں كر سكتے اگر كوئي گتھى الجھ جائے تم اسے سلجھا نہيں سكتے پچاس دن سے زيادہ ميں تمہارے سامنے داد و فرياد كرتا رہا كہ بھائيو آؤ اور ميرى مدد كرو مگر تم اس اونٹ كى طرح كلبلاتے رہے جو درد شكم كے مارے تڑپ رہا ہو تمہارى حالت اس شخص كى سى ہے جو راہ جہاد ميں تو نكلے مگريہ سوج كر كہ اس كام سے مجھے حاصل كيا ہوگا زمين پكڑے بيٹھے رہے يہاں تك كہ تم ہى ميں سے ايك مختصر سپاہ كى جماعت تھى جنہيں ديكھ كر لگتا تھا كہ خود كو جان بوجھ كر موت كے منہ ميں دھكيل رہے ہيں افسوس تمہارى حالت زار پر(37)

حضرت على (ع) كے رنج و اندوہ كايہ عالم تھا كہ زندگى سے بيزارى اور يہ آرزو كرنے لگے كہ جس قدر جلد ہو سكے موت آجائے تا كہ ان لوگوں كى ہمنشينى كے سخت و سنگين بار سے نجات ملے_

حضرت على (ع) نے حضرت ابن عباس كوجو خط مرقوم فرمايا تھا اس ميں آپ(ع) نے اس احساس كرب كا اظہار اس طرح كيا تھا: مصر كو دشمن نے فتح كر ليا محمد بن ابى بكر شہادت سے ہمكنار ہوئے ... ميں نے لوگوں كو بار بار ان سے ہمدوش ہونے اور ان كى مدد كرنے كى ترغيب دلائي اور كہا اس سے پہلے كہ پانى سرسے گذر جائے تم ان كى داد و فريادكو پہنچو چند لوگ تيار بھى ہوئے مگر بد دلى كے ساتھ كچھ عذر و بہانہ كر كے عليحدہ ہوگئے اور بعض نے تو ان كى مدد كرنے سے قطعى ہاتھ اٹھايا اورگھروں ميں گھس گئے ميں تو خدا سے يہى دعا كر رہا ہوں كہ مجھے ان لوگوں كے چنگل سے نجات دلائے اور ان سے رہائي كى كوئي سبيل نكل آئے_

خدا كى قسم دشمن كے ساتھ جنگ و پيكار كرتے وقت شہادت كى آرزو نہ ہوتى اور ميں نے راہ خدا ميں خود كو مرنے كيلئے آمادہ نہ كر ليا ہوتا تو ميں اس بات كو ترجيح ديتا كہ ايسے لوگوں كا ايك دن بھى منھ نہ ديكھوں اور ان كے پاس سے بھى نہ گذروں(38)

 

330

سوالات

1_ جنگ نہروان كس كى طرف سے شروع ہوئي اس ميں كون فاتح رہا؟

2_ ذوالثديہ كس شخص كا نام تھارسول اكرم(ص) نے اس كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

3_ غلات كون تھے او ر ان كے وجود ميں آنے كى كيا اسباب تھے؟

4_ جنگ نہروان كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

5_ صوبہ دار مصر كو تبديل كرنے كى كيا وجہ تھي؟

6_ مالك اشتر كى كہاں اور كيسے شہادت ہوئي؟

7_ كن محركات كى بنا پر معاويہ نے اسلامى حكومت كے قلمرو پر حملہ كرنامصر سے شروع كيا؟

8_ محمد بن ابى بكر كى شہادت كس شخص كے ہاتھوں اور كس طرح ہوئي؟

 

331

حوالہ جات

1_ الامامة و السياسة ج 1 ص 128 ، كامل بن اثير ج 3 ص 346 ، تاريخ طبرى ج 5ص 86

2_ الامامة و السياسة ج 1 ص 128_

3_ الان حل قتالہم احملوا على القوم مروج الذہب ج 2 ص 405_

4_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج 4 ص 136 ، منقول از كشف الغمہ

5_ مروج الذہب ج 2 ص 406

6_ نہج البلاغہ كلمات قصار 323

7_مروج الذہب ج 2 ص 407 و الامامة والسياسة ج 1 /128

8_ نہج البلاغہ خطبہ 93

9_ غلات اور غاليہ على (ع) كے عقيدت مندوں كا وہ گروہ تھا جس نے آپ(ع) كے بارے ميں اس قدر مبالغے سے كام ليا كہ دائرہ مخلوق سے نكال كر الوہيت كے سراپردے تك لے آيا ملل و نحل شہرستانى ج 1 ص 237

10_ ہلك فيّ رجلان محب غال و مبغض قال، نہج البلاغہ كلمات قصار 117

11_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 5_

12_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 7

13_ الامامة و السياسة ج 1 128 ، تاريخ طبرى ج 895، كامل ابن اثير ج 3 ص 349 ، طبرى لكھتے ہے كہ حضرت على (ع) سے يہ گفتگو اشعث نے كى تھي_

14_ الامامة و السياسة ج 1 ص 129

15_ ان ميں سے كچھ نے بيمارى كا بہانہ بنايا اور خود كو بيمار ظاہر كيا حالانكہ وہ بيمار نہ تھے بلكہ وہ جنگ سے فرار چاہتے تھے_

16_ كامل ابن اثير ج 3493 ، تاريخ طبرى ج 5 ص 90 ، الامامة و السياسة ، ج 1 ، ص 129، غارات ج 1 ص 35_

17_ الامامة و السياسة ج 1 ص 47

18_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 179

 

332

19_ مصر كى فرمان دارى پر مامور ہونے سے قبل حضرت مالك اشتر موصل ،نصيبين، داراسنجار ، آمد، ہيت اور عانات كے والى رہ چكے تھے شرح نہج البلاغہ ناصر مكارم ج 3 ص 455

20_ نصيبين آباد جزيرہ كاشہر اوور شام ميں موصل كے مقام پرہے معجم البلدان 5 ج /288

21_ اس بارے ميں اختلاف ہے كہ حضرت مالك اشتر كو محمد بن ابى بكر كى شہادت سے قبل صوبہ دار مقرر كيا گيا يا اس واقعے كے بعد مورخين كے نزديك يہى قول مشہور و معتبر ہے اس كے علاوہ نہج البلاغہ كا مكتوب 34 جو محمد بن ابى بكركو لكھا گيا تھے اور اس بتايا تھا كہ ان كا تبادلہ كس وجہ سے عمل ميں آيا ہے اس امر كى تائيد كرتا ہے ليكن علامہ مفيد ( مرحوم) نے اپنى كتاب امالى ميں دوسرے قول كو قابل قبول قرار ديا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج 1 ص 257 حاشيہ

22_ الغارات ج 1 258 شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 /74

23_ يہ مصر كے راستے ميں ايك بستى تھى يہاں سے مصر كا فاصلہ تين دن كا تھا معجم البلدان ج 4 ص 388

24_ الغارات نامى كتاب كے مصنف نے اس كا نام '' خراخر'' لكھا ہے ملاحظہ ہو الغارات ج 1 ص 259

25_ الغارات ج 1 ص 264_ 259

26_ مالك و ما مالك و اللہ لو كان جبلا لو كان فندا ولو كان حجرا لكان صلدا لايرتقيہ الحافر و لايوقى عليہ الطائر ( نہج البلاغہ _ كلمات قصار 443، الغارات ج 1 ص 265 ) الغارات كے مصنف نے يہ واقعہ قدرے مختلف طور پر بيان كيا ہے_

27_ كانت لعلى بن ابى طالب يدان يمينان فقطعت احداہما يوم صفين يعنى عمار و قطعت الاخرى اليوم و ہو مالك اشتر الغارت ج 1 ص 264، كامل ابن اثيرج3 ص 353

28_ شرح نہج ا لبلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 81

29_ الغارات ج 1 ص 280 276، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 85_82، كامل ابن اثير ج 3 ص 356

30_ عمروعاص كى ماں كا نام تھا

31_ يہ جگہ كوفہ كے باہر خيرہ و كوفہ كے درميان وقع ہے_

32_ نہج البلاغہ ج 180، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 90، و لغارات ج 1 ص 290

 

333

33_ الغارات ج 1 ص 294_ 292و 7 شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 /91

34_ كوئي ذى روح اللہ كے اذن كے بغير نہيں مرسكتا موت كا وقت تو لكھا ہوا ہے( آل عمران آيہ 145)

35_ الغارات ج 1 ص 282، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6/ 86، كامل ابن اثير ج 3 ص 357

36_ الغارات ج 1 ص 282، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 2 ص 86، كامل ابن اثير ج 3 ص 357

37_ مروج الذہب ج 2/ 409

38_ الغارات ج 1 ص 297

39_ نہج البلاغہ مكتوب 35 ، الغارات ج 1/ 298

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عثمان کی حکومتی پالیسی
مجلس شوری کا تجزیہ
حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سر آغاز
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
تيسرا سبق
پيغمبراسلام (ص) كا دفاع كرنيوالوں كى شجاعت
اہل سنت اور واقعہ غدیر
بئر معونہ کا واقعہ
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
خلفائے راشدین اہلِ سنت کی نظر میں

 
user comment